اردونظم آغاز و ارتقاء

 وسیع تر مفہوم میں نظم سے مراد پوری شاعری ہے۔ لیکن شاعری کے باب میں  غزل کے ماسوا تمام اصناف شعر  کو نظم کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے مثنوی، قصیدہ، مرثیہ بھی نظم کے دائرے میں آتی ہیں ۔چونکہ ان اصناف کی اپنی علاحدہ شناخت قائم ہے  اس لیے ہم انہیں اسی اعتبار سے پہچانتے ہیں  ۔ ان اصناف کے علاوہ بھی ہمیں ایسی نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں کسی موضوع پر تسلسل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ ان کا ایک مرکزی خیال بھی ہے۔ یہ نظمیں مختلف ہیئتوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں نظم سے مراد اسی طرز کی شاعری سے ہے۔سب سے پہلے نظم کی یہ نمایاں شکل نظیراکبرآبادی کے یہاں پورے آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔ نظیر  نے اردو نظم کو واضح شناخت عطا کی۔

اردو نظم کا ابتدائی دور

اردو نظم نگاری کا ابتدا دکن میں ہوئی۔ مذہبی اور صوفیانہ نظموں کی شکل میں اردو نظم کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ دکن کی بہمنی سلطنت نے اردو ادب کی خاصی پزیرائی کی ۔  عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں نے اردو ادب کے فروغ میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ قلی قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ، ملا وجہی،غواصی، ابنِ نشاطی وغیرہ دکن کے مشہور شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان شاعروں اور ادیبوں کو اس عہد کے حکمرانوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ خود بادشاہ بھی شعر و شاعری کاذوق رکھتے تھے۔ ابتدا میں میں مذہبی اور صوفیانہ نظمیں   بیشتر شعرا کی تخلیقات میں مثنوی کی شکل نظر آتی ہیں۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ابتدائی دور کے اہم شاعر ہیں۔ انھوں نے تصوف کے کچھ رسالے اور نظمیں تخلیق کیں۔ ’چکی نامہ‘ ان کی مشہور نظموں میں شمار کی جاتی  ہے۔

عادل شاہی عہد میں تصوف مذہبی اور اخلاقی مضامین شاعری میں غالب نظر آتے ہیں۔ برہان الدین جانم کی نظموں میں مذہبی تعلیمات اور تصوف کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ حجت البقا، وصیت الہادی، بشارت الذکر ان کی اہم نظمیں ہیں۔ برہان الدین جانم کے مرید شیخ غلام محمد داول کے یہاں تصوف اور اخلاقی مضامین کی کئی نظمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ چہار شہادت، کشف الانوار اور کشف الوجود میں تصوف کے مسائل بیان کیے ہیں۔

سلطان قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ نے غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی اور نظم میں طبع آزمائی کی۔ ان کے فکر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان کے کلام میں مختلف موضوعات پر نظمیں  دیکھی جا سکتی ہیں۔ شب برات، عید، بسنت، برسات، اور حسن و عشق وغیرہ کا بیان بڑے دلکش اندازمیں کیا ہے۔  ان کی  یہ نظم دیکھیے:

میری سانولی من کو پیاری دِسے

کہ رنگ روپ میں کونلی ناری دِسے

سہے سب سہیلیاں میں بالی عجب

سر و قد ناری او تاری دِسے

سکیاں میں ڈولے نیہہ بازی سوں جب

او مکھ جوت تھے چندکی خواری دِسے

تو سب میں اتم ناری تج سم نہیں

کوئل تیری بولاں سے ہاری دِسے

تیری چال نیکی سب ہی من کو بھاے

سکیاں میں توں جوںپھل بہاری دِسے

بہوت رنگ سوں آپ رنگیاں کیاں

ولے کاں ترے رنگ کی ناری دِسے

نبی صدقے قطبا پیاری سدا

سہیلیاں میں زیبا تماری دِسے

دکن کے شعرا میں قلی قطب شاہ کی شاعری اپنے موضوعات کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات اور عنوانات عوامی زندگی سے بہت قریب نظرآتے ہیں۔

جب ہم نظم نگاری کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو اس  دور کی نظموں میں موضوعات کے لحاظ سے بڑا تنوع نظر آتا ہے۔ مذہبی خیالات، تصوف کے مسائل، حسن و عشق کا بیان، قدرتی مناظر، اور سماجی زندگی کے رسومات، میلے‘ تہوار وغیرہ کو شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس عہد کی دکن کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب اور طرزِ معاشرت کی بھرپور عکاسی نظر آتی ہے۔

شمالی ہند میں نظم نگاری

شمالی ہند میں اردو نظم نگاری کا ابتدا سترہویں صدی میں ہوئی۔ محمد افضل افضل  اور جعفر زٹلی کے یہاں اردو نظم کے ابتدائی نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔اس عہد کی ایک اہم تصنیف محمد افضل افضل کی ’بکٹ کہانی، ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔’بکٹ کہانی‘  کوبارہ ماسا کی روایت میں اہم مقام حاصلہے۔  افضل نے ایک عورت کی  زبانی اس کے ہجر کی کیفیات کی تصویر کشی  موثر انداز میںکی ہے۔ اس نظم میں مکمل تسلسل، اثر آفرینی اور بیان میں روانی موجود ہے۔ نظم کا یہ حصہ دیکھیے:

کریں عشرت پیا سنگ ناریاں سب

میں ہی کانپوں اکیلی ہائے یارب

اجی ملّا مرا ٹک حال دیکھو

پیارے کے ملن کی فال دیکھو

لکھو تصویر چی آوے ہمارا

وگرنہ جائے ہے جیوڑا بچارا

رے سیانو تمھیں ٹونا پڑھواے

پیا کے وصل کی دعوت پڑھواے

ارے گھر آ اگھن میری بجھاوے

اری سکھیو کہاں لگ دکھ کہوں اے

کہ بے جاں ہورہی جاکر خبر سے

کہ نک ہوجا، دوانی کو صبر دے

(بکٹ کہانی)

میرجعفر زٹلی اس عہد کا اہم شاعر ہے۔ جعفر زٹلی اپنے پھکڑپن اور فحش کلامی کی و جہ سے مشہور ہے  لیکن انھوں نے اپنے عہد کے حقائق کو ایک مخصوص انداز میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے۔ مغلیہ حکومت کے زوال اور دہلی کی تباہی و بدحالی کی تصویر ان کی شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔ انھوں نے ظالم حاکموں، جا بر حکمرانوں، بے ایمان وزیروں کو ہدفِ ملامت بنایا ہے۔ جعفر زٹلی نے طنزیہ اور ہجویہ شاعری کی ایک روایت قائم کی۔ اس عہد کے زوال  اور انحطاط کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس عہد میں نوکری کی صورتِ حال کا بیان دیکھیے:

صاحب عجب بیداد ہے، محنت ہمہ برباد ہے

اے دوستاں فریاد ہے، یہ نوکری کا خطر ہے

ہم نام کیوں اسوار ہیں، روزگار سیں بیزاری ہے

یارو ہمیشہ خوار ہیں، یہ نوکری کا خطر ہے

نوکر فدائی خاں کے، محتاج آدھے نان کے

تابع ہیں بے ایمان کے، یہ نوکری کا خطر ہے

                                                                                                                                                                                                    (نوکری)

اٹھارویں صدی میں اردو شاعری کا ایک اہم دور شروع ہوتا ہے۔ نواب صدرالدین محمد خاں فائز اور شاہ ظہورالدین حاتم کے دور میں اردو نظم کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ ان شعرا کے یہاں غزلو ںکے ساتھ مسلسل نظمیں بھی بہت ہیں۔ فائز کے یہاں مختلف عنوانات کی نظمیں ہیں۔

اس عہد کے شعرا میں شاہ ظہورالدین حاتم کا مرثیہ بہت بلند ہے۔ ان کے یہاں کثیر تعداد میں نظمیںموجود ہیں۔ ان کے موضوعات میں بڑی وسعت اور رنگارنگی ہے۔ ان کی نظموںمیں حمد ونعت، حقہ، قہوہ، نیرنگیِ زمانہ، حال دل وغیرہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ سید احتشام حسین فائز اور حاتم کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ایک حقیقت ہے کہ ولی کے ابتدائی دور میں جو نظمیں لکھی گئیں۔ وہ مثنوی کے اندازمیں بیانیہ قصے نہیں ہیں بلکہ مختلف خارجی اور داخلی موضوعات کے شاعرانہ بیان پر حاوی ہیں۔ اگر فائز کے موضوعات زیادہ تر حسن اور اس کے تاثرات سے تعلق رکھتے ہیں تو حاتم فلسفیانہ اور مفکرانہ موضوعات کاانتخاب بھی کرتے ہیں۔ فائز زیادہ تر داخلی اور رومانوی تاثرات کا ذکر کرتے ہیں تو حاتم خارجی حالات اور زندگی پراثر کرنے والے مسائل بھی پیش کرتے ہیں۔ فائز زیادہ تر مثنوی کی ہیئت سے کام لیتے ہیں تو حاتم ان میں بھی تجربے کرتے ہیں چنانچہ انھوں نے مخمس سے بھی کام لیا ہے۔‘‘ (جدید ادب منظر پس منظر: احتشام حسین)

اس عہد میں بعض دوسرے شاعروں کے یہاں بھی نظم کے نمونے ملتے ہیں جس سے ان کی قادرالکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس دورکے بعد  اردو شاعری کا وہ دور آتا ہے جسے ہم میر و سودا کا دور کہتے ہیں۔ گوکہ میر و سودا کی حیثیت نظم نگارکی نہیں ہے لیکن ان کی مثنویوں، قطعات، ہجو اور شہر آشوب کو ان کے روایتی مفہوم سے الگ کرکے دیکھیں تو اس عہد کے مسائل اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی کشمکش کاا ندازہ ہوتا ہے۔ میر کی مختصر مثنویاں، مخمس، مسدس اور شکارنامے میں اس عہد کے سیاسی اور معاشرتی انحطاط اور اخلاقی قدروں کے زوال کی  تصویر نمایاں نظر آتی ہے۔ ان تخلیقات کو نظم کے زمرے میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ سودا کے شہر آشوب اور ہجو میں نظم کی صفات موجود ہیں۔ سودا کا شہر آشوب اس عہد کا آئینہ ہے۔ سودا نے سیاسی سماجی معاشی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر کشی کی ہے۔ میر و سودا کے یہاں نظم جس صورت میں موجود ہے انھیں نظم کے دائرے میں خارج نہیں کرسکتے۔ یہی دور مرثیہ نگاری کے عروج کا بھی ہے۔ انیس و دبیر کے مرثیے میں بھی نظم نگاری کی خوبیاں موجود ہیں۔  میر ، سودا، انیس و دبیر کے یہاں گرچہ ہماری زندگی اور اس عہد کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے لیکن ان شاعروں کے یہاں خالص نظم نگاری کی طرف رجحان نظر نہیں آتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ان کے یہاں نظم اپنی الگ شناخت قائم نہیں کرتی۔

اس عہد میں نظم کے حوالے سے نظیر اکبرآبادی کا کوئی مدمقابل نظر نہیں آتا۔ نظیر کی شاعری اس عہد کے مجموعی مزاج سے بالکل الگ ایک نئی روایت قائم کرتی ہے۔ نظیراگرچہ غزل کے بھی شاعر تھے لیکن نظم ان کے اظہار کا بہترین ذریعہ بنی۔تنوع اور رنگارنگی کے لحاظ سے نظیر کا کلام آج بھی بے مثال ہے۔ ان کی نظموں کے مطالعہ سے ہم زندگی کے گوناگوں مشاہدات سے دوچار ہوتے ہیں۔ سماجی زندگی کے مختلف پہلو ہمارے سامنے  آتے ہیں۔ رسم و رواج، کھیل کود،  تہوا ر، بچپن، جوانی، گرمی، برسات، جاڑا، چرند و پرند، غرضیکہ ہم جس فضاا ور ماحول میں سانس لیتے ہیں اس کی جیتی جاگتی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ نظیر کی نظمیں اس عہد کے زندہ مسائل سے گہرا سروکار رکھتی ہیں۔  معاشی مسائل ہوں یا سماجی اور اخلاقی ہر موضوع پر ان کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے انھوں نے اپنے گرد و پیش زندگی کو جس رنگ میں دیکھا اس پر نظمیں تخلیق کیں چنانچہ ہولی، دیوالی، عید، بسنت، برسات، جاڑا، بچپن، جوانی، بڑھاپا، تل کے للو، بلدیوجی کا میلہ، آٹا، دال پر نظمیں موجود ہیں۔

دراصل نظیر کی شاعری کو کسی دائرے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری سیاسی سماجی تہذیبی اور سیاسی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس پر نظیر کی نظر نہ گئی ہو۔ اردو نظم نگاری میں نظیر اپنی طرزِ فکر کا تنہا شاعر  ہے جس کے یہاں موضوعات کی اتنی کثرت ہے۔ نظیر نے عوامی موضوعات کو عوامی زبان میںا س خوبصورتی سے پیش کیا کہ لوگوں کے نظیر کی شاعری ان کی زبان بن گئی۔نظیر کی نظم نگاری کا ایک نمونہ دیکھیے:

کیا چھوٹے کام والے، و کیا پیشہ ور نجیب

روزی کے آج ہاتھ سے عاجز ہیں سب غریب

ہوتی ہے بیٹھے بیٹھے جب آ، شام عن قریب

اٹھتے ہیں سب دکان سے کہ کر کہ یا نصیب

قسمت ہماری ہوگئی ہے اختیار بند

قسمت سے چار پیسے جنھیں ہاتھ آتے ہیں

البتہ روکھی سوکھی وہ روٹی پکاتے ہیں

جو خالی آتے ہیں وہ قرض لینے جاتے ہیں

یوں بھی نہ پایا کچھ تو فقط غم ہی کھاتے ہیں

سوتے ہیں، کر کواڑ کو اک آہ مار، بند

(مفلسی)

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ

کیا بدھیا، بھینسا، بیل، شتر، کیا گوئیں۔ بَلّا، سربھارا

کیا گیہوں، چاول موٹھ، مٹر، کیا آگ دھواں، کیا انگارا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارا

                                                                               (بنجارا نامہ)

نظیر کے بعد عرصے تک نظم کی دنیا سونی ہی رہی۔ اس درمیان بعض شعرا کے یہاں نظم نگاری کی سمت میںکوشش دیکھی جاسکتی ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی نمایاں تخلیق  منظر عام پر نہیں آئی۔

1857 میں ہندستان پر انگریزوں کا مکمل تسلط قائم ہونے کے بعد حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کے لیے کئی شہروں میںا نجمنوں کا قیام عمل میں آیا۔ ان انجمنوں کے اغراض و مقاصد میں علوم و فنون کی ترویج واشاعت بھی تھا۔ 21 جنوری 1865 کو انجمن اشاعتِ مطالبِ مفیدہ پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ یہی انجمن ’انجمن پنجاب‘ کے نام سے مقبول ہوئی۔ محمد حسین آزاد اس انجمن سے وابستہ تھے۔ مئی 1874 میں کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میںموضوعاتی مشاعرہ منعقدہوا جس میں مصرع طرح کے بہ جائے  موضوعاتی نظمیں پڑھی گئیں۔  ان شاعروں میں مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نے بھی اپنی نظمیں پیش کی ہیں۔ گرچہ شاعروں کا یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا لیکن نظم نگاری کی انھیں کوششوں سے اردو نظم نگاری کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔

نظم نگاری کی تحریک کے روحِ رواں محمد حسین آزاد اورمولانا الطاف حسین حالی تھے۔ ان حضرات نے نہ صرف یہ کہ عملی طور پر نظم نگاری کی توجہ دی بلکہ فکری اعتبار سے نظم نگاری کے لیے ایک سازگار فصا قائم کی۔ انھوں نے انجمن پنجاب کے جلسوں میں جو لکچر دیے وہ نظم نگاری کے لیے ایک منشور کا درجہ رکھتے ہیں۔آزاد نے پہلے مشاعرے میں جونظم سنائی اس کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:

بوندوں میں جھومتی وہ دختروں کی ڈالیاں

اور سیر کیاریوں میں وہ پھولوں کی لالیاں

وہ ٹہنیوں میں پانی کے قطرے ڈھلک رہے

وہ کیاریاں بھری ہوئی تھالے چمک رہے

آبِ رواں کا نالیوں میں لہر مارنا

اور روئے سبزہ زار کا دھو کر سنوارنا

کوئل کا دور دور دختوں میں بولنا

اور دل میں اہلِ درد کے نشتر گھنگھولنا

گرنا وہ آبشاروں کی چادر کا زور سے

وہ گونجنا وہ باغ کا پانی کے شور سے

(ابرکرم)

نظم نگاری کے حوالے سے آزاد کی کوشش بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ آزاد نے نظم میں انقلابی تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ان کے مقالات اور مضامین میں اردو شاعری کے متعلق خیالات دیکھے جاسکتے ہیں۔مولانا آزاد اردو نظم کا دائرہ  وسیع تراور اسے ردیف و قافیہ کی قید سے آزاد کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ردیف ا ور قافیہ سے آزاد نظمیں بھی کہیں۔

اگرچہ ایک نظم نگار کے طور پر آزاد کا مرتبہ بہت بلند نہیں۔ ان کی نظمیں بہترین نظم کا نمونہ نہ بن سکیں۔ لیکن انھوں نے نظم ہی کے لیے جو راہیں ہموار کیں اس سے نظم کو بہت فروغ حاصل ہوا۔

انجمن پنجاب کے مشاعروں میں اگرچہ مولانا الطاف حسین حالی، مولوی عمرجان دہلوی ، مرزا عبداللہ بیگ، مرزا ایوب بیگ، مرزا محمود بیگ، شاہ نواز حسین ہما، عطاء اللہ خاں عطا، منشی لچھمی داس برہم، مولوی گل محمد عالی، اصغر علی فقیر، ملا گل محمد عالی، منشی شیخ الٰہی بخش رفیق، مولوی فصیح الدین انجم، مفتی امام بخش رئیس، پنڈت کرشن داس طالب وغیرہ شعرا شامل ہوئے لیکن آزاد اور مولانا حالی کے مرتبے کو کوئی نہ پہنچ سکا۔ حالی آزاد کے ہم رکاب تھے۔ انجمن کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ حالی نے ان مشاعروں میں کئی اہم نظمیں سنائیں۔ برکھارت، نشاطِ امی، مناظرہ رحم و انصاف، حب وطن، جیسی نظمیں انھیں مشاعروں میں سنائی گئیں۔حالی کی نظمیں زبان کی سادگی اور صفائی کے اعتبار سے بلند مقام رکھتی ہیں۔ نظم کایہ حصہ دیکھیے:

ہیں شکر گزار تیرے برسات

انسان سے لے کے تاجمادات

دنیا میں بہت تھی چاہ تیری

سب دیکھو رہے تھے راہ تیری

تجھ سے کھلا یہ رازِ فطرت

راحت ملتی ہے بعدِ کلفت

شکریہ فیضِ عام تیرا

پیشانیِ دہر پر ہے لکھا

گلشن کو دیا جمال تونے

کھیتی کو کیا نہال تونے

(برکھارت)

ایک دن رحم نے انصاف سے جاکر پوچھا

کیا سبب ہے کہ ترا نام ہے دنیامیں بڑا

نیک نامی سے تری سخت تحیر ہے ہمیں

ہاں سنیں ہم بھی کہ ہے کون سی خوبی تجھ میں

دوستی سے تجھے کچھ دوستوں کی کام نہیں

آنکھ میں تری مروت کا کہیں نام نہیں

اپنے بیگانے ہیں سب تیری نظر میں یکساں

دوست کو فائدہ تجھ سے نہ دشمن کو میاں

                             (مناظرۂ رحم و انصاف)

یہاں حالی کی یہ نظمیں مثال کے طور پر پیش کی گئیں ہیں جو انھوں نے انجمن پنجاب کے مشاعرے میں سنائی تھیں۔  مسدس مدو و جزر اسلام، مناجاتِ بیوہ، مرثیۂ غالب، چپ کی داد وغیرہاہم نظموں میں شمار کی جاتی ہیں۔ نظم نگار کے طور پر حالی ہمارے اہم نظم نگار شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس نئے طرز کے مشاعرے میں بعض دوسرے شاعروں نے اچھی شاعری کے نمونے  پیش کیے۔غلام نبی صاحب کی نظم کا یہ حصہ دیکھیے:

دکھاتی ہے بس چاندنی بھی بہار

ستارے بھی ہوتے ہیں کو ہر نثار

جدھر دیکھو عالم ہے ایک سیر کا

کہاں لطف یہ موسم غیر کا

کبھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہے چلتی ہوا

کہیں برف پڑتی ہے بس خوشنما

(زمستاں)

تیسرے مشاعرے کا موضوع ’امید‘ تھا۔ الٰہی بخش رفیق نے اپنی نظم ’آئینہ امید‘ سنائی۔ نظم کا یہ حصہ دیکھیے:

کیا کیا نہیں الفت نے تری رنگ دکھائے

اس عالم نیرنگ میں نیرنگ دکھائے

سادھا ہے محبت میں تری جوگ کسی نے

اور عشق کا ہے مول لیا روگ کسی نے

پھرتا ہے کوئی حیرتِ دیدار کا مارا

جیتا ہے کہ مرتا ہے ترے پیار کا مارا

ہے سب سے نہاں تو یہ چھپاتی نہیں صورت

ہے دل میں و لیکن نظر آتی نہیں صورت

ہر راز جدا ہے ترا ہر ناز الگ ہے

خوبان جہاں سے تیرا انداز الگ ہے

(آئینہ امیر)

 ان مشاعروں میں شریک ہونے والے شاعروں میں محمد حسین آزاد اور مولانا حالی کے علاوہ کوئی اپنی ادبی حیثیت مستحکم نہ کرسکا ۔آزاد اپنی شاعری سے زیادہ اپنی فکر کی تندی و تیزی اور نثر کے  اعتبار سے بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ گرچہ آزاد نظم میں فکری اور فنی دونوں اعتبار سے تبدیلی کی طرف قدم اٹھایا لیکن نظم نگاری کے حوالے سے آزاد کا مرتبہ بس واجبی ہی ہے۔لیکن نظم نگاری کے حوالے سے ان کی کوشش کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ہیں۔ یہ ان کی کوششوں کا ہی ثمرہ تھا کہ نظم نگاری  کے لیے شعرا کی ایک جماعت اس مشاعرے میں شریک ہوئی اور ان سب کی اجتماعی کوششوں سے اردو نظم نگاری کے لیے راہیں ہموار ہوئیں۔ موضوعاتی مشاعرے سے اردو نظم نگاری کی جو تحریک شروع ہوئی اس کے اثرات اردو نظم پر بہت گہرے مرتب ہوئے۔

انیسویں صدی کے اواخر کا زمانہ اردو ادب میں غیرتبد معمولی تبدیلیوںکا زمانہ تھا۔ اردو ادب میں کئی اصناف کا ظہور ہوا۔ ناول نگاری، تنقید نگاری، سوانح نگاری، مضمون نگاری وغیرہ۔ شاعری کے حوالے سے اردو نظم میں فکری اور فنی اعتبارسے  تبدیلی کا رجحان پیدا ہوا۔ حالی اور آزاد انگریزی شاعری کی طرز پر اردو نظم میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔  ا ٓزاد اور حالی کی تحریروں میں انگریزی شاعری سے استفادے پر بہت زور رہا ہے۔ آزاد کی نظم ’ جغرافیہ طبعی کی پہیلی‘ ہیئت و اسلوب کے تجربے کا اوّلین نمونہ قرار دی جاسکتی ہے۔ انگریزی نظموں کے تراجم اور انگریزی نظموں سے ماخوذ خیالات کو نظم کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اس ضمن میں نظم طباطبائی کا  ترجمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے گرے کی نظم ایلچی کا ترجمہ بعنوان ’گورِ غریباں‘ کیا جو بے حد مقبول ہوا۔ عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’دلگداز‘ اور ’سرعبدالقادر نے ’مخزن‘ سے انگریزی شاعری کے تراجم اور استفادے کی حوصلہ افزائی کی۔ نظموں کے تراجم اور مغربی شاعری سے ماخوذ خیالات پر مبنی نظموں کو ان رسالوں میں خاص جگہ دی گئی اور انھیں تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا گیا۔ محمد حسین آزاد، غلام بھنگ نیرنگ، نادر کاکوروی، سرور جہان آبادی، حسرت موہانی، ضامن کنتو ری، سیف الدین شہاب وغیرہ شاعروں کے تراجم شائع ہوئے۔ اردو نظم میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں نظموں کے تراجم نے انھیں اور جلا بخشی۔ نظموں کے تراجم اور اس طرز کی نظمیں تخلیق کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ہیئت میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا۔ نئے اسالیب کی نظمیں منظر عام پرآئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

1 Comment on "اردونظم آغاز و ارتقاء"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Nasir
Guest

Urdu main nazam nigare ki riwayat

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.