وحشی سعید کی کہانی ’آب ‘کا تجزیہ
وحشی سعید نے اپنے نام کی وضاحت میں جومعنی خیز ی دکھائی، وہی معنی خیزی ان کی افسانوی سعادت مندی قرارپاتی ہے اور ــ لفظِـ’’وحشت‘‘ فقط ــ’’وحشت‘‘ نہ رہ کر ’’سیمابیت ‘‘ کی سرحد میں داخل ہوجاتی ہے اوریہی سیمابیت وحشی سعید کے یہاں زندگی کی علامت ہے۔ فعالیت وتحریک کا اشاریہ ہے۔گویا اس طرح دیکھیں تو ان کا افسانہ ’’آب ‘‘ ہو یا کہ دیگر افسانے، تخلیقی اُبال، سیمانی آنچ، مضطربانہ طمطراق اور فنکارانہ اطوار سے آب دار نظر آتے ہیں ۔کسی بھی فردِ بشر کے نام کا لاحقہ یا سابقہ ’’سیمابیت‘‘ہوجائے تو عموماًاس کی طرف ترچھی نظر اٹھنے لگتی ہے، اسی طرح کسی بھی فنکار کے ساتھ ’’زودنویسی‘‘کا لاحقہ جڑ جائے تو اس سے دوری بنانے کی فضا سازی ہونے لگتی ہے۔ ناقدینِ ایسے تخلیق کاروں سے متنفر ہونے لگتے ہیں ، لیکن ناقدوں اور ادب کے پارکھوں کی یہ کج فہمی اور ناعاقبت اندیشی ہے کہ وہ ’’سیمابیت ‘‘سے خوف کھاتے ہیں اور’’زود نویسی ‘‘ کے لفظ سے فی الفور بِدکنے لگتے ہیں ۔ کیوں کہ سیمابیت دراصل انسانی زندگی کی رنگا رنگی ہے۔ جیسا کہ وحشی سعید نے اپنے سے جڑے ہوئے لفظ ’’سیمابیت‘‘کی وضاحت کی۔ تغیراتِ زمانہ جس طرح ایک حقیقت ہے، اسی طرح انسانی مزاج اور اطوار کی تبدیلی بھی بدیہی حقیقت ہے۔ اسی بدیہی حقیقت سے افسانوی کائنات میں رشتہ استوار رکھنا عقلمندی کی بات ہوتی ہے، نہ کہ بد ذوقی کی۔ وحشی سعید نے زندگی کے رنگا رنگی کو سیمابیت کے پس منظر میں دیکھنے کی اپیل کی ہے، جو کہ ایک قرینِ عقل بات ہے۔ اب رہی بات زود نویسی کی تو اس کے متعلق جوگند پال نے بڑ ی خوبصورت بات کہی ہے کہ جلدی سے سامنے آجانے والے ادب پارہ کو لوگ بہت آسانی سے دیکھ لیتے ہیں ، لیکن اس ادب کو معرض وجود میں لانے کے لیے کتنی دل سوزی کرنی پڑی، ذہن ودماغ کو کس حد تک مصروف رکھنا پڑا، تخیلاتی معاملات سے کس قدر سروکار ر ہا، اس پر کسی کی نگاہ نہیں جاتی ہے۔ اگر ادب پارہ کے معرض وجود میں لانے کے لیے جن مراحل سے گزرنا پڑا، ان پر توجہ کرلی جائے تو قطعاً زود نویسوں سے بدکنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیمابیت کو وحشی سعید نے انتہائی دلکش پیرائے میں متعارف کروایا اور جوگندرپال نے زو نویسی کو۔ رہی بات وحشی کے تخلیقی رویوں کی تو ان کے یہاں سیمابیت بمعنی زندگی کی رنگا رنگی اور رعنائی توہے زود نویسی نہیں ، لیکن وحشی سعید نے ایک بڑے بزنس مین ہونے کے باوجود بھی جو وقت نکالا اور پھر ایک عبوری دور (جو تقریباً دو دہائیوں پر محیط ہے) میں ادب سے ترکِ تعلق رکھا، اس کے باوجود انھوں نے تقریباً سو کہانیاں اور تین ناول لکھے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وحشی کے اندر تخلیق کی فطری صلاحیت موجود ہے۔ ساتھ ہی ساتھ فی الفور کسی بھی معاملہ کے تجزیے کی ہنر مندی سے وہ مالا مال ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مصروف ترین زندگی میں سے لمحات لمحات جمع کر کے شاہکار ادبی چیزیں پیش کیں ہیں ۔
اوپر پیش کیے گئے عمومی چند جملوں کے تناظر میں وحشی کے مذکورہ افسانہ ’’آب‘‘کا جائزہ لیا جائے تو نظر آئے گا کہ انھو ں نے متنوع خصوصیات کے اس افسانہ کو آب دار بنانے کی کوشش کی ہے۔اس کی بنت میں فنکاری یہ نظر آتی ہے کہ انھوں نے کشمیرکے پس منظر میں ڈوبی اس تخلیق میں جہا ں نفسیاتی الجھنوں کو شامل کردیا ہے۔ وہیں نوجوانوں کے المیہ، تغیر اتِ حیات اور لمحات کی نازکیوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کسی ایک کہانی کی بنت میں ان باتوں کا تنظیمی سطح پر خیال رکھنا کوئی آسان کا م نہیں ہے، بلکہ اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ ان جزئیات پر توجہ کرتے کرتے کہیں کہانی ہاتھ سے نہ نکل جائے، مگر ’’آب‘‘ میں موضوعاتی حسیت، جزئیات کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔اس کے باوجود بھی یہ کہانی نہ بوجھل ہوتی ہے اور نہ دائرۂ افسانہ سے باہر نکلتی ہے۔ کیوں کہ افسانہ نگار نے افسانہ بُنتے وقت اصل مسئلہ کشمیری تناظر ات کو نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا ہے۔اس کہانی کا یہ معاملہ بھی اپنی طرف ملتفت کرتا ہے کہ کشمیرکے حالات میں بے شمار کہانیاں لکھی گئیں اور یہاں تک کہ وحشی سعید نے بھی کئی ایک قابل ذکر کہانیاں دیں ، اس کے باوجود ’’آب‘‘ کی جدت الگ ہے۔وہ اس طرح کہ انھوں نے اس کہانی میں نہ بے جاہ کشمیر کے فطری مناظر کو ابھارا ہے اور نہ ہی وہاں کی خطرناکیوں کا حد سے زیادہ ذکر کیا ہے۔ اگر وہ چاہتے تھے تو طوالت کے ساتھ وہاں کے نشیب وفراز کا ذکر کرسکتے تھے۔ افسانے میں قرأت کی دل چسپی بڑھانے کے لیے زیبِ داستان کا رویہ اپنا سکتے تھے، مگر انھوں نے بڑی فنکاری سے’’آب ‘‘کی نسوانی مرکزی کردار ’’صوفی‘‘ کی زبان سے چند جملے ادا کروائے،جو کشمیر کی خطرناکی کو واضح کرتے ہیں اور ساتھ ہی کہانی محبت کے احساس میں ڈوب کر بھی کشمیر کے حالات کی خطرناکی کو ہمارے سامنے اوجھل نہیں ہونے دیتی ہے۔ مثلا ً:
’’دیکھا سرتاج میں نے کہا تھا نا کہ آب ہمارا دشمن ہے‘‘
یہ جملہ گرچہ چھوٹا ہے، مگر معنی خیز ہے۔ کیوں کہ اس کے معرض وجود میں آتے ہی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صوفی نے نسیم سے آب کی خطرناکی سے متعلق کوئی نہ کوئی جملہ پہلے بھی کہا ہے۔ گویا’’آب ‘‘کا معاملہ نہ صرف حالات کی خطر ناکی کی طرف مشیر ہے،بلکہ نفسیاتی الجھنوں کی نشاند ہی کررہا ہے اور صوفیہ کے لاشعور میں آب سے جڑے معاملات یعنی نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا کررہا ہے۔ اس لیے ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ وحشی سعید نے کشمیر کے حالات کو بین اور آہ وبکا کے ساتھ پیش نہیں کیا بلکہ افسانہ بنتے وقت اس حقیقت کو سامنے رکھا ہے کہ ’افسانہ چھپانے کا فن ہے‘۔ یہی وجہ ہے کہ چھپتے اور واضح ہوتے ہوتے یہ افسانہ کشمیر کی خطرناکی کے ساتھ رودادِ محبت بھی سناتا ہے۔ایک ایسی محبت جس میں حصولِ محبو ب کے لیے جانفشانی بھی ہے، مگر نتیجہ ایسا دردناک جو کشمیری حالات کا لازمہ بنتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کشمیر کے حالات میں خواب سنجو تے سنجوتے زندگی میں ایسا موڑ آجاتا ہے، جو آفتِ ناگہانی سے ٹکرانے پر مجبور کردیتا ہے۔ وحشی سعید نے اس کہانی میں ڈھکے چھپے لفظوں میں جو کہانی سنائی ہے،’’آب ‘‘کہانی کی تفہیم اور تجزیہ سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کا خلاصہ پیش کریں ۔
مختصر یہ کہ نسیم نامی لڑکا صوفی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہے۔ لڑکی نہ صرف یتیم،بلکہ اس کے گھر کا سہارا کوئی مرد تک نہیں ۔ اس کا پورا کنبہ ایک چچی اور بھتیجی (صوفی)پر مشتمل ہے۔ نسیم نے جذباتی سطح پر صوفی کو اپنانے کے متعلق اس کی چچی سے بات کی۔ اس کے بعد اپنی آواز تبدیل کرکے وہ فون پر اپنے والد سے بات کرتا ہے کہ میں صوفی کا رشتہ دار یعنی چچا ہوں ۔ تمہارا بیٹا نسیم میری بھتیجی صوفی سے شادی کرنے کا پر تلا ہے ( حالانکہ یہ نسیم ہی ہے جو آواز بدل کر اپنے والد سے بات کررہا ہے )۔ قوی امکان تھا کہ نسیم کے والد کریم خان بیٹے کی حرکت سے آگ بگولہ ہوجاتے۔ حد درجہ ناراض ہوتے، مگر انھوں نے صوفی کے چچا کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ’ لعنت ہے آپ پر۔ دو مفلس بے سہارا عورتوں جن میں میری ہونے والی بہو یتیم اور اس کی چاچی بیوہ ہے، ان کی مدد کرنے کے بجائے آپ ان پر اتنا گھٹیا الزام لگا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔‘گو یا اس طرح نسیم کے والد کریم خان نے اپنے بیٹے کی شادی کی راہ ہموار کردی۔ والد کی رضا مندی کے بعد صوفی اور نسیم کے درمیان قربتیں بڑھنے لگے۔ صوفی اور اس کی چچی سوچتی تھیں کہ شادی جو کل ہو، آج ہی ہوجائے۔ مگر حالات بدلتے رہے۔ تجارت کے تعلق سے نسیم لندن بھی گیا۔ کشمیر کے معاملات بدلتے رہے۔بالآخر صوفی اور نسیم رشتہ ازدواج میں بند ھ نہ سکے۔
’آب ‘کی کل اتنی سی کہانی ہے، جسے پڑھ کر ہم آسانی سے گزر سکتے ہیں ،مگر جب گہرائی میں جائیں گے تو اس کے کئی ایک پہلو سامنے آسکتے ہیں ، جنھیں سلسلہ وار ذیل کی سطور میں بیان کیا جا ئے گا۔
اول :نسیم آواز تبدیل کرکے اپنے والد سے بات چیت کرتا ہے۔ ان کے جذبات کو ابھارتا ہے اور شادی کے لیے تیار بھی کرلیتا ہے۔ اس عمل میں جہاں مشرقی روایات اور رسومات کا عمل دخل نظرآتا ہے،وہیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نوجوانوں میں پسند کی شادی کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود آج ہندوستانی فضا میں والدین سے باغیانہ تیور کی شمولیت بڑی تیزی سے نہیں ہو رہی ہے۔ اگر نسیم چاہتا تو صوفی سے فی الفور شادی کرلیتا۔ اپنے والدین سے بات چیت نہیں کرتا، مگر نسیم نے اپنے والدین کو قائل کرنے کے بعد شادی کا فیصلہ کیا۔ گو یا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ نوجوان روشن خیال ہونے کے باوجود بھی مشرقیت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔
دوم:دوسری بات یہ ہے کہ نوجوان آج اپنی خواہشوں کو پوری کرنے کے لیے بے شمارذرائع استعمال کررہے ہیں ، جن میں سے کچھ قابل تحسین بھی اور کچھ قابل مواخذہ بھی۔ مگر نسیم نے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جو قابل مواخذہ نہیں ، قابل ِ تحسین ہے۔ نسیم کے اس رویہ سے یہ بھی اندازہ ہورہا ہے کہ نئی نسل اپنے مفاد میں نئے نئے آلات اور ایجادات کا استعمال مثبت زاویہ سے بھی کررہی ہے۔
سوم: اس کہانی کا یہ پہلو بھی قابل قدر ہے کہ نسیم کے والدین فون پر اپنے بیٹے کے متعلق معاملا ت پر جھنجھلائے نہیں بلکہ صوفی سے شادی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اس میں دو پہلوؤں کی شمولیت نظر آتی ہے۔ ایک یہ کہ آج کے والدین اپنے بچوں کی نیک خواہشوں کی قدر کرنے لگے ہیں ۔ گویا وحشی سعید نے یہ بھی پیغام دیا ہے کہ موجودہ نسل کے والدین کو اپنے بچوں کی نیک خواہشات کا اچھی طرح خیال رکھنا چاہیے، تاکہ نہ بچوں کی زندگی اجیرن ہو اور نہ ہی والدین کی۔ نسیم کے والدین کی رضا مندی میں سب سے اہم اور قابل التفات مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک یتیم بچی کو بآسانی قبول کررہے ہیں ۔ ایک دبے کچلے گھرانے میں شادی کو فی الفور تیار ہوگئے۔ یہاں بھی وحشی سعید نے سماج کی اس ذہنیت پر طنز کیا، جو دبے کچلے گھرانوں سے متنفر رہتی ہے۔ انھوں نے ایک بڑے گھرانے کو صوفی کی غربت کے سامنے لاکھڑا کرد یا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج بھی سماج میں انسانی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
چہارم:کشمیر کی خطرناکی کچھ ایسی ہے کہ انسان حالات کے اشاروں پر نا چتا رہتا ہے۔ وہاں کے حالات میں نہ نوجوانوں کی خواہشا ت کی تکمیل بڑی آسانی سے ہوسکتی ہے اور نہ غربت کے مارے وہاں کے پر خطر معاملات سے بچ سکتے ہیں ۔
پنجم :اس کہانی کا نفسیاتی پہلو مسئلہ آب میں چھپا ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ صوفی کے والد کا انتقال دریائے چناب میں غرق ہوجانے سے ہوا تھا۔ صوفی کے ذہن پر نفسیاتی طور پر ہمیشہ یہ سوار رہتا تھا کہ کہیں آب کی وجہ سے نسیم اور میری زندگی تباہ نہ ہوجائے۔ تخلیق کار نے صوفی کی اس نفسیاتی پیچیدگی کو کئی جگہ واضح کیا ہے۔جب وہ سیلاب کا ذکر کرتے ہیں تو بھی صوفی کی یہی نفسی پیچیدگی واضح ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کہانی کا اختتام بھی بیحد چونکا نے والا ہے۔ کیوں کہ نسیم اور صوفی کے یکجا نہ ہو پانے میں آب کا ہی کردار رہا ہے :
’’دریائے جہلم سے دولاشیں برآمد۔ دونوں کی شادی ہونے والی تھی۔ لڑکے کے جسم میں دو گولیا ں لگی تھیں اور لڑکی کا جسم بری طرح جھلسا ہوا تھا۔ دونوں کے جسم آپس میں چمٹ کر اس جہلم کے سرد پانی میں اس قدر اکڑ گئے تھے کہ انھیں لاکھ کوششوں کے باوجود الگ نہ کیا جاسکا ‘‘
ان چند جملوں میں تخلیق کا رنے بڑی فنکاری سے عشقیہ لَے میں فنائیت کے جذبہ کو ابھار ا ہے کہ صوفی اور نسیم جیتے جی یکجا نہیں ہوپائے، مگر موت کی آغوش میں جا کر دونوں اس قدر چمٹ گئے کہ کوئی بھی انھیں الگ نہیں کرسکا۔ اردو کی کئی قابل ذکر مثنویوں میں بھی عشقیہ ایسی جھلک نظر آتی ہے کہ معشوق اور معشوقہ جیتے جی ایک نہ ہوسکے، مگر حالات ایسے ہوگئے کہ انھیں ایک ہی قبر میں دفنا ناپڑا۔ وحشی سعید نے اس منظر کو پیش کرکے جہاں یہ پیغام دیا کہ بے مروتی کے دور میں بھی عشقیہ جذبات قابل قدر ہیں ۔ کہانی کے اختتام میں اس پہلو کے ساتھ ساتھ تخلیق کار نے یہ بھی دکھا دیا کہ کشمیر کے حالات میں اپنے آپ کو اپنا بنائے رکھنا بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ ایک طرف انھیں گولیوں سے بھون دیا گیا، دوسری طرف دریائے جہلم کی نذر کر دیا گیا۔ گویا اس طرح دیکھیں تو صوفی میں آب کے تناظر میں خوف کی جو نفسیات تھی، وہی نسیم اور صوفی کی موت باعث بنی۔ یعنی نفسیاتی مہیّج کی کارفرمائی اس کہانی میں بھی نظر آتی ہے۔
ششم :ان پہلوؤں کے علاوہ اس کہانی کا یہ پہلو بھی قابل التفا ت ہے کہ ’’آب ‘‘ علامت ہے یا پھر واقعی ’’آب‘‘،’’ آب ‘‘ ہی ہے۔ ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ کشمیری افسانوں نگاروں میں وحشی سعید کی شناخت علامتی افسانہ نگاروں کی حیثیت سے بڑی اہم ہے۔ ان کی ایک قابل ذکر کہانی ’’آب ِ حیات ‘‘بھی ہے، جو کہ علامتی ہے۔ اب رہی بات یہ کہ پیش نظر کہانی ’’آب ‘‘ علامتی ہے کہ نہیں ؟اس سوال پر راقم دوباتیں کہہ سکتا ہے۔ اول یہ کہ یہ کہانی علامتی بھی ہوسکتی ہے اورسادہ بیانیہ کی عمدہ مثال۔ سادہ بیانیہ کی مثال اس طرح ہے کہ ’’آب‘‘ کی خطرناکی پیش آئی۔ دریائے جہلم اور دریائے چناب سے ملنے والی لاشیں اس بات کی اشاریہ ہیں کہ آب سے کشمیر میں نقصانات ہوتے رہتے ہیں ۔ جیسا کہ صوفی کے والد اور خود صوفی اور اس کے ہونے والے شوہر نسیم کی موت ہوئی، لیکن دوسرے تناظر میں آب کو ہم علامت بھی مان سکتے ہیں ۔ اس کی توجیہہ یہ ہوگی کہ خطرناک دریا کی طرح، کشمیر کے مکمل حالات آب کے مانند ہوگئے ہیں ۔ گویا وہاں دریاایک خطرناک صورت حال اختیار کررہا ہے،وہیں دوسری طرف وہاں کے حالات خطرناک بن گئے، جو دریا سے زیادہ خطر ناک ہوتے چلے جارہے ہیں ، ویسے یہ کہانی سادہ بیانیہ کی عمدہ مثال ہے۔
موضوعاتی تناظر ات کے بعد اگر اس افسانہ کی فنی خصوصیات پر گفتگو کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وحشی سعید کو زبان وبیان پر قدرت حاصل ہے، ساتھ ہی ساتھ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ سادگی کے بطن سے ہی پرکاری کی پیدا ئش ہوتی ہے۔ بیجا لفظی الٹ پھیر اور کہانی کو متعدد مقاما ت پر کلائمکس سے جوڑنے سے کہانی کی سادگی جاتی رہتی ہے اور تصنع کا احساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وحشی سعید نے انتہائی صاف لب ولہجہ میں ایک ایسی کہانی تخلیق کی جو متوازی طور پر متعدد مسائل کو مس کرتے ہوئے اختتام کو پہنچتی ہے۔ان کی یہ کہانی تہہ دار ہے، اکہری نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی جزئیات کی روشنی میں ہم بیک وقت کئی پہلوؤں سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔ افسانوں کی تہہ داری اس وقت قابل التفات نہیں ہوتی ہے،جب افسانہ ارتکاز کے ساتھ کسی ایک نکتہ پر نہ پہنچائے۔ درمیان میں جس طرح بھٹکتی رہی، اسی طرح اختتام میں بھی بکھرا رہے۔ وحشی کی یہ چھوٹی سی کہانی درمیان میں ادھر ادھر بھٹکتی ہے۔ مختلف حالات پیش کرتی ہے۔ یہاں تک کہ ڈرامائی فضا بھی پیدا کرتی ہے، مگر اختتام کے چند جملوں میں درمیابی بکھراؤ سمٹ جاتا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وحشی سعید مسائل کے تجزیوں کے ساتھ ساتھ مسائل کے بکھراؤ کو جوڑنے کی ہنرمندی سے مالا ہیں ۔ لب لباب کے طور پر یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ کہانی دہرے بیانیہ کی عمدہ مثال ہے۔ ڈرامائی کیفیت سے مالا مال ہوکر عشق وشوریدگی کی نئی مثال پیش کرتی ہے۔علامت اور سادہ بیانیہ کی کڑیوں کو انتہائی حسن آمیز فضا میں جوڑتی ہے اور کہانی پھیلتے پھیلتے ایک نکتہ پر آکر سکڑجاتی ہے۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!