ساحرؔ لدھیانوی کی نظم نگاری
ہر بڑاتخلیق کار اپنی شاعری میں حیات و کائنات کی حقیقتوںاور سچائیوں کا اظہار کر کے اپنی شاعری کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت اور معنی خیز بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن دائمی کامیابی و کامرانی اسی شاعر و فنکار کے حصے میں آتی ہے جو فن کے اصول و آداب کو بھی ملحوظِ نظر رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے جب ہم اردو شعر و ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو کئی نام ہمارے ذہن کے دریچوںمیں دستک دینے لگتے ہیںاور ان ناموں میں ساحر لدھیانوی کا شامل ہونا لازمی امر بن جاتا ہے۔
شعر و شاعری کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ شاعری کیاہے؟ شعر و ادب کاسماج میںکیا مقام ہے اور اسے سماج کوکیا فائدہ ملتا ہے اور کیا شعر و ادب کے بغیر سماج اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں ،جن پر دنیا کی مختلف زبانوں کے ماہرین نے اپنے تاثرات و خیالات پیش کیے ہیں۔ بیشتر ناقدین ادب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں ہے کہ ادب سماج کے لیے ضروری ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہے کیونکہ ادب ایک سماج کو بہتر سے بہتر بنانے میں معاون و مدد گار ثابت ہو سکتا ہے ۔ سماج کے اندر پھیلے ہوئے ناسور کے لیے ادب نشتر کا کام کرتا ہے۔ اگرچہ افلاطون نے اپنی مثالی ریاست میں شاعروںکو کو ئی مقام و مرتبہ نہیںدیا اور انہیں ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔ اس کے تصور کے مطابق شاعر سماج کے لیے کوئی مفید کام نہیں کرتا اور لوگوںکو بھڑکانے، گمراہ کرنے والے مضامین بیان کرتا ہے ،جس سے امن و امان کو خطرہ لاحق رہتا ہے لیکن اس کے ردِعمل میں افلاطون کے شاگرد ارسطو نے اپنے استاد کے نظریے سے کسی حد تک اختلاف کیا اور شعر و شاعری کو سماج کے لیے سود مند بتایا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شاعر سماج کوصحیح راہ پر گامزن کرنے میں اپنا رول ضرور ادا کر سکتا ہے۔
اس طرح ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ واقعی ایک شاعر سماج کو بہتر دیکھنا چاہتا ہے اوریوں شاعر سماج کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں بشرط کہ وہ اپنے مرتبے و مقام کو پہچان سکے۔جب ہم اردو شعر و شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ شعرانے اپنا خونِ جگر صرف کر کے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر سماج کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اور ساحرؔ کا نام شعراکی اس فہرست میں اولین حیثیت کا حامل ہے۔
اردو ادب میں ساحرؔ لدھیانوی کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ساحرؔنے دنیائے شعر وادب میں فلموں کی وساطت سے قدم رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ساحرؔ لدھیانوی اپنے ایک دوست کی فلم ’آزادی کی راہ پر ‘گیت لکھنے کے لیے لاہور سے بمبئی آئے تو یہیں ان کے اندر کے فن کار نے اپنی آنکھیں کھولیں اور پھرانہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ساحرؔ نے نہ صرف فلمی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان اور شناخت بنائی بلکہ اردو کی ادبی دنیا میں بہترین نظمیں لکھ کربھی اپنا ایک الگ مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔
ساحرؔ لدھیانوی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ زمینداروں کی نمائندگی کرتا تھا۔ ایسے زمیندار خاندانوں میں غریب لوگوں کا استحصال کرنا برائی تصور نہیں کیا جاتا۔ ساحر فطرتاََ بڑے حساس تھے ۔ وہ چاہتے تو اپنی زندگی کسی بھی محنت اور تکلیف کے بغیراپنے اجداد کی طرح آرام سے گذار سکتے تھے لیکن ان کی طبیعت میں عیش و عشرت اور روپیئے پیسے کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ ان کے والد بذاتِ خود طبقاتی نظام کی نمائندگی کرتے تھے اور اسی باعث ان کی اپنے والد سے نہ بن سکی اور یہاں سے انہوں نے جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے خلاف اپنے احتجاج کا آغاز کیا۔ ان کو ہمیشہ اپنے خاندان کا سرمایہ داری نظام کی نمائندگی کرنے کا دکھ رہا ۔بقول مخمور سعیدی ساحر کو ایسا لگا کہ ان کے والد جس طبقاتی معاشرے کی نمائندگی کرتے تھے اس کے مخصوص آداب تھے اور یہ آداب غیر انسانی اور جھوٹے طبقاتی وقار پر مبنی تھے۔ (ساحرؔ لدھیانوی، ایک مطالعہ۔ مخمور سعیدی۔ص۳۰)۔ اپنی نظم ’فرار‘ میں وہ اپنے خاندان اور ماضی پر اپنی مایوسی اور بے چینی کا اظہار نہایت بے باکی سے کرتے ہیں:
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمنائوں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
میرے ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو
میرا ماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
مری امیدوں کا حاصل میری امیدوں کا صلہ
ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں
نظم : فرار ، ’تحریریں ‘
ساحرؔ لدھیانوی ادب کو زندگی و سماج کو بہتر بنانے کا ذریعے سمجھتے ہیں۔ وہ ادیب کو سماج سے الگ تصور نہیں کرتے۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ایک فنکار یا تخلیق کار کا اپنا کوئی الگ جہاں نہیں ہوتا وہ اسی سماج کا حصہ ہوتا ہے جس کا کہ پروردہ ہے۔ ادیب اور شاعر اپنے فن کی بنیاد سماجی مسائل پر رکھیںتو ان کا فن سماج اور زندگی کے لیے سود مند ضرور ثابت ہوگا۔ انہوں نے اپنی شاعر ی کی بنیاد بھی سماجی مسائل پر ہی رکھی اور اسے سماج کی بہتری کے لیے استعمال کیا۔ان کا یہ شعر اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اور بقول مخمورسعیدی یہ شعر ساحرؔ کے کلام کا دیباچہ قرار دیا جا سکتا ہے:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ساحرؔ لدھیانوی جیسا کہ پہلے ہی ذکر کیا گیا کہ وہ ایک بڑے زمین دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے اپنے خاندان کے استحصال پر مبنی نظام سے بغاوت کی۔ انہوں نے اپنے اجداد کی ظلم پروری اور دوسرے تمام زمین داروں کو اپنی نظم ’جاگیر‘میں آڑے ہاتھوں لے کر ان پر گہری چوٹ کی۔ جاگیردارانہ نظام سے ساحرؔ اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔ آزادی سے پہلے ملک کے تمام جاگیر داروں نے اپنی جاگیروں کے تحفظ اوربچائو کے لیے انگریزی حکومت کی کافی ستائش اور آئو بھگت کی۔ مذکورہ نظم میں ان ہی جاگیر داروں کی تصویر کھنچی گئی ہے جو انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کو جانورں کی طرح کام کراتے تھے اور بدلے میں انہیں مشکل سے دو وقت کی روٹی فراہم کرتے تھے۔
پھر اسی وادیٔ شاداب میں لوٹ آیا ہوں
جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
مرے احباب کے سامانِ تعیش کے لیے
شوخ سینے ہیں، جواں جسم حسیں باہیں ہیں
سبز کھیتوں میں دبکی ہوئی دوشیزائیں
ان کی شریانوں میں کس کس کا لہو جاری ہے
کس کی جرأت ہے کہ اس راز کی تشہیر کرے
سب کے لب پر مری ہیبت کا فسوں طاری ہے
یہ لہکتے ہوئے پودے یہ دمکتے ہوئے کھیت
پہلے اجداد کی جاگیر تھے اب میرے ہیں
یہ چراگاہ، یہ ریوڑ، یہ مویشی، یہ کسان
سب کے سب میرے ہیں، سب میرے ہیں
نظم، جاگیر
ساحرؔ لدھیانوی اوائل عمر سے ہی طبقاتی تقسیم کے شدید مخالف تھے۔ چاہے یہ تقسیم معاشی اعتبار سے ہو یا جنسی اعتبار سے۔وہ مر د اور عورت دونوں کی یکساں آزادی کو بھی سراہتے ہیں۔ ان کی نظر میں ایک عورت بھی مرد کے شانہ بشانہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ سکتی ہے۔ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علاحدہ تعلیمی نظام سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ سماجی تقسیم اور عورتوں کے استحصال کے لیے راہ ہموار کرتاہے۔ ان کے ایک بہت قریبی دوست گوپال متل اپنے ایک مضمون ’ساحر،لاہور کے شب و روز‘ میں لکھتے ہیںکہ ساحر گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں طالبِ علم تھے۔ کالج کا پرنسپل ایک انگریز تھا۔ چاہتا تھا کہ تعلیم مخلوط ہو۔ لڑکے اور لڑکیاں صرف ہم درس ہی نہ ہوں بلکہ آزادانہ آپس میں ملیں جلیںبھی۔ یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا اور مخلوط تعلیم پر چند ایک وجوہ کی بنا پر روک لگا دی گئی۔ ایسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ساحرؔ نے لدھیانہ کہ خیر باد کہہ کر لاہور کے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہ واقعہ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ساحر انسانوں کے آپسی میل میلاپ اور آزادی کے ہمنوا تھے۔
ساحرؔ لدھیانوی دنیا میں پھیلی ہوئی برائیوں ، ظلم و جبر ، عدم مساوات اور لوٹ کھسوٹ سے فکر مند تھے۔ مذہب کے نام پر ہونے والے استحصال سے بھی وہ بے خبر نہیں تھے ۔ یہ ساری صورتِ حال ان کو مارکسیت کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ آگے چل کر وہ مارکسزم کو سماجی تقسیم کے خاتمے کے لیے سود مند سمجھنے لگتے ہیں۔ مخمور سعیدی اس بارے میں اپنے ایک مضمون’ ساحر کی شاعری کا مطالعہ‘ میں لکھتے ہیں:
’’غیر ملکی سامراجی حکمرانوں سے ملک کی نجات کا خواب اور عالمی سطح پر ایک انسانیت دوست، امن پسند اور مساوات پر مبنی غیر طبقاتی سماج کے قیام کا تصور ان کے دل میں ہمیشہ امنگیں جگاتا رہا۔‘‘
ساحرؔ لدھیانوی: ایک مطالعہ،مرتب مخمور سعیدی۔ص۳۶
مارکسی اصولوں پر مبنی سماج یا دوسرے لفظوں میں غیر طبقاتی سماج کی آرزوساحرؔ لدھیانوی کی نظموں میں بکھرے پڑے ہیں۔ اس نظریے سے ان کا جھکائو مذہب کے نام پر ہونے والے استحصال کا ردِ عمل تھا۔ ان کی شاعری میں ایک غیر مذہبی انسانی معاشرے کا جو تصور ابھرتا ہے اس کی آبیاری بقول مخمور سعیدی، ’اس خون نے بھی ضرور کی ہے جو انہوں نے مذہبی جنون کے نتیجے میں وطنِ عزیز کی سڑکوں پراور گلیوں میں بہتے دیکھا تھا‘۔ بحوالہ: ساحرؔ لدھیانوی ، ایک مطالعہ، مخمور سعیدی۔ص۳۳
ساحرؔ لدھیانوی نے بڑے غور سے طبقاتی تقسیم کا مشاہدہ کیا تھاکیونکہ انہوں نے اپنی ماں سردار بیگم کو اس آگ میں جلتے ہوئے دیکھا تھا کیوں کہ ان کے والد نے درجن بھر شادیاں کی تھیں ۔ایسی صورت میں ساحرؔ کا اپنے آبا و اجداد اور اس نظام ، جس کی وہ نمائندگی کرتے تھے متنفر ہونا لازم تھا۔ ساحرؔ کے والد فضل محمد نے اپنی گیارہویں بیوی اور ساحرؔ کی ماں کو اس لیے مخفی رکھنے کی کوشش کی کہ وہ ان کے خاندان کے برابر نہیں تھے۔ یہاں پر ساحرؔ پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ایک عورت مردکے لیے صرف جنسی تسکین کا سامان ہے اور انہوں نے آگے چل کر اپنی شاعری میں ایسے سماج پر گہری چوٹ کی ہے جہاں مذہب کا استعما ل استحصال کے لیے کیا جاتا ہے۔
ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا
کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات
یا
عقائد وہم ہیں، مذہب خیالِ خام ہے ساقی
ازل سے انسان بستا رہا اوہام ہے ساقی
یا
بیزار ہیں کنشت و کلیسا سے اک جہاں
سوداگرانِ دین کی سودا گری کی خیر
انساں الٹ رہا ہے رخِ زیست سے نقاب
مذہب کے اہتمامِ فسوں پروری کی خیر
الحاد کر رہا ہے مرتب جہانٍ نو
دیر و حرم کی حیلہ غارتگروں کی خیر
نظم، طرح ِنو
ساحرؔ لدھیانوی جیسا کہ پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے، ایسے سماج کی آرزو کرتے ہیں، جہاں پر کوئی کسی کا استحصال نہ کرے ۔ انہوں نے عیاش اور استحصالی سیاست دانوں پر بھی گہری چوٹ کی ہے۔ انہوں نے نظم ’تاج محل‘ لکھ کر اپنی ذہنی صلاحیت اور غریب عوام کے تعیں اپنی ہمدردی کا ثبوت دیا۔ دراصل احساسات و جذبات انسانوں کے اندر مشترک ہوتے ہیں لیکن جاگیر دار اور حکمراں اپنے جذبات و احساسات کو باور کرانے کے لیے تاج محل بھی بنا لیتے ہیں۔ ایسے میں ساحرؔ اس نظم کے پردے میں پورے استحصالی نظام کا احاطہ کرتے ہیں۔ تاج محل جیسی محبت کی یاد گار بنانے کے لیے بادشاہِ وقت شاہ جہاں نے خزان عامرہ کو خوب چونا لگایا۔ یہاں ساحر غریب اور مفلس عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ دراصل تاج محل ایک علامت ہے اور اس کے پردے میں تمام جابر و ظالم مطلق العنان بادشاہوں اور سیاست دانوں پر طنز کیا گیا ہے جو غریب عوام کا خون چوسنے میں برتری لینا چاہتے ہیں اور ظلم کرنے کے دوران یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اندر بھی جذبات ہیں اور یہ جذبات ان کے دلوں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں:
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا ساماں نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں یہ حصار
سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں تیرے مرے اجداد کا خوں
میرے محبوب انہیں بھی تو محبت ہو گی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان پیاروں کے مقابر ہیں بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
نظم، تاج محل
ساحرؔ لدھیانوی کی آواز میں اگرچہ ہمیں ایک ناکام عاشق کی آہٹ سنائی دیتی ہے لیکن انہوں نے غم عشق کو غم روز گار پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ و ہ ایک ایسے ناکام عاشق تھے جسے آزادی، حب الوطنی، مساوات، عالمی امن ، آزادی و انصاف کی قدریں بھی عزیز تھیں۔ نظم ’میرے گیت‘میں وہ اپنی محبت کو بھول کر غریب اور مظلوم لوگوں کے لئے تڑپ اٹھتے ہیں:
میری دنیا میں کچھ وقعت نہیں ہے رقص و نغمہ کی
مرا محبوب نغمہ شورِ آہنگِ بغاوت ہے
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
نظم، میرے گیت
ساحرؔ لدھیانوی ملک کی بھلائی اور آزادی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ وہ عالمی سطح پر انسانوں کا بھلا چاہتے ہیں۔ ان کی نظموں میںاس کی واضح مثالیں ملتی ہیں ۔ ان کی آواز اور فکر کو کسی مخصوص معاشرے کی ترجمانی میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ساحر ؔ کی شاعری زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میںنہ صرف اپنے ملک کے غریب اور مظلوم عوام کی حالتِ زار کو موضوع بنایا ہے بلکہ وہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات اور غریب ممالک کے غریب عوام پر جابرانہ قبضے اور پھر ان کے استحصال کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کیاہے۔ساحرؔ لدھیانوی نے ملک کی آزادی اور انگریزوں کے اخراج کے لیے عملی طور پر بھی سیاست میں قدم رکھا۔ انہوں نے طالب علمی کے زمانے سے ہی ترقی پسند نظریات والے طلبا کی سرپرستی کی لیکن روس میں لینن اور ملک میں آزادی کے بعد جس افراتفری اور خون خرابے کا دور شروع ہوا تو ان کا ایمان کسی حد تک اشتراکیت سے اٹھ گیا۔ وہ ملک کی آزادی کو حقیقی معنوں میں آزادی نہیں مانتے۔کیونکہ آزادی کے بعدصرف عنانِ حکومت تبدیل ہوئی اور بنیادی مسائل میں بہتری کے بجائے ابتری واقع ہوئی۔قوم کے رہنما امیر سے امیر ترین بن گئے اور غریب ، غریب تر ہوتے رہے۔ایسی صورت میں انہوں نے فیض احمد فیضؔ کی طرح’یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گذیدہ سحر‘ کی طرح ہی نظمیں لکھ کر اپنے خیالات اور درد کا اظہار کیا۔
آئو کہ آج غور کریں اس سوال پر
دیکھے تھے ہم نے جو، وہ حسیں خواب کیا ہوئے
دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا
خوش حالیِ عوام کے اسباب کیا ہوئے
کیا مول لگ رہا ہے شہیدوں کے خون کا
مرتے تھے جن پہ ہم وہ سزا یاب کیا ہوئے
جمہوریت نواز، بشر دوست، امن خواہ
خود کو جو خود دیے تھے القاب کیا ہوئے
ہر کوچہ شعلہ زار ہے، ہر شہر قتل گاہ
یک جہتی حیات کے آداب کیا ہوئے
نظم، ۲۶؍جنوری
لیکن یہاں پرساحرؔ لدھیانوی دوسرے شعراسے کسی حد تک مختلف نظر آتے ہیں۔ اردو اور ہندوستان کی دوسری زبانوں کے اکثر شعرا آزادی کے بعد رونما ہونے والے حالات و واقعات کے لیے انگریزوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن ساحرؔ لدھیانوی اس کے برعکس اپنے ملک کے رہنما اور عوام کو ملزم گردانتے ہیں۔ نظم ’آج‘ میں انہوں نے اپنے ہی عوام کو وحشی جانورں سے تعبیر کیا ہے کیونکہ انہوں نے آزادی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا نہ صرف خود مشاہدہ کیا بلکہ خود بھی متاثر ہوئے۔ پوری نظم میں ان حالات کا نقشہ بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے:
ساتھیو: میں نے برسوں تمہارے لئے
چاند، تاروں، بہاروں کے سپنے بنے
حسن اور عشق کے گیت گاتا رہا
آرزئوں کے ایواں سجاتا رہا
میں تمہارا مغنی تمہارے لیے
جب بھی آیا نئے گیت لاتا رہا
آج لیکن میرے دامنِ چاک میں
گردِ راہِ سفر کے سوا کچھ نہیں
نظم ’آج‘
اس کے ساتھ ساتھ ساحرؔ لدھیانوی کی شاہین نظریںایک طرف ہند و پاکستان کے حالات پر ہیں اور دوسری طرف وہ عالمی سطح پر ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں سے بھی باخبر ہیں ۔آزادی کے بعد ملک کے بٹوارے سے ہند و پاک میں کئی جنگیں لڑی گئیں اور دونوں ممالک میں بڑی تعداد میں تباہی ہ بربادی اور خونریزی کا بازار گرم رہا۔ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے پس منظر میں ’اے شریف انسانو!‘ نظم لکھ کر ساحر ؔ نے دونوں ممالک کے رہنمائوں اور عوام کو جنگ کی تباہ کاریوں کا بھرپور احساس دلانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یہ نظم ساحرؔ لدھیانوی کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو ،کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں، کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں تے تلملاتی ہے
اس لیے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم ، سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
نظم ، اے شریف انسانو!
اس نظم میں ہمیں ساحر عالمی امن کا استعارہ معلوم ہوتے ہیں۔ نظم اگر چہ ہندوستان اور پاکستان کا پس منظر لیے ہوئے ہے لیکن ساحر ؔکی شاعری بالعموم اور یہ نظم بالخصوص سرحدوں کو توڑتی ہوئی پوری دنیا کے لیے امن و آشتی کا پیغام بن جاتی ہے۔
طبقاتی تقسیم اور عالمی امن کے ساتھ ساتھ ساحرؔ لدھیانوی عورتوں کی حالتِ زار دیکھ کر تلملا اٹھتے ہیں۔انہوں نے عورتوں پر روا رکھے جانے والے مظالم اور نا انصافی کا از خود مشاہدہ کیاکیونکہ ان کی ماں ان کے سامنے ظلم و ناانصافی کی شکار ہوئی تھی۔انہوں نے مرد اساس معاشرے میں اپنی ماں کی ذلت بھری زندگی دیکھی۔ آگے چل کرساحرؔ اپنی نظموں میں عورتوں کی اس حالت کا بڑی فنکاری اور بے باکی سے اظہار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں نظم ’چکلے‘ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظم ایک طرف ساحر ؔ کی فنکاری کا عمدہ نمونہ ہے تو دوسری طرف عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انہیں جنسی تلذذ کی حد تک محدود رکھنے کے خلاف احتجاج بھی ہے۔انہوں نے ایسے سماج پر کڑی چوٹ کی ہے جو عورت کو صرف اور صرف جنسی لذت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بقول جاںنثار اختر :’ ان کی نظموں میں اس عورت کی چیخ ہے جو اوتاراور پیمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے‘۔ اگرچہ نظم کا لہجہ کسی حد تک بہت تیکھا معلوم ہوتا ہے لیکن ایسی صورت حال سے ایک فنکار دوچار ہوتا ہے تو ایسے میں بقول علامہ اقبالؔ گفتار کے اسلوب پر قابو رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں
یہ پرپیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گم نام راہی یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں
یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پائوں زینوں کی جانب
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں
نظم، ’چکلے‘
حاصلِ کلام یہ کہ ساحرؔ لدھیانوی کی نظم نگاری اردو ادب میں ایک پہچان اور شناخت رکھتی ہے۔ بالخصوص ظلم، جبر، عالمی امن اور عورت کی تقدیس کے سلسلے میں ان کا کوئی جواب نہیں۔ اس مختصر سے مضمون میں ان کی پوری نظم نگاری کا احاطہ ممکن نہیں۔ راقم نے صرف ان کی کچھ اہم نظموں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اتنا وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی نظم نگاری سے اردو شاعری کا دامن وسیع ہوا اوران کے ذکر کے بغیر اردو نظم نگاری کی کوئی بھی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر رحمت اللہ میر
اردولیکچرر،گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین بارہمولہ، جموں و کشمیر
meerrehmat.urdu@gmail.com
Leave a Reply
2 Comments on "ساحرؔ لدھیانوی کی نظم نگاری"
[…] 86. ساحرؔ لدھیانوی کی نظم نگاری […]
[…] ساحرؔ لدھیانوی کی نظم نگاری […]