نند لال کول کے شعری محاسن ’’مرقع افکار‘‘ کے حوالے
دنیا کی سب سے میٹھی اور سُریلی زبان اردو نے نہ جانے کتنے شعراء و ادباء پیدا کئے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری و نثری خدمات سے عالمِ انسانیت،سیاسی وسماجی اور معاشی مسائل،سیاحت و اقتصادیات،مناظر قدرت،تصوف،اسلامی تعلیمات،نسوانی ادب،اطفالِ ادب وغیرہ کے بارے میں لاتعداد تخلیقات قلم بند کیں ہیں ۔جب اردو شعراء کی تخلیقات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہر شاعر کا اپنا کا مخصوص انداز بیان،طرز تحریر نقطہ ِنظراور تخیل نظر آتا ہے۔ان شعراء میں نند لال کول طالب ؔبھی اپنی ایک خاص پہنچان رکھتے ہیں ۔ان کی شاعری جہاں کشمیر میں شاعری کے لئے ایک راہ متعین کرتی نظر آتی ہے وہی ان کی شاعری میں منفرد محاسن ومعائب بھی نظر آتے ہیں ۔وہ محاکات وتخیل کی روش کے علم بردار اور موضوع ومواد کے دلدادہ بھی ہیں ۔ان کی شاعری میں موجود نمائندہ شاعری محاسن کی تلاش سے پہلے ان کی حیات وادبی خدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
نندلال کول طالبؔ کی ولادت ۲۵ دسمبر ۱۸۹۹ء میں ملک یار فتح کدل،سرینگر میں ہوئی تھی۔ان کے والد ٹھاکر پرشاد کول ریاست کے ایک رئیس اور بڑے زمین دار تھے۔ان کے دادا پنڈت دیو کاک اپنے وقت کے بہت بڑے عالم،خوش نویس،موسیقی کار اور مصور تھے اور جد امجد پنڈت رگھو ناتھ کول کشمیر کے وزیر اعظم رہ چکے تھے۔گویا طالبؔ کا تعلق ایک معزز اور صاحب ثروت خاندان سے تھا۔
طالب ؔکے اسلاف کا تذکرہ کرکے ہم ان کی چا ر پشتوں سے واقف ہوجاتے ہیں ۔ان کے اسلاف نہ صرف عالم وفاضل،رئیس ودولت مند بلکہ موسیقی،خوش نویسی،مصوری جیسے شعبوں میں بھی مہارت رکھتے تھے۔طالبؔ کا پورا نام پنڈت نند لال کول تھا۔شاعری میں وہ پہلے دلبرؔ تخلص رکھتے تھے۱؎۔بعد میں انہوں نے طالبؔ تخلص رکھنا شروع کیا۔اگر طالب کے تعلیمی سفر پر نظر ڈالیں تو انہوں نے نویں جماعت تک سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دسویں جماعت میں فارسی کے مضمون کاانتخاب کیا۔ جب دنیا پہلی عالم گیر جنگ کے بھنور میں پھنس گئی تھی تو اسی سال ۱۹۱۴ء میں طالب نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے کشمیر کے پہلے کالج سری پرتاپ کالج سے تعلیم کے دوران پرئیویٹ طور پر منشی،منشی عالم اور منشی فاضل کے امتحانات بھی پاس کئے تھے۔اور ۱۹۱۸ء میں ایس پی کالج سے بالآخر بی۔ اے کا امتحان پاس امتیاز کے ساتھ کیا تھا۔ان باتوں سے طالبؔ کی محنت،لیاقت اور شجاعت صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے۔طالبؔ نے اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا اوریہاں سے فارسی اور اردومیں ایم اے کی ڈگریاں امتیاز کے ساتھ حاصل کیں ۔طالبؔ نے اپنے زمانے کے مطابق اعلیٰ سے اعلیٰ قسم کی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔طالبؔ کو تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا اور ان کا یہ شوق حقیقت میں بدل گیا ورنہ امیر گھرانوں کے لڑکے عشق وآرام کی زندگی گزرنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔
تعلیمی سفر کے بعد انسان کی زندگی کا دوسرا سفر روزگار کے سلسلے میں شروع ہوتا ہے۔اس معاملے میں طالب نہ صرف خاندان کے اثر رسوخ کی وجہ سے بلکہ تعلیمی قابلیت کی وجہ سے بھی خوش قسمت ثابت ہوئے اور ان کوایس پی کالج میں اردو اور فارسی کے لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت ملی۔اور وہ ترقی کرتے کرتے صدر شعبہ اردو اور فارسی کے عہدے پر پہنچے اور اسی عہدے سے ریٹائر بھی ہوئے۔اس کالج میں ملازمت کے دوران انہوں نے متعدد طالب علموں کے ذوق کی آبیار ی کی۔وہ کالج میگزین’’پرتاپ‘‘ کے لئے بھی مسلسل قلم کار کی حیثیت سے لکھتے تھے اور کالج کی مشہور علمی وادبی انجمن’’بزم ادب‘‘ کے ساتھ بھی وابستہ تھے۔انہوں نے اس انجمن کی کئی مجالس میں شرکت کرکے اپنا کلام سنایا ہے۔سری پرتاپ کالج ان دنوں شعرا وادباء کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم مانا جاتا تھا۔کشمیر میں اس کالج کو ایک یونیورسٹی کا درجہ حاصل تھا اور تمام سرکاری و غیر سرکاری محفلیں اسی کالج میں منعقد ہواکرتی تھی۔یہاں طالبؔ نے طالب علمی کے زمانے میں اور پھر ایک استاد کی حیثیت سے کئی بار آور شخصیات کے ساتھ کام کیا تھا جن کی صحبت کا اثر اس عظیم شاعر کی زندگی اور شاعر پر ایک روشن مینار کی طرف دیکھا جاسکتا ہے۔ان کے ہم عصر شعراء و ادباء کی تعداد حد سے زیادہ ہے چونکہ یہی دور کشمیر میں اردو شعروادب کا عہد زریں کہلاتا ہے۔ان کے ہم عمر ہم عصر شخصیات میں مرزا کمال الدین شیداؔ،سعد الدین سعد چستی،جیا لال کول،محمد الدین تاثیر،دینا ناتھ مست چکن،نرگس داس نرگسؔ،وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ان کے ہم عصر شعرا واباء میں کچھ اہم لوگ ان کے بڑے تھے جن میں خوشی محمد ناظر،سراج الدین احمد خان،عبدالصمد ککرو،محمد شاہ سعادت وغیرہ شامل ہیں اور کچھ ان سے عمر میں پانچ دس سال چھوٹے ہونے کے باوجود بھی ان کے ساتھ مجالس میں ساتھی کا کرداد نبھاتے تھے ان میں غلام محمد صادق،جلال الدین میشم،نجم الدین عشرت،پریم ناتھ پردیسی،پریم ناتھ در،غلام نبی گلکار،محمد سعید مسعودی،غلام علی بلبل،غلام محمد طاوس،محمد امین کامل،محمد امین پنڈت،حامدی کاشمیری،میکش کاشمیری،فاضل کاشمیری،دینا ناتھ نادم،پی این پشپ وغیر قابل ذکر ہیں ۔نند لال کول کے ان ہم عصروں کا تذکرہ اس حوالے سے اہم تھا کیونکہ نند لال کول کی شاعری کا تقابلی مطالعہ ان کے کسی بھی ہم عصر سے کیا جاسکتا ہے جو تاحال نہیں ہوا۔نند لال کول اور ان کے معاصرین کے ادبی خدمات پر تحقیقی کام کیا جاسکتا ہے جس طرف ابھی دھیان نہیں دیا گیا ہے۔اسی طرح ان کے ہم عصروں کو اسلاف،ہم عمر اور شاگردوں کے حوالے سے بھی کام کرنے کی گنجائش ہے مگر فرست ندارد۔
طالبؔ کئی سال تک جموں وکشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچرل اینڈ لینگویجز سرینگر کے ساتھ بھی وابستہ تھے۔انہوں نے یہاں سے شائع ہونے والی’’کشمیر ی اردولغت‘‘ میں بھی اپنی خدمات انجام دی۔یہ لغت کئی جلدوں پر مشتمل ہے اور کشمیری ادب کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں بھی ایک مشعل راہ ثابت ہورہی ہے۔شاعری کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی کام میں بھی ان کی خاصی دلچسپی تھی اور ان کے متعدد تحقیقی مضامین شائع بھی ہوئے تھے۔مگرموت کا جام ہر کسی کو پینا ہے اور طالبؔ جیسے قابل اور محنتی شاعرکو بھی موت کا یہ جام ہنستے ہنستے پینا پڑا اور یوں وادی کشمیر خصوصاً اور اردو ادب بالعموم ایک دوخشندہ ستارہ سے ۱۹۷۱ء میں محروم ہوگئی۔اپنی ۷۲ سال کی عمر میں انہوں نے لاتعداد طالب علموں کی سرپرستی کی،سینکڑوں جگنو قافلے کے شعراء کی آبیاری کی،مشاعروں کی زینت بڑھائی اور سمیناروں کی کہکشاں میں چار چاند لگائے۔
اگر طالبؔ کی شعرانہ عظمت کی بات کریں تو وہ طالب علمی کے زمانے ہی سے شعر گوئی کا اچھا خاصا شعور رکھتے تھے۔اتنا ہی نہیں جب وہ دسویں جماعت کے طالب علم تھے تو انہوں نے انگریزی زبان میں دو کتابچے بھی تصنیف کئے تھے۔جو ان کی قابلیت کی دلالت کرتا ہے۔سری پرتاپ کالج میں طالب علمی کے دنوں میں مولوی امیر الدین امیرؔ نے ان کی شاعری کی بڑی حوصلہ افزائی کی تھی۔اور یہی حوصلہ افزائی تھی جس نے کشمیر کے اس منظورِشاعر کے حوصلوں کو آسما ن پر پہنچادیا۔انہوں نے شعر گوئی میں بعض لکھنوی اساتذہ سے بھی استفادہ کیا تھا۔اور بارہ سال کی عمر میں یعنی ۱۹۱۱ء میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔ان کا پہلا شعر ملا حظہ فرمائیں ؎
کیا وہ نہ آئیں بیٹھو بھی ہے جذب دل وہ چیز
محفل سے لیلیٰ نامہ محمل سے اُتار دین ۲؎
شاعری میں طالبؔ امیر الدین امیرؔ،سیماب اکبر آبادی اور علامہ کیفی دہلوی جیسے مشہور زماں شعراء سے اصلاح لیتے تھے۔وہ علامہ کیفی سے ڈاک کے ذریعے سے شاعری پر اصلاح لیتے تھے۔جس کا اظہار انہوں نے خود ان الفاظ میں کیا تھا:
’’ براہ راست کلام پر اصلاح لینے کے علاوہ مجھے ان کے فیضِ صحبت سے وہ فائدہ حاصل ہوا جو شاید کسی اور صورت میں ممکن نہ تھا۔‘‘ ۳؎
استاد اور طالب،پیر اور مرید،والدین اور اولا،خالق اور مخلوق کا رشتہ ہر زمانے میں عظیم رہا ہے۔علاقہ اقبال اور ان کے استاد محترم مولوی میر حسن سے کون واقف نہیں ۔اردو زبان و ادب کا مطالعہ جب غائر انداز میں کیا جاتا ہے تو یہ استاد اور طالب کا انمول رشتہ وہاں بھی عروج پر نظر آتا ہے۔اور ہمارے کچھ مشاہیر ادب نے اپنے اساتذہ کو ادب کے اول درجہ کے شعراء اور ادباء پر ترجہی دی ہے جس کو یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بہرحال علامہ کیفی کی شاگردی پرطالب کو وہی فخر اور احساس برتری تھی،جو اقبال کومولوی میر حسن اور داغ دہلوی کے شاگرد ہونے پر تھی۔اس کا اظہار طالب ؔ کے اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے ؎
حضرت کیفی کی شاگری پر نازاں کیوں نہ ہو
میں ہوا طالب تو بخشا فیض روحانی مجھے
طالب ؔ کی شاعری کے مطالعے سے جن اہم باتوں کی طرف دھیان جاتا ہے ان کا محاکمہ یہاں ہم بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔انہوں نے قومی،سیاسی،وطنی اور مذہبی موضوعات پر اعلیٰ اور کثیر تعداد میں نظمیں اورغزلیں لکھیں ہیں ۔ان کی شاعری میں روایتی قسم کے تمام موضوعات جلوہ گھر نظر آتے ہیں ۔وہ اگرچہ خود سادی مزاج تھے اور یہ سادگی ان کی شاعری کا بھی ایک اہم جز تھا۔علامہ کیفی ان کی سادہ مزاجی اور نیک سیرت واخلاق کے زبردست قائل تھے۔ وہ ان کی شاعری کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’ ان کے کلام میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طرز میں اپنا رنگ جما سکتے ہیں ۔احساسات قلبی کی تصویر کھینچنے میں ان کو کمال کا درجہ حاصل ہے اور یہی حقائق نگاری کا ہے۔‘‘ ۴؎
ان کی شاعری کی دھوم کشمیر سے ہندوستان اور یہاں سے برصغیر اور عالمِ ادب تک پہنچی ہے۔اس شہرت عام اور بقائے دوام کا ہی اثر تھا کہ شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی بھی ان کی خدمات کو نظر انداز نہ کرسکی۔اور انہوں نے غلام احمد وانی کو پروفیسر محبوبہ وانی صاحبہ کی نگرانی میں ’’ طالبؔ کشمیری: شخصیت اور فن‘‘ کے موضوع ایم فل کی ڈگری تفویض کرائی تھی۔حالانکہ طالبؔ کی ادبی خدمات اور شاعری کنواس اتنا وسیع ہے کہ اس پر ایک نہیں متعدد پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاسکتی ہے۔من جملہ اتنا کافی سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ ہندوستان میں انسان کو مرنے کے بعد عزت ملتی ہے لیکن کشمیر میں کشمیری کتنا بھی اچھا کام کیوں نہ کرئے اس کی کسی حال میں پزیرائی ممکن نہیں ہے۔بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کشمیر کے اس منظور نظر شاعر کے بارے میں لکھا تھا:
’’ میں نے جستہ جستہ آپ کا کلام دیکھا۔مجھے فی الحقیقت تعجب ہے کہ آپ نے وادی کشمیر میں رہ کراردو زبان پر ایسی قدرت کیونکر حاصل کرلی۔یہ آپ کی ذہانت اور فراست کی دلیل ہے اس پر آپ کی نظر،آپ کا بیان قابل داد ہے بیان میں صفائی اور گداز ہے۔‘‘ ۵؎
انہوں نے شاعری کا آغاز زمانے کے رواج کے مطابق غزل گوئی سے کیا تھالیکن آخری دور میں نعتیہ شاعری اورنظمیں بھی لکھنے لگے تھے۔خیال کی وسعت،بیان کی متانت اور زبان کی برجستگی ان کے کلام کی بنیادی خصوصیات ہیں ۔ان کی نظموں کے موضوعات متنوع ہیں ۔انہوں نے قومی،سیاسی،سماجی،مذہبی غرض ہر طرح کے موضوعات پر نظمیں لکھیں ہیں ۔ان کے کلام کا پہلا مجموعہ’’ رشحات التخیل‘‘ کے عنوان سے ۱۹۲۵ء میں شائع ہوا تھا اوراس میں غزلیں اور نظمیں شامل تھی۔اس مجموعے کے دیپاچہ میں علامہ کیفی نے طالبؔ کی شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا تھا:
’’ ستھرا چلن اور سلاست روی،انکساری،عالی ہمتی اور سادہ مزاجی ان کے اشعار کے جزو اعظم ہیں ۔۔۔ہمدردی اور جواں مردی ان کے آب وگل میں ہے۔یہ اہلیت،یہ سلیم المزاجی اور نیک اخلاقی ان کے اکثر ہم عصروں میں پائی نہیں جاتی ہے۔‘‘ ۶؎
طالب کاشمیری نام کا یہ کوہ نور ہیرا اس لحاظ سے بھی اولیت کا حامل ہے کہ وہ کشمیر کے پہلے شاعر تھے جن کا مجموعہ کلام شائع ہوا تھا اور اس کو ادبی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ پزیرائی بھی ملی تھی۔حالانکہ ان کا پہلا مجموعہ کلام آج مشکل سے ہی کہی دستیاب ہے۔ان کا دوسرا مجموعہ کلام’’ مرقع افکار‘‘ کے نام سے ۱۹۵۲ء میں منظر عام پر آیا تھا۔اس مجموعے میں زیادہ طرح نظمیں ملتی ہیں ۔اس میں جگہ جگہ کشمیر کے قدرتی مناظر جلوہ گر ہوجاتے ہیں ۔اس میں کشمیر کی عکاسی اس انداز سے کی گئی ہے کہ آج تک کے مجموعہ کلام میں اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے۔
پیش خدمت ہے ان کی نظم’’ کشمیر کا حقیقی رہنما‘‘ سے چند اشعار جو انہوں نے شیرِ کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی آخری بار جیل سے رہائی کے وقت لکھی تھی اور یہ نظم ۲۱ نومبر ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی تھی۔
شفا بخش قلوب خستگان جس کا عمل دیکھا
حمایت میں جسے آفت زددں کی بے بدل دیکھا
یہاں کی سر زمیں سے جو اُٹھا ہے سرخرو ہوکر
دلوں میں ہند کے لوگوں کے پٹھا آرزو ہوکر ۷؎
اس مجموعہ کلام کا دیپاچہ پروفیسر ضیا احمد بدایونی نے۱۲ مارچ ۱۹۵۲ء میں لکھا تھا۔جس میں وہ طالبؔ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’طالبؔ صاحب کا اصل وطن کشمیر ہے جو دہلی،آگرہ اور لکھنو سے کوسوں دور ہے۔لیکن یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ ان کوزبان اور بیان پر قدرت حاصل ہے۔۔۔ان کے کلام میں بے ساختگی اور روانی کی افراط ہے۔نظموں کی نظمیں پڑھ جائیے یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ ایک ایسے فرد کا کلام ہے جس کی مادری زبان کشمیری ہے۔‘‘ ۸؎
اس مجموعہ کلام میں شامل نظموں کو ہم بڑی اکائیوں کے طور پر پانچ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔جن میں ’’ مذہب،قدرتی مناظر،سیاست،معاشرت،سماج و تمدن اور عشق و عاشقی‘‘ جیسے زمرے شامل ہیں ۔حالانکہ اس مجموعہ کلام میں حبہ خاتوں اور لل دید کے کشمیری کلام کا اردو ترجمہ بھی شامل ہے۔لیکن صحیح معنوں میں یہ مجموعہ انہیں پانچ اکائیوں کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے۔مذہبی موضوعات پر اس مجموعہ میں نو نظمیں شامل ہیں ۔جن کے عنوانات’’ مرثیہ فرزند،شیوراتری،ظہور کرشن،جنم اشٹمی،شری کرشن جی بانسری،مالک کل،
مذہب،مذہب سریع العمل،سیدھا اور آسان ہو،دنیا کی محبت کم کی کاجائے اور فقیروں کی صحبت‘‘ ہیں ۔ہندو دھرم کے تعلق سے انہوں نے اس کی مکمل حمایت اور عکاسی کی ہے۔انہوں نے تمام اہم تہواروں کے ساتھ مذاہب کی تعلیمات کو بھی پیش کیا ہے۔جس طرف عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں ہندوستان کے ہر چھوٹے پڑے تہوار کا ذکر ملتا ہے ٹھیک اسی طرف طالب ؔ کے قلم سے کوئی تہوار عکاسی کے خالی نہیں رہا ہے۔پیش خدمات چند مذہبی نظموں کا انتخاب ؎
کھا گئی کس کی نظر تجھ کومری جاں ہے ہے! ہو گیا تو نگہِ شوق سے پنہاں ہے ہے!
کیا سیہ روز ہوں میں کشتہ حرماں ہے ہے! دل کے دل ہی میں رہے سب مرے ارماں ہے ہے!
رقت انگیز نہ کیوں کر ہو کہانی تیری
حیف صد حیف کہ دیکھی نہ جوانی تیری (مرثیہ فرزند،ص: ۶۱)
حبِ دنیا آدمی میں چاہیے کم ہو ضرور زر،زن واولاد کی دل بستگی میں ہے فتور
لیکن اس کا یہ نہیں مطلب کہ وہ بابا بنے بہر دیدار الہی تارک دنیا بنے (دنیا کی محبت کم کی جائے،ص:۹۴۔۹۵)
اس مجموعہ کا دوسرا زمرہ قدرتی مناظر کی عکاسی میں لکھی گئی نظموں پر مشتمل ہے۔اس زمرے میں کل نو نظمیں شامل ہیں ۔جن کے موضوعات’’ پیام نوروز،بسنت،عالمِ مجاز،بہار،شفقِ شام، قوس قزح، ایک دلکش رات،سورج کی پہلی کرن،نوروز کا مبارک پیغام نوجوانوں کے نام‘‘ ہیں ۔اس میں کم و بیش تمام خاص قدرتی مناظر اور اہم واقعات کی عکاسی کی گئی ہیں ۔انہوں نے دیگر شعراء کی طرح کشمیر کے قدرتی مناظر جیسے پہلگام،گلمرگ،نشاط،شالیمار،ویری ناگ،بال تل،ککرناگ،جھیل ڈل،ولر وغیرہ کی سیدھے اور صاف الفاظ میں ترجمانی نہیں کی ہے بلکہ اشاروں اور کنایہ کی صورت میں ان قدرتی مناظر کو ایک نئے پیرائے میں پیش کرکے لازوال بنادیا ہے۔ملا حظہ فرمائیں چند نظموں کا انتخاب ؎
رات کا پچھلا پہر تھا، جلوہ مہتاب تھا
شاعر خوشگو ابھی محوِ خمار خواب تھا
صبحِ خنداں جلوہ ہائے نوسے ہم آغوش تھی
دلنشین انداز سے ساری فضا خاموش تھی (نظم:پیغام نوروز،ص:۲۵)
ہر ایک اعتبار سے شگفتہ حسن یار ہے نگاہِ انتخاب اب سکون در کنار ہے
یہ شانِ کردگار ہے(نظم: بسنت،ص:۲۸)
یہ نجم زار آسمان ¶یہ رودِ نورکہکشاں
یہ مہر وماہ کا سماں ¶یہ منظر طرب فشاں
نظر فروز وضو چکاں ¶کبھی عیاں کبھی نہاں
یہ عالمِ مجا ز ہے
کہ زندگی کاراز ہے(نظم: عالمِ مجاز،ص:۳۰)
صبح نشاط سے سواشام ہی نظر فریب
گلشن شالامار ہےحامل حسن لاجواب
حامل حسن لاجواب
گلشن شالا مار ہے۔(نظم: بہار،ص:۳۱)
وادی گل کیا خُلد آئیں ہےرقص میں ہے ہر ندی نالا
کیف میں ہیں سرشار یہاں سب
دیدہ دل ہے منظر رنگین
شاہدِ فطرت خندہ جبیں ہے۔
(نظم: ایک دلکش رات،ص:۳۷)
تیسرے زمرے کے تحت سیاست جیسے موضوع پر بحث ملتی ہے اور کشمیر کے چند خاص سیاسی موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہیں ۔اس قسم کی نظموں میں ’’سروس لیگ،قوم پرستی کا پیغام اہل وطن کے نام،کشمیر کا حقیقی رہنما،کشمیر پر قبائیلوں کا حملہ نوجوانوں سے خطاب،وطن کو دشمنوں سے بچاو،جشن آزادی کشمیر کی تقریب پر،کشمیر کی آزادی اور اخبار رنبیر کی جوبلی‘‘ شامل ہیں ۔ان نظموں کا عنوان صاف طور پر درشاتا ہے کہ یہ کسی تاریخی یا سیاسی موضوع پرلکھی گئی ہیں ۔انہوں نے ڈوگرہ حکومت کت ظلم وستم کے عکاسی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے بلکہ ہر ظلم کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی ہے۔اتنا ہی نہیں جب ۱۹۴۷ء میں کشمیر پر پاکستان سے آئیے ہوئے قبائلی فوجیوں نے حملہ کیا تھا تو اس حملے کی بھی ترجمانی کی ہے اور نوجوانوں کو قوم کی حفاظت کے لئے تیار رہنے کی طلقین بھی کی تھی۔پیش ہیں چند اشعار ؎
جو حق پرست تھے وہ بھی جفا پرست ہوئےکبھی امیر تھے جو اب وہ فاقہ مست ہوئے
جو اپنی قوم میں تھے سر بلند پست ہوئےفراخ دست تھے جو آہ! تنگدست ہوئے
وہاہے، قحط ہے یا یہ بھی بل ہے رولٹ کا
دلوں میں کردیا بیدار موت کا کھٹکا(سروس لیگ،ص:۹۸)
اُٹھو اہلِ وطن ڈالیں بنا قومی عمارت کیکریں تکمیل اس میں کاروبارِ دین وملت کی
رگوں میں روشنی بیدار ہو قومی حمیت کیتحوست دور ہو اس خط خوابیدہ قسمت کی
یہیں مسجد ہو اپنی اور یہیں اپنا شوالا ہو
جہاں میں اتحادِ قومیت کا بول بالا ہو(قوم پرستی کا پیغام اہل وطن کے نام،ص:۱۰۲)
لکھا ہے جس کی پیشانی پہ لفظِ شوق آزادی
مٹائی ہے غرض جس نے بنائے خانی بربادی
وہی ہے ناخدا اپنے وطن کی ناو کھیتا ہے
خطاب قائد اعظم اسی کو زیب دیتا ہے
(کشمیر کا حقیقی رہنما،ص:۱۰۴)
چوتھا زمرہ کسی حد تک چھوٹا ہی نظر آتا ہے جس میں ’’ استاد کی بدحالی،ادھکاری کی قسمیں ،ادھکاری کیا چاہتا ہے‘‘ شامل ہیں ۔اس میں پہلی نظم خاص اہمیت کی حامل نظر آتی ہیں ۔پیش ہے اس نظم کے چند اشعار ؎
آج کل ہے صیدِ آلام و محن استاد بھیتختہ مشق جفا اتنا نہ تھا فرہاد بھی
ایک دن وہ تھا کہ سرجھکتے تھے اس کے حکم پرایک دن یہ ہے نہیں سنتا کوئی فریاد بھی
ذات میں اس کی ہے مضمر راز اوج ملک کازندہ ہیں اقوام اس مستفید افراد بھی(استاد کی بدحالی،ص:۵۵)
پانچواں زمرہ ہر شاعر کی روح میں پیوست ہوتا ہے اور عموماً اسی چیز سے تمام شعراء نے شروعات کی ہے۔اس ضمن میں طالبؔ نے یہاں نو نظموں کی قطار لگا دی ہے جن کے عنوانات’’ شکوہ دوست،نامہ محبوب،جلوہ دلدور،تنہائی،نورجہاں ،خطاب بہ خواب،عورت، مرزا غالبؔ اور طالب یا شوق‘‘ ہیں ۔نظم ’’مرزا غالب اور شکوہ دوست‘‘ کو اس زمرے میں رکھنا ایک عام سی وجہ ہے کہ انسان اگر دوست کی شکایت کریں تو یہ بھی عشق کی ایک علامت ہوتی ہے اور اگر کسی اہم شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرے تو یہ بھی ایک قسم کا ہی عشق ہوتا ہے جو شاعر کو اس پر قلم اُٹھانے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں چند اشعار ؎
ملا حظہ فرمائیں نظم مرزا غالب سے چند اشعار ؎
روح کو بالیدگی ملتی ہے جس کی یاد میں ترزباں ہیں خوش بیاں جسکے سخن کی داد میں
جس کا نغمہ وجدا زہے خاطر ناشاد میں جو نظیر اپنی تھا خود اس عالم ایجاد میں
اور اب خوابیدہ ہی خاک جہاں آباد میں (مرزا غالب،ص:۷۲)
اے دل نواز ودلربااے ساقی بزم وفا
اے دلبر نازک ادامیں ہوں گرفتار بلا
تو ہوگیا جب سے جدا تیرا نہ کوئی خط ملا
کچھ تو نوید جانفزادیتا کبھی بہر خدا
بے چین ہے قلب حزیں
اور میں گرفتار الم
مہجور ہوں ، اندو ہگیں
اب کیوں نہیں مجھ پر کرم(نظم: شکوہ دوست،ص:۴۲)
آنکھ سے اوجھل رہا تو ہوکے دُورسوزِ فرقت سے ہوا دل باغ باغ
ہوگیا برباد میں ہجراں نصیب
بے سبب یہ یاد فرمائی نہیں (نظم: نامہ محبوب،ص:۴۷)
پھول میں ہی رنگ وبُواور ہے موتی میں آب
برق میں اک اضطراب
روح و دل وجان عشقحاملِ صدانقلاب
نغمے سناتا ہوا
صرفِ خرام بہار
جلوہ دلدار ہے(نظم: جلوہ دلدار،ص: ۵۰)
انہوں نے کشمیر کی خوبصورتی کے بارے میں متعدد نظمیں اور غزلیں لکھیں ہیں ۔ان میں ’’ بہارِ کشمیر، اہرہ بل کی سیر،آبشار اور میں ،جلوہ دیدار،تنہائی،عورت،نورجہاں ،ظہورِ کرشن،،مذہب،سروس لیگ،کشمیر کا حقیقی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ان کی شاعری پر چکبستؔ کی چھاپ نظر آتی ہے اور انہوں نے انہیں موضوعات پر قلم اُٹھا یا ہے جن پر چکبستؔ نے لکھا ہے۔ طالبؔ کشمیر کا ایک اعظیم اور انقلابی شاعر ہونے ساتھ ساتھ ایک جدید طرز کا شاعر گزرا ہے۔ان کے شاعری مجموعوں پر نظر دوڑائے تو ان میں مسلط کی کم و بیش تمام ہیتیوں میں طبع آزمائی ملتی ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے کچھ ایسی ہیتوں کی ایجاد بھی کی ہیں جن کو صحیح معنوں میں ان کا ہی طرہ امتیاز کہا جاسکتا ہے۔ان کے کلام میں روایتی قسم کی غزل(استاد کی بدحالی،جشن آزادی کشمیر کی تقریب پر،)،مثنوی(قوس قزح،خطاب بہ خواب،شیوراتری،
ظہور کرشن،طلب یا سوق،ادھکاری کی قسمیں ،ادھکاری کیا چاہتا ہے،مالکِ کل،مذہب،مذہب سریع العمل،سیدھا اور آسان ہو،
دنیا کی محبت کم کی جائے،فقیروں کی صحبت،کشمیر کا حقیقی رہنما،کشمیر کی آزادی اور اخبار رنبیر جموں کی جوبلی)،مثلث(ایک دلکش رات،
تنہائی،)،مربع،مخمس(مرزا غالبؔ،نوروز کا مبارک پیغام جوانان وطن کے نام،)،مسدس(بہار،نورجہاں ،مرثیہ فرزند،سری کرشن جی
کی بانسری،سروس لیگ،قوم پرستی کا پیغام اہل وطن کے نام،کشمیر پر قبائیلیوں کا حملہ،)،ترجیع بند اور ترکیب بند بھی نظر آتے ہیں ۔ان کے مجموعہ کلام’’ مرقع افکار‘‘میں جو نئی ہیتیں نظر آتی ہیں ان میں چند اس طرح سے ہیں کہ روایت سے ہٹ کر لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔مثلث کا تیسرا مصرعہ چھوٹا لکھاہے(نظم :بسنت،سورج کی پہلی کرن،)،مثمن(عالم مجاز،جلوہ دیدار،)،مخمس کا پانچوں مصرعہ قدرِ چھوٹی بحر میں لکھنا(شفق شام)،بارہ مصرعوں پر مشتمل ایک بند قلم بند کرنا(شکوہ دوست)،مسبع (نامہ محبوب)،مستزاد(عورت،)،متسع(جنم اشٹمی) اور کچھ دیگر ہیتیں بھی ملتی ہیں ۔ان تمام ہیتوں میں مسدس اور مثنوی کا ستعمال زیادہ ملتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبؔ کو بھی یہ ہیت پسند تھی۔
طالب کاشمیری نے شاعری کے علاوہ نثر نگاری میں بھی طبع آزامائی کی تھی۔وہ نثر بھی کمال کی لکھتے تھے۔ان کے مقالات کا پہلا مجموعہ ’’جوہر آئینہ‘‘پہلی بار ۱۹۷۱ء میں شائع ہوا تھا۔اس کے علاوہ پروفیسر جیالال کول کے ساتھ مل کر لل دید پر ایک کتابچہ لکھا اور علامہ کیفی دہلوی کی یاد میں ایک مضمون بھی لکھا ہے۔بہر حال ان تمام محاسن کو ذہن میں رکھتے ہوئے اتنا تو ضرور کہا جاسکتا ہے کہ طالب نہ صرف کشمیر بلکہ اردو دنیا کے ایک بہترین شاعر گزرے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ان کی ادبی خدمات کو سمیناروں ،کانفرنسوں ،مضامین،
تبصروں وغیرہ کی وساطت سے منظر عام پر لایا جائے تاکہ ان کی خدمات اور بہترین شاعری سے ارباب سخن اور ارباب ذوق لطف اندوز ہوسکیں ۔اس ضمن میں اس اہم کام کی ذمہ داری کلچرل اکادمی،شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی،ریڈیو کشمیر،دوردرشن سرینگر اور دیگر اداروں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ طالبؔ اور ایسے ہی متعدد گمنام شعرا کو اردو دنیا سے روشناس کرائے۔تاکہ وہ بھی جان سکے محسوس کرسکیں کہ یہ گمنام شاعر اصل میں کشمیر کے منظورنظر شاعر ہیں اور ان کی قدر ہر کشمیری کے دل میں ہے اور ٹھنڈک آنکھوں میں نظر آتی ہے۔
کون کہہ سکتا ہے ہے اس ہستی کو پھر اصلی حیات؟
خاک ایسی زندگی پر جو ہو پابندِ ممات!
٭٭٭٭٭
حوالہ جات
(۱)کشمیر میں اردو،جلد۲،پروفیسر عبدالقادر سروری،جموں وکشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچرل اینڈ لینگویجز سرینگر،۱۹۸۲ء،ص:۵۵۴)
(۲)مشاہیر کشمیر،مرتب محمد امین اندرابی،ویری ناگ پبلیشرز،میرپور آزاد کشمیر،۱۹۹۱ئ،ص:۱۴۷)
(۳)مشاہیر کشمیر،مرتب محمد امین اندرابی،ویری ناگ پبلیشرز،میرپور آزاد کشمیر،۱۹۹۱ئ،ص:۱۵۳)
(۴) ریاست جموں وکشمیر میں اردو ادب،پروفیسر حامدی کاشمیری،شیخ محمد عثما ن اینڈ سنز سرینگر،۲۰۱۰ء،ص:۹۰)
(۵)جموں وکشمیر میں اردو ادب کی نشوونما،ڈاکٹر برج پریمی،رچنا پبلی کیشنز جموں ،۲۰۱۳ء،ص:۱۵۵)
(۶)مشاہیر کشمیر،مرتب محمد امین اندرابی،ویری ناگ پبلیشرز،میرپور آزاد کشمیر،۱۹۹۱ئ،ص:۱۴۵)
(۷)مرقع افکار،طالب کشمیری،نظامی پریس بدایوں ،یوپی،۱۹۵۲،ص:۱۰۲۔۱۰۳)
(۸)مشاہیر کشمیر،مرتب محمد امین اندرابی،ویری ناگ پبلیشرز،میرپور آزاد کشمیر،۱۹۹۱ئ،ص:۱۵۵)
…………
POSTAL ADDRESS
FROM:MOHD YASEEN GANIE,S/O:AB REHMAN GANIE
R/O: BABHARA,PULWAMA,KASHMIR.
P/O: TIKEN BATPORA, PINCODE: 192306
PHONE:9858990927,
Email:myganie123@gmail.com
RESEARCH SCHOLAR: DEVI AHILYA VISHWAVIDYALA INDORE(M.P)
٭٭٭٭٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!