تفہیم شبلی *
تفہیم شبلی
نام کتاب: تفہیم شبلی
مصنف: ڈاکٹر ارشاد نیازی
ناشر: ایم آر پبلی کیشنز، دہلی
سال اشاعت: 2013
صفحات : 498
قیمت: 400، لائبریری: 525
مبصر: عزیر احمد
……………………………………………………………………
علامہ شبلی نعمانی علی گڑھ تحریک کے ایسے ستون ہیں جن کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی مختصر سے مختصر تاریخ بھی مکمل نہیں ہوسکتی۔ وہ ایک معتبر عالم دین ، شاعر، انشا پرداز، تنقید نگار اورسوانح نگار ہونے کے ساتھ ایک ماہر تعلیم بھی تھے ۔ سوانح نگاری ان کا خاص میدان تھا۔ شبلی کو اردو زبان وادب کی دنیا میں باقی رکھنے کے لئے ان کی کتاب ’موازنۂ انیس ودبیر‘ ہی کافی ہے ۔ ’موازنہ ‘شبلی کی اولیات میں سے ہے ۔ شبلی سے پہلے مرثیہ کے تنقیدی اصول مرتب نہیں تھے ۔ انیس ودبیر کے ادبی معرکوں کو ایک زمانہ گزرچکا تھا جس کی خوش گوار یادیں اردو دنیا میں باقی تھیں۔ شبلی نے ’موازنہ ‘لکھ کر اردو میں تقابلی مطالعہ کی بنیادرکھی۔ شبلی، جس نے اردو کو، ’ انیس ودبیر‘، ’موازنہ‘، ’شعرالعجم‘ ،’ الفاروق‘ اور ’سیرۃ البنی‘ جیسی بیش بہا کتابوں کا تحفہ دیا اس کو بہت جلد بھلا دیا گیا۔ علما کی محفل سے بھلائے جانے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ خالص مولویانہ ذہن نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ندوہ جس کو انہوں نے خون جگر سے سینچا تھا، ان کو الگ ہونا پڑا لیکن ادبی دنیا نے انہیں کیوں فراموش کیا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ ادبی وتاریخی کتابوں میں سرسری ذکر سے بات آگے نہیں بڑھتی ہے ۔ ایک عام قاری صرف اس پر افسوس کا اظہار کرکے اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتا ہے لیکن ارشاد نیازی ان لوگوں میں سے نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’…… اعتراف کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اپنے کسی برگزیدہ شخصیت کی تصویر پر عقیدت کے پھول روز یا اس کی برسی کے موقع پر چڑھادئے جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے اس عظیم شخص کی شخصیت اور اس کے کارہائے نمایاں کو لوگوں میں عام کیا جائے ۔ شبلی ہمارے وہ رہنما ، دانشور اور ادیب وشاعر ہیں جن کے اعتراف کی دوسری صورت زیادہ بامعنی، ضروری اور اہم ہے ۔‘‘
ارشاد نیازی دہلی یونی ورسٹی میں استاد ہیں۔ انہوں نے بہت کم وقت میں تنقیدی تحریروں کے ذریعہ ادبی دنیا میں اپنا مقام بنا لیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’تفہیم شبلی‘ ان کی تنقیدی بصیرت اور حسن انتخاب کے حسین امتزاج سے عبارت ہے ۔یہ کتاب مختلف اہل قلم کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مختلف لائبریوں کی خاک چھاننے کے بعد جمع کیا ہے ۔ عام مضامین کے مجموعوں سے یہ کتاب اس طور پر مختلف ہے کہ اس میں چار مضامین جو کتاب کی مجموعی ضخامت کا تقریبا ایک چوتھائی حصہ ہے خود مؤلف کی قلم کا نتیجہ ہیں ۔
ارشاد نیازی نے ’تفہیم شبلی‘ کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب ’شخصیت‘ کے نام سے ہے ۔ جس میں‘شبلی نعمانی‘ کے عنوان سے انہوں نے اپنا مضمون شامل کیا ہے۔ یہ مضمون نہ صرف شبلی کی زندگی پر روشنی ڈالتا ہے بلکہ تفہیم شبلی کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ پیدائش سے لے کر تعلیم تک کا سفر اور پھر کسب معاش کے لئے تگ ودو کی روداد، علی گڑھ اور ندوہ سے وابستگی اور علیحدگی کے عوامل و محرکات جتنے مختصر اور جامع اندازمیں ارشاد نیازی نے بیان کیا ہے وہ انہیں کا حصہ ہے ۔ نیازی صاحب نے شبلی کی شخصیت کے تشکیلی عناصر کو ان کی زندگی کے واقعات میں تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ:
’’شبلی بذات خود انتہا پسند تھے۔ انتہا پسندی کی اپنی نفسیات اور منطق ہوتی ہے ۔ مزاج میں شدت اور خودرائی تھی۔ ان کا دل جوش و وارفتگی سے معمور تھا۔ مزاج شاہانہ، طبیعت رنگین تھی۔ زندگی سے حظ اٹھانے کی صلاحیت ان میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ شبلی کی زندگی بیدار وسیع اور رنگارنگ ہونے کے باوجود وہ سادہ لوحی جو راجپوتوں کا فطری اور نفسیاتی معاملہ ہے ان کے ساتھ چست درست نظر آتا ہے ۔‘‘
ارشاد نیازی ، شبلی کو بنیادی طور پر شاعر مانتے ہیں۔ شبلی کو شہرت و مقبولیت اگرچہ شاعری کی وجہ سے ملی ہولیکن اس کو دوام بخشنے میں ان کی تنقیدی اور خلاقانہ صلاحیتوں کا دخل زیادہ رہا ہے ۔کتاب کے دوسرے باب ’شاعری‘ میں آل احمد سرور، وزیر آغا، محمود الٰہی، گیان چند جین اور رئیس احمد کے مضامین شامل ہیں۔ یہ سبھی نام اردو تنقید وتحقیق میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں وزیر آغا کا مضمون ’شبلی کی سیاسی نظمیں‘ خاص طور پر اہم ہے ۔ شبلی کا دور سیاسی ہنگاموں کا دور تھا۔ شبلی کی سیاسی بصیرت پختہ تھی وہ سیاسی واقعات پر شاعری اور مضامین کے ذریعہ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کردیا کرتے تھے جس کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑتا تھا۔ شبلی کے اندر ایک بڑے شاعربننے کی صلاحیت تھی مگر بقول وزیر آغا انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو صرف ہنگامی شاعری تک محدود کرلیا۔
تیسرے باب میں شبلی کی تنقید نگاری پر الطاف احمد اعظمی ، شعر العجم پر ماہر القادری ، ’موازنہ‘ پر سید احتشام حسین، مقالات شبلی پر عبیداﷲ خاں اور سیدہ جعفر ، مرثیہ تنقید پر ارشاد نیازی اور اسلوبِ شبلی پر سیدعبداﷲ اور عبید الرحمان ہاشمی کے گراں قدر مضامین اس مجموعے کی زینت ہیں۔ مؤلف نے اپنے مضمون ’اردو مرثیے کے فروغ میں شبلی کا کردار‘ میں مرثیہ کی تنقید میں ’موازنہ‘ کے قدرومقام پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :
’’موازنہ سے قبل مرثیہ کے فنی لوازمات کا زبانی طور پر تو ذکر عام تھا۔ ان کے متعلق کچھ بے ربط باتیں جو حقیقت سے قریب ہوتی تھیں وہ کہہ تو دی جاتی تھیں مگر ان باتوں میں تال میل بٹھا کر ایک منظم طرز فکر کی تشکیل دینے کی کوشش ناپید تھی۔ شبلی نے نہ صرف ان باتوں کو ترتیب دے کر ان میں نظم و ضبط پیدا کیا بلکہ مرثیہ کے فنی لوازمات کو سامنے رکھ اس کی حدبندی کی۔ یہی نہیں مرثیہ کے لئے ایسے اوضاع مقرر کئے جو مرثیہ کے تمام صفات پر حاوی ہیں۔ شبلی کے مقر کردہ اصول اس قدر Compact ہیں کہ آج تک ان میں تبدیلی نہیں کی جاسکی ہے ۔‘‘
شبلی کی ایک حیثیت سوانح نگار کی بھی ہے ۔ انہوں نے ’المامون‘ ، سیرت النعمان، الفاروق، الغزالی، سوانح مولانا روم اور سیرت النبی لکھ کر صنف سوانح کو اردو میں فروغ دیا۔ ’تفہیم شبلی‘ میں شبلی کی سیرت نگاری اور سفرناموں کے حوالے سے مختلف اہل قلم کے چھ مضامین کو شامل کیا گیا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ سبھی مضامین تکرار کے عیب سے پاک ہیں۔ آخری باب میں ’دیگر موضوعات‘ کے تحت ایسے موضوعات کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے جو مذکورہ بالا ابواب میں نہیں آسکے ۔ اس حصہ میں شامل تین مضامین ’شبلی اور علم کلام از ظفر احمد صدیقی، علامہ شبلی مکتوبات کے آئینے میں از اخلاق احمد اور دارلمصنفین اعظم گڑھ از ارشاد نیازی ہیں۔
مؤلف کی پوری کوشش رہی ہے کہ شبلی کے حوالے سے کوئی گوشہ چھوٹنے نہ پائے ۔ اس کے باوجود حیات شبلی کا ایک اہم گوشہ جو ان کی دینی اور مذہبی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس کتاب میں شامل ہونے سے رہ گیا۔ شبلی کچھ بھی تھے شاعر، سوانح نگاریا تنقید نگار ان سب سے پہلے وہ ایک عالم دین تھے ۔ بہر حال سیرت النبی اور مقالات شبلی پر شامل مقالات اس کمی کو کسی حد تک پورا کردیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ شبلی جیسی مختلف الجہات شخصیت کا احاطہ کسی ایک کتاب میں کرنا ایک مشکل امر ہے ۔ لاکھ کوششوں کے باوجود کوئی نہ کوئی گوشہ چھوٹ جاتا ہے ۔
ارشاد نیازی نے یہ کتاب طلبہ کی نصابی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے لکھا ہے ۔ جس میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ ارشاد نیازی کی تحریروں کی سب سے اہم خصوصیت اختصار ہے ۔ وہ کم سے کم الفاظ میں بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ کسی کی بات کو بغیر حوالہ نہیں نقل کرتے چاہے وہ ایک جملہ ہی کیوں نہ ہو۔اگر انہوں نے کسی کی استعمال کردہ ترکیب کو بھی اپنی تحریر میں شامل کیا ہے تو اسے واوین میں بند کردیا ہے ۔ یہ نیازی صاحب کی امانت داری کی واضح دلیل ہے ۔
خوب صورت ٹائٹل، مضبوط جلد، عمدہ کاغذ پر تقریبا پانچ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت واجبی رکھی گی ہے جو طلبہ اور اردو داں طبقہ کی پہنچ سے دور نہیں ہے ۔
٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "تفہیم شبلی *"
[…] 23. تفہیم شبلی […]