ترجمہ کے چند نظری مباحث
انسانی تہذیب وتمدن کے ارتقاء میں جہاں بہت سارے عوامل کارفرما رہے ہیں وہیں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ فروغ تہذیب وتمدن میں ترجمے کا بھی بہت بڑا رول رہا ہے۔ انسانی تہذیب کے ارتقائی مراحل کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ زبانوں کے باہمی میل جول سے ایک انسانی گروہ نے دوسرے انسانی گروہ کے تجربات ومشاہدات سے خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ اور یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کے سبب ترجمے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ پوری دنیا میں انسانی آبادی ہر دور میں اپنے تجربات ومشاہدات کی میرا ث کو اپنے لئے مشعل راہ بناتی رہی ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی ہوا جب انسانی آبادی کو انتقال مکانی کے مرحلے سے بھی گذرنا پڑا۔انتقال مکانی کے بعد سب سے بڑا مرحلہ جو انسانوں کے سامنے آیا وہ مرحلہ تھا دوسری آبادی میں رائج زبانوں کا جاننا اور پھر اس انسانی گروہ میں رائج تصورات، مشاہدات، تجربات کے فکری سرچشموں تک رسائی۔ زبان کا مختلف ہونا تو عام بات ہے کہ ایک ملک اور ایک ریاست میں زبانوں کی تبدیلی حیرت انگیز نہیں اور اس پر چند مہینوں میں قابو پایا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ زبان اپنے اندر نہ صرف مخصوص قواعد وضوابط کے اپنے مخصوص پیمانے رکھتی ہے بلکہ ہر زبان کے اندرون میں اس مخصوص علاقے کی تاریخ اور تہذیبی ونسلی تفاخر کی جڑیں پیوست ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی انسانی گروہ کے لٹریچر کو پڑھ کر ہم اس مخصوص طبقے کی ذہنی ساخت کا ہی پتہ نہیں لگاتے بلکہ اس قبیلے کی تاریخ، تہذیب اور ذخیرہ علم کے سوتے تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی آبادی کے اختلاط نے ترجمے کی ضرورت کا احساس کرایا ہوگا، اور اس سلسلہ میں جو ابتدائی کوششیں ہوئی ہوں گی وہ نہایت مشکل مرحلے سے گذری ہوں گی۔ اب جہاں تک سوال اردو میں ترجموں کی روایت کا ہے تو یہ بات افسوس ناک ہے کہ اردو کے مخصوص ادیبوں کو چھوڑ کر زیادہ تر نے ترجمے کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجو د اس پر باضابطہ کام کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس سلسلے میں پروفیسر قمر رئیس رقمطراز ہیں۔
’’جہاں تک اردو زبان میں ترجمہ کے آغاز وارتقاء اس کے اصولوں اور نظریوں ، اس کی مشکلات اور فتوحات اور اردو زبان وادب پر ترجمہ کے نتیجہ خیز اثرات کا تعلق ہے، افسوس ہے کہ اس کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے، اس لیے کہ اس صدی کے ابتدائی دہایوں میں وحید الدین سلیمؔ، مولوی عبد الحق، ظفر الرحمن دہلویؔ، اور میر حسن جیسے چند بزرگوں کے علاوہ اردو کے کسی ادیب اور عالم نے اس موضوع کو سنجیدہ مطالعہ اور علمی تحقیق کے قابل نہیں سمجھا قدیم کلاسیکی عہد میں اردو شاعری کے سرمایہ سے قطع نظر نثر کی بیشتر کتابیں فارسی ادب کا ترجمہ ہیں سب رس، کربل کتھا، نو طرز مرصع، باغ وبہار، گنج خوبی، آرائش محفل اور انیسویں صدی کی دوسری بے شمار داستانیں سب ترجمہ ہی سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ترجمہ کس کس نوعیت کا ہے اس کے پیچھے اگر کچھ اصول کچھ مقاصد کارفرما رہے ہیں تو وہ کیا ہیں؟ مترجم نے کہاں تک اصل سے دیانت داری برتی ہے؟ کہاں متن سے انحراف کیا گیا ہے؟ اگر آزاد ترجمہ ہے تو مترجم کے ذہن میں آزادی کا کیا مفہوم اور مقصود تھا؟ ان ترجموں نے کس طرح اور کس حد تک اردو زبان اور اردو نثر کے اسالیب کو متاثر کیا، یہ اور اس طرح کے دوسرے سوالات پر کسی عالم نے سنجیدگی سے غور وخوض کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی‘‘ (۱)
پروفیسر قمر رئیس کے خیالات سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ ترجمے کے سلسلے میں ہماری یہ بے اعتنائی اظہر من الشمس ہے۔ حالانکہ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اردو زبان وادب کی ترقی میں سب سے اہم رول ان ترجموں کا ہی رہا ہے جن کا نام پروفیسر صاحب نے لیا یا مذہبی تراجم جن کا ذکر آگے کیا جائے گا۔ انگریز جب ہندوستان آئے تو انہوں نے ہماری تہذیب کو ملیامیٹ کرنے سے قبل ہماری تہذیب کا بغور مطالعہ کیا، ہماری ادبی شناخت، ہمارے تمدنی معیار کو پرکھا اور ان سب سے کما حقہ آگاہ ہونے کے بعد ہماری تہذیب وتمدن کی جڑوں کو کھودنا شروع کیا، لیکن اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ انگریزوں نے اردو زبان کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کیا۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ انگریزوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری زبان کی خدمت کی یا یہ کہا جائے کہ ہمارے اکابرین نے انگریزوں کے مقاصد کو انگریزوں کے لئے کم زبان کی ترقی وترویج کے لئے زیادہ استعمال کیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں کے عہد میں ہی اردو زبان فکری اعتبار سے توانا ہوئی اور اس کی بڑی وجہ یورپی زبان وادب کے تراجم ہی تھے۔ جو بڑے پیمانے پر اردو میں کیے گئے اور ہماری زبان جس میں اخذ واستفادے کی خوبی بہ درجہ اتم موجود ہے، اس سے مالا مال ہوتی چلی گئی۔
ترجمہ کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کردیا جائے کہ اس کے متبادل الفاظ کا ایک پیٹرن بن جائے بلکہ ترجمہ تو اس سے بہت آگے کی چیز ہے۔ پروفیسر محمد حسن فرماتے ہیں کہ:
’’ضرورت اکثر برائیوں کو اچھائیوں میں بدل دیتی ہے۔ ایسی ہی ایک برائی ترجمہ بھی ہے Translator کو Traitor اور مترجم کو گندم نما جو فروش کہا گیا ہے۔ ترجمہ اگر اصل کا کام دینے لگے تو ترجمہ کیوں کہلائے۔ لازمی طور پر یہ اصل سے کمتر ہوگا۔ اور جو کمتر ہو وہ برائیوں میں کیوں نہ گنا جائے۔ مگر ضرورت کہتی ہے کہ عالمگیر آگہی کا نور اور سرور ایک زبان کے دامن میں تو سمٹنے سے رہا۔ جب تک ایک زبان کے بولنے والے دوسری زبانوں کے علم وآگہی، جذبے اور شعور، فکر واساس تکنیک اور سائنس تک پہنچنا چاہیں گے ترجمے کا سہارا لیں گے‘‘ (۲)
یعنی ترجمہ ایک ایسا فن ہے جو اپنی خامیوں کے باوجود اہم ہے۔ اور یہ خامیاں بھی ایسی ہیں جن پر کسی بھی طرح قابو نہیں پایا جاسکتا، ترجمہ نگار جس ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے ظاہر ہے اس کی مادری زبان ان میں سے ایک ہی ہوگی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی بھی زبان کے الفاظ کی ایک وقیع تاریخ ہوتی ہے اور اس معاشرے کی جس میں زبان بولی اور لکھی جاتی ہے روایتیں، تہذیبی ومعاشرتی انسلاکات، رسم ورواج، مذہبی واقعات وغیرہ کی ایک بڑی دنیا اس زبان میں محاورے کی شکل میں تشبیہ واستعارے کی شکل میں، تلمیحات کی شکل میں یا پھر دیگر مختلف اشاراتی طریقے سے داخل ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان اشارات کے مفاہم کو بھی من وعن دوسری زبان میں منتقل کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ جب تک جس زبان میں ہم ترجمہ کر رہے ہیں اس زبان پر ہمیں ویسا ہی عبور حاصل نہ ہو جیسا اپنی مادری زبان پر عبور حاصل ہے۔ ترجمہ کرتے وقت کانٹ چھانٹ کو دیانت داری کے خلاف تصور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ کسی بھی زبان کے شہہ پارے کو دوسری زبان میں من وعن بیان کرنا ایک نہایت مشکل امر ہے۔ کیونکہ مترجم کا زبان پر قدرت ہی اہم نہیں بلکہ دونوں زبانوں کے کلچر سے بھی اسے اسی طرح آگاہ ہونا چاہئے۔ جس طرح مصنف آگاہ رہا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت منشائے مصنف پر بھی گہری نظر ہونی چاہئے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک بڑا مرحلہ یوں سامنے آتا ہے کہ مصنف اور مترجم میں زمانی فرق کتنا ہے اور کیا مترجم مصنف کے ملک اور معاشرے میں رونما ہونے والے تاریخی واقعات وسانحات سے اسی طرح واقف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے بڑے شہہ پارے مذہبی نوعیت کے رہے ہیں۔ اب ایسے میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ مترجم بھی مصنف کے مذہب ومسلک کو اسی طرح انگیز کئے ہو جس میں مذہب ومسلک کے بنیادی عناصر کو پیش نظر رکھ کر مصنف نے وہ شہہ پارہ تصنیف کیا ہو۔ محاورات کے سلسلے میں بھی ایک بڑی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی زبان میں رائج محاورے کا تعلق اس زبان کے معاشرے سے گہرا ہوتا ہے۔ اور محاورے اور ضرب المثال صدیوں میں گھس کر زبان زد خاص وعام ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں دوسری زبانوں میں ان کے مترادف یا متبادل ڈھونڈنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہر زبان میں فصاحت اور بلاغت کے معیار بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ صنائع بدائع اور تشبیہات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ان تمام لوازمات کو بروئے کار لاکر ترجمہ کرنا اپنے آپ میں مشکل ہوتا ہے۔ اور اکثر وبیشتر ان کو نظر انداز بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود ترجمہ اس نوع بنوع بدلتی دنیا میں جہاں پوری دنیا کی سرحدیں بے معنی ہوگئی ہیں ، جہاں دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک بڑے قصبے کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ ترجمے کی اہمیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ پروفیسر محمد حسن فرماتے ہیں کہ:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ آج جب دنیا کی طنابیں کھینچ رہی ہیں اور علم عالمگیر سطح پر ایک اکائی بنتا جارہا ہے۔ کوئی زبان بھی ترجمے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی کہ جب تک نئے خیال کا خون اور نئی آگہی کا نور رگ ریشے میں سرایت نہ کرے زندگی دشوار ہے۔ یہی نہیں بلکہ آج کی دنیا میں زبانوں کی مقبولیت کا پھیلاؤ اور اہمیت کا دارومدار بڑی حد تک ان کے مفید ہونے پر ہے۔ اور افادیت کا پیمانہ یہ ہے کہ کوئی زبان اپنے زمانے کے علمی سرمائے اور ادبی ذخیرے کو کس حد تک اپنے پڑھنے والوں تک پہنچانے کی اہل ہے۔ اردو زبان کی خوش بختی ہے کہ اس نے ترجموں کی روایت کو ابتداء ہی سے اپنایا۔ اپنے دریچے باہر سے آنے والی ہواؤں کے لیے کھولے۔ اور بین الاقوامی کلچر کے نقوش سے اپنی محفل کو آباد کیا۔ اس دور تک آتے آتے وہ پرانی روایت بھی ناکافی ہوگئی اور نئی دنیا کے تہذیبی سیاق وسباق نے برق رفتاری کے ساتھ ترجمے کے کام کو پھیلانے کو ناگزیر بنادیا‘‘ (۳)
ترجمہ در اصل چراغ سے چراغ جلانے کا عمل ہے۔ ترجمہ ہی وہ ذریعہ ہے جس سے ایک زبان کی فکر اس معاشرے کی ثقافت وتہذیب، سیاسی وسماجی حالات مذہب یا مسلک کے ذریعے قائم تعبیرات دوسری زبان میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ اور اس زبان کو پڑھنے والا ایک بڑا گروہ دوسری زبان کے گروہ کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر قدیم یونان کے جینئس سقراط اور افلاطون کی دو ہزار سال پرانی کاوشیں اگر عربی زبان میں منتقل ہوکر دنیا کے سامنے نہ آتیں تو ہم ان عبقری شخصیات کے شہہ پاروں سے واقف بھی نہ ہوتے۔ ٹھیک اسی طرح بو علی سینا، ابن رشد، ابو نصر فارابی کے کارنامے بھی لاطینی زبان میں منتقل نہ کئے جاتے تو پھر تاریخ اور فلسفے کا ایک بڑا باب ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا۔
ترجمہ اپنے آپ میں ایک فن بھی ہے اور جس زبان میں اسے ترجمہ کیا جارہا ہے اس زبان کی توسیع اور فروغ میں بھی معاونت کرتا ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ مترجم ترجمے کے دوران بہت حد تک اس زبان میں موجود محاورات، تشبیہ اور استعارات کو اپنے طور پر دوسری زبان میں داخل کرنے کے لئے نئے نئے اصطلاحات گڑھتا ہے جو پہلے پہل غیر مانوس لگتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ ان کو زبان زدِ خاص وعام کی سند مل جاتی ہے۔ اور وہ زبان پر رواں ہوجاتی ہے۔ ترجمے کے دوران یہ اضافے خود بخود ہوجاتے ہیں۔ اور اس زبان کا دامن وسیع ہوجاتا ہے۔ پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیں :
’’ترجمے کے ذریعے علم انسانی میں اضافہ کرنے والوں کا قافلہ بڑا شاندار ہے اور بہت طویل ہے۔ اس میں بڑے بڑے حلقے ہیں۔ اگلے سرے پر بو علی سینا، درمیان میں والیٹئر موجود ہیں تو پچھلے سرے پر ڈاکٹر ذاکر حسین اور پسترناک، عرب وعجم کے علماء نے یونانی ہندوستانی فلسفہ، طب، ہیئت ونجوم اور داستانوں کا عربی میں ترجمہ کرکے ان پر اپنی معلومات کے حاشیے چڑھاکر علمی دنیا سے خراج پایا۔ لاطینی وروسی کے ذریعہ مشرق کو اور سنسکرت کے تراجم کے ذریعہ مغرب کو اپنے زمانے تک کی تحقیقات سے باخبر کردیا۔ پھر زمانے نے کروٹ لی۔ والیٹئر نے شکسپیئر کا ترجمہ کرکے فرانسیسی زبان کے ذخیرے میں اور پسترناک نے روسی زبان کے ادب میں بیش بہا اضافے کیے اور خود اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ علمائے مستشرقین نے مشرق کے کلاسیکی ادب اور علمی کتابوں کو مغرب سے روشناس کرایا۔ اس دو طرفہ عمل نے مشرق ومغرب کی طنابیں کھینچ دیں۔ اور باہمی خیر وخبر کی گنگا دونوں سمتوں میں بہنے لگی‘‘ (۴)
یعنی اقوام عالم کے درمیان باہمی رفاقت میں اضافے کی بنیادی کڑی ترجمے ہی ہیں۔ ہم آج اگر ساری دنیا کی تاریخ سے واقفیت پر فخر کرتے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ابتداء سے ہی ہمارے اکابرین نے ترجمے کی روایت کو قائم رکھا۔ اور پوری دنیا کے نادر ونایاب شہہ پاروں کو ہماری زبان میں منتقل کرکے بیش بہا خزانہ ہماری زبان میں فراہم کردیا۔ ترجموں کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ دوسری زبانوں کے افکار وخیالات سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ اس زبان میں رائج اسلوب اور صنف سے بھی دوسری زبان مستفید ہوتی ہے۔ اخذ واستفادہ کا یہ عمل اس قدر مشہور اور مستعمل ہے کہ اردو زبان میں اس کے بیش بہا نمونے دیکھنے میں آتے ہیں۔ نثر ہو یا شاعری کا سرمایہ وہ تمام اصناف جس کی بنیاد پر اردو ادب قائم ودائم ہے وہ دوسری زبانوں سے ہی ہماری زبان میں آئے ہیں۔ اب ان میں بہت ساری اصناف سے اخذ واستفادے میں وہ اصناف ہمارے یہاں چل نہیں پائیں۔ لیکن کچھ اصناف ایسی بھی آئیں جنہوں نے ہماری زبان کی آبرو کی حیثیت اختیار کرلی۔ غزل کی مثال ہمارے سامنے ہے جو فارسی سے ہوتی ہوئی ہمارے یہاں آئی، لیکن یہاں موجود دوہے سے الگ رہ کر ایسی پذیرائی حاصل کی کہ اردو غزل کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ اور بہت سارے شعراء فارسی میں غزل گوئی کو ترک کرکے اردو میں غزل کہنے لگے۔ غالبؔ اس کی مثال ہیں۔ ظاہر ہے غالبؔ نے فارسی زبان پر عبور حاصل کیا تھا لیکن انھوں نے جب مادری زبان اردو میں شاعری کی تو اسے وہ کمال حاصل ہوا جو غالبؔ کے فارسی کلام کو حاصل نہیں ہوسکا تھا۔ اب غالبؔ کے کلام کی یہ پذیرائی صرف اس لیے ہوئی کہ وہ فارسی زبان میں غزل کی روایت سے واقف تھے۔ انہوں نے اس روایت میں اضافے بھی کئے۔ اور پھر اس کے دامن کو وسیع بھی کیا۔ ترجموں کی اپنی ایک قدیم تاریخ اور روایت ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ادبی ترجموں کو خاص اہمیت یوں حاصل ہے کہ ادبی سرمایہ میں ایک مخصوص عہد کی تمام سماجی لوازمات بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہیں۔ ادبی ترجموں میں اگر ہم صرف نثری ترجموں کا ذکر کریں تو اندازہ ہوگا کہ ’’الف لیلہ‘‘ کے ترجمے سے ہی ہماری زبان میں کہانیوں کا کتنا بڑا سلسلہ قائم ہوگیا۔ اور پھر ناول یا افسانوں تک مغربی ناولوں اور شارٹ اسٹوریز کے ترجموں نے جو انقلاب پیدا کیا اس کی مثال دینے کی ضرورت نہیں۔ ترجموں کے ذریعہ ہم نے روس، انگلینڈ اور امریکہ ہی نہیں ایران اور عرب کی طرز معاشرت سے بھی آگاہی حاصل کی ترجمے کی یہ تاریخ بہت قدیم ہے۔ اور اسے ہمارے ماہرین نے باضابطہ ایک فن کا درجہ دے رکھا ہے۔ لیکن فن ترجمہ ایک ایسا فن ضرور ہے جس کے معیار کے تعین کے لئے کوئی اصول مقرر نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس فن کی قدر وقیمت کا ٹھیک سے جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔ ماہرین اگر بطور خاص اردو زبان میں ترجمے کی روایت کے شاکی ہیں تو وہ صرف اس لئے کہ ہمارے یہاں شعری اور نثری سرمائے کی طرح ترجمہ نگاری کے اصول وضوابط باضابطہ مقرر نہیں کئے گئے ہیں۔ جس سے ایک بڑی خرابی یہ آئی کہ ہمارے تراجم کے ذخیرے میں بہت ساری اچھی چیزوں کے ساتھ کچھ خراب ترجمے بھی شامل ہوگئے۔ جب تک کسی بھی فن کے لئے کوئی احتسابی اصول مقرر نہ کیا جائے اس فن کی اہمیت وافادیت میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو وہ زبان ہے جس میں مترجموں کی بڑی فہرست قائم نہیں ہوسکی۔ انگریزوں نے اس کی شروعات ضرور کی اور اس سے اردو زبان وادب کے دامن میں چاند ستارے بھی ٹانکے گئے لیکن ایک خاص عہد کے بعد ترجمے کی اہمیت کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ زبان میں جس تیزی سے وسعت آئی تھی اس میں کمی آتی گئی۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوئی کہ ہم رفتہ رفتہ کلاسیکی روایت سے دور ہوتے چلے گئے۔ اور بطور خاص اردو زبان کے تعلقات جن خاص زبانوں عربی اور فارسی سے تھے ہم نے ان زبانوں کو پڑھنا ہی ترک کردیا نتیجہ یہ ہوا کہ جتنی ترقی زبان اردو کو ہونی تھی ہوچکی اور اس میں کسی اضافے کی اب کوئی صورت نہیں۔ ترجمے کی روایت کو اگر باقی رکھا جاتا تو آج اردو کا دامن جس قدر وسیع ہے اس میں خاطر خواہ اضافہ ہی ہوتا۔
ترجمہ کرتے وقت مترجم کسی بھی ادب پارے سے جومعنی یا مفہوم اخذ کرتا ہے قاری تک اس کی ترسیل ہوتی ہے اب منشائے مصنف کیا ہے اسے جاننے کے لئے اصل متن اور متن کی زبان کا مطالعہ ضروری ہوگا۔ منشائے مصنف کے سلسلے میں بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ الفاظ کے اپنے معنی نہیں ہوتے بلکہ الفاظ کومعنی سیاق عطا کرتا ہے۔ یہ بات بھرتری ہری سے ماخوذ ہے اور بعد میں اس خیال کو دریدؔ نے کو دہرایا ہے۔ ترجمہ نگاری کے سلسلے میں یہ بات اکثر سامنے آتی ہے کہ منشائے مصنف سے مترجم انصاف نہیں کرپاتا۔ یا پھر ترجمہ کرتے وقت مترجم سورس لنگویج کی بہت ساری چیزوں کو ٹارگیٹ لنگویج میں منتقل نہیں کرپاتا۔ اس کی بہت سی معقول وجوہات بھی ہیں لیکن اکثر لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے باوجود جو سورس لینگویج اور ٹارگیٹ لینگویج کے درمیان الفاظ اور مترادفات کی کمی کے باعث کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن اس کمی کے باوجود ترجمے کی افادیت اپنی جگہ موجود ہے۔ پروفیسر ظہور الدین لکھتے ہیں :
’’ایک عام پڑھے لکھے انسان سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ ترجمہ کیا ہے تو وہ فوراً جواب دے گا کہ کسی ایک زبان کی تحریر کو دوسری زبان میں ہو بہو منتقل کرنے کا نام ترجمہ ہے۔ لیکن کیا یہ جواب اس طالب علم کی تشفی کے لئے کافی ہے جو ترجمے کا مطالعہ ایک ایسے فن کے طور پر کر رہا ہے جس کی صرف فنی وجمالیاتی ہی نہیں فلسفیانہ جہتیں بھی ہیں۔ وہ جانتا بھی کہ ترجمہ محض تبادل الفاظ تلاش کرنے کا نام نہیں یہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ، اور انکشافاتی علم کا اعلامیہ ہے‘‘ (۵)
در اصل ترجمہ کا فن اپنے آپ میں ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعہ مترجم نہ صرف یہ کہ کسی شہہ پارے کے اصل قالب کو دوسری زبان کے قالب میں منتقل کرتا ہے بلکہ وہ خود بھی مصنف بن جاتا ہے اور اس شہہ پارے کو از سر نو دوبارہ تصنیفی مراحل سے گزارتا ہے اور کبھی کبھی اصل شہہ پارے سے بھی بہت آگے چلا جاتا ہے۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے لیے زمانی انقلابات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک شہہ پارہ جو ایک صدی قبل یا اس سے بھی پہلے تصنیف کیا گیا ہو اور اس شہہ پارے کا مصنف کسی دور افتادہ غیر ترقی یافتہ علاقے کا باشندہ ہو لیکن ایک صدی بعد جب کسی ترقی یافتہ ملک کے کسی بڑے شہر کا مترجم اسی شہہ پارے کو ترجمہ کے لئے انتخاب کرے گا تو اس کے سامنے نہ صرف یہ کہ ایک صدی بعد تک کا تجربہ ومشاہدہ ہوگا بلکہ روز بروز ترقی یافتہ دنیا کا باشندہ مترجم اپنے انکشافاتی تجربے کے باعث اس شہہ پارے کے تجربات کو فطری طور پر اور آگے لے جائے گا۔ اس مترجم کے سامنے ترجمے کے دوران ہمعصر عہد کے قاری کے ذہنی معیار، ان کی پسند ناپسند کا پیمانہ ہوگا۔ اور اسی لئے وہ ترجمے کے وقت مصنف کے شہہ پارے کو پھر سے تصنیف کرے گا یا ترجمے کے دوران ہی وہ شہہ پارہ خود بخود ہی تصنیف کے مرحلے سے گزر جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ مترجم میں ایک مصنف بھی موجود ہو۔ یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک اہل مترجم بیک وقت نہ صرف مترجم ہوتا ہے بلکہ ایک مصنف اور صحافی بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبد الحق نعیمی نے اپنے ایک مضمون ’’فن ترجمہ نگاری‘‘ میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
’’ترجمہ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اصل عبارت کے ساتھ ہی ساتھ مصنف کے نظریات، معتقدات، تصورات واحساسات کی صحیح ترجمانی بھی کرے۔ اصل متن کی روح اسی طرح برقرار رہ سکتی ہے۔ یہی ترجمانی ہے جس میں محض لفظی ترجمہ اور ترجمانی کا فرق واضح ہوکر سامنے آتا ہے، ترجمانی ترجمہ سے دشوار اور نازک تر کام ہے۔ ترجمہ ایک باقاعدہ اور مستقل فن ہے اس کے اپنے مخصوص ضابطے ہیں۔ ترجمے کے فن میں مہارت کے لئے دوسرے فنون کی طرح شوق وصلاحیت کے ساتھ ہی ساتھ تربیت وریاضت کی بھی ضرورت ہے۔ ترجمہ محنت طلب کام ہے ایک طرف وہ سنجیدگی کا مطالبہ کرتا ہے تو دوسری طرف اس فن کے اصولوں سے واقفیت کا۔ اس فن کو برتنے اور اس میں مہارت پیدا کرنے کے لئے چند زبانوں کا جاننا بھی ضروری ہے۔ نہیں تو کم از کم دو زبانوں کی ساخت، تلفظ، ادبیات اور معانی وبیان پر مہارت تامہ ہونا لازمی ہے۔ دونوں زبانوں کے مزاج کی تہذیبی فضا کو پہچاننا بھی ضروری ہے۔ جس زبان میں ترجمہ کرنا ہو اس کے محاورات ومترادفات اور لغات، اصطلاحات پر ماہرانہ عبور اور قدرت از بس ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر مترجم کے لئے ضروری ہے کہ اصل متن کے پس منظر سے پوری واقفیت حاصل کرے ترجمے کا اصل مقصد مفہوم کی مناسبت ادائیگی ہے۔ الفاظ کا صحیح استعمال بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ مترجم کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ وہ باطبع ذہن ہو اور اس نے متن کی اصل روح کو پالیا ہو۔ اور پھر اصل کو اپنے ذہن کے مطابق نئے قالب میں ڈھالنے پر قادر ہو۔ ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے۔ گویا ترجمہ نگار کے ذریعہ تخلیق کو از سر نو (recreate)دوبارہ تخلیق کیا جاتا ہے‘‘ (۶)
یہ واضح ہو کہ ترجمہ ایک ایسا فن ہے جس میں ایک زبان کے مفردات کے متبادل کے طور پر دوسری زبان کے مفردات کا مل جاننا ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس متن کی اصل روح یعنی مفہوم یا منشائے مصنف تک رسائی حاصل کرنا زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مترجم جس متن کا ترجمہ کر رہا ہو اور جس زبان میں ترجمہ کر رہا ہے اس زبان میں ہو بہو مترادفات اور متبادل الفاظ، محاورے دستیاب ہوں۔ شوپنہار نے ۱۵۸۱ء میں یہ بات کہی تھی کہ کسی بھی ایک زبان کے مفردات کی ہو بہو نقل دوسری زبان میں بھی مل جائے یہ ناممکن ہے۔ کسی حد تک شوپنہار کی بات حقیقت پر مبنی بھی ہے کیونکہ زبان اپنے ساتھ تمام تر سماجی عوامل کو ساتھ لے کر بنتی ہے، اس میں معاشرے میں رائج اعتقادات، مسالک، مذاہب، افکار وغیرہ کی چھوٹ سے ہی زبان میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اور اسے سماج میں رواج ملتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود معانی ومفاہم کا اگر تجربہ کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ساری دنیا کے انسانی ٹولے میں کچھ باتیں یقیناً مشترک ہیں۔ جن میں خوشی وغم کا احساس، رونا، ہنسنا، بھوک لگنا، ظلم اور اس کے خلاف احتجاج، جنگ اور جنگ کی تباہی، ظالم اور مظلوم کے درمیان کشاکش، منظر نگاری، قدرتی مناظر کا ذکر اور اس میں دلچسپی، خدا کا تصور اوزندگی دوسری دنیا کا وجود یہ سب وہ باتیں ہیں جو تقریباً ساری دنیا کے لوگوں میں مشترک ہیں۔ ساری دنیا کے لوگ تہوار مناتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی کرسمس کو بڑا تہوار سمجھتا ہے تو کسی کے نزدیک دیوالی یا عید بڑی خوشی کا دن ہوتا ہے۔ لیکن ان تمام اقوام میں خوشی منانے کا تصور تو مشترک ہی ہے۔ ایسے میں ایک زبان میں کہی ہوئی بات کو دوسری زبان میں منتقل کرنا یوں آسان ہوجائے گا کہ ہم مفاہم تک رسائی حاصل کرلیں تاکہ ہمارا قاری متن کے مفہوم کو اپنی زبان میں نہ صرف محسوس کرسکے بلکہ اس مفہوم کے ذریعہ دیگر معاشرے کی جھلک بھی دیکھ سکے۔ جہاں تک سوال ہے مفہوم کو سمجھ کر ترجمہ کرنے سے کچھ چیزیں ضائع ہوجانے کی تو بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ کیا ہمارا مترجم دونوں زبانوں پر کامل دسترس رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ صرف وہاں مجبور ہوگا جہاں بلاغت وفصاحت کے معیار کا فرق ہوگا، صنائع وبدائع، تشبیہات واستعارات کے معیار کا فرق ہوگا، اگر مترجم دونوں زبانوں پر کامل دسترس رکھتا ہے تو یقیناً وہ مفہوم سمجھ کر اس تشبیہ یا استعارے کو اپنی زبان میں صراحت سے ترجمہ کردیگا اور فٹ نوٹ کے طور پر استعارے کی تشریح بھی کردیگا۔ اور اگر ایسا نہ بھی کرے اور صرف اشارۃً اس کا ذکر کردے تو تب بھی قاری کے لئے مفہوم کا سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ اسے متن کا ۰۔ ۵۹ فیصد تو ترجمہ کی شکل میں دستیاب ہو ہی رہا ہے۔ دس یا پانچ فیصد کے نقصان کے باوجود آج ساری دنیا کو ایک گاؤں قرار دیا جارہا ہے۔ اور ہم روز دنیا کے مختلف خطے سے آئے ہوئے لوگوں سے مل بھی رہے ہیں اور باتیں بھی کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم ان تمام ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کی زبان پر کامل دسترس حاصل کرلیں لیکن ترجمے کے ذریعہ ہم ان کے معاشرے کو پڑھتے ہیں ان کے رسم ورواج سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ ان کی خوشی میں شریک ہونے کے طریقے اور غمزدہ ہونے کے طریقے کو جانتے ہیں۔ یہاں تک کہ تراجم کے ذریعہ ہی ان کے لباس ان کے رہن سہن ان کے کھانے پینے کے اسباب کی جانکاری حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ اہتمام کرتے ہیں کہ ایک جرمنی سے آیا ہوا شخص ہندوستان میں بھی خود کو اجنبی محسوس نہ کرے۔ اس کے لئے اسے جرمنی جیسا ہی ماحول دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس طرح ہم ساری دنیا کو اپنا دوست بنالیتے ہیں۔ ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سبق لیتے ہیں اور اپنی زندگی کی شاہراہ کو اس طرح اور اس ماحول میں بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ترجمہ ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعہ ہم اقوام عالم کی تاریخی صورتحال سے واقف ہوتے ہیں اور ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرکے مستقبل کو بناتے، سنوارتے ہیں۔
اس ترقی یافتہ دور میں دنیا جس تیزی سے ترقی کے منازل طے کر رہی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم اپنے اپنے معاشرے اور ملک کی سرحدوں میں مقید رہیں۔ ایسے میں ترقی کے لئے جہاں دیگر بہت ساری چیزوں کی ضرورت ہے وہیں ہر معاشرے کو ترقی یافتہ بنانے میں قابل مترجمین کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔ قابل مترجمین سے مراد ایک ایسے مترجم سے ہے جو ہر دو زبانوں کو اچھی طرح سمجھتا ہو۔ جو ایک زبان میں کہی گئی بات کے مفہوم کو دوسری زبان میں من وعن پیش کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ زبان کے قواعد اور ثقافتی فریم کو تبدیل کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ دنیا کی ہر زبان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اس کی مدد سے ہر چیز، ہر مفہوم کی ادائیگی ممکن ہے لیکن مفہوم کی سطح تک ہر زبان کے الفاظ اور مفردات میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ ضرورت کے مطابق ان میں توسیع کی جاسکے۔ اور اپنے مفہوم کی ادائیگی کے لئے ان کی اصطلاحات بنائی جاسکیں۔ نئے افکار ومفاہم کے لئے نئے الفاظ بنائے بھی جاتے ہیں اور پرانے الفاظ وتراکیب میں تبدیلی بھی کی جاتی ہے۔ مذکر ومونث کا معاملہ بھی اسی وقت آڑے آتا ہے جب ہم لفظی ترجمہ کرنے بیٹھتے ہیں، جیسے ہی ہم دونوں زبانوں پر گرفت حاصل کرتے ہیں یہ مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ترجمے کے وقت اکثر وبیشتر زبان کے ثقافتی کردار پر آنچ آتی ہے اور اصل متن کی خوبصورتی ضائع ہوجاتی ہے وہ لوگ زبان میں موجود صنائع بدائع کی بات کرتے ہیں۔ تراکیب تشبیہ اور استعارات کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ترجمے کا اصل مقصد تو صرف یہی ہے تاکہ ایک نامعلوم زبان کی چیزیں، افکار وخیالات وتجربات کومعلوم زبان میں داخل کردیا جائے اور اس کے لئے مترجم کا ان دونوں زبانوں پر عبور کافی ہے۔ رہا سوال صنائع بدائع کا، فصاحت وبلاغت کا تو اس کے لئے ماہر مترجم کی شرط بھی یہی ہے کہ وہ نہ صرف مترجم ہوتا ہے بلکہ مصنف بھی ہوتا ہے اور صحافی بھی، اب اگر وہ ان خصوصیات کا حامل نہیں ہے اور اس کی نظر دونوں زبانوں پر گہری نہیں ہے وہ ان زبانوں کی نزاکت سے واقف نہیں ہے، قواعد وضوابط کا جانکار نہیں ہے تو یہ غلطی مترجم کی ہے۔ ترجمے کی افادیت سے اس کا کوئی تعلق کیونکر ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو زبان میں شاعری کو غزل کے پیمانے سے ماپا جاتا ہے، اردو میں بڑے بڑے غزل گو ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اور انہوں نے غزل کو بام عروج تک پہنچایا بھی ہے۔ لیکن کیا ہر دور میں ہلکی غزل کہنے والے نہیں رہے ہیں؟ کیا ہر دور کے دو چار غزل گویوں کو چھوڑ دیں تو باقی غزلیہ شاعری قوافی وردیف کی زنجیر نہیں بن کر رہ جاتی تو اس سے یہ مطلب بھی اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ صنف غزل ہی میں کوئی کھوٹ ہے، ٹھیک اسی طرح ترجمے کا فن بھی ایک ایسا فن ہے جس کے ماہرین چند ہوتے ہیں۔ لیکن دعوی سب ترجمہ نگاری کا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ترجمہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا نہایت ہی بودا خیال ہے۔
ترجمہ نگاری اگر ایک بڑا فن ہے تو یہ خیال بھی رکھنا چاہئے کہ ترجمہ کو پڑھنے والے قاری بھی اسے محض وقت گذاری کے لئے نہیں پڑھتے بلکہ وہ اس ذریعے سے دوسرے معاشرے، ملک اور ثقافت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اگر کچھ معمولی خامیاں رہ جاتی ہیں تو قاری انہیں نظر انداز کرکے رہ گئی چیزوں کے بارے میں خود بخود معلومات حاصل کرلیتا ہے۔ قرآن اس کی بہترین مثال ہے جس کے ترجمے کو پڑھ کر ہی پوری دنیا کے غیر عربی داں حضرات قرآن کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بہت حد تک قرآنی احکام پر عمل پیرا بھی ہیں، حالانکہ عربی میں نازل کیا گیا قرآن ۴۱ سو سال قبل کی زبان میں ہے۔ اور آج عربی دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی زبان ہے۔ ایسے میں خود عرب میں بھی ۴۱ صدی پہلے کی زبان کلاسیکی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ قرآن کے مفاہیم کو سمجھنے میں کہیں کوئی دقت پیش آتی ہے۔ جنہیں دقت پیش آتی بھی ہے وہ ہم جیسے لوگوں کو ہی آتی ہے۔ ورنہ ماہرین کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اسی لئے اسلامی اسکالروں کی ایک بڑی تعداد نے نہ صرف یہ کہ قرآن کے تراجم کیے ہیں بلکہ تفاسیر بھی قلمبند کی ہیں اور استعارات القرآن جیسی کتابیں تک تصنیف کی جاچکی ہیں۔
ترجمے کے لسانی وسماجی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ظہور الدین اپنے ایک مقالے میں رقمطراز ہیں کہ:
’’ترجمہ ایک ایسا جوہر ہے جو بے محنت پیہم قطعاً نہیں کھلتا ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ترجمہ کا تعلق دو زبانوں سے ہوتا ہے۔
یعنی کسی ایک زبان میں موجود تحریر کو دوسری زبان کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ بھی بخوبی معلوم ہے کہ زبانیں محض الفاظ کا انبوہ نہیں ہوتیں۔ وہ اپنے وجود میں ایک مخصوص لسانی کینڈے، مخصوص لب ولہجے، اور زندگی کے مخصوص آداب واطوار کا نظام لیے ہوتی ہیں۔ زبانیں بولنے والوں کے تہذیب وتمدن اور احساسات وجذبات کے اظہار کے مخصوص اسالیب لئے ہوئے ہوتی ہیں۔ چنانچہ ترجمہ کار ترجمہ کرتے وقت ان سبھی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مفہوم کی ترسیل کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ زبانوں کو ان کے لسانی وتمدنی انسلاکات سے الگ کرنے کا مطلب ان کی بحرمتی کرنا اور افہام وتفہیم کی راہیں مسدود کرنا ہے‘‘ (۷)
ماہرین نے تراجم کے سلسلے میں مختلف رائیں دی ہیں۔ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کے خیال میں:
’’اردو تراجم اردو زبان کی گذشتہ ترقی اور آنئدہ امکانات کے آئینہ دار ہیں وہ اردو بولنے والی سوسائٹی کی ذہنی نشو نما کا پیمانہ ہیں۔ اگرچہ اردو تراجم ان ترجموں کے مقابلے جو انگریزی یا عربی میں کئے گئے ہیں کم ہیں۔ لیکن اردو زبان اور اس کی عمر کو دیکھتے ہوئے ان کی اہمیت ناقابل انکار ہے۔ ایک ملک یا ایک کلچر کے خیالات کو دوسرے ملک اور دوسرے کلچر کی زبان میں منتقل کرنے کو ترجمہ کہتے ہیں۔ فارسی اور انگریزی بولنے والی قوم نے جب فکر وجذبات کے دیسی طریقوں سے اپنے آپ کو قریب کرنا چاہا تو ترجموں سے مدد لی۔ ترجمہ اپنے محدود معانی میں ایک آرٹ ہے۔ اور وسیع معنوں میں ایک طرز زندگی ہے۔ اردو میں ترجمہ وسیع مفہوم کے اعتبار سے زیادہ نمایاں ہے۔ اس کا ثبوت اردو شاعری میں خاص طور سے ملے گا۔ اگرچہ اردو شاعری میں شاہنامہ جیسا شاہکار نہ ہوسکا۔ مگر ایرانی اسپرٹ اور کلچر کو اپنی شاعری میں سموکر ترجمہ کا وہ پہلو پیش کیا جس کو طرز زندگی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس لئے اردو ہندوستانی اور دوسری تہذیبوں کی روایت کے درمیان ایک پل بن گئی اور یہی ترجمہ کا آرٹ بھی ہے اور مقصد بھی‘‘ (۸)
’’ترجمہ بڑا مشکل کام ہے یہ نگینہ جڑنے کا فن ہے۔ جو بڑی مہارت اور ریاضت چاہتا ہے۔ ایک زبان کے معانی ومطالب کو دوسری زبان میں اس طرح منتقل کرنے کے لئے کہ اصل عبارت کی خوبی اور مطلب جوں کا توں باقی رہے۔ دونوں زبانوں پر یکساں قدرت کی ضرورت ہوتی ہے جو عام طور پر کمیاب ہوتی ہے۔ ترجمے بہت ملتے ہیں لیکن اچھے ترجمے خال خال ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو زبانیں جانتا ہے بزعم خود مترجم بن بیٹھتا ہے اور ایسے ایسے گل بوٹے کھلاتا ہے کہ ترجمے کی اہمیت وافادیت مجروح ہوجاتی ہے اور ترجموں پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے‘‘ (۹)
ماہرین کی آراء کو نظر میں رکھیں تو ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے۔ اور اس کو بخوبی انجام دینے کے لئے نہ صرف زبان پر کامل عبور حاصل ہونا شرط ہے بلکہ دونوں زبانوں کے تاریخی ارتقائ، ان زبانوں کے جغرافیائی حالات، سیاسی وسماجی عوامل زبانوں میں رونما ہونے والی تحریکات، علاقائی زبانوں کے ان زبانوں پر اثرات وغیرہ کو سمجھنا نہایت ہی ضروری ہے تب جاکر ترجمہ نگاری کا حق ادا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عربی زبان وادب کے ہمعصر کسی افسانے یا نظم کا ترجمہ اگر ہم اردو میں کرنے بیٹھیں گے تو عربی زبان پر کامل دسترس کے سزاوار ہم جب ہوںگے جب جدید عربی زبان کے ساتھ کلاسیکی عربی شاعری سے واقف ہوں، ساتھ ہی خطہ عرب میں رونما ہونے والے سیاسی حالات سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ مان لیا جائے کہ کوئی ایسا فن پارہ ہمارے سامنے ہے جس میں مصنف نے فلسطین کے حالات کو موضوع بنایا ہے۔ ایسے میں ہم جب تک فلسطین کے سیاسی حالات کو کما حقہ نہ مانیںگے اس شہہ پارہ کے ترجمے کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں اردو زبان پر اس طرح دسترس ہونی چاہئے کہ ہم یہ بھی طے کرسکیں کہ اردو میں انقلابی شاعری کا اسلوب کیا رہا ہے۔ اور کن اسالیب کو اپنانے والے شاعروں نے مقبولیت حاصل کی ہیں۔ عربی کے مشہور انقلابی شاعروں کی فہرست کے ساتھ اردو کے ان مشہور انقلابی شاعروں کا جب ہم موازنہ کریں گے تو خود بخود ہمارے سامنے موجود متن کی حیثیت واضح ہوجائے گی۔ اور اس کے ترجمہ کے لئے ایک نیا اسلوب جس میں دونوں زبانوں کی مشترکہ اسلوبیاتی خوبی موجود ہوگی تو ان کے انتخاب کرنے میں آسانی ہوجائے گی اور اب جو ترجمہ ہوگا وہ دونوں زبانوں کی خوبیوں سے ممیز ہوگا اور معقول ترجمہ کہلائے گا۔ یوں تو ترجمہ کے لئے اردو میں کوئی مقررہ اصول نہیں بن پایا ہے لیکن سنجیدہ اسکالروں نے اپنے طور پر کچھ اصول وضوابط بنائے ہیں۔ اگر ترجمہ نگار ان اصولوں کی روشنی میں ترجمہ کرے تو یقیناً ترجمہ نگاری جیسے فن کی قدر وقیمت میں اضافہ ہوگا۔ حالانکہ ترجمہ نگاری کا فن بھی دیگر فنون کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی چاہتا ہے اور جب تک اس فن سے ترجمہ نگار کو روحانی شغف نہیں ہوگا اس وقت تک اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر اس شوق کے ساتھ کچھ اصولوں کی پابندی بھی کرلی جائے تو یقیناً ترجمہ نگاری میں آسانی ہوجائے گی۔ پروفیسر ظہور الدین صاحب نے اس سلسلے میں کافی غور وخوض کے بعد جو اصول مقرر کیے ہیں ہمارے لئے اس میں کسی بھی ترمیم کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ انہوں نے ترجمہ نگاری کے تمام آداب وضروریات کو سامنے رکھ کر اور مشرق کے علاوہ مغرب کے اساتذہ ترجمہ نگاری کے اصول ونظریات کو سامنے رکھ کر یہ اصول مرتب کیے ہیں۔
۱- مفہوم کی ترسیل ۲- ہیئت
۳- مصنف کی منشا کا احترام ۴- بنیادی زبان کا اثر
۵- اسلوب اور شفافیت ۶- محاورہ
مفہوم کی ترسیل سے مراد صرف یہ نہیں کہ ترجمہ نگار سورس لنگویج کے تمام الفاظ کو ٹارگیٹ لینگویج میں من وعن تبدیل شدہ زبان میں منتقل کردے بلکہ مترجم کا یہ فرض عین ہے کہ وہ سورس لینگویج میں جو استعمال شدہ عبارت ہے اس کی تہہ تک بھی پہنچے۔ اور اس شہہ پارے میں موجود معنی کی اس زیریں پرت تک رسائی حاصل کرے جو کسی بھی بڑے شہہ پارے کی اندرونی سطح پر موجود رہتی ہیں یعنی مفہوم کی پوری طرح ترسیل ہوجائے اور اگر کہیں کسی صنعت وغیرہ جیسے صنعت تلمیح کا استعمال کیا گیا ہو تو اس تاریخی واقعے کو فٹ نوٹ میں ضرور نوٹ کردیا جائے۔ تاکہ قاری پوری طرح مفہوم سے آگاہ ہوجائے۔ مثال کے طور پر اگر ہم اقبال کے اس شعر کا انگریزی یا ہندی میں ترجمہ کررہے ہیں:
کشتی مسکین وجان پاک ودیوار یتیم
علم موسی بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
تو قرآن کا حوالہ ضروری ہے تاکہ حضرت خضر اور موسی کے مابین ہونے والے واقعے تک قاری کی رسائی ہوجائے۔ جہاں تک سوال ہیئت کا ہے تو کچھ تراجم تو ایسے ہی ہونے ہیں جیسے کہ آریجنل متن میں ہیں۔ خاص طور پر دفتری کاغذات، اس میں کسی بھی قسم کی تحریف ترجمہ نگاری کے اصول کے خلاف ہوگی۔ لیکن پھر بھی زبان کی مجبوری کی بنا پر اگر کوئی مبتادل لفظی ساخت یا جملوں میں تبدیلی ہوجائے جو ناگزیر ہو تو اسے قابل اعتراض نہیں گردانا جانا چاہئے۔ لیکن ایسے الفاظ جن پر شک ہو انہیں خط کشید کردینا چاہئے۔
منشائے مصنف کا احترام بھی ترجمے میں ایک بنیادی رکن ہے منشائے مصنف اپنے آپ میں ایک بڑا معنوی سیاق رکھتا ہے۔ جدید تنقیدی تھیوری کے مطابق کسی بھی فن پارے کا مصنف اہم ہے، اور نہ ہی وہ فن پارہ بلکہ قاری کے پڑھنے کا وہ طریقہ ہے جس کے تحت وہ فن پارے کو پڑھ رہا ہے۔ یعنی منشائے مصنف کچھ بھی ہو جس عہد میں قاری اسے جس ذہنی صلاحیت اور جس طرح قرأت کر رہا ہے اور اس کے جو معنی اخذ کر رہا ہے۔ وہی معنی اصل ہے یعنی زبان کے اصول وضوابط اور رموز وروایات کی وہ کیا کارکردگی ہے جس سے ہیتی پیکر بنتا ہے۔ اور لفظوں اور ترکیوں اور قلموں کی ترتیب اور تواتر سے پڑھنے کے عمل کے دوران اخذ معنی ہوتا ہے یا ادبی مفہوم بر آمد ہوتا ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود منشائے مصنف کا ادراک تو مترجم کو ہونا ہی چاہئے۔ تاکہ وہ جب ترجمہ کرنے بیٹھے تو اسے اس کا خیال رہے کہ اس متن میں مصنف پرتکلف، بے تکلف ہے یا سرد، پرجوش یا پھر ذاتی نوعیت کے اسلوب کا استعمال کر رہا ہے۔ مصنف کی منشا کو جانے بغیر کہ مصنف اس متن میں کوئی پیغام دینا چاہتا ہے کسی المیے یا حادثے پر رونا چاہتا ہے کسی اہم موقع پر خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ سوتے ہوئے لوگوں کو جگانا چاہتا ہے یا پھر بے جا اشتعال سے باز رکھ کر قوم کے لوگوں کو صبر کی تلقین کرنا چاہتا ہے یعنی ترجمہ نگار کو چاہئے کہ وہ مصنف کی بنیادی منشا کو سمجھ کر ہی ترجمہ شروع کرے تاکہ ترجمہ کے بعد ابہام باقی نہ رہے۔
بنیادی زبان کا ترجمے پر اثر ہونا لازمی ہے۔ لیکن اسی سے ایک قابل مترجم ہی یوں چھٹکارہ پاسکتا ہے کہ وہ سورس لینگویج کو پوری طرح سمجھ لے، منشائے مصنف تک پہنچ جائے، مخصوص نکات اور محاورات تک اس کی رسائی ہوجائے، مختلف صنعتوں سے پوری طرح واقف ہوجائے۔ پھر وہ اصل متن کو ایک طرف رکھ کر فن پارے کو ٹارگیٹ لینگویج کے بنیادی قواعد کی روشنی میں دوبارہ لکھ ڈالے اس کے لئے مترجم کو مصنف بھی ہونا چاہئے تاکہ وہ صنعتی تقاضوں کا خیال بھی رکھ سکے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مترجم کو متن کے اسلوب کو بدلنا نہیں چاہئے لیکن ادبی فن پاروں کو ترجمہ کرتے وقت اگر مترجم یہ محسوس کرے کہ یہ بنیادی متن کا پلاٹ ڈھیلا ہے، تکرار ہے، یا بے ڈول پلاٹ ہے۔ تو یہاں وہ ایک اچھے مصنف کی طرح منشائے مصنف کو نظر میں رکھتے ہوئے فن پارے کی ان خامیوں کو دور کرسکتا ہے۔
ترجمے کے دوران ایک اہم مرحلہ اس وقت سامنے آتا ہے جب مترجم کا سابقہ سورس لینگویج کے محاورات سے پڑتا ہے۔ اس ضمن میں تشبیہیں، استعارے، ضرب الامثال، اقوال، علاقائی بولیاں، عامیانہ زبان میں بھی آتے ہیں۔ جنہیں ترجمہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اس کے لئے نہایت زیرک مترجم اول تو ایسے حصے کو ہی چھوڑ دیتے ہیں جنہیں ترجمہ کرنا ضروری نہیں اور جن سے کلی طور پر فن پارے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دوم یہ کہ قریبی مترادفات کا سہارا لیتے ہیں اور اصل لفظ کا لفظی ترجمہ قوسین میں لکھ دیتے ہیں۔ کچھ محاورے جو ٹارگیٹ لینگویج میں کوئی معنی کی ترسل نہیں کرسکتے انہیں بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یعنی کل ملاکر ان سب مراحل سے گزرنے کے بھی کوئی خاص اصول نہیں ہیں۔ مترجم پر منحصر ہے کہ وہ کس مرحلے سے کس طرح عہدہ بر آہوتا ہے۔ ترجمہ نگار کے سامنے ترجمہ کرتے وقت یہ بات واضع طور پر موجود ہونی چاہئے کہ وہ ترجمے کا مقصد حاصل کر رہا ہے۔ اب ترجمے کے مقاصد پر بات کرنے کے لئے بھی ماہرین نے کچھ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر محمد حسن فرماتے ہیں کہ:
’’بنیادی طور پر کسی ترجمے کے تین مقاصد ممکن ہیں پہلا معلوماتی، دوسرا تہذیبی اور تیسرا جمالیاتی‘‘ (۰۱)
پروفیسر محمد حسن صاحب کی یہ رائے کسی حد تک مستند مانی گئی ہے کیونکہ تراجم کے سلسلے میں جو اصول مرتب ہیں ان تمام کو سامنے رکھ کر موصوف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور ترجمہ کا اصل مقصد بھی اس سے پورا ہوجاتا ہے۔ عام طور پر ترجمہ کا وہی اسلوب زیادہ پسندیدہ مانا جاتا ہے جو سورس لینگویج سے زیادہ قریب ہو۔ لیکن اس ضمن میں دستاویزی ترجمے اور معلومات سے متعلق تراجم ہی آسکتے ہیں لیکن اس میں بھی وہ قباحت موجود ہوتی ہے کہ کیا اصطلاحات علمیہ کا من وعن ترجمہ ممکن ہے؟ لیکن مترجم کا فرض ہے کہ وہ معلوماتی ترجمہ میں متن کے زیادہ سے زیادہ قریب رہے۔ دستاویزی ترجمے میں تو انحراف لفظی کے خطرناک نتائج بھی رونما ہوسکتے ہیں کیونکہ ایک لفظ کے غلط ترجمے سے پورے متن کے مفہوم میں بھی تبدیلی آسکتی ہے۔ اور منشائے متن کا مفہوم بدل سکتا ہے لیکن معلوماتی ترجمے میں مشکل مرحلہ اس وقت آتا ہے جب فلسفیانہ متن کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ یہاں معلومات بہم پہنچانے کے لئے اشیاء کے نام نہیں بلکہ تصورات کا ترجمہ کرنا ہوتا ہے اور تصورات کے اتنے ابعاد ہوتے ہیں کہ یہاں زبان کا ساتھ دینا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے فلسفیانہ کتابوں کے مترجم کو کافی دقتوں کا سامنا ہوتا ہے لیکن مترجم کے سامنے بہرحال یہ مقصد رہتا ہے کہ اپنے قاری تک بنیادی مفاہیم کی ترسیل ہو جائے اور جو مترجم اس میں کامیاب رہتے ہیں ان کے ترجمے کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ ترجمے کے بعد اگر ساری تحریریں رواں اور شستہ ہوں تو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ یہاں منشائے مصنف سے کہیں نہ کہیں انحراف کیا گیا ہوگا۔ خاص طور پر فلسفیانہ متن کے ترجمے میں روانی اور شستگی کے ساتھ منشائے مصنف کا احترام بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اس لحاظ سے اکابرین کی رائے ہے کہ: ’’روانی اور شستگی ہمیشہ اور ہر ترجمے کے اعلیٰ ہونے کا معیار نہیں ہے‘‘ ۔
دوسری سطح بے تہذیبی، تہذیب اپنے آپ میں ایک بہت وقیع اصطلاح ہے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فیض احمد فیضؔ کہتے ہیں کہ:
’’کرہ ارض پر بسنے والے انسانی گروہوں نے اپنی مادی اور روحانی ضروریات کو تسکین دینے اور ایک منظم اور مربوط معاشرتی زندگی بسر کرنے کے لئے کچھ نصب العین وضع کیے۔ رہن سہن کے کچھ طریقے ایجاد کئے کچھ عقائد اختیار کئے کچھ رسمیں بنائیں کچھ قوانین وضع کئے حلال اور حرام کے درمیان کچھ امتیازات قائم کئے، کچھ نظریات وتصورات وعلوم وفنون سے دلچسپی لی۔ اس طرح سماجی تعلقات کے تعاون سے (جو خود بھی اس طرح وجود میں آئے تھے) ان اکتسابات نے ذیلی اختلافات کی گنجائش کے باوجود افراد معاشرہ میں تنظیم اور یکسانی کردار پیدا کیے۔ اور ان کی افادیت مسلم ٹھہری ۔ چنانچہ اگلی نسل تک انہیں مستقل کرنا ضروری ہوا۔ نسلاً بعد نسلٍ مستقل ہونے والے اکتسابات کے اس مجموعہ کو تہذیب وثقافت کہتے ہیں ثقافت کوئی وہبی یا جبلی چیز نہیں بلکہ وہ معاشرے کا نظام، کردار (طرز عمل وطرز فکر) ہے جسے ہم کسی معاشرے میں رہتے ہوئے اکتساب کرتے ہیں۔ اگرچہ اس خاص معاشرے میں تربیت پانے کے باعث بسا اوقات ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے ثقافت وتہذیب کا باضابطہ اکتساب کیا ہے‘‘ (۱۱)
یہاں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب تہذیب اس قدر گہرے اور تہہ در تہہ معنی سے لبریز ہے۔ تو ایسے میں تہذیبی ترجمے کا حلقہ کس قدر بسیط ہوگا یہاں مترجم ایک پوری تہذیب کے تصورات وعقائد کو دوسری تہذیب کے تصوراتی پیکر میں منتقل کرتا ہے۔ صرف ایک لفظ کے متبادل دوسرا لفظ لانا تو آسان ہے لیکن جب پوری تہذیبی کینڈ لے کو دوسری تہذیبی معنویت میں داخل کرنا ہوتا ہے جو نہایت مشکل اور دیر طلب کام ہے۔ ایک تہذیبی سیاق سے پیدا شدہ لفظ اپنے اندر پوری تہذیب کو پیوست رکھتا ہے وہ نگار خانہ ہوتا ہے اپنے تہذیبی فکر کا ایسے میں اسے دوسری تہذیب کے کسی ایسے ہی لفظ میں منتقل کرنا ہوگا تب ہی ترجمے کا حق ادا ہوگا۔ بطور خاص ناول اور افسانے کے ترجمے میں یہ مراحل آتے ہیں جب ہم ناول کی کہانی کے ساتھ پورے معاشرے اور تہذیب کو ساتھ لیکر چلتے ہیں ترجمہ کا یہ نہایت ہی اہم مرحلہ ہوتا ہے اور جس مترجم نے اس حق کو ادا کردیا تو یہ سمجھے کہ ترجمے کا حق ادا ہوگیا۔
پروفیسر محمد حسن نے تیسری سطح کو جمالیاتی کہا ہے۔ جو ان کی نظر میں بھی سب سے دشوار ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
’’تیسری سطح جمالیاتی ہے۔ اور غالباً سب سے زیادہ دشوار ہے۔ جمالیاتی انبساط خود نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ دوسرے یہ عمل الفاظ کے سطحی معنوں کے بجائے ان کی متنوع متعلقات کے ذریعہ ادا ہوتا ہے الفاظ صرف معلومات یا محض تصورات پیش نہیں کرتے بلکہ ایک خاص فضا اور کیفیت چھوڑتے گزر جاتے ہیں۔ سنسکرت کے ماہرین نے شعریات کے معنی کی سات نوعیتیں قرار دی ہیں جن میں معلومات کی ترسیل طنز، تضاد، محاورہ، علامتی اظہار، کیفیت سبھی شامل ہیں۔ ایک زبان کے ایسے ہمہ جہت لفظ کو دوسری زبان اور دوسری تہذیب کے سیاق وسباق میں بٹھانا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لئے شاعری کا ترجمہ سب سے زیادہ دشوار ہے‘‘ (۲۱)
جمالیات: اپنے آپ میں ایک وقیع اصطلاح ہے۔ مفکرین نے جمالیات کی تعریف مختلف انداز سے کی ہے لیکن کل ملاکر جمالیات کی اس تعریف پر سب کا اجماع ہے کہ:
’’جمالیات فلسفہ ہے۔ حسن اور فن کاری کا‘‘ جمالیات سے مراد ارباب فلسفہ کے وہ نظریے ہیں۔ جو حسن اور اس کے کوائف ومظاہر (جن میں فنون لطیفہ بھی شامل ہیں) کی تحقیق وتشریح میں پیش کئے گئے ہیں۔ اردو میں ASTHETICS کا ترجمہ جمالیات کیا جاتا ہے۔ فلسفہ حسن وفن کے لئے اس یونانی لفظ کو مروجہ اصطلاحی معنوں میں سب سے پہلے جرمن فلسفی، بام گارٹن (۴۱۷۱- ۲۶۷۱) نے استعمال کیا۔ یونانی زبان میں اس لفظ کے لغوی معنی ایسی شئ کے ہیں جو صدرک بالحواس ہو۔ جمالیات یوں تو فلسفے کا ایک شعبہ ہے لیکن اس نے حکمائے جمالیات کی ذہنی کاوشوں کی بدولت اپنی الگ الگ اور مستقل حیثیت اختیار کرلی ہے‘‘ ۔
یہی وجہ ہے کہ پروفیسر محمد حسن نے جمالیاتی سطح کے تراجم کو سب سے مشکل اور پیچیدہ قرار دیا ہے۔ اس ترجمے میں سورس لینگویج میں جو الفاظ سامنے کئے ہوتے ہیں ان کی فلسفیانہ اساس ہوتی ہے۔ اور ہمیشہ صرف اشارہ کرتے ہیں اور سامنے کے جملوں کے پس پشت وہ خیالات وافکار جھانکتے رہتے ہیں جو منشائے مصنف ہوتے ہیں طنز، تضاد، محاورہ، علامتی اظہار، کنایہ، اور کیفیت یہ سب ایسی چیزیں نہیں جنہیں مترجم باآسانی لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ پیش کرسکے۔ افکار وخیالات کے ایک لامتناہی سلسلے کو لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ پیش کرنا بہت مشکل ہے۔ اور مترجم اس مشکل مرحلے سے با آسانی پار لے جاتے ہیں جو قابل تعریف ہے۔
پروفیسر عنوان چشتی نے ادبی تراجم کے سلسلہ میں نہایت بلیغ بات کہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ:
’’ابلاغ کا نقطہ عروج وہ منزل ہے جہاں قاری کے ذہن پر ایک سے زیادہ معنی کا انکشاف ہوتا ہے اور اس کو ایک شعر میں بہت سے جوالہ ہائے معانی نظر آتے ہیں مثلاً غالبؔ کے بہت سے شعر معانی کے اعتبار سے ایک سے زیادہ امکانات کے حامل ہیں۔ یہ امکانات کبھی ایک ہی مفہوم کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے متضاد ہوتے ہیں۔ معانی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا مترجم کا نہیں بلکہ تشریح نگار کا کام ہے۔ ایسے موقعوں پر مترجم ہجوم معانی سے ایک کا انتخاب کرکے دوسرے معانی کو چھوڑ دیتا ہے۔ انتخاب واحتساب کا یہ عمل ایک شعوری عمل اور مصنف کے فلسفہ زندگی انداز نگارش موضوع کی مناسبت اور عبارت کے سیاق وسباق کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ مفہوم کے انتخاب کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ وہ کل مفہوم کے ایک ہنر کی حیثیت سے کل سے کتنا قریب ہے۔ یعنی وہ منتخب مفہوم کل کا لازمی، منطقی اور فطری حصہ ہے کہ نہیں۔ در اصل انتخاب مفہوم کا مسئلہ کلیۃً مترجم پر منحصر ہے کہ وہ آئینہ کس رخ سے پکڑتا ہے اور شاہد معنی کا کون سا جلوہ دیکھتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں جب پیکر نگاروں، علامت پسندوں اور داخلیت کے علمبرداروں کی تخلیقات کے تراجم پر تنقیدی نظر ڈالی جاتی ہے۔ تو بعض تراجم میں اصل کی رمق بھی نظر آتی ہے۔ مترجم کے لئے ابلاغ کے مسائل اس وقت زیادہ پریشان کن ہوتے ہیں۔ جب وہ مصنف کے کسی نازک اور نادر خیال، نیم محسوس حقیقت، خالی خیال آرائی، ذاتی اور اچھوتے تجربے، دور رس، افکار اور وجدانی کیفیتوں کو ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات شاعری میں ایسے نازک مقام آجاتے ہیں جہاں اصل خیال سطور میں نہیں بلکہ بین الستور یا ماورائے ستور ہوتا ہے۔ کبھی کبھی الفاظ محض ایسے پلیٹ فارم کا کام کرتے ہیں جہاں سے معنی کی ایک ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے۔ شعری ترجموں کی ان ہی دقتوں کے پیش نظر انگریزی کے شاعروں نے کہا تھا کہ شاعری کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس دور کے نا اہل مترجمین کے ناقص ترجموں نے معترضین کی رائے پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی‘‘ (۳۱)
یعنی پروفیسر عنوان چشتی کے خیال کے مطابق جمالیاتی ترجمے کے وقت مترجم آزاد ہوتا ہے کہ وہ متن سے اپنے طور پر اخذ معنی کرے اور علامات واستعارات کے معلوم مفہوم کو واضح کرنے کے لئے اپنے طور پر ٹارگیٹ لینگویج سے ایسے الفاظ واصطلاحات کا انتخاب کرے جس میں متن کے اندرون میں جذب مفہوم تک قاری کی رسائی ہوجائے۔ اب یہ مترجم کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ اس نے مصنف کے خیالات وافکار کو کس حد تک سمجھا ہے۔ اور اس متن کے اندرون میں کس حد تک رسائی حاصل کرسکا ہے۔ کیونکہ ترجمے کا حق بھی یہی ہے کہ مصنف کے مفہوم یعنی منشائے مصنف کو پوری طرح دوسری زبان کے الفاظ میں سمودیا جائے۔ منشائے مصنف سے انصاف کرنے کی پوری ذمہ داری بھی مترجم کے سر ہوتی ہے۔ کیونکہ قارئین تو مترجم کے ترجمے کو ہی اصل سمجھتے ہیں اور اسی کے معنی ومفہوم کو اصل سمجھتے ہیں فن ترجمہ نگاری کہ ان ابعاد کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترجمہ کے ذریعے ایک تہذیب، ایک زبان، اور اس زبان میں شامل تہذیب واقدار کی پوری روایت دوسری زبان میں منتقل کی جاتی ہے اور اس منتقلی کے زیر اثر ہی پوری دنیا کے انسانی گروہ ایک دوسرے سے متعارف بھی ہوتے ہیں۔ اور ان میں ہم آہنگی ویکجہتی بھی قائم ہوتی ہے۔ آج کے اس دور میں جب ساری دنیا ایک اسکرین پر سمٹ گئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی روابط میں بنیادی رول ترجمے نے ہی ادا کیا ہے۔ ورنہ ایک دوسرے کی زبان سے واقفیت کی بنا پر ہم یقیناً ابھی بھی ترقی کے ان مدارج تک نہیں پہنچ پاتے جہاں آج اپنے آپ کو دیکھتے ہیں۔ نہ تو ادب وثقافت کا وہ معیار قائم ہوتا اور نہ ہی فلسفہ وحکمت کی گتھیاں سلجھتیں۔
مختصر یہ کہ ترجمے کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنا انسان کا وجود، انسان تجسس اور تدبر کا آمیزہ ہے۔ جس سے ایک دوسرے کو سمجھنے، سمجھانے کی راہیں خود ہی نکل آتی ہیں اور ترجمہ انسان کے اسی مفاہماتی جذبہ کا رد عمل ہے۔
٭٭٭
حواشی
۱- پروفیسر قمر رئیس ’’ترجمہ کا فن اور روایت، صفحہ نمبر ۹۱-۰۲، ناشر تاج پبلشنگ ہاؤس، مٹیا محل، جامع مسجد، جون ۶۷۹۱۔
۲- پروفیسر محمد حسن، ترجمہ نوعیت اور مقصد، ترجمہ کا فن اور روایت، پروفیسر قمر رئیس ص نمبر ۹۶۔
۳- پروفیسر محمد حسن، ترجمے کے بنیادی مسائل، ترجمے کا فن اور روایت ص: ۹۷-۰۸۔
۴- ترجمے کا فن اور روایت ص: ۹۷۱-۰۸۔
۵- پروفیسر ظہور الدین، فن ترجمہ نگاری، ششماہی مجلہ تسلسل، شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی نوری تا جون ۴۰۰۲، جلد ۶، شمارہ ۲۱۔
۶- مرزا عبد الحق، فن ترجمہ نگاری ’’تسلسل‘‘ شعبہ اردو جموں یونیورسٹی، شمارہ نمبر ۲، جلد نمبر ۱، جنوری ۹۹۹۱ئ۔
۷- ششماہی مجلہ تسلسل، شعبہ اردو جموں یونیورسٹی، جنوری تا جون ۴۰۰۲، صفحہ نمبر ۳۸۔
۸- پروفیسر ظہیر احمد صدیقی، اردو میں تراجم کے مسائل، ترجمہ کا فن اور روایت ص: ۹۷-۰۸۔
۹- شہباز حسین مشمولہ ترجمہ کا فن اور روایت ص: ۷۸۱۔
۰۱- پروفیسر محمد حسن۔ ترجمہ نوعیت اور مقصد، ترجمہ کا فن اور روایت، ص: ۰۲۔
۱۱- فیض احمد فیضؔ کشاف تنقیدی اصطلاحات مرتبہ ابو الاعجاز حفیظ صدیقی مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد صفحہ نمبر: ۵۵۔
۲۱- کثٹاف تنقیدی اصطلاحات بو الاعجاز حفیظ صدیقی مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد صفحہ نمبر ۴۶۔
۳۱- منظوم ترجمے کا عمل پروفیسر عنوان چشتی، ترجمہ کا فن اور روایت پروفیسر قمر رئیس، صفحہ نمبر: ۸۴۱-۹۴۱۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!