پاکستانی افسانہ ـ ایک تعارف

پاکستانی افسانے کی عمر اپنے قومی تشخص کے اعتبار سے تقریباً 70 سال ہے۔70 سال کی زندگی قوموں کے لیے کوئی بہت بڑاعرصہ نہیں ہے، لیکن وہ حضرات جنھوں نے 1947ء میں شعور کی آنکھ کھولی ہیں، اس بات کے شاہد ہیں کہ پاکستانی افسانوں نے اہم سنگ میل طے کیے ہیں اور اردو ادب میں گرانقدر اضافے کیے ہیں۔فتح محمد ملک پاکستانی اردو افسانہ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قیام پاکستان کے ساتھ ہی افسانہ نگاری (مختصر افسانہ اور ناول) کی اس روایت کا طلسم ٹوٹ گیا جو سن ستاون کی جنگ آزادی میں ناکامی کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ نقادوں سے پوچھتے تو وہ آپ کو بتاتے کہ اردو افسانہ نگاری انگریز راج کی منجملہ برکات میں سے ایک ہے۔ اب مجھ سے پوچھا ہے تو سن لیجیے کہ اردو افسانہ تو سن ستاون کے ہنگامۂ دار و گیر میں کھو گیا تھا….. ‘‘1  ؎

پاکستان میں افسانہ ہر طرح سے ہندوستانی افسانے سے الگ شناخت قائم کرتا گیا۔ اس لیے کہ افسانوں کے کرداروں سے جس طرح کے معاشرے کی صورت گری ہوتی نظر آرہی تھی اس سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ ترقی و تبدیلی کے تمام تر دعوؤں کے باجود افسانے کا منظر نامہ بڑی حد تک سماجی و سیاسی عدل سے محروم ہے۔ بیسویں صدی کی ناگزیر ذہنی فضا  میں سیاسی صورت حال غیر اطمینان بخش  تھا۔  جس میں ادیب یا تو بالکل کٹ کر رہ گیا ہے یا پھر سیاست کا ایک حصہ بن کر سیاسی افسانےرقم کرنے لگا۔محمد علی صدیقی ’’پاکستانی معاشرہ اور اردو افسانہ‘‘ میں رقم طراز ہیں:

“پاکستان کی سماجی زندگی کے مطالعہ کے لیے بھی اردو افسانہ نے جس نوع کا مواد ہمارے سامنے رکھا ہے وہ ہماری سماجی تاریخ کا اہم اور حساس ترین باب ہے۔ ہم اردو افسانہ کے آئینہ میں پاکستان کی بدلتی ہوئی صورت حال کا جس طرح ادراک کر پاتے ہیں وہ پاکستان کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تاریخ پر تحقیقی کتب کے ذریعہ ممکن تو ہے لیکن اس نوع کے مطالعہ میں جس چیز کی کمی رہ جائے گی وہ خود پاکستانی سماج کی وہ جیتی جاگتی تصویر ہوگی جس کے بغیر آنے والے زمانے کا مورخ خود کو ایک اہم اوزار Toolسے محروم سمجھے گا۔” 2 ؎

قیام پاکستان کے بعد اردو افسانے میں دو واضح رجحانات نظر آئے۔  ایک جانب افسانہ نگار فرد کی بے بسی اور مجبوری کو موضوع بناتے رہے۔ تو دوسرے افسانہ نگاروں نے فطرت کے مطابق خواب و خیال کی رنگینیوں اور رعنائیوں اور فطری مسرتوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ۔ تقسیم وطن سے پہلے افسانہ نگاروں نے انسان کے بنیادی رشتوں کی بدلتی صورتحال میں نئی تفہیم کی اور انسانی جذبات اور شکست و ریخت کی الگ الگ تصویریں پیش کیں۔ اس طرح  قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں اور خاص طور پر مہاجر کیمپوں میں جنم لینے والی کہانیوں نے اردو افسانے کو ایک نئے افق سے آشنا کیا۔قیام پاکستان کے بعد منظر پرآنے والے افسانوں میں اس قسم کے پُر سوز واقعات کی جھلکیاں نمایاں طور پر موجود ہیں۔ آزادی کے نام پر انسان درندہ بن گیا۔ ان موضوعات پر تخلیق کیے جانے والے افسانوں میں رنج و ملال، ظلم و بربریت کے ساتھ ساتھ زندگی کے باطنی حسن کی جستجو  بھی پائی جاتی ہے اور زندگی کی حقیقی مسرت کی تلاش کا جذبہ بھی دکھائی دیتا ہے۔

فسادات پر متعدد افسانے لکھے گئے جن میں منٹو کا’’کھول دو‘‘ ، ’’ٹوبہ ٹیگ سنگھ‘‘، حیات اللہ انصاری کا ’’شکر گزار آنکھیں‘‘، ’’ماں اور بیٹا‘‘، عزیز احمد کا’’کالی رات‘‘ قدرت اللہ شہاب ’’یاخدا‘‘، اشفاق احمد کا’’گڈریا‘‘، احمد ندیم قاسمی کا ’’پرمیشر سنگھ‘‘، ’’میں انسان ہوں‘‘ فنی  اورموضوعاتی لحاظ سے قابل ذکر ہیں۔ ان تمام افسانہ نگاروں نے انسانی خلوص، وفاداری، انسان دوستی اور وسیع تر انسانی بنیادوں پر انسانی اخوت و محبت کو ابھارا ہے۔ فسادات پر لکھے گئےافسانوں میں ظلم و بربریت کی داستانیں بھی ہیں۔اس کے علاوہ کچھ ایسے افسانے بھی ہیں جو واقعاتی ہونے باوجود اپنے اندر افسانوی حسن بھی رکھتے ہیں۔ ایسے افسانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ان میں جذبے کی صداقت، فکر کی گہرائی اور فنی پختگی نظر آتی ہے۔ ان میں زندگی کی پیچیدگیوں کا احساس بھی ہے اور محبت و انسانیت کی تلاش کا عمل بھی۔ اس تاریخی سانحے کا دکھ کس طرح انسانی زندگی کی حرمت اور طہارت کو داغدار کرتا ہے۔ ان افسانوں میں اس حقیقت کو نمایاں طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قدرت اللہ شہاب کا افسانہ’’یا خدا‘‘ عورت کے اس المیے کو پیش کرتا ہے جو مرد کی ہوسناکی سے دو چار ہوتی ہے۔ انتظار حسین کا افسانہ’’بن لکھی رزمیہ‘‘  فسادات کے پس منظر کے ایک خاص عہد کے تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس  میں آزادی کی خواہشیں، امنگیں، ٓزادی کے بعدایک گہری مایوسی، خوابوں کی شکست اور ان کے بکھرجانے کا احساس اور حالات کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن کو بدل دینے کا رویہ بھی جھلکتا ہے۔ اسی طرح عزیز احمد کا افسانہ’’کالی رات‘‘ انسان کی ذہنی اور اخلاقی بلندی پر گہرا طنز ہے۔ اشفاق احمد کاافسانہ ’’گڈریا‘‘ میں سچائی، ضبط اور تحمل کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔

 دوسری جانب فسادات کی ترجمانی میں زندگی کے حسن کی تلاش اور داخلی جذبات کے اظہار کا احساس بھی ملتا ہے۔ اس میں زندگی کا ایک خوبصورت  تصوربھی ہے۔ جو خواہشات اور تصورات زندگی کے اس رومانی رویے کی علامت ہے، جو ہمیشہ جگمگاتی رہتی ہے۔ جو سنگلاخ پہاڑوں، نامساعد حالات اور اندوہناک المیوں کے سائے میں بھی زندگی کی لو مدھم نہیں ہونے دیتی ہے۔   اس صورتحال کو انتظار حسین اور دیگر افسانہ نگاروں نے تہذیبی و سماجی انتشار کا نام دیا ہے  اور آزادی کو  ایک تاریخی سانحہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے افسانہ نگار بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے مایوسی کے اندھیرے میں زندگی کا چراغ روشن کیا اور فرد کو نئے اور تابناک مستقبل کی بشارت دی۔   جس میں فرد کے کردار کی سمت متعین کی  گئی اور اسے زندگی کے نئے معانی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دور کی افسانہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

’’پاکستان کے اردو افسانے کا سب سے اہم کارنامہ یہی ہے کہ حسن کردار کے حوالے سے ذات کے اس کٹے ہوئے حصے کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو مادی زندگی میں نظروں سے تو اوجھل ہوگیامگر جس کا (Eidetic Image) انسانی دماغ میں بدستور موجود ہے۔ اور تخلیقی عمل کے دوران صفحۂ قرطاس پر بآسانی منتقل ہو سکتا ہے….کردار کے کٹے یا بچھڑے ہوئے حصے کی تلاش پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد شروع ہوئی اور بتدریج کئی مدارج سے گزرتی چلی گئی….بحیثیت مجموعی اس دور میں کردار کے بجائے مثالی نمونے کو اہمیت ملی تھی۔ ‘‘ 3؎

فسادات کا آتش فشاں سرد ہوا تو افسانے میں دوسرے موضوعات کو اہمیت ملنی شروع ہوئی، جن کا تعلق عام انسانوں کی زندگی سے تھا۔ اس دور میں چھوڑی ہوئی زمینوں اورماضی کی بازیافت کا رجحان پیدا ہوا۔ افسانہ نگار کو وہ گلیاں، کوچے، مکان، بازار، دریچے اور لوگ یاد آنے لگے جنھیں وہ سرحد کے اُس پار چھوڑ آیا تھا۔ اے حمید ان شگوفوں کا افسانہ نگار ہے جو صرف خزاں کی ٹہنیوں پر اُگتے ہیں۔ ’’منزل منزل‘‘ اور’’پترانا رال دے‘‘ اور’’یروشلم‘‘ ان کے افسانے ہیں۔ انتظار حسین کا نوحہ تہذیبی زوال سے پیدا ہوا اور آنسو بن کر آنکھ سے ٹپک پڑا۔ ’’محل والے‘‘،’’آخری موم بتی‘‘ اور’’مجمع‘‘ تہذیبی زوال کے نمائندہ افسانے ہیں۔

1958 ء میں پاکستان کی معاشرتی زندگی میں غیر معمولی تبدیلی واقع ہوئی۔ اسی سال پاکستان مارشل لا کی زد میں آگیا۔ انسان کے بنیادی حقوق چھین لیے گئے۔ ادبی سطح پر اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ فنکار نے باہر کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے اندر غوطہ زنی شروع کردی۔ کردار پرچھائیں  بن گئے، خصوصیت نے عمومیت کا رنگ اختیار کرلیا۔ اور حقیقت کو علامت کے پردے میں نہاں کیا جانے لگا ۔ اس دور میں علامت کو فروغ حاصل ہوا ۔ اورتجسیم کے بجائے تجرید کا رجحان فروغ پانے لگا ۔ چنانچہ اس دور میں افسانہ عارضی سطح کے بجائے موسیقی کےلہروں کا روپ اختیار کر گیا  اور یوں افسانے کا ٹھوس پیکر شاعری کے لطیف پیکر میں ڈھلنے لگا ۔ افسانے کے لئے یہ تجربہ انوکھا تھا ۔ اس تجربہ کو جن فنکاروں نے زیادہ سنجیدگی سے استعمال کرنے کی کوشش کی ان میں انور سجاد، انتظا رحسین، غلام الثقلین نقوی، خالدہ اصغر، رشید امجد کو اہمیت حاصل ہے۔ حالانکہ علامت کو پہلے بھی افسانہ نگار استعمال کرچکے تھے ۔ مگر ان افسانہ نگاروں نے علامت کو نہ صرف زیادہ کامیابی سے استعمال کیا بلکہ ایک فنی جہت بھی عطا کی۔ اس جہت میں انتظار حسین کی دریافت یہ ہے کہ انہوں نے داستانی اسلوب کی تجدید کی اور اساطیری کہانیوں کو نئی تاب و توانائی سے پیش کیا۔ ’’آخری آدمی‘‘ کے پیشتر افسانے اس کے گواہ ہیں۔ انور سجاد نے وجود کو اہمیت دی، اور ہیولوں کو پکڑنے کی کوشش کی جو ذہن کو نت نئی روشنیوں سے چکا چوندھ کرتے ہیں۔ ’’کیکڑا‘‘ ، ’’کارڈٹیک دم‘‘ ،’’دوب ہوا اور لنجا‘‘ وغیرہ اسی انداز کے افسانے ہیں۔ غلام الثقلین نقوی کا افسانہ ماورا کی طرف لپکتا ہے لیکن اس کے پاؤں زمین کو نہیں چھوڑتے۔ اس کی تصویریں روشنیوں اور سایوں کا حسین امتزاج پیش کرتی ہیں۔”لمحے کی مدت‘‘،  ’’وہ‘‘اور’’ شرگوشی‘‘ غلام الثقلین کے چند ایسے افسانے ہیں جن میں کرداروں کی داخلی صورت ہیولوں میں تبدیل ہوئے بغیر ایک عجیب شعری کیفیت پیدا کرتی ہے۔ خالدہ اصغر کے یہاں حقیقت اور افسانے کا تجریدی فاصلہ نسبتاً زیادہ ہے۔ تاہم انہوں نے انسان کے داخلی انتشار کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے اور’’ہزار پایہ‘‘، ’’ہم جنس‘‘ اور ’’شہر پناہ ‘‘ جیسے افسانے لکھے۔ رشید امجد کے افسانوں میں روشنی کرداروں کے عقب سے نمودار ہوتی ہے۔ وہ اپنا موضوع زندگی سے منتخب کرتے ہیں اور اسے بالعموم واحد متکلم میں پیش کرتے ہیں۔ ’’بیزار آدم کے بیٹے‘‘، ’’ریت پر گرفت‘‘ کے بیش تر افسانے اسی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ افسانہ ’’قطرہ سمندر قطرہ‘‘ اسی طرح کے افسانے کی پہچان کے طور پر استعمال ہونے لگا۔

پاکستان میں اردو افسانے میں تجرید و علامت کا استعمال مخصوص تقاضوں کے تحت شروع کیا گیا۔ اور جب یہ مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھنے لگا تو اس میں تقلید کا بازار گرم ہوا۔ اس کی تقلید کرتے ہوئے  منیر احمد شیخ نے ’’قیمتی آدمی‘‘، ضیاء پرویز نے ’’زرد شہر‘‘، شمس نعمان نے ’’آدمی خرگوش‘‘ اور ’’کتے‘‘ غلام رسول تنویر نے ’’روح کا گوتم‘‘ مسعود اشعر نے ’’پایہ زنجیر‘‘ احمد منظور نے ’’شواد گل‘‘ وغیرہ اچھے افسانے پیش کیے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ افسانہ نگار تجرید اور علامت کو زیادہ دیر تک تخلیقی توانائی سے  سینچ نہ سکے اور مسعود اشعر اور شمس نعمان کے علاوہ کوئی اس کی آبیاری نہ کرسکا۔ افسانہ نگاروں کی نئی کھیپ جس نے اپنی فنی اتبداء ہی تجرید سے کی تھی میدان عمل میں آگئی۔ مشتاق قمر، محمد منشا یاد، نزہت نوری، اکرام اللہ، انوار علیگی، اعجاز راہی، سمیع آہوجا وغیرہ دوسرے دور کے آخر میں سامنے آئے ۔اردو افسانے میں تجرید اور علامت کے ساتھ کنکریٹ افسانے کو بھی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اور افسانہ نگاروں کی ایک فوج تھی جو اس کو بھی فروغ دے رہی تھی۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا اپنے مضمون ’’پاکستان میں اردو افسانے میں پچیس سال‘‘ میں رقم طراز ہیں:

’’افسانے میں تجرید اور علامت کا استعمال اس دور کی خصوصیت سمجھا جاتا ہے ۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ کنکریٹ افسانے سے یکسر بے اعتنائی برتی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ فرخندہ لودھی، حمیدہ معین رضوی، فریدہ مرزا، ندرت الطاف، مظہر الاسلام، نگہت لغاری، آغا سہیل، سلیم خان گمی، نگہت مرزا اور قیوم راہی وغیرہ افسانہ نگار اسی دور میں معروف ہوئے۔ ان میں سے فرخندہ لودھی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے ناول سے افسانے کی طرف رجوع کیا تو ناول کی وسعت کو افسانے میں سمیٹنے کی کوشش کی اور مختصر کینوس پر بوقلمونی زندگی کے نقوش ابھارے، ان کے افسانوں میں سے ’’شرابی‘‘، ’’پروانی موج‘‘، ’’بوٹیاں‘‘ وغیرہ کو قبولیت حاصل ہوئی اور ان کا تذکرہ عرصہ تک ہوتا رہا۔ پہلے دور کے افسانہ نگاروں نے جو کنکریٹ افسانے لکھے ان میں سے آغا بابر کا افسانہ’’توازن‘‘ تاکم محمود کا’’قافلے والے کی بیٹی‘‘، ہاجرہ سرور کا’’قافلے‘‘،  خدیجہ مستور کا ’’سودا‘‘، مسعود مفتی کا’’یاخدا‘‘، یونس جاوید کا ’’دھرتی کے گھاؤ‘‘، غلام عباس کا ’’نواب صاحب کا بنگلہ‘‘، غلام الثقلین کا ’’بند گلی‘‘، الطاف فا طمہ کا’’سون گڑیاں‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ اور دم تحریر خود بخود ذہن کی سطح پر تیر رہے ہیں۔’’ 4؎

پاکستانی اردو افسانے کا دوسرا دور دسمبر 1971ء تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دوران 1965کی جنگ نے پاکستانی قومیت کو مثبت اور واضح  پہچان  دی۔ اس دور میں پاکستانی ادیب نے وطنیت کے روحانی اور ارضی تقاضوں میں امتزاج پیدا کیا۔ جنگ نے تقریباً تمام ہی افسانہ نگاروں کو متاثر کیا۔ لیکن اس کا تخلیقی تجربہ مسعود مفتی ، انتظار حسین، الطاف فا طمہ، فضلِ قدیر، غلام الثقلین نقوی کے یہاں توانا صورت میں وارد ہوا۔ غلام الثقلین نقوی کا افسانہ ’’مٹی کی خوشبو‘‘ انسان کی انتھک کوشش اور زمین کی تخلیقی قوت پر اعتماد بحال کرتا ہے۔ مسعود مفتی کے افسانے ’’رضائی‘‘ میں بینک سے نفرت کا جذبہ بیدار کیا گیا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی بد حالی کو موضوع بنایا گیا۔ انتظار حسین نے سرزمین پاکستان سے وابستگی کے جذبے کو ابھارا جس کے بغیر انسان کی روح داخلی طمانیت سے محروم ہوجاتی ہے۔ ’’شہر افسوس‘‘ کے افسانے اس متجسس فرد کے المیے کو ہی پیش کرتے ہیں۔ الطاف فاطمہ اور فضل قدیر کے یہاں وطن کی مٹی ایک دور کی امانت ہے اور اس کا تحفظ انسان کے داخلی خلا کو پُر کرتا ہے۔

1971 میں مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے رجحانات فروغ پانے لگے  اور مارشل لا  اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے میں ناکام ہوگیا ، بالآخر وہ الگ ہوگیا۔ پاکستانی افسانہ نگاروں نے اس دور کے اضطراب، انتشار، بے بسی اور پریشانی کو اپنے تجربے کا جزؤ بنا لیا۔ اور ایسے افسانے منظر عام پر آئے جس نے اس دور کی عکاسی مکمل طور پر کی۔ غلام محمد کا افسانہ ’’ایک شخص سہما ہوا‘‘ میں اس جنگ کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس میں فرد اپنے تحفظ کے لیے خونی رشتوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے گریز نہیں کرتا۔ زین العابدین کا افسانہ’’جاگتے رہو‘‘ میں انسان حیوان کے روپ میں سامنے آیا ہے اور اپنے کرتوت سے انسانیت کو شرسار کردیتا ہے۔ نشاط فاطمہ کا افسانہ’’مٹی ٹھنڈی ہے‘‘ اس نفرت کے خلاف آواز ہے جو دو بھائیوں کے دل میں پیدا ہوگئی ہے اور گھر کو نذر آتش کردیتی ہے۔ شہزاد منظر، ایوب جوہر، ام عمارہ، مسعود اشعر وغیرہ نے بھی اس کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اس کو اپنی تحریروں میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور اس میں انسانیت کے جذبے کو ابھارنے کی حد درجہ کوشش کی ہے۔ مسعود مفتی نے اس صورت حال کو پیش کیا ہے جو قوموں کی زندگی کا عرصہ محدود کردیتی ہے۔ اور پھر عذاب الٰہی اسے اپنی زد میں لینے سے گریز نہیں کرتی ہے۔

پاکستانی اردوافسانے کا تیسرا عہد 1972میں شروع ہوا۔گزشتہ دور کے اختتام میں پاکستان کی معاشرتی زندگی میں ولولوں کی شکستگی، آرزوؤں کی ناکامی کا اثر بہت بڑھ گیا ۔تیسرے عہد کی شروعات تجربات و مشاہدات اور احساسات کی ایک کائنات کے ساتھ ہوئی جس کا گواہ افسانہ نگار رہا  اور افسانہ نگار ان سے متاثر ہوکر مایوسی، بے چارگی اور نارسائی کے خول میں بند ہوگیا اور افسانہ نگار نے ایک طرف منظر کے کرب کو حقیقی رنگوں میں پیش کرنے کے لیے خارج کا بغور مطالعہ کیا۔ تو دوسری طرف حقیقت کی دریافت کے لیے اپنے داخل کی طرف رخ کیا۔ اور اس طرح سے افسانوں میں کرداروں کی تصویر واضح نہ ہوسکی بلکہ دھندلی ہوگئی اور نئے افسانے سے اس کا ایک بنیادی عنصر غائب ہوگیا۔ اس طرز فکر کے افسانہ نگار ڈاکٹر رشید امجد نے یہ اعتراف کیا ہے کہ’’نئے افسانے میں کہانی پن اپنے ٹھوس وجود کے ساتھ موجود نہیں ہے۔‘‘

پاکستانی اردو افسانے پر9/11کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ اس دور کے افسانوں کے موضوعات میں پاکستان میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی لہر، شدت پسندی کی رو میں بہتی ہوئی اسلامی شناخت وغیرہ  شامل ہیں ۔نیلوفر اقبال کا ’’آپریشن مائیں‘‘،’’سرخ دھبے‘‘، عرفان احمد عرفی کا ’’ریئلٹی شو‘‘، خالدہ حسین کا ’’ابن آدم‘‘، فرخ ندیم کا ’’چودھویں کی رات‘‘، کریم مصطفی کا’’عجائب گھر‘‘، عاطف ستم کا ’’لا وقت میں ایک منجمد ساعت‘‘، منشایاد کا’’ایک سائیکلور اسٹائل وصیت نامہ‘‘، ڈاکٹر رشید امجد کا ’’مجال خواب‘‘، علی حیدر ملک کا ’’دہشت گرد چھٹی پر ہیں‘‘ فاروق خالد کا ’’کاریگر‘‘، صابر مسعود کا ’’سرخ‘‘، محمد حمید شاہد کا’’سورگ میں سور‘‘، زاہدہ حنا کا ’’نیند کا زرد لباس‘‘، مسعود مفتی کا ’’قیامت‘‘، انجم پرویز کا’’مہاجر پرندے‘‘، شیرشاہ سید کا ’’موت کا منظر‘‘، فاطمہ الطاف کا ’’دید وا دید‘‘، انور زاہدی کا ’’یہ جنگل کٹنے والا ہے‘‘، عطیہ سید کا ’’بلقیان کا بت‘‘، پروین عاطف کا ’’اینڈ آف ٹائم‘‘، احسان مجید کا ’’چق ماق‘‘، حسن منظر کا ’’غیرت‘‘ اور مبین مرزا کا’’وحشت‘‘ اسی طرح کے افسانے ہیں جن میں ایک طرح کی ہجرت کا کرب اور تنہائی کا درد موجزن ہے۔

پاکستانی افسانہ کی زندگی ویسے تو نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے اور پاکستانی سیاسی و سماجی حالات نے وقفے وقفے سے اس صنف کو عتاب کا شکار بھی بنایا اور افسانہ نگاروں کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ مگر افسانے کا کارواں رواں دواں رہا۔ اور اس کے ہر دور میں افسانہ نگار  افسانے کی نئی جہت اور نئے افق کو روشن کرتے رہے۔ اور تقریباً ہر میدان میں اس صفت کی ترجمانی کرتے ہوئے اسے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت عطا کی۔

حواشی

1۔فتح محمد ملک،’افسانہ اور نیا افسانہ،ادب لطیف، جوبلی نمبر1963، ص41

2۔محمد علی صدیقی،’پاکستانی معاشرہ اور اردوافسانہ،مشمولہ،پاکستانی معاشرہ اور اردو ادب،مرتبین، سید حسنین محمدجعفری، محمد سلیم ، پاکستان اسٹدی سنٹر، جامعہ کراچی، 1987، ص98

3۔وزیر آغا، ڈاکٹر،’’پاکستان میں اردو افسانہ‘‘،مشمولہ،اردو افسانہ روایت و مسائل، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1986، ص506۔505

4۔وزیر آغا،’پاکستان میں اردو افسانے کے پچیس سال‘،تحریک، سلور جوبلی، نئی دہلی، ص272

Leave a Reply

1 Comment on "پاکستانی افسانہ ـ ایک تعارف"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] پاکستانی افسانہ ـ ایک تعارف […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.