عصمت چغتائی کی ناول نگاری کے نمایا ں پہلو
اردو ادب میں عصمت چغتائی ایک ایسی مشہور ناول نگار ہیںجنہوں نے ترقی پسند تحریک کے دور میں ناول کے فن میں نمایاں مقام حاصل کیا۔عصمت ایک ترقی پسند فکشن نگار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اورناولوں کے علا وہ ان کے افسانے بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کا خاص میدان عورتیں اور خاص طور پر متوسط مسلمان گھرانوں کی خواتین کی زندگی یا زمیندار گھر انوں کی بگڑی ہوئی عورتیںاور لڑکیاں ہیں ۔ انکی جنسیات سے عصمت کو خاص دلچسپی ہے ۔فرائڈ کے فلسفے میں وہ پورا یقین رکھتی ہیں کہ انسانی شخصیت پر سب سے زیادہ اثر ڈالنے والا پہلو اس کا جنسی پہلو ہے ۔ تقریباً ہر جگہ اور ہر کردار میں وہ اس پہلو کی کھو د کرید کرتی ہیں اور اسے نمایاں کرنے میں کو ئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتیں۔ جنسی کج روی عصمت کو خاص طور پر متوجہ کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ کہیں کہیں فحش نگاری کے دلدل میں پھنسنے لگتی ہیں مگر وہ اپنی فنی بصیرت اور فنکارانہ مہارت سے اپنے ناولوںمیں مزید حسن پید ا کردیتی ہیں ۔دراصل عصمت چغتائی ایک انقلابی ذہن کی مالک ہیں چونکہ ترقی پسند تحریک نے غریبوں اور مزدوروں کی حمایت میں متعدد ادبی اصناف کا سہارا لیا۔ عصمت چغتائی اس تحریک سے وابستہ ہو گئیں اور بالواسطہ طریقے سے اس پلیٹ فارم سے قدامت پرستی کے خلاف نڈر ہو کر اپنی آواز بلندکی عصمت چغتائی کے لکھنے کا انداز تیکھا برجستہ اور چبھنے والا ہے ۔ انہوں نے ایسے نازک معاملات کو ناولوں میں قلمبند کرناشروع کیا کہ ان کی تحریروں سے ادبی حلقوں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ کوئی ان کی تنقید کرنے لگا اور کوئی ان کے اس فن کو سرا ہنے لگامگر چوں کہ ان کی آواز نئی اور انداز انوکھا اور چبھتا ہوا تھا اس لیے ان کے فن کی قدر وقیمت سے کوئی منکر نہ ہوسکا۔ عصمت کے یہاںروایت سے بغاوت اور انحراف ہے۔ انکے ناول حقیقت نگاری سے کافی قریب ہیں۔
عصمت کے ناولوں کی کامیابی اور ان کی اہمیت کا اصل راز ان کی دلکش اور شیریں زبان ہے۔ وہ کرداروں کی حرکات وسکنات اور ان کے طور طریقوں سے زبان وبیان میں مزید حسن پیدا کردیتی ہیں۔ و ہ مکالموںمیں طنز وظرافت سے بھی کام لیتی ہیں اور کرداروں سے اکثر تیکھی زبان استعمال کراتی ہیںجس کا اثر ذہنوںپرتادیر قائم رہتا ہے۔ اس سلسلے میں مجنوں گورکھپوری ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’عصمت کو ایک خاص جوار اور ایک خاص طبقہ کی زبان پر الہامی قدرت حاصل ہے۔ ایسی بے تکان زبان مشکل ہی سے کسی کو نصیب ہوسکتی ہے۔ وہ الفاظ اور فقروں کے گویا طرارے بھرتی ہیں‘‘(ادب اور زندگی ص۳۳۶)
اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے عصمت کی زبان متوسط طبقہ کی ایک تعلیم یافتہ عورت کی معیاری زبان ہے۔ وہ عورتوں کے مخصوص محاورات، روز مرہ اور لب ولہجہ پر مکمل دسترس رکھتی ہیں۔ یہ عصمت کا خاص ہنر ہے جو ان کو دیگر ناول نگاروں سے الگ کرتا ہے۔ اسی ہنر ولب ولہجے کی بدولت ان کے طرز اسلوب میں انفرادیت پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ عصمت کے نت نئے تجربات ومشاہدات اور اچھوتا انداز بیان ہے جس کی اساس سماج پر مشتمل ہے۔ عصمت نے معاشرے میں پھیلی برائیوں اور عورتوں کے تئیں غلط رجحان کو فنی چابکدستی کے ساتھ اس طرح پیش کیا ہے جس کی وجہ سے قاری ان کی تحریر کا قائل ہو جاتا ہے۔ عصمت کی ز بان وبیان میں سلاست،روانگی اور برجستگی بھی موجود ہے۔ عصمت نے اپنے ناولوں میں مکالموں کے ذریعہ بڑے بڑے کام لیے ہیں۔ وہ کرداروں کے زبان سے ایسی تیکھی بات کہلوا دیتی ہیں جس کا اثر ذہنوں پر تادیر قائم رہتا ہے۔ گرچہ وہ ایک صاحب طرز انشا پرداز نہیں مگر ان کی نثر ایک خاص قسم کا اسلوب رکھتی ہے جس میں اشاریت اور رمزیت سے ایک مخصوص فضا بن جاتی ہے۔
عصمت نے جنسی حقیقت نگار ی کو اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔ بالخصوص نو عمر لڑکیوں کے جنسی مسائل اور ان کی زوال آمادہ قدروں کو اجاگر کیا ہے۔ انکے ناولوں میں وہ سارے پوشید ہ راز کھولے گئے ہیں جن کا ذکر کرنا سماج میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔ عصمت کے یہاں حقیقت نگاری،کردار نگاری اور جنسی مسائل کا بیان بڑے خوبصورت انداز میں ملتا ہے۔ان میں ضدی، ٹیڑھی لکیر، باندی،تین اناڑی ،معصومہ،دل کی دنیا، ایک قطرہ خون وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
عصمت کے بیشتر ناولوں کے پلاٹ اور قصے پر کردار نگاری بھاری پڑ جاتی ہے۔ انہوں نے بہت سے ناولوں میں سوانحی انداز اپنایا ہے مثلاً ٹیڑھی لکیر ان کاایک شاہکار ناول ہے، جو کسی خاص کردار کی داخلی اور خارجی زندگی کا ترجمان ہے۔ شمن کی پیدائش سے لے کر جوانی تک کے دلچسپ واقعات کو ڈرامائی انداز میں قارئین کے سامنے پیش کردیا ہے۔عصمت نے کرداروں کے مکالمے کو بڑے سلیقے سے تحریر کیا ہے۔ عصمت اپنے کرداروں کی نفسیات کا خاص خیال رکھتی ہے جیسا کہ ٹیڑھی لکیر اور ضدی جیسے ناولوں کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے۔ کرداروں کی طنزیہ گفتگو ان کے ناولوں میں مزیدحسن پیدا کر دیتی ہے ۔ عصمت ایک ایسی فنکار ہیں جو اپنے خیالات کو کردار میں پیش کر دیتی ہیں۔ انھوں نے اپنے اند ر کی ضد، بغاوت، جرأت اور جستجو کو اپنے ناولوں میں پیش کر دیا ہے۔
حقیقت کے اظہار کی جرأت،جنسیاتی و نفسیاتی واقعیت اور فنی بصیرت کے اعتبار سے عصمت کا نمایاں اور منفرد مقام ہے۔انھوں نے استحصال ،عدم مساوات، توہمات،تعصبات اور تنگ نظری کو سماج کا ناسور قرار دیاہے۔ اسکے ساتھ انہوں نے جنسی نا آسود گی پر بھی خوب لکھا ہے۔عصمت نے روایتی معاشرے کی پرواہ کیے بغیر جنسیات پر خوب لکھا۔ اس وجہ سے عصمت کی تحریروں پر سخت اعتراضات کیے گئے اور ان کو فحش اور عریاں نگار تک کہا جانے لگا مگر انھوں نے روایتی اور فرسودہ رسم رواج سے ہٹ کر ایک الگ راہ نکالی جس پر بعد کے ناول نگار بھی چل پڑے۔
عصمت چغتائی نے اپنے ناولوں میں نسوانی کرب کو عورت کی نظر سے دیکھا اور اسے اپنے تیکھے لب ولہجے میں تفصیل، تواتر اور شدّت کے ساتھ پیش کردیا۔ وہ مرد کی حاکمانہ اور جابرانہ برتری کے خلاف تھیں۔ انھوں نے سماج میں عورت کو تضحیک وتذلیل کی شے سمجھنے والے رویے کی مخالفت کی۔
عصمت چغتائی نے اپنی ادبی زندگی کے سفر میں چھ طویل اور چار مختصر ناول تحریر کیا۔ ان کا پہلا ناول ’’ضدی‘‘۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ اس میںاعلی طبقے کی روایت پرستی اور ادنی طبقے کی قدامت پرستی کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے ۔اس ناول کے مرکزی کرداروں میں ایک پورن سنگھ ہے جس کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے جو ایک خود سراور ضدی کردار ہے۔ دوسرا کردار آشا ہے جو ایک نچلے طبقے کی ملازمہ ہے۔ پورن اور آشا کے درمیان بے باکانہ عشق اور پرانے وفرسودہ روایات کی بت شکنی اس ناول کی فضا کو موثر بناتی ہے۔ یہ ناول بظاہر ایک عام سارومانی ناول ہے مگر اس سرمایہ دارانہ نظام پر گہر اطنز بھی ہے۔
عصمت کا سب سے شاہکار ناول ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ ہے جو۱۹۴۴ء کو شائع ہوا۔ اس ناول کی ہیروئن شمن کے ارد گرد ساری کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ اس کردار کے اندر بچپن سے ہی بغاوتی عنصر موجود ہے۔ اس نے ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کی، نوکری کی، شادی بھی اپنے پسند سے کی مگر نباہ نہ ہونے کی صورت میں لڑائی بھی کی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ شوہر ہی گھر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ٹیڑھی لکیر میں شمن کی شکل میں ایک ایسا کردار ہے جو ایک آزاد و روشن خیال لڑکی ہے اور اسے جگہ جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہ ناول شمن کی فکری کج روی اور آزاد خیالی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ ساری عمر اسی سماجی زندگی کی کشمکش کا شکارہے۔ اسے قدم قدم پر سماجی ومعاشرتی بندشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر اسے سماج کی بندشوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اپنی مرضی کی آپ مالک ہے اور جو چاہتی ہے کر گزرتی ہے ۔وہ جان بوجھ کر سماج کے بتائے ہوئے شجر ممنوعہ کے قریب جاتی ہے ۔اس میں اس کے ماحول کا بھی کافی دخل ہے اس سلسلے میں پروفیسر عبدالسلام لکھتے ہیں :
’’عصمت نے ٹیڑھی لکیر میں ایسے کہانی بیان کی ہے جس کی زندگی میں ٹیڑھی لکیر ہے ۔ اس کی فکر اور اس کے عمل کو کجروی عطا کرنے میں اس کے ماحول کو بڑا دخل ہے۔‘‘(اردو ناول بیسویں صدی میں ص۳۷۱)
اس کے علاوہ ’’دل کی دنیا‘‘ ایک سماجی ناولٹ ہے جس میں انھوں نے خاندان اور فرسودہ رسم رواج میں جکڑی ہوئی ایک ایسی لڑکی کی کہانی پیش کی ہے جو شوہر کی بے توجہی کا شکار ہے۔ سماج میں اس کی کوئی اہمیت نہیں اور اس کی انفرادی زندگی کی کوئی قدر نہیںہے ۔ وہ محض ایک ایسی عورت ہے جس کی زندگی کا مرکزی محور اس کے شوہر کی زندگی ہے جو ساری عمر اس کی بے اعتنائیوں اور مظالم کے باوجود خدمت کرتی رہتی ہے۔اس کردار کا نام قدسیہ بیگم ہے جو خاندانی عزت وقار کی ساری ذمہ داریاں قبول کرتی ہے اور فطری اور جبلی تقاضو ں کو خاندان کی لاج شرم کے تلے دفن کر دیتی ہے۔
ناول ’’تین اناڑی‘‘ میں عصمت نے بچوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی سرگرمیوں ،لا ابالی پن ،شرارتوں اور لایعنی حرکتوں کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ بچوں کی نفسیات اور ان کے مزاج کو سمجھنے کی کامیاب سعی کی ہے ۔ اس طرح بچوں کی حرکتوں سے قاری کی توجہ ناول پر مرکوز رہتی ہے۔ اس کے ساتھ تین بچوں کے ذریعہ سماج کے اہم واقعات کو یکے بعددیگرے بیان کرتے ہوئے اہم گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔ بچوں کی شرارتوں اور لاابالی پن کا اظہار کرتے ہوئے ایسے لوگوں پر طنز بھی کیا گیا ہے جو ملک وقوم اور سماج کو فریب دیتے ہیں اور خود کو قوم کا سچا رہنما بننے کا دکھا وا کرتے ہیں۔
عصمت کا ایک اہم ناول’’معصومہ‘‘ ہے جس میں انھوں نے مسلم متوسط طبقے کی معاشی و اقتصادی زبوں حالی کا نقشہ بڑے دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے۔اس ناول کے اختتام پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عصمت عام ترقی پسندوں کی طرح معصومہ کی تباہی وبربادی کا ذمہ دار سماج کو ٹھہراتی ہیں۔ معصومہ کے اندر زندگی جینے کا ہنر موجود نہیں ہے کیوں کہ اسے اس کے حالات نے مجبور کر دیا وہ مرد مرکوز سماج کی ظلم و بربریت اور مسلسل جنسی وجسمانی اذیت کا شکار ہے۔ اس ناول کے ذریعہ عصمت نے عورت کی بے بسی اور مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے دولت مند اور سیٹھ ساہو کار کے خلاف احتجاج علم بلند کیا ہے اور عورت کی ابتر حالات کو سدھارنے کی کوشش کی ہے۔
’’ایک قطرہ ٔخون‘‘ عصمت کا آخری ناول ہے جو واقعات کربلا پر مشتمل ہے ۔ اس میں کربلا کی شہادت پر جذبات و عقائد کا سہارا لیا گیا ہے۔ چوں کہ یہ واقعہ پوری انسانیت کے لیے عبرت انگیز ہے اس لیے عصمت نے کہیں کہیں اپنی رائے بھی پیش کی ہے مگر تاریخی اہمیت کو مجروح نہیں ہونے دیا ہے۔ عصمت نے اس ناول میں محبت وانسانیت اور امن وبھائی چارگی پر زور دیا ہے۔ اور ساتھ ہی ہجرت کا کرب،خوف و دہشت کا عکس اس ناول میں موجود ہے۔ اس ناول میں جذبات نگاری کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے اور اہل بیت کی دلی جذبات کو بہت خوبی سے نبھایا گیا ہے۔ ’’ایک قطرہ ٔ خون‘‘ کی شکل میں عصمت نے جو ناول اردو ادب کو دیا ہے اس میں فلسفۂ ٔانسانیت اور مذہب کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب سعی کی ہے ۔
ناول ’باندی‘ میں عصمت نے نوابوں کی زندگی اور ان کے عادات واطوار کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ عصمت نے اس ناول میں نوابوں کی جنسی گراوٹ اور ان کی جنسی نفسیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ نوابین کی جنس پرستی اور بوالہوسی کا عالم یہ تھا کہ کافی عمر دراز ہونے کے باوجود متعدد باندیاں رکھتے تھے۔ اور انہیں اپنی دل لگی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس ناول میں ان نوابین کی کرتوتوں پر گہرا طنز دیکھنے کو ملتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں فضا اور ماحول کے علاوہ کردار نگاری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا ہے۔
چنانچہ عصمت کے بیشتر ناولوں میں ایک باغیانہ تیور دیکھنے کو ملتا ہے۔وہ اپنے فکشن کے ذریعے سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ خاص طور پر عورتوں کے استحصال کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ عصمت عورتوں کے مسائل کو بڑے خوب صورت اور فن کا رانہ انداز سے بیان کرتی ہیں ۔یہ بات بالکل درست ہے کہ عصمت نے اپنی زندگی میں جتنے بھی ناول اور ناولٹ لکھے ہیں ان میں سب سے اچھوتا اور شاہکار ٹیڑھی لکیر ہے۔ اسی ناول کو ان کے فن کا نقطۂ عروج قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس ناول کے علاوہ جو کچھ بھی عصمت نے لکھا ہے ان میں تازگی یا کسی خاص ندرت کا احساس نہیں ہوتا۔البتہ وہ اپنی مخصوص زبان سے دیگر ناولوں میں تازگی اور ندرت پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ظ۔انصاری کی تحریر ملاحظہ کریں:
’’انھیں لکھنا آتا ہے۔ افسانہ سنانا آتا ہے، لچکیلی دھار دار زبان آتی ہے۔ نشتر چبھونا آتا ہے اور یہ سارے ہنر وہ اپنے مشاہدے اور مطالعے کی محدود دنیا میں خوب دکھا چکی ہیں۔ ان کا ادبی کیریر یہیں سے شروع ہوا اور یہیں اسے انجام کو پہنچتا ہے۔‘‘( کتاب شناسی۱۹۸۱ء ص۲۴۱)
بہر حال عصمت چغتائی کی ناول نگاری پر گرچہ یہ الزام عائدکیا جاتا رہا ہے کہ ان کا فن محدود ہے مگر عصمت نے عورتوں کی نفسیات اور ان کے مسائل کو جس طرح سمجھا ہے اپنی تحریروں میں اسے زبان وبیان کے چٹخارے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ عصمت اپنے دور کی ایک اہم فن کار ہیں اور ناول کی دنیا میں ان کی بنائے ہوئے نقوش ہمیشہ خاص اہمیت کے حامل رہیں گے۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!