عزیز نبیل کی شاعری

حسین عیاض
F3،،مرادی روڈ، بٹلہ ہاؤس، جامعہ نگر، نئی دہلی ayazbijnori125@gmail.com

’’خواب سمندر ‘‘عزیز نبیل کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو ۲۱۰۲میں شائع ہوا۔مجموعوں کی تعدادکے اعتبار سے عزیز نبیل اپنے تقریباتمام معاصرین میں بہت پیچھے ہیں۔بعض لوگوں کی نظر میں یہ بات عزیز نبیل سے صرفِ نظر کرنے کا جواز بھی ہوسکتی ہے۔لیکن یہ ان لوگوں کا مسئلہ ہے جو صرف کتاب شماری اور متن کے خارجی احوال پر یقین رکھتے ہیں،متن سے وابستگی اور ایک سنجیدہ قرأت سے کوئی سروکار نہیں۔عزیزنبیل کی شاعرانہ اہمیت کا پہلا بنیادی حوالہ تو یہی ہے کہ ان کی شعری کارگزاریاں مختصر ہونے کے باوجوداپنے بیشتر معاصرین کے مقابلے میں زیادہ پرکشش اوراپنے داخل میں زیادہ مستحکم اور مضبوط ہیں۔ایک ایسے عہد میں جہاں صر ف اپنے ماقبل کے ادبی وشعری رویّوں سے انحراف اوراپنی شناخت ثابت کرنے کی خواہش میں فکر ،موضوعات اور زبان کی سطح پر حد سے بڑھی ہوئی جلد بازی اور سہل پسندی راہ پا گئی ہوکسی بھر پور تخلیقی اور فکر آمیز متن کا سامنے آنابڑا واقعہ ہے۔ادب میں پسند اور نا پسند کے پیمانے الگ الگ ہوسکتے ہیں لیکن وہ تخلیقا ت جو فکر و فن کی سطح پر کوئی حسن رکھتی ہیں ایک سیکو لر قرأت کو ضرور متوجہ کرتی ہیں۔خواب سمندر میں شامل کلام مجموعی طور پر گہری فکر،داخلی شور،تخلیقی وفوراور لسانی سطح پر دلچسپ عناصرسے عبارت ہے خواب سمندر کی پہلی غزل کے چند اشعار دیکھئے۔
صبح اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں
اپنی آواز کوتصویر بنائے ہوئے ہیں
اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس وخاشاک سمجھ
کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں ہم نہیں اتنے تہی چشم کہ رو بھی نہ سکیں
چند آنسو ابھی آنکھوں میں بچائے ہوئے ہیں
ایک مدت ہوئی تم آئے نہ پیغام کوئی
پھر بھی کچھ یوں ہے کہ ہم آس لگائے ہوئے ہیں
ان شعروں سے فکراورفن دونوں سطح پر وابستگی کا احساس ہوتا ہے۔صبح اور شام کے سب رنگ ہٹا کر اپنی ذات سے ابھرنے کا عمل خود انحصاری اور ایک اندورونی کرب وانتشار کا اعلامیہ ہے ۔ذات کا یہ سفر اور داخلیت رویوّں اور رجحانوں کی زائیدہ نہیں ہے بلکہ صحت مند زندگی کی ایک سچائی بن کر ابھرتی ہے۔عزیز نبیل کے یہاں ذات کا سفر خارج سے بے تعلق نہیں ہوتا۔آواز کو تصویر بنانے کا لطف اپنی جگہ ہے۔دوسرا شعر ایک سنبھلے ہوئے انداز میں خود سپردگی کی انتہا ہے۔اپنے وجود کی کلیّت کو دوسرے کے حوالے کر دینا ہماری شاعری کا محبوب موضوع رہا ہے ۔عزیز نبیل کے یہاں یہ موضوع نئی صورت اور نئے انسلاکات کے ساتھ برتا گیا ہے ۔چاک پر رکھنا ،خس وخاشاک اور کوزہ گر جیسی لفظیات کلاسیکی دائیرے سے باہرمعنی کے کثیر امکانات روشن کرتی ہیں۔تیسرا شعر اپنی تہذیبی اقدار پر بھروسے اور گلو بل عہد کی تباہ کاریوں کے مقابلہ میں ایک قوّت کا احساس دلاتا ہے۔عزیز نبیل کے یہاں یہ قوت ان کی فنکارانہ دسترس اور ان کے داخل سے پھوٹتی ہے،لہجہ کا یہ اعتماد نبیل کی شاعری کا بنیادی حوالہ ہے۔
قلم ہے ہا تھ میں کردار بھی مرے بس میں
اگر میں چاہوں کہانی بدل بھی سکتا ہوں
اس قسم کے شعر کہنے کیلئے صرف فنکارانہ ہنرمندی کافی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مضبوط، توانا اور پر قوّت تہذیبی شخصیت پوشیدہ ہے ۔
جدیدیت کے زیرِاثر ہونے والی شاعری پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں تمام موضوعات ایک بیجا قسم کی داخلیت اور انتہا پسند ذات آلودگی کا شکار ہو گئے جس سے ترسیل کا مسئلہ پیدا ہوا لیکن ۰۸ کے بعد کی بیشتر شاعری کے حوالے سے اس پورے شعری رویّے کے خلاف ردّعمل بھی شدید ہوا۔مابعد جدید شاعری کا زیادہ تر حصہ شعری دلچسپیوں سے خالی اظہار کے سوا کچھ نہیں۔عزیز نبیل کی انفرادیت کا ایک بڑا حوالہ یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں تمام قسم کے سماجی ،سیاسی اور تہذیبی موضوعات ایک خاص انفرادی تجربہ بن کر شدید تخلیقی حسیّت کے ساتھ برتے گئے ہیں۔عزیز نبیل کو اپنے عہد کی سماجی اور انسانی صورتحال ،تہذیبی انتشاراورانسانی بحران کا گہرا شعور ہے،لیکن معاصر زندگی کے اس پورے منظرنامے پران کی نظر ایک تخلیق کار کی نظر ہے کسی صحافی اور سیاسی مبصر کی نہیں ،ایک خاص قسم کا شعری عمل دخل اور احساس کی شدت چھوٹے چھوٹے سامنے کے موضوعات کو بھی بے جان نہیں ہونے دیتی۔
ہم نہیں اتنے تہی چشم کہ رو بھی نہ سکیں
چند آنسو ابھی آنکھوں بچائے ہوئے ہیں
ہر نیا لمحہ ہمیں روندھ کے جاتا ہے کہ ہم
اپنی مٹھی میں گیا وقت چھپائے ہوئے ہیں
یہ کیسا دشت ہے جس کی جڑوں کا سنّاٹا

تمام شہر پہ تعزیر لے کے اترا ہے :
تمام شہر کو تاریکیوں سے شکوہ ہے
مگر چراغ کی بیعت سے خوف آتا ہے
فراعنہ ہیں تعاقب میں ،سامنے دریا
ہمارے ساتھ کوئی بھی عصا بدست نہیں
کسی سے ذہن جو ملتا تو گفتگو کرتے
ہجومِ شہر میں تنہا تھے ہم، بھٹک رہے تھے
یہ کون مجھے مجھ سے الگ کھینچ ر ہا ہے
میں چیخ پڑوں گا مجھے یکجا کیا جائے
ایک پورے تہذیبی اور انسانی المیہ پریہ ردِّعمل کتنا با معنی اور دور تک ساتھ دینے والا ہے۔ان اشعار کا اپنا ایک نظام ہے موضوعاتی بھی اور لفظیاتی بھی۔شعری اظہار میں کسی قسم کا کوئی تکلف نہیں ،بھاری بھرکم استعاروں ،پیچیدہ علامتوں اور مصنوعی لوازمات سے دور ایک صاف ستھری حسیاتی اور تخلیقی صورتحال کی شاعری ہے۔پہلا شعر اس اقداری زوال کی داستان ہے جو اس عہد کا مقدر بن چکا ہے اور اس پر ایک اوریجنل تخلیق کار کا سنبھلا ہوا ردّعمل ۔جدید دور کے انسان کا ایک بڑا المیّہ یہ ہے کہ وہ رو بھی نہیں سکتا ،بے حسی کا تسلط قائم ہے ایسے میں شاعراپنی اقدار سے وابستہ ہے اور پیچھے کی طرف لوٹتاہے۔یہ صارفی اوربازاری معاشرے کی بنیادوں پرضرب بھی ہے اور اپنے وجود کی اہمیت کا احساس بھی۔دوسرا شعر بھی اسی رویّے کا اظہار ہے۔مٹھّی میں گئے وقت کو چھپانے کی ترکیب ایک خاص ذائقہ رکھتی ہے،یہ ذائقہ اس الجھا دینے والے استعاراتی اورعلامتی نظام سے زیادہ گہرا اور دیرتک رہنے والا ہے جسے عموما دوسرے درجے کے شعراشعری طریقہ کار کے نام پر بروئے کار لاتے رہے ہیں ۔تمام شعروں پر الگ الگ گفتگو ممکن نہیں۔یوں بھی شعر کی وضاحتیں ایک معصوم دھوکے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ادب کا ایک باشعور قاری ان شعروں کی نئی،منفرد اوردلچسپ فضاکو محسوس کر سکتا ہے۔آخری شعر جس ذات زدگی ،اندرونی کرب اور انتشار کا اعلامیہ ہے یہ جدید شاعری کا دلچسپ موضوع رہا ہے،عزیزنبیل کی حسیّت اسے اپنے طور پر دریافت کرتی ہے۔یہا ں شاعر اپنے وجود کی سا لمیت کو باقی رکھنا چاہتا ہے اور خارجی جبر کے خلاف آوازاٹھاتا ہے(میں چیخ پڑوں گا مجھے یکجا کیا جائے)۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ عزیزنبیل نے خانوں میں بند ہوکر شاعری نہیں کی ہے وہ ہر قسم کے چکّر سے آزاد ہیں۔
عزیزنبیل کا لہجہ جرأت مندانہ اور بلند آہنگ ہے،دبے لفظوں میں بات کہنے سے انہیں کوئی سروکار نہیں ،ان کی شاعری میں اندر باہر دونوں سطحوں پر ایک شور کا احساس ہوتا ہے لیکن بڑی بات یہ ہے کہ انکے شعری طریقہ کار میں جذباتیت کا دخل نہیں ایک خاص قسم کی سنجید گی او ر تمام موضوعات کے ساتھ دیر پا فکری وابستگی کا ہر جگہ احساس ہوتا ہے۔
ہمارے جیسا کوئی بھی سخن پرست نہیں
شکستہ جسم ہیں، آوازمیں شکست نہیں
سکوتِ شب تیرے پہلو سے اب کہاں جائیں؟
قلندروں کا کہیں اور بندو بست نہیں
اب سمندر بھی ہمیں دیکھ کے ڈرتے ہیں کہ ہم
مسکراتے ہوئے گرداب میں کھوجاتے ہیں
اوپرکے دوشعروں کا لفظی نظام ایک خاص نوعیّت کا ہے جس میں ایک شور ہے ۔تیسرا شعر بالکل الگ ہے یہاں بولتے ہوئے لفظ تو نہیں لیکن شعر کے باطن سے وہی شور ،حوصلہ اورجرأت پھوٹتی ہے۔ہجرت کے موضوع پر عزیزنبیل کا یہ شعر ان تما م کیفیتوں کا احاطہ کرتا ہے۔
جس طرف چاہوں پہنچ جاؤں مسافت کیسی
میں تو آواز ہوں، آواز کی ہجرت کیسی
ہجرت کے موضوع پر سوچتے ہوئے اور اسے تخلیقی سطح پر برتتے ہوئے لوگ ٹوٹ ٹوٹ گئے ہیں لیکن عزیزنبیل کے یہاں اس بکھراو سے بھی نئی صورتحال ابھر کر سامنے آتی ہے۔عزیزنبیل کے موضوعات اور مضامین کوئی بالکل الگ اور نئے نہیں ہیں ان کی پیکار بھی انہیں مسائل اور اسی سماج سے ہے جس سے ان کے معاصرین اور دوسرے لوگوں کی لیکن اپنے عہد ،سماجی حقیقتوں اور ساتھ ہی اپنی ذات سے وابستگی اور روبرو ہونے کے آداب الگ ہیں ۔انفرادیت کی صاف آہٹ ہے کچھ نیا کہنے ،نئے انداز سے سوچنے ،چیزوں کو منفرد زاویے سے دیکھنے اور برتنے کا عمل ان کے یہاں شعوری کوشش کا حصّہ ہے۔لیکن ایک احتیاط کے ساتھ شہپر رسول کے لفظوں میں’’عزیزنبیل نیا سوچنے اور نیا کہنے کی دھن میں ضرور رہتے ہیں لیکن عجوبے تخلیق نہیں کرتے ‘‘عزیزنبیل کو پڑھتے ہوئے پہلا احساس اسی نئے پن کا ہوتا ہے جو اپنے پورے آداب کے ساتھ ہے ان کایہ شعر اسی جنونی کیفیت کا اشاریّہ ہے۔
اونگھتی میز،خلاؤں میں نظر ،ذہن میں شعر
دیکھ لیتا ہوں کبھی چائے کی پیالی کی طرف
عزیزنبیل نے شاعری کو محض رسمی اور رواجی طور پر نہیں برتا بلکہ وہ ان کے وجودی تجربے کا حصہ ہے ،اپنی ذات سے الجھنے اور کئی سمتوں میں سوچنے کا عمل ان کے یہاں موجود ہے اسی بنا پر سوالوں کا ایک پورا سلسلہ’’ خواب سمندر ‘‘کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔
میری حیات کا یہ زاویہ عجیب رہا
مرا وجود ہمیشہ مرا رقیب رہا
ہر ایک شخص معمہ ہر ایک شئے حیرت
نگارخانۂ دنیا میں سب تماشہ ہے
ان تمام شعروں کی فضا زندگی ،اس کے مسائل اور کائنات کے بارے میں ایک سوچنے والے ذہن کا پتہ دیتی ہے۔ایک فکر آمیز سنجیدگی شروع سے آخر تک موجود ہے۔وہ موضوعات بھی جو عموماً شاعر کی رنگینی طبع کا شکار ہو کر رسوا ہو جاتے ہیں عزیزنبیل کے یہاں ایک باہوش تخلیقی عمل کا حصہ بنتے ہیں۔
جو برف ہوا سرد رویّوں کی تہوں میں
وہ شخص پگھل جانے کی ڈھونڈے کوئی صورت
سانحہ ہے کہ وہی ہم سے گریزاں گزرا
ہم ہوئے جس کے لئے راہ گزر کی صورت
عزیز نبیل نے نظمیں بھی کہی ہیں۔ اس مجموعے میں ۳۱ نظمیں شامل ہیں لیکن مجموعی طور پر ان نظموں سے کوئی تأثرقائم نہیں ہوتا،فکرو احساس کی سطح پر نہ فن کی سطح پر،شاید عزیز نبیل کو بھی اس کااحساس رہا ہو اس لئے انہوں نے صرف اپنی نظم گوئی کے حوالے کے طور پر ۳۱نظمیں شامل کی ہیں۔متن کے مختصر ہونے کا ایک پہلو مثبت بھی ہوتا ہے لیکن اس کی یہاں گنجائش نہیں نکلتی ۔
اخیر میں اس طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ عزیز نبیل نے بڑے اہتمام کے ساتھ مجموعے کے آخیر میں مشاہیر ادب کے تأثرات شامل کئے ہیں جن کی تعداد ۴۲ تک پہونچتی ہے اور ابتدأ میں پروفیسر لطف الرحمان کا طویل تنقیدی مضمون ،لیکن کسی بھی متن کی قرأت کے حوالے سے ان سب باتوں کے کوئی معنی نہیں ۔صحت مند تنقید ایک روشنی ضرور فراہم کرتی ہے لیکن ایک کمزور متن کیلئے سہارا نہیں بن سکتی ۔یہ سب حرکتیں ان لوگوں کی ہوتی ہیں جو اپنے متن سے مطمئن نہیں ہوتے ’’خواب سمندر‘‘کا متن اپنے دائرے میں مضبوط اور مستحکم ہے اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔عزیز نبیل کی ان تحریروں کو شامل کرنے میں کیا نیت رہی یہ وہ جانیں حالانکہ ان کی شاعری خود اپنی بنیادوں پر خاصی دلچسپ فکر آمیز اور دیر پا وابستگی کے عناصر سے مالامال ہے۔
٭٭٭
“Aziz Nabeel ki shayeri by Hussain Ayaaz” by Hussain Ayaz, “Urdu Research Journal” ISSN 2348-3687, Vol. I, Issue II, page No. 96-101.

Leave a Reply

3 Comments on "عزیز نبیل کی شاعری"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Ashfaque Ahmad Saaqi
Guest
خوب…
trackback

[…] عزیز نبیل کی شاعری← […]

trackback

[…] عزیز نبیل کی شاعری […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.