ناوکؔ حمزہ پوری کی رباعیات کا تنقیدی مطالعہ
حمزہ پور،بہار کے ضلع گیا کا ایک چھوٹا قصبہ ہے۔یہی قصبہ سیدغلام السیدین ناوکؔ حمزہ پوری کا مولد ومسکن ہے۔ان کی تاریخِ ولادت ۲۱ اپریل ۱۹۳۳ ء ہے۔ناوک حمزہ پوری عصرِ حاضر کے بزرگ شاعر وادیب ہیں ۔عمر بھر پیشۂ در س و تدریس سے وابستہ رہے۔زبان وادب کی خدمت اور ترویج واشاعت ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ عصرِ حاضر کے مشہور ومعروف شعرا میں ناوک حمزہ پوری کا شمار ہو تاہے۔ نظم ونثر کی تقریباً ۸۰ کتابیں آپ کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں ۔تخلیق،تنقید اور تحقیق کے علاوہ عروض وبلاغت بھی موصوف کا خاص میدان ہے۔اردو کے علاوہ ہندی فارسی اور انگریزی زبانوں پر بھی انھیں عبور حاصل ہے۔ ان زبانوں سے اردو میں تراجم بھی آپ نے کیے ہیں ۔ ناوک صاحب کا تعلق صحافت سے بھی رہا ہے۔انھوں نے ایک ادبی رسالہ ’’قوس‘‘ جاری کیا تھا۔موصوف کے والد قوسؔ حمزہ پوری اپنے وقت کے عالم ِ دین اور ا ردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ لیکن بقول ناوک انھیں شعرو ادب میں وہ مرتبہ حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔اگرچہ گھر کا ماحول خالص مذہبی،علمی اور ادبی تھا لیکن بقولِ ناوک شاعری میں انھیں اپنے والد سے استفادے کا موقعہ نہ ملا۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے کسی کے آگے زانوئے ادب بھی تہہ نہیں کیا۔زبان وادب کی جو کچھ بھی شد بد انھیں حاصل ہوئی وہ ان کے مطالعے اور محنت کا نتیجہ ہے۔ ۱؎ ناوک اپنی شعری وادبی صلاحیتوں کو خالص عطیۂ خدا وندی کہتے ہیں ۔ایک مصاحبے میں مصاحبہ کار فرد الحسن نے پوچھا تھا کہ’’شعر ادب کی دولت غالباً ورثے میں آپ کے حصے میں آئی۔اس سلسلے میں کیا کہیں گے آپــ‘‘ تو انھوں نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے اپنی یہ ربائی سنائی تھی:
کیوں کہیے کہ یہ رتبہ دعانے بخشا
¶کیوں کہیے کہ زہدِ بے ریا نے بخشا
کیوں کہیے کہ قطب واولیا نے بخشا
جو کچھ بخشا مجھے خدا نے بخشا ۱؎
اردو شاعری کی دنیا میں ناوکؔ حمزہ پوری کا نام نہ صرف رباعی گو شاعر کی حیثیت سے معروف ہے بلکہ رباعی گوئی کے ذوق کو عام کرنے کے حوالے سے بھی ان کا نام اہمیت کا حامل ہے۔رسالہ’’ گلبن ‘ ‘احمد آباد کا رباعی نمبر انھیں کے مشورے پر منظرِ عام پر آیا۔جب ناوکؔ نے مدیر ’گلبن ‘ کو رباعی نمبر نکالنے کا مشورہ دیا تو انھوں نے ناوکؔ صاحب ہی کو اس کی ترتیب وتہذیب کی ذمے داری سونپی جس سے وہ بحسن وخوبی عہدہ بر آ ہوے۔ ناوک حمزہ پوری نے نظم کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ کئی شعری مجموعے آپ کی یاد گار ہیں ۔ ان مجموعوں میں ’’ اندازِ بیاں ‘‘ ’’شرارِ سخن‘‘ ’’بہارستان‘‘ اور ’’نوائے امروز‘‘ رباعیات کے مجموعے ہیں جو ۱۹۹۲ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران شائع ہوے ہیں ۔’’تفہیمِ رباعی‘‘ ’’رباعی کی آبرو‘‘ ’’ رباعی : تعریف وتیکنیک‘‘ ناوک صاحب کی وہ تصانیف ہیں جن میں رباعی کے فن اور تیکنیک پر مشتمل مضامین کے علاوہ مشاہیر رباعی گو شعرا پر لکھے گئے تنقیدی مضامین بھی شامل ہیں ۔ناوک نے فنِ رباعی کی آبیاری کی طرف بطورِ خاص توجہ دی ہے۔رباعی ان کے نزدیک کیا ہے یہ انھیں کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
احساس کو لفظوں میں پرونے کا فن
قطرے کا درِ خوش آب ہونے کا فن
کہتے ہیں رباعی جس وہ ہے ناوکؔ
کوزے کو سمندر میں سمونے کا فن
۲۰۰۷ء میں ’’ہزار رنگ‘ ‘کے زیرِ عنوان ناوکؔ کی رباعیوں کا دیوان شائع ہوا۔اس دیوان میں ان کے سابقہ تمام مجموعوں کی رباعیاں شامل ہیں ۔ ان رباعیوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار ہے۔یہی دیوان راقم الحروف کے پیشِ نظر ہے۔
ناوکؔ حمزہ پوری کی تعلیم وتربیت خالص دینی ماحول میں ہوئی۔چنانچہ ان کی رباعیات پر اس ماحول کا اثر نمایاں ہے۔ ناوکؔ مشرقی تہذیب کے دلدادہ اور مغربی تہذیب سے متنفر نظر آتے ہیں ۔ان کی رباعیات پر اصلاحی عنصر غالب ہے۔ وہ اپنی شاعری سے اصلاحِ معاشرہ اور اخلاقی تعلیم کا کام لینا چاہتے ہیں ۔ناوک نے اپنی رباعیات کے ذریعے حق وصداقت کی تعلیم دی ہے انھوں نے اپنی مختلف رباعیوں میں یہ کہا ہے کہ اعمالِ قبیحہ اور افعالِ ذمیمہ سے معاشرہ تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔معاشرے کو پاکیزہ اور صحت مند رکھنے کے لیے سچائی،نیکی،صبر،توکل اور سخاوت کے جذبات کو فروغ دینا چاہیے۔وہ جو بھی کہتے ہیں دو ٹوک لہجے میں کہتے ہیں ۔طنز وتعریض اور تلخی ان کی اکثر رباعیوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ناوک ؔ کے موضوعات لا محدود ہیں ۔حمد ونعت،منقبت،عرفان وتصوف،سماج،سیاست،فیشن پرستی،مکر وفریب،غرو ر و تکبر،منافقت وریا کاری،انسان،روح،دنیا آخرت،فسادات،زوالِ تہذیب،فقر وغنا، پند ونصیحت،شعر وسخن،شاعر اور ناصح وغیرہ۔ناوکؔ ملّم تھے اور اسی حیثیت سے وہ ہمارے سامنے آتے ہیں ۔مذہب و اخلاق ان کی رباعیوں کے دو اہم موضوعات ہیں ۔
ناوکؔ کی حمدیہ رباعیاں اللہ عز و جل کی عظمت وقدرت،خلاقی و رزاقی اور عطا وبخشش کے سیدھے سادے لیکن متاثر کن بیانات پر مشتمل ہیں ۔مثلاً:
پرتو تری صنعت کا ہے ساری دنیا
جلوے تری قدرت کے ہیں یہ ارض و سما
ہر شے سے عیاں تیری ربوبیّت ہے
ہر چیز ہے مظہر تری خلاقی کا
٭
یہ لفظ، یہ معنٰی، یہ سخن، ہے تیرا
لب تیرے،زباں تیری،دہن ہے تیرا
پھر کس سے کریں شکر ترا اے مولا!
بخشا ہوا ہر عضوِ بدن ہے تیرا
ناوک ؔ کی نظر میں وہ لوگ بے ہودہ ہیں جن کے دلوں میں خدا کی محبت نہیں اور وہ لوگ گمراہ ہیں جنھیں خدا کی جستجو نہ ہو۔راہِ حق کو چھوڑ کر وادیِ باطل میں بھٹکنے ولوں کی کیفیت کو انھوں نے بلیغ تمثیل کے ذریعے درجِ ذیل رباعی میں پیش کیا ہے :
زہراب پیا آبِ بقا کو چھوڑا
مٹی کی جمع،کیمیا کو چھوڑا
گم گشتۂ راہ ہم نہیں تو کیا ہیں
بت کے بندے ہوے خدا کو چھوڑا
ایک رباعی میں بڑی لطیف اور فکر انگیز بات کہی ہے۔ہر انسان یہ کہتا ہے کہ’’ خدا میرا ہے‘‘۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ ’’میں خدا کا ہوں ‘‘یعنی ہر کوئی خدا کو اپنی ملکیت بتاتا ہے۔جب کہ خدا ہر انسان کا مالک ہے۔ملاحظہ فرمائیں :
اب تو ہی بتا،یہ کیا تماشا ہے خدا
تو ہر کس وناکس کا کھلونا ہے خدا؟
کوئی نہیں کہتا کہ ’’خدا کا ہوں میں ‘‘
ہر شخص یہ کہتا ہے کہ’ ’میرا ہے خدا‘ ‘
ناوکؔ نے نعتیہ رباعیاں کثیر تعداد میں کہی ہیں ۔ان رباعیوں سے ان کا جذبۂ عشقِ محمد ٌ بہ تمام وکمال عیاں ہوتا ہے۔ناوکؔ نے حضورِ اکرمٌسے الفت کو مفتاحِ سعادت،معراجِ اطاعت اور جنت کی ضمانت ہی نہیں بلکہ فی نفسہ جنت کہاہے؛ اور ان کی ہر بات کو حکمت کا خزانہ، رحمت کا سفینہ،دریائے لطافت،مہرِ ثقاہت اور معیارِ صداقت بتایا ہے۔اس شاعرانہ اظہار میں جو صداقت پوشیدہ ہے اس سے انکار ممکن نہیں ۔ملاحظہ کریں :
مفتاحِ سعادت ہے نبیٌ کی الفت
معراجِ اطاعت ہے نبیٌ کی الفت
جنت کی ضمانت ہی نہیں اے ناوکؔ
فی نفسہ جنت ہے نبی کی الفت
٭
حکمت کا خزانہ ہے نبیٌ کی ہر بات
رحمت کا سفینہ ہے نبی ٌ ہر بات
انگشتریِ عمل میں جڑ لو ناوکؔ
بے مثل نگینہ ہے نبیٌ کی ہر بات
شاعری کے بارے میں ناوکؔ کا نقطہٌ نظر یہ ہے کہ اس سے تعمیرِ قوم اور اخلاقی تعلیم کا کام لینا چاہیے۔یعنی وہ مقصدی ادب کے قائل ہیں ۔یہی وجہہ ہے کہ ان کے ذخیرۂ رباعیات میں اخلاقی تعلیمات اور پند ونصیحت کی حامل رباعیاں بکثرت موجود ہیں ۔دو تین مثالیں پیش ہیں :
آ تجھ کو بتا دوں یہ سرِّ حکمت
یہ چھوٹی سی بات ہے بڑی بابرکت
صحبت سے بروں کی اچھی ہے تنہائی
تنہائی سے اچھی صلحا کی صحبت
٭
جب بولو تو بولو ایسے کلمات
مرغوب ہوں جو لوگوں کو مثلِ نبات
آجائے کسی کے شیشۂ دل میں بال
منھ سے نہ نکالو ایسی کوئی بات
اخلاق وکردار، تہذیب وشرافت اور مروت ومودّت کے زوال پر نوحہ خوانی کرتے ہوے ایک رباعی میں کہتے ہیں :
اخلاق مٹا، شانِ مروّت نہ رہی
تہذیب گئی،جانِ شرافت نہ رہی
مجھ سے تو یہ منظر نہیں دیکھا جاتا
اچھا ہوا آنکھوں میں بصارت نہ رہی
ناوکؔ کی نظر نہ صرف ملکی حالات پر ہے بلکہ وہ عالمی سیاسی حالات سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والی سیاسی ریشہ دوانیوں اور مسلمانوں کی آپسی چپقلش پر ناوکؔ نے جو رباعیاں کہی ہیں ان میں طنز بھی ہے، تلخی بھی ہے،تمسخر بھی ہے اور ناگواری کا احساس بھی ہے۔درجِ ذیل رباعیاں ناوکؔ کے عالمی حالات پر گہری نظر کی دلیل ہیں :
بغداد کا تہران عدو ہے کہ نہیں
افغان کا افغان عدو ہے کہ نہیں
اغیار کو کہتے ہو برا کیوں جمّن
مسلم کا مسلمان عدو ہے کہ نہیں
٭
انگلی کے اشارے پہ نچاتا ہے وہی
لڑتے تو ہیں ہم مگر لڑاتا ہے وہی
امریکا ہے اس دور کا شیطانِ عظیم
ہر فتنہ زمانے میں اٹھاتا ہے وہی
ناوکؔ کی رباعیوں کا ایک اہم وصف ان کا طنزیہ عنصر ہے۔طنز کی گہری کاٹ میں کہیں کہیں مزاح کی پوٹ بھی شامل ہے۔سماجی ناہمواری،مذہبی لوگوں کی منافقت،سیاسی رہنمائوں کی عیاری، حکومتی سطح پر جنسی بے راہ روی کی حوصلہ افزائی جیسے اعما ل وافعال پر ناوکؔ نے معنی خیز اور فکر انگیز رباعیاں کہی ہیں ۔مغربی ممالک( اور ان کی تقلید میں مشرقی ممالک میں بھی )مساواتِ مرد وزن کی تحریک جس انداز میں چل رہی ہے اس پر یہ رباعی ملاحظہ فرمائیں :
یا رب! وہ مساوات کا زینہ آئے
ہم سب کو برابری سے جینا آئے
زن کو بھی ہو مثالِ مرد،ریش دراز
مردوں کو بھی مثلِ زن مہینہ آئے
ہم جنس پرستی کی قانونی آزادی کو ضبطِ تولید کا آسان نسخہ بتاتے ہوے کہتے ہیں :
قانوناً ہم جنسی کی آزادی
ہو عام کہ ضبط میں رہے آبادی
اب مرد کا مرد ہی سے جائز ہو نکاح
عورت،عورت ہی سے رچائے شادی
ناوکؔ نے پندو نصیحت کے مضمون اور طنزیہ عنصر کی حامل رباعیوں میں لفظ’جمّن‘ کا بکثرت استعمال کیا ہے۔’جمّن‘ دراصل نااہل، کم سواد،اور علم وادب سے عاری آدمی کی علامت ہے۔اس کا ستعمال بطورِ طنز کیا جاتا ہے۔جدید لب ولہجے کے ممتاز شاعر مضطر ؔمجاز(حیدرآباد) نے ایک شعر میں اس لفظ کو بڑے معنی خیز انداز میں استعمال کیاہے:
جمّن میاں بھی تھے وہاں پنواڑی لال بھی
مضطرؔ ’گجل‘ سنانے کا ہم کوہی ’حک‘ نہ تھا
آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشاعروں میں ادبی قد وقامت کے حامل حقیقی شاعروں کو نظرانداز کر کے متاشاعروں کو بطورِ شاعر مدعو کیا جارہا ہے جن کا شین قاف تک درست نہیں ہوتا۔ اس شعر میں ’ جمّن‘ اور ’ پنواڑی لال‘ دراصل ایسے ہی متشاعروں کی علامتیں ہیں ۔
ناوکؔ حمزہ پوری کی رباعیات میں اس لفظ کا بے دریغ استعمال ہوا ہے۔بیشتر رباعیوں میں اس کا ستعمال نامناسب اور ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ کہیں کہیں تو پھوہڑ پن بھی پیدا ہو گیا ہے۔مثلاً:
ایثارو مروت کا اجالا کر دو
اخلاص واخوت کا اجالا کر دو
نفرت کا ہے گھنگھور اندھیرا جمّن
ہر سمت محبت کا اجلالا کردو
٭
ویرانۂ ہستی کو سنوارو جمّن
رخسارۂ گیتی کو نکھارو جمّن
کیا غم ہے اگر ڈوب گیا ہے سورج
دھرتی پر چاند کو اتارو جمّن
٭
آسائشِ ہستی پہ نہ پھولو جمّن
اوقات نہ اپنی کبھی بھولو جمّن
ہر وقت رکھو پیشِ نظر واعتصمو
کمزور ہنڈولے پہ نہ جھولو جمّن
پہلی رباعی میں جمّن کی جگہ شاعر خود کو مخاطب کرتا تو زیادہ بہتر تھا۔جمّن کے استعمال سے رباعی کی فضا غیر سنجیدہ ہو گئی ہے۔اسی طرح دوسری اور تیسری رباعی میں بھی’ ’ناوک ‘’ ’’یارو‘ ‘یا ’’ لوگو‘ ‘ کا استعمال ہی بہتر تھا۔جمّن کے غیر ضروری اور نا مناسب استعمال سے ایک طرح کا پھوہڑ پن معلوم ہو رہا ہے۔راقم الحروف کا خیال ہے کہ جس کثرت سے اس لفظ کا استعمال ناوک ؔ صاحب کے یہاں ملتا ہے کسی اور کے پاس نہ ہوگا۔
ناوک حمزہ پوری کی رباعیات اصلاحی اور تعمیری پہلو رکھتی ہیں ۔ناوک ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے قائل ہیں انھوں نے اپنی رباعیوں کے ذریعے اسلامی تعلیمات،مشرقی اقدار اور انسانیت کی خدمت کے جذبے کو عام کرنے کی سعیِ مشکور کی ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ معاشرہ ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہو،ہر طرف امن واماں اور بھائی چارہ ہو۔مختلف موضوعات کو انھوں نے برتا ہے۔لہجہ کہیں متین ہے تو کہیں عامیانہ ہے۔بیشتر رباعیاں ایسی ہیں جو زبان زدِ خاص وعام ہونے کی کیفیت سے معمور ہیں ۔عصری آگہی ان کی رباعیات سے امڈی پرتی ہے۔مشاہدے کی تیزی،تجربے کی گہرائی اور مطالعے کی وسعت کا اندازہ ان کی رباعیات سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔۱۹۴۵ء سے شعر گوئی جاری ہے۔ستر سالہ مشقِ سخن نے ان کے شاعرانہ جوہر کو خوب نکھارا ہے۔آج ساری اردو دنیا میں ناوک صاحب مستند رباعی گو اور رباعی کے ناقد کی حیثیت سے تسلیم کیے جاتے ہیں ۔رباعی گوئی کے احیا اوراور فروغ کے سلسلے میں ان کی خدمات قابلِ تحسین ہیں ۔
ناوکؔ صاحب مستند رباعی گو،رباعی کے پارکھ اور ناقد کے علاوہ ماہرِ عروض،استاذِ سخن،زبان داں اور قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں ۔زبان وبیان، عروض و بلاغت اور فنِ شعر پر ان کے مضامین،مقالات اور مراسلوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس بارے میں بہت حساس ہیں ؛ لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ خود ان کی رباعیات عروض و بلاغت اور زبان بیان کی خامیوں سے خالی نہیں ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی بعض رباعیوں پر زیادہ غور فکر سے کام نہیں لیا۔اگر چہ یہ خامیاں بہت زیادہ نہیں لیکن اتنی کم بھی نہیں کہ انھیں نظر انداز کیا جاسکے۔ تنقید کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب فنی تخلیق کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خامیاں بھی زیرِ بحث آئیں ۔ اسی لیے یہاں چند خامیوں کا جائزہ لینا،نا مناسب نہ ہوگا۔ ایک رباعی یوں ہے:
معمور ترے جلوئو ں سے ہے ہر دوسرا
ہر برگ وشجر تیرے کرم سے ہے ہرا
ہر پھول کو رنگ وبو دیے ہیں تو نے
ہر پھل میں نیا ذائقہ تو نے ہی بھرا(ص:۵)
چوتھے مصرعے میں ’نیا ‘ کی جگہ ’جدا‘ زیادہ مناسب اور بلیغ تھا۔
ہے وردِ زباں جنابِ حیدر کی ثنا
یعنی اسد اللہ دلاور کی ثنا
بخشی اللہ نے علی کو نصرت
لب پر ہے اسی فاتحِ خیبر کی ثنا
(ص:۱۱)
چوتھے مصرعے میں ’اسی‘ ہے۔ چنانچہ تیسرے مصرعے میں ’علی کو‘ کی جگہ ’جس کو‘ یا ’جسے‘ ہونا چاہیے۔یہ مصرع آسانی سے یوں ہو سکتا تھا:اللہ نے بخشی تھی جسے فتحِ مبیں ۔
گنجینۂ عزت و شرافت زہراؓ
کانِ شرفِ عصمت وعفت زہراؓ
دنیا میں بھی عورتوں کی سردار ہوئیں
عقبیٰ میں ہیں خاتونِ قیامت زہراؓ(ص:۱۲)
فاطمۃ الزہراؓ کو’ خاتونِ قیامت ’ نہیں بلکہ ’خاتونِ جنت‘ کہا گیا ہے۔لہٰذا خاتونِ جنت ہی کہنا چاہیے۔ خاتونِ قیامت‘کہنا ان کی شان کے منافی ہے۔ اس مصرعے میں ’خاتونِ جنت‘آسانی سے وزن میں بھی آتا ہے۔ایک رباعی اس طرح ہے:
غازے سی ہے، ابٹن کی طرح ہے دنیا
اس دور کی فیشن کی طرح ہے دنیا
ایمان سلامت ہے کہاں دنیا میں
اب صرف کرپشن کی طرح ہے دنیا(ص:۱۴)
اس رباعی میں لفظ ’فیشن‘ کو مونث استعمال کیا گیا ہے جب کہ اردو میں یہ لفظ ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا رہاہے۔
حیرت میں ہے یہ دیکھ کے ساری دنیا
یک قطبی ہو گئی ہماری دنیا
طاقت کے نشے میں ہے رقصاں بُت ایک
ناچار ہوئی اس کی بچاری دنیا(ص: ۱۵)
ظاہر ہے کہ اس رباعی میں شاعر کا اشارہ امریکا کی طرف ہے۔تیسرے مصرعے میں ’ بُت‘ کی جگہ’دیو‘ کہنے کا محل ہے۔’بت‘ اور ’دیو‘ میں جو معنوی فرق ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔’دیو‘ کہنے سے جو ہیبت ناک شبیہ ابھرتی ہے وہ ’بت‘ کہنے سے نہیں ابھرتی۔معنوی اعتبار سے چوتھا مصرع بھی محلِ نظر ہے۔مصرعے کی نثر یوں ہوگی:اس کی بے چاری دنیا ناچار ہوئی۔ ظاہر ہے کہ مہمل سی بات ہے۔’بے چارہ ‘او’ر ناچار‘ ہم معنی الفاظ ہیں ۔جو دنیا پہلے ہی سے ’بے چاری ‘ہے پھر اسے’ نا چار‘ کہنا کیا معنی؟
قطرہ دریا سے اگرہو پیوستا
صحرائے فنا بقا کا طے ہو رستا
فانی فی اللہ ہو کے دیکھو تو ذرا
خود یافتگی کا ہے یہ نسخہ سستا(ص؛۲۵)
’’فانی فی اللہ ہونا‘‘ چہ معنی دارد؟’’فنا فی اللہ ہونا ‘‘ کہتے ہیں ۔جیسا کہ داغ ؔ کے درجِ ذیل سے واضح ہوتا ہے:
فنا فی اللہ ہو کے پائوں عمرِ جاوداں ایسی
مسیح وخضر کی ہستی سے بڑھ کر ہوعدم میرا
بعض مصرعوں میں موجود عروضی خامیاں بے طرح کھٹکتی ہیں ۔مثلاً:
تف اس پہ جو دل لگی کے فتنے میں مرا
صد حیف کہ عاشقی کے دھوکے میں مرا
بے فائدہ جان خوب روئوں پہ دی’للہ فی ا للہ‘ بتوں کے کوچے میں مرا(ص:۲۴)
چوتھا مصرع ساقط الوزن ہو گیا ہے۔’للہ فی اللہ‘ کی صحیح تلفظ کے ساتھ تقطیع نہیں ہو سکتی۔ ’’ للّا فلّا‘‘ پڑھنا پڑے گا۔
ایک رباعی اس طرح ہے:
یہ بات عرب وعجم کے مسلم زعما
جتنی جلدی سمجھیں اتنا اچھا
فتویٰ ہے یہ جہدِ للبقا کا ناوکؔ
ہے مرگِ مفاجات ضعیفی کی سزا (ص:۲۵)
پہلا مصرع ساقط الوزن ہو گیا ہے۔ایک اور رباعی یوں ہے:
یہ غرہّ نسبتِ پدر جانے دے
یہ فخرِ غرورِ مال وزر جانے دے
معیارِ فضیلت تو فقط تقویٰ ہے
حسب ونسبِ تخم وگہر جانے دے(ص:۱۷۴)
اس رباعی کاچوتھا مصرع بھی ساقط الوزن ہو گیا ہے۔ماں کی طرف سے چلنے والے خاندانی سلسلے کو’حسب‘ کہتے ہیں جس کا صحیح تلفظ بہ حرکت ِدوم بر وزنِ ’ادب‘ ہے۔’حسب‘ بہ سکونِ دوم بر وزنِ ’فکر‘ دوسرا لفظ ہے جس کے معنی ’مطابق اور موافق‘ کے ہیں ۔مصرعۂٌ مذکور میں اس لفط کو بہ سکونِ دوم باندھا گیا ہے جو غلط ہے۔ ایک کہنہ مشق استاد اور عروضی شاعر کی رباعیات میں ایس عروضی خامیاں افسو ناک ہیں ۔
ناوکؔ کی بعض رباعیاں فکر وخیال کے اعتبار سے لا یعنی، گنجلک اور پست ہیں ۔معلوم نہیں وہ کس رو میں ایسی رباعیاں کہہ گئے ہیں ۔مثلاً یہ حمدیہ رباعی:
پھیلا ہے دو عالم میں اجالا تیرا
کونین کی ہر شے میں ہے جلوہ تیرا
ہے مختلف النوع ہراک چیز مگر
ہر شے سے جھلکتا ہے سراپا تیرا(ص؛۶)
اللہ تعالیٰ جب جسم وبدن اور اعضائے جسمانی سے پاک ہے تو’ اللہ کا سراپا ‘ کہنا کیا معنی؟یہ اندازِ بیان انتہائی نا مناسب اور لغو ہے۔ معرفتِ الٰہی سے متعلق یہ دو رباعیاں ملاحظہ فرمائیں :
ہر ذرے کوخورشید شمائل کرنا
ہر قطرے کو دریا کے مقابل کرنا
افلاک کو لے آنا زمیں پر ممکن
ممکن نہیں ہے تجھ کوحاصل کرنا(ص:۷)
٭
مریخ وعطارد و قمر کو پانا
خورشید کے پاس جا کے پھر لوٹ آنا
دشوار تو ہے، مگر نہیں نا ممکن
لیکن ممکن نہیں ہے تجھ کو پانا (ص:۸)
معرفتِ الٰہی یقیناًآسان نہیں ۔اس میں بڑی ریاضت،مجاہدے اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے،لیکن ناممکن بہر حال نہیں ۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر معرفتِ الٰہی ناممکن ہے تو اس کی کوشش کیوں کی جائے؟ حضرت علیؓ کی مدح میں ایک رباعی یوں کہی ہے:
اے صلِّ علی ٰمرتبۂ شیرِ خداؓ
ذات آپ کی تھی جو د وسخا کا دریا
حیدرؓ نے کیا زیرِ نگیں اے ناوکؔ
’سہ نان ‘سے دیں اور’ سناں ‘سے دنیا(ص:۱۱)
’سناں سے دنیا کو زیرِ نگیں کیا ‘کہنا تو ٹھیک ہے لیکن ’سہ نان سے دین کو زیرِ نگیں کیا ‘ کہنا نہ صرف حد درجہ نا مناسب ہے بلکہ اس سے توہینِ دیں کا پہلو نکلتا ہے۔کیوں کہ زیرِ نگیں کرنا کے معنی ہیں :ماتحت کرلینا،تصرف میں لے آنا،غلام بنا لینا،قبضہ کرلینا وغیرہ۔پھر غور کرنے سے یہ معنی بھی نکلتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے صرف طاقت کے ذریعے دنیا کو زیرِ نگیں کیا۔علمی فضیلت اور اخلاقِ شریفہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ۔نعوذ باللہ! ’ سہ نان ‘ سے مراد شاید تنگ دستی ہے۔یہ اندازِ بیان بھی بڑا اٹ پٹا سا ہے۔اس کے علاوہ پوری رباعی میں ایسا پیرایۂ بیان اختیار کیا گیا ہے جس سے د وسرے اور تیسرے مصرعے میں مذکور شخصیتیں جدا جدا معلوم ہو رہی ہیں ۔
پہلے مصرعے میں ’’صلِّ علٰی‘‘ کلمۂ تحسین کے معنی میں استعمال ہوا ہے تو اس سے قبل کلمۂ خطابیہ ’’اے‘‘ لگانا بڑ عجیب معلوم ہو رہا ہے۔
’دنیا ‘ کی ردیف والی جتنی رباعیاں دیوان میں موجود ہیں ان میں سے بیشتربھونڈی تشبیہات کی حامل ہیں ۔’ دنیا ‘کو کہیں اخلاق کے آنسو سے تشبیہ دی گئی ہے تو کہیں تعمیر کے آنسو سے۔اخلاق اور تعمیر کے آنسو کیسے ہوتے ہیں ؟ یہ ناو ک صاحب ہی جانیں ۔ملاحظہ کریں :
اخلاق کے آنسو کی طرح ہے دنیا
تفریقِ من وتو کی طرح ہے دنیا
خوابیدہ ہے دن کو تو ہے شب کو بیدار
منحوس ہے،الو کی طرح ہے دنیا
٭
تخریب کے بازو کی طرح ہے دنیا
تعمیر کے آنسو کی طرح ہے دنیا
ہر چند کہ گاندھی بھی ہیں زیبِ گفتار
کردار سے ناتھو کی طرح ہے دنیا
ایک رباعی میں دنیا کو ’شاعر کے بے مغز سر‘ کی طرح کہا ہے۔ ملاحظہ کریں :
شاداب گلِ تر کی طرح ہے دنیا
کمخاب کے بستر کی طرح ہے دنیا
دنیا دنیا کی ر ٹ چھوڑ اے شاعر
بے مغز ترے سر کی طرح ہے دنیا(ص:۱۵)
شاعر کے سر کو بے مغز کہنا بھی خوب ہے۔گویا ناوکؔ صاحب شاعر کو انتہائی بے وقوف اور بے عقل سمجھتے ہیں ۔یہ سراسر توہینِ شاعر ہے۔اس رباعی میں تو شاعر کو بے مغز کہا ہے،لیکن دوسری رباعی میں اس کی توصیف میں یوں رطب اللسان ہیں :
ہر بات کو پہلے تولتا ہے شاعر
تب جا کے زباں کھولتا ہے شاعر
جس شے میں ملا دیتا ہے تلخی ناصح
اس چیز میں شہد گھولتا ہے شاعر (ص؛۷۹)
پہلی رباعی کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے اور دوسر رباعی کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔دوسری رباعی آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ناوکؔ نے ایسی کئی رباعیاں کہی ہیں جن میں الگ الگ انداز میں دنیا کی مذمت کی ہے۔حتّیٰ کہ ایک رباعی میں دنیا کو ’سچیوالے‘(بیت الخلا) کی طرح کہا ہے۔اس کے باوجود انھوں نے ایک رباعی میں دنیا سے اپنی شدید محبت اور والہانہ شیفتگی کا اظہار کیا ہے:
معشوقۂ مہ رو کی طرح ہے دنیا
محبوب کی خو بو کی طرح ہے دنیا
ایک ایک اد ا اس کی بھلی لگتی ہے
پیاری مجھے اردو کی طرح ہے دنیا(ص:۱۴)
اس طرح کی تضاد بیانیاں ناوکؔ حمزہ پوری کی اکثر رباعیوں میں نظر آتی ہیں ۔یہ تضاد بیانی ان کے نظریۂ زندگی اور بنیادی فکر کو سمجھنے میں رکاوٹ کھڑا کرتی ہے۔اسلوب اور لہجے کے اعتبار سے بھی ان کے یہاں بڑا انتشار نظر آتا ہے۔کہیں سنجیدہ اور متین لہجہ ہے تو کہیں عامیانہ انداز ہے۔بیشتر رباعیاں ہزلیہ رنگ کی حامل ہیں ۔ یہ رنگ رباعی جیسی سنجیدہ صنف سے مطابقت نہیں رکھتا۔یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ بے شمار موضوعات پر اندھا دھندرباعیاں کہنے کی للک اور زود گوئی نے ان کے فن کو کہیں کہیں مجروح کر دیا ہے۔عامیانہ لہجے اورہزلیہ رنگ کی رباعیات سے صرفِ نظر کر لیا جائے تو ان کی سنجیدہ،حکیمانہ،عارفانہ اور اخلاقی رباعیاں قابلِ قدر ہیں ۔ان کے یہاں ایسی رباعیاں بھی مل جاتی ہیں جو بے حد رواں اور پُر تاثیر ہیں ۔مثلاً:
ہو راز جو ناگفتہ تو اندیشہ کیا
گوہر ہو جو ناسفتہ تو اندیشہ کیا
بیداریِ دل اگرہو تجھ کو حاصل
آنکھیں ہوں تری خفتہ تو اندیشہ کیا
٭
ہنستے تھے بہت جو انھیں رونا ہی پڑا
چہکے تھے بہت،خموش ہونا ہی پڑا
سوتے تھے جو پھولوں پہ ہمیشہ ناوکؔ
ان کو بھی زیرِ خاک سونا ہی پڑا
٭
مفہوم سے آباد ہے اوج وپستی
معنی سے بھری پڑی ہے بستی بستی
ہر ذرے کے بطن میں ہیں لاکھوں خورشید
صد نکتہ در آغوش ہے حرفِ ہستی
حوالے :
(۱) دوماہی گلبن احمد آباد،رباعی نمبر جنوری تا اپریل ۱۹۹۶ء ص ۹۰
۲۰)سہ ماہی محفلِِ فنکار گوالیار،جولائی تا ستمبر ۲۰۱۰ ء ص ۹
طبع زاد وغیرمطبوعہ
Dr, Maqbool Ahmed Maqbool
Associate Professor,Department. of Urdu
Maharashtra Udayagiri College
UDGIR-413517Dist. Latur(M.S)
Mob:09028598414/07788443243
Emai:maqboolahmedmaqbool@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!