ملک الشعراء ملا نصرتی
بہمنی سلطنت کے روبہ زوال ہوتے ہی پانچ نئی سلطنتیں عالمِ وجود میں آئیں۔ ان میں گولکنڈہ کی قطب شاہی اور بیجاپور کی عادل شاہی سلطنتوں کو دکنی ادب میں ایک منفرد مقام حاصل ہے عادل شاہی اور قطب شاہی حکمرانوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی ہی کے نتیجہ میں یہاں باکمال شاعر پیدا ہوئے۔ انھوں نے شعرو سخن کا ایسا ماحول قائم کیا تھا کہ بڑے بڑے فن کار ہر موضوع پر اظہار خیال کرنے لگے۔
دبستان بیجاپور کے ایک عظیم شاعر ملا نصرتی بھی دکنی ادب کے در شہوار کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی آب و تاب ہمیشہ باقی رہے گی۔ نصرتی نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ لیکن قصیدہ نگاری اور مثنوی کے میدان میں اردو کا کوئی شاعر ان کے مقام و مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔
اکثر مورخین کو نصرتی کے نام کے تعلق سے اختلاف ہے۔ ڈاکٹر نصرالدین ہاشمی، ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے نصرتی کا نام ’’محمد نصرت‘‘ لکھا۔ لیکن مولوی عبدالحق ، شمس اللہ القادری اور سخاوت مرزا نے ان کا نام ’’شیخ نصرتی‘‘ لکھا ہے اور یہی نام قابل قبول دکھائی دیتا ہے۔ نصرتی کے والد پیشہ کے اعتبار سے سلحدار تھے۔ انہیں اپنی شجاعت اور وفاداری کی بناء پر شاہی دربار میں عزت و توقیرکی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے فرزند ملا نصرتی کو اپنے زمانے کے مشہور علماء و فضلا سے علومِ متداولہ اور مروجہ کی تعلیم دلوائی ۔ نصرتی نے اپنی مثنوی ’گلشن عشق‘ میں اس بات کا اظہار کیا ہے۔
معلم جو میرے جتے خاص تھے
نصرتی کی تبتحر علمی کی بدولت لوگ انھیں ’ملا نصرتی‘ کہہ کر پکارنے لگے۔
مرزا غالب کی طرح ملا نصرتی نے بھی اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کی بدولت عادل شاہی دربار میں اثر و رسوخ حاصل کرلیا تھا۔ انھوں نے بیجاپور کے تین بادشاہوں ، محمد عادل شاہ، علی عادل شاہ ثانی اور سکندر عادل شاہ کا زمانہ دیکھا ۔ لیکن وہ عادل شاہ ثانی کے بچپن کے ساتھی اور مقرب خاص تھے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف میں شاہی نے ’ملک الشعرائ‘ کے اعزاز سے نوازا۔
نصرتی کی مثنویاں گلشن عشق ۔ علی نامہ اور تاریخ اسکندر ی کے علاوہ ان کے قصائد ، غزلیات اورر باعیات بھی بڑی شہرت رکھتے ہیں۔
’گلشن عشق ‘ اور ’علی نامہ‘ یہ دونوں ایسی مثنویاں ہیں جو رزم اور بزم دونوں کی ملی جلی داستانیں پیش کرتی ہیں۔ نصرتی کی سب سے پہلی تصنیف ’گلشن عشق‘ ہے جو علی عادل شاہ ثانی شاہی کے دور میں لکھی گئی۔ اس مثنوی کا سن تصنیف ۱۰۶۸ھ ہے ۔ جیسا کہ انھوں نے اس مثنوی کے آخر میں تاریخ تصنیف ایک مصرع سے نکالی ہے۔
دھریا اس کی تاریخ کا جب خیال
وھی ہاتف غیب معجز مقال
کیا اس کی تاریخ یوں ھجرتی
مبارک یوھے ھدیہ نصرتی
نصرتی کی اس بے مثال عشقیہ مثنوی کو مولوی عبدالحق نے علی الترتیب 1952ء میں انجمن ترقی اردو کراچی سے اور1957ء میں سالار جنگ پبلشنگ کمیٹی حیدرآباد سے شائع کیا تھا۔
مثنوی ’گلشن عشق‘ میں منوہر و مدمالتی کی عشقیہ داستان کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ حسب روایت ’گلشن عشق کی ابتدا میں حمد ، نعت ، مناجات، منقبت اور حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کی تعریف ، علی عادل شاہ ثانی شاہی کی مدح کے بعد عشقیہ داستان کا آغاز ہوتا ہے۔
اس مثنوی کے ابتدائی شعریہ ہیں؛
ثنا صانع کی ہے جن کتاب عشق کا بانی
دیا ہے حسن کوں خلعت ہر یک جز پہ عنوانی
رکھیا ہوں گلشن عشق اسم اس رنگین قصے کا میں
کرے جس چھب کے پھولاں کی فلک شوقوں سے گلدانی
’’گلشن عشق‘ ‘ میں منوہر اور مدھو مالتی کی عشقیہ داستان بیان کی گئی ہے۔ جس کی بنیاد مافوق الفطرت و اقعات پر رکھی گئی ہے۔ تمام داستانوں کی طرح اس کا اختتام بھی طربیہ ہے۔ آخر میں منوہر فتح کے شادیانے بجاتا ہوا مدھو مالتی کے ساتھ اپنے گھر واپس ہوتا ہے۔
نصرتی بیجاپور کی طرز معاشرت سے پوری طرح واقف تھے۔ لہٰذا انھوں نے جہاں کہیں محلوں، بازاروں اور باغوں کا منظر پیش کیا ہے ان کے پیش نظر بیجاپور ہی تھا۔ عشق و عاشقی اور بزم عیش کے منظر پیش کرنے میں بھی انھوں نے شاہی کی محفل عیش و طرب ہی کو پیش نظر رکھا ۔
یہ مثنوی زبان وبیان کے اعتبار سے بیجاپوری اسلوب کے جدیدروپ کا نقطہ عروج ہے ۔ لیکن مزاج و ہیت کے اعتبار سے گولکنڈہ کی مثنویوں سے قریب تر ہے۔
نصرتی کی ایک اور طویل رزمیہ مثنوی’ علی نامہ‘ ہے۔ یہ مثنوی ’گلشن عشق ‘ اور دکن کی دیگر مثنویوں کی ہئیت میں لکھی گئی ہے۔ اس مثنوی کو وہ مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر حصہ کے آغاز میں ایک یا دو شعر لکھ دئے گئے ہیں اگر ان سب کو یکجا کیا جائے تو ایک لامیہ قصیدہ بن جاتا ہے۔
مولوی عبدالحق نصرتی کی اس مثنوی کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
’’نصرتی کی مثنوی‘ علی نامہ عہد بیجاپور کی ایک مستند تاریخ ہے۔ نصرتی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تاریخی واقعات کو صحیح ترتیب اور بڑی احتیاط کے ساتھ برتا ہے۔‘‘
اس مثنوی میں قدرت کے حسین مناظر کے ساتھ ساتھ رزمیہ عناصر کی بھی عکاسی بہترین انداز سے کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ بعض باتیں تو ایسی پیش کی گئی ہیں جن کو تاریخ خود بیان کرنے سے عاجز ہے۔ یوں تو اردو میں رزمیہ مثنویاں بہت کم لکھی گئیں لیکن جو بھی رزمیہ مثنویاں ملتی ہیں وہ ’علی نامہ‘ کے مرتبہ کو نہیں پہنچ پاتیں۔ یہ مثنوی ہر لحاظ سے ہماری زبان کا ایک شاہ کار ہے۔
علی نامہ کا ہیرو دراصل علی عادل شاہ ثانی شاہی ہے جو شجاعت اور بہادری میں اپنی کوئی نظیر نہیں رکھتا تھا۔
غضب ہوں توں ٹک جھانک دیکھے پاتال
ڈھلے ڈھاک سوں شیث واثق کی کھال
جنگ کے دہشت ناک مناظر بیان کرنے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ کیوں کہ وہ خود بادشاہ کے ساتھ اکثر میدان جنگ میں رہا کرتے تھے۔
چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
کھنا کھن تے کھڑگاں کے یوں شور اٹھیا
جو تن میں پہاڑاں کے لرزا چھوٹیا
فوج کی کوچ کا دلچسپ منظر بھی علی نامہ میں ملتا ہے
دسے فوج دریا نمن ہر طرف
لگیں دست چھڑیاں کی موجاں پر کف
جنگی مناظر ، فتح کی سرشاری اور شکست خوردہ فوجیوں کی پریشانی اور بادشاہ کی عدل پسندی، سخاوت اور رعایا پروری کے تعلق سے کئی بولتی تصویریں ’علی نامہ‘ میں موجود ہیں۔
’علی نامہ‘ دکنی زبان کا شاہ نامہ اور اردو کی پہلی واحد رزمیہ نظم ہے۔
جہاں تک نصرتی کی قصیدہ نگاری کا تعلق ہے وہ نہ صرف دبستان دکن کے سب سے عظیم قصیدہ گو ہیں بلکہ قصیدہ نگاری کی تاریخ میں ان کا نام اردو کے باکمال شاعر سودا سے پہلے لیا جانا چاہیے۔
زبان کی شیرینی ، لہجے کی بلندی، تخئیل کی بلندی پروازی اور کم سے کم الفاظ میں معنی کا دفتر کھولنا یہ ایسی خصوصیات ہیں جو ہمیں اس دور کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتیں۔ قصیدوں میں تو انھوں نے اپنے تخلیقی عمل سے وہ رنگ جمایا ہے جس کی بدولت نصرتی اردو کے پہلے قصیدہ نگاربن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
’’علی نامہ‘‘ میں نصرتی کے سات قصیدے ملتے ہیں۔ گلشن عشق ‘ اور علی نامہ کے عنوانات ملا کر دو قصیدے اور بن جاتے ہیں۔ علی نامہ کا پہلا قصیدہ ’قلعہ پنالا کی فتح‘ پر لکھا گیا ہے دراصل یہ قصیدہ قلعہ پنالا کی جیت کے موقع پر لکھا گیا ہے۔
نصرتی کے اس قصیدے میں تشبیب کے اشعار نہیں ملتے ۔ ان کے دستیاب شدہ قصیدوں میں تشبیب نہیں ہے۔ اس کا آغاز علی عادل شاہ کی مدح سے ہوتا ہے۔ لیکن اس میں مدحیہ مضامین ایسے باندھے گئے ہیں جو حرب و ضرب سے متعلق ہیں۔ اس قصیدہ میں نو(۰۹) اشعار کے بعد گریز کرکے شیواجی کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن گریز میں نصرتی کو زیادہ کا میابی نہ مل سکی،۔ محاکات رزمیہ شاعری کا ایک امتیازی وصف ہے۔ جس پر نصرتی نے اپنی تمام تر توجہ صرف کردی ہے۔ چنانچہ قلعہ پنالا کی تصویر کشی وہ یوں کرتے ہیں
تھا یکہ یک جو جگ منے اوگڑپنالے کا بلند
تھمنے دھرت لنگر ہے ہور انبر کو تھام آدھارکا
دوسرا قصیدہ بادشاہ کی فتح اور صلابت خاں کی شکست کے متعلق ہے اس کا مطلع یہ ہے۔
علی عادل شاہ غازی یوں شاہ بوالمظفرکو ں
دیا ہے جس خدا ایسا کہ تھا جیسا سکندر کوں
نصرتی دبستان بیجاپور کا وہ قادر الکلام سخن ور گذر رہے۔ جس نے اپنے قصائد اور مثنویوں کے ذریعہ دکنی ادب میں تو اونچا مقام حاصل کرلیا لیکن ان کی غزلیں بھی حسن و عشق کا سدا بہار گلدستہ دکھائی دیتی ہیں۔
نصرتی کی غزلوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنی غزلیہ شاعری میں فارسی شاعری کے بنیادی رجحانات سے زیادہ متاثر نظرآتے ہیں۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں فار سی تراکیب واضافت کا استعمال کیا ہے جو دکنی شعرا کے یہاں بہت کم ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ کیجیے؛
دیکھو سسکیاں میرا پیا کس سیج داتا ساد سے
مجھ چھوڑ کر اپنا وقت بھی کئیں گماتا سادسے
پیو چھوڑ کر جن نصرتی دنیا سے غافل ہوا
اس عمر کوں ناچیز کرنا حق گنواتا ساد سے
نصرتی کو زبان و بیان پر کامل قدرت حاصل ہے۔ الفاظ کی بندش، معنویت کی تہہ داری اور کلام بے ساختگی اور برجستگی ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
کتابیں :
۱۔ تاریخ ادب اردو ڈاکٹر جمیل جالبی
۲۔ اردو شٔہ پارے ڈاکٹر محی الدین قادری زور
۳۔ نصرتی مولوی عبدالحق
۴۔ دکنی غزل کی نشو و نما ڈاکٹر محمد علی اثر
۵۔ بجھتے چراغ مولوی اکبر الدین صدیقی
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!