سوانح سے سوانحی ناول تک
Abstract:
A biography is a detailed description of a person’s life.Unlike a profile or curriculum vitae a biography presents a subject’s life story, highlighting various aspects of his or her life, including intimate details of experience and may include an analysis of the subject’s personality. Hali and Shibli was the earliest of the biographers in Urdu literature.Biographical works are usually non fiction, but fiction can also be used to portray a person’s life. Urdu novelists used biographical techniqes in novel and introduce a new l iterary term in Urdu, biographical novels.
اردو ادب کی دیگر اصناف کے مقابلے میں سوانح عمری کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے۔۱۸۵۷ء سے قبل اردو نثر عہد طفولیت میں تھی۔اسی دور میں سوانح نویسی کا آغاز ہو چکا تھا۔اردو زبان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ سر سید کے زمانے ہی سے ہر لحاظ سے مکمل سوانح عمریاں ادب میں وجود میں آ چکی تھیں۔یہ حقیقیت کسی سے پو شیدہ نہیں کہ ہر صنفِ ادب کی طرح سوانح نگاری کے فن میں بھی اردو ادب نے ابتدا میں عربی و فارسی کا تتبع کیا۔سوانح نگاری کی اہم اور قدیم شاخ سیرت نگاری ہے۔مسلمانوں نے فنِ سوانح نگاری میں سب سے پہلے اسی شعبے کو فروغ دیا۔قدما کے ہاں افراد کے مقابلے میں اجتماعی سوانح نگاری کا رجحان زیادہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ پرانے ادب میں تذکرہ نگاری کے فن کو ترقی ملی۔انفرادی سوانح عمریوں میں بادشاہوں کی سوانح جو سوانح سے زیادہ تاریخ معلوم ہوتی یا اولیاء کرام کی سوانح عمریاں لکھی جاتی جن میں سوانح کم اور اولیاء کے معجزات کا بیان زیادہ ہوتا۔اردو ادب میں سوانح نگاروں نے اسی ادب سے فائدہ اٹھایا۔حالی سے قبل اردو ادب میں سوانح نگاری کی مستند روایت نہیں ملتی۔تذکرہ نگاری کی روایت اس سے پہلے موجود تھی جسے مکمل سوانح نگاری نہیں کہا جا سکتا۔سر سید کی تحریک کے تحت ارود میں سوانح نگاری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مغربی اثرات کے نفوذ کے بعد اردو ادب میں سوانح نگاری کی ابتدائی کوششوں میں کسی حد تک مناظرانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ اردو ادب نے مولانا الطاف حسین حالی ہی وہ شخصیت ہیں جنہیں اردو کے اوّلین نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ اوّلین سوانح نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ان کی سوانح عمریاں خصوصًا’’حیات ِ جاوید‘‘ اردو ادب میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔حقیقی معنوں میں یہی اردو کی پہلی با ضابطہ اور باقاعدہ سوانح عمر ی ہے۔(۱)حیاتِ جاوید سے پہلے حالی کی دو سوانح عمریاں’’حیاتِ سعدی‘‘ اور’’ یاد گارِ غالب‘‘منظر عام پر آچکی تھیں۔ان دو کتب کے تالیفی مراحل سے گزرتے ہوئے حالی کا سوانحی شعور ارتقا پذیر رہا۔’’حیاتِ جاوید‘‘ میں یہ شعور پہلے سے کہیں پختہ صورت میں سامنے آیا۔اس تصنیف کے سلسلے میں سر سید تحریک کے زیرِ اثر مغربی ادبیات کے محدود مطالعے سے حاصل ہونے والی تحقیقی و تصنیفی سمجھ بوجھ کو کام میں لایا گیا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی رقم طراز ہیں:
بلاشبہ حیاتِ جاوید میں خامیاں اور کوتاہیاں موجود ہیں،اس کےباوجود حالی کا ذخیرہ سوانح عمری قابلِ ستائش اور بہت سے ما بعد سوانح نگاروں کے لئے لائقِ رشک ہے۔جو کچھ وہ نہیں کر سکے اس کے لئے انہیں معذور سمجھنا چاہیے۔(۲)
حالی کے معاصرین میںسوانح نگاری میں شبلی کا نام اہم ہے۔شبلی کی سوانح نگاری کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ وہ رسول اکرم ﷺ اور حضرت عمرِ فاروق ؓ جیسی مقدس ہستیوں کے سوانح نگار ہیں۔ــ’’سیرۃ النبیﷺ ‘‘کے بعد’’الفاروق‘‘ شبلی کی بہترین تصنیف ہے اور سوانحی لحاظ سے مکمل اورمفصل ہے۔’’الفاروق ‘‘میں شبلی ایک اچھے سوانح نگار بھی ثابت ہوئے ہیں اور ایک اچھے مؤرخ بھی۔ڈاکٹر سید شاہ علی ’’الفاروق‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
حیات ِ جاوید کے بعد جامعیت اور تکمیل وغیرہ کے لحاظ سے اردوکی نو تعمیری اور تجدیدی سوانح عمریوں میں اگر کسی کتاب کا نام لیا جا سکتا ہے تو وہ الفاروق ہے۔(۳)
حالی و شبلی کے معاصرین میں جن حضرات نے سوانح نگاری کے میدان میں طبع آزامائی کی ان میںذکاء اللہ،نذیر احمد،چراغ علی او رعبد الحلیم شرر کے نام اہم ہیں۔مولوی ذکاء اللہ کی اہم تصانیف میں’’ تاریخِ ہندوستان‘‘ جو دس جلدوں پر مشتمل ہے’’آئینِ قیصری‘‘ ملکہ وکٹوریہ کی سوانح،شامل ہیں۔ حالی اور شبلی کے بعد آنے والے سوانح نگاروں نے ان دو نوں کی روایت سے فائدہ اٹھایا۔جس کے نتیجے میں اردو ادب کے سوانح عمریوں کے اثاثے میں گراں قدر اضافہ ہوا۔دار المصنفین کے سوانح نگاروں نے حالی و شبلی کی روایت کی آبیاری میں علمی ولولے کے ساتھ حصّہ لیا۔سید سلیمان ندوی نے سیرت النبیﷺ کی تدوین و تکمیل کرنے کے ساتھ ساتھ حیاتِ مالک،سیرتِ عائشہؓاور حیاتِ شبلی لکھ کر سوانح نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔افتخارعالم کی’’حیات النذیر‘‘اکرام اللہ ندوی کی’’وقارِحیات‘‘،رئیس احمد جعفری کی’’سیرتِ محمد علی‘‘افضل حسین ثابت کیـ’’حیاتِ دبیر‘‘اور قاضی محمد عبد الغفار کی سوانح عمری’’آثار جمال الدین افغانی‘‘اس دور کی چند اہم سوانح عمریاں ہیں۔اس دور کی سوانح عمریوں کا سر چشمہ تحریک جذبہ احیائے قومی ہے۔چنانچہ یہ سوانح عمریاں ناموروں کی یادگار کی بجائے قوم کی ترقی کے خیال سے لکھی گئیں۔
بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں تک اردو ادب میں سینکڑوں سوانح عمریاں وجود میں آ چکی تھیں۔غالب کے تعلق سے تین اہم سوانحات،بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میںسامنے آئیں۔(۴)غلام رسول مہر کی ’’غالب‘‘ شیخ محمد اکرم کی سوانح عمری’’غالب نامہ‘‘اور مالک رام کی’’ذکرِ غالب‘‘۔مالک رام کی تحقیقی کاوش’’ذکرِ غالب(۱۹۳۸ئ)‘‘اپنے دور اور غالب کی سوانح عمریوں میں قابلِ لحاظ ہے۔بلاشبہ یہ ایک محققانہ،مسرت بخش،مختصر مگر جامع سوانح ہے۔(۵)
غلام رسول مہر کی سوانح عمری’’سیرت سید احمد شہید‘‘اردو سوانح عمریوں کے سلسلے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔اقبال کی سوانح عمریوں میں ڈاکٹر عبد السلام خورشید کی’’سرگزشتِ اقبال‘‘سید نذیر نیازی کی ’’دانائے راز‘‘محمد حنیف شاہد کیــ’’ مفکرِ پاکستان‘‘اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی’’زندہ رود‘‘ ارود کے سوانحی ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے قومی و ملی ہیروزپر بہت سی سوانح عمریاں چھپیں۔ ان سوانح عمریوںمیں جہاں بہت سے تاریخی حقائق سے پردہ اٹھتا ہے وہاں ان تخلیقات پر مغربی سوانح نگاروں کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔
سوانح عمری ایک انسان کی پیدائش سے موت تک کے افعال کا بیان ہے۔یا یوں کہیے کہ ایک انسان کی حیات یا تاریخ ہے۔اردو ادب کے سفر میں ایک مقام آیا کہ تمام اصنافِ ادب میں ہیتی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔اصناف میں نت نئے تجربے سامنے آنے لگے۔غزل میں موضوعات کی وسعت،نظم کی ہیت میں تبدیلیاں،قدیم داستانیں نئے دور میں ناول کا روپ دھارنے لگیں۔قاری کی تفریحِ طبع کے لئے وقت کی کمی کو مدِنظر رکھا گیا اور افسانے لکھے جانے لگے۔غرض کوئی صنفِ ادب ایسی نہ تھی جس پر مغربی اثرات نہ پڑے ہوں۔سوانح نگاری کے سلسلے میں اردو ادب میں نیا تجربہ سوانحی ناول کی صورت میں کیا گیا جو کا میاب رہا۔سوانحی ناول ،سوانح اور ناول کا حسین امتزاج ہے۔کسی سوانح کو جب افسانوی رنگ دے کر ناول کی تکنیک برتتے ہوئے پیش کیا جائے تو وہ سوانحی ناول کہلاتی ہے۔سوانحی ناول میں پورا ناول ایک کردار کے گرد بنا جاتا ہے۔اس مرکزی کردار کے ساتھ ضمنی کردار بھی ناول میں موجود ہوتے ہیں۔اس ناول میں واقعات اور افراد حقیقی ہوتے ہیں مگر انہیں افسانوی رنگ میںاس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ سوانح میں ناول کے بنیای عناصر موجود ہوں۔جو سوانحی تصنیف کو سوانحی ناول کا درجہ دلا سکیں۔سوانحی ناول تاریخ ،افسانہ اور حقیقیت کو یکجا کرنے کا نام ہے ناول میں سوانحی اجزاء شامل کیے جائیں یاسوانح میں ناول کے بنیادی اجزاء نتیجہ سوانحی ناول کی صورت میں سامنے آتا ہے۔سوانحی ناول میں ضرورت یا مصلحت کے تحت افراد اور مقام کے ناموں میںتبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔
اردو ادب میں سوانح نگاری اور ناول نگاری کی اصناف سوانحی ناول سے پہلے موجود تھیں۔پھر سوانحی ناول کے نئے تخلیقی تجربے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں اصناف سوانح اور ناول کی خوب صورتی کو یکجا کر کے دلچسپی کے عنصر کو تقویت دینا۔یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ناول نگار اپنے ذاتی تجربات یا کسی شخصیت کے زندگی کے حالات و واقعات کو افسانوی رنگ میں پیش کرتا ہے تو یہ اثرات دوررس ہوتے ہیں۔مغرب میں سوانحی ادب کو اہم مقام حاصل ہے۔قراۃالعین حیدر ’’کارِجہاں دراز ہے‘‘کے دیباچے میںلکھتی ہیں:مغرب میں کسی ادیب یا شاعر کا نام لیجیے۔ہر برٹ ریڈ،ورجینیا وولف،شان اوکیسی،ولیم یلومر،سر اوز برٹ سیٹول،ایلزبتھ بوون،اسینڈر،اسرووڈ،سارتر،سیمون دی بووا،(جوزف ہون،سیکتھ بیرس،ہر برٹگورمیں وغیرہ پروفیشنل سوانح نگاروں سے قطع نظر)اور ان کے لکھے ہوئے سوانحی ادب کا انبار آپ کو مل جائے گا۔ (۶)
کسی ناول کو مکمل سوانحی ناول قرار دینا ااس وقت تک آسان نہیں ہوتاجب تک اس میں سوانح اور ناول کے بنیادی عناصر نہ پائے جائیں۔اردو ادب میں سوانحی ناول ے حوالے سے قراۃالعین حیدرکا نام اہم ہے۔قراۃالعین کے ناولوں کے متعلق نیلم فرزانہ لکھتی ہیں:
ناول میں سوانحی اجزاء کی پیش کش اردو میں نئی بات نہیں۔بلکہخودقراۃالعین حیدر کے اہم ناول’’میرے بھی صنم خانے،سفینہ غمِ دل،اور آگ کا دریا‘‘میں سوانحی عناصر پائے جاتے ہیں۔لیکن یہ کتابیں سوانح نہیں ہیں۔ان کے مقابلے میں’’کار جہاںدراز ہے‘‘سوانحی کتاب ہے۔(۷)
نیلم فرزانہ کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ناول جس میں سوانحی اجزا ء پائے جاتے ہیں مکمل طور پر سوانحی ناول نہیں بن سکتا۔سوانحی ناول کسی ایک فرد یا کردار کے افعال،واقعات اور تجربات کو بیان کرتا ہے۔ہر ایسا ناول جس میں جزوی طور پرآپ بیتی یا سوانح کا انداز ملتا ہو اسے خالصتًا سوانحی ناول نہیں کہا جا سکتا۔سوانح نگار کی طرح سوانحی ناول نگار کے لئے حافظہ،تاریخ اور نفسیات کا علم معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اردو میںباقی اصناف کی نسبت سوانح نگاری کی روایت بہت دیر میں رواج پائی۔لیکن اردو ناول میں سوانحی ناول کی روایت ناول کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد پروان چڑھنا شروع ہو گئی۔مرزا ہادی رسوا کے ناول’’امرائو جان ادا،ذات شریف اور شریف زادہ‘‘اردو میں سوانحی ناول کا نقطہ آغاز ہیں۔مرزا ہادی رسوا ’’شریف زادہ‘‘کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
اگرچہ میری تالیفات میں’’ شریف زادہ‘‘یعنی مرزا عابد حسین کی سوانح عمری کا تیسرا نمبر ہے۔لیکن میرے خیالات کے سلسلےمیں یہ پہلا ناول ہے جو میں نے بطور سوانح عمری کے تحریرکیا۔(۸)
مرزا ہادی رسوا کا ناول’’امراؤ جان ادا‘‘اردو کا پہلا سوانحی ناول ہے ۔یہ ناول دراصل امراؤ جان ادا کی سوانح ہے۔امراؤ کی پوری زندگی کو ہادی رسوا نے ناول میں سمو دیا ہے۔مصنف نے امراؤ کی سوانح کو اس عمدگی سے بیان کیا ہے کہ ایک تسلسل آخر تک قائم رہتا ہے۔امراؤ جان ادا کا کردار اتنا زندہ،سچا اور کھرا ہے کہ مدتوں اس کے حقیقی یا محض ایک کردار ہونے پر بحث جاری رہی۔( ۹)
عصمت چغتائی کا ’’ٹیڑھی لکیر ‘‘ایک کرداری اور نفسیاتی ناول ہے جو اسے سوانحی ناول کے زمرے میں لے آتا ہے۔جمیلہ ہاشمی کے ناول’’دشتِ سوس ‘‘میں حسین بن منصور حلاج کی سوانح پیش کی گئی ہے۔ناول میں ابن منصور کے تاریخی قصّے کو بیان کیا گیا ہے۔ناقدین نے اس ناول پر اعتراض کیا کہ جمیلہ ہاشمی نے تاریخ سے انحراف کرنے کی کوشش کی ہے۔تاریخ لکھنا اور ایک تاریخی سوانحی ناول لکھنا دو الگ چیزیں ہیں۔ناول کے لئے افسانوی رنگ اور اسلوب ضروری ہے۔یہی افسانوی رنگ کسی ادیب کی تخلیق کو ادبی تخلیق بناتا ہے۔
اردو کے اسی قبیل کے ناولوں میں اہم ناول قراۃالعین حیدر کا ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ہے۔یہ سوانحی نیم دستاویزی ناول ہے۔ناول میں مصنفہ نے اس وقت کے ہندوستانی مسلم معاشرے کو پیش کیا ہے۔ناول میں اینگلو انڈین طبقے کے غلط امیج کو درست زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ناول میں چند حقیقی کردار بھی استعمال ہوئے ہیںاسی وجہ سے قرۃالعین حیدر نے اسے ’’نیم دستاویزی ناول‘‘ قرار دیا ہے۔
اردو کے بہت سے ناولوں میں سوانحی اجزا ء تو پائے جاتے ہیں مگر خالصتًا سوانحی ناولوں کی تعداد بہت کم ہے۔اور خود نوشت سوانحی ناول تو چند ایک ہی ہیں۔خود نوشت سوانحی ناول نگاروں میںاہم نام قراۃالعین حیدر(کارِجہاں دراز ہے)،ممتاز مفتی(علی پور کا ایلی اور الکھ نگری)اوراحمد بشیر (دل بھٹکے گا)کے ہیں۔خود نوشت سوانح عمری کسی شخص کی خارجی،داخلی اور نفسی کیفیات کا اظہار ہوتی ہے۔ادب میں خود نوشت سوانح عمری بھی وہی کام کرتی ہے جو مصوری میں سیلف پورٹریٹ ۔ دونوں میں اظہار کا انداز جداگانہ سہی لیکن نفسی محرک ایک ہی ہے۔( ۱۰)خود نوشت سوانحی ناولوں میںکرداروں کا نام اور مقامات کا تبدیل کرنا،واقعات کو افسانوی رنگ میں پیش کرنا جب کہ اس واقعہ کی حقیقی حیثیت موجود رہے،ناول کا حسن ہوتا ہے۔ اردو کا اہم خود نوشت سوانحی ناول قراۃالعین حیدر کا’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ہے۔ناول کی تین جلدیں’’۱۹۷۷ء۱۹۷۹ءاور۲۰۰۱ئ‘‘میں شائع ہوئیں۔ناول کا نام اقبال کے شعر سے اخذ کیا گیا ہے:
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر (۱۱)
ناول میں قراۃالعین حیدر نے اپنے بارے میں کم اور خاندان کے لوگوں اور ان کے حالات و واقعات کوزیادہ تفصیل سے پیش کیا ہے۔مصنفہ کی تاریخ اور اپنی جڑوں کی تلاش سے دلچسپی اور لگاؤ ان کی ہر تحریر میں نظر آتا ہے۔اور یہی جستجو ہمیں ـ’’کارِ جہاں دراز ‘‘میں بھی دکھائی دیتی ہے۔قراۃالعین حیدر کی سرشت میں تلاش اور جستجو کا عنصربدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔اسی تلاش اور جستجو کے جذبے نے انہیں وہ تاریخی شعور عطا کیا ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔قراۃالعین حیدر خود اس ناول کو سوانحی ناول قرار دیتی ہیں:
اس سوانحی ناول کے مختلف النوع ماخذوں میں والدہ محترمہ کاوہ زبر دست ذخیرہ رقعات بھی شامل ہے۔۔۔۔۔اس وقت اس کتاب کا کوئی تصور میرے ذہن میں نہ آیا تھا۔لیکن جب لکھنے بیٹھی تو تکنیک اور صنفِ ادب آپ ہی آپ بن جاتی ہےاور حقیقت افسانے سے عجیب تر ہے۔چنانچہ ایک’’سوانحی ناول‘‘۔(۱۲)
ناول میں برصغیر کی اہم سیاسی،تاریخی،ادبی اور مذہبی شخصیات کا ذکر بھی ہے اور مصنفہ کے خاندان کا بھی۔قراۃالعین نے ناول میں اپنا تاریخی اور نفسیاتی علم بھر پور انداز میں استعمال کیا ہے۔اور اس کتاب کو محض ایک تاریخی کتاب بننے سے بچایا ہے۔افسانوی رنگ ناول کی دلچسپی بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ناول کے بیان کے لئے مصنفہ نے ایسا انداز اپنایا ہے کہ اسے داستان یا قصّے کا رنگ دے دیا ہے۔جو افسانہ خواں،مورخ یا تذکرہ نگا رکی زبان سے سنایا جا رہا ہے۔اس سوانحی عمرانی داستان کو قراۃالعین نے حقیقت پسندی سے بیان کیا ہے۔اور کہیں بھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔یہ سوانحی ناول صرف قراۃالعین کے خاندانی حالات کے بیان پر محدود نہیں بلکہ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ہندوستا ن کی مخصوص سیاسی اور تہذیبی زندگی میں مسلمانوں کی شخصیت کی تشکیل اور اس کا ارتقا کس طرح ہوا۔(۱۳)قراۃالعین حیدر اس سوانحی شاہکار کو تخلیق کرتی ہیں اور پھر اس کارِ جہاں کو آنے والی نسلوں کے سپرد کر دیتی ہیں۔
’’علی پور کا ایلی‘‘اور’’الکھ نگری‘‘ممتاز مفتی کے خود نوشت سوانحی ناول ہیں۔علی پور کا ایلی کے پہلے ایڈیشن کے پیش لفظ میں ممتاز مفتی اسے ایک روئیداد کہتے ہیں۔دوسرے ایڈیشن میں وہ اس ناول کو ایلی کی داستانِ حیات اور آپ بیتی قرار دیتے ہیںجب کہ تیسرے ایڈیشن میں وہ واضح الفاظ میں یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ کتاب میری ٓپ بیتی کا پہلا حصہ ہے (۱۴) ممتاز مفتی نے اپنی آپ بیتی کو ناول کے روپ میں پیش کر کے اسے زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے۔حقیقی واقعات کو افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔حقیقت اور افسانے کے اس حسین امتزاج نے اس کتاب کو خود نوشت سوانحی ناولوں میں ایک اہم مقام دلا دیا ہے۔ ایلی کا کردار ممتاز مفتی نے مہارت اور چابک دستی سے لکھا ہے۔’’الکھ نگری‘‘میں کہانی پن کم اور شخصی خاکے زیادہ نظر آتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر، تفہیم و تجزیہ،لاہور،کلیہ علومِ اسلامیہ و شرقیہ جامعہ پنجاب، ۱۹۹۹ء ص۸۱
۲۔ رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر، تفہیم و تجزیہ،لاہور، ص۸۳
۳۔ سید علی شاہ،ڈاکٹر،اردو میں سوانح نگاری،کراچی،گلڈ پبلیشنگ ہاؤس،۱۹۶۱ ص۱۹۱
۴۔ گیان چند،ڈاکٹر،کھوج،دہلی،ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس،۱۹۹۰ ص۲۰۲
۵۔ سید عبداللہ ،ڈاکٹر،وجہی سے عبد الحق تک،لاہور،مکتبہ خیابانِ ادب،۱۹۷۷ ص۱۲۶
۶۔ قراۃالعین حیدر،کارِ جہاں دراز ہے،جلد اول،لاہور،مکتبہ اردو ادب،س۔ن،ص۳۷
۷۔ نیلم فرزانہ،اردو ادب کی خواتین ناول نگار،لاہور،فکشن ہاؤس،اشاعر اول،۱۹۹۲ ص۱۸۳
۸۔ رسوا،مرزا ہادی،شریف زادہ،مشمولہ مجموعہ مرزا ہادی رسوا،لاہور،سنگ میل پبلیکیشنز ،۲۰۰۰ ص۵۱۹
۹۔ رسوا،مرزا ہادی،امراؤ جان ادا،تعارف از سلیم اختر،لاہور،سنگ میل پبلیکیشنز،۱۹۹۲ ص۴
۱۰۔ سلیم اختر،ڈاکٹر،تحقیق اورلاشعوری محرکات،لاہور،سنگِ میل پبلیکیشنز،طبع اول، ۱۹۸۳ ص۸۱
۱۱۔ اقبال،علامہ محمد،ڈاکٹر،بال، جبریل ،علی گڑھ،ایجولیشنل بک ہاوس،س۔ن،ص ۳
۱۲۔ قراۃالعین حیدر،کارِ جہاں دراز ہے،جلد اول،لاہور،مکتبہ اردو ادب،س۔ن،ص۳۶۔۳۷
۱۳۔ نیلم فرزانہ،اردو ادب کی خواتین ناول نگار،لاہور،فکشن ہاؤس،اشاعت اول، ۱۹۹۲ ص۱۹۱
۱۴۔ ممتاز مفتی، علی پور کا ایلی، الفیصل ، لاہور، ۲۰۰۷ ص۷
Leave a Reply
Be the First to Comment!