ناول ’’کانچ کا بازی گر‘‘: تعارف وتفہیم
ناول کو زندگی کا رزمیہ کہا جاتا ہے اور ’کانچ کا بازی گر‘ ایک ایسے ہی رزمیے کا نام ہے ، جس میں زندگی کی شکست و ریخت اورانقلاب موجود ہے۔ اس ناول کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد اس میں انسانی زندگی کے المیے کی بے شمار پرتیں ایک ایک کرکے نمایاں ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس ناول کا موضوع جدید ہندوستان کی تاریخ کا ایسا عہد ہے جو بنی نوع انسان کی شکست و ریخت سے عبارت ہے۔ اس ناول کی ابتدائی قسطیں تواتر کے ساتھ رسالہ ’شب خون‘ میں ۱۹۷۵ میں شائع ہوئیں اور نومبر۔دسمبر ۱۹۸۸ء کے شمارے میں بھی اس کی آخری دو قسطیں شائع ہوئیں ، لیکن تقسیم ِ ملک کے ساتھ آنے والی ہندوستانی تاریخ کی سب سے بڑی افراتفری ، قتل وغارت گری، ہجرت ، انسانی بے کسی، عفت وعصمت ، معاش ومعیشت کی تباہی، انسانی لاشوں کی سودے بازی، سیاسی بازی گری، نام نہاد سیاسی مصلحت اور ذاتی مفادپرستی کی بنیاد پر ایک ہی ملک کھینچی جانے والی بٹوارے کی لکیر…… جیسے حادثوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ناول کا دورانیہ کا بہت وسیع ہے ، جو تقریباً تین دہائی سے بھی زیادہ وقت پر مشتمل ہے، اس میںماضی کی خونچکاں داستان کے ساتھ معاصر مسائل کو بھی برتا گیا ہے۔اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس پر صحافت کے دورانیہ کا دخل رہا ہے۔ رسالوں میں معاصر مسائل پر خامہ فرسائی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی لیے’ شب خون‘ میںقسط وار شائع ہونے کی وجہ سے لگتا ہے ناول نگار نے ناول کے موضوع کا رُخ کسی قدر موڑ دیا ہے۔ چنانچہ آزادی کے بعد ملک کے بٹوارے کے ساتھ پیدا ہونے والے سماجی وثقافتی اور سیاسی مسائل کو قلم بند کرنے کے ساتھ ساتھ اچانک ناول نگار کے قلم کا رُخ اسّی کی دہائی کے سلگتے ہوئے موضوع’ایمرجنسی‘ کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ جدیدیت کے زیر اثر لکھے جانے والے اس ناول میں علامتوں نے ابہام وغموض کی صورت پیدا کردی جس کی وجہ سے دیگر معاصر وغیر معاصر موضوعات کی کڑیاں ملانے کی گنجائش پیدا ہوگئی ۔ ناول نگار نے سماجی وسیاسی موضوعات کو کئی زاویوں سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ انہیں سماجی اور سیاسی بحران سے پیدا شدہ مسائل کی گتھیاں بھی سلجھانے کی کوشش گئی ہے۔
ناول نگار سماج اور اس کے بنیادی مسائل کا رمز شناس اور نباض ہوتا ہے۔ اس ناول کے تخلیق کار شفق نے تقسیم ملک کے سانحے سے لے کر ایمرجنسی اور اسّی کی دہائی کے اخیرتک کے پیش آمدہ مسائل کو ناول کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ تنقیدی مطالعے کے طورپر ہم اس ناول کے ان اہم گوشوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو بلاواسطہ یا بالواسطہ طورپر سماج اور سماجی مسائل سے متعلق ہیں۔
آزادی کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران، فرقہ وارانہ فسادات ، سیاسی مفادات کے حصول کے لیے باہمی رسہ کشی، خود غرض سیاسی قائدین کا بکھرتا ہوا اخلاقی مورال اور دن بدن غیر ہوتی فرد کی حالت…نے نئی نسل کو مفاد پرست، مصلحت کوش بلکہ خودپرست بنادیا۔ زندگی کو اجتماعی ہیئت میں دیکھنے کے بجائے انفرادی ہیئت کا عادی بنادیا ، جس کی وجہ سے عوام سے اجتماعی بیداری رُخصت ہونے لگی۔ مصیبت کے وقت ساتھ دینا، دوسروں کے دُکھ درد میں کام آنا، ظلم اور استحصال کے خلاف اجتماعیت کا تصور، متحد وہم آہنگ کا تفکروغیرہ معاشرتی خوبیاں تصور کی جاتی ہیں۔اس ناول میں یہ چیزیں ناپید نظر آتی ہیں، لیکن راوی عوام الناس کو متحد کرنے کی دہائی دیتا ہے،اور ہر فرد سے اس کی باتیں کرنے کوشش کرتا ہے۔
اس ناول میں معاشرتی بے حسی و بے ضمیری کو بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جو ایک خوف زدہ سماج کی تصویر پیش کرتی ہے۔ جیسے ناول میں ’’ایمبولینس‘‘ کی علامت جس کو ناول نگار لوگوں کو متحد کرنے اور ان کی ذہن سازی کرنے کے لیے تخلیق کیاہے۔ لوگ اس کی طرف پیش قدمی کرنے سے ڈرتے ہیں، جیسے کدال لانے کا بہانہ کرکے گھروں میں جاگھستے ہیں اوردوبارہ لوٹ کر نہیں آتے۔ اقتباس :
’’ وہ سب چلے گئے اورمیں ان کی واپسی کا انتظا کرتا رہا، مگر رات تک کوئی بھی لوٹ کر نہیں آیا۔ تو خود ان کے دروازوں پر گیا…… وہ تو دوپہر سے باہر ہیں۔ ابی کہہ رہے ہیں کہ کہہ دو ہم نہیں ہیں…… پاپا تو پکچر دیکھنے گئے ہیں‘‘۔ (کانچ کا بازی گر،ص 15)
چاہے تقسیم ملک کا سانحہ ہو یاایمرجنسی دونوں سانحوں میں سماجی بے غیرتی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں ہے، پڑوسی کے گھر میں لگی آگ بُجھانے کوئی نہیں آتا ، نتیجتاً آگ پھیلتی چلی جاتی ہے اور دوسروں کے گھربھی اس کے زد میں آجاتے ہیں اور سبھی مبتلائے آزمائش میں گھر جاتے ہیں، سب اپنے آشیانے کو اپنے سامنے اجڑتے اور دہکتے دیکھتے ہیں لیکن ان کے اندراحتجاج کی کوئی چنگاری نہیں دکھائی دیتی جسے شعلہ بننے کی اُمید کی جاسکے اور ظلم و بربریت کا سد باب ہو سکے ۔ اقتباس:
’’میری نظروں کے سامنے میرے مُنّے کی لاش ادھیڑ دی گئی اور اب میری بیوی کی لاش ادھیڑی جارہی ہے اور میں اپنی باری کا انتظار کررہا ہوں، گھڑی کی سوئی کے سطر کا انتظار ہے ۔ میرے ارد گرد ملبہ ہے۔ چپے چپے پر پھیلے ہوئے سانپ ہیں اور میرے قدموں تلے بہا ہوا میرے منے کا لہو اور نچی ہوئی گردن ۔ میں بالکل خاموش ہوں۔‘‘ (ناول کانچ کا بازی گر، ص22)
ناول نگار نے اپنے مذکورہ اقتباس میںسماجی بے حسی کی بڑی ہنرمندی سے عکاسی کی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے کام نہیں آتے، بلکہ سب سڑکوں پر گھسیٹی جانے والی لاشوں کا دردناک منظر ، لٹی ہوئی عصمتیں، معصوموں کی جلے کٹے جسم، مکانوں سے اٹھتی ہوئی آگ کے لپٹ اور دھوؤں کے مرغولے … سب کو دکھائی دیتے ہیں لیکن سب کے لب خاموش ہیں، زبانیں گنگ ہیں۔ شفق نے سماجی کیفیات خاص طور سے عوام کی داخلی وخارجی احوال نیز ان کے اجتماعی وانفرادی پہلوؤںکو اجاگر کرنے کی کس قدر کوشش کی ہے۔ انھوں نے ایک سماج کی عکاسی کی ہے جس میں اجتماعیت سے فرار ملتا ہے، فرد کے ٹوٹنے ، بکھرنے ، حالات کے شکست وریخت سے دوچار ہونے ، بھیڑ میں تنہائی کے احساس، قدروں کے انہدام ، خودی ، ذات کے کرب ، ظلم کے خلاف صدائے احتجاج نہ بلند کرنے کی صورتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
اس بات کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے ، کہ ناول نگار کو شکست وریخت ، قتل وغارت اور بکھراؤ کی عکاسی میں خاصی دلچسپی نظر آرہی ہے۔ جس کے تصورات پورے ناول میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ سماجی بکھراؤ شکست وریخت کی ایک نمایاں صورت ہے۔ تقسیم ملک اور ایمرجنسی کے سماجی بحران سے فرقہ وارانہ فسادات جنم لیتے ہیں، انسانیت کا خون ارزاں ہوجاتا ہے، خواتین کی عزت وناموس کو بٹہ لگ جاتا ہے، معیشت لولی لنگڑی ہوجاتی ہے، شیر خوار بچے بلکنے لگتے ہیں، دوشیزاؤں کا اغوا کیا جاتا ہے، ان کو ہوس وجنسی درندگی کا شکار بنایا جاتا ہے، جس سے پورا سماج ایک بڑے بکھراؤ کا شکار ہوتا ہے۔ سماج کے تانے بانے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ سماج دشمن عناصر دندناتے پھرتے ہیں، ان عناصر کو ناول نگار نے مختلف علامتوں، جیسے بھورے رنگ کا سانپ، سیاہ اژدہا، ڈراکیولا، عقاب، صفائی والا، بھیڑیا وغیرہ …کے طورپر پیش کیا ہے۔
ہندوستان میں سماجی نقطۂ نظر سے جب بات کرتے ہیں تو یہاں کی اقلیتوں اور ان کے سماجی کوائف سے متعلق گفتگو ناگزیر ہوجاتی ہے۔ شفق کے اس ناول کی امتیازی خوبی ہے کہ انھوں نے یہاں کی سب سے بڑی اقلیت مسلم قوم نیز ایمرجنسی کے وقت ظلم کا نشانہ بننے والی سِکھ اقلیت پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ تقسیم کے بعد کی صورت حال ہندوستان کی قوم مسلم اور ایمرجنسی کے بعد کی دھڑ پکڑ سِکھ اقلیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایمبولینس کی علامت وضع کرکے ناول نگار نے پولیسیا نظام اور سماجی استبداد پر کڑی تنقید کی ہے۔
سماجی سطح پر جہاں ناول نگار نے ایمرجنسی کے مسائل اٹھائے ہیں، ان میں فیملی پلاننگ کا جبری منصوبہ عوام کے لیے کافی پریشان کن تھا۔ ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ کا جادو خوب سر چڑھ کربولا۔ اس منصوبے کے تحت تمام سرکاری ملازمین کے لیے ضروری قرار دے دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کا دو بچوں کی ولادت کے بعد آپریشن کرالیں، تاکہ مزید بچے نہ پیدا ہوسکیں۔ اقتباس:
’’ میں نے عورتوں کے کان میں سرگوشی کی۔ یہ وہ سب نہیں جو آج تک تمہیں ملتا رہاتھا، یہ تمہارے اندر سے پھوٹنے والی روشنی کے سوتے بند کردے گااور پھر جب تم کچھ بننے کی خوشی میں گیت گارہی ہوں گی وہ آئے گا وہ تصور جسے تم نے ہی مختلف منزلوں کی صلیب سے بچایا اور وجود کی منزل سے ہمکنار کرایا تھا ، وہی تمہاری گردن پھوڑ دے گا‘‘۔ (ناول کانچ کا بازی گر، ص31)
عورت ایک اہم سماجی اکائی ہوتی ہے۔ اس ناول میں عورت کا کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ یہاں عورت کا کلیدی کردار ، راوی کی بیوی کی شکل میں نظر آتا ہے ۔ جو استحصال اور پھر قتل سے دوچار نظر آتی ہے۔ علاوہ ازیں پورے ناول میں عورتوں کی سماجی بے بسی اور مظلومیت کا رونا رویا گیا ہے۔
’’ پھر میری بیوی کی باری آئی ، بھیڑیا اس کا خون پیتا رہا اورمیں پوری قوت سے بھیڑیے پر حملہ کرتا رہا… اور جب چیختے چیختے میری بیوی کی آنکھیں بے نور ہوگئیں تو میں نے ہتھیار کی طرف دیکھا یہ زنگ آلود ہتھیار ، ان سے تو ایک سانپ بھی نہیں مرسکتا ‘‘۔ (ناول کانچ کا بازی گر، ص 21)
اس سے بڑی اور بے بسی کیا ہوسکتی ہے۔ اس میں ناول نگار نے ایک حساس فنکار ہونے کی حیثیت سے ظلم وبربریت کے خلاف آواز اٹھائی، وہ ظلم جو عورتوں کے ساتھ بھی روا رکھاگیا ہے ۔ لیکن وقت کا بہاؤ ہی ایسا تھا جس میں ساری کوششیں بہہ گئیں۔ راوی کے ہتھیار سے مراد فن کار کا قلم ہے، لیکن اس کا کارگر نہ ہونا، اس کی تحریر کے بے اثر یا ناکامی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
فیملی پلاننگ کا جبری منصوبہ بھی عورتوں کی بے بسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تقسیم کے سانحہ میں سب سے زیادہ مظلومیت کا احساس شاید عورتوں ہی کو ہوا ہوگا۔ ان کے سامنے بھوک پیاس اور زخموں کی تاب نہ لاکر ان کے معصوموں کا دم توڑنا، افراتفری میں دوردراز کا پاپیادہ یا ان ٹرینوں میں سفر کرنا جس میں زادِ راہ اور تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوا کرتی تھی، پھر ان سے بڑا خطرہ ، ان جنسی درندوںکا تھا، جو ان کی عزت وناموس کی تاک میں لگے رہتے تھے اور ہجرت کے قافلوں کو لوٹ کر عورتوں پر ٹوٹ پڑتے اور ان کواپنی جنسی خواہشات کا شکار بناتے تھے۔ علاوہ ازیں اس وقت جو دنگے فسادات ہوئے ان میں دنگائی کا اصل نشانہ مال ودولت سے زیادہ خواتین پر ہوتی… اس پورے منظرنامہ میں خواتین کی مظلومیت کا احساس بڑھ جاتا ہے اور فن کار کا فنی حِسّ اپنے اوج ِ کمال پر پہنچ جاتا ہے۔
سیاسی طور پر اس ناول کا مطالعہ انتہائی اہم ہے۔ اس لیے کہ چاہے تقسیمِ ملک کا مسئلہ ہو یا ایمرجنسی کا، یہ خالص سیاسی مسائل تھے، جن سے سماجی مسائل پیدا ہوئے۔ اصلًا سیاسی بحران ہی ہے جو اس ناول کی تخلیق کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ان دونوں سیاسی مسائل کو جگہ دینا اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ مسائل کو بیانیہ کا رنگ دینا شفق کے فن کا کمال ہے۔ تفصیلی طور سے ہم اس ناول کے مختلف پہلوؤں کو نکال کر ان کاتجزیاتی مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر ناول نگار نے تقسیمِ ملک اور ایمرجنسی کے نتیجے میں پیش آمدہ صورت حال کو کہانی کا جامہ پہنایا ہے۔ ان دونوں سیاسی واقعات کے نتیجے میں کون کون سے ذیلی واقعات کس کس طرح رونما ہوئے، جمہوریت کی آڑ میں کیسے کیسے غیر جمہوری کھیل کھیلے گئے، یہاں کی دو اہم اقلیتیں: مسلم اور سکھ کے ساتھ کس قسم کے سلوک کیے گیے اور یہاں کس طرح کی فضا تیار کی گئی، جس سے بقائے باہم کا تصور کس طرح دھند کا شکار ہوا …… اس پورے نقطۂ نظر کو بڑی ہنرمندی سے برتا گیا ہے۔ اسی وجہ سے شفق کے اس ناول کے بارے میں رضوان احمد لکھتے ہیں :
’’ … یہ ہمارے عہد کی المناک داستان ہی نہیں بلکہ ایک قیمتی دستاویز بھی ہے جسے شفق نے ناول کا روپ دے دیا ہے۔ اور آنے والا مؤرخ داستان ضرور لکھے گا لیکن شفق کے انداز میں نہیں لکھ سکتا ۔ اس میں ہماری راہوں میں آنے والی دشواریوں کا ذکر ہے ہماری ذہنی کرب اور داخلی مشکلات کا بیا ن ہے…‘‘۔ (ماہنامہ سہیل ، گیا، جلد 44، شمارہ 6-7، جون جولائی 1983، بعنوان شفق کا آرٹ اور کانچ کا بازی گر،ص 31)
اس طرح شفق نے اس ناول میں پرت در پرت کہانیوں اور سیاسی حقائق کی تہیں جمادی ہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے افسانوی تاریخ کا سرمایہ بن گئی ہیں۔تاریخ کے اس نازک موڑ پر پورے برصغیر میں سیاست دانوں کی سازش نے جو اتھل پتھل مچائی تھی شفق نے اس کو بڑے فنی حساسیت سے اجاگر کیا ہے۔
چوں کہ یہ ناول زمان ومکان اور تسلسل بیانی کا پابند نہیں ہے۔ اسی لیے ایمرجنسی کے بحران کو تقسیمِ ملک کے ساتھ آنے والی سیاسی ابتری سے جوڑ رکھا ہے۔ اندرا گاندھی نے اپنی سیاسی داداگیری اور ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ اور دارورسن کی روایت چل پڑی۔ اس ناول میں شفق نے ’ایمبولینس‘ کا استعارہ تخلیق کیا ہے۔ ایمرجنسی کے وقت ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ کب کس کو اٹھالیا جائے گا، گھروں پر رات کے وقت پولیس کا دبش دینا اور سوتے میں لوگوں کو خفیہ طور پر اٹھا کر انھیں لاپتہ کردینا عام ہوگیا تھا، ناول نگار نے پولیس کو صفائی والے اور اس داروگیرو کو صفائی کے عمل سے تعبیر کیا ہے، تاہم ان کی پہچان چھپا رکھی ہے، اس لیے کہ وہ سی آئی ڈی کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ اس لیے لوگ سدا خوف ودہشت کے عالم میں رہتے تھے۔ اور شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھادیتے اور دروازے مقفل کردیا کرتے ۔ اس کی عکاسی کرتے ہوئے ناول نگار کہتا ہے:
’’ نہ جانے وہ کون ہے جس نے صفائی کی مہم شروع کی ہے بس اچانک وہ آجاتا ہے ۔ گھر کے لوگ ایک ایک کرکے ایمبولینس میں سوار کرائے جاتے ہیں ، پھر دروازہ مقفل کردیا جاتا ہے، نہ جانے کب کیا کس کے دروازے پر وہ آجائے، ہم سب تو اپنی باری کے منتظر ہیں‘‘۔ (ناول کانچ کا بازی گر، ص13)
ناول نگار نے اپنی اس تخلیق کا نام کانچ کا بازی گر رکھا ہے کیونکہ بگڑنا یا ٹوٹنا ’کانچ‘ کا خاصہ ہے، اس کو بنانا کسی بازی گرہی کا کام ہوسکتا ہے، ورنہ کانچ کو جوڑنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں، یہ کسی فن کار کا ہی کمال ہوسکتا ہے۔ بعینہ یہ ہندوستان کے اس عہد کی تاریخ ہے جس میں اس کو استقرارِ کامل نہیں رہا ۔ سیاسی اور سماجی نیز ثقافتی سطح پر اس میں نت نئی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں اور وقت کا فن کار ساحل پر کھڑے اس کا مشاہدہ کررہا تھا، ان بدلتے حالات کو تحریر کا جامہ پہنا رہا تھا تاکہ تاریخ کی اس امانت کو افسانوی انداز میں آنے والی نسلوں تک پہنچاسکے۔ کانچ کا بازی گر اسی امانت کا ایک حصہ ہے ، جس کو سمجھنے کے لیے آزادی کے بعد سے گزشتہ صدی کی اسّی کی دہائی تک کی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!