صادقہ نواب سحر کا مونولاگ ناول’’کہانی کوئی سناؤ، متاشا‘‘

سلمان فیصل
۔ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

زمانۂ قدیم سے معاشرے کے اندر طبقاتی کشمکش، ظلم و جور اور استحصال کی جڑیں بہت مضبوط اورگہری ہیں۔ ایک خاص طبقہ ہمیشہ استحصال کا شکار رہا ہے ۔ اِس سماجی نابرابری کے خلاف بھی آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ ادب کے ذریعے بھی اِس سماجی خلیج کو پُر کرنے کی کوشش کی گئی۔ حاشیے پر زندگی گزارنے والوں کی حمایت اور اُن کا استحصال کرنے والوں کے خلاف فنکاروں نے اپنے قلم سے ہمیشہ احتجاج درج کرایاہے۔ اِس مظلوم طبقے میں عورت کوابتدا سے ہی حاشیے پر رکھا گیا اور اُس کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ مرد ذات کے بالمقابل عورت ذات کو کمزور ، ناتواں اور حقیر شے سمجھا گیا۔ ادب میں بھی اس ظلم کے خلاف بازگشت سنائی دینے لگی۔ جدیددور میں نسائی ادب یا تانیثیت کا رجحان پنپنے لگا ۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کے سنگم پر اِس رجحان نے باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کرلی، جس کے نتیجے میں ادیبوں نے عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم، سماجی وسیاسی عدم مساوات اور استحصال کی واضح لفظوں میں مخالفت کی۔اِس تانیثیت کی جھلک اور شبیہ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کے ناول ’’کہانی کوئی سناؤ، متاشا‘‘ میں نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کا ناول ’’کہانی کوئی سناؤ، متاشا‘‘ 2008میں منظر عام پر آیا۔ یہ ناول متاشا کی مظلوم داستان پر مبنی ہے۔اِس ناول میں ہندوستانی معاشرے میں عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور جبر و تشدد اور ظلم کے خلاف عورت کی محاذ آرائی کو متاشا کو مرکز و محور میں رکھ کر بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ عورتوں کے ساتھ ظلم وتشدد اور جنسی استحصال کو اِس ناول میں جگہ دی گئی ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں مشترکہ خاندان میں مرد عورت کے کثیر ربط و ضبط کے نتیجے میں سماج کے ہوس پرست جس طرح سے عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں، اِس ناول میں اِس موضوع کی فنکارانہ پیش کش ہے۔
فنی اعتبار سے یہ ناول خودنوشت سوانح کی ہئیت میں بیانیہ وصف میں لکھا گیا ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ ناول کی مرکزی کردار متاشا کا مونولاگ ہے۔ متاشا اپنی زندگی کی مظلوم داستان خود سناتی ہے۔ صادقہ نواب سحر نے متاشا کی زبانی ناول کی پوری کہانی فنکارانہ چابکدستی سے پیش کی ہے۔ متاشا خود ہی ناول کے دیگر کرداروں کے بارے میں بتاتی ہے۔ اِس پورے ناول کو ذیلی عنوانات میں تقسیم کرکے مختلف کہانیوں کو ضم کرکے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کہانیاں متاشا کے اردگرد چکر لگاتی ہیں اور اُس کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ متاشا کے کردار میں ایسی ہندوستانی عورت کا ہیولی تیار کیا گیا ہے جو سماج کے بے جا رسم و رواج اور ظلم و ستم کے آگے سر نہیں جھکاتی بلکہ خود اعتمادی، عزم اور حوصلے کے ساتھ اس کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہے۔
اِس کہانی میں متاشا نے پہلے اپنے خاندان کا پس منظر پیش کرتے ہوئے گھر کے اندر عورتوں کی حیثیت کو بیان کیا ہے۔ اپنے والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے اور کشمکش کو پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گھر میں عورتوں کا کوئی مقام نہیں ہے، خود اُس کی اپنی پیدائش پر تین مہینے تک باپ کا اپنی بیٹی کو دیکھنے نہ آنا اور بیٹی کی پیدائش پر سسرال میں خصوصاً باپ کے دل میں نفرت پیدا ہونا، سماج کی ایک قدیم برائی ہے۔ متاشا کو پہلی محبت اس کی دادی کی جانب سے ملی جبکہ ماں بھی متاشا پر تشدد کرتی تھی۔ بچپن سے ہی متاشا کو نفرتوں کا سامنا رہا اور نفرت نے متاشا کو جھوٹ بولنا سکھا دیا۔ متاشا کو پڑھائی میں صرف اس لیے دلچسپی تھی کہ اس کی وجہ سے وہ ہاسٹل میں رہ سکتی ہے تاکہ اس گھر کی نفرتوں اور ظلم و ستم سے نجات مل سکے ۔ گھر کو وہ ’’پھٹکار گھر‘‘ کہتی ہے۔ ’’چھٹیاں آتیں تو پھر سے اسے ’’پھٹکار گھر‘‘ جانا پڑتا تھا۔ نفرت کے جس ماحول میں اس کی پرورش ہوئی وہ اسے باغی بنا دیتے ہیں۔
ہاسٹل میں رہتے ہوئے چودھویں سال میں متاشا کے دل میں پہلی بار کسی مرد ذات یعنی ایک لڑکے کے لیے محبت کا جذبہ ابھرا۔ ابھی تک اسے مرد ذات سے نفرت تھی۔ ایک لڑکے کی جانب سے پریم پتر ملنے پر اُس کے دل و دماغ میں باپ کی نفرت اور اُس لڑکے کی جانب سے اُسے نہارے جانے کی عجیب کشمکش پیدا ہوئی۔ دو متضاد خیال بار بار آپس میں ٹکراتے ہیں اور متاشا کو پریشان کرتے ہیں۔ اِس خط کے پکڑے جانے پر وہ اپنے وارڈن سے جھوٹ بولتی ہے، اور بائبل کی جھوٹی قسم کھاتی ہے۔ زندگی بھر اُس کی تمام مصیبتوں میں باربار بائبل کی اُسی جھوٹی قسم اور خط کا خیال آنا، تمام مصائب کو اُس جھوٹی قسم کا عوض سمجھنا متاشا کے ذہن پر نقش ہوجاتا ہے ۔ عورت کی اِس نفسیاتی خاصیت یعنی کسی برے کام کا اثر زندگی بھر کے حالات پر پڑنا، صادقہ نواب سحر نے اِس کی بہترین عکاسی کی ہے۔
اپنے علاقے اور گھر سے دور کالج میں پہلی بار داخلہ لینے کے بعد گھروالوں سے بہت دور رہنے اور پھر اپنے باپ کے دوست موریشور کا کا کے ہوس کا شکار بن جانے کے بعد متاشا کے دل میں مرد ذات کے تئیں شدید نفرت پھر سے پیدا ہوتی اور اس قدر نفرت میں اضافہ ہوتا ہے کہ
’’اُن دنوں مردوں سے نفرت کا احساس مجھ میں اتنا بڑھ گیا کہ گھر آکر کوئی صوفے یا کرسی پر بیٹھتا تو میں وہ حصہ جھٹک کر صاف کردیتی، پونچھ دیتی۔ دادی مجھے ایسا کرنے سے منع کرتیں۔‘‘
متاشا نے اپنے اِس نہایت ہی ناخوش گوار واقعے کا ذکر کسی سے بھی نہیں کیا ۔اُس کے اندر ہمت نہ ہوئی اور مستقبل میں موریشور کاکا نے اِس واقعہ کا ذکر ہر اُس شخص سے کرکے متاشا سے دور کرنے کی کوشش کی جس سے بھی متاشا کو ہمدرد ی حاصل ہونی شروع ہوئیں ۔متاشا کی مرد ذات کے خلاف شدید نفرت ایک بار پھر کالج ہاسٹل میں رہتے ہوئے کالج کے پربھاکر سے محبت میں تبدیل ہوتی ہے اور وہ دونوں شادی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں کہ تب ہی موریشور کاکا کو بتوسط متاشا کے والد اور دادی کے، اِس بات کا علم ہوجاتا ہے اور پھر موریشور کاکا پربھاکر سے مل کر متاشا سے اپنی پہلی ملاقات اور گھناونے واقعے کا ذکر کرکے اُس کی پٹائی بھی کرتا ہے اور متاشا کے تئیں اُس کی محبت کو نفرت میں بدل دیتا ہے۔ یہاں موریشور کاکا ایسا صرف اِس لیے کرتا ہے تاکہ اُس کے بھائی سے اس کا رشتہ ہوجائے اور پھر دوبارہ اُس کو متاشا کی عصمت سے کھیلنے کا موقع ملے۔ مگر وہ یہاں بھی ناکام و نامراد ہوتا ہے۔ متاشا کا جنسی استحصال کرنے اور اُس استحصال کو مستقبل میں بھنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔لیکن متاشا اُس ہوس پرست شخص کے ہر وار کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے اور موریشور کو مایوسی کا سامناہوتا ہے۔
متاشا کا اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر اپنی ماں اور دادی کے ساتھ علی گڑھ اپنے چھوٹے کاکا کے پاس جانا، زندگی کی جد و جہد میں ماں بیٹی کا نوکری کرنا، کاکا کی جانب سے متاشا کا جنسی استحصال کرنے کی کوشش، علی گڑھ چھوڑ کر چھوٹے بھائی پرساد کے ساتھ ایئر ہوسٹس بننے کا خواب لیکر ممبئی جانا ،نوکری کے لیے ادھر ادھر ماری ماری پھرنا اور ریلوے اسٹیشن پر راتیں بسر کرنا، اِن سارے حالات کا مقابلہ متاشا بڑی ہمت اور حوصلے سے کرتی ہے لیکن پھر بھی اندر سے اِس قدر ٹوٹ جاتی ہے کہ اپنی عمر سے دو گنی عمر اور پانچ بچوں کے باپ گوتم سے ملاقات کے بعد اُس سے شادی کرکے سکون کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ جب وہ علی گڑھ واپس آتی ہے اور اپنے فیصلے سے گھر والوں کو آگاہ کرتی ہے تب اُس کا بھائی گوپی اِس شادی کی مخالفت کرتا ہے۔یہاں ناول نگار نے اِس شادی کے خلاف بھائیوں کی ذہنی کشمکش کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔
’’اُس دن شام کو بھائیوں اور ممی کوبٹھاکر میں نے ساری باتیں بتاد یں۔ ’’تم تو گندی تھرڈ کلاس انسان نکلیں دیدی۔ چار پانچ بچوں کے باپ سے شادی کر رہی ہو! اپنے باپ کے برابر کے آدمی سے! عقل ہے کہ نہیں؟
’’اتنی بے شرم کب سے بن گئی ہے دیدی‘‘۔ چھوٹا پرشانت بھی چپ نہیں رہا۔
’’مٹھری جلیبی چاہیے؟‘‘
’’چپ‘‘۔ میں نے پرشانت کو ڈانٹا۔
’’یہاں کتنی گڑبڑ ہے تجھے سمجھ میں آتا ہے؟‘‘
’’ویشیا جیسی بن گئی ہے‘‘۔ گوپی کا پارہ چڑھا ہواتھا۔
’’پانچ بچوں کو سہارا ملے گا․․․․․جو ملا اسے قبول کرنا ضرور ہے ․․․․․‘‘میں بولی
’’تم گئیں تو مہا پاترو نہیں ہوگی‘‘ پرشانت نے بچپنا ثابت کیا۔
’’ہماری کمی دکھانے آئی ہے‘‘۔ پرشانت کو ڈھکیل کر گوپی پھر بھڑکا اور اچانک کھڑا ہوگیا۔
’’میری شادی کسی کے بس میں نہیں‘‘۔
یہ جان کر بھی کہ گوتم ممی سے دو سال بڑے ہیں، بالکل باپ کی طرح۔ ممی چپ رہیں۔
ممی، پاپا سے با رہ سال چھوٹی تھیں اور میں گوتم سے بائیس سال!․․․․پرساد ایک دم چپ تھا۔ نہ ہاں میں نہ نا میں۔ ممی نے دھیرے سے پرساد سے پوچھا۔
کیسا ہے؟
’’اچھا․․․․․ شانت سبھاؤ کا۔‘‘
ماں کی طرف سے چپی اور رضا مندی سے متاشا کو تقویت پہنچتی ہے۔ یہ وہی ماں ہے جو بچپن میں متاشا پر تشدد کرتی تھی لیکن اب حالات کے پیش نظر اس میں تبدیلی آگئی ہے۔ وہ متاشا کے کرب کو سمجھ رہی ہے۔ کردار کا ارتقا جاری ہے۔ گوتم سے انوکھی شادی اور زندگی کا ایک طرز پر گذرنا متاشا کو کچھ پل کے لیے سکون عطا کرتا ہے لیکن متاشا کے اپنے رشتہ داروں کی طرف سے خصوصاً بھائیوں کی طرف سے نظر انداز کیا جانا اور پھر گوتم کے پانچ بچوں کو سنبھالنا متاشا کی زندگی میں پھر سے ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آتا ہے اب وہ ایک نئی جدوجہد میں مصروف نظر آتی ہے۔ گوتم کے چار بچے متاشا کو اپنی ماں کا درجہ دیتے ہیں لیکن بڑا بیٹا انکت کے اندر متاشا کے تئیں ایک نیا جذبہ ابھر تا ہے۔ وہ اس پر بری نگاہ ڈالتا، نوجوان لڑکا اپنی جوان سوتیلی ماں کا جنسی استحصال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ متاشا اور انکت کے ما بین یہ کشمکش ناول کے آخر تک جاری رہتی ہے۔ صادقہ نواب سحر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے عورت کو اِس قسم کے استحصا ل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ لیکن عورت ذات ہرمصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی اور حالات کواپنے مطابق ساز گارکرنے کی کوشش کرتی ہے اور کبھی کبھی خود حالات سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔
متاشا کو بچپن سے ہی مصائب کا سامنا رہا اور اُس کا خواب بھی پورا نہ ہوا جس کے سبب اُس کے اندر چڑ چڑاپن پیدا ہوجاتا ہے گوتم سے شادی کے بعد بھی اُسے سکون نہ ملا۔
’’کیا سوچا تھا ، کیا ہوا۔پربھاکر سے مل کر ارمان جگے تھے ۔ ایک شوہر ہو ، ڈھیر سارے پیارے پیارے بچے ہوں، شوہر کے رشتہ داروں کو خوش رکھوں، اُن کو اپنا سب کچھ بنالو، سکون۔۔۔۔۔سکون ہی سکون ۔۔۔۔مگر ایسا الٹ پلٹ ۔ دیپو کے بعد چار سوتیلے بچے، دو دیوروں کے بچے، بیمار شوہر، مجھے بات بات پر غصہ آتا۔‘‘
متاشا کی یہ خود کلامی بتاتی ہے کہ وہ بھی ایک ہندوستانی گھر یلو عورت بننا چاہتی ہے۔ گھر گرہستی میں لگی رہے۔ سسرال والوں کو خوش رکھے ۔ بچوں کی دیکھ بھال کرے اور سکون سے زندگی گزارے۔ مگر اُس کا یہ خواب پورا نہ ہوا ۔ وہ ایک مکمل ہندوستانی خاتون کا نہ بن سکی۔ یہی کہانی ہندوستانی سماج کی ہر مظلوم عورت کی اپنی داستان معلوم ہوتی ہے۔
گوتم کی وفات پر بیوہ متاشا کے ساتھ اُس کے سسرال والوں کا حسن سلوک اور اُس پر متاشا کے اپنے خاندان والوں کی جانب سے چہ مہ گوئیاں متاشا کو عجیب کشمکش میں مبتلا کرتی ہیں، وہ سمجھ نہیں پاتی کہ کیا کرے۔ جس نے جیسا کہا ویسا کرلیا۔ بیواؤں کے تئیں مختلف سماجی برتاؤ کو یہاں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دو سماجوں کے رسم ورواج کے ٹکراؤ کو پیش کیا گیا۔ ایک وہ سماج جو بیوہ کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کرتا ہے اور دوسرا وہ جو کہ بیواؤں کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روا رکھتا۔ یہاں تک کہ کہیں کہیں اسے ستی ہونے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ گوتم کی وفات کے بعد اُس کے اپنے بھائی بھی منھ پھیر لیتے ہیں۔ جبکہ اِسی بہن نے اپنے بھائیوں کے لیے اپنی جوانی اور زندگی کو داؤں پر لگا کر محنت مزدوری کی اور استحصال سہتی رہی۔بھائیوں کی طرف سے عدم توجی کے سبب متاشا پر ایک بار پھر مصائب کا پہاڑ ٹوٹتا ہے۔
’’بھابھیوں سے کہتی تو وہ کہتیں: ایڈجسٹ کرلو۔
’’میں جتنی بار بھائیوں کے پاس بھاگ کر جاتی کتے کی طرح ذلیل ہوکر لوٹ آتی۔
دو سال تکلیفوں کے گذر گئے۔ انکت کی دست درازی بھی بڑھنے لگی تھی۔ جب بھی وہ اکیلا ہوتا اور میں دکھائی دیتی وہ گندی سی نظر سے مجھے سرسے پیر تک گھورتا۔ برتن لیتے دیتے وقت ایک گندا سائچ میں ہمیشہ محسوس کرتی۔ مجھے گوتم بہت یاد آتے۔‘‘
گوتم کے گذرنے اور دوسال تک ظلم و ستم سہنے کے بعد گوتم کے گھر سے نکل پڑنا، اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرنا، ماہم چرچ میں سات بدھ کا نوویتا کرنا، چرچ میں ذہنی سکون نہ ملنے کی صورت میں تروپتی جانا اور پھر دوبارہ اپنے گوتم کے بسائے گھر میں لوٹنا، یہ بتاتا ہے کہ متاشا زندگی کے جھمیلوں سے آزاد ہونا چاہتی ہے اور عبادات کے سہارے ذہنی سکون حاصل کرنا چاہتی ہے ، لیکن جب اسے وہ سکون نہ ملا تو وہ دوبارہ اپنے گھر لوٹ آتی ہے۔ جہاں اس کے سوتیلے بیٹے انکت کا راج ہے۔ ایک بار پھر انکت کی بری نظر اور اس کا تشدد اُسے گھر سے نکلنے پر مجبور کردیتا ہے اور و ہ اپنے بیٹے دیپو کو لے کر پہلے منالی اور پھر اڑیسہ چلی جاتی ہے۔ ایسی در بدری میں دیپو کی پرورش بھی مناسب نہیں ہو پاتی ۔ وہ اپنی ماں پر ہو رہے ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے جوان ہوتا ہے ۔ وہ پڑھائی چھوڑ کر کام کاج کرکے ماں کا ہاتھ تو بٹانے لگتا ہے لیکن بے راہ روی کاشکار ہو کر غلط راستے پر چل پڑتا ہے۔ نونیتا اور دپیش کی محبت ، شادی سے قبل نونیتا کے ماں بننے کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔
ناول کا آخری حصہ سماج کی ایک بھیانک اور بڑی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں سماج کے کئی طبقے مبتلا ہیں۔یعنی شادی سے قبل حاملہ ہونا اور پھر اسقاط حمل یا ناجائز اولاد ،ایک ایسی برائی ہے جو معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ عہد حاضر میں Live-in relationship، ناجائز اولاد کی پیدائش اور پرورش یاپھر اسقاط حمل، معاشرے کے ایک مخصوص طبقے میں عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے اور یہ قبیح برائی سماج کے اُن طبقوں تک بتدریج سرایت کر رہی ہے جو اِس طرز زندگی سے ابھی تک محفوظ تھے۔ماڈرن دور میں یہ وبا متعدی امراض کی طرح پھیل رہی ہے۔ ناول کے آخری ڈھائی صفحوں میں دیپو اور نونیتا کے اِس رشتے کو بیان کرکے قاری کے دل و دما غ کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی گئی ہے اور اِس نے طرز زندگی کی طرف قاری کو ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ معاشرہ اِس وقت کس سمت کروٹ لے رہا ہے۔ ناول نگار نے یہ بھی بتایا کہ متاشا کو اِس سے بھی کوئی اعتراص نہیں ہے بلکہ جس طرح اس نے اب تک زندگی کی تمام نا ہمواریوں کو برداشت کیا ہے ، یہ درد بھی وہ برداشت کرکے اپنے ُبیٹے اور نونیتا کو خوش رکھنا چاہتی ہے۔
مجموعی طو رپر یہ ایک کامیاب ناول ہے۔ عورت ذات کو محور بناکر اسے لکھا گیا ہے۔ اسی لیے اِس کا مرکزی کردار ایک عورت ہے جو اپنی زندگی کی بِپتا خود سناتی ہے۔ جگہ جگہ اس کی خود کلامی عورت کی نفسیاتی شبیہ کی عکاسی کرتی ہے۔ متاشا کی مظلومیت ایک علامت کے طور پر سامنے آتی ہے اور تانیثیت کے موضوع پر ایک اہم ناول قرار پاتا ہے۔ یہ ناول خود ایک عورت نے لکھا ہے اس لیے اِس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ عہد حاضر کے ناول نگاروں میں صادقہ نواب سحر نے اِس ناول کے ذریعے اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ نسائی ادب اور حاشیائی ادب دونوں خانوں میں اِسے رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ناول اُس طبقے کی کہانی پر مبنی ہے جہاں لوگ غربت و افلاس کے مارے حاشیے پر زندگی بسر کررہے ہیں۔ متاشا اور اُس کے بھائی ایسے افراد کی زندگی کی سچی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اِس ناول کا موضوع یوں تو علاقائی معلوم ہوتا ہے ۔لیکن متاشا اور اُس کے رشتہ داروں کی زندگی کے لیے جد و جہد، ظلم اور استحصال کے خلاف احتجاج ، یہ موضوع مقامی نہ ہوکر آفاقی بن جاتا ہے اور پوری دنیا میں حاشیے پر زندگی گزارنے والوں کی ایک لازوال داستان کی شکل میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے بناگیا پلاٹ، کرداروں کا جاری ارتقا، متوسط طبقے کی زندگی کی عکاسی ، اُن کے رہن سہن او ر عادات و اطوار کی ہو بہو تصویر کشی اِس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ناول نگار نے اُس طبقہ کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ مختلف علاقوں کی زبان اور محاورے ، رسم و رواج اور تہذیب و معاشرت کو پیش کرنے اور جزئیات نگاری میں فنکارانہ مہارت سے کام لیا گیا ہے۔ یہ ناول کہانی پن، تجسس اور دلچسپی کے عناصر سے پُر ہے۔ قرأت میں روانی اورسلاست ہے۔ اِس جائزے کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ عہد حاضر کا یہ ایک کامیاب ناول ہے۔
٭٭٭
“Sadqa nwaab sehar ka mono lag novel, ‘Kahani koee shunaao, mitaasha” by Salman Faisal, Research scolar, Deptt. of Urdu, JMI, New Delhi, “Urdu Research Journal” ISSN 2348-3687, Vol. I, Issue II, page No. 117-123.

Leave a Reply

1 Comment on "صادقہ نواب سحر کا مونولاگ ناول’’کہانی کوئی سناؤ، متاشا‘‘"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] صادقہ نواب سحر کا مونولاگ ناول’’کہانی کوئی سناؤ، متاش… […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.