محى الدین نواب ایک بے مثال ادیب، ایک عظیم ناول نگار
دنیا کے عظیم و بے مثال ناول نگار اور اردو زبان کے بے تاج بادشاہ محی الدین نواب کا انتقال 6/فروری 2016م بروز سنیچر کو کراچی میں ہوا۔ وہ 1930م میں غیر منقسم ہندوستان کے صوبے بنگال کے شہر کھڑک پور میں پیدا ہوئے، اور جب پاکستان بنا تو انھوں نے اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی، پھر جب بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تو وہ بنگلہ دیش سے پاکستان ہجرت کرگئے، اور کراچی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا، اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔
محی الدین نواب نے دو ہجرتیں کی تھیں ، اور ان دونوں ہجرتوں نے ان کے ذہن ودل پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے، جن کا اثر نہ صرف ان کے ناولوں میں جا بجا موجود ہے، بلکہ کئی بار اپنے بارے میں لکھتے ہوئے بہت ہی مؤثر اور جذباتی انداز میں انھوں نے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔
محی الدین نواب اگر چہ بنگال میں پیدا ہوئے مگر گھر میں اردو بول چال کی وجہ سے انھیں اردو سے نہ صرف لگاؤ رہا بلکہ وہ اس زبان کے پائے کے ادیب اور عظیم ناول نگار بن کر ابھرے۔ ویسے تو محی الدین نواب ایک بہترین مضمون نگار، افسانہ نویس، اور شاعر بھی تھے، مگر بنیادی طور پر وہ ایک ناول نگار بن کر آسمان ادب پر طلوع ہوئے، اور پھر چھا گئے۔
جن باذوق حضرات کو محی الدین نواب کے ناولوں سے شغف ہے، یا انھیں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے، وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ محی الدین نواب کوئی عام ناول نگار نہیں تھے، بلکہ ناول نگاری کی دنیا میں ایک منفرد حیثیت اور عالى شان مقام رکھتے تھے، اور ایسا لکھتے تھے کہ قاری مسحور ہو کر رہ جائے، اس کا انھیں خود بھی بخوبی احساس تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے مشہور اور شہرہ آفاق ناول “دیوتا” کے بارے میں دعوى کیا تھا کہ اگر کوئی شخص اس کے کسی جلد کے سو صفحات پڑھ لے تو اسے ختم کیے بغیر نہیں رہے گا، اور کئی باذوق قارئین نے تصدیق بھی کی کہ ان کا یہ دعوى بالکل صحیح تھا۔
محی الدین نواب کے ناولوں پر نگاہ ڈالنے سے ان کی کئی ایسی خصوصیات سامنے آتی ہیں جو قاری کو مسحور کرتی اور اس کو اپنا گرویدہ بناتی ہیں ، اور جسے ایک بار ان سے تعلق ہوجائے پھر وہ بمشکل ہی ان سے پیچھا چھڑا پاتا ہے۔
محی الدین نواب اپنی کہانیوں کی زمین اپنے ارد ارد گرد کے ماحول اور انسانی اعمال نیز پیچیدہ بشری نفسیات سے تیار کرتے تھے، بلکہ انھوں نے اپنے کئی ناولوں کی بنیاد حقیقی واقعات پر رکھی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول حقیقت کی عکاس، اور واقعیت سے بالکل قریب تر ہیں ۔
محی الدین نواب نے چھوٹی بڑی اور متوسط ہر حجم کے ناولیں لکھیں ہیں ، مختصر اتنے کہ بیس سے تیس صفحات میں ختم ہو جائیں ، اور طویل اتنے کہ ہزاروں صفحات پر محیط ہوں ، مگر واقعیت اور حقیقت کی عکاسی ہر جگہ موجود ہے، اور اسی حقیقت پسندی نے نواب صاحب کو مجبور کیا کہ وہ کہانیوں کا پلاٹ تیار کرتے وقت قارى کے منشا سے زیادہ واقعیت کی رعایت کرتے ہیں ، اور ان کی کہانیوں کا آغاز وانجام عین واقعیت کے مطابق ہوتا ہے چاہے وہ قارى کے مزاج ورغبت سے میل کھائے یا نہ کھائے، بلکہ بسا اوقات نتیجہ قارى کی خواہش کے بالکل الٹا نکلتا ہے، اور کہانی کا انجام قارى کی چاہت کے برعکس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بعض سادہ لوح قارئین کا مزاج مکدر ہو جاتا ہے، مگر یہ نواب صاحب کی بہت بڑی خصوصیت ہےکہ ان کے یہاں واقعیت و حقیقت پسندی ہی اہم اور محوری نقطہ ہے، چاہے وہ قارى کی خواہش سے موافقت کرے یا اس کے برعکس ہو۔ اور نواب صاحب کے کئی ایسے ناول ہیں جن کا خاتمہ بالکل قاری کی خواہش کے برعکس ہوا ہے، مگر وہ واقعیت کی سچی تعبیر ہیں ۔
محی الدین نواب کے ناولوں میں یکسانیت کے بجائے تنوع ہے، چنانچہ ان کے یہاں کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف اور الگ ہوتی ہے۔ اور اگرچہ ان کا خمیر ایک ہی مٹی سے تیار کیا گیا ہو مگر حوادث ووقائع اور آغازو انجام کا اختلاف انھیں ایک دوسرے سے مختلف کر دیتا ہے۔ البتہ ان کی کہانیاں چاہے طویل ہوں یا مختصر انتہائی دلچسپ اور بہت زبردست ہوتی ہیں ، عموما دیکھنے میں آتا ہے کہ کہانی طویل ہوتی جائے تو اپنا تاثر کھونے لگتی ہے، اور اس میں پہلے جیسی دلچسپی نہیں رہتى، مگر نواب صاحب کا معاملہ ذرا مختلف ہے، ان کی لکھی ہوئی کہانیاں جس قدر طوالت اختیار کرتی ہیں ، اسی قدر دلچسپ ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ اور اس کی بنیادی وجہ بقول محی الدین نواب یہ ہے کہ وہ کچھ لکھنے سے پہلے بار بار سوچتے ہیں کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کو اپنی تحریر کے ذریعے کیا دے سکتے ہیں ؟ کس طرح انھیں متاثر کر سکتے ہیں ؟ کس طرح ان کے دلوں میں اتر سکتے ہیں اور ذہنوں میں نقش ہو سکتے ہیں ؟
نواب صاحب کرداروں میں اس طرح ڈوب کر سوچتے ہیں کہ لکھتے لکھتے خود کردار بن کر اپنى کہانیوں میں چلنے پھرنے اور دوڑنے لگتے ہیں ، اگر کردار ہنستا ہے تو وہ ہنستے ہیں ، اور اگر کردار روتا ہے تو وہ روتے ہیں ، وہ غمگین ہوتا ہے تو وہ غمگین ہوتے ہیں اور وہ خوش ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں ۔ اور بقول ان کے ہی ان کے پڑھنے والے بھی کچھ کم نہیں ہیں ، وہ بھی ڈوب کر پڑھتے اور ان کی تحریر میں موجود اشاروں اور کنایوں کو خوب سمجھتے ہیں ، وہ لفظوں کے موتی چنتے ہیں ، تو قارئین موتیوں کی مالا پروتے ہیں ، ان کی تحریر میں چھپے ہوئے معنى ومفہوم کو خوب سمجھتے ہیں ، اور قلم کے اس مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے داد وتحسین کی صورت میں معاوضہ ادا کر دیتے ہیں ۔
محی الدین نواب نے سیاسی سماجی تاریخی تمام موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، اور خوب لکھا ہے، معاشرتی موضوعات پر تو اس خوبی اور دقت سے لکھا ہے کہ انھیں جراح ِمعاشرہ کا لقب ملا، مختلف قسم کے معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنا، قاری کی توجہ کو ان کی طرف مبذول کرانا، اور کمزور وناتواں طبقوں پر ہورہے ظلم وبربریت کے خلاف بہت خوبصورت انداز میں آواز بلند کرنا یہ نواب صاحب کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔
یوں تو اجتماعی مسائل اور زندگی کے پیچیدہ امور واحوال پر لکھنے میں نواب صاحب بے مثال ہیں ، مگر عشق ومحبت پر جس دقت اور خوبصورتی سے لکھتے ہوئے انھوں نے اس باب میں پیچیدہ انسانی نفسیات کو اجاگر کیا ہے اسے الفاظ میں نہیں بیان کیا جا سکتا،صرف پڑھ کر محسوس کیا جاسکتا ہے!
البتہ ان کی کہانیوں میں تعمیراتی پہلو غالب ہوتا ہے، اور نواب صاحب براہ راست یا بالراست ہر کہانی سے کوئی نہ کوئی مثبت پیغام قارى کے لیے چھوڑ جاتے ہیں ، اور بسا اوقات ان کی کہانیاں ایک ہی وقت میں درس وعبرت کا متعدد سامان لیے ہوتی ہیں ۔
نواب صاحب کے ناولوں کی جو گوناگوں اور متعدد خصوصیات ہیں ان میں ان کے ناولوں کے پرکشش اور بامعنى عناوین بھی ہیں ، یہ عناوین نہ صرف موضوع سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں بلکہ باذوق قارى کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں ۔ دیوتا، آبروئے دوستاں ، وقت کے فاصلے، شناخت، اونچی اڑان، جرم وفا، ادھورا ادھوری، اندھیر نگری، سرپرست، پتھر، حیانامہ، جونک، بدی الجمع، قید حیات، مقدر، وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔
ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ناول یا کہانی کا بہت ہی جامع اور ادیبانہ انداز میں تعارف بھی پیش کرتے ہیں جو اس کہانی کا خلاصہ ہوتا ہے، اور اس قدر ٹھوس اور پختہ ہوتا ہے کہ باذوق قاری وہیں سے اپنى کہانی کی شروعات کرتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ تعارف ان تمام ادبی خصائص سے بدرجہ اتم متصف ہوتا ہے جو ان کے ناولوں اور کہانیوں میں پائے جاتے ہیں ۔ اپنے مشہور ناول “وقت کے فاصلے” کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں : ” اس نازک جام بلور کی کہانی جسے محبت کا آتش سیال سونپ دیا گیا تھا”، پھر آگے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں : “یہ آسمان ذات محبت سے چھلکتے ان لمحوں کا احوال ہے جب منہ بند معصوم کلیوں کے بطن میں لافانی خوشبو جنم لینی ہے”۔ ایک دوسرا ناول “قید حیات” کا تعارف کچھ یوں کراتے ہیں : “لہلہاتے کھیتوں میں سرسراتی، تلخ اور عبرت ساماں حقیقتوں کا فسانہ، ان فصلوں کی پامالی کا احوال جنھیں بعض اوقات پکنا بھی نصیب نہیں ہوتا”۔ اپنے ناول “گرفت” کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں : “بات لہو کی ہو یا حنا کی تصور رنگوں سے شرابور ہو جاتا ہے، زندگی کے انہی دو عناصر سےآراستہ پل پل رنگ بدلتی یہ رنگا رنگ روداد طبقاتی تفاوت کی ہے اور سیاسی عداوت کی بھی”۔
نواب صاحب کے ناولوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ کہانی کے دوران بہت سارے مصطلحات کی تعریف بھی کرتے ہیں ، کہیں محبت کی تعریف، کہیں عبادت کی، تو کہیں عشق کی تعریف، تو کہیں بغض وعداوت کی، ان کے ناولوں میں یہ چیز جابجا نظر آتی ہے، یہ تعریفات بڑی ہی جاندار اور حقائق کے قریب ہوتی ہیں ، ہو سکتا ہے ان میں سے بعض تعریفیں علمی پیمانے پر بالکل کھرى نہ اتریں ، مگر جس سیاق میں جو تعریف وہ کرتے ہیں وہ نہایت معیاری اور لائق تحسین نیز دقیق وقابل مطالعہ ہوتی ہیں ۔ چنانچہ اپنے ایک ناول میں عبادت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : “عبادت بہت وسیع بہت بڑا مفہوم رکھتى ہے، انسانوں سے محبت کرنا عبادت ہے، جانوروں پر رحم کرنا عبادت ہے، کسی کی زیادتی پر خطا پر بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود درگزر کرنا عبادت ہے، باطل کے ہجوم میں آواز حق بلند کرنا عبادت ہے، حق کے لیے سر کٹا دینا عبادت ہے، کسی کو خوشی دینے کے لیے مسکرا دینا عبادت ہے”۔
اسی طرح ایک ناول کے تعارفی کلمات میں محبت کی تعریف اور اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : “محبت ایک کیفیت کا نام ہے، جو اپنی صفات میں پانی کی طرح ہے، جیسے پانی جس برتن میں ہو اسی کا رنگ اختیار کرتا ہے، ویسے ہی محبت جس دل میں ہو اسی کا رنگ اپنا لیتی ہے، اسی لیے زیادہ تر وہ محبت نہیں رہتی کوئی پست جذبہ بن جاتی ہے کیونکہ آج کل دل کو سنوارنے کی فرصت کسے میسر ہے”۔
کہانیوں کے مختلف اقسام کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں
: “کہانیوں کا بھی انسانوں جیسا مزاج ہوتا ہے، کوئی کہانی تند وتیز ہوتى ہے، بھڑکتی آگ جیسی، کوئی کہانی دھیمے سروں میں بہنے والی ہوتى ہے، کوئی دھیرے دھیرے سلگنے والی۔ لکھنے والے کی کامیابی یہ ہے کہ وہ کہانی کو اس کی ضرورت کےمطابق ٹیمپو اور ٹریٹ منٹ فراہم کرے، اس صورت میں کہانی ایک تاثر چھوڑے گی اور تا دیر یاد رہے گی، اس میں فرق ہوگا تو کہانی نقش برآب ثابت ہوگی اور کوئی دیر پا تاثر نہیں چھوڑے گی”۔
محی الدین نواب کا اسلوب نہایت آسان اور سلیس ہے، اور ان کی زبان بہت ہی معیاری اور بلند ہے، لکھتے کیا ہیں الفاظ سے کھیلتے ہیں ، البتہ ان کا اسلوب ادیبانہ ہے، مگر ثقل اور تعقید سے عارى، اور سہل ممتنع کا بہترین نمونہ، اور الفاظ کے اختیار کرنے میں اس قدر دقت برتتے ہیں کہ بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لفظ اسی جگہ کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
نواب صاحب کے مضامین متنوع ہیں ، اور جیسا کہ گزرا انھوں نے ہر طرح کے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، اور انسانی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا اہم پہلو ہو جس پر انھوں نے نہ لکھا ہو، مگر ایک چیز سب میں قدر مشترک ہے، اور وہ ہے ان کا صدق عاطفہ اور سچا شعور جس میں ان کی کہانیاں بالکل ڈوبی ہوتی ہیں ، اور وہ کردار کے ساتھ ایسا گھل مل جاتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے وہ بذات خود کہانی کا حصہ ہوں ، اور یہی سبب ہے کہ پڑھنے والوں پر ان کی کہانیوں کا اثر بہت شدید ہوتا ہے، اور قاری اس طرح ان میں ڈوب جاتا ہے کہ خود کو ان کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان کی تمام کہانیاں ایسی نہیں ہیں ، مگر اکثر وبیشتر ایسی ہی ہیں ، اور بعض تو اس باب میں بہت ہی بلند معیار اور اونچا مرتبہ رکھتی ہیں ۔
خیال ادب کا بہت ہی اہم رکن ہوتا ہے اور جس کا خیال جتنا ہی وسیع اور آفاقی ہوتا ہے اس کا ادب اسی قدر معیاری اور بلند ہوتا ہے، اسی خیال سے تشبیہات اور استعارے جنم لیتے ہیں اور ایک ادیب حقیقت سے مجاز کا سفر کرکے اپنے اسلوب کو انتہائی معیاری اور ادب کو جاودانی بخشتا اور اس میں چار چاند لگاتا ہے۔
نواب صاحب کے یہاں تشبیہات اور استعاروں کی بھر مار ہے، اور وہ خوب سے خوب تر ہیں ۔ ایک کہنہ مشق ادیب کی طرح قارى کے ادراک وفہم تک پہنچنے اور اس کے دل ودماغ پر اثر انداز ہونے کے لیے وہ ان کا بھرپور استعمال کرتے ہیں ۔
کلام کو بلاغت کے اعلى معیار تک پہنچانے میں تشبیہ کا کافی عمل دخل ہوتا ہے، اور تشبیہ جس قدر نادر اور اچھوتی ہوتی ہے اسی قدر عمدہ اور قوی مانی جاتی ہے، اور اسی قدر اس کا کلام میں اثر بھی ہوتا ہے، تشبیہ کی مختلف اعتبار سے متعدد قسمیں ہوتی ہیں ، اور ایک ادیب اپنی مہارت کے اعتبار سے ان کا استعمال کرتا ہے تاکہ اس کی بات قارى تک واضح اور مؤثر انداز میں پہنچے، اور وہ اسے بخوبی سمجھ لے۔
نواب صاحب کے یہاں تشبیہ کی ہر مشہور قسم نظر آئے گی، چنانچہ وہ تشبیہ مفرد کا بھی استعمال کرتے ہیں اور تشبیہ مرکب کا بھی، اسی طرح عام تشبیہات بھی ان کے یہاں نظر آتی ہیں اور نادر بھی، اور اگر وہ ادباء کے یہاں معروف ومتداول تشبیہات کا استعمال کرتے ہیں تو اپنى ایجاد کردہ تشبیہات سے بھی اپنے کلام کو زینت بخشتے اور اسے قوت عطاکرتے ہیں ۔ اسی طرح ان کے یہاں تشبیہ مقلوب بھی مناسب مقدار میں موجود ہے جو ان کے کلام کو معیاری بناتا اور اسے سنوارتا ہے۔
استعارہ تشبیہ کا آخرى درجہ ہے، جہاں پہنچ کر مشبہ اور مشبہ بہ ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں ، اور ایک مستقل شکل اختیار کر لیتے ہیں ، یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی، بلکہ بہترین استعارہ ایک ادیب کے بلند خیال کا امتحان اور اس کی صلاحیت کی آزمائش ہوتی ہے۔ اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ زید آج منبر پر شیر کی طرح بول رہا تھا تو یہ تشبیہ ہے، مگر اسی کو آپ اس طرح کہیں کہ آج میں نے منبر پر شیر کو دہاڑتے ہوئے دیکھا تو یہ استعارہ ہے۔
نواب صاحب کے ناولوں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی نادر تشبیہات ہیں اور دل کو چھولینے والے استعارات -اسی طرح زندگی کے مختلف حقائق پر کیے گئے ان کے بے لاگ اور سدید تبصرے ہیں ، جو ان کی انتہائی اعلى درجے کی ادیبانہ صلاحیت کی دلیل اور آفاقی ووسیع خیال کی غماز، نیز کثرت تجربہ اور کثرت مطالعہ کی دلیل ہیں ۔ نواب صاحب کے یہاں کثرت تشبیہ اور استعارہ کا حال یہ ہے کہ کہانی کے عنوان سے لے کر اس کے اختتام تک ہر موڑ اور ہر جگہ اس کا جلوہ نظر آئے گا۔ چنانچہ چاہے وہ کہانیوں کا عنوان ہو، یا ان کا تعارف، یا پھر اصل کہانی ہو یا اس میں کیے گئے تبصرے، آپ کو ہر جگہ تشبیہ اور استعارے کی حکومت نظر آئے گى۔
نواب صاحب کی سب سے بڑٰی خصوصیت یہ ہے اور بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ان کی تشبیہات اور ان کے استعارے عام ادباء کے استعمال شدہ روایتى انداز کے ہوں ، بلکہ یا تو وہ خود نادر تشبیہات اور استعاروں کا اختراع کرتے ہیں ، یا پھر اگر پرانی اور قدیم تشبیہات یا استعاروں کا استعمال کرتے ہیں تو انھیں ان کے حال پر نہیں چھوڑتے بلکہ بہت دقیق اضافہ کرکے ان میں جدت اور ندرت پیدا کر دیتے ہیں ، اور یہی ان کا مابہ الامتیاز ہے۔ کمال یہ ہے کہ نواب صاحب اپنے ناولوں میں بکثرت تشبیہات اور استعاروں کا سہارا لیتے ہیں مگر ان کی یہ خصوصیت اور ان کا یہ امتیاز برقرار رہتا ہے۔ اور میرے متواضع علم کی حد تک عربی اور اردو دونوں ادب میں کسی ایک شخص کے یہاں اس قدر نایاب اور نادر تشبیہات واستعارے شاید نہیں ہیں ۔
ایک جگہ تشبیہ مقلوب کا برمحل استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں : ” اس کے پاس ایک بڑے سائز کی بھاری بھرکم موٹر سائیکل تھی،اس موٹر سائیکل کے پہیے اور فولادی پارٹس اس کے حوصلوں کی طرح مضبوط اور ناقابل شکست تھے”۔ اسی طرح دوسری جگہ محبت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں : “جو باتیں محبت کے حوالے سے ہوتی ہیں وہ خوشبو کی طرح مہکتی ہیں ، اور خوشبو سب ہی کو پسند ہوتی ہے”۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں : “اچانک وہ ٹھٹک گئی، وہ جملہ ہی ایسا تھا کہ ٹھوکر کی طرح لگا اور وہ رکنے پر مجبور ہوگئی”۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں : “وہ بات اس کے منہ سے نکلی اور سیدھے اس کے سینے میں گولی کی طرح لگی”۔ ایک جگہ جب ان کا قلم بہکتا ہے تو یوں فرماتے ہیں : “وہ ایک ایسی کتاب کی طرح ورق ورق بکھری ہوئی تھی جس کی بائنڈنگ جواب دے گئی ہو اور ہر ورق آزاد ہو گیا ہو”۔
ایک اور جگہ ایک نادر استعارے کا اس طرح اختراع کرتے ہیں : “آخر وہ اس چہرے کو تصور سے نوچ کر کیوں نہیں پھینک دیتی”۔ دوسری جگہ ندرت استعارہ کا مظاہرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں : “ایک دن میرے ذہن میں ایک جملہ گونجا، میں نے اسے نظر انداز کیا تو وہ چبھنے لگا”۔ ایک جگہ فرماتے ہیں : “ایسی مترنم اور رس بھری گنگناہٹ تھی کہ ایک عجیب سی بے خودی طارى ہو رہی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کہ اسی کمرے کی آغوش میں رہ جاؤں “۔ ایک جگہ تشبیہ اور استعارے کا ایک حسین امتزاج کچھ اس طرح پیدا کرتے ہیں : “سلیم کے ہونٹوں سے مسکراہٹ یوں غائب ہوئی جیسے کسی نے اسے نوچ کر پھینک دیا ہو”۔ بالکل اسی طرح ایک اور جگہ کہتے ہیں : “اس نے نوٹ یوں پھینک دیے جیسے وہ بچھو ہوں اور انھوں نے اس کے ہاتھ پر ڈنک مار دیا ہو، لفظِ “اوور ٹائم” دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا”۔ ایک جگہ اور فرماتے ہیں : “زباں چپ تھی آنسو بول رہے تھے”۔ مزید ایک جگہ کہتے ہیں : “وہ اتنى محبت سے بول رہا تھاکہ وہ ایک دم سے ابل پڑیں ، آنسو سیلاب کی طرح بہہ نکلے”۔ ایک جگہ الوداعی منظر کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے: “شاید وہ پوری ٹرین ہی جذبات کے بوجھ سے لرز رہی ہوگی، ہر طرف ایک ہی منظر تھا، گلے ملتے ہوئے لوگ، چھلکتی آنکھیں ، دبی دبی سسکیاں ، اور ٹوٹتی ہوئی آوازیں “۔
درحقیقت نواب صاحب نے اردو ادب کو بے شمار نادر تشبیہات اور استعاروں کا تحفہ دے کر اس کے ادبی ذخیرے میں قابل قدر اور لائق تحسین اضافہ کیا ہے، اور اس طرح انھوں نے اردو ادب کی بہت ٹھوس اور زبردست خدمت کی ہے، ان کی یہ نادر تشبیہات اور ان کے یہ دلوں کو چھولینے والے استعارے اس پائے کے ہیں کہ ان کا مستقل دراسہ وتحلیل کیا جائے، ان کی ادبی شرح کی جائے، اور اس طرح اردو ادب کے قارئین کی خدمت میں ادب کا یہ بیش بہا ذخیرہ پیش کیا جائے۔
محی الدین نواب ایک بہترین منظر نگار اور تصویر کش ہیں ، جب وہ منظر نگاری اور تصویر کشی پر آتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ منظر بالکل آپ کے سامنے ہے، اور جس چیز کی تصویر کشى کی جارى ہے وہ اپنى پوری شخصیت وصفات کے ساتھ سامنے موجود ہے، ایک ادیب عموما منظر نگارى اور تصویر کشی میں تشبیہات واستعارات کا سہارا لیتا ہے، اور ان کے ذریعے اپنى منظر نگارى وتصویر کشی میں رنگ بھرتا ہے، محی الدین نواب نے بھی ایسا کیا ہے، مگر ان کا کمال یہ ہے کہ بسا اوقات وہ بغیر تشبیہ واستعارہ کے ایسى منظر نگاری اور تصویر کشی کرتے ہیں کہ پڑھنے والا دنگ رہ جائے، اور ان کے کمال قدرت کا داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ اسی طرح تصویر کشی میں ان کا ایک کمال معنوی امور کی تصویر کشی ہے، کیونکہ مادی اشیاء کی تصویر کشی اور منظر نگارى قدرے آسان ہوتى ہے کہ منظر ادیب کے سامنے اور تصویر حواس خمسہ کے زیر نگرانی ہوتى ہے، مگر معنوی امور کی تصویر کشی کرنا اور اسے قارى کے سامنے زندہ وجاوید اور متحرک شکل میں لاکر رکھنا مشکل ہوتا ہے، اس کے لیے قلم کی قوت کے ساتھ ساتھ شدید قوت ملاحظہ، اور دقت نظر کے ساتھ ساتھ احساس وشعور کا قوی ہونا بہت ضرورى ہوتا ہے، نواب صاحب نے یہاں بھی اپنا کمال دکھایا ہے، اور دونوں طرح کی منظر نگارى اور تصویر کشی کا حق ادا کر دیا ہے، چنانچہ ایک جگہ مناظر طبیعت کی منظر نگارى کرتے ہوئے فرماتے ہیں : “اونچے اونچے سیاہ دیو ہیکل پہاڑوں پر برف کی سفیدی بڑھنے لگی تھی، پہاڑوں کی سیاہی اس سفیدی میں جیسے منہ چھپارہی تھی، نیلگوں صبح نے اپنا رنگ جمایا تو وادی چترال کی جادو نگری میں زندگی انگڑائی لے کر بیدار ہونے لگی، ہر شے نیلی شبنمی دھند میں لپٹی ہوئی دکھائی دے رہی تھى، سفید بادل پہاڑوں کی پیشانی پر بوسے لے رہے تھے، بھیگی بھیگی فضا میں تیرتے ہوئے بادلوں کے وہ ٹکڑے ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی نے سفید اجلی روئى کے بڑے بڑے گالے ہوا میں اڑا دیے ہوں “۔ باذوق قارئین دیکھیں کہ کس خوبصورتی سے نواب صاحب نے بیک وقت تشبیہات اور استعاروں کا سہارا لے کر دل کو چھو لینے والی منظر کشی کی ہے۔ اسی پر بس نہیں ،ایک دوسری جگہ نواب صاحب نے طبیعی مناظرسے آگے بڑھ کر دلی جذبات وکیفیات اور شعور واحساسات کی انتہائى دقیق تصویر کشى کی ہے،اورشوہر اور بیٹے کے درمیان محبت کی سولی پر لٹکتی ایک عورت جو کہ بیک وقت ماں بھی ہے اور بیوى بھی ہے اس کے جذبات واحساسات کو اپنے نوک قلم سے اجاگر کیا ہے، اور کمال فنکاری سے معانى کو مبانی کی شکل دے دی ہے، فرماتے ہیں : “تقریبا اٹھائیس برس پہلے اس کی محبت کا بٹوارہ کیا گیا تھا، ایک طرف دل تھا جو دھڑک دھڑک کر اپنے مجازی خدا کے لیے مچلتا تھا، اور دوسرى طرف کلیجا تھا جو بیٹے کی جدائی کے تصور سے بھی پھٹنے لگتا تھا، یا تو اسے دل اور اس کی خواہشوں کو کچلنا تھا، یا پھر اپنے کلیجے کو نوچ کر پھینک دینا تھا۔ دونوں ہی صورتیں ناقابل قبول تھیں ۔ ان حالات میں وہ سمجھ نہیں پارہی تھی، کیا کرنا ہے، اور کیا نہیں کرنا ہے؟ اسے فیصلے کی سولی پر چڑھا دیا گیا تھا۔ ایسے وقت میں اس کے مجازی خدا نے اس کے فیصلے کی ڈولتی ہوئی ناؤ کو کنارے لگا دیا، اس نے بڑی محبت سے بیوی کو ایک کڑے امتحان سے بچا لیا، ماں کو بیٹے کے حوالے کرکے خود تنہائی کا عذاب سہنے لگا۔ باپ بیٹے کی اس جنگ میں ایک عورت شکستہ ہوئی، اس کے دو ٹکڑے ہوگئے، جسم بیٹے کے پاس چلا گیا، دل مجازی خدا کے پاس رہ گیا”۔ یہاں آپ دیکھیں گے کہ نواب صاحب نے ایک عورت کے شعور واحساس کی ترجمانی کرنے کے لیے جہاں تشبیہ واستعارہ کا سہارا لیا ہے، وہیں اس کے بغیر بھی بڑی خوبصورتی سے تصویر کشی کا حق ادا کر دیا ہے۔ منظر نگارى اور تصویر کشی یہ نواب صاحب کا خاصہ ہیں ، اور ان کے ناولوں میں جابجا موجود ہیں ، اور کمال یہ ہے کہ نواب صاحب نے محسوسات سے زیادہ معنویات میں کمال دکھایا ہے، اور وہ میدان جو دوسروں کے لیے سراپا آزمائش ہے، وہی نواب صاحب کے جولانئ قلم کی آماجگاہ ہے، اور جہاں جاکر لوگ سنبھلنے اور احتیاط کا دامن پکڑنے لگتے ہیں ، وہاں نواب صاحب کا قلم سیال اپنے فن کا بخوبی مظاہرہ کرتا ہے۔
تشبیہ واستعارہ کے علاوہ فنون بدیع بھی نواب صاحب کے یہاں موجود ہیں ، اور ان کی مختلف اقسام ان کے ناولوں میں نظر آتی ہیں ، یہ اگرچہ نواب صاحب کے یہاں نسبتا کم ہیں ، مگر جس بے تکلفى وبے ساختگى کے ساتھ برمحل یہ ان کے ناولوں میں وارد ہوئے ہیں وہ بہت ہی قابل تعریف اور لائق داد وتحسین ہے، کیونکہ عموما فنون بدیع کے استعمال میں تکلف در آتا ہے، مگر نواب صاحب کے یہاں یہ چیز آپ کو بالکل نظر نہیں آئے گی۔
فنون بدیع میں نواب صاحب کے یہاں زیادہ تر جناس وطباق اور مقابلہ کا زور ہے، جو اپنى مختلف اقسام اور انواع کے ساتھ ان کے ناولوں میں بکثرت موجود ہیں ۔ مگر یہاں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر ان کا ایک عجیب ملکہ دیکھنے کو ملتا ہے، اور وہ ہے جناس وطباق کو ایک ساتھ کلام میں لانا، اور بیک وقت ایسے دو کلمات کا استعمال کرنا جن میں جناس بھی ہو اور طباق بھی، اور یہ کوئی آسان کام نہیں ، بلکہ بہت ہی مشکل کام ہے، اور اگر اس کے ساتھ بے ساختگى اور بے تکلفی کو جمع کر دیا جائے تو پھر تو یہ کسی بہت ہی باصلاحیت، اور ایسے متمکن ادیب سے ہی ممکن ہے جو الفاظ کا بادشاہ ہو، اور ادبی ذوق کے بہت ہی اعلى مقام پر فائز ہو۔ مگر کمال یہ ہے کہ یہ چیز نواب صاحب کے یہاں اچھی تعداد میں موجود ہے جو باذوق قارى کی توجہ اپنى جانب بخوبی مبذول کراتی ہے، چنانچہ زندگی کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ کہتے ہیں : “زندگی کبھی روگ بن جاتی ہے کبھی راگ بن جاتی ہے، کبھی سوز بن جاتی ہے کبھی ساز بن جاتی ہے”، غور کریں کہ نواب صاحب نے یہاں کتنى خوبصورتی سے “روگ” اور “راگ” نیز “سوز” اور “ساز” کو لا کر بیک وقت جناس وطباق دونوں کو یکجا کر دیا ہے۔
نواب صاحب کی ایک اور خصوصیت ان کے ناولوں کے کردار ہیں جو کہانی کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں ، چنانچہ نواب صاحب کے یہاں ابن صفی کی طرح مخصوص کردار نہیں ہیں جو ان کے ناولوں کے ہیرو ہوں ، بلکہ ان کے ہر ناول اور ہر کہانی میں کردار اپنے نام وصفات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ، اور جس طرح کی کہانی ہوتى ہے، اسی طرح کا وہ کردار چن کر لاتے ہیں ، یہاں بھی نواب صاحب نے کمال کی فنکاری دکھائی ہے، اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ واقعی بہت بڑے ناول نگار ہیں ، چنانچہ نواب صاحب کا کردار نام سے لے کر صفات تک بذات خود اس موضوع کا ترجمان ہوتا ہےجس کے ارد گرد کہانى گھومتى ہے، پس اگر کہانی کا موضع سیاست ہے تو کردار پوری طرح سیاسی ہوگا، اور اگر موضوع عشق ومحبت ہے تو کردار مجنوں ولیلى کا پرتو ہوں گے، اور اگر موضوع کوئی اور معاشرتی یا سماجی مسئلہ ہے تو کردار بعینہ اسی کے مطابق ہوگا، اسی طرح اگر کہانی شہر کے ماحول اور ایوانوں وحکمرانوں سے تعلق رکھتى ہے تو کردار بھی شہرى اور حاکمانہ صفات کا حامل، اور اگر کہانی دیہاتی اور کھیتوں اور کھلیانوں کے بیچ کی ہے تو کردار بھی دیہاتی انداز وصفات کا ہوگا۔ اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ صفات سے پہلے کردار کا نام ہی نواب صاحب ایسا چنتے ہیں جو کہانی کے موضوع اور ماحول کے بالکل مطابق اور اپنے نام ہی سے اس کا بعینہ ترجمان ہو، اور اس چیز میں شاید ہی کوئی نواب صاحب کا ثانی نظر آئے۔ چنانچہ “سرپرست” میں عبادت علی، “مقدر” میں عینی اور عروج کے ساتھ پاشا جانی، “اندھیر نگری” میں فرمان علی، “سہ زور شہ زور” میں شوکت جلال الدین اکبر علی کامرانی، “وقت کے فاصلے” میں مدیحہ اور پروفیسر عبد الحمید، “اونچی اڑان” میں فضل الرحمن، “حیا نامہ” میں جواد فہمی، “جونک” میں فیرزہ اور اکبر، “مٹی کی امانت” میں مجیب اور صفورہ، “خالی ہاتھ” میں کشموئی، “قید حیات” میں بلوری اور رفیق عرف فیقا، “آخرى وعدہ” میں صفدر، “بدی الجمع” میں بدیع الزمان کے بجائے بدی الجمع، یہ سب ایسے ہی کردار ہیں جو کہانی کے اصل موضوع اور اس کے ماحول میں اس قدر رنگے اور ڈوبے ہوئے ہیں کہ اپنے انہی چنندہ ناموں کے ساتھ کہانی کا جزء لا ینفک اوراس کا رکن رکین لگتے ہیں ، یہ کردار اپنے نام وصفات کے ساتھ کہانیوں میں اس طرح دوڑتے پھرتے رہتے ہیں کہ ان پر حقیقت کا گمان ہو، اور اس طرح یہ کہانی اور اس کے ماحول کے حقیقی ترجمان بن کر ابھرتے ہیں ، اور پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے اس کہانی کا یہ حقیقی کردار ہے جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ کمال یہ ہے کہ یہ کردار مرکزی ہوں یا جانبی اور فرعی نواب صاحب کا یہ کمال سب میں نظر آتا ہے، اور نواب صاحب اس طرح ان کا نام اختیار کرتے، اور ان کی شخصیت کو پیش کرتے ہیں کہ قارى ان کی کردار سازی پر حیرت زدہ رہ جائے۔
نواب صاحب کے ناولوں کی ایک بہت بڑی اور بارز ترین خصوصیت زندگی کے گوناگوں حقائق پر ان کے چست ودرست، بے لاگ اور سدید، نیز حکمت سے بھر پور تبصرے ہیں جو کہانی میں جان ڈالتے، اسے پائیداری بخشتے، اس کو مفید تر بناتے، اور باذوق قارئین کی انتہائی دلچسپی کا سامان بنتے ہیں ۔
انا اور محبت کے ٹکراؤ سے جو صورتحال پیدا ہوتی ہے اس پر اس طرح تبصرہ کرتے ہیں : “انا بہت توانا ہو تو محبت دب کر رہتی ہے، اور محبت دب کر رہے تو بڑى قوت بن جاتی ہے، محبت سچى ہو تو جانتی ہے کہ انا اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کا سامان کرتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اسے دور کر کے راستہ صاف کر دیتی ہے”۔ محبت کے معاملے میں عورت کی تنگ نظری کو ایک جملے میں اس طرح واضح کرتے ہیں : “محبت کے معاملے میں عورت بہت تنگ نظر ہوتی ہے”۔ زندگی کی ایک کڑوی حقیقت کو اس طرح بیان کرتے ہیں : “گھن نہیں آنی چاہیے، زندگی میں بہت سی گھناؤنی حقیقتوں کو قبول کرنا پڑتا ہے”۔ ایک انسانی فطرت پر یوں قلم اٹھاتے ہیں : “انسانی فطرت ہے کہ بہت سی تکلیفیں ہوں تو سب سے بڑی تکلیف کے سامنےباقی دب جاتی ہیں ، اور بڑی تکلیف رفع ہوجائے تو چھوٹی تکلیفیں سر اٹھاتى ہیں “۔ ایک جگہ ایک حقیقت کو اس طرح آشکارہ کرتے ہیں : “مقناطیس سامنے نہ ہو تو لوہے کو کمزوری کا احساس نہیں ہوتا، وہ مضبوط رہتا ہے، لیکن مقناطیس کے حیطہ کشش میں لوہے کا اپنے اوپر کوئی زور نہیں چلتا”۔ انسان کی سوچ اس کے مزاج پر کس طرح اثر ڈالتی ہے اسے کچھ یوں بیان کرتے ہیں : “سوچ بنتی ہے اور سوچوں کا فرق مزاج کا فرق بن جاتا ہے، لڑکا لڑکی کے مقابلے میں احساس کمتری میں مبتلا ہو تو مسئلہ بن جاتا ہے، وہ ہمیشہ بیوی کو زیر کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے، ایسے میں کوئی خوش رہ سکتا ہے بھلا”؟ زندگی کی پیچیدگیوں کے راز کو کھولتے ہوئے خواہش کی شدت وحقیقت سے اس طرح پردہ اٹھاتے ہیں : “زندگی میں پیچیدگیاں اور تنوع صرف خواہشات کی بدولت ہیں ، خواہشیں لا محدود ہیں اور تنوع بھی…خواہش جتنی شدید ہو اتنی ہی طاقت ور ہوتی ہے، اور جتنی طاقت ور ہو اتنا ہی آدمی کو نڈر اور بے خوف کر دیتی ہے، خواہش کی شدت اور شدت کے نتیجے میں طاقت کا یہ حال ہوتا ہے کہ یہ آدمی کے دل ودماغ پر قابض ہو جاتی ہے، اس کی قوت عمل کو تسخیر کر لیتی ہے، یہ قوت عمل کو جدھر چاہے موڑ دے۔ پھر خواہش بہت حیلہ ساز ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا اور خود فریبی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، یہ اپنی مطلب براری کے لیے آدمی کو کسی بھی فریب میں مبتلا کر سکتی ہے، یوں کہ دل ودماغ عقل وشعور سب مبتلائے فریب ہوجائیں “۔ زندگی کی ایک خطرناک حقیقت سے یوں پردہ اٹھاتے ہیں : “لیکن طوفان میں بہہ جانے والوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ طوفان کے بعد بچ نکلنے والوں کے لیے کیسی راحت،اور بہہ جانے والوں کے لیے کتنی اذیتیں ہوتی ہیں “۔ ایک اہم نکتے کو یوں سمجھاتے ہیں : “اور تحائف قبول کرنے کا مطلب یہی ہوتا تھا کہ لڑکی نکاح سے پہلے کہہ رہی ہے: ہاں قبول ہے”۔ انسانی نفسیات کی بعض کمزوریوں پر بڑے ہی دلچسپ انداز میں یوں قلم اٹھاتے ہیں : “آدمی بڑا ہو، قد آور، صحت مند، دولت مند، اور اقبال مند ہو، اسے وسیع ذرائع اور اختیارات حاصل ہوں تو صرف ایک چھوٹے سے نام سے گزارہ نہیں ہوتا، وہ اس کی شخصیت کی مناسبت سے نام کو بھی قد آور بنانا چاہتا ہے۔ کبھی اس کا نام صرف شوکت علی تھا، باپ کی وفات کے بعد پورے علاقے کی ذمہ داری ورثے میں ملی تو اس نے نام میں ترمیم کی، شوکت علی سے شوکت اکبر علی بن گیا، جب الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچا تو اپنے نام میں جلال الدین کا اضافہ کیا، اور شوکت جلال الدین اکبر علی کہلانے لگا، مقدر کا ستارہ چمک رہا تھا، اسے ایک شعبے کی وزارت مل گئی، کامیابی وکامرانی کا دور دورہ تھا، اس نے اپنے نام میں کامرانی کا اضافہ کیا اور شوکت جلال الدین اکبر علی کامرانی بن گیا”۔ مصلحت پسندی اور اپنى ذات کے لیے سب کچھ کر گزرنے والوں کا انجام یوں بیان کیا ہے: “فیصلے کی آزادی اور ذاتی خوشی کا حصول انسان کو خود غرض بنا دیتا ہے، بعض لوگوں کا مطمع نظر فریب، جھوٹ اور دھوکہ دہی کا دامن تھام کے سکون حاصل کرنا ہوتا ہے، لیکن ایک دن یہ خام خیالی اپنی حقیقت خود ہی بے نقاب کرڈالتی ہے، تب تک ڈھیروں پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوتا ہے، باقی بچتا ہے تو صرف پچھتاوے کا دکھ اور سچ کی اٹل حقیقت”۔
بستر اور عورت کا تعلق بڑے ہی خوبصورت انداز میں اس طرح عیاں وبیاں کیا ہے: “یہ بسترعورت کو پاگل کر دیتا ہے، یہ نہ ہو تو شاید پھولوں کی پتیاں نہ ہوتیں ، دلہن کاگھونگھٹ نہ ہوتا، ہاتھوں میں مہندی، اور مہندی میں ارمان نہ ہوتے۔ لیکن سب کچھ ہمارى دنیا میں اور ہمارے دلوں میں ہے۔ اس رات پہلی بار جواد کو دیکھ کر گیان ہوا کہ بستر کسی خواب گاہ میں نہیں ہوتا وہ عورت کے دل میں بچھا ہوتا ہے”۔ عورت کی ایک جبلت کو کچھ یوں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے: “میں پوری بات نہ سن سکی، ساری دنیا بھول گئی، بہت عرصے کے بعد شوہر ملا تھا، مکان نہ سہی کھنڈر ملا تھا، سرچھپانے کے لیے ٹوٹی ہوئی چھت اور آنسو پونچھنے کے لیے پھٹا ہوا رومال ملا تھا، ملا تو تھا”۔ زندگی کی ایک اور حقیقت کے تئیں اپنے نظریے کو اس طرح واضح کیا ہے: “زندگی میں دو چیزوں پر بھروسہ نہ کرنا، ایک آئینہ دوسرا مرد کی زبان، دونوں ہی جھوٹی تعریفیں کرتے ہیں “۔ اجتماعی زندگی کی ایک اور حقیقت کو اس طرح پیش کیا ہے: “وہ سرجھکائے خاموش رہی، وہ رات دلہن کے بولنے کی نہیں سننے کی تھی، ایسی رات کے بعد دلہن بولتی رہتى ہے اور دولہا سنتا اور سہتا رہتا ہے”۔ زندگی کی حقیقت اور اس کے مصائب وآلام اور آزمائشوں پر کچھ یوں رقمطرازی کی ہے: “زندگی بھی کیا چیز ہے؟ کبھی خوابوں کے پھول چنتے چنتے گزر جاتی ہے، اور کبھی تعبیر کے کانٹوں سے لہولہان ہوتی رہتی ہے”۔ اور جس کی تقدیر ساتھ نہ ہو اس کے بارے میں یہ کہا ہے: “زندگی جب دوستی نہیں کرتى تو اچھے خاصے چہرے بگاڑ کر رکھ دیتی ہے”۔ گرے ہوئے انسانوں اور بے ضمیروں کی حقیقت، اور ان کے درمیان پسنے والے کمزور افراد کی بدترین حالت کو کچھ ان الفاظ میں بیان کیا ہے: “انسان جب گرنے پر آتا ہے تو انتہائی گری ہوئی قیمت پر گرجاتا ہے، وہ ممتا کی مارى سردار اور حکیم کے درمیان دوڑتی رہی، کبھی ادھر آتی کبھی ادھر جاتی، پھر چکرا کر گر پڑی۔ بیٹا دواؤں کے بغیر چلا گیا، اور بیٹی دعاؤں کے باوجود ملنے والی نہیں تھی، جب وہ آخرى بار گرى تو اس کے دونوں ہاتھ خالى تھے، سب ہی تہی دست جاتے ہیں ، وہ بھی خالى ہاتھ گئی تو کون سی قیامت آگئی؟”۔ غم اور خوشی پر یہ تبصرہ کرتے ہیں : “خوشیاں لکھنا کتنا آسان ہوتا ہے۔ اس نے سوچا،اور دکھ پریشانیاں اور ذلتیں لکھنا کتنا مشکل ہے،اس لیے کہ وہ لکھنے کی نہیں صرف سہنے کی چیز ہوتی ہے، انھیں لکھنا بھی نہیں چاہیے، جھوٹ لکھ دینا ان سے بہتر ہے”۔ پتھر دل افراد پر اس طرح قلم کا نشتر چلایا ہے: “پتھر میں جونک لگ سکتی ہے، سنگلاخ چٹانوں کو چیر کر کوئی نرم ونازک پودا نمو پاسکتا ہے، مگر جن کے دل پتھر ہو جائیں ان میں نرم وگداز پیدا کرنا آسان کام نہیں ، ایسے سنگدل افراد اپنی انا اور جھوٹی شان وبرتری کی خاطر کسی کو بھی بخشنے پر کبھی تیار نہیں ہوتے، انھیں محبت شفقت اور نرمی سے نفرت ہوتی ہے، تو بھلا کیا محبت سے نفرت کرکے بھی کوئی شخص انسان رہ سکتا ہے؟”۔ دیوانی جوانی پر کچھ یوں تعلیق لگاتے ہیں : “جوانی میں نیند بھی آتی ہے اور خواب بھی آتے ہیں ، اگر کوئی چپکے سے دل کی خواب گاہ میں چلے آئے تو پھر نیند نہیں آتی خواب آتے ہیں “۔ محبت کی قوت کو ان الفاظ میں آشکارہ کرتے ہیں : “برے حالات میں کسی کو جو سب سے مضبوط سہارا ملتا ہے وہ محبت کا ہوتا ہے، اعتماد کا ہوتا ہے”۔ وہ حضرات جو عمر کے آخرى مراحل میں بھى شہوت کے غلام اور نفس امارہ کے اسیر ہوتے ہیں ان کے اس مرض کی علت کچھ یوں بتائی ہے: “ٹھیک کہتی ہو! ہم جیسے بوڑھے اس عمر میں بھلا کیا کر سکتے ہیں ؟ مضبوطی سے عورت کی کلائی بھی نہیں پکڑ سکتے، مگر ہوس اس عمر میں بھی برى طرح مچلتی ہے، ہم دریا میں اتر نہیں سکتے، تیر نہیں سکتے، مگر کنارے بیٹھ کر، پانی میں پاؤں ڈال کر ذرا تسکین حاصل کرتے رہتے ہیں کہ دریا کو کنارے کنارے ہی سہی، پا تو رہے ہیں “۔ حنا اور لہو میں اس طرح تعلق پیدا کیا ہے: “بات لہو کی ہو یا حنا کی تصور رنگوں سے شرابور ہو جاتا ہے”۔ جمہوریت میں سیاست کی حقیقت کو یوں کھولا ہے: “جمہوریت میں انتخابات کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اور انتخابات سیاسی جماعتوں کے بغیر تو منعقد ہو سکتے ہیں مگر سیاست کے بغیر نہیں “۔
نواب صاحب کے ناولوں کو پڑھ کر، اور ان کے تبصروں اور تعلیقات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے ماہر نفسیات اور نباض شخصیت کے مالک تھے، اگر سیاست پر لکھتے ہیں تو لگتا ہے کتنے بڑے سیاسی اور سیاست کے رموز اور اس کی باریکیوں سے واقف شخص ہیں ، اور اگر عشق ومحبت پر قلم اٹھاتے ہیں تو پھر مت پوچھئے، محبت کی ایسی عقدہ کشائی کرتے ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہے، اسرار محبت کے ایسے ایسے پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں کہ قارى سر دھنتا رہ جائے، یہی حال تمام موضوعات میں ہے، ان کی نباض اور ماہر نفسیات شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔
منجملہ نواب صاحب کے ناول اردو ادب کی شاہکار ہیں ، جو اپنى گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے اردو ادب میں بہت بلند مقام ومرتبہ رکھتے ہیں ، اور زبان کی مہارت، مضمون میں صداقت، اور با مقصدر تحریر ان کا خاصہ ہے، تعمیرى پہلو ان کی تحریر میں غالب ہے، اور ان کی تشبیہات اوراستعارے، نیز حقائق زندگی کے مختلف پہلؤوں پر کیے گئے ان کے تبصرے ان کے ناولوں کو ممتاز ترین اوردیگر ناول نگاروں سے انھیں بالکل الگ کردیتے ہیں ۔
مگر کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا، نواب صاحب کى تحریروں میں کچھ خامیاں بھی ہیں ، البتہ یہ خامیاں ان کی خوبیوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔
ان خامیوں میں ایک چیز ان کی تحریروں میں عشق ومحبت کا غلبہ اور بسااوقات نامناسب حد تک فراوانی ہے، اور موضوع کچھ بھی ہو جب تک عشق ومحبت سے ان کی کہانی رنگین نہ ہوجائےقلم کی سیاہی ختم نہیں ہوتی، او ر بات کہیں سے بھی شروع ہو وہاں تک پہنچ ہی جاتی ہے۔
ہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
اور اس باب میں جب وہ داخل ہوتے ہیں تو بسا اوقات ان کا قلم بہک جاتا ہے اور نواب صاحب بہت آگے نکل جاتے ہیں ، اور قارى کو وہاں تک پہنچا دیتے ہیں جہاں تعمیرى پہلو کے حدود ختم ہوکر تخریبی پہلو کے حدود شروع ہوجاتے ہیں ۔
اسی طرح نواب صاحب کے یہاں دینی پہلو بھی خوب ملتا ہے، اللہ تعالى سے لگاؤ، اس سے قربت ومحبت، اس سے حاجت روائی اور مشکل کشائی، یہ چیزیں بھی ان کے ناولوں میں جابجا ہیں ، مگر یہاں وہ بسا اوقات اسلام کی خوبصورت وپاک شبیہ کو شرک وبدعات کی قباحت و نجاست سے آلودہ کر دیتے ہیں ۔
ایک اور چیز جو قاری کی توجہ اپنى جانب مبذول کراتی ہے وہ نواب صاحب کے یہاں غلو کا عنصر ہے، چنانچہ بسا اوقات کسی معاملے کی تصویر پیش کرنے میں نواب صاحب کا قلم اعتدال سے تجاوز کر جاتا ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غلو در آیا ہے۔
ایک افسوسناک اور ناقابل قبول چیز نواب صاحب کا ہمارے وطن عزیز ہندوستان کے تئیں منفی رویہ ہے جو ان کے بعض سیاسی ناولوں میں نظر آتا ہے۔ جب دو بھائیوں میں جھگڑا ہو جائے، یا دو پڑوسیوں میں اختلاف ہوجائے، تو ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن سے دونوں کے دل مل جائیں ، اختلاف رفع ہو، اور وہ باہم پیار ومحبت کے گیت گانے لگیں ۔ اور بہت ہی بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ایسے موقعوں پر دو آدمیوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دینے، غلط فہمیاں پھیلانے، اور نفرت کی آگ کو بھڑکانے کا سبب بنتے ہیں ۔ مگر یہ دنیا بڑی رنگ برنگى ہے، یہاں دوسروں کی خاطر جان لٹانے والے بھی مل جائیں گے، اور فقط اپنى انا کی تسکین اور حقیر شہوت نفس کی تکمیل کے لیے پوری قوم کا سودا کرنے والے بھی بآسانی دستیاب ہوجائیں گے۔ مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ نواب صاحب جیسا لطیف احساس رکھنے والا، اور اپنے ناولوں کو پیار ومحبت کی خوشبوؤں سے معطر کرنے والا شخص بھی اس طرح کی بات کرے، آخر ہندوستان ان کا بھی آبائی وطن ہے، اور اسی کی خمیر سے ان کی شخصیت کی بنا پڑی ہے!
یہ چند ملاحظات ہیں ، جنھیں ذاتی اندازے اور شخصى آراء بھی کہا جاسکتا ہے، اور چونکہ اندازے الگ الگ اور آراء مختلف ہوتی ہیں ، اس لیے بجز آخرى ملاحظہ کے اختلاف کی پورى گنجائش موجود ہے۔
البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواب صاحب ایک عظیم ناول نگار تھے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اردو ادب ہی کے نہیں بلکہ دنیا کے چند عظیم ناول نگاروں میں سے ایک ہیں تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا، صرف ان کا شہرہ آفاق ناول “دیوتا” ہی اس میدان میں ان کی عظمت وسطوت بتانے کے لیے کافی ہے۔ مگر افسوس کہ جتنی عزت واحترام اور تکریم وتقدیر کے وہ مستحق تھے وہ بعض اسباب کی بنا پر انھیں نہ مل سکا۔ شاید انھیں بھی اس کا بخوبی احساس تھا، چنانچہ وفات سے کچھ قبل بعض نیوز چینلوں کو دیے گئے ایک انٹریو میں انھوں نے خود بڑی شان بے نیازی سے اس سلسلے میں بعض اسباب کی طرف اشارہ بھی کیا تھا۔
آج محی الدین نواب ہمارے درمیان نہیں رہے، مگر وہ اپنے آفاقى ناولوں ، بامقصد اور تعمیری کہانیوں ، فنی شہ پاروں اور ادبی تحریروں کے ذریعے ہمارے درمیان موجود ہیں ، اور اردو ادب کی جو عظیم خدمات انھوں نے انجام دی ہیں وہ اردو زبان وادب سے دلچسپی رکھنے، اور اس کی خدمت کرنے والوں سے اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ وہ ان پر پروگرام منعقد کریں ، ان کے ادب کا جائزہ لیں ، اور ان کی شاعرى اور ناولوں میں موجود وہ بیش بہا ادبی ذخیرے جو انھوں نے اردو ادب کو ہدیہ کیے ہیں اس کا تفصیلی دراسہ وتحلیل کرکے اردو ادب کی خدمت بھی کریں ، اور نواب صاحب کو حقیقی معنوں میں خراج تحسین بھی پیش کریں !
Leave a Reply
Be the First to Comment!