ولیم ورڈس ورتھ کا شعری تصور نقد
ولیم ورڈس ورتھ(William Wordsworth)برطانیہ میں رومانی تحریک کا نمائندہ شاعراور نقاد تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کی ولادت کبر لینڈ کے ایک قصبہ میں ۱۷۷۰ میں ہوئی،یہیں اس نے بچپن کے ایام بسر کیے۔وہ یہاں کے خوبصورت قدرتی مناظر اورپرامن زندگی سے بے حد متاثر ہوا۔اس کی زندگی پر بچپن کے ان ایام کا گہرا اثرمرتب ہوا جو دنیا کی بہترین’ ’ فطری شاعری‘‘کو جنم دینے کا باعث بنا۔وہ اکثر اپنی چھٹیاں قدرتی مناظر کی سیاحی میں گزارتے تھا۔۱۷۹۰ میں ورڈس ورتھ نے یوروپ کا پیدل سفر کیا۔پھرکوہ آلپس،فرانس، سوئٹزر لینڈ اوراٹلی وغیرہ ممالک کے علاوہ ان کے قرب وجوار کے علاقوں کا سفر کیا۔یہ حسن اتفاق تھا کہ انقلاب فرانس (۱۷۸۹)کے وقت ورڈس ورتھ وہیں موجود تھا اور جب اپنے ملک برطانیہ واپس لوٹا تو انقلاب،آزادی اور رومان کے جذبہ سے سرشار تھا۔کولرج کی مدد سے اس نے انگریزی میں نئی شاعری کی بنیاد ڈالی۔
۱۷۹۸ میں ورڈس ورتھ نے ایس ٹی کولرج (S.T.Coleridge)کے اشتراک سے’’لیریکل بیلیڈز‘‘(Lyrical Ballads)کے نام سے اپنا مجموعہ کلام شائع کیا جو برطانیہ میں رومانی تحریک کا پیغام رسا ثابت ہوا۔۱۸۰۰ میں ورڈس ورتھ نے لیریکل بیلیڈز کے دوسرے ایڈیشن کے لیے جو دیباچہ تحریر کیا تھا وہ رومانی تحریک کے’’ ادبی منشور‘‘(Literary Manifesto)کی حیثیت رکھتا ہے۔جوتنقید شعری کے لافانی شاہکاروں میں شمار ہوتا ہے۔اس دیباچہ میں وہ اپنے نقطہ نظر اور نئی شاعری کی ماہیئت کی بخوبی وضاحت کرتا ہے۔اسی دیباچہ سے انگریزی میں رومانی تنقید کا آغاز بھی ہوتا ہے۔اس دیباچہ میں شعروشاعری کے بارے میں ان سارے خیالات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر نئے مذاق سخن کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
ورڈس ورتھ اپنے دیباچہ کی ابتدا اس انقلابی اعلان سے کرتا ہے کہ شاعری اب صرف بادشاہوں ، نوابوں ،امیروں اور جاگیرداروں کے لیے نہیں ہے۔اب وہ عہد اور ماحول گزر چکا ہے جب ان کی پسند،ان کا مذاق ادب،ان کے موضوعات اور زبان کا معیار شاعروں کے لیے رہنمااصول کا درجہ رکھتے تھے۔اب زبان اور موضوع قلعوں اور محلوں سے نکل کر بازاروں ،پارکوں اور عوامی مقامات میں آگئے ہیں ۔اس کا مقصد عوامی زندگی سے موضوعات حاصل کرکے انھیں شاعری کے روپ میں پیش کرنا ہے۔
ورڈس ورتھ مذب شہری زندگی کے بجائے دیہاتی زندگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔وہ دیہاتوں اور کاشت کاروں کی تعریف اور بڑائی بیان کرتا ہے اور انہیں کی زبان میں شاعری کی وکالت کرتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ:
’’شعری زبان انسانوں کی حقیقی زبان کا انتخاب ہونی چاہیے۔۔۔۔۔شاعر کو عام انسانوں کی زبان استعمال کرنی چاہیے۔‘‘(بحوالہ مغرب کے تنقیدی اصول:سجاد باقر رضوی)
ورڈس ورتھ کے مطابق کلاسیکیوں نے شاعری کے لیے ایک بناوٹی،مصنوعی اور غیر فطری طرز بنایا تھا۔ وہ اس طرز کے خلاف صدا بلند کرتا ہے اور روز مرہ کی عام فہم زبان کو شاعری میں استعمال کرنے کی بھی صدا بلند کرتا ہے۔
ورڈس ورتھ کو شہری زندگی سے دلچسپی اور انسیت نہیں ہے۔اس کا نظریہ یہ ہے کہ فطرت(Nature) کے ساتھ رہنے والاشخص شہر میں رہنے والے سے بہتر ہوتا ہے۔دیہات کی زندگی میں انسان کے جذبات و احساسات فطرت سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں ۔اسی لیے وہ دیہات اور مناظرقدرت کو فطری یا نیچرل شاعری کا بہترین موضو ع قرار دیتا ہے۔وہ اپنے ان خیالات میں فرانسیسی فلسفی روسو سے متاثر نظرآتا ہے۔
اپنے اس دیباچہ میں ورڈس ورتھ یہ سوال بھی کرتا ہے کہ شاعر کسے کہتے ہیں ؟وہ کس طرح کے تخلیقی عمل سے گزرتا ہے اور ذہنی حالت میں مائل تخلیق ہوتا ہے؟اس سے کس قسم کی زبان کی توقع رکھنی چاہیے؟وغیرہ۔وہ سوال کرتا ہے کہ:
“I ask what is meant by the word poet?What is a poet?To whom does he address himself?and what language is to be expected from him?”(Preface Lyrical Ballads) اپنے ان سوالات کے جوابات ورڈس ورتھ خود ہی دیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ شاعرایک آدمی ہے جو دوسروں سے باتیں کرتا ہے۔وہ ایک ایسا آدمی ہوتا ہے جس کا ادراک زندہ ہوتا ہے۔جس میں دوسروں کے مدمقابل جذبات زیادہ ہیں جو فطرت انسانی سے زیادہ واقفیت رکھتا ہے۔ورڈس ورتھ کے لفظوں میں :
”He is a man speaking to men:a man,it is true endued with more lively sensibility,more enthusiasm and tenderness who has a greater knowledge of human nature,and more comprehensive soul than are supposed to be common among mankind,a man pleased with his own passions and volitions and who rejoices more than other men in the sprit of life that is in him”
(Preface Lyrical Ballads)
شاعر اپنے جیسے جذبات واحساسات اور ارادوں کو دیگرافراد میں دیکھنے کے بعد ان پر غوروفکر کرتا ہے اور پھر ان کی تخلیق کرتا ہے۔چوں کہ شاعری انسان کے عظیم فطری احساسات و بے ساختہ جذبات کا اظہار ہے اس لیے نہ تو اسے سیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے کوئی محدود بندھے ٹکے اصول وضوابط ہو سکتے ہیں ۔ ورڈس ورتھ کے مطابق شاعر ایک غیر معمولی انسان ہوتا ہے۔وہ کچھ مخصوص صلاحتیں اپنے ساتھ لے کر جنم لیتا ہے اسی لیے وہ انفرادیت(Individuality)کو شاعر اور شاعری کے لیے بے حد اہم مانتا ہے۔
ورڈس ورتھ نے شاعری کے مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اس کے نزدیک شاعری کا کام یہ ہے کہ وہ قارئین کے سوئے ہوئے جذبات کوبیدار کرے اور ان میں اعلیٰ احساسات کی تحریک کے ساتھ انھیں مسرت وانبساط پہنچائے۔وہ کہتا ہے کہ:
’’شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ انسانی معاشرے کی عظیم مملکت کو جذبہ اور علم سے منور کرے۔‘‘
(بحوالہ مغرب کے تنقیدی اصول:سجاد باقر رضوی،ص:۲۰۳) ’’قارئین میں انکساری اور انسانیت پیدا کرے تاکہ وہ پاکیزہ جذبات اور ارفع خیالات کے حامل ہوسکیں ۔‘‘ (ایضاً)
’’شاعر پر محض ایک پابندی ہوتی ہے اور وہ ہے انسانوں کو مسرت بخشنے کی پابندی۔اس لیے اس کے پاس وہ معلومات ہوتی ہیں جن کی ا س سے توقع ہوتی ہے۔‘‘(ایضاً)
ورڈس ورتھ نے اپنے دیباچہ میں اس امر کی وضاحت بھی کردی ہے کہ حصول مسرت کی شرط کا مطلب فن پارہ کو اس کی اعلیٰ سطح سے گرانا مقصود نہیں بلکہ یہ تو کائنات کے حسن کے ادراک کا ایک انداز ہے۔ورڈس ورتھ کے اس نظریہ کی ادبی اہمیت کو ڈیوڈ ڈیشنز نے یوں واضح کیا ہے کہ:
’’ورڈس ورتھ نے ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی کے بہت سے ناقدین کے وضع کردہ فارمولے اخلاقی پرچار اور حصول مسرت سے اخلاقی پرچار کو خارج کردیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسرت کی آفاقی حیثیت پر اصرار کر کے انسان اور فطرت میں اس کی عالمی حیثیت پر زور دے کر اس نے خود کو فلسفہ نشاط کو شی کا بھی اسیر ہونے سے بچالیا۔اس نے افلاطونی الجھن کا ایک نیا ہی حل تلاش کیا یعنی شاعری نقل کی نقل نہیں بلکہ اس میں دونوں کی صاف اور حیاتی تصویر کشی ملتی ہے۔ـ‘‘(بحوالہ کلاسیکیت اور رومانویت:علی جاوید،ص:۳۲۷)
ورڈس ورتھ شاعری کا موضوع ایسی صداقت قرار دیتا ہے جو انفرادی اور مقامی ہونے کے بجائے عمومی اور عملی ہوتی ہے اور جس کا انحصار شواہد پر نہ ہو بلکہ جو جذبہ کے ذریعہ جیتی جاگتی صورت میں دل میں اتر جائے۔وہ شاعری میں بعض مستقل اقدار(Permanent Values)کا بھی حامی ہے۔وہ شاعر کو ان اصولوں کو اپنانے کی صلاح دیتا ہے جنہیں ہرزبان اور ہر قوم کے عظیم شعرا نے اپنایا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ:
’’شاعر کو ان اصولوں کو اپنانا چاہیے جنھیں ہرزبان اور ہر قوم کے عظیم شاعروں نے اپنایا ہے۔‘‘
(بحوالہ مغرب کے تنقیدی اصول:سجاد باقر رضوی،ص:۲۰۱)
اس قول سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ورڈس ورتھ محض مقامی ومنفرد خصوصیات کے بجائے ان عمومی اور آفاقی خصوصیات کے حق میں ہے جن کے باعث شاعری مستقل حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔وہ شاعری سے دو خصائص کا تقاضہ کرتا ہے۔اول یہ کہ اس میں شدت جذبات ہو اور دوم یہ کہ وہ خلوص کی حامل ہو۔وہ شاعری کو انسانی اخلاق کی اصلاح کا ذریعہ بھی بتاتا ہے لیکن مسرت کے پہلو پربہت زور دیتا ہے۔ تاہم وہ شاعری کو’’سکون کی حالت میں جذبہ کی بازیافت‘‘(Emotions recollected in tranquility)بھی کہتا ہے۔
ورڈس ورتھ نے بھی تخیل (imagination)پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔وہ کبھی تخیل کو بالکل داخلی شے سمجھتا ہے یعنی گردوپیش کی دنیا پر انسانی ذہن کاعمل۔کبھی وہ اس قوت کو ایک تجلی سمجھتا ہے جس پر عقل کا اختیار نہیں ہوتا اور اکثر یہ تجلی انسانی روح سے بھی ماورا کوئی شے معلوم ہوتی ہے۔اس کے مطابق شاعری میں عام زندگی کے حالات وواقعات میں تخیل کی رنگ آمیزی ہوتی ہے۔وہ ر قم طراز ہے کہ:
’’شاعری کا کام یہ ہے کہ وہ اشیا کو اس طرح استعمال نہ کرے جیسی وہ ہیں بلکہ اس طرح جیسی وہ دکھائی دیتی ہیں ۔اس طرح نہیں جیسا کہ ان کا حقیقی وجود ہے۔بلکہ اس طرح جیسے احساسات اور جذبات کے سامنے خود کو پیش کرتی ہیں ۔‘‘(بحوالہ مغرب کے تنقیدی اصول:سجاد باقر رضوی،ص:۲۱۰)
غرض کہ ورڈس ورتھ انگریزی ادب میں نہ صرف رومانی شاعری کا بانی ہے بلکہ رومانی تنقید میں بھی اسے نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ووہ شاعری کا مقصد سوئے ہوئے جذبات کو بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ مسرت وانبساط وکے پہلو پر خاص زور دیتا ہے۔وہ شاعری کو تمام علوم کی روح قرار دیتا ہے جس سے شاعری کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ورڈس ورتھ نے شاعری کے لیے دیہاتی(عوامی)بول چال کی زبان کو معیاری قرار دیا ہے اوروہ پہلا شاعر اورہے نقاد ہے جس نے بول چال کی زبان کو اتنی زیادہ اہمیت دی ہے۔وہ پہلا انگریزی ناقد ہے جس نے بعض ایسے سوالات بھی اٹھائے ہیں جن پر اب تک بطور خاص توجہ نہیں دی گئی تھی۔یہ ایسے سوالات ہیں جنھیں نفسیاتی تنقید میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اس نے زبان پر خاص زور دیتے ہوئے تخلیق اور اس سے وابستہ جذبات واحساسات اور ان کے اظہار کے لیے منتخب گئی زبان کے باہمی روابط کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ورڈس ورتھ نے کلاسیکیت کی مخالفت کرکے ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے۔فطرت کے ساتھ اس کے خاص لگائو نے اس کو فطرت کا عظیم ترجمان بنادیا۔اس نے شاعری کو درباروں اور محلوں سے نکال کر عوام سے جوڑنے کا اہم کارنامہ انجام دیا۔وہی کارنامہ اردو میں اس کے ہم عصر عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے انجام دیا۔اس طرح دونوں عظیم شاعروں میں یہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی ورڈ س ورتھ کی عظمت و اہمیت کے بارے میں بجا طور پر رقم طراز ہیں کہ:
’’دلچسپ بات یہ ہے کہ ورڈس ورتھ انگریزی ادب کی روایت سے الگ نہیں ہوتا۔وہ ارسطو اور ہوریس کی کورانہ تقلید کے بجائے چوسر،اسپنسر،شیکسپیراور ملٹن کی روایت سے روایت بناتا ہے۔اس کی فکر روسو سے متاثر ہے اور ’’نیچرکے اولین اصولوں ‘‘پر شاعری کی بنیاد رکھتا ہے۔‘‘(ارسطو سے ایلیٹ تک:جمیل جالبی،ص:۷۲)
منظر کمال(ریسرچ اسکالر)
ہندوستانی زبانوں کا مرکز،جے این یو
نئی دہلی۔۶۷
Leave a Reply
Be the First to Comment!