ہم عصر اردو افسانہ میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی
اردو افسانہ عہد حاضر کی سب سے مقبول صنف نہ سہی مگر اردو نثر کی مقبول ترین صنف ضرور ہے۔ اردو میں افسانے کی ایک ثروت مند روایت رہی ہے۔ زندگی کے دردبھرے اور سکھ بھرے منظرناموں سے افسانہ ہمیں روشناس کرواتاہے۔ افسانے میں تاریخ، ثقافت اور ہم عصر زندگی نمو پاتی ہے۔ کہا جاتا رہا ہے کہ افسانہ زندگی کا نقیب ہے۔ اس صنف سے عصری آگہی کا علم ہوتاہے کیوں کہ افسانے کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں۔ وہ زمینی حقائق کی بات کرتا ہے۔ ہم عصراردوافسانہ گویا تفہیم زندگی کا کردار خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے۔
ہم عصر اردوافسانہ میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے مثبت رویّوں سے استفادہ کی صورتیں دکھائی دیتی ہیں اور موضوعات کے اعتبار سے اس کا دائرہ کافی وسیع نظر آتا ہے۔ ہم عصراردوافسانہ نگاروں نے سماج کے سُلگتے ہوئے مسائل جیسے بڑھتی آبادی، بے روزگاری، ماحولیاتی کثافت، اقلیتی طبقہ کے تئیں حکومت کے معاندانہ رویّے اور اس کا سماجی، سیاسی استحصال، حکومت کی بدعنوانی، رشوت ستانی، کالابازاری، انتظامیہ کی بے بسی، لاقانونیت، سرمایہ داری کا عروج، اس کی چپیٹ میں آئے ہوئے عام لوگ، حکومت اور عوام کے بیچ بڑھتی ہوئی خلیج، سیکولرزم کے نام پر عوام کا سیاسی استحصال، حکومت پر عوام کا عدم اعتماد، اس سے پیداشُدہ سماجی، سیاسی بُحران، جرائم کا بڑھتا گراف، علاقائی، لسانی، مذہبی اور مسلکی تعصب، نسلی امتیاز، دہشت گردی، بنیاد پرستی، اعلی اخلاقی قدروں کا زوال، عورتوں کا جنسی استحصال، مغربی تہذیب کا بڑھتا ہوا اثر، ہم جنسی کی تحریک، نئی نسل کی اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات سے بیزاری اور مغربی تہذیب سے حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی، نئی اور پرانی نسل کا ذہنی تصادم، لوٹ ، مار اور قتل وغارت گری وغیرہ کو اپنے افسانوں کا موضوع بناکر بڑی مہارت وہنرمندی سے عہد حاضر کی زندگی اور اس کی سفاک حقیقتوں کی ترجمانی کا فریضہ انجام دینے کی سعی کی۔ ان مسائل کے ساتھ ساتھ ہم عصراردوافسانہ نگاروں نے حاشیائی آبادی کی جوجھتی زندگی اور اس کے دردناک مسائل پر بھی خاصی توجہ دی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سارے ہم عصر اردوافسانہ نگاروں نے اس طرف اپنی توجہ مبذول نہیں کی ہے لیکن بیشتر ہم عصراردوافسانہ نگاروں کے یہاں حاشیائی آبادی کی زندگی اور اس کے مسائل کی عکاسی ملتی ہے۔
اقبال مجید ہم عصراردوافسانہ کا ایک معتبرنام ہے۔ ان کی مشہور کہانی ’’آگ کے پاس بیٹھی عورت‘‘ میں دلت\حاشیائی کرداروں کی پُرزور عکاسی ملتی ہے۔ دلتوں کی روزمرّہ کی زندگی، ان کی بستی کی گندگی، ان کی عورتوں کی برہنگی اور ننگے دھڑنگے کیچر میں لتھڑے اور گرد سے اٹے بالوں والے ناک بہاتے اور غلاظت میں لت پت بچوں پر فلم بناکر پیسے کماناایک عام فیشن بن گیا ہے لیکن ان کے پے چیدہ مسائل کے بارے میں سوچنے اور ان کا حل نکالنے میں انتظامیہ سے لے کر سماجی کارکنان تک کسی کو سچی دلچسپی نہیں ہے۔ اس طرح صدیوں سے ان کی زندگی کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے لیکن اب دلتوں میں بھی کافی بیداری پیدا ہوچکی ہے۔ اب وہ اپنی زندگی کا مذاق اُڑانے والوں کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیتے بلکہ ان سے انتقام لیتے نظرآتے ہیں۔
فلم ڈائرکٹر رام کمارشرما جب دلتوں کے مسائل پر فلم بنانے کے لیے دلت بستی میں پہنچتا ہے تو گاؤں کا مکھیا ان کا احترام کرتا ہے۔ ڈائرکٹر مکھیا سے کہتا ہے۔ ’’یار کچھ پانی وانی پلادو‘‘۔ مکھیا ایک بیل گاڑی والے کو اشارہ کرتا ہے جو پانی لاتاہے۔ مکھیا کہتا ہے۔ ’’پانی برتن سب ٹھاکر گاؤں کا ہے۔‘‘ فلم ڈائرکٹرکہتا ہے۔ ’’ہم تمہارے برتن میں پانی پئیں گے۔ اٹھاؤ وہ گلاس۔‘‘ کئی بار ڈائرکٹر کے اصرار کے باوجود جب مکھیا گلاس نہیں اُٹھاتاتو ڈائرکٹر چولہے کے پاس بیٹھی عورت سے کہتا ہے۔ ’’ارے وہ گلاس تو دینا‘‘ عورت اُٹھ کر ڈائرکٹر کو گلاس دیتی ہے۔ ڈائرکٹر گلاس کو دھوکرپانی پیتا ہے اور مکھیا سے کہتا ہے۔
’’ہم شرما ہیں، پنڈت! تم اتنا سنکوچ کیوں کررہے تھے گلاس دینے میں؟‘‘
’’ وہ آپ کے پانی پینے کے لیے نہیں تھا صاحب۔‘‘
’’ کیوں؟ تم پی سکتے ہو، تو ہم کیوں نہیں پی سکتے؟‘‘ ڈائرکٹر نے پوچھا۔
’’ اس سے ہماری عورت سور کے بیمار بچے کو دودھ بھی پلاتی ہے۔‘‘
’’ یہ سن کر ڈائرکٹر سناٹے میں آگیا‘‘ (آگ کے پاس بیٹھی عورت)
یہاں دلت عورت بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ڈائرکٹر کو گلاس دے کر دراصل اس انتقامی جذبہ کا مظاہرہ کرتی ہے جو اس طبقہ کے اندر اونچی ذاتوں کے خلاف صدیوں سے پل رہاہے۔ اس جذبہ کا مظاہرہ کرکے اس عورت کو کتنی مسرت وطمانیت کا احساس ہوتا ہے، سنئے راوی کی زبانی:
’’ مجھے لگا جیسے اس پیش قدمی سے ڈائرکٹر کی جانب سے ہونے والے خاطرخواہ عمل کے سبب وہ عورت کچھ ایسی مسرور اور مطمئن تھی جیسے اس کا پورا وجود کسی لمبی اذیت ، اندوہناکی اور دردوداغ کو سہتے سہتے یکایک نکلنے والی ایک ایسی سسکی بن گیا تھاجس سسکی کے نکل جانے سے روح کو کچھ ایسا آرام مل جاتا ہے جیسے دیر سے ٹھہرے ہوئے پیشاب کے نکل جانے سے ملتا ہے۔‘‘ (آگ کے پاس بیٹھی عورت)
یہ دلت عورت اتنے ہی انتقامی عمل پر بس نہیں کرتی ہے بلکہ ڈائرکٹر کے جھوٹے کیے ہوئے المونیم کے گلاس کو لوہے کے چمٹے سے پکڑے ہوئے شعلوں پر رکھ کر گرم کرتی ہے تاکہ گلاس کا جھوٹاپن ختم ہوجائے۔ اس دلت عورت کے انتقامی عمل اور بغاوت کے جذبہ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب دلتوں کو بیوقوف بنانا یا ان کی زندگی کا مذاق اُڑانا آسان نہیں ہے کیوں کہ اب ان میں بھی بیداری اور بغاوت کی لہریں جنم لے چکی ہیں۔ بغاوت کی یہ لہر کب شعلہ بن جائے کہنا مشکل ہے۔ اس لیے اب حکومت کو پچھڑے دلتوں کے مسائل پر سنجیدگی سے سوچنے اور انھیں ان کے بنیادی حقوق دینے کی ضرورت ہے۔ اس کہانی میں دلت بستی کا جو نقشہ کھینچاگیا ہے وہ قابل توجہ ہے:
’’ جب ہماری جماعت گاڑیوں سے اس مقام پر پہنچی تو․․․․․․ہم سے کچھ فاصلے پر ایک جھونپڑی سے باہر زمین پر لکڑی کا چولہا جلائے ایک عورت اپنے روزمرہ کے کام میں مصروف تھی۔ اس دن ہوا ٹھہری ہوئی تھی۔ موسم پر ایک عجیب طرح کی الکسی اور تھکن سی طاری تھی۔ کچھ فاصلے پر ان لوگوں کی پالی ہوئی غلاظت میں لتھڑی سورنیاں اپنے بچوں کو پیچھے پیچھے لیے اس جھاڑ جھنکاڑ میدان کی طرف سے واپس آرہی تھیں جسے وہ لوگ رفع حاجت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کیچرزدہ راستے کے کنارے جھاڑیوں کی جانب ایک کشادہ گڑھاتھا جس میں برساتی پانی لبالب بھرا تھا۔ اس کے کنارے پڑے پتھروں پر دوتین کم سن لڑکیاں کپڑے دھورہی تھیں۔ میں نے کھلے اور شفاف آسمان پر کچھ گدھوں کو منڈلاتے دیکھا۔ شاید بستی کے کسی چمار نے گاؤں کی سرحد پر کسی مُردہ جانور کی کھال کچھ ہی دیر پہلے اُتاری ہوگی۔ کبھی کبھی اگر ذرا بھی ہوا چلتی تو شمال کی جانب سرنگوں قدیم بون مل(Bone Mill)کے اوبڑ کھابڑ کمپاؤنڈ میں جانوروں کی ہڈیوں کے ڈھیر سے مل کی ادھڑی دیواروں کو پھاند کر شدید بو کا ایک تیز جھونکا آتا۔‘‘ (آگ کے پاس بیٹھی عورت)
اس اقتباس سے دلت بستی کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ ترقی کا دم بھرتی ہوئی ہماری حکومت کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے کہ آخر اس جیسی دلت بستیاں اب تک ترقی سے محروم کیوں ہیں؟شہروں میں سلم ایریا(Slum Area)کی حالت بھی انتہائی خستہ اور گھناؤنی ہے۔ سلام بن رزاق نے اپنی مشہور کہانی ’’انجام کار‘‘ میں سلم ایریا اور اس میں بسنے والوں کی زندگی کی تصویرکشی بڑی فن کاری سے کی ہے۔ اس کہانی میں قانون کی پسپائی، انتظامیہ کی بے بسی اور سسٹم کی ناکامی کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہ ایک کلرک کی کہانی ہے جو اپنی معمولی تنخواہ کی وجہ سے سلم ایریا/جھگی جھونپڑی میں رہنے پر مجبور ہے جہاں حاشیائی آبادی کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ افسانہ نگار نے کلرک کی زبانی اس علاقہ کی جس فنی ہنرمندی سے مرقع کشی کی ہے وہ ملاحظہ ہو:
’’ میں جیسے ہی گلی میں داخل ہوا اس جانے پہچانے ماحول نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ٹین کی کھولیوں کے چھجوں سے نکلتا ہوا دھواں، اِدھر اُدھر بہتی نالیوں کی بدبو اور ادھ ننگے بھاگتے دوڑتے بچوں کا شور، کتّوں کے پلّے، مرغیاں اور بطخیں۔ دو ایک کھولیوں سے عورتوں کی گالیاں بھی سُنائی دیں۔ جو شاید اپنے بچّوں یا پھر بچّوں کے بہانے پڑوسنوں کو دی جارہی تھیں۔‘‘ (انجام کار، مشمولہ ننگی دوپہرکا سپاہی، ص،۔۹۳۱،۰۴۱)
اس افسانہ میں دراصل ایک کلرک، غنڈوں سے اس کے مُڈبھیڑ، سسٹم کی بے حسی اور بے حس سسٹم سے کلرک کے مصالحت کرلینے کے واقعے کو بیان کیاگیاہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کلرک کے حوالے سے سلم ایریا، وہاں پہ بسی حاشیائی آبادی کی روزمرّہ زندگی کا نقشہ اس طرح کھنیچا گیا ہے کہ ہندوستان کے بمبئی، دلی اور کلکتہ جیسے بڑے شہروں کے سلم ایریا ز کا پورا منظر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس کہانی میں کلرک کے دُکھ دردکو تو بیان کیا ہی گیا ہے، ساتھ ہی شہروں میں جھگی جھونپڑی میں رہنے والوں کی المناک زندگی کی بھیانک تصویرگری کی گئی ہے۔ حاشیائی لوگوں کی زندگی پر جابر حسین نے بھی کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی بیشتر کہانیاں حاشیائی کرداروں اور ان کی بپتا بھری زندگی سے متعلق ہیں۔ مشہورودیدہ ور نقاد گوپی چندنارنگ اپنے مضمون ’’جابر حسین کی آلوم لاجاوا اور ٹال کی مرنی‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’ بات گاؤں دیہات، قصبات کی نہیں، جابر حسین جس مخلوق کا ذکر کرتے ہیں بظاہر وہ انسان ہے لیکن جو گزربسر وہ کرتی ہے اور جس سماجی فضامیں وہ سانس لیتی ہے اور جو برتاؤ اس کے ساتھ کیا جاتا ہے، وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے۔‘‘ (فکشن شعریات تشکیل وتنقید، ص،۴۰۴)
کہانی ’’اپنی بات‘‘ کا ناجوبی ایک ایساہی کردار ہے۔ اس کا روز کا معمول گھربھر کو ناشتہ کھلانا، بڑوں کے لیے کھانا تیار کرنا، کپڑے دھونا اور بچوں کے لوٹ آنے کے بعد ہی کچھ لیناہے۔ وہ کب سوتی، کب جاگتی ہے، شاید ہی گھربھر میں کسی کو معلوم پڑتاہو۔ بچے لوٹ کر آتے ہیں تو وہ ناجوبی کو کام میں کھویا ہوا پاتے ہیں:
’’ تیزہواؤں اور لُو کی کیفیت سے گزرکر مکان میں داخل ہوتے ہی مجھے ناجوبی باورچی خانے سے لگے نل پر کوئلے کے منجن سے منہ دھوتی دکھائی دیتیں۔ کتابیں ادھر اُدھر ڈال کر سیدھے ناجوبی کے پاس پہنچتا، دونوں ہاتھ ان کی گردن میں ڈال کر باورچی خانے کے چبوترے پر جھول جاتا۔ پتھریلے آنگن میں گرتے گرتے بچتی تھیں ناجوبی۔ ان کے بھیگے گالوں سے رسنے والی بوندیں اکثر میرے کپڑے بھگو دیتی تھیں۔‘‘ (اپنی بات، مشمولہ ریت پر خیمہ،ص،۲۲)
ناجوبی جو ایثار، اپنائیت، چاہت اور ممتا کی پیکر ہے لیکن بے رحم سماج کے جابرانہ قانون نے اسے اسفل اور بدتر زندگی جینے پر مجبور کردیاہے۔ جابر حسین نے پچھڑی ذات کی عورتوں کے استحصال پر بڑی موثر کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کہانیوں میں انھوں نے مظلوم وپسماندہ عورتوں کے کرداروں کی ایسی مرقع کشی کی ہے کہ انھیں قاری کے دل ودماغ میں نقش کردیاہے۔ اس ضمن میں گوپی چندنارنگ کی رائے ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ شانتیا، جینی، مرنی، رضیہ، شیاملی، سنکلی، کسنیا یا رام سیہنی کی عورت فقط دکھوں کا بوجھ ڈھونے، اغوا اور زناکاری کا شکار ہونے یا بے نام موت مرجانے والوں کے ٹائپ نہیں بلکہ ایسے زندہ کردار ہیں جن کی مظلومیت اور دکھ میں ڈوبے ہوئے امیج ذہن میں ایسے نقش چھوڑ جاتے ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتے۔‘‘ (فکشن شعریات تشکیل وتنقید،ص، ۶۰۴)
’’آلوم لاجاوا‘‘ کہانی میں جابرحسین نے ایک سنتھال عورت جینی کی بپتا کو بیان کیا ہے ۔ اس کا شوہر جوزف پولیس ان کاؤنٹر میں ماردیا گیا ہے۔ لاش کو ٹھکانے بھی لگا دیا گیا ہے لیکن جینی کو پتہ نہیں ہوپاتا۔ اسی لیے اس کو اپنے شوہر کے مرنے پر یقین بھی نہیں ہوتا۔ شوہر کے مرنے کے بعد گاؤں کا پردھان شراب کے نشے میں دُھت اس کے گھر میں داخل ہوتا ہے اور روپیے، پیسے کا لالچ دے کر اس کا جنسی استحصال کرنا چاہتاہے۔ جینی ایک غیرت مند عورت ہے۔ وہ شہرمیں جا کر پہاڑی عورتوں کے بیچ کام کرنا چاہتی ہے تاکہ کسی کے رحم وکرم پر نہ رہے۔ لیکن گاؤں کا پردھان چاروں طرف سے استحصال کا ایسا جال پھیلاتا ہے کہ جینی جیسی لاچارو مجبور عورتوں کو ظلم سے نجات نہیں ملتی اور استحصال کے سائے میں کراہ کراہ کر زندگی جینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ جابر حسین کی اس نوع کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کہیں نہ کہیں بے بس ہے جس کی وجہ سے ظلم سماج میں دندناتا پھررہا ہے اور سماج کے انتہائی پس ماندہ طبقے جانوروں سے بھی بدتر زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ اس قسم کی کہانیاں ساجدرشید کے یہاں بھی اکثر ملتی ہیں۔ ’’دوپہر‘‘ اسی طرح کی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس میں ایک چمار خاندان کے دُکھ درد کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ خاندان تین افراد پر مشتمل ہے۔ ایک بوڑھا، اس کا نوجوان بیٹا اور اس کی بہو۔ بوڑھے کی بہو کو بادشاہ کابیٹا ولی عہد راستے سے گزرتے ہوئے نہانے کی حالت ( نیم برہنہ حالت) میں جھانک کر دیکھتا ہے اور اسے اپنی طرف رجھانے کے لیے گلاب کا پھول اس کی طرف پھینکتا ہے۔ اس چھیڑ خانی کی شکایت بوڑھا بادشاہ سلامت سے کرتا ہے تاکہ اسے انصاف ملے۔ لیکن ایک ایسے سماج میں جس کی رگوں میں ظلم واستحصال سرایت کیے ہوئے ہو، حکمراں طبقہ کے خلاف شکایت کرنا بھی بڑا بھاری جُرم قرارپاتاہے۔ دیکھیے کہ بوڑھے کو اس جُرم کی کتنی بھاری قیمت چُکانی پڑی۔ اس کے چمار ٹولے پر رات کو حملہ ہوا۔ سارا مال واسباب تہس نہس کردیاگیا۔ توڑ پھوڑ مچائی گئی اور عورتوں خصوصاََ بوڑھے کی بہو کی عصمت لوٹی گئی۔ دوسرے دن جب بوڑھااپنی بہو، بیٹے کے ساتھ تحصیل پہنچا اور سنتری سے درخواست کی کہ اسے داروغہ جی سے ملناہے تو سنتری نے نذرانہ /رشوت کا مطالبہ کیا۔ اتنے میں اندر سے داروغہ جی کی آواز آئی کہ تینوں کو اندر بھیج دو۔
’’ تینوں جھجکتے ہوئے داروغہ جی کے کمرے میں پہنچے۔ بدن سے ننگا، کمان جیسی گھنی مونچھوں والا موٹا، بدشکل آدمی میز پرپیر پسارے ایک دیہاتی سے ہاتھ دبوارہاتھا۔ اسے دیکھتے ہی بہو کی گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی اور وہ بے تحاشہ بھاگ نکلی۔ دونوں باپ بیٹے اس کے پیچھے لپکے۔ دونوں اسے آواز دے رہے تھے مگر وہ دوڑتی ہوئی تھانے کی سنگلاخ عمارت سے باہر نکل گئی۔ انہوں نے اسے بازار میں جالیا۔ وہ کسی گوریّا کی طرح ہانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ ’’ یہ وہی ہے دادا، وہی ہے۔ بھاگ چلو یہاں سے بھاگ چلو۔‘‘ (دوپہر، مشمولہ نخلستان میں کھلنے والی کھڑکی، ص،۳۴،۴۴)
اس اقتباس کو پڑھ کر ایک باشعور قاری تلملانے لگتاہے کہ مظلوم وبے بس افرادکو تحصیل جہاں سے عدل وانصاف کی امّیدہے، معلوم ہوا کہ وہی کرپشن، بدعنوانی اور استحصال کا اڈّہ ہے۔ اس کہانی میں ساجدرشید نے کمزور وپسماندہ طبقوں کے تئیں حکمراں جماعت، موجودہ سیاست اورانتظامیہ کے بہیمانہ رویّوں کو بڑی فن کاری سے اُجاگر کیا ہے۔ کہانی کا اختتام دیکھیے کتنا جھنجھوڑنے والاہے:
’’ وہ تینوں تھکے ہارے آگ برساتے آسمان کے نیچے اور تپتی زمین کے اوپر ایک نہ ختم ہونے والی سڑک پر دھیرے دھیرے چلے جارہے ہیں۔‘‘ (ایضاََ، ص،۴۴)
یہ نہ ختم ہونے والی سڑک ظلم وستم کی وہ سڑک ہے جس میں حاشیائی آبادی صدیوں سے سفر کررہی ہے اور اس کے مقدر میں نجات کی کوئی منزل نہیں آتی۔ یہاں بوڑھے، اس کی بہو اور اس کے بیٹے کی المناک زندگی کو دیکھ کر قاری آبدیدہ ہوجاتا ہے ۔ قاری کو ان تینوں کرداروں سے ہمدردی ہونے لگتی ہے اور تینوں کردار قاری کے حواس پر چھاجاتے ہیں۔
کہانی ’’ڈاکو‘‘ میں بھی ساجدرشید نے حاشیائی کرداروں کے المیہ کو بڑی فن کاری سے بیان کیا ہے۔ کُرمیوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ڈاکوؤں کے حملہ کا خطرہ ہے۔ گاؤں والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھانیدار وہاں کیمپ ڈالتا ہے۔ کیمپ کے دوران تھانیدارغریب گاؤں والوں سے زبردستی عمدہ عمدہ کھانا بنواکر کھاتا ہے اور نتّھو کُرمی کی بیوہ سے اپنی ہوس پوری کرتا ہے ، پھر چند دن بعد تھانیدار گاؤں سے چلاجاتا ہے۔ پوری کہانی طنز میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ تھانیدار جسے غریب عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مامور کیا گیا تھا، اس نے اپنے جرائم سے ڈاکو کو بھی مات دے دی۔ اس نے جرائم کو انجام دینے کے ساتھ خوف ودہشت کی ایسی فضا طاری کر دی کہ اس کے خلاف زبان کھولنے کی کسی کی ہمّت نہ ہوئی۔ انتظامیہ اور حکمراں طبقہ کا یہی وہ جابرانہ وظالمانہ رویّہ ہے جس نے کمزور وپس ماندہ طبقوں کوسماج میں سراُٹھاکرجینا دُوبھر کر دیاہے۔
شموئل احمد عصر حاضر کے ایک ممتازافسانہ نگار ہیں۔ ان کا مشہور افسانہ ’’کاغذی پیراہن‘‘ حاشیائی کرداروں کی زندگی سے متعلق ہے۔ یہ ایک گھریلو ملازمہ کی کہانی ہے۔ اس میں اس کی سسکتی زندگی کو دکھانے کی سعی کی گئی ہے۔ آمنہ بی بی جی کے گھر کی ملازمہ ہے۔ وہ اس کے گھر میں جھاڑو پوچھے لگانے اور برتن دھونے کا کام کرتی ہے۔ اس کا شوہر شبراتی نکھٹّو اور شرابی ہے جو آمنہ کو دل وجان سے چاہتا ہے۔ آمنہ کو ایک پانچ سال کا بیٹا ببلو ہے جس کو پڑھانے کے خواب وہ رات دن دیکھا کرتی ہے لیکن اسکول میں اس کے داخلہ کے لیے اس کے پیسے نہیں ہیں۔ اسی غرض سے اس نے اپنا پیٹ کاٹ کر، ایک ایک پائی جوڑ کر بی بی جی کے پاس پیسے جمع کرنا شروع کیا۔ جب ایک خاصی رقم جمع ہوگئی تو آمنہ بی بی جی سے مانگنے گئی۔ بی بی جی نے چوں کہ اس کے تمام پیسوں کو اپنے مصرف میں خرچ کر ڈالا تھا، اس لیے وہ مختلف بہانوں سے آمنہ کو ٹالتی رہی۔ جب آمنہ نے بہت عاجزی سے اور سخت ضرورت کا حوالہ دے کر اصرار کیا تو بی بی جی نے اسے اپنے گھر میں پڑی ہوئی ایک ٹی وی دے دی جو اس کے کسی کام کی نہیں۔ آمنہ نے مجبور ہوکر ٹی وی لے لی۔ جب آمنہ نے ٹی وی کو اپنے گھر میں سیٹ کیا تو اس کا شوہر ٹی وی دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اسے اپنی بیوی پر اتنا شک ہوگیا کہ وہ اسی وقت گھر سے باہر نکل گیا۔ بقول افسانہ نگار:
’’ شبراتی لوٹ کر نہیں آیاــ․․․․․ آمنہ رات بھر انتظار میں کروٹیں بدلتی رہی․․․․
وہ جب صبح بھی نہیں آیاتو آمنہ گھبرا گئی۔ اس کو ڈھونڈنے کے ارادے سے باہر جانا چاہ رہی تھی کہ احاطے کے پیچھے شبراتی نظر آیا۔ وہ ببلو سے پوچھ رہا تھا۔
’’ گھر میں کون کون آتا ہے․․․؟‘‘
’’ کوئی نہیں․․․․․‘‘
’’ اماں کہاں کہاں جاتی ہے؟‘‘
’’ اماں کام کرنے جاتی ہے۔‘‘
آمنہ کو لگا کسی نے اس کے سینے پر برچھی گھونپ دی ہے۔ اس نے ببلو کو لپٹا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی․․․․‘‘ (کاغذی پیراہن، مشمولہ، عنکبوت)
یہاں آمنہ کو روتے دیکھ کر قاری کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑتا ہے کہ بی بی جی نے آمنہ کے پیسے کو ہڑپ کر اس کا ایسا استحصال کیا اور اس کی اور اس کے ببلو کی زندگی کو ایسے موڑ پہ لاکھڑا کیا جہاں زندگی اور انسانی رشتے ناطے دم توڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہانی ہمارے So-Calledمہذب سماج پر ایک طنز ہے جہاں نوکروں اور گھریلو ملازماؤں کے پیسوں کو بھی ہڑپ لیا جاتا ہے اور ان کی زندگی کو ایسے ڈس لیا جاتا ہے کہ ان کی زندگی زہرآلود ہوجاتی ہے اور سسک کر دم توڑ دیتی ہے لیکن ہمارے نام نہاد تہذیب یافتہ سماج کو ان پر ترس نہیں آتا۔ حالاں کہ اگر غور کیا جائے تو ہمارے سماج کی تعمیر میں مزدوروں کا بہت ہی اہم اور بنیادی رول نظر آتاہے لیکن ان کو نظرانداز کرکے اور ان کا استحصال کرکے کہیں ہم اپنے سماج کی بنیاد کو کھوکھلاتو نہیں کر رہے ہیں۔ اس پہلو کی طرف بھی یہ کہانی ہمیں متوجہ کرتی ہے۔
شوکت حیات بھی ہمارے عہد کے ذہین اور جینوئن افسانہ نگار ہیں۔ ہم عصر اردو افسانوی ادب میں ان کی خدمات اہم اور قابل قدر ہیں۔ ہم عصر اردو افسانہ میں ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ انھوں نے جہاں بہت سے موضوعات پر افسانے لکھے ہیں، حاشیائی کرداروں کی زندگی پر بھی انھوں نے کئی افسانے لکھے ہیں۔ ’’مادھو‘‘ ان کا ایک ایسا ہی افسانہ ہے۔ یہ افسانہ ایک طرح سے پریم چند کے کفن کی توسیع ہے۔ شوکت حیات کا یہ افسانہ موجودہ عہد کے تناظر میں لکھاگیا ہے۔ اس لیے اس افسانہ کا کردار مادھو پریم چند کا مادھو نہیں ہے بلکہ آج کے زمانہ کا مادھو ہے جو زمیندارانہ سماج اور اس کے استحصالی نظام سے پوری طرح واقف ہے۔ اس کے اندر بغاوت کا جوش ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ وہ موجودہ زمیندارانہ سماج سے بغاوت کرتا ہے اور اس کے کُتّے (باڈی گارڈ/حفاظتی دستہ ) کو مار ڈالتا ہے۔ کُتّے کو مارتے ہی مادھو کے لیے زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ استحصالی نظام پہ مادھو جیسے لوگوں کی فتح ہوگئی ہے لیکن اس کُتّے کے مرتے ہی دُور سے بہت سارے کُتّوں کے بھونکنے کی آوازیں سُنائی دینے لگتی ہیں۔ دُور سے بہت سارے کُتّوں کو بھونکتے دیکھ کر فوراََ ہی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اس ایک کُتّے کے مرنے سماج کے استحصالی نظام کا خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ ابھی سماج میں بہت سارے کُتّے یعنی استحصال کرنے والے موجود ہیں جن کا خاتمہ ضروری ہے۔ اسی مقصد کے تحت مادھو جنگل کی راہ لیتا ہے تاکہ وہ گوریلا فوج بنا کرموجودہ استحصالی نظام کا خاتمہ کرسکے۔ جنگل کی طرف جاتے ہوئے مادھو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے یعنی اسے اپنی فتح کی بھی اُمّید ہے۔ دیکھیے افسانہ نگار نے ان باتوں کی طرف کس خوبصورتی سے اشارہ کیا ہے:
’’ لوگوں سے اسے کندھے پر اُٹھا لیا اور مادھو زندہ باد کے نعروں سے فضا گونجنے لگی۔ دفعتاََ اسے بہت سارے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں دور سے آتی سُنائی دیں۔ اس کے چہرے سے کڑواہٹ مترشح ہونے لگی۔ کندھوں سے ایک جھٹکے سے کودگیا۔ جنگل کے اس پار سے نگاڑوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ دور کسی مسجد سے مغرب کی اذان کی آواز فضا میں گونجی۔ ہجوم کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثر اُبھرے۔
معنی خیز نظروں سے اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے وہ جنگل کی طرف کوچ کر گیا۔ اس کے ہونٹوں پر رینگتی ہوئی پراسرار مسکراہٹ دھیرے دھیرے پھیلتی جارہی تھی۔‘‘ (مادھو، مشمولہ، گنبد کے کبوتر، ص،۰۳۱)
یہاں مادھو کے کردار کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ یہ مادھو پریم چند کے مادھو کی طرح بے حس اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والا مادھو نہیں ہے بلکہ یہ آج کے زمانہ کا وہ مادھو ہے جو نکسلی تحریک اور اس جیسی مختلف تحریکوں کا روپ لے کر حکومت کے سامنے ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے اور جو موجودہ استحصالی نظام کے خاتمہ کے درپے ہے۔ اس کے لیے وہ لگاتار کوششیں کررہا ہے۔ اس لیے آج کے بدلتے سماج میں مادھو جیسے لوگوں کے مسائل کو نظرانداز کرنا حکومت اور سماج دونوں کے لیے ایسی چنگاری کو جنم دینا ہے جو کہیں شعلوں کی شکل اختیار کرکے ہمارے سماج کے لیے مزید تباہی کا باعث نہ بن جائے۔
شفق نے بھی حاشیائی کرداروں کی زندگی پر کئی افسانے لکھے ہیں۔ ایک افسانہ انھوں نے ’’دوسراکفن‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جو پریم چند کے متن پر متن تعمیر کرنے کی عمدہ مثال ہے۔ اس کہانی کے کردار بھی گھیسو، مادھو اور بدھیا ہیں یعنی یہ کردار آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور آج بھی ہمارے ملک میں ظلم واستحصال کا سلسلہ جاری ہے۔ آزادی کے بعد ملک میں بہت سی تبدیلیاں رُونما ہوئیں اور پسماندہ طبقوں کی حالت میں سُدھار لانے کے لیے بہت سے پروگرام بنائے گئے اور بہت سی اسکیمیں نافذ کی گئیں۔ یقینا بہت سے کمزور طبقے ان سے مستفید بھی ہوئے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان ساری اسکیموں کے نفاذ کے باوجود آج بھی بہت سے پچھڑے لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہے اور بدھیا جیسی لاچار عورت دوا درو نہ ملنے کے باعث دردزہ میں تڑپ تڑپ کر مر رہی ہے۔ درج ذیل اقتباس میں افسانہ نگار نے مذکورہ تلخ حقائق کی طرف کس فن کاری سے اشارہ کیاہے:
’’ ہاں مکھیا جی، صرف قانون بنانے سے سماجک نیائے ملے گا نہ سماجک پری ورتن ہوگا۔ ایک بھاری بھرکم آواز سُنائی دی۔․․․․․․ آزادی ملے پچاس برس گُزر گئے مگر پچھڑے لوگوں کی حالت میں کوئی سُدھار نہیں ہوا۔ آج کی گھٹنا نے مجھے لرزا دیاہے، آج ہماری ایک بہن اس لیے مر گئی کہ اُسے دوا نہ مل سکی۔ اس کے گھر والوں کے پیٹ میں نہ دانا ہے نہ تن پروستر۔‘‘ (دوسراکفن، مشمولہ، وراثت، ص، ۲۳)
آج ہمارے سماج میں سیاستدانوں کا کیا منفی رول ہے اور کس طرح وہ عوام سے جھوٹے وعدے کرتے رہتے ہیں، اس کو بھی شفق نے فن کارانہ اسلوب میں بیان کیا ہے :
’’ میں پرتگیا کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے ہمیں جن آدیش دیا تو ہم سماجک پری ورتن کو کتابوں سے نکال کر سب کے درمیان لائیں گے۔ میں اپنی پارٹی کی طرف سے ان بدنصیب لوگوں کو دس ہزار روپئے دینے کا اعلان کرتا ہوں۔ زور کی تالیاں بجیں۔ فوٹوگرافر ان کی اور ان کی جھونپڑی کی تصویریں لے رہے تھے۔‘‘ (ایضاََ،ص، ۲۳)
شفق کی کہانی ’’رقص شرر‘‘ میں بھی حاشیائی کرداروں کی زندگی کی پُردرد عکّاسی ملتی ہے۔ اس کہانی میں ایک پسماندہ ومظلوم خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ارشد اور نعیم کے باپ کو رنبیر سینا کے ہتھیارے کسی زمینی تنازع میں گولی سے ہلاک کر دیتے ہیں۔ پولیس آتی ہے اور اپنی فارمالیٹی پوری کرکے چلی جاتی ہے۔ یہ پتہ نہیں چلتا ’’ کہ موت کے ہرکارے کون تھے اور ان کے باپوں کا قصور کیا تھا۔ ساتھ دینا یا ساتھ نہ دینا۔‘‘ باپ کے انتقال کے بعد ارشد اور نعیم پر بڑا بھیانک دور آتا ہے۔ ان کی ماں، بہنوں کو دوسروں کے گھروں میں جھاڑو، برتن، چھان پھٹک سے لے کر بوجھ ڈھونے تک کاکام کرنا پڑتا ہے، تب کہیں گھر میں چولہا جلتا ہے۔ ارشد اور نعیم دوسروں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں مگر وہاں سال بھر کام نہیں چلتا۔ فصل بونے یا کاٹنے کے وقت ان کی ضرورت ہوتی ہے پھر ان کے حصّے میں بے روزگاری آتی ہے۔ ایسی بھیانک غربت اور بے روزگاری کی حالت میں وہ دونوں پیسے کمانے کے لیے شہر کا رُخ کرتے ہیں۔ ہوٹل والے کے پاس پہونچ کر کام مانگتے ہیں۔ ہوٹل والے بال مزدوری کے الزام کے ڈر سے انہیں کام پر نہیں رکھتے۔ یہاں سے ارشد اور نعیم قلی مزدوری کے کام کے ارادہ سے اسٹیشن جاتے ہیں لیکن وہاں لال قمیص پہنے قلی انھیں دھکّا دے کر بھگا دیتاہے۔ یہاں سے ارشد اور نعیم کام کی تلاش میں آگے بڑھتے ہیں اور رکشے کے مالک کے پاس پہنچتے ہیں۔ یہ دونوں ان سے مزدوری پر رکشا چلانے کے لیے مانگتے ہیں لیکن رکشے کا مالک ان کی کم سنی کو دیکھ کر اور ان کے پاس کوئی پروف نہ ہونے کی وجہ سے انھیں رکشے دینے سے انکار کر دیتا۔ دونوں کو کام کی تلاش میں رات ہوجاتی ہے اور وہ دونوں بھوکے ایک بند دُکان کے باہر لیٹ جاتے ہیں لیکن بھوک کی شدّت سے نیند نہیں آتی ہے۔ صبح ارشد اور نعیم مختلف عالیشان عمارتوں کے دروازوں پر جاتے ہیں اور کہتے ہیں بی بی جی آپ کو نوکر کی ضرورت ہے؟ بی بی جی چور سمجھ کر انھیں نوکری پر نہیں رکھتی ہے۔ اس طرح مختلف بلڈنگوں میں بھی کام کی تلاش میں ان دونوں کو ناکامی ملتی ہے۔ ساتھ ہی دو دن سے کچھ کھانے کو بھی نہیں ملتا ہے۔ بھوک سے ارشد کی جو بُری حالت ہوتی ہے وہ افسانہ نگار کی زبان میں ملاحظہ ہو:
’’ ارشد کے سوکھے ہوئے ہونٹوں پر پپڑیاں جم رہی تھیں جن پر وہ زبان پھیر رہا تھا۔ جب شام رات میں تبدیل ہوئی تو ارشد زمین پر بیٹھ کر رونے لگا۔ اب مجھ سے بھوک برداشت نہیں ہوتی، خالی پیٹ پانی پینے سے درد ہو رہا ہے۔‘‘ (رقص شرر، مشمولہ، وراثت،ص ۱۵۱)
ارشد کی اس گمبھیر کیفیت کو دیکھ کر نعیم تشویش میں مبتلا ہوگیا۔
’’ نعیم نے اسے پرتشویش نظروں سے دیکھا، تم یہیں بیٹھے رہو میں کچھ کھانے کا انتظام کرتا ہوں۔ بہت دیر بعد نعیم کو کوڑے کے ڈھیر پر ایک سوکھی ہوئی روٹی ملی۔ اس نے قمیص کے دامن سے گرد صاف کی، ارشد آنکھیں بند کئے کراہ رہا تھا مگر اس کے ہاتھ ہوا میں کچھ پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
روٹی کا نام سن کر اس نے آنکھیں کھول دیں اور ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا، نعیم نے اس کے ہاتھ پر روٹی رکھ دی جسے وہ فوراََ منہ کے پاس لے گیا پھر رک کر نعیم کی طرف دیکھا اس کا چہرہ بھی بھوک سے ستا ہوا تھا۔ اس نے آدھی روٹی نعیم کی طرف بڑھادی، دونوں نے روٹی کھائی، نل سے پانی پیااور زمین پر لیٹ کر گاؤں کو یاد کرنے لگے، گاؤں میں کبھی بھوکے نہیں سوئے۔ وہاں کسی نہ کسی درخت سے آم، امرود، پپیتا یا دوسرا پھل ضرور مل جاتا۔ وہ باتیں کرتے کرتے سو گئے۔ صبح ہوئی تو دونوں مر چکے تھے۔ پولیس لاش اُٹھا لے گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوا کہ رات انہوں نے جو روٹی کھائی تھی اس میں چوہا مارنے کا زہر ملا ہوا تھا۔‘‘ (ایضاََ،ص،۱۵۱)
اس اقتباس کو پڑھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کہ ارشد اور نعیم جو فطرتاََ شریف ہیں، ایمانداری سے محنت مزدوری کرنا چاہتے ہیں لیکن معاشرہ میں ایسے لوگوں کو نہ کوئی پہچانتا ہے اور نہ قدر کرتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کو بے دردی سے موت کے منہ میں ڈھکیل دیا جاتا۔ اس کہانی کے مطالعہ سے گاؤں اور شہر کا تضاد بھی اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ گاؤں میں ابھی بھی انسانیت کی رمق باقی ہے جب کہ شہر میں انسانیت دم توڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ گاؤں میں بھی استحصال ہوتا ہے مگر شہر میں زیادہ استحصال ہوتا ہے اور انسانی قدروں کی دھجّیاں بھی خوب اُڑائی جاتی ہیں۔ آج کے زمانہ میں گاؤں اور شہر دونوں کے پاس بہت سے گمبھیر مسائل ہیں۔ ان مسائل کی چکّی میں زیادہ تر پسماندہ طبقے\حاشیائی لوگ پستے ہیں۔ اعلی طبقہ کو گاؤں اور شہر دونوں جگہ آسائشیں مہیّا ہیں اور ہر طرح کے سماجی، سیاسی اور معاشی مراعات حاصل ہیں جب کہ بیش ترپسماندہ طبقے دونوں جگہ اپنے بنیادی حقوق (Fundamental Rights)سے محروم ہیں۔ اس محرومی نے ان کی زندگی کی جو دردناک حالت بنائی ہے، وہ ان کہانیوں میں بخوبی محسوس کی جاسکتی ہے۔
اس طرح کی کہانیاں احمد صغیر کے یہاں بھی اکثر ملتی ہیں۔ ’’تعفن‘‘ ایک ایسی ہی کہانی ہے۔ اس میں نچلی سطح پر زندگی جینے والوں\کوڑا بیننے والوں کے دُکھ درد کو سمویا گیا ہے۔ کہانی کا آغاز ملاحظہ ہو:
’’ دھوپ میں لت پت تھکا دن، چاکلیٹی شام کی گود میں سر رکھ کرگہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔ فضا پر دھندلکا طاری ہورہا تھا اور شہر بھر کے محلے کے سڑتے ہوئے گندے کوڑے کے ڈھیر سے دماغ تک کو گھٹن میں مبتلا کر دینے والے تعفن کا بھبھکا شام کی سرد ہوا کے ساتھ دور دور تک پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔ یوں تو دن بھر اس کوڑے سے تعفن کے جھونکے اٹھتے رہتے تھے لیکن شام ہوتے ہوتے اس کی بدبو میں مزید اضافہ ہوجاتا مگر مُنوا کی زندگی میں ان بدبوؤں کو سونگھتے رہنے اور کچرا بیننے کے سوا اور کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ شام ہوتے ہوتے اس کا بوسیدہ بوراکچرے سے بھر جاتا۔ گندی بوتلیں، استعمال شُدہ پولوتھین، ٹین کے ڈبے، شیشے کے ٹکڑے اور مختلف بظاہر بے کار چیزوں سے اس کا بورا بھاری نظر آنے لگتا۔ تب وہ سیدھا کباڑی کی دُکان پر پہنچتا۔ اُسے فروخت کرتا اور پیسے لے کر گھر کی طرف چل پڑتا۔ ماں اس کے انتظار میں بیٹھی رہتی کہ کب وہ پیسہ لے کر آئے کہ چولہا گرم ہو۔‘‘ (تعفن، مشمولہ، درمیاں کوئی تو ہے، ص، ۷۱)
مُنوا کا روز کا یہی معمول تھا۔ وہ کچرا بینتا، اُسے فروخت کرتا اور اسی سے اس کے گھر کی روزی روٹی چلتی۔ مُنوا تعفن میں رہتے رہتے اس کا اس قدر عادی ہوگیا کہ اب اب اس کے لیے خوشبو برداشت سے باہر کی چیز ہوگئی۔ جب مسز ملکانی نے اُس پر ترس کھاکر اُسے نہلا دُھلا کر نئے کپڑے میں ملبوس کیا اور اس کے لیے لذیذ و خوشبودار کھانا پکوایا تو کھانے کی خوشبو سے وہ چکرا کر نیچے گرگیا:
’’ آس پاس کی فضا سے بس خوشبو ہی خوشبو چاروں طرف پھیل رہی تھی جس نے مُنوا کو پسینہ پسینہ کر دیاتھا۔ اس کے پیٹ میں سانس نہیں سما رہی تھی اور بالآخر مسز ملکانی نے جیسے ہی اسے خود اپنے ہاتھوں سے کھلانا چاہا۔ وہ چکراکر کرسی سے نیچے گر گیا اور بے ہوش ہوگیا۔‘‘ (ایضاََ،ص،۴۲)
اس کہانی میں مُنوا جیسے لوگوں کے مسائل کی عکاسی کے ساتھ ساتھ تعفن زدہ سماج کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ ہم گندی بستیوں سے ناک پر رومال ڈال کر تو گُزر جاتے ہیں مگر گندگی کو ختم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچتے۔ کہیں یہ گندگی ہمارے سماج کے لیے کینسر کی شکل نہ اختیار کرلے۔
ہم عصر اردوافسانے کا ایک معتبر نام طارق چھتاری بھی ہے۔ ان کے یہاں بھی کئی ایسی کہانیاں ملتی ہیں جن میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کی کہانی ’’گلوب‘‘ میں نوکر کے جنسی استحصال کو بیان کیا گیا ہے۔ راجو میم صاحبہ کے گھر کا نوکر ہے۔ میم صاحبہ اس کا طرح طرح سے جنسی استحصال کرتی ہیں۔ جب راجو ان کے یہاں سے بھاگنا چاہتا ہے تو میم صاحبہ اس کے پیٹ میں کس کر لات جمادیتی ہیں اور کہتی ہیں۔ ’’جاتا کہاں ہے؟ اِدھرآ․․․․‘‘ کہانی کے اس اختتام کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ استحصال راجو جیسے لوگوں کا مقدّر ہے اور اس سے کسی صورت مفر نہیں۔ یہاں راجو کا کردار ظلم سہتا ہوا نظروں سے اوجھل نہیں ہوجاتا بلکہ قاری کو متوجہ کرتا ہے اور اس کے ذہن پر اس کا نقش ثبت ہوجاتا ہے۔ حاشیائی کردار پر ’’دس بیگھے کھیت‘‘ بھی طارق چھتاری کی موثر کہانی ہے۔ اس میں چھدّا چمار کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ چھدّا چمار جب تک ٹھاکر ویدرام کے یہاں محنت مزدوری کرتا ہے، وہ آزاد وخوش حال زندگی گزارتا ہے لیکن جب حکومت اسے چک بندی پالیسی کے تحت دس بیگھے کھیت دے دیتی ہے تو اس کی زندگی خوش حال ہونے کے بجائے مزید مشکلات میں گھرتی چلی جاتی ہے کیوں کہ اسے نہ تو کھیتی کرنا آتا ہے اور نہ کھیتی کرنے کے لیے اس کے پاس پیسے ہوتے ہیں۔ لون پہ ہل بیل اور کھاد دینے کے لیے حکومت جو اصول بناتی ہے اسے پورا کرنا چھدّا جیسے پسماندہ لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ جیسے تیسے کرکے وہ کھیتی کرتا ہے اور مزدوری بھی نہیں کرپاتاہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قرض میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ یہاں چھدّا کی دردناک حالت کو دیکھ کر ترس آتا ہے اور وہ ہمارے دل میں گھر کرنے لگتا ہے۔
مذکورہ افسانہ نگاروں کے علاوہ اور بھی کئی ہم عصر اردوافسانہ نگاروں نے حاشیائی آبادی کی زندگی پر افسانے لکھے ہیں۔ ایسے افسانوں کے مطالعہ سے آج کی حاشیائی آبادی کی زندگی کے مختلف خدّوخال اور الگ الگ رنگ وروپ سامنے آتے ہیں۔ ہم عصر اردوافسانہ میں حاشیائی کرداروں کے مطالعہ سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ آج کے زمانہ کے حاشیائی کردار ظلم ضرور سہتے ہیں مگر بغاوت بھی کرتے ہیں اور اپنے حقوق کے تئیں بیدار بھی ہیں اور اس کے حصول کے لیے جدّوجہد بھی کرتے ہیں، البتّہ کچھ حاشیائی کردار بے بس ومجبور، لاچار اور مظلوم صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ لیکن یہ سارے کردار چاہے وہ اقبال مجید کی آگ کے پاس بیٹھی عورت ہو یا جابر حسین کی جینی، سلام بن رزاق کے سلم ایریا کی آبادی ہو یا ساجدرشید کی کہانی ’’دوپہر‘‘ کے بوڑھے کی بہو، شموئل احمد کی آمنہ ہو یا شوکت حیات کا مادھو، شفق کے نعیم اور ارشد ہوں یا احمد صغیر کا مُنوا یا طارق چھتاری کا چھدّا چمار، یہ سب کے سب ہمارے ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں۔ ان کرداروں کے پیکر کو بڑی خوب صورتی سے تراشا گیا ہے اور ان کی مرقع کشی بڑی فن کاری سے کی گئی ہے۔ یہ سارے کرداراپنے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ ہماری نگاہوں کے سامنے اس طرح نمودار ہوتے ہیں کہ ہمارے حواس پر چھاجاتے ہیں اور ہم انھیں بھلانا بھی چاہیں تو نہیں بھول سکتے۔ یہ وہ یادگار حاشیائی کردار ہیں جو ہمیں کچوکے لگاتے ہیں اور غورو فکر پر مجبور کرتے ہیں کہ آج بھی ہمارے سماج میں انسان بہیمیت کی سطح پر جینے پر مجبور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہے۔ ہمارے ہم عصر اردوافسانہ نگاروں اپنے ادب کے آئینے میں ہمارے سماج کے انتہائی اہم ترین پہلو ( حاشیائی آبادی کی المناک زندگی اور اس کے پے چیدہ مسائل) کو بے نقاب کرکے انتہائی گراں قدر ادبی فریضہ انجام دیا ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
٭٭٭
“Ham asr Urdu afsana me hashiyaee kirdaron ki akkasi, by Ahmad Ali jauhar, “Urdu Research Journal” ISSN 2348-3687, Vol. I, Issue II, page No.75-89.
Leave a Reply
2 Comments on "ہم عصر اردو افسانہ میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی"
[…] ہم عصر اردو افسانہ میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی […]
[…] ہم عصر اردو افسانہ میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی […]