کالوبھنگی:ایک تجزیہ
زمانۂ قدیم سے ہندوستانی سماج میں ایک طبقہ ایسا رہا ہے جسے زندگی کی تمام بنیادی ضرورتوں سے محروم کردیاگیا۔اس محرومی کی ابتدا ہندوستان میں آریوں کی آمد سے ہوتی ہے۔انھیں حملہ آوروں سے ہندوستان کے مقامی باشندوں سے جنگ ہوئی جس میں آریوں کو فتح نصیب ہوئی اور مقامی باشندوں کو شکست ملی۔انھیں مفتوحین پر بعد میں طرح طرح کی بندشیں عائد کی گئیں۔یہی بندشیں اور پابندیاں ابتدا میں تو زیادہ سخت نہیں تھیں مگر بعد میں ان میں سختی آگئی اور پھر سخت ترین حالت میں پہنچ گئی۔ابتد امیں یہ گروہ ہوا کرتے تھے بعد میں طبقے بنے اور پھر آخر میں ذات کی شکل اختیار کر گئے۔پہلے اسے ’ورن‘ کے نام سے بھی جانا جاتاتھا۔یہ ذات اور ور ابتدامیں انسانوں کے اعما ل کی بنیاد پر طے ہوتا تھا اور اعمال کی بنیادپر ہی ہر کوئی اپنے ورن میں تبدیلی کرسکتا تھا مگر تاریخ کے کسی دورمیں اس کی بنیاد ختم ہوگئی۔ابھی تک یہ تحقیق نہیں ہوپائی ہے کہ تاریخ کے کس دورمیں یہ جنم کی بنیاد بن گئی۔چونکہ ہندوسماج چارورنوں میں منقسم تھا ۔برہمن، چھتریہ، ویشیہ اور شودر۔یہ سبھی لوگ سورن کہے جاتے تھے مگر ایک ورن ایسا تھا جو اس ورن نظام سے الگ تھا۔اسے پنچ ورن کہاجاتاتھا۔یہی اچھوت تھے۔ورن ے ہی ذاتیں وجود میں آئیں۔وقت کے گزرتے گزرتے ہندوسماج ذاتوںکے انبوہ پر کھڑا تھا۔(حالانکہ اسے دب جانا چاہئے تھا)ذاتوں میں بھی شودروں اور اچھوتوں کو حقیر نظرو ںسے دیکھاجاتاتھا۔ساری پابندیاں انھیں دونوں ورنوں پر جو بعد میں ذاتوںمیں تبدیل ہوگئیں لگائی گئیں۔ہر شعبہ ہائے زندگی میں ان پر سخت پابندیاں عائد کردی گئیں۔انھیں تعلیم، دولت، عزت، شہرت، سیاست، معاشرت، سبھی سے محروم کردیا گیا اور ایسی زندگی جینے پر مجبور کردیا گیا جسے جانور بھی جینا شاید ہی پسند کریں۔
چونکہ زندگی میں یہ طبقہ محرومی کا شکار تھا تو بھلا ادب میں وہ کیسے شامل ہوسکتاتھا۔اسی لیے تو ابتدائی دور کے ادب کابغور مطالعہ کریں تو دلت تو کیا ان کا سا یہ تک وہاں نظر نہیں آتا۔حالانکہ اردو زبان کی تشکیل ہی ان قوموں کی آوازمیں شامل تھی مگر ادب میں نہیں۔کرشن چندر کا افسانہ ’کالوبھنگی‘ کی ابتدائی سطور اسی طرف اشارہ کررہی ہیںکہ:
’’میں نے اس سے پہلے ہزاربار کالو بھنگی کے بارے میں لکھنا چاہا ہے لیکن میرا قلم ہر باریہ سوچ کر رک گیا گیاہے کہ کالوبھنگی کے متعلق لکھا ہی کیا جاسکتاہے۔مختلف زاویوں سے میں نے اس کی زندگی کو دیکھنے، پرکھنے کی کوشش کی ہے لیکن کہیں وہ ٹیڑھی لکیر دکھائی نہیں دیتی جس سے دلچسپ افسانہ مرتب ہوسکتاہے۔دلچسپ ہونا تو درکنار کوئی سیدھا سادا افسانہ بے کیف وبے رنگ، بے جان مرقع بھی تو نہیں بن سکتا۔کالوبھنگی کے متعلق۔‘‘
گویا جب تک کوئی طبقہ ایسا نہ بن جائے اس میں کہیں کوئی ٹیڑھا پن، نظر آئے اس وقت تک اس پر کوئی افسانہ نہیں لکھاجاسکتا۔اسی نظریے کی تائید ہمارا ابتدائی اردو ادب بھی کرتاہے۔وہ صرف بادشاہوں ، وزیروں ،شہزادوں اور شہزادیوں پر ادب کی تخلیق کرتا رہا مگر کبھی بھی ان مجبوروں اور لاچاروں کی طرف توجہ نہیں دی۔
دراصل راوی کا قلم کالوبھنگی کی کہانی سے نہیں رکتا ہے۔بلکہ وہ اس ادبی روایت کی طرف اشارہ کرتاہے جس میں دلتوں کے مسائل کو جگہ نہیں دی گئی۔جس طرح راوی سوچتاہے کہ کالوبھنگی کے متعلق لکھاہی کیاجاسکتاہے۔یہی حا ل ہمارے ادیبوں اور شاعروںکا تھاکہ دلتوں کے متعلق لکھا ہی کیاجاسکتاہے ۔ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ راوی سوچتا ہے کہ کالو بھنگی کے متعلق لکھنے کے لئے ،مگر اردو کے’ دانشوروں‘نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی۔حالانکہ جس ٹیڑھی لکیر کے نہ ہونے کی تاویل راوی پیش کررہا ہے وہ تو ہر دلت کی زندگی کا ناگزیر حصہ ہوتا ہے۔ضرورت اس کو پہچاننے کی ہوتی ہے ، محسوس کرنے کی ہوتی ہے۔مثلاً غالب اپنی پنشن کارونا تو خوب روتے ہیں، شکوہ شکایت بھی کرتے ہیں مگر انھیں کبھی دلتوں کے آنسوئوں کی قیمت سمجھ میں نہیں آئی۔ہوسکتاہے کہ انھوںنے کبھی بھی کسی دلت کے ’درشن‘ نہ کئے ہوں۔کوئی آپ بیتی کو جگ بیتی بنادینے کا دعوا کرتاہے مگر نہ تواس کی آپ بیتی میں دلت ہے ، نہ اس کی جگ بیتی میں۔اب راوی تو مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے مگر انھوںنے کسی زاویے سے نہیں دیکھا۔ایک اور نقطے کی طرف افسانہ نگار اشارہ کرتا ہے وہ ہے دلچسپی۔دلچسپی کی وجہ سے ہی کوئی افسانہ کامیاب اور ناکام ہوتا ہے ۔گویا دلچسپی ہی کسی افسانے کی ضمانت ہے۔مگر راوی کو نہ تو اس میں کوئی ٹیڑھی لکیر نظرآتی ہے اورنہ ہی ہی ایسی کوئی دلچسپ بات جس کو موضوع بناکر وہ کالوبھنگی پر افسانہ تحریر کرسکتے مگر اب ،
’’پھر نہ جانے کیا بات ہے۔ہر افسانے کے شروع میں میرے ذہن میں کالوبھنگی آن کھڑ ہوتا ہے اور مجھ سے مسکراکے پوچھتا ہے۔’’چھوٹے صاحب مجھ پر کہانی نہیں لکھوگے؟ کتنے سال ہوگئے ، تمھیں لکھتے ہوئے ؟‘‘
کالو بھنگی اس کے ذہن میں آنے لگا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیوں کالو بھنگی اب اس کے ذہن میں ا ٓنے لگا ہے۔اس سے قبل تو ہزاربار راوی نے سوچا مگر اس کے متعلق کچھ تحریر نہ کرسکا مگر اب خود کالوبھنگی اس کے ذہن میں گھر کرکے بیٹھا ہے۔وجہ بالکل صاف ہے۔وقت اور حالات کے بدلتے تقاضے اور بدلتے ادبی رجحانات اور ترقی پسند تحریک، سائنسی نقطۂ نظر ، مغربی تہذیب کا اثر، مختلف سائنسی ایجادات، چھاپے خانے، اخبارات ، رسائل وجرائد،اطلاعات کی فراوانی اور ’احساس کمتری‘ ۔ تمام تر بے اعتنائیوں کے باوجود اب کالوبھنگی’ مسکراکر‘ پوچھتاہے۔آخر مسکرانے میں کون سا راز پنہاں ہے۔اسے تو ناراض ہونا چاہئے کہ ابھی تک اس کے متعلق کیوںنہیں لکھا مگر وہ مسکرارہا ہے اور مسکراتے ہوئے پوچھتاہے کہ ، ’’ چھوٹے صاحب! مجھ پر کہانی نہیں لکھوگے؟ ‘‘گویا صرف کالوبھنگی نہیں پوچھ رہا ہے بلکہ پورا دلت سماج اردو’ دانشوروں‘کے سامنے سوال قائم کرتا ہے کہ مجھ پر یعنی دلتوں پر کہانی کیوں نہیں لکھتے ؟‘‘ کتنے سال ہوگئے تمھیں لکھتے ہوئے‘‘ اردو ادب کی اس روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں قصداً دلتوں سے پرہیز کیا گیا۔اتنے برسو ں کی روایت میں کبھی دلتوں کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھا۔راوی سے کالو بھنگی کا اگلاسوال کہ ’’کتنی کہانیاں لکھیں تم نے؟‘‘ اردو کے ادبی سرمایے کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔وہ پھر سوال قائم کرتا ہے،
’’ مجھ میں کیا برائی ہے ۔چھوٹے صاحب تم میرے متعلق کیوںنہیں لکھتے؟ دیکھوکب سے میں اس کہانی کے انتظار میں کھڑا ہوں۔تمھارے ذہن کے ایک کونے میں مدت سے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں۔ چھوٹے صاحب۔ میں تو تمھارا پرانا حلال خور ہوں ، کالوبھنگی۔آخر تم میرے متعلق کیوں نہیں لکھتے؟‘‘
اب کالو بھنگی متجسّس ہے کہ راوی اسے بتائے کہ اس میں کیا کمی ہے۔شاید وہ راوی کی قلعی کھولنا چاہتا ہے۔وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آخر راوی کیا جواب دیتا ہے۔وہ دریافت کرنا چاہتا ہے کہ افسانہ نگار اس پر کوئی افسانہ کیوں نہیں لکھنا چاہتا؟وہ اس مدت کی طرف بھی قاری اور افسانہ نگار کی توجہ کھینچنا چاہتا ہے کہ وہ کب سے اس انتظار میں کھڑا ہے۔اس طرح کیا ، کیوں، کب، کتنی وغیرہ الفاظ صرف اردو ادیبوں اور دانشوروں پر سوالیہ نشان ہی قائم کرتے ہیں۔یہاں ایک لفظ’حلال خور‘ ایک طنز ہے اس معاشرے پر جو کالو بھنگی کو حلال خور کہہ کر خود کے وجود پر سوالیہ نشان قائم کرلیتا ہے۔حلال خور کا مطلب وہ جو محنت کرکے اپنی زندگی کے شب وروز گذارتا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ اگر کالوبھنگی حلال خو ر ہے تو پھر باقی لوگ کیا’ حرام خور‘ ہیں۔یہ سوال اور جواب تو جہ طلب ہے جس پر غور وفکر کیاجانا چاہئے۔کالوبھنگی بار بار دریافت کرتا ہے مگر راوی اسے ابھی تک کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہے۔دراصل افسانہ نگارکو کالوبھنگی کی زندگی بالکل سپاٹ لگتی ہے اور سپاٹ زندگی پر اس کے مطابق کوئی افسانہ تحریر نہیں کیاجاسکتا۔کالو بھنگی اور اس کی زندگی کے حرکت وعمل پر روشنی ڈالتے ہوئے اس نے لکھا ہے کہ،
’’آج تک کالو بھنگی اپنی پرانی جھاڑو لیے ، اپنے بڑے بڑے ننگے گھٹنے لیے ، اپنے پھٹے پرانے کھردرے اور بدصورت پائوں لیے ،اپنی سوکھی ٹانگوں پر ابھری دریدیں لیے ،اپنے کولہوں کی ابھری ابھری ہڈیاں لیے اپنے بھوکے پیٹ اور اس کی خشک جلد کی سیاہ سلوٹیں لیے ، اپنے مرجھائے ہوئے سینے پر گرد آلو دبالوں کی جھاڑیاں لیے اپنے سکڑے سکڑے ہونٹوں،پھیلے پھیلے نتھنوں،جھریوںوالے گالوں اور اپنی آنکھوںکے نیم تاریک گڑھوں کے اوپر ننگی چندیا ابھارے میرے ذہن کے کونے میں کھڑاہے۔‘‘
اب جس ادب میں عیش وعشرت ، جاہ وحشمت، آرائش وزیبائش،محبت، ناز وادا، وغیرہ ہوں وہاں بھلا کالو بھنگی کے مٹی میں لپٹے سوکھے اور ہڈیاں نکلے ہوے جسم کی گندگی وآلودگی پر کیا لکھاجائے اور کون اس میں دلچسپی لے گا۔دراصل کالو بھنگی کی شکل وصورت ہندوستانی دلتوں کی حالتِ زار کو بیان کرتی ہے۔مثلاً جھاڑو کادلتوںکی روزی روٹی اور سب سے بڑا ذریعۂ معاش تھااور ابھی بھی کچھ حد تک ہے۔انھیں دوسرے میدانوںمیں جگہ نہیں دی جاتی ہے اور جولوگ اپنی محنت کی بدولت وہاں پہنچتے بھی ہیں تو ابھی بھی ان کی قابلیت پر شک کی نظروں سے دیکھا جاتاہے۔ننگے گھٹنے ا س بات کی علامت ہیں کہ ابھی بھی دلتوں کو تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا میسّر نہیں ہوپایا ہے۔وہ پھٹے ہوئے چیتھڑوں سے اپنا تن ڈھانکنے کو مجبور ہیں۔پھٹے ہوئے کھردرے اور بد ہیئت پائوں اس کی تگ ودو اور پیروں کے ننگے ہونے کی کہانی بیان کرتے ہیں۔اس کی غربت وافلاس ، بے بسی وبے کسی کی داستان بیان کرتے ہیں۔،سوکھی ٹانگوں پر ابھری دریدیں، کولہوں کی ابھری ہڈیاں اور بھوکا پیٹ، خشک جلد ،سیاہ سلوٹیں،مرجھایا سینہ، سکڑے ہونٹ ، جھریوں والے گال، آنکھوں کے گڈھے، ننگی چندیا سب کچھ یعنی اس کا سراپا اس کی داستان غربت بیان کرتا ہے۔یہ اس کی بھوک،پیاس،اذیت، نفرت، کراہیت وغیرہ سبھی کچھ بیان کرتے ہیں۔کالو بھنگی کاافسانہ نگار کے ذہن کے کونے میں کھڑا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان کے بدلتے سیاسی، سماجی، تہذیبی، معاشی اور معاشرتی منظر نامے میں دلتوں کی اہمیت کو محسوس کیا جانے لگا ہے۔اس اہمیت کی بھی وجہیں تھیں کہ ایک طرف ترقی پسند تحریک اور دوسری طرف آزادی کی آمد آمد ، آزادی کے بعد ہندوستان کا جمہوری نظام، اس جمہوری نظام میں دلتوں کی حق وحقوق ، ان میں آئی بیداری، ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر کی تحریک گاندھی جی کا ہندوستانی سیاست پر اثر اور ان کی نام نہاد چھوا چھوت دور کرنے کا عزم وغیرہ اسباب کی بنا پر دلتوں کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ایسے میں بھلا اردو ادیب کیسے پیچھے رہتا۔یہی اسباب ہیں کہ جو طبقہ کبھی ان کے اذہان کا حصہ نہیں بن پارہا تھا، ان کی حسیت کے ’معیار‘ پر کھرا نہیں اتر رہا تھا، وہی اب ان کے ذہن کے کونے میں(مرکز میں نہیں)ہی جگہ بنانے میں کامیاب رہا۔پھر اردو کی ادبی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کرداروںکی تازگی، ان کی ڈرامائیت، حسن وجمال، خوبصورت تخیلی ہیولے، اساطیری عناصر کو بیان کرتے ہیں کہ وہ آئے اور اپنی چمک دمک بکھیر کر چلے گئے اور ان سب سے کالوبھنگی واقف ہے۔ اس سے کوئی بھی راز پوشیدہ نہیں ہے مگر پھر بھی وہ بدستور اپی جھاڑو سنبھالے اسی طرح کھڑا ہے۔کالوبھنگی کا اسی طرح کھڑا ہونا ، اس کی قوتِ ارادی اور مستحکم جذبے کی عکاسی کرتا ہے کہ جب تک اس پر کہانی نہیں لکھی جائے گی وہ اسی طرح کھڑا رہے گا،جھاڑو کے ساتھ۔وہ سماج کے ہر نیک وبد پہلو سے واقف ہے، ہر کردارسے ۔جیسا کہ راوی کہتا ہے :
’’بڑھاپے اور موت تک ۔اس نے ہر اجنبی کو اس گھر کے دروازے کے اندر جھانکتے دیکھاہے۔اور اسے اندر آتے ہوئے دیکھ کر اس ے لیے راستہ صاف کردیاہے۔وہ خود پرے ہٹ گیاہے ۔ایک بھنگی کی طرح الگ ہٹ کے کھڑا ہوگیاہے۔حتیٰ کہ داستان شروع ہوکر ختم بھی ہوگئی ہے۔حتیٰ کہ کردار اور تماشائی دونوں رخصت ہوگئے ہیں۔لیکن کالو بھنگی اس کے بعد بھی وہیں کھڑا ہے۔اب صرف ایک قدم اس نے اور آگے بڑھالیا۔اور ذہن کے مرکز میں آگیاہے۔‘‘
افسانہ نگار یعنی راوی کا یہ کہنا کہ ’ایک بھنگی کی طرح ہٹ کر کھڑا ہوگیا ہے۔‘‘ اس ظالم روایت کی طرف اشارہ کرتاہے جس کے تحت انھیں راہ چلنے پر بندش لگادی گئی ہے۔ان کے پیروںمیں جھاڑو باندھ دی گئی تھی کہ کہیں ان کے پیروں کے نشان راستے پر نہ پڑجائیں ،نہیں تو اونچی ذات والے ’ناپاک‘ ہوجائیں گے۔جہالت اور استحصال پر مبنی یہ فرسودہ اورذلیل روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے جسے پہلے تو زور زبردستی لادا گیا اور اسی لیے بعد میں دلتوں میں احساسِ کمتری اور پھر اس کے بعد یہ ان کے ذہن میں سرایت کرگئی۔رفتہ رفتہ انھیں اس بات کاا حساس ہونا ہی بند ہوگیا کہ یہ ناانصافی ہے ، استحصال ہے، غیر انصافی ہے۔اب کالو بھنگی کا ایک قدم آگے بڑھ کر افسانہ نگار کے ذہن میں جگہ بنالینا اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ بھلے ہی اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ آئی ہو مگر حالات ضرور تبدیل ہوگئے ہیں۔انھیں تبدیل شدہ حالات کی بنا پر ہی لاکھ ٹالنے کے باوجود افسانہ نگار کالو بھنگی پر افسانہ لکھنے کو مجبور ہوا۔کالو بھنگی کے متعلق لکھتاہے:
’’میں سات برس کا تھا جب میں نے کالو بھنگی کو پہلی بار دیکھا۔اس کے بیس برس بعد جب وہ مرا میں نے اسے اسی حالت میں دیکھا جس میں اسے پہلی بار دیکھا تھا ۔کہیں کوئی فرق نہ تھا، وہی گھٹنے، وہی پائوں، وہی رنگت، وہی چہرہ، وہی چندیا، وہی ٹوٹے ہوئے دانت، وہی جھاڑو جو ایسا معلوم ہوتا تھا ماں کے پیٹ ہی سے اٹھائے چلا آرہاہے۔کالوبھنگی کی جھاڑو اس کے جسم کا ہی ایک حصہ معلوم ہوتی تھی۔‘‘
کالو بھنگی کی زندگی میں کسی تبدیلی کا وقوع پذیر نہ ہونا ہی ان کی زندگی کے انجماد کو بیان کرتاہے۔جھاڑو کالوبھنگی کی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے۔جھاڑو کے بغیر اس کا تخیل اور تصور ہی ناممکن ہے۔اس طبقے کے لوگوںکی زندگی کے ’مقصد‘ کی ابتدا اور انتہا ہی جھاڑو پر ہوتی ہے۔وہ ان کے پیٹ بھرنے اور روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔گھر سے لے کر باہر تک صاف صفائی کی ذمہ داری اسی طبقے کی ہوتی ہے۔راوی مختصراً اپنے ادبی سفر کا بھی ذکر کرتاہے کہ’ جب وہ ان داتا، آنگی، بالکونی ، ہم وحشی ہیں تحریر کرکے برفانی کے رومانی مناظر اور رومانیت سے آگے کا سفر طے کررہا تھا تو اس وقت بھی کالو بھنگی اس کے ذہن کے دروازے پر کھڑا تھا‘گویا دلت اور دلت مسائل تو ہندوستان میں زمانہ قدیم سے موجود رہے ہیں مگر ان سے بے اعتنائی برتی گئی۔آج جب وہ ’ذہن کے دروازے‘ پرکھڑا ہوکر اپنی کہانی لکھنے کو مجبور کررہا ہے تو اس کی داستان حیات وکیفیات لکھنا پڑا ۔پورے افسانے میں افسانہ نگار بار بار یہ سوال قائم کرتاہے کہ کالوبھنگی کے متعلق لکھاکیاجاسکتاہے۔یہ کیفیت صرف افسانہ نگار کی ہی نہیں ہے بلکہ اردو کی پوری ادبی دنیا اسی ’فکر‘ کی شکار تھی اور ابھی بھی ہے۔
اس افسانے میں کالو بھنگی کے ذریعے افسانہ نگار نے دلتوں کی مختصر تاریخ بھی رقم کی ہے۔کالوبھنگی کے ماں باپ، اس کے آباواجدادکا بھی اسی پیشے سے منسلک ہونا اور وہی پیشہ اسے وراثت میں ملنا ،دلتوںکی تاریخ کو ہی توعیاں کرتاہے۔اس کے آباواجداد سیکڑوں سال سے یہاں رہتے آئے تھے اور اسی لیے وہی ہندوستان کے اصل باشندے ہیں۔باقی سب تو باہر سے ’وارد‘ ہوئے ہیں۔جو حالتِ زار کالوبھنگی کی ہے وہی ہندوستان کے کروڑوں دلتوں کی آج بھی ہے۔ان کی زندگی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔وہ بالکل کالو بھنگی کی حالت میں ہی زندگی بسرتو کر رہے ہیںمگر ’بشر‘ کی طرح نہیں۔ان کی زندگی میں کوئی خوشی نہیں، کوئی امنگ نہیں، کوئی رنگ نہیںکوئی، کوئی جوش نہیں ، کوئی ولولہ نہیں ۔بالکل بے کیف ، بے رنگ، پھیکی سی زندگی۔گویااس زندگی میں سے ’زندگی‘ ہی مفقود ہے۔زندگی تو برائے نام ہی ہے۔وہ نادار لوگ بس زندگی کو اسی طرح جئے چلے جارہے ہیں جس طرح زندگی انھیں سکھاتی ہے۔ان کا زندگی پر کوئی زور نہیں بلکہ زندگی کا ان پر زور ہے۔زندگی انھیں جس راہ پر لے جانا چاہتی ہے، وہ صُمٌّ بُکمٌ اسی راہ پر چل پڑتے ہیں۔زندگی سے نہ کوئی سوال کرتے ہیں نہ ہی جواب کے متوقع ہوتے ہیں۔
افسانہ نگار کے مطابق کالو بھنگی کو جانوروں سے بہت لگائو تھا۔دراصل اگر ہندوستانی تاریخ میں دلتوں کی حالت کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان پر اس قدر سخت پابندیاں لگائی گئیں تھیں کہ ان کی زندگی بھی جانوروں جیسی ہی ہوگئی تھی ۔کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ جانوروں سے بھی بدترزندگی۔چونکہ ہمارے سماج میں ’انسان نما درندے‘ اس قدر وافر مقدار میں موجود ہیں کہ کالوبھنگی کو جانوروںکے علاوہ کسی دوسرے سے دوستی اورانس نہیں ہوسکتاہے۔افسانہ نگار کالوبھنگی، گائے اور بکری میں مماثلت بھی تلاش کرلیتا ہے۔ جب وہ گائے اور بکری کو چرانے لے جاتاہے تو :
’’جنگل میں راستہ میں وہ انھیں بالکل کھلا چھوڑدیتا تھا،لیکن پھر بھی گائے اور بکری دونوں اس کے ساتھ قدم سے قدم ملائے چلے آتے تھے۔گویاتین دوست سیر کرنے کے لیے نکلے ہیں۔راستہ میں گائے نے سبزگھاس دیکھ کے منھ ماراتو بکری بھی جھاڑی سے پتیاں کھانے لگتی اور کالو بھنگی ہے کہ سنبھلوے توڑ توڑ کے کھارہاہے اور ان سے بھی برابر باتیں کیے جارہاہے۔اور وہ دونوں جانور بھی کبھی غرّا کبھی کان پھڑاپھڑاکر کبھی پائوں ہلاکر،کبھی دم دباکر ، کبھی ناچ کر کبھی گاکر، ہر طرح سے اس کی گفتگو میں ضرورشریک ہورہے ہیں ۔اپنی سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ کیا باتیں کرتے تھے۔پھر چند لمحوں کے بعد کالو بھنگی آگے چلنے لگتاتو گائے بھی چرنا چھوڑدیتی اور بکری بھی جھاڑی سے پرے ہٹ جاتی او رکالو بھنگی کے ساتھ ساتھ چلنے لگتی۔آگے کہیں چھوٹی سی ندی آتی یا کوئی ننھا ننھا سا چشمہ تو کالو بھنگی وہیں بیٹھ جاتا بلکہ لیٹ کر وہیں چشمے کی سطح سے اپنے ہونٹ ملادیتا اور جانوروںکی طرح پانی پینے لگتا۔اوراسی طرح وہ دونوں جانور بھی پانی پینے لگتے۔کیونکہ بیچارے انسان تو نہیں تھے کہ اوک سے پی سکتے۔اس کے بعد اگر کالو بھنگی سبزے پر لیٹ جاتا تو بکری بھی اس کی ٹانگوں کے پاس اپنی ٹانگیں سکیڑ کے دعائیہ اندازمیں بیٹھ جاتی اور گائے تو اس انداز کے قریب ہوبیٹھتی کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا کہ وہ کالو بھنگی کی بیوی ہے او رابھی ابھی کھانا پکا کے فارغ ہوئی ہے۔اس کی ہر نگاہ میں اور چہرے کے ہر اتار چڑھائو میں اک سکون آمیز گرہستی انداز جھلکنے لگتا اور جب وہ جگالی کرنے لگتی تو مجھے معلوم ہوتا گویا کوئی بڑی سگھڑ بیوی کروشیا لیے سوزن کاری میں مصروف ہے اورکالو بھنگی کے لیے سوئیٹر بن رہی ہے۔‘‘
چونکہ اس کا کوئی دوست انسان نہیں ہے ،اس لئے وہ’کبھی گائے سے ‘ ،’بکری سے ‘ کتے سے اور کبھی کبھی توبے جا ن بھُٹّے سے بھی باتیں کرتا ہے۔اس کا کوئی رشتے دار نہیں ہے، اسی لئے افسانہ نگار کبھی گائے کو اس کی بیوی بتاتا ہے تو کبھی بھٹے کو اس کا بھائی۔یہی حال تو ہمارے سماج میں دلتوں کا ہے۔خیر اب تو تھوڑی بہت بیداری آچکی ہے مگر پھر بھی ابھی بھی دلتوں کو اسی نظریے سے سماج دیکھتا ہے۔اسی نظریے کو افسانہ نگار نے پیش کیاہے۔یہ پہلو بحث طلب ہے کہ کالوبھنگی کو جانوروں کے برابر لاکر کھڑا کردیا یا جانوروں کو کالوبھنگی کے۔بہرحال افسانہ نگار ایک اور طرف اشارہ کرتاہے ۔وہ ہے اس کی بے لوث محبت اور محنت ۔اسے کالو بھنگی کی خوبی کہئے کہ’ نہ ستائش کی تمنا ہے اور نہ صلے کی پرواہ‘۔
افسانے کا ایک اور غورطلب پہلو یہ ہے کہ افسانہ نگار کی زندگی میں تو تبدیلیاں آتی ہیں مگر کالو بھنگی کی زندگی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔وہ بالکل اسی طرح سپاٹ اور بے کیف زندگی بسر کرتا ہے۔وہی آٹھ روپئے کی زندگی جس میں آٹا، تمباکو، چائے ، گڑ، مصالحہ اور ایک روپیہ بنئے کا ۔پورے آٹھ روئیے کا حساب اور اس کے سواکچھ نہیں۔یوں تو افسانہ نگار کے سوالوں کے جواب پڑھنے پر اس کی کسی خواہش کا ا ندازہ نہیںہوتا سوائے اس کے کہ اگر اس کی تنخواہ ایک روپیہ بڑھ جائے تو وہ گھی لگاکر پراٹھے کھائے۔
یہ افسانہ چھواچھوت کی تفریق کو بھی زیر بحث لاتاہے۔افسانہ نگار جب اس کے ہاتھ کا بھنا ہوا بھُٹّا جسے وہ بہت مزیدار بتاتاہے، کھالیا تھا تو اس کے والد نے اس کی پٹائی تو کی ہی ساتھ ہی کالو بھنگی کی بھی خوب پٹائی کی تھی۔جب کالو بھنگی اسپتال میں بھرتی ہوا تو اسے الگ وارڈ میں رکھاگیا۔چھوت کے ڈر کی وجہ سے دور سے ہی ا س کے حلق میں دوا ڈالتا تھا۔ چپراسی کھانا دور رکھ کر چلاجاتاتھا۔اس کا برتن کوئی نہیں صاف کرتا تھا۔وہ خود اپنا بول وبزار (پائخانہ پیشاب)صاف کرتاتھا جبکہ عام دنوں میں مریضوں کا یہ کام کالوبھنگی ہی کرتا تھا۔یہ واقعات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس کی کوئی اہمیت اس معاشرے میں نہیں ہے۔جب کالوبھنگی کا ’انتقال‘(انتقال لفظ قصداً استعمال کیا گیا ہے اگر چہ یہ’ شریف‘ لوگ دلتوںکے لیے ’مرنا،لفظ استعمال کرتے ہیں) ہوا تو اس روز کوئی غیر معمولی سرگرمی نظرنہیں آئی۔شاید کیا یقیناً وہ کسی کے لیے ’اہم‘ نہیں تھا۔اگر وہ کسی کے لئے اہم ہوتا تو ضرور کچھ فرق پڑتا اور وہ افسوس کا اظہار کرتے۔مگر ایسا نہیں ہوا اگر فرق پڑاتو صرف دو ’جانوروں‘ پر یعنی ڈاکٹر صاحب کی گائے اور کمپونڈر صاحب کی بکری پر۔گویاجانوروںمیں انسانیت اور ’انسانوں‘ میں ’جانورپن‘ پیدا ہوگیا۔
افسانے کے آخری حصّے میں اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے افسانہ نگاراپنا نظریہ ٔ حیات پیش کرتا ہے۔وہ اپنے مطالعے اور مشاہدے کی بنا پر دلتوںکے درد پر، ان کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش اپنے تخیل میں کرتاہے۔وہ تصور جو دلتوں کی فلا ح وبہبود کا متلاشی اور حمایتی ہے۔ جو ہوانہیں ہے مگر ہوسکتاہے۔یہ خواہشات نہ صرف افسانہ نگار کی ہیں بلکہ خود دلتوںکی بھی ہیں جن کی تکمیل ہونی ضروری اور لازمی ہیں کیونکہ ان کے بغیر یہ معاشرہ’معاشرہ‘ کہلانے کا مستحق نہیں ہوگا۔وہ چاہتا ہے کہ ان کی زندگی کی غلاظت دورہو، ان کی کمزوریاں دور اور ان کی زندگی میں استحکام آئے، انھیں بھی تندرستی حاصل ہو، زندگی میں چمک دمک، آرائش وزیبائش ہو۔بدبو کی جگہ خوشبو ہو ، غم کی جگہ خوشی ہو، آہ وزاری کی جگہ مسکراہٹ وکھلکھلاہٹ ہو، خشکی اور بے کیفی کی جگہ عشق ومحبت ہو، غلیظ کپڑوںکی جگہ مصفّا لباس ہوں ۔انھیں باتوں کو افسانہ نگار نے یوں بیان کیاہے گویااسے محرومی سے نجات دلارہاہو۔
’’تویہ چاہتاہے کہ کوئی تیرے ہونٹوں میں رس ڈال دے، انھیں گویائی بخش دے۔تیری آنکھوں میں چمک پیدا کردے۔تیرے گالوں میں لہو بھردے۔تیری چندیا کوگھنے بالوں کی زلفیں عطا کردے۔تجھے اک مصفا لباس دے دے۔تیرے اردگرد ایک چھوٹی سی چار دیواری کھڑی کردے۔حسین مصفاپاکیزہ۔اس میں تیری بیوی راج کرے۔تیرے بچے قہقہے لگاتے پھریں۔‘‘
دراصل یہ انسانی خصلت ہے کہ وہ اسی چیز کی تلاش کرتا ہے جو اسے میسّرنہیں۔دلت بھی انھیں چیزوںکے متمنی ہیں جو ان کی زندگی سے مفقود ہیں۔افسانہ نگار کا یہ کہنا کہ ’میں ایک نئی کہانی گھڑ سکتاہوں‘ ایک نیا انسان نہیں گھڑ سکتا۔‘ دراصل یہ اس کی محدود استعداد کی طرف اشارہ کرتاہے ۔وہ جانتاہے کہ صرف اکیلے وہ دلتوںکی زندگی میں تبدیلی نہیں لاسکتاہے۔ ہاں، یہ ضرور ان کے جذبات اور کیفیات کی ترجمانی کرسکتاہے۔مگر پھر بھی وہ خودکو ناکافی گردانتاہے۔اس فعل نیک کے لئے وہ پورے سماج کو اکٹھا کرنا چاہتا ہے اور ان کی مدد کا متلاشی ہے ۔اسی لئے تو وہ کہتا ہے کہ :
’’اس کے لئے افسانہ نگار اور اس کا پڑھنے والا اور ڈاکٹر اور کمپونڈر اور بختیار اور گائوں کے پٹواری اور نمبردار اوربنئے اور دوکاندار اور حکام اور سیاست داں اور مزدور اورکھیتوں میں کام کرنے والے کسان پر شخص کی لاکھوں کروڑوں اربوں آدمیوں کی اکٹھی مدد چاہئے۔‘‘
افسانہ نگار کرشن چندر افسانے کے آخری حصّے میں دلتوں سے ا س بات کی توقع کرتے ہیں یا یوں کہیں کہ انھیں نصیحت دیتے ہیں کہ آپ اپنی مدد آپ کیجئے۔جھاڑو کو ہاتھ سے چھوڑدو۔ترقی کا راستہ اختیار کرو۔تعلیم حاصل کرو اور اپنے راستے خود ہموار کرو، ادب میں تبھی آپ کو جگہ مل سکتی ہے۔جب دلتوںکی زندگی آسودہ حال ہوگی تبھی ادیبوں اور شاعروں کی نگاہیں آپ پر پڑیں گی۔اگر ایسا نہیں ہوا تو ان ’دانشوروں‘ کی نظریں آپ کی طرف نہیں اٹھیں گی اور آپ بے اعتنائی کا شکار ہوتے رہیں گے۔اگر دلتوں کی ترقی نہ ہوئی تو ہندوستان ترقی نہیں کرسکے گا۔اسی لیے وہ اجتماعی کوششوںپر زیادہ زور یتے ہیں:
’’جب تک ہم سب مل کر ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے۔یہ کام نہ ہوگا۔اور تو اسی طرح اپنی جھاڑولیے میرے ذہن کے دروازے پر کھڑا رہے گا اور میں کوئی عظیم افسانہ نہ لکھ سکو ں گا۔جس میں انسانی روح کی مکمل مسرت جھلک اٹھے۔‘‘
افسانہ نگار کا خیال ہے کہ جب تک دلتوں کے ہاتھ سے جھاڑونہیں چھوٹے گی تب تک ان کی زندگی میں مسرتوں کی آمد نہیں ہوگی۔ان کی زندگی میں وہ خوشیاں ، وہ رمق شامل نہیں ہوپائیں گی جن کی ایک ’زندگی‘ مستحق ہوتی ہے۔اسی لئے وہ انسانوں کی مدد تو مانگے ہیں مگر وہ اس سے کہیں زیادہ اہمیت ’وقت‘ کو دیتے ہیں۔ ایک ’مستقبل شناس‘ یا ’نجومی‘ کی طرح یہ کہتے ہیں:
’’شاید وہ دن کبھی آجائے کہ کوئی تجھ سے تیری جھاڑو چھڑوالے اور تیرے ہاتھوں کونرمی سے تھام کر تجھے قوس وقزح کے اس پار لے جائے۔‘‘
٭٭٭
ڈاکٹر متھن کمار،
اسسٹنٹ پروفیسر،
شعبۂ اردو ، دہلی یونیورسٹی، دہلی
Mob:8010492073
Email; mithunjnu@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!