پروفیسر حامدیؔ کاشمیری کی افسانہ نگاری
حامدیؔ کاشمیری کی ادبی شخصیت کی بلندی مسلم ہے وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر اور تنقید نگار کی حیثیت سے ابھر کر ہمارے سامنے آئے ہیں ان کی فکر میں جدّت اور جذبات میں شدّت ہے وہ زندگی کی حقیقتوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں تاہم وہ تخیل پر ست ہیں ۔ ان کے تخیل میں گہرائی اور گیرائی ہے جو دیکھا یا محسوس کیا اسے تخیل کی سحر کاری کے ساتھ لفظ وپیکر میں سموتے گئے حامدی کا شمیری ایک خاموش طبع اور خوش اخلاق انسان ہیں ۔ طبیعت میں توازن، نرمی اور ہمدردی ہے ان کی طبیعت کے اس پہلو کے متعلق اردو کے مشہور افسانہ نگار جوگیندر پال لکھتے ہیں :۔
’’ حامدی صاحب کے چہرے پر ہمیشہ پہاڑی موسم کا سماں بندھا رہتا ہے ناراضگی میں بھی مسکراتے رہتے ہیں ‘‘
حامدیؔ کاشمیری کی افسانہ نگاری کا آغاز لگ بھگ ۱۹۵۱ ء میں ہوا۔ جب ان کا افسانہ ’’ ٹھوکر ‘‘ ’’ماہنامہ شعائیں ‘‘ دہلی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد اردو کے مقبول رسالوں میں باقاعدگی سے افسانے لکھتے رہے ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’وادی کے پھول‘‘ ۱۹۵۷ ء میں منظر عام پر آیا یہ مجموعہ سولہ منتخب کہانیوں پر مشتمل ہے۔ یہ کہانیاں ۱۹۵۰ ء سے لے کر ۱۹۵۵ ء کے درمیانی عرصہ میں لکھیں گئیں ۔ا س زمانے میں حامدی کاشمیری شاعری سے زیاد ہ افسانہ نگار کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ابتدا ء میں حامدی کاشمیری کی افسانہ نگاری پر دو طرح کے اثرات مرتسم ہوئے۔ ایک تو انہوں نے پریم چند کے ہاتھوں پروان چڑھنے والی حقیقت پسندی جسے ترقی پسند افسانہ نگاروں نے زیادہ باریک بینی سے پیش کیا، سے اثر قبول کیا۔ دوسری جانب انہوں نے ریاست میں تخلیق شدہ افسانوی ادب جس کی پہچان علاقائیت سے ہوتی ہے، سے بھی اثرات قبول کیا۔ مظہر امام لکھتے ہیں :۔
’’ حامدی ؔکاشمیری کے افسانوں میں سماجی حقیقت نگاری کا واضح رجحان ملتا ہے۔ انہوں نے اس غریبی، بیماری، جہالت اور توہم پرستی کے حقیقی نقوش اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جو اس زمانے میں کشمیر کا مقدر تھے۔ ‘‘
حامدیؔ کاشمیری نے اپنے افسانوں میں وادی کے خوبصورت اور دلکش نظاروں کی منظر کشی کے ساتھ ساتھ ریاستی عوام کے مسائل یعنی جہالت، بھوک، افلاس اور احساس محرومی کو پیش کیا ہے حامدی اپنے پہلے ہی افسانوں کے مجموعے ’’وادی کے پھول‘‘میں ایک واضح نقطۂ نظر لے کر سامنے آئے۔ ان کا مقصد ریاستی عوام کے مسائل مثلاً مفلسی، غربت، جہالت اور پسماندگی کو اپنے افسانوں میں پیش کرنا تھا وہ وادی کے حسین اور دلفریب نظاروں ، مترنم جھرنوں ، برفیلے پہاڑوں ، جھیلوں اور دریاؤں کا ہی صرف ذکر نہیں کرتے بلکہ وہ اس حسین وادی میں دبی کچلی عوامی زندگی اور ان کے مسائل کو پیش کرتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں محنت کش، کاری گروں ، بوجھ ڈھوتے ہوئے مزدوروں ، مظلوم کسانوں ، فاقہ کش مانجھیوں ، غریب کلر کوں ، کی زندگی اور ان کے گھریلو مسائل اور مالی مشکلات کی عکاسی ملتی ہے ’’وادی کے پھول‘‘ کے دیباچے میں شکیل الرحمن حامدی کاشمیر ی کی افسانہ نگاری کے بارے میں تبصرہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’ حامدی نے کشمیر کی کہانیاں لکھی ہیں ۔ یہاں کا ماحول ان کے افسانوں میں ہر جگہ موجود ہے مقامی رنگ (Local Colour)نے ان کے افسانوں میں جان ڈال دی ہے جنہوں نے کشمیر دیکھا ہے وہ حامدی کے افسانوں کے کرداروں کو یہاں کے ماحول میں ضرور پہچان لیں گے ان کے کردار جیتے جاگتے اور یہاں کی فضا میں سانس لیتے ہوئے کردار ہیں حامدی ان کرداروں کی مدد سے کشمیر کی زندگی پیش کردیتے ہیں ۔ ‘‘
حامدیؔ کاشمیری کے افسانوں کے مجموعہ ’’ وادی کے پھول‘‘ میں شامل افسانوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد حامدیؔ کاشمیری کے فکر وفن کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔ یہ افسانے ان کی ابتدائی کوششوں کا نتیجہ ہیں ۔ ان افسانوں میں علاقائی رنگ غالب ہے ہر افسانے کا موضوع وادیٔ کشمیر اور وہاں کے دبے کچلے عوام ہیں ۔ جن کے حصے میں سوائے بیماریوں ، محرومیوں اور ناکامیوں کے سوا کچھ نہیں ، ان افسانوں میں حامدیؔ کاشمیری نے وادیٔ کشمیر کے حسین نظاروں کے پس پردہ انسانی زندگی میں جو تلخی چھپی ہوئی ہے، اس کو فن کارانہ انداز سے بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے اس کے علاوہ انہوں نے امیر جاگیردارانہ طبقے کے لوگوں کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔ جو اپنی دولت کی بدولت غریب عوام کا استحصال کرتے ہیں اور بے سہارا، یتیم لڑکیوں اور عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ۔ ان افسانوں میں طبقاتی کش مکش ملتی ہے۔ ایک طرف غریب طبقہ ہے جس کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے اور دوسری جانب امیر طبقہ ہے جو ان کا استحصال کرتا ہے اور ان پر ظلم وستم ڈھاتا رہا ہے، ان موضوعات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ترقی پسندی سے متاثر رہے ہیں ۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مارکسی تحریک سے کبھی بالواسطہ یا بلا واسطہ وابستہ نہیں رہے ہیں ۔ انہوں نے ابتدا ہی سے ذہنی آزادی کے ساتھ اپنے موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔
حامدیؔ کاشمیری کے افسانوں میں دو پہلو خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔ ایک تو حسین نظاروں کی منظر کشی اور دوسرا سماج پر طنز، منظر نگاری کے جو ہر تو تقریباً ہر افسانے میں کھلتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حامدیؔ کاشمیری کو خوب صورت پھول، خوب صورت جھرنے اور خوبصورت مقامات بلکہ ہر خوب صورت چیز بہت پسند ہے۔ جیسے ’’وادی کے پھول‘‘،’’مانسبل کی لہروں میں ‘‘،’’بہار آنے تک ‘‘اور آنسو اور مسکراہٹ وغیرہ افسانوں میں ان خوبصورت نظاروں اور وادی کے حسن کا بیان ملتا ہے۔
’’ بہاراور خون ‘‘،’’کرم دین ‘‘، ’’ٹھوکر ‘‘،’’ زلزلے‘‘ اور’’ دیکھتا ہی رہ گیا ‘‘ ایسے افسانے ہیں جن میں منظر کشی کرنے کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ ’’بہار اور خون ‘‘ میں ایک آرٹسٹ کی ذہنی پریشانیوں اور اس کی بیوی کی بیماری کو موضوع بنایا ہے۔ افسانہ ’’ کرم دین ‘‘ میں رلسیٹ ہاؤس کے غریب چوکیدار کی وفاداری، محنت اور رلیسٹ ہاؤس سے اس کی والہانہ محبت کو پیش کیا ہے۔ ’’ ٹھوکر ‘‘ افسانے میں شمبھو نامی شخص کی بیماری، بھوک اور افلاس پھر اس کی بیوی پر سیٹھ شیام لال کے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے۔ ایک محنت کش دستکار سخت اور کھردرے پتھروں کو اپنی محنت اور خونِ جگر سے رنگ رُوپ بخشتا ہے۔ اس کے بدلے میں اسے پیٹ بھر روٹی نہیں ملتی ‘‘
’’اگلے اتوار کی ‘‘، ’’ اندھیروں میں ‘‘،’’ آنسو اور شعلے ‘‘،’’ہانسبل کی لہروں میں ‘‘، ’’ آنسو اور مسکراہٹ ‘‘،’’دیکھتا ہی رہ گیا ‘‘ اور ’’بہار آنے تک ‘‘ایسے افسانے ہیں جن میں کشمیر کے مانجھیوں ، کسانوں ، مزدوروں ، دست کاروں اور کلرکوں کی مصیبت زدہ زندگی کو پیش کیا ہے۔ ان افسانوں میں ا ن کی ذہنی الجھنوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کشمیر میں سردیوں کے موسم سے بچنے کے لیے خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے باعث تپِ دق کی بیماری عام تھی۔ اس بیماری کا ذکر ان کے اکثر افسانوں میں ملتا ہے۔ یہ افسانے دورِ غلامی کے دنوں کے ماحول کو پیش کرتے ہیں ۔
مختصر یہ کہ حامدیؔ کاشمیری کے افسانوں میں کشمیر کے حسین مقامات، نشاط، شالیمار، چشمہ شاہی، چار چنار، جھیل ڈل، مانسبل جھیل اور دریائے جہلم کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی تنگ دستی، افلاس، بھوک، بیکاری، بیماری، غربت، محرومیوں اور توہم پرستی کا اظہار ملتا ہے۔ حامدیؔ کاشمیری اہل کشمیر کی زندگی کا قریب سے مطالعہ کر چکے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ ملکی سطح پر آزادی کے باوجود عام لوگ مفلسی کے شکار تھے۔ وہ لوگوں کے دکھ کو شدت سے محسوس کرتے ہیں ان کی چشم ِمشاہدہ کھلی رہتی ہے۔ وہ عام لوگوں کی زندگی میں دل چسپی رکھتے ہیں ۔
جہاں تک فنِ افسانہ نگاری کا تعلق ہے حامدیؔ کاشمیری اس فن کے اسرار رموز سے واقف ہیں ۔ان کے فنی شعور میں گہرائی ہے یہ ضرور ہے کہ یہ افسانے ان کی طالب علمی کے زمانے کی پیداوار ہیں ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب حامدی کاشمیری ذہنی ارتقاء کی جانب گامزن ہیں ۔ ان افسانوں میں کہیں کہیں جذباتیت بھی در آتی ہے جو فنی نقص ہے اور جسے ان کے عنفوان شباب کی جذباتیت سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک اس مجموعے کے افسانوں میں پلاٹ نگاری کا تعلق ہے، حامدیؔ کاشمیری نے پلاٹ خوبصورتی سے گھڑے ہیں ، اس کی بہترین مثال ہمیں ان کے افسانے ’’ اگلے اتوار کو ‘‘ میں ملتی ہے۔اس میں واقعات، حسن ترتیب سے پیش کیے گئے ہیں ۔ اور افسانہ نقطۂ نظر عروض کو چھوتا ہے، اس کے علاوہ افسانہ ’’ کرم دین‘‘،’’ زلزلے‘‘،’’ بہار اور خون‘‘،’’ مانسبل کی لہروں میں ‘‘، اور ’’ آنسو اور مسکراہٹ‘‘ میں بھی پلاٹ کو فن کاری سے ترتیب دیا گیا ہے۔ تقریباً ہر افسانے میں واقعات کو فن کارانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کردار نگار میں بھی انھوں نے اپنے تخیل کے جوہر دکھائے ہیں ، ہر کردار کو حقیقت سے قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے لیے کردار عموماً سماج کے نچلے طبقے سے لیے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں ’’کرم دین‘‘، ’’چاچا شعبان‘‘، ’’سمجھو‘‘،’’اڑٹسٹ‘‘،’’ شیامو‘‘،’’ شوکت ‘‘ صالحہ اور زونی کے کردار نچلے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اور اپنی خصوصیات مثلا ً مکالمہ نظریۂ حیات، جذباتی کیفیت اور انسانی رشتوں کی بنا پر انفرادیت کے حامل ہیں ۔
اس کے بعد جہاں تک زبان وبیان کا تعلق ہے ان افسانوں میں سادہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ کہیں کہیں شاعرانہ نزاکت بھی ملتی ہے۔ لب ولہجہ میں نرمی اور گھلاوٹ ہے۔ سیدھے سادے معصوم کرداروں کی زندگی کو سادہ آسان مگر شاعرانہ زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ ان افسانوں کی زبان میں مقامی لب ولہجہ کا اثر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ افسانے پڑھ کر حامدی کاشمیری کے شاعرانہ احساس کی نزاکت نرمی اور جمالیاتی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک شاعر نے یہ افسانے لکھے ہیں ۔
حامدیؔکاشمیری کے افسانوی مجموعے ’’وادی کے پھول‘‘ کے دو سال بعد ۱۹۵۹ ء میں ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ’’ سراب‘‘ منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے میں دس کہانیاں موجود ہیں ۔ا ن کہانیوں میں بھی پہلے مجموعے کی کہانیوں کی طرح علاقائی رنگ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ تاہم ان کے موضوعات کا دائرہ وسیع تر ہے اور یہ پوری زندگی کا احاطہ کرتے ہیں ۔
’’ سراب‘‘ کی کہانیوں کے موضوعات وادیٔ کشمیر کے پس منظر میں کشمیری عوام کی زندگی ہے، منظر کشی کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی پریشانیوں ، مصیبتوں ، بیماریوں ، دکھوں ، ان کے جذبہ ٔ محبت، سادگی کم آمیزی اور توہم پرستی کو حامدی کاشمیریؔنے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔
’’ نیا سفر ‘‘ اور ’’ بندکھڑکی ‘‘ افسانوں میں غفار جو اور ڈالی کے کردار ابھرتے ہیں ۔ غفار جو ایک بہترین کاریگر ہے اور ایک کارخانے کا مالک بھی ہے۔ کئی شاگرد اس کے کارخانے میں کام کر تے ہیں ۔ کارخانے سے بنی ہوئی چیزیں خریدنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں اور غفار جو کی شہرت کا چرچا دور دور تک پھیل جاتا ہے۔ مگر وہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے، وہ یہ کہ اس کا ممتاز زشاگرد غلام احمد اس کی بیوی سے محبت کرتا ہے اور وہ ان دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ بھی لیتا ہے دونوں کو ایک بڑے پتھر سے مارنے کا ارادہ کرتا ہے، لیکن غلام احمد کی محبت اور اس کو ایسا کرنے سے دور رکھتا ہے۔ دونوں کو معاف کر دیتا ہے۔ بیوی کو مار پیٹ کرتا ہے۔ مگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتی اور غلام احمد کی ہوس کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ غفار جو ان تمام حالات سے آگاہ ہوتا ہے۔ دکھ کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ لیکن آخر میں اس کا احساس خودی جاگ اٹھتا ہے اور وہ عزیز ترین شاگرد کوکارخانے سے باہر نکال کر رہتا ہے۔
ڈالی افسانہ ’’بند کھڑکی‘‘ کا ایک دل آویز کردار ہے۔ اس کے بچپن کا دوست فضل ہے۔ ان دونوں کے درمیان محبت اس قدر ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ایک لمحہ بھی الگ نہیں ہوتے۔ خان صاحب کے باغ سے سیب چراتے اور دن بھر عیش وخوشی سے رہتے۔ ایک دن ڈالی اور فضل دونوں خان صاحب کے باغ سے سیب چرانے کے لیے گئے تو ڈالی سیب کے پیڑ پر ہی تھی تو اتنے میں مالک آگیا۔ فضل تو بھاگنے میں کامیاب ہوگیا، لیکن ڈالی پیٹر کی شاخوں سے گر کرٹانگ توڑ بیٹھتی ہے۔ اور بقیہ عمر معذور ہوکر کمرے میں گزارتی ہے۔
’’ آگ اور دھواں ‘‘، ’’ آخری سہارا ‘‘، ’’شہناز ‘‘،’’ رنگ اور روشنی ‘‘، ’’سراب ‘‘ اور ’’جلتا صحرا‘‘ افسانوں میں مرد اور عورتوں کے درمیان جذبہ ٔ محبت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان افسانوں میں منظر کشی کے نمونے بھی ہیں ، ان افسانوں میں انسانی نفسیات کے خوب صورت مرقعے ملتے ہیں ۔ یہ ذہنی اور جذباتی الجھنوں کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔
حامدیؔکاشمیری نے افسانہ ’’ سائے ‘‘ میں ایک لڑکی نبلہ کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ یہ نبلہ نامی لڑکی اپنی خوب صورتی کی بنا پر مشہور ہے۔ اپنی دوسری دو بہنوں کے ساتھ اپنے چچا صمد گولہ کی نگرانی میں زندگی بسر کرتی ہیں ۔ ان کے والدین ایمانداری اور اصول کی ایک مثال تھے، ان کی وفات کے بعد بدلتے ہوئے حالات نے ان کو بھی بدلنے پر مجبور کیا۔ وہ حالات کی شکار ہوکر اس قدر جاتی ہے کہ ہر ایک اس سے محبت کرتا ہے اور اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی خوبصورتی پہ ناز کرتی تھی۔ اس طرح وہ اپنی پوری عمر برباد کرنے کے سلسلے میں محور ہتی ہے۔ جب کہ اس کا خاوند ایک کارخانے میں مزدوری کر کے اپنے گھر کے اخراجات پورے کراتا ہے۔ افسانے میں عورت کی غلط کاری کا تاثر ابھرتا ہے۔ لیکن اس کی ذمہ داری سماج پر عائد ہوتی ہے۔
افسانہ ’’ لمحوں کا سفر‘‘ ایک با اصول ’’ غیرت مند اور باہمت انسان کی زندگی کے نقوش ابھرتے ہیں ۔ سکرٹیریٹ کا معمولی سا ملازم ہونے کے باوجود وہ اپنی زندگی غیرت اور اصول کے ساتھ بسر کرتا ہے۔ بیوی کی وفات کے بعد بھی اپنے اصول کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ گھر میں صرف دو بچیوں کے سوا اور کوئی دوسرا آدمی نہیں ہوتا۔ بیوی کی موت کے بعد ان بچیوں کی دیکھ بھال اچھے انداز میں انجام دیتا۔ کہیں بھی ان کو اکیلے نہیں جانے دیتا اور نہ ہی غیر انسان کو گھر میں دیکھنا چاہتا ہے۔محلے والوں کی حرکتوں پر تنقید کرتا ہے۔ اور پریشان ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اس کے بس کی بات نہیں ہوتی اپنی دونوں بچیوں نیلی اور شیلا کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اچھے اچھے رشتے تلاش کرتا رہتا ہے اور آخری دم تک یہی تڑپ رہتی ہے۔ کہ بچیوں کی زندگی بہتر ہوجائے۔لیکن اس کی لڑکیاں اپنے شوہر ڈھونڈنے میں ناکام رہتی ہیں ۔ اور افسانے کا کردار بے بسی کا مجسمہ بن جاتا ہے۔
افسانوی مجموعہ ’’ سراب‘‘ کے افسانوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد حامدی کاشمیری فن کے لحاظ سے ایک پختہ کار افسانہ نگار نظر آتے ہیں ۔ افسانوں میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک اچھے اور منجھے ہوئے افسانہ نگار میں ہوتیں ہیں ۔ وہ کردار، واقعہ قصہ پن اور پس منظر بڑی مہارت کے ساتھ افسانوں میں پیش کرتے ہیں یہ افسانے ان کے اس دور کی پیداوار ہیں ، جب ان کا ذہن ارتقائی منزلیں طے کر رہا تھا، انہوں نے پلاٹ کی تشکیل میں ایک خاص معیار قائم کیا ہے۔ پلاٹ نگاری کے سلسلے میں حامدیؔ کاشمیری کا ذہن دوسرے بڑے افسانہ نگار وں جیسے پریم چند، راجندر سنگھ بیدی ؔ، اور کرشن چندر کی طرح کام کرتا ہے۔ واقعات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ افسانہ پرھتے وقت قاری کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں لمحوں کا سفر، سائے، نیا سفر، آخری سہارا، شہناز اور سراب وغیرہ کو پیش کرسکتے ہیں ۔ کردار نگاری میں بھی ان کا فنی شعور اپنے عروج پر ہے۔ وہ کردار کی خارجی اور داخلی خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں ۔ ان افسانوں کی خوبی یہ ہے کہ ایک تخلیقی دنیا کو پیش کرتے ہیں اور فرضی واقعات کی مدد سے ایک ایسی صورتِ حال ابھارتے ہیں کہ ان کی تصویر حقیقی نظر آتی ہے۔
یہ افسانے زبان وبیان کے لحاظ سے بھی جاذب توجہ ہیں ، ان میں سادگی بھی ملتی ہے اور شاعرانہ زبان کا استعمال بھی کیا ہے۔ افسانوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں اور افسانے کو بھی شعری نمونے میں بدل دیتے ہیں ۔
’’برف میں آگ‘‘ حامدیؔ کاشمیری کے افسانوں کا تیسرا اور آخری مجموعہ ہے۔ ۱۹۶۱ ء میں ادارۂ ادبیات اردو حیدرآباد کے زیر اہتمام منظر عام پر آیا۔ یہ مجموعہ ان کی افسانہ نگاری کے سفر کی ایک نئی منزل کا اشاریہ ہے، اس افسانوی مجموعے کی کہانیاں ان کے خیالات ومشاہدات میں نئی وسعت کا پتہ دیتی ہیں ۔ ان کے اسلوب وآہنگ کو ابھارتی ہیں ۔ اس مجموعے کے افسانے کشمیر زندگی کے خد و خال کو بھی ابھارتے ہیں ۔ مگر ساتھ ہی ملکی سطح پر قدیم وجدید کے امتزاج سے جو نئی زندگی اور ان کے مسائل وحالات پیدا ہورہے تھے ان کی وسیع تر تناظر میں تصویر کشی کی گئی ہے ’’برف میں آگ‘‘ شامل افسانوں میں بھی وہ انسانی نفسیات کی باریکیوں اور الجھنوں سے واسطہ رکھتے ہیں ۔ وہ انسان کے باطن کی گہرائیوں میں اترتے ہیں ۔ ان کا مستقل موضوع وہ انسان ہے جو جدید سائنسی اور مادّی ترقی کی دوڑ میں اپنے وجود اور بقا کی فکر میں لگا ہوا ہے اور بدلتے حالات سے مقابلہ کرنے کی جد و جہد میں داخلی کرب سے گزرتا ہے۔ ان افسانوں میں جدید صورت کا تصور بھی ابھرتا ہے، وہ عورت جو عہد قدیم کی عورت سے مختلف ہے۔ یہ دبی کچلی عورت نہیں جو مردوں کے معاشرے میں کچن کے دھوئیں میں اپنی زندگی تمام کرتی تھی۔ یہ نئی عورت ہے جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہے جو مردوں کے دوش بدوش دفتروں میں کام کر تی ہے۔ اپنی قابلیت اور ذہنیت کا سکہ جماتی ہے۔ لیکن جس کا المیہ یہ ہے کہ وہ مردوں کے معاشرے میں جی رہی ہے۔ آزادی کو حاصل کرنے کے باوجود جو پایہ لال ہے، جن تضادات کے بنا پر اپنے وجود کا اثبات نہیں کر پاتی جو مکمل ہونے کی جد وجہد میں اس کے خواب بکھرجاتے ہیں ۔ اس کی آرزوئیں پامال ہوجاتی ہیں ۔ اس کے جذبات لبِ اظہار تک نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن وہ عمر رسید ہ اور بیمار باپ اور چھوٹی چھوٹی بہنوں کے کنبے کی کفالت کرنے پر مجبور ہے۔ کہیں وہ ایک کے بعد ایک مرد کی باتوں میں آکر اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہے کہیں وہ مردوں کی خوشامد اور چاپلوسی سے جینے سے بیزار ہوتی ہے۔ کہیں مردوں سے عدم مطابقت کی شکار ہوکر المیہ کردار بن جاتی ہے۔ اور کہیں اس کی انا کو ٹھینس پہنچتی ہے۔ اور اس کا وجود پار ہ پارہ ہوجاتا ہے۔ حامدیؔکاشمیری کی افسانہ نگاری کے آخری دور میں زندگی کی رنگا رنگی، کرداروں کی فتح انسانی زندگی سے وابستگی، معاصر عہد کی بحرانی حالت، سماجی اور تہذیبی انتشار اور نفسیاتی مسائل کی فراوانی ملتی ہے۔
’’برف میں آگ‘‘ افسانوں کی بنا پر افسانہ نگار نے فن کی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ اشاروں اشاروں میں کرداروں کی عکاسی کی گئی ہے۔ داخلی زندگی کی پریشانیوں کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ا ن کے افسانوں میں ترشے ترشائے جملے ایک عنصر پیدا کردیتے ہیں جس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ غیر ضروری تفصیلات سے احتراز برتا گیا ہے۔ کم سے کم الفاظ میں پورے منظر کو پیش کیا گیا ہے۔ واقعات کی عکاسی ہر ایک افسانے میں کی گئی
ہے۔حامدیؔ کاشمیری نے ذکر کردہ مجموعے کے افسانوں کو ہیرے کی طرح تراشا ہے۔ ہر ایک افسانہ ایک تخلیقی فضا کو ابھارتا ہے اور ہر ایک افسانہ واقعات پر مبنی ہے۔ بیانیہ انداز بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر افسانے میں وحدت اور تاثر سے کام لیا گیا ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "پروفیسر حامدیؔ کاشمیری کی افسانہ نگاری"
[…] 117. پروفیسر حامدیؔ کاشمیری کی افسانہ نگاری […]