مجید امجدکی نظم نگاری

مجیدؔ امجد اخترالایمان کے اہم معاصرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جدید نظم نگار شعرا میں ان کا قد خاصابلند ہے۔مجید امجد نے غزلیں بھی کہیں اور نظمیں بھی، لیکن وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں اور انہیں شہرت دوام نظم ہی سے حاصل ہوئی۔ ان کی نظموں میں بڑا تنوع اور رنگارنگی ہے۔ان کی نظمیں موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ مجید امجد کی شاعری کے موضوعات زندگی کی عمومی سطح سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں خارجی زندگی کے بہت چھوٹے چھوٹے اور بظاہر غیر اہم موضوعات بھی ہیں اور اپنے عہد کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل بھی۔  مجید امجد نے ر اپنی شاعری کے لیے خام مواد اپنے گردو پیش کی زندگی سے اخذ کیا۔مجید امجد کے یہاں اقبال کی طرح فلسفیانہ فکر یا دوسرے ترقی پسندتحریک سے وابستہ شاعروں کی طرح کسی نظریے یا نظام حیات کی گونج نہیں بلکہ مجموعی زندگی جس آشوب میں مبتلاہے،اور انسان عذاب کی  جن راہوں سے گذررہا ہے اسکا اظہار ان کی شاعری میں نمایا ں ہے۔ ایک متوسط طبقے کے شہری کے مسائل اور اس کے المیے کو نہایت خوبصورتی سے اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔

مجید امجدؔ  کسی تحریک سے وابستہ نہیں تھے اس لیے ان کے یہاں زندگی کے تمام مسائل درآئے۔ ان کے یہاں زندگی سے وابستہ کوئی بھی مسئلہ ان کی شاعری کا موضوع بن جاتا ہے۔ ایک حساس شاعر کی طرح انھوں نے زندگی کے مختلف سطحوں پر پیدا شدہ انتشار کو محسوس کیا اپنے عہدکے حالات و وقعات پر گہری نظر اور ان سے متاثرہونے سے سیاسی سماجی اقتصادی مسائل کا در آنا فطری تھا۔ لیکن ان کا اندازبیان ان شعرا سے مختلف ہے جو کسی نظریے کی ترجمانی یا کسی خاص نظام زندگی کا پر چم اٹھائے نظر آتے ہیں۔ مجید امجد کے یہاں کسی مسائل سے چشم پوشی نہیں ملتی بلکہ انھوں نے اپنے حواس کو کھلارکھااور زندگی کے مسائل سے آگہی حاصل  کی۔

بہ قول وزیر آغا:

’’…شاعر کسی ایک نقطۂ نظرکار سیانہیں بلکہ زندگی کے تمام ترمظاہرات کا ایک زیرک ناظر ہے اس کی نظر اس قدر وسیع اور اس کا دل اس قدر کشادہ ہے کہ اسے بیشتر نظریے وقت کے لامحدود پھیلائو میں لایعنی اور بے مصرف دکھائی دیتے… ایسا شخص زمان و مکان کی حدوں میں جکڑے ہوئے کسی ایک نقطۂ نظر کا کس طرح پابند ہوسکتا ہے؟اس لیے مجید امجد کی نظموںمیں موضوعات کا تنوع ہے نظر یوں کی آمیزش اور ہم آہنگی ہے اور وہ احساسی رد عمل بھی جس کے ڈاندے ایک طرف خارجی زندگی کی وسعتوں سے ملتے ہیں اور د وسری طرف دل کی گہرائیوں سے۔ خود شاعر و سعت اورگہرائی کے اس سنگم پر کھڑا کائنات کی نیرنگیوں کو دیکھتا ہے اور  پھر فن کے سانچے میں ڈھال کرانہیں دنیا کے حوالے کر دیتا ہے ‘  ۱

 چند مثالیں ملاحظہ کیجیے جس میں سماجی اور معاشرتی سطح پر پیدا مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے:

تو اگر چاہے تو ان تلخ سیہ راہوں پر

جا بجا اتنی تڑپتی ہوئی دنیائوں میں

اتنے غم بکھرے پڑے ہیں کہ جنہیں تیری حیات

قوت یک شب کے تقدس میں سمو سکتی ہے

کاش تو حیلہء جاروب کے پر نوچ سکے

کاش تو نوچ سکے نوچ سکے

              (جاروب کش)

سیل  زماں  کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے

یہ بات چھریوں بھرے مرجھائے  ہات جو

سینوں میں اٹکے تیروں سے رستے لہو کے جام

بھر بھر کے دے رہے  ہیں تمہارے غرور کو

یہ ہات گلبنِ غم ہستی کی  ٹہنیاں

ائے کاش انہیں بہار کا جھونکا نصیب ہو

                                                                                               (درس ایام)

  مجید امجد کی متعدد نظموں میں اس نوع کے خیالات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی  شاعری انسانی درد مندی اور خلوص و محبت کی آئینہ دار ہے۔ آدمی کی مظلومی پر شدید رنج کا اظہار جابجا موجود ہے۔ عصری مسائل  سے وابستگی اور ظلم و جبر کے شکار ہوئے لوگوں کے تئیں ہمدردی کسی سیاسی سماجی شاعر کے کم نہیں ہے۔ ان کی نظموں کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی شاعری کا سیاسی سماجی پہلوان کی شاعری کا ایک اہم جز ہے۔ ابتدائی دور کی شاعری میں بھی اس احساس سے بھر پور نظمیں ہیں جہاں سیاسی سماجی نظام سے بے اطمینانی اور جذبۂ بغاوت بھی موجود ہے۔ شاعر حسن وشباب کی رنگینیوںمیں غرق ہونے یا اس دنیامیں پناہ لینے کے بجائے انسانی مسائل سے خود کو وابستہ کر تا ہے۔کچھ نظموںکو چھوڑکر شاعری کی سطح بھی بلند ہے اور مجید امجد کا اپنا منفرد لب ولہجہ اور نکھرا ہوا روپ سامنے آجاتا ہے۔’’نژاد نو‘‘کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں:

طویل تاریکیوںمیں کھو جائیں گے جب ایک دن

ہمارے سامنے

اس اپنی دنیاکی لاش اٹھائے

توسیل دوراں کی کوئی موج حیات ساماں

فروغ فردا

کا رخ پہ ڈالے مہین پردا

اچھل کے شاید

سمیٹ لے زندگی  کی سرحد

کے اس کنارے

پہ گھومتے عالموں کے دھارے

یہ سب بجا ہے بجا ہے… لیکن

                  (نژاد نو)

اس طرح کے خیالات کی ترجمانی کرنے والی نظموں میںیہ نظم بہت بھر پور ہے۔یہ نظم مجید امجد کے فکر وفن کی اچھی ترجمان  ہے۔ مجید امجد اپنے گر وپیش کے مسائل  کے ساتھ ساتھ عالمی منظر نامے پر رونما ہونے والے واقعات وحادثات کو شدت  سے محسوس کر تے ہیں دنیا کے کسی خطے میںظلم وجبر کو انھوں نے انسانیت پر ہورہے عذاب کی شکل میں محسوس کیا۔انھوں نے اس مسئلے کو پوری انسانیت کے مسئلے کے طور پر دیکھا۔ انسانی وجود کا استحصال اور انسانیت کے زوال کا شدید احساس مختلف صورتوں میں ان کی نظموں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا شعور انسان  پر ہونے والے ظلم وجبر کو وسیع کینوس پردیکھتا ہے :

نہ کوئی مشرق

نہ کوئی مغرب

مگر وہ  اک زینۂ مراتب

جو ان گنت  بے زباں غلاموں کو ٹوٹتی پسلیوں

یہ کل بھی ہزار کف دردہاں خدائوں کے بوجھ سے کچکچا رہاتھا

وہ آج بھی اک وہی ترازو  کہ جس میں زنجیر پوش

روحوں کے  شعلہ اندام دست وبازو بہ مزدیک

اشک تل  رہے ہیں

اگر یہی تھا نصیب دوراں… یہ نالہ غم…  یہ اک مسلسل

                             خروش ا نبوہ پابجولاں

ازل کی سرحد سے نسل آدم کی یہ کراہیں  جوروز وشب کے عمیق

                             سنّاٹوں سے پیہم ابھر رہی ہیں

نہ چشم و لب کے فسانہ ہائے سرشک وشیون

اگر مقدر یہی تھا، اپنا، تو یہ مقدر… یقین جانو…اٹل نہیں تھا۔    (مشرق ومغرب)

مجید امجد کے یہاں اس طرح کے موضوعات پر کئی بلند پایہ نظمیں موجود ہیں۔ سیاسی سماجی مسائل اور انسانی صورت حال سے بے اطمینانی کے شدید احساس کے ساتھ ان کے یہاں چھوٹے چھوٹے موضوعات  پر بہت پر ا ثرنظمیں موجود ہیں۔ مجید امجد جن گلی کوچوں، گھروں ، بازاروں، پہاڑوں، میدانوں،اور فطرت کے مظاہرات کے درمیان سانس لیتے ہیں جن نوع کے انسانوں سے قرب حاصل ہوتاہے اور جن چھوٹے چھوٹے زندگی کے مسائل سے دوچارہوتے ہیں ان موضوعات کو بھی انھوں نے اپنی شاعری میں برتا  ہے۔ بعض ایسے موضوعات پر بھی نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو بالکل عام سے موضوع پر ہوتی ہیں یا روزمرہ کی اسیی باتیںہوتی  ہیں جن میں بظاہر کوئی کشش نظر نہیں آتی لیکن حیرت انگیز طور پر انھوںنے ان موضوعات پر بڑی بلند پایہ نظمیں تخلیق کی ہیں۔ ان نظموں میں انھوں نے فکر انگیز پہلو تلاش کیے ہیں۔ پنواری، آٹوگراف، بس اسٹینڈ پر، کنواں، بن کی  چڑیاوغیرہ نظمیں اس کی زندہ مثال ہیں۔ مجید امجد کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا رقم طرازہیں:

’’ مجید امجد کی نظموں میں قریبی اشیاء کے وجود کا گہرا احساس ہوتاہے۔ممٹیاں، کلس، گلیاں، بس اسٹینڈ، پان، چائے کی پیالی، دھوپ رچے کھلیان، آنگن، نالیاں اور  ا س طرح کی ان گنت دوسری اشیاء جو شاعر کے ماحول کا حصہ ہیں بڑی آہستگی سے اس کے  کلام میں ابھر تی چلی آتی ہیں۔ شاعر کا مشاہدہ بڑا گہرا ہے اور اس کی نظروں سے ماحول کا کوئی نوکیلا پہلو اوجھل نہیں۔ تاہم مجید امجد کا یہ مشاہدہ محض خارجی ماحول کی تصویر کشی تک محدودنہیں۔ یہ سارا ماحول اور اس کی اشیاء شاعر کے تجربے کی چکاچوند سے اکتساب نور بھی کرتی ہیں۔ اور نتیجہ ًہانپتی، دھڑکتی اور مچلتی ہوئی نظر آتی ہیں‘‘  ۲

مجید امجد کی نظموں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے واقعات یا اشیاء ومظاہرات کا بیان سرسری نہیں  ہے۔ بلکہ شاعر نے داخلی کیفیت کا خارجی مظاہرات سے گہرا ربط قائم کیا ہے۔ اور یو ںخارجی چیزیں داخلی کیفیت سے مربوط ہوکراس کی مکمل ترجمانی کرتی ہیں۔ مجید امجد نے بڑی مہارت کے ساتھ اپنے احساسات وجذبات کو مظاہرات کے حوالے سے ظاہر کیا ہے۔ پنواڑی، امروز، گاڑی میں، طلوع فرض، توسیع شہر، بھکارن، وغیرہ جیسی نظمیں شاعر کے داخلی کیفیت کی بھر پور ترجمانی کرتی ہیں۔ توسیع شہر کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:

جن کی سانس  کا  ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم

قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم

گری دھڑام سے گھائل  پیڑوں  کی نیلی  دیوار

کٹتے ہیکل چھرتے بنجر، چھٹتے برگ  وبار

سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوںکے انبار

آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار

اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال

مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل

                                                                                                    (توسیع شہر)

فطرت سے بے پناہ محبت بڑے شہروں کے فطرت پر پڑنے والے منفی اثرات کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔شاعر کے احساس کی سطح سے پو ری نظم ہم آہنگ ہے۔  مجید امجدکی نظموں میں فطرت اور بالخصوص درختوں سے جذباتی لگاو کی صورت نمایا ہے۔درخت اور اس کی شاداب گھنی چھاؤں اس کے احساس کا ایک حصہ بن جاتی  ہیں یا یوں کہا جائے کہ اشجار ایک زندہ وجود کی حیثیت رکھتے ہیں جو زندگی کے مختلف موڑ پر اس کا ساتھ دیتے ہیں:

تنگ پگڈنڈی، سرکہسار بل کھاتی ہوئی

نیچے دونوں  سمت گہرے غار منہ کھولے ہو ئے

آگے ڈھلوانوں  کے پار اک تیز موڑ اوراس  جگہ

اک فرشتے کی طرح نورانی پر تولے ہوئے

جھک پڑا ہے آکے رستے پر کوئی نخلِ بلند

تھام کر جس کو گزر  جاتے  ہیں آسانی کے سات

موڑ پر سے ڈگمگاتے رہروں کے قافلے

                                                                                (ایک کو ہستانی سفر  کے دور ان میں)

مجید امجد کی نظموں کے سرسر ی مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے یہاں شجر دوست، محبوب، دست گیر، بھکاری وغیر ہ کے طور  پر موجود ہے عملی زندگی میں بھی مجید امجد اشیاء و مظاہرا ت سے بہت قربت رکھتے تھے۔

بقول باقر مہدی: ’’ہماری نئی شاعری  بڑے صنعتی شہروں کی  شاعری ہے۔‘‘ صنعتی شہروں کے وجود میں آنے سے جہاں ایک طرف روزگار کے مواقع فراہم ہوئے وہیں اس کے کچھ تاریک  پہلو بھی ہیں۔ چھوٹی جگہوں کے لوگ کام کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے لگے۔ صنعتی انقلاب کا انسانی رشتوں پر گہرا اثر مرتب ہوا۔ گھر اور خاندان ٹوٹنے لگے۔ سیدھی سادی زندگی پیچیدہ ہوگئی۔ ایک طرف اس کی زمین  چھوٹ گئی دوسری طرف بھیڑ بڑے شہروں میں ا س کو سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ دلفر یب اور پرخلوص فضا چھوڑ کروہ بھاگ دوڑ اور گھٹن والی دنیا میں آپہنچا۔ گھر اور دفتر کی بھاگ دوڑ اتنی بڑھ گئی کہ اسے نظر اٹھاکر دلفر یب مناظرکو دیکھنے کی فرصت نہیں۔ اس کی بے انتہا مصروفیت  نے اسے اپنوں سے الگ کر دیا۔مشینی دور میں انسان کی بے پناہ مصروفیت اور شہری زندگی کے المیے کو مجید امجد نے اپنی شاعری میں  پیش کیا ہے۔ اپنی نظم ’’ بھکارن‘‘ میں انسان کی بے انتہا مصروفیت کو بڑے انوکھے ڈھنگ سے پیش کیا  ہے۔ نظم کا یہ حصہ دیکھئے:

سرخ پھولوں سے اک لدی ٹہنی

آن کر بجھ گئی ہے راستے پر

کنکروں پر جبیں رگڑتی ہے

راہگیروں کے پائوں پڑتی ہے

میں کہاں روز روز آتی ہوں

ہے مرے کوچ کی گھڑی نزدیک

 جانے  والوں،  بس اک نگاہ کی بھیک

                                                                                                     (بھکارن)

بڑے شہروں نے لوگو ں کو بے چہرگی دی ہے۔ بھیڑ بھرے شہر  میں اس کی شناخت اور اس کا وجود کھو گیا ہے۔تنہائی بے اطمینانی عدیم الفرصتی الغرض جسمانی آشائشوں کے حاصل ہونے کے بعد بھی اس کی روح تشنہ ہے۔ وہ جس مقام پر آپہنچا ہے وہاں تنہائی، بے اطمینانی، اور روح کی تشنگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک متوسط طبقے کے نوجوان کے لیے یہ شہر مقتل گاہ بن جا تا ہے،  صبح سے شام تک جدو جہد میں مبتلارہنے کے بعد بھی ناآسودگی اس کا  ساتھ نہیں چھوڑتی۔ وہ یہاں کی زندگی اور ماحول سے توازن قائم نہیں کر پاتا۔ نتیجتاً وہ مسلسل کشمکش میں مبتلارہتا ہے۔اس کی محرومی اور ناسودگی ہر لمحہ اس کا تعاقب کرتی ہے۔ آٹوگراف میں ایک ایسے ہی نوجوان کی محرومیوں کا اظہار ملتا ہے جو کھیل کے میدان میں بھی  اس سے دامن نہیں چھڑاپاتا:

وہ بولر  ایک مہوشوں کے جمگھٹے میں گھر گیا

 وہ صفحۂ بیاض پر

بصد  غرور کلک گوہر یں پھری

حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیان۔ وکٹ گری !

میں اجنبی میں بے نشاں

میں پابہ گل

نہ رفعت مقام ہے نہ شہرت دوام ہے

یہ لوح دل، یہ لوح دل

نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ اس پہ کوئی نام ہے

                         (آٹوگراف)

مجید امجد کی دوسری اور نظموں میں صنعتی شہروں کی زندگی، سماج اور فطرت پر پڑنے والے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

 مجید امجد کے یہاں وقت کا ایک واضح تصور قائم ہے، وقت کی بے کرانی بالادستی اور اس کے تیزی سے گزرنے کااحساس بہت شدیدہے۔ وہ اس بات کے  قائل تھے کہ وقت کی کوئی حد نہیں وہ عدم سے ازل اور ازل سے عدم تک پھیلاہواہے۔وقت کا  دھارا مسلسل بہتا رہتا ہے اس میں کسی لمحہ ٹھرائونہیں مستقبل بڑی تیزی سے ماضی بن جاتا ہے اور ان دونوں کے درمیان حال لمحۂ غنیمت ہے جو ابھی ہے اور ابھی نہیں ہے۔ اس لیے مجید امجد کے یہاں حال سے بے پناہ لگائو اور اسے لمحۂ غنیمت سمجھ کر اپنی گرفت میں لینے کا رجحان ملتا ہے۔ حال مستقبل اورماضی کا سنگم ہے۔ اس سنگم پر کھڑے ہو کر شاعر ماضی کا احساس بھی زندہ رکھتا ہے اور مستقبل پر نظر بھی رکھتا ہے۔ مجید امجد کی نظموں میں ماضی حال  اور مستقبل تینوں کا احساس قائم ہے۔ لیکن ان کی سب سے زیادہ توجہ حال پر رہتی ہے لیکن حال بڑی تیزی سے ماضی میں مد غم ہوجا تا ہے۔ وقت کے گذرنے کا شدید احساس ان کی متعدد نظموں میں موجود ہے ’کنواں ‘ان کی علامتی نظم ہے جس میں وقت کی بالادستی اور اس کے تسلسل کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔نظم کا یہ حصہ ملا حظہ فرمائیں:

اور اک نغمۂ سرمدی کان میں آرہاہے مسلسل کنواں چل رہا ہے

پیالے مگر نرم رو اس کی رفتار پیہم مگر بے تکان اس کی گردش

عدم سے ا زل تک ازل سے ابد تک بدلتی نہیں ایک آن اس کی گردش

نہ جانے لیے اپنے دولاب کی آستینوں میں کتنے جہاں اس کی گردش

رواں ہے، رواں ہے

طپاں ہے، طپاںہے

یہ چکر یوں ہی جاوداں چل رہا ہے

کنواں چل رہا ہے

وقت کاسیلِ رواں وجود و عدم کا ذمہ دار ہے۔ حالات وواقعات اشیاء ومظاہرات اسی کی گردش سے رونماہوتے ہیں، مجید امجد نے حالات کے مد و جزر اور اشیاء و مظاہرات کی نموکو اسی زاویۂ نگاہ سے دیکھا انھوں نے انسانی دکھ درد کو وقت کے تسلسل کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ بنتی بگڑتی زندگی اور حیات و کائنات کے مختلف مسائل اور تغیرات و تبدیلیاں الغرض کوئی بھی چیز اس کے اثر سے محفوظ نہیں،شاعر انسانی دکھ درد کے ختم ہوجانے کے لیے مستقبل پرنظر جماتا ہے اور امید کر تا ہے کہ وقت کے ساتھ یہ درد و غم بھی دور ہوجائیں گے جو غم اس کی ذات اور پوری انسانیت سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ ع،سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے (درس ایام )لیکن حال کے ہر ایک لمحہ کی خوشیوں کو محفوظ کرلینے کی کوشش زیادہ روشن نظر آتی ہے۔ اس ایک لمحے کی خوشی سے وہ خود کو پوری طرح سر شار گر لینا چاہتے ہیں:

طلوع و غروب مہ ومہر کے جاودانی تسلسل کی دوچار کڑ یاں

یہ کچھ تھر تھر اتے اجالوں کا روماں، یہ کچھ سنسناتے اندھیروں کا حصہ

یہ جوکچھ کہ میرے زمانے میں ہے اوریہ جو کچھ کہ اس کے زمانے میں میں ہوں

یہی میراحصہ۔ ازل سے ابد کے خزانوں سے ہے بس یہی میراحصہ

                                                                 (امروز)

مجید امجد نے  زندگی کے مختلف مسائل خواہ وہ سما جی ہوں یا اقتصادی، داخلی ہوں یا خارجی ان کا ادراک اپنی ذات کے حوالے سے کیا۔انسانی وجود کے کرب خارجی اشیاء و مظاہرات سے محرومی،  داخلی و خارجی شکست و ریخت بے بسی و محرومی غرضیکہ مسائل کے انبوہ میں اس کی اپنی ذات ہوتی ہے۔ نشاط و غم یا س و امید کا سلسلہ ان کی ذات سے ہم کنار ہوتا ہے اور اسی احساس کے ساتھ شاعر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے ۔ ’’شب رفتہ ‘‘کے بعد کی شاعری میں ذات کے حوالے سے حیات و کا ئنات پر نظر ڈالنے کا رجحان زیادہ قوی ہے۔ اور اپنی ذات کی محرومی سے زندگی کے المیے کو پیش کیا ہے۔ زمینیا، بارکس، دوام، میرے خدا میرے دل، زندگی ائے زندگی اور یہ انسان، ڈھلتے  اندھیروں میں، سدازمانوں کے اندر وغیرہ نظمیں  ان کے کلام میں موجود ہیں۔ نظم دوام کا یہ ٹکڑا ملاحظہ ہو:

کہیں اس کھولتے لاوے میں بل کھاتے جہانوں کے

 سیہ پشتے سے اوجھل ادھ کھلی کھڑکی

کوئی دم توڑتی صدیوں کے گرتے چوکھٹے سے جھانکتا چہرہ

زمینوں آسمانوں کی دھکتی گرد سے لتھڑے خنک ہونٹوں سے یوں پیوست ہے اب بھی

ابھی جیسے سحربستی پہ جلتی دھوپ کی مایا انڈیلے گی

گلی جاگے گی، آنگن ہمہمائیں گے

کوئی نیندوں لدی پلکوں کے سنگ اٹھ کر کہے گا۔رات کتنی تیز تھی آندھی      (دوام)

 مجید امجد کے یہاں مختلف النوع تجربوں اور موضوعات کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔انھوں نے اپنے تجربات، مشاہدات، احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے حسب ضرورت ہیئت اور اسلوب کا پیمانہ اختیار کیا۔ جیسا کہ عام طور پر جدید شاعروں کے یہاں ہیئت و اسلوب میں تجربے اور اپنی انفرادیت قائم کرنے کا رجحان نظر آتا ہے اور بعض کے یہاں یہ کوشش محض شعبدہ بازی کے مترادف نظر آتی ہے۔ لیکن مجید امجد کے یہاں اس طرح کی شدت پسندی یا شاعری میں ہیئت پرستی کا رجحان نہیں ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے یہاں روایتی نظم کی ہیئت ہے یا اسلوب کا گھساپٹا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ بلکہ کہنا صرف یہ ہے کہ ان کے یہاں ہیئتی تجر بوں سے ایسی گہری دلچسپی نہیں ہے جیسے ان کے معاصرین راشدؔ اور میراجیؔ کے یہاں ہے۔ ہیئت و اسلوب کی سطح پر مجید امجد کے یہاں بھی تجربے دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ان کے یہاں یہ رویّہ شدت اختیار نہیں کرتا۔ ہمیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ راشد اور میراجی حلقے سے وابستہ تھے۔حلقے کے شعرا کے یہاں ہیئت و اسلوب کے تجربے کا رجحان بہر حال قوی نظر آتا ہے۔ چونکہ مجید امجد حلقۂ ارباب ذوق سے وابستہ نہیں تھے اس لیے بھی ان کے یہاں یہ رجحان نہیں ملتا۔

مجید امجد نے پابند معریٰ اور آزاد تینوں ہئیتوں کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ لیکن ان کے کلام کا بڑاحصہ آزاد نظم کی ہیئت میں ہے۔ ان کی آزاد نظموں پر میراجی اور اخترالایمان کا اثر نمایا ہے۔ میراجی اور اخترالایمان کی طرح خیال کے اعتبار سے مصرع ترتیب پاتے ہیں جو کہیں کہیں پیر گراف کی شکل اور پہلے مصرع کاخیال دوسرے مصرع میں پو را ہوتا ہے۔ان کے یہاں گیتوں کا لہجہ بھی موجود ہے۔ مجید امجد کے یہاں راشد کی طرح مشکل لفظیات بھی ہے جس پر فارسی کا غلبہ ہے۔ اور اخترالایمان کی طرح عام بول چال اور نامانوس لفظیات کا بھی استعمال ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے یہان زبان و بیان میں انفرادیت قائم ہے۔ انھوںنے نئے اسالیب بھی وضع کیے اور نئی لفظیات کو اپنی شاعری میں برتا ان کے یہاں نظم کی تکنیک میں تجربے بھی کیے گئے ہیں۔ جہان قیصر جم ، طلوع فرض، بس سٹینڈ، وغیرہ نظموں میں نئی تکنیک دیکھی جاسکتی ہے۔ مجید امجد کے یہاں استعارات اور علامات کا خوبصورت استعمال بھی نظر آتا ہے۔ لیکن ان کی نظمیں شعری لوازمات سے بوجھل نہیں ہوئیں بلکہ ان کے استعمال میں بڑے احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔

مجیدامجد کے یہاں داخلی اور خارجی، فکری اور فنی سطح پر توازن قائم ہے۔ان کی شاعری کا موضوع سیاسی ہو یا سماجی وہ کسی سمت حد سے آگے نہیں بڑھتے۔ مجید امجد زندگی کی  تمام ترنیرنگیوں اور اس کے مظاہر پر گہری نظر رکھتے ہیں اور پھر اسے فن کے سانچے میں دھالتے ہیں۔ چنانچہ ان کی شاعری کا مطالعہ سچے شعری اظہار کے زاویے سے کیا جانا چاہیے۔

حواشی:

۔۱  وزیرآغا: مجید امجد کی داستان محبت،  ص۵۱، لاہور ۱۹۹۱ء

۔۲ وزیرآغا: مجید امجد کی داستان محبت،  ص۴۰، لاہور ۱۹۹۱ء

Leave a Reply

1 Comment on "مجید امجدکی نظم نگاری"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] مجید امجدکی نظم نگاری← […]

wpDiscuz