اقبال اور تصوف
اقبال کا تصوف کے ساتھ کیا رشتہ ہے ؟ یہ ناقدین اقبال کے یہاں ایک نزاعی مسئلہ رہا ہے ۔ اس سلسلے میں افراط و تفریط سے کام لیتے ہوئے ناقدین نے عجیب و غریب رائے دی ہے ۔ اس بحث کی ابتدا اقبال کی زندگی ہی میں شروع ہوچکی تھی۔ اسرار خودی میں اقبال نے حافظ پر جو تنقید کی اس سے ایوان تصوف میں زلزلہ برپا ہوگیا۔ اسرار خودی پر اقبال کی حمایت اور مخالت میں بہت کچھ لکھا گیا۔ یہیں سے اقبال کے بارے میں عام رائے یہ قائم کرلی گئی کہ اقبال تصوف کے خلاف ہیں۔ مگر کیا واقعی بات ایسی ہی ہے ؟
اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ تصوف کیا ہے ؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟
تصوف کا لفظ قرآن و حدیث اوراس زمانہ کے ادب میں نہیں ملتا ہے ۔ خیر القرون کا زمانہ جس کو کہا گیا اس دور تک کوئی صوفی نہیں ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علما کی ایک بڑی تعداد نے تصوف کو ایک عجمی پودا قرار دیا ہے ۔ تصوف کی جگہ شریعت میں دو لفظ ملتے ہیں احسان اور تزکیہ۔ جو لوگ مانتے ہیں کہ تصوف اسلام سے باہر کی چیز نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ تصوف کی بیناد یہی احسان اور تزکیہ نفس ہے ۔
تصوف کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ یہ صفو سے مشتق ہے ۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ تصوف کا لفظ اہل صفہ سے لیا گیا ہے لیکن عربی زبان کے قواعد کی رو سے صحیح اور درست بات یہ ہے کہ صوفی لفظ صوف سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی اون کے ہیں۔ چونکہ صوفیا عام طور پر نرم ونازک لباس سے اجتناب کرتے تھے اور اونی لباس زیب تن کرتے تھے اس وجہ سے انہیں صوفی کہا جانے لگا۔
مادہ اشتقاق کی طرح تصوف کی تعریف اور اس کی ہیئت کے بارے میں میں مختلف آرا ٔ ملتی ہیں،
ابومحمد الجریری کے نزدیک تصوف اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے اور اخلاق رذیلہ کو ترک کرنے کا نام ہے ۔
ابوحفص کے نزدیک تصوف ایک باادب زندگی گذارنے کا نام ہے ۔ ہر وقت ہر حال اور ہر مقام کا ادب جدا جدا ہے ۔
حضرت جنید بغدادی کی رائے میں توزف حق تعالی کے ساتھ کسی غرض کے بغیر تعلق رکھنے کانام ہے ۔ انہی کا ایک دوسرا قول ہے ’’ صوفی زمین کی طرح ہے کہ اس پر گندگی ہر قسم کی ڈالی جاتی ہے مگر وہ حرکت نہیں کرتی۔‘‘(دیکھیں: اقبال اور تصوف ، اٰل احمد سرور )
اگر تصوف وہی ہے جس کو ابھی بیان کیا گیا تو اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی یہ سبھی چیزیں وہیں ہیں جو تزکیہ اور احسان کے دائرے میں آتی ہیں۔ ابتدا میں صوفیا صفائے باطن کے لئے اسی راستے پر گامزن رہے ۔ اس کے بعد صوفیا کا ایک گروہ ایسا پیدا ہوا جس نے شریعت کو ظاہر اور باطن میں تقسیم کردیا۔ شرعی امور کو ظاہر کا نام دے کر اس کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا اپنے آپ کو شریعت سے بالاتر سمجھنے کا رجحان پیدا ہوا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تقریبا سبھی مذاہب میں تصوف کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تصوف میں اہل ہند نے جتنے تجربے کیے ہیں اتنے عیسائی راہبوں کے علاوہ کسی نے نہیں کئے ۔ مسلم صوفیا نے بغیر کسی تمیز کے ہر وادی سے خوشہ چینی کرنی شروع کردی۔ اس کے نتیجہ میں صرف نام اسلامی رہ گیا ۔ تصوف کے اصول و قاعدے غیر اقوام سے بعینہ ان کے یہاں چلے آئے ۔
اقبال اور تصوف کے رشتے کو سمجھنے کے لئے اقبال کے خطوط ایک اہم ماخذ ہیں۔ ان خطوط میں اقبال نے تصوف کے بارے میں اپنے نظریئے کو واضح کیا ہے ۔ ایک خط میں وہ دوٹوک کہتے ہیں۔
’’ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تصوف وجودی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب وہوا میں پرورش پائی ہے ۔ ‘‘( اقبال نامہ ص ۳۸ ، ۳۹)
اپنے ایک خط میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ میرے نزدیک یہ تعلیم قضا غیر اسلامی ہے اور قران کریم کے فلسفے سے اسے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ تصوف کی عمارت اسی ایرانی بیہودگی پر تعمیر کی گئی‘‘ (مطالعات و مکاتیب علامہ اقبال ص ۲۲۹ مورخہ ۱۹ جنوری ۱۹۱۶)
اقبال کہتے ہیں:
تمدن، تصوف، شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
یہاں پر تصوف کا ذکر شریعت اور کلام کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ ان میں سے کم ازکم شریعت تو عجم سے برآمد شدہ نہیں ہے ۔ اس کے باوجود اس کو تصوف کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جس طرح شریعت میں عجمی اثرات کی وجہ سے فقہی موشگافیوں نے اصل روح شریعت کو فنا کردیا اسی طرح تصوف عجمی اثرات کی وجہ سے اپنے اصل مقصد سے بہت دور چلی گئی ہے ۔ اور یہی تصوف ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا ہے :
ہے وہی شعر و تصوف اُس کے حق میں خوب تر
جو چھپادے اُس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
اقبال کے مذکورہ بالا آرا ٔ کا جائزہ لینے سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اقبال کو تصوف پر جو اعتراض ہے وہ یہ کہ اس کی اصل عجم سے ہے ۔ یہ اسلام میں باہر سے درآمد کی گئی ہے ۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے اس حقیقت کو تسلیم بھی کرلیں تو کیا صرف اس وجہ سے اقبال تصوف کے پورے سرمایے کو قلم زد کرنا چاہتے تھے کہ وہ اصلاً عجمی ہے ؟ نہیں، بلکہ اقبال کو تصوف سے اور بھی شکایتیں ہیں۔
اقبال حرکت و عمل کے پیغامبر ہیں۔ ان کا فلسفہ انسان کو جہد مسلسل کی تعلیم دیتا ہے ۔ اس وجہ سے وہ ہر اس فلسفہ اور تحریک کو قابل مذمت سمجھتے ہیں جو ان کی نظر میں اس راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اقبال ایک طرف صوفی کی قنوطیت پسندی اور بے عملی کی پر زور مذمت کرتے ہیں تو دوسری طرف ملا کی تقدیر پرستی کے کراماتی آہنگ کو لائق ملامت سمجھتے ہیں۔اقبال کا فلسفہ حیات ہے
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اﷲ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
جس کو منزل سے زیادہ طلب منزل کی جستجو پسند ہو کہ یہ حرکت و عمل کی نوید ہے ۔ اس کو خانقاہی نظام میں سکون کہاں مل سکتا ہے ؟ جو عمل کی جگہ توکل کی تعلیم دیتا ہے ۔
ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ داغ
اقبال کو طریق خانقاہی سے شکایت تھی کہ ان کی تعلیم سے قوم نکمی ہورہی ہے وہ کہتے ہیں:
شیخ مکتب سے کشاد دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
اقبال نے جب بغور اسلامی معاشرے کا جائزہ لیا تو پایا کہ اس کی ترقی میں سب سے بڑا روڑا تصوف ہے ۔ اس نے رضا و توکل کی خوشنما تاویلوں سے مسلمانوں کو نکما بنا دیا ہے ۔ چنانچہ اقبال نے اس پر رد کرتے ہوئے کہا:
فقیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور
کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگ دست بدست
تسلیم و رضا کی غلط تاویل کے خلاف وہ کہتے ہیں:
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا
اے پیر حرم رسم و رہ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سَحری کا
تقدیر پر بے جا بھروسے نے مسلمانوں کو بے عمل بنا دیا ۔ خانقاہی اسلام کے داعیوں نے مسلمانوں میں تقدیر کی من مانی تاویل کرکے اسلامی روح ختم کردیا ۔ اقبال ایسے لوگوں کو مخاطب کرتے ہیں:
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند
اسرار خودی کے سلسلے میں خواجہ حسن نظامی سے اقبال کی طویل خط وکتابت ہوئی تھی۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں۔
’’میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے ۔ اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی تیز ہوگیا تھا کیوں کہ یورپین فلسفہ بحیثیت مجموعی وحدۃ الوجود کی طرف رخ کرتا ہے ۔ مگر قرآن میں تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اور میں نے محض قران کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کردیا اور اس مقصد کے لئے مجھے اپنے فطری اور آبائی رجحانات کے ساتھ ایک خوفناک دماغی اور قلبی جہاد کرنا پڑا۔’’
اقبال کو اپنے صوفیانہ پس منظر کا اعتراف ہے انہیں تصوف ورثے میں ملا تھا۔ لیکن اسلام کے عمیق مطالعہ کے بعد انہوں نے اپنے قدیم خیال کو ترک کردیا۔ اس وجہ سے کہ وہ اپنے فلسفے کی بنیاد قران پر رکھتے ہیں۔ وہ مزید فرماتے ہیں:
ــ’’تصوف جومسلمانوں میں پیدا ہوا اور اس جگہ تصوف سے مراد میری ایرانی تصوف ہے اس نے ہر قدم کی رہبانیت سے فائدہ اٹھایا ہے اور ہر راہی تعلیم کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی ہے یہاں تک کہ قرمطی تحریک جس کا مقصد بھی بالآخر قیود شرعیہ اسلامیہ کو فنا کرنا تھا اور بعض صوفیا کی نسبت تاریخی شہادت موجود ہے کہ وہ اس تحریک سے تعلق رکھتے تھے ۔ ‘‘
(مکتوب بنام خواجہ حسن نظامی۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ )
اقبال کے یہ خطوط ان دنوں کے ہیں جب اقبال رموز بے خودی نظم کررہے تھے ۔ اور تصوف کی تاریخ پر بھی کام کررہے تھے ۔ اس وجہ سے تصوف کے علمی اور عملی دونوں پہلؤں پر ان کی نظر تھی۔ انہی ایام (۱۹۱۶ ) میں ایک مکتوب میں انہوں نے تصوف کے کارآمد عناصر کی تعریف بھی کی ہے ۔ اقبال لکھتے ہیں:
’’ تصوف کے ادبیات کا وہ حصہ جو اخلاق و عمل سے تعلق رکھتا ہے ، نہایت قابل قدر ہے ۔ کیونکہ اس کے پڑھنے سے طبیعت پر وسوزوگداز کی حالت طاری ہوتی ہے ۔ فلسفے کا حصہ محض بے کار ہے۔ اور بعض صورتوں میں میرے خیال میں قرآن کے مخالف ‘‘(مطالعات ص ۴۱، ۲۳۰)
اقبال تصوف کے فلسفیانہ مباحث کے مخالف تھے ۔ اخلاق وعمل والے حصے کے وہ قدرداں تھے ۔
اقبال کی شاعری کاایک بڑا حصہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جس کو ہم تصوف کے اسی اخلاق وعمل کی تعلیم قرار دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر تزکیہ نفس کے متعلق اقبال کا یہ شعر:
دل سوز سے خالی ہے نظر پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا، کہ تو بے باک نہیں ہے
جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے پوری مسلم قوم کو فقر و درویشی کی تعلیم دیتے ہیں:
مرا طریق امیری نہیں غریبی ہے
خودی نہ بیچ ،فقیری میں نام پیدا کر
اقبال کا یہ شعر اپنے اندر صوفیانہ افکار و خیالات کی مکمل ترجمانی کرتا ہے ۔:
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا ،نہ بن، اپنا تو بن
احسان کی وہ تعریف جو آنحضور نے بیان فرمائی ہے اس کی ترجمانی اقبال نے اپنے اس شعر میں کی ہے ۔
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی ،نہ صاحب کشاف
صوفیا کی تعلیم کا محور خودی کی نفی کرنا ہے وہ خودی کو خدا میں جذب کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ جبکہ اقبال کی تعلیم خودی کے اثبات پر مبنی ہے ۔ اور وہ خدا کو خودی میں جذب کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ اقبال پر بعض لوگوں نے یہ بھی اعتراض کیا کہ یہ کبر کی تعلیم ہے اور انسان کی خودی کو خدا بنا دیا گیا ہے ۔
خواجہ حسن نظامی کو لکھے ایک خط میں اقبال کہتے ہیں کہ میرے نزدیک گستن عین اسلام ہے اور پیوستن، رہبانیت یا ایرانی (غیر اسلامی ) تصوف ہے ، اور میں اسی غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔
اقبال تمام عبادت و ریاضت کا نتیجہ ،خودی کا اثبات قرار دیتے ہوئے ،صوفی سے مخاطب ہیں:
یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ،یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں ،تو کچھ بھی نہیں
روایتی تصوف صرف کرامات اور معجزات کی طلب اور اس کے اظہار تک محدود ہوکر رہ گئی تھی اس پر ردکرتے ہوئے اقبال نے اپنے اور صوفی کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا:
تری نگاہ یہی معجزات کی دنیا
مری نگاہ یہی حادثات کی دنیا
روایتی صوفیوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں:
رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز ِمُشتاقی
فسانہ ہائے کرامات ،رہ گئے باقی
اب حجرۂ صوفی میں ،وہ فقر نہیں باقی
خونِ دلِ شیراں ہو جس فقر کی دستاویز
سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بے زار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی
اس رد عمل سے ایک بات واضح ہے ، کہ اقبال تصوف کی اخلاقی قدروں کے قدردان تھے ۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک خط میں اس کا اظہار بھی کیا ہے ۔ اس قسم کے تصوف کی وہ آخری عمر تک قدر کرتے رہے ۔ اقبال اپنے آپ کو رومی کا مرید ہندی کہاکرتے تھے اس وجہ سے اقبال سے یہ بعید ہے کہ وہ تصوف کی ہر اچھی بری قدروں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں۔
اقبال کی نظر بہت وسیع تھی۔ انہوں نے مشرق و مغرب کے فلسفہ کو پڑھا تھا۔ بلا شبہہ وہ اردو کے سب زیادہ پڑھے لکھے شاعر تھے ۔ اقبال کے یہاں ردو قبول کا معیار ان کا فلسفہ حرکت وعمل اور فلسفہ خودی تھا۔ اس کے موافق عناصر مشرق و مغرب کے فلسفے میں جہاں بھی ملا اس کو قبول کیا اور مخالف عناصر کو رد کیا۔
جب اقبال ملا اور صوفی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور انہیں لنخ طعن کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد عام صوفی یا ملا نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ روایتی صوفی یا ملا ہے تو اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہے ۔ چنانچہ جہاں اقبال نے روایتی صوفی کو لائق ملامت گردانا ہے وہیں روح سے خالی مذہبیت پر وہ اسی طرح چوٹ کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے صوفی پر طنز کیا ہے ۔
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
حیدری فقر ہے ، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے ۔
اور جب تصوف روح اسلامی سے تہی دست ہوجائے تو اقبال ہی کے الفاظ میں:
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
شیر مردوں سے ہو اپیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
اقبال کارگاہیٔ ہستی سے نبرد آزما ہونے کے لئے عشق کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ عشق کی دولت سے محروم محض کتابی علم پر اکتفا کرنے والے طالب علم کے لئے اقبال دعا گو ہیں:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کے موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
اسی عشق کی دولت سے محرومی کی وجہ سے اقبال کی نظر میں صوفی و ملا دونوں لائق ملامت ہیں:
کیا صوفی وملا کو خبر میرے جنوں کی
ان کا سر دامن ابھی چاک نہیں ہے
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
اپنوں سے بیر رکھنا تونے بتوں سے سیکھا
واعظ کو سکھایا جنگ وجدل خدا نے
اقبال اور تصوف کے رشتے پر ہماری گفتگو ادھوری رہے گی اگر ہم وحدۃ الوجود کے بارے میں اقبال کی رائے معلوم نہ کرلیں۔ بد قسمتی سے جس طرح دین کو صرف نماز وروزہ تک محدود سمجھا جاتا ہے اسی طرح ہمارا طرز فکر تصوف کے بارے میں بھی ہے ۔ تصوف کا ذکر آتے ہی ذہن وحدۃ الوجود ، یا وحدۃ الشہود کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتا ہے اور اس کی تعلیمات پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔
مختصر لفظوں میں وحدۃ الوجود کو ہم یوں سمجھیں کہ کائنات میں موجود حقیقی صرف اﷲ تعالی ہے باقی جو کچھ بھی ہے خواہ وہ نباتات ہو یا جمادات یا حیوانات وہ اس کا عکس ہے ۔ جس کو بعض صوفیا وہم سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہ اہل تصوف کا عقیدہ ہے اس کی اور بھی تاویلات کی جاتی ہیں مگر عام طور پر یہی تاویل کی جاتی ہے جو میں نے ذکر کی۔ مولانا آزاد نے غبار خاطر میں لکھا ہے کہ وحدۃ الوجود کے عقیدے کا سب سے قدیم سرچشمہ ہندوستان ہے ۔ یہیں سے یہ عقیدہ دنیا کے دوسرے خطوں میں گیا۔
اقبال کی شاعری میں اسرار خودی سے پہلے ہمیں ایسے بہت سے اشعار ملتے ہیں جن میں اس عقیدے کی جھلک نظر آتی ہے ۔
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
ایک نظم بوئے گل میں یہ عقیدہ پوری شدت کے ساتھ کھل کر سامنے آتا ہے :
حسن ازل کی پیدا ،ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے ،غنچے میں وہ چٹک ہے
انداز گفتگو نے ،دھوکے دئے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل ،بو پھول کی چہک ہے
کثرت میں ہوچکا ہے ،وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے ،وہ پھول میں مہک ہے
اس کے علاوہ وحدۃ الوجود کا عقیدہ زہدو رندی، گل پز مردہ، تصویر درداور شمع جیسی نظموں میں واضح طور پر ملتا ہے ۔ اس انداز کی نظمیں ۱۹۱۰ تک کی شاعری میں ملتی ہیں۔ اس کے بعد اقبال کی شاعری کا وہ زمانہ آتا ہے جس میں انہوں نے اسرار خودی اور رموز بے خودی لکھی۔ اس کے اندر وحدۃ الوجود کے فلسفہ کے خلاف اقبال نے محاذ کھول دیا۔ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ صوفیا کو توحید اور وحدۃ الوجود کا مفہوم سمجھنے میں سخت غلطی ہوئی۔ یہ دونوں اصطلاحیں مترادف نہیں ہیں۔ پہلا مذہبی ہے دوسرے کا مفہوم خالص فلسفیانہ ہے ۔ توحید کی ضد کثرت نہیں، شرک ہے البتہ وحدۃ الوجود کی ضد کثرت ہے ۔
بعد میں اقبال کے یہاں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں ملتی ہے وہ اقبال جو ابن عربی کی کھلی تنقید وحدۃ الوجود کے فلسفہ کی وجہ سے کرتا ہے خود تھوڑے سے ردوبدل کے بعد اسی فلسفہ کی طرف مائل ہوجاتا ہے ۔ ۱۹۲۲ کے بعد کی شاعری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس میں وحدۃ الوجود کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے ۔ زبور عجم کی بہت سی غزلوں میں اس کی چھاپ ہے ۔گلشن راز جدید زبور عجم ہی کا ایک حصہ ہے ۔ یہ مثنوی اقبال نے شیخ محمود شیستری کی کتاب گلشن راز کے جواب میں لکھی ہے ۔ یہ کتاب تصوف کی دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔ اس میں تصوف سے متعلق پندرہ سوالوں کے جوابات ہیں۔ اقبال نے یہ مثنوی اس کے رد میں نہیں لکھی بلکہ ان ہی سوالات کے جوابات اپنے انداز میں دئے ہیں۔ اس کے سبھی مضامین دقیق فلسفیانہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آخری عمر میں اقبال کو وحدۃ الوجود کے ابن عربی اور شنکر اچاریہ کے نظریے میں فرق معلوم ہوا اور اقبال نے ابن عربی کے نظریے کو قبول کرلیا۔اس کو کیا کہا جائے ،اقبال کا تضاد یا کچھ اور؟ بہر حال اقبال کی پوری زندگی تلاش و جستجو سے عبارت ہے ۔ انہوں نے جب جس کو صحیح سمجھا اس کو اپنایا ۔ اگر انہیں کوئی چیز غلط معلوم ہوئی تو اس کی تردید کرنے میں بھی دیر نہیں کی۔
مجموعۂ اضداد ہے اقبال نہیں ہے
دل دفتر حکمت ہے طبعتب ِخفقانی
رندی سے بھی آگاہ شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی
ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واﷲ نہیں ہے
٭٭٭
“Iqbal aur tasawwuf” by Uzair Israeel, “Urdu Research Journal” ISSN 2348-3687, Vol. I, Issue II, page No 56-65.
Leave a Reply
1 Comment on "اقبال اور تصوف"
[…] اقبال اور تصوف← […]