لداخ کا سماجی و ثقافتی مطالعہ راشید راہگیر لداخی اور عبدلاغنی شیخ کے افسانوی مجموعہ    ’ اندھیرا سویرا ‘او’ر ایک ملک دو کہانی ‘کے حوالے سے

 لداخ ریاست جموں و کشمیر کا تیسرا خطہ ہے۔یہاں کے ننگے پہاڑوں اور بنجر میدانوں میں اپنی دلکشی اور جاذبیت ہے،یہاں ہر طرف اونچے پہاڑ اور لمبے چوڑے میداں نظر آتے ہیں ۔ لداخ میں میلوں تک پیڑ پودے کی بات تو دور گاس کا ایک تنکا بھی اگا نظر نہیں آتا،اور جب میلوں سفر کرنے کے بعد ایک سر سبز وادی نظر آتی ہے،تو آنکھوں میں تازگی محسوس ہونے لگتی ہے۔

 مختلف ادوار میں لداخ کو مختلف ناموں سے پکارا گیا،یہ نام لداخ کے منفرد جعرافیائی، طبعی، اب و ہوا، محل و قوع، اور تمدنی خصوصیات کی دین ہے۔ ان میں سب سے قدیم نام ــ’جنگ جونگ ‘ ہے،جنگ جونگ کا مطلب ovis ammon کا دیس ہے۔ یہ ایک جنگلی بکرا ہے جو اس خطے میں پایا جاتا ہے۔ دوسرا نام جیسے لداخ کو جانے جاتے تھے،وہ ’ مریول‘ ہے۔’مر‘ کا مطلب سرخ، ’یول ‘ کا مطلب دیس،اسطرح ’مر یول‘ کا مطلب سرخ دیس،چونکہ لداخ میں اکثر مقامات پر پہاڑ اور مٹی سرخ ہیں ،اس لئے اس کا نام ’مریول‘ پڑا۔ ایک چینی سیاح نے لداخ کو ’خا چن پا ‘ کہا، جس کا مطلب برفانی ملک ہے۔ اس علاوہ چند ایک نام اور بھی ہیں جو لداخ سے منسوب ہے۔

 لیکن جس نام سے یہ علاقہ مشہور ہے وہ نام ہے ’ لداخ ‘،لداخ تبتی اور لداخی زباں کا لفظ ہے، جس سے مراد ’درے پر بودو باش کرنے والے ‘۔ ’لا ‘ لداخی میں درے کو کہتے ہیں اور ’داقس ‘ سے مراد رہنے والے کے ہیں ،بہر حال لداخ اونچے اونچے دروں کے بیچ میں بساہواہے۔

 یوں تو اس علاقے کی اپنی بولی ہے جسے ’ لداخی ‘ یا ’بلتی‘ زبان کہتے ہیں ۔ان دونوں زبانوں میں گہری مماثلت ہے،اس لئے سبھی ان دو زبانوں کو سمجھتے اور بولتے ہیں ۔چونکی یہ زبان صرف لداخ میں بسنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں ،اس لئے باہر کی دنیا سے رابطے کے لئے اردو زباں استعمال کی جاتی ہے۔یہاں مادری زبان کے بعد اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہیں ،چونکہ لہہ وسط ایشیا کا ایک اہم تجارتی مرکز رہا ہے، اور بہت سارے کشمیری اور پنجابی تاجر بھی لداخ آتے تھے،تو ان کے ساتھ ٹوٹی پھو ٹی ہی سہی اردو میں بات چیت کر لیتے تھے۔

 آزادی کے بعدلداخ میں اردو نے نمایاں ترقی کی،اردو میں کتابیں لکھی گئی اور اردو قارئین کی تعداد بھی بڑ نے لگی۔لداخ میں زبان کے نام پر رسا کشی نہیں ہوئی،یہی وجہ ہے کہ آج لداخ میں ادبی سیاسی اور ثقافتی زندگی پراردو کا اثر ہے۔لداخ میں اردو قارئین کی تعداد حوصلہ افزا ہے،لیکن لکھنے والے بہت کم ہے۔اب تک تین چار نام ہی ایسے ہیں جنھوں نے اردومیں اپنی تصانیف چھوڑی ہیں ۔ان میں کاچو اسفندیار خان،اکبر لداخی مرحوم، عبدالغنی شیخ اور راشد راہگیر لداخی ہیں ۔ان میں ادبی حیثیت سے عبدالغنی شیک اور راشید راہ گیر لداخی کا نام اہمیت کے حامل ہیں ،چونکہ ان کو چھوڑکر کسی نے اب تک ناول اور افسانے نہیں لکھے۔ عبدالغنی شیخ کے اب تک دو ناول اور تین افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ،اور راشید راہگیر لداخی کا ایک ناول اور ایک افسانوی مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔لداخ جموں کشمیر کا ایک خطہ ہو نے کے باوجود یہاں کے موسمی،قدرتی مناظر،پیڑ پودوں ،پیداوار ہی نہیں بلکہ سماجی،ثقافتی،زبانی اعتبار سے بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔اسلئے ایک انگریز سیاح نے لداخ کے بارے میں لکھا ہے کہ’’ہم ایک ایسے ملک میں پہنچے ہیں جو کسی اور سیارے کا حصہ لگتا ہے جس دنیا کو ہم جانتے ہیں اس دنیا سے یہ بلکل الگ ہے۔‘‘

 کوئی بھی ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے،ادیب اس میں وہی پیش کرتا ہے جو وہ معاشرے میں دیکھتا ہے۔کسی بھی تخلیق میں سماجی، ثقافتی،رسم و رواج،طرز زندگی سیاست معاشیت وغیرہ کی عکاسی ملتی ہے۔ادیب اپنے عہد کو اپنے تخلیق میں پیش کرتا ہے۔عبدالغنی شیخ اور راشید راہگیر لداخی نے اپنے افسانوں کے ذریعے لداخ کے سماجی وثقافت،طرز زندگی وغیرہ کو ادبی دنیا میں پیش کیا۔

راشید راہگیر لداخی کا تعلق خطہ لداخ کے کارگل ڈسٹرکٹ سے ہے،عرصے سے سرینگر میں سکونت پزیر ہیں ۔لیکن ان کے افسانوں سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں لداخ کے سماج و ثقافت سے والہانہ محبت ہے کیونکہ ان کے افسانوں میں لداخ کی سماج و ثقافت کی عکاسی ملتی ہے۔ ’افسانہ اندھیرا سویرا ‘رشید راہگیر لداخی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے،جو ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔اس مجموعے میں شامل کہانیوں میں انھوں نے لداخ کے مختلف رسومات و ثقافت کے ساتھ ساتھ یہان کی سماجی مسائل کو بھی پیش کیا ہے افسانہ ’مطلبی ‘ میں افسانہ نگار نے یہاں کے خاص تہوار جس کو’ دوسموچھے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ سال بھر میں ایک بار منایا جاتا ہے،یہ تہوار یہاں کے لوگوں میں خوشیاں لے کر آتا ہے،اس تہوار میں عقیدت مندوں کی بھاری بھیڑ اپنی خوشی کے لئے دیوتائوں پر نذارانے چڑھاتے ہیں اس کا ذکر کیا ہے،اور اس تہوار کے دن کے خاص پہناوے کا بھی ذکر کیا ہے۔جس میں یہاں کی خاص کلچر کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتی ہے، ڈولما اور فونچک جو افسانے کا اہم کردار ہے،اس تہوار کے موقع پر پہنے جانے والی خاص ملبوسات کا ذکر مصنف نے یوں کیا ہے۔

 ’’برف کی باریک سفید چادر سے لہہ وادی ڈھک چکی تھی دو دنون کے بعد ’دوسموچھے ‘کا تہوار دھوم دھام سے منایا جانے والا تھا،تہوار آگیا اور ڈولما خوب سج دھج کر سہلیوں کے ساتھ نکلی۔کوشن کا نیا جھالر بوق اس کی پوشت پر جھول رہا تھا سرخ مخملی نوکیلے کانوں والی اونچی ٹوپی سر پر خوبصورتی سے پہنے وہ سر و پا ایک خوبصورت دلہن بنی فونچک کی کھوج میں دیوانہ وار بڑھتی جا رہی تھی ‘‘۔۶۸

 اس تہوار میں شرکت کرنے کے لئے گائوں گائوں سے مرد عورتوں بچے بوڑھے لہہ شہر میں موجود قلعے کے جانب چلے آتے ہیں ،اور وہاں پہونچ کر اپنی اپنی نشت پر بیٹھ کر لامائوں کے مذہبی تال اور نقاروں کے دھن سے محظوظ ہوتے ہیں اوراس سے اپنے دل کو سکوں محسوس کرتے ہیں ،اور اس سے محظوظ ہونا اپنے گناہوں سے نجات پانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔اس حوالے سے اقتباس

 ’’چند قدم آگے بودھ وہار کے پنڈال میں مذہبی تال میل اور نقاروں کی دھن پر معزز نقاب پوش لامائوں کے پیر ٹھرک رہے تھے،ایک خاص بھیڑ چاروں طرف سے پنڈال کا گھیرا کییہوئے تھے اور عقیدت مندوں کی بھاری بھیڑ زندگی کا انجام جاننے کے بعد عبرت حاصل کر کے گناہوں کی تلافی کیا کرتی ہے،جہاں حاجت مند اپنے دیوتائوں کی خوشنودی کے لئے نذرانے چڑھاتے ہیں ‘‘۔۶۰

 ’کشمکش ‘ایک ایسی کہانی ہے،جس میں لداخ کے باشندوں کی گھٹن زندگی کو موضوع بحث بنایا ہے۔لداخ ایک ایسا علاقہ ہے،جہاں سردیوں کے پانچ چھ مہینوں کے لئے کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ کرنا پڑتا ہے،اور ساتھ ہی ساتھ مال مویشوں کے لئے چارہ،گھاس کے علاوہ سردیوں میں چولہا جلانے کے لئے لکڑی بھی ذخیرہ کرکے رکھنا ہوتا ہے۔اس لئے باقی چھ مہینے اپنے ضروریات کی چیزوں کا ذخیرہ کرنے میں لگے رہتے ہیں ،یہاں قصبوں میں رہنے والے جیسے کارگل اور لہہ یہ دونوں لداخ کے دو بڑے قصبے ہو نے کے ساتھ ساتھ یہاں کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر بھی ہیں ،ظاہر سی بات ہے کہ ہیڈ کواٹر ہونے کی وجہ سے یہاں کے باشندے اپنے مکانوں میں مختلف جہگوں سے آئے ہوئے لوگوں کو کمرے کرایہ پر دیتے ہیں ،اور قصبوں میں رہنے والے چھوٹے موٹے دکان بھی چلاتے ہیں ،اس لئے ان کی اقتصادی حالات گا ئوں سے قدرے بہتر ہوتے ہیں ۔اس لئے یہاں کے لوگ خود پہاڑوں سے یہ اشیاء جمع کرنے کے بجائے اکثر کشمیر سے آئے ہوئے لکڑی اور گھاس وغیرہ خرید لیتے ہیں ۔لیکن گائوں کے باشندے سردی شروع ہونے سے پہلے پہاڑوں سے گھاس اور لکڑی جمع کر کے لایا کرتے ہیں ،تاکہ سردیوں کا موسم آرام سے گذار سکے۔اس حوالے سے افسانے سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

 ’’دو دیہاتی عورتیں جو پھسلن سے بچنے کے لئے درمیانی فاصلہ بڑھائے پیٹھ پر جھاڑ جھنکاڑ لادے برفانی پکڈ نڈی اترتی چلی آرہی تھی۔دونوں کے درمیاں سیاہ رنگ کا سانڈنما یاک بھی جھاڑ جھنکار سے لدا پھندا کمسن دوشیزہ کی رہنمائی میں تھوتھنی اٹھائے چلا آرہا تھا۔دونو ں عورتیں پٹّو کے گرم چغے زین تن کیے نہ صرف زمستان کی ترجمانی کر رہی تھیں بلکہ چغے پر جابجا لگے رنگ برنگے پیوندوں کے باعث پسماندگی اور مفلسی کا نمونہ بھی بنی ہو ئی تھیں ‘‘۔۹۲

 پہاڑ سے لکڑی لانے کے لئے خاص کر یاک کا استعمال کیا جاتا ہے،یاک ایک قسم کا ox ہے،جو دیکھنے میں ڈرائونے قسم کا ہوتا ہے،لیکن اس کے ریش خوبصورت ہوتے ہیں ،اور دنیا کے سرد علاقوں میں پایا جاتا ہے۔لداخ میں اپنے گھروں میں اسے پال کر رکھا جاتا ہے،اور پہاڑ سے لکڑی لانے،کھیت جوتنے،راشن اسٹور سے راشن لانے کے کام میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔یاک کے بال سے یہاں ایک خاص قسم کا چادر تیار کیا جاتا ہے،جس سے لداخی زبان میں (فیار با ) یعنی موٹا کمبل کہا جاتا ہے،اور یہ بہت گرم ہوتا ہے اس لئے اس کمبل کو سردیوں میں اوڑھا جاتا ہے۔لداخ میں غریب لوگ اکثراپنے پہناوے پر پیوند لگا کر پہنتے ہیں ،پہناوے پر پیوند ہونا یہاں غریبی کی علامت ہوتی ہے۔

 افسانہ نگار نے لداخ میں سردیوں کے دوران مکان کی جو صورت ہو تی ہے اس کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہاں کے نمکیں غرغر چائے کا بھی ذکر کیا ہے،نمکین چائے لداخیوں کی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔جس کی ہر لداخی طلب گار رہتے ہیں ،لداخ کے باشندے نمکین چائے کو پانی کے متبادل میں استعمال کرتے ہیں ۔یہاں گھر میں کوئی مہمان ہو یا دور کا مسافر ہو یا افراد

 خانہ ہو،جیسے ہی گھر میں داخل ہیں ،تو ان کے لئے سب سے پہلے نمکین چائے کا انتظام کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں یہ اقتباس

 ’’ کمرے کے سارے جھروکے کڑاکے کی ٹھنڈ کی وجہ کے پیش نظر بند پڑے تھے،دھووئیں کے نکاس کے لئے چولہے کے ٹھیک اوپر چھت میں چمنی کے نام پر ایک بڑا سوراخ موجود تھا جس میں سے کڑوا کسیلا دھواں خود بخود خارج ہوتا جارہاتھا،چولہے کی بڑھتی آنچ کے ساتھ ہی کمرے کی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا،مکھن کی آمیزش والی خوشبودار نمکین غرغر چائے بھی بن کر تیار ہو گئی ‘‘۔۹۶

 عبدالغنی شیخ نے اپنے افسانوں کے ذریعے لداخ کے سماج وثقافت،طرز زندگی وغیرہ کو ادبی دنیا میں پیش کیا۔ان کے افسانوی مجموعے’ ایک ملک دو کہانی‘میں شامل بیشتر افسانے لداخ کے سماج و ثقافت کے بھر پور عکاسی کرتے ہیں ۔لداخ میں ایک گاوں سے دوسرے گاوں کے بیچ کئی کئی میلوں کافاصلہ رہتا ہے اور درمیان میں کوئی گیسٹ ہاوس وغیرہ نہیں رہتا ہے،اسلئے مسافر اندھیرا ہونے تک منزل کی طرف بڑتا رہتا ہے اور جب اندھیرا ہوجائے تو نزدیکی گاوں میں کسی بھی گھر کے در پر بلا جھجک دستک دیتے تھے اور جس در پر بھی پہنچتا ہے اس گھر کے افرادخانہ ایسے مسافر کی ہمیشہ استقبال کرتے ہیں جب کسی کے در پر کوئی دور کا مسافر پہنچتا ہے، تو اس سے کنبہ کا ایک فرداستقبال کیلئے ہا تھ میں ’دیا‘لیے ہوے دروازے تک جاتے ہیں ۔افسانہ’’ ایک را ت ‘‘میں ایک مسافر کے استقبال کا منظر ملاحظہ ہو۔

’’کون ہو ؟

میں ایک پردیسی ہوں ۔ایک رات کیلئے پناہ چاہتا ہوں ۔

ایک جوان مردانہ آواز نے جواب دیا۔تھوڑی دیربعد دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔نیم تاریکی میں دس بارہ سال کے چھوٹے لڑکے نے ٹمٹماتا ’دیا‘ دکھاتے ہوے کہا ’’ پردیسی اندر آیئے۔‘‘

 ایک لداخی کیلے اس کا کچن یا باورچی خانہ غیر معمولی یا اہم ہے۔کچن بڑا ہوتا ہے اور درمیاں میں چولھا ہوتا ہے۔کنبہ کے سارے افراد کچن میں بیٹھتے ہیں ،اور کھانا بھی کچن میں کھاتے ہیں ،گاہے گاہے مہمانوں کی خاطرتواضع بھی کچن میں ہی ہوتی ہے۔افسانہ ’ ایک رات‘ میں کچن کا منظر

’’ کمرے میں الاو ٔ جل رہا تھا۔اس کے گرد ایک خاتون چھ سات سال کا ایک گول مٹول بچہ اور ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی‘‘

 لداخ ایک ٹھنڈ علاقہ ہے،یہاں سال کے بیشتر مہینے سردی کی لپیٹ میں رہتے ہیں ۔گرمی کا موسم لداخ میں مشکل سے ڈھائی یا تین مہینے ہو تے ہیں ،ان دنوں میں بھی رات کو ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہتی ہیں ،اسلئے جب رات میں ایک کمبل کے اوپر رضائی نہ اوڑھے تو نیند آرام سے نہیں آتی ا سلئے یہاں مہمان کو بجاے پانی اور چائے کلچہ کے سب سے پہلے سردی سے راحت پہنچانے کے سامان کا بندوبست کرتے ہوئے پہلے چولھے میں آگ لگاتے ہیں یا اگر پہلے سے آگ لگی ہے تو اس میں مزید لکڑیاں ڈال دی جاتی ہیں ، تاکہ مہمان کو راحت محسوس ہو۔افسانہ’ ایک رات ‘میں شیخ صاحب یوں راقم طراز ہیں ۔

’’ قریب آجاو بیٹا،ٹھیک طرح آگ تاپنا،،عورت بولی بڑے بیٹے سے مخاطب ہوکر کہا،،داوا،،ان کو اوڑھنا،اور لڑکی سے بولی،تم باہر سے سوکھی لکڑیاں لانا،،

؁ٓ عورت جب کھانے کا ذکر کرتی ہے تو مہمان کھانے سے زیادہ آگ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اسطرح جواب دیتے ہیں ۔افسانہ ’ ایک رات‘ اقتباس۔

’’نہیں ماں اتنی بھوک تو نہیں ،نوجوان بولا،اس سردی میں کھانے سے زیادہ آگ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے،آنگمو نے خاموشی سے چولہے پر ہنڈیا چڑھائی‘‘۔

 کچھ لمحہ آگ تاپنے کے بعد مہمان کو آرام مل جاتا ہے، تو مہمان ذرا پیچھے ہٹ جاتا ہے، تب تک چائے کی ہنڈیا جو پہلے سے ہی چولہے پر رکھا ہوا ہوتا ہے،گرم ہو جاتے ہیں ۔ اب مہمان کو چائے وغیرہ پلاتے ہوئے آپس میں گفتگو کا سلسلہ شروع کرنے لگتے ہیں ۔ افسانہ ’’رات‘‘ میں سلسلۂ گفتگو کا منظر اس طرح پیش کیا ہے۔

بیٹاتم نے اپنا نام نہیں بتایا ؟ ماں نے چائے کی منقعش چائے

دانی سے چاندی کی پیالی میں نمکین چائے ڈالتے ہوئے کہا۔‘‘

 افسانہ نگارنے چولہا، چائے کی ہنڈیا، تانبے کی چائے دانی، چاندی کی پیالی، کا ذکر کیا ہے یہی سب لداخ کی ثقافت کا حصہ ہے،لداخ میں نمکین چائے خوردنویش کی ایک جز ہونے کے ساتھ ہی ساتھ یہاں کی سماجی ضرورت بھی ہے۔ کیونکہ لداخ میں تازہ دم ہونے کے لئے پانی کے بجائے نمکین چائے استعمال کیا جاتا ہے۔

 یہاں نمکین چائے بنانے کا طریقہ کشمیر سے قدرے مختلف ہے، پہلے چائے کو خوب ابالا جاتا ہے اور ایک لمبوترے برتن میں پانی ملا کر چائے میں مکھن ڈال کر خوب ہلایا جاتا ہے، جس سے غرغر کی آواز پیدا ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس برتن کوغرغر اور چائے کوغرغر چائے کہلاتی ہے۔ ہر لداخی کے گھر میں غرغر چائے بنتی ہے، اور ہر کوئی روزانہ متعدد چائے کی پیالیاں پیتے ہیں ۔

 افسانہ ’منظر نامہ ‘ میں افسانہ نگار نے لداخی شادی کے رسم و رواج کو موضوع بحث بنایا ہے۔لداخ میں شادی کی تقریب کا اہتمام اکثر کسی کھیت پر کیا جاتا ہے۔جہاں مرد وزن کے لئے الگ الگ شامیانے لگائے جاتے ہیں ۔چونکہ لداخ میں اگست،ستمبر میں فصل کاٹ لیتے ہیں ،اسلئے یہاں شادی کی تقریبات اکتوبر، نومبر میں ہی منعقد ہوا کرتے ہیں ، کیونکہ لداخ میں فنکشن حال یا اس طرح کا کوئی مخصوص جگہ نہیں ہوتا ہے، اس لئے شادی یا اس طرح کی دوسری تقاریب کومنانے کے لئے کھیت کا استعمال کیا جا تا ہے۔ اس لئے یہاں اپثر شادیاں اکتوبر نومبر کیء مہینے میں ہی منعقد ہوتی ہیں ان دنوں ٹھنڈ بھی اچھی خاصی رہتی ہے۔شامیانے میں دو رعورتوں کی گفتگو قارئیں کوٹھنڈ کا احساس دلاتی ہے۔افسانہ ’’منظر نامہ‘‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو۔

’’فرش کے نیچے سے ٹھنڈ آ رہی ہے پہلی عورت بولی،ٹھنڈ تو آئے گی ہی عقیلہ،ترپال کے اوپر پتلا قالین بچھا ہے۔‘‘

 لداخ میں شادیوں میں دو تیں چیزیں توجہ کا مرکز ہوتی ہیں ۔لڑکی کی شادی میں براتی اور دلہن اورلڑکے کے شادی میں براتی سمت دلہا،دلہن،کادلہے کے گھر سے تکبیر کے بلند نعروں کے ساتھ شادی کے منڈپ کی طرف آنے کا منظر۔افسانہ ’’منظر نامہ ‘‘میں اس کا منظر ملاحظہ ہو۔

’’لودلہا کو منڈپ میں لایا جا رہا ہے ‘‘کسی نے کہا تکبیر کی آواز بلند ہوتی گئی

 نعرہ تکبیر:اللہ اکبر

نعرہ رسالت:یارسول اللہ نعرہ حیدری:یا علی ‘‘۔

 باراتی تکبیر کے بلند نعروں کے ساتھ دلہا،دلہن کو منڈپ تک لے آتے ہیں ، دلہا مردوں کے شامیانے میں ،اور دلہن زنانہ شامیانے میں منڈپ پر براجماں ہوتے ہیں ،باراتی مردوں کے شامیانے میں اپنے مخصوص نششت پر بیٹھ جاتے ہیں ۔دلہا،دلہن اور باراتی شامیانے

 میں آنے سے پہلے مہمانوں کو نمکین چائے پیش کیا جاتا ہے۔دلہا،دلہن براجمان ہونے کے ساتھ ہی مہمانوں میں کھانا پیش کیا جاتا ہے۔افسانہ ’’منظرنامہ ‘‘ میں کھانا پیش کا منظر ملاحظہ ہو۔

’’اسی لمحہ کئی اطراف سے طشت اور لوٹے لئے کئی لڑکے نمودار ہوئے اور مہمانوں نے ہاتھ دھونے شروع کیے اور اس کے ساتھ ہی دسترخوان بچھایا گیا۔اور تین تین کے لئے طبق میں کھانا دیاگیا‘‘۔

 طبق میں چاول کے اوپر ایک قسم کی سبزی ہوتی ہے،ہر تین کے بیچ طبق رکھنے کے فوراً بعد کئی لڑکے ہاتھ میں ایک بڑا کٹورا اور چمچا لئے ہوے نمودار ہوتا ہے، اور باری باری ہر طبق پر گوشتابہ اور یخنی پیش کرتے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔ہر مہمان کو اپنا بچا ہوا گوشت اور چاول گھر لے جانے کے لئے پلاسٹک کی تھیلیاں تقسیم کی جاتی ہے۔

 کھاناکھا چکنے کے بعد ہر مہمان دولہا،دلہن اور دلہن کے والدین کو مبارک باد دیتے ہوئے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے افسانہ ’’منظر نامہ ‘‘ سے یہ اقتباس۔

’’کھانا تناول کرنے کے بعد مہمانوں نے تپاک سے فرداً فرداًدلہن کے گلے میں سپید ریشمی رومال حمائل کیے اور مبارک باد دی بہتوں نے لفافے میں نقد رقم یا تحفے پیش کیے۔ کئی عورتوں نے مردانہ منڈپ میں جاکر دولہا کو ریشمی رومال پیش کیے۔ منڈپ کے باہر دولہا کے والدین کھڑے تھے،۔ انہیں بھی مبارک باد دی اور گلے میں بطور تہنیت ریشمی رومال حمائل کیے۔ ‘‘

 یہاں طشت، لوٹا، ریشمی رومال کا ذکر ہوا ہے جو لداخ کی ثقافت کا حصہ ہے۔

ریشمی رومال یہ ریشم کے باریک دھاگوں سے بنا ہوا ایک مفلر جیسا رومال ہوتا ہے،اور یہ رومال خاص مہمان کے گلے میں ہار کی طرح پیش کیے جاتے ہیں ، اور ہر خوشی کے موقعے پر جیسے شادی،بچے کی پیدائش وغیرہ کے موقعے پر ان کے گلے میں تہنیت کے طور پر پیش کرنا یہاں کی ثقافت کا ایک حصہ منا جاتا ہے۔

 غرض لداخ سے تعلق رکھنے والے ان افسانہ نگاروں نے اپنے تخلیقات میں اپنے علاقے کے سماج و ثقافت پر قلم اٹھایا ہے، اور قارئین کویہاں کی سماج و ثقافت سے روشناس کرایا ہے۔

     ٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.