اقبال بحیثیت آفاقی شاعر

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گزر رکھتی ہے
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
علامہ اقبال اک آفاقی شاعر ہیں اور آپ کی شاعری آفاقیت کے تمام تر عناصر و اجزاء سے مرصع و مزین ہے علامہ اقبال جہانِ شاعری کے بدر کامل ہیں، میکدۂِ شاعری کے سب سے عظیم ساقی ہیں، جامِ جمشید کے مالک ہیں۔ شاعر مشرق کی شاعری قندیل رہبانی ہے۔ظلم و بربریت کے لیے ضرب کلیم ہے بھٹکے ہوئے رم آہو کے لیے دم زندگی ہے احترام انسانیت کی پرستار اور ’’آدمیت احترامِ آدمی، باخبر شو از مقامِ آدمی‘‘ سے عبارت ہے۔ عشق کی خوگر عقل سے معمور ہے، ایمان و یقین سے لبریز و دل آویز ہے۔ امیدوں کے سویرے آپ کی شاعری میں طلوع ہوتے ہیں اور ناامیدی راہ فرار اختیار کرتی ہے زندگی اس شاعری میں سانس لیتی ہے اور موت دلفریب محبوبہ بن کر رقص کناں رہتی ہے۔
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں پیداری کا اک پیغام ہے
آپ کی آفاقی شاعری میں وہ فلسفہ جو معمہ ہوتا ہے، چیستہ ہوتاہے، جو عقل و خرد کو بھول بھلیوں میں گم کر دیتا ہے۔ وہ فلسفہ ایسے فنکارانہ انداز میں شاعری کے وجود میں ڈھل گیا ہے جیسے داؤد علیہ السلام کے بابرکت ہاتھوں میں لوہا ڈھل گیا تھا علامہ کی ڈائری کے الفاظ اس کی شہادت میں یوں گویا ہے:
’’فلسفہ انسانی عقل کی خنک تیرگی میں ٹھٹھرے ہوئے تجربات کا مجموعہ ہوتا ہے شاعر آتا ہے اور اپنے سوز دل سے انھیں گرماتا کر واقعیت میں بدل دیتا ہے۔‘‘
سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات
بڑی تیزی جولاں بڑی زود رس
ازل سے ابد تک رمِ یک نفس
زمانہ کہ زنجیرِ ایام ہے
دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلسفہ خشک و بے جان جسم سے نکل کر شاعری کی لطیف دلکش فضاؤں میں سانس لے کر نئے نئے گنجینۂ معانی تخلیق کر رہا ہے گویا
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئی صبح و شام پیدا کر
کیا خوب ارشاد فرمایا جناب پروفیسر رشید احمد صدیقی نے:
’’اقبال کی شاعری خود شاعری کی معراج ہے انھوں نے جذبات کو فکر کا درجہ دے دیا اور فکر کو جذبات کا آب و رنگ بخش دیا‘‘
مرے اشعار اے اقبال! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
آپ کی آفاقی شاعری کا آغاز بھی دیرینہ روایت پر ہی مبنی تھا غالبا غالب کی روح آپ میں عود کر آئی تھی۔ حافظ و رومی کا سوزو ساز رخت سفربن چکے تھے سعدی وخیام کی جلوہ نمائی بھی موجزن تھی اور داغ کی شوخی و نفاست نے بھی اپنے جلوے دکھائے بانگ درا کی غزلوں اور نظموں میں یہ رنگ بخوبی محسوس کیے جا سکتے ہیں جیسے:
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی
لیکن سفر یورپ نے آپ کی شاعری میں انقلاب برپا کر دیا، اب آپ کی شاعری کا رخ اس آفاقیت کی طرف مڑ گیا جس نے آپ کی شاعری کو نظام فن، نظام فکر و موضوع کی وسعتوں سے ہمکنار کر دیا۔ ’’کیونکہ تمدن تصوف شریعت کلام۔ بتان عجم کے پجاری تمام‘‘ کہہ کر آپ نے قدیمی روایتوں کے تمام تربتوں کو پاش پاش کر دیا۔ آپ کی شاعری ’’ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ‘‘ کہہ کر دین و دنیا کے تمام تر موضوعات کا ترجمان بن گئی، ’’خذ ماصفا ودع ماکدر‘‘ کے اصول پر خوبی کو جذب کرتی گئی اور پراگندگی کو صیقل کرتی گئی
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اس سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
کارگاہ شاعری میں مشرق و مغرب کے جتنے مایہ ناز شعراء ہیں یہ سب بیسویں صدی سے پہلے کی پیداوار ہیں ان میں وہ آفاقی شعور و آفاقی لبو لہجہ کیسے ابھر اور پنپ سکتا تھا جو علامہ کے لیے مقدر تھا، بیسویں صدی کی ہنگامہ خیزیاں، تہذیب و تمدن کا عظیم اختلاط و تصادم، عقل و عشق کی معرکہ آرائی، مادیت و روحانیت کی بر سرپیکاری ان سب کی کوکھ سے علامہ کی عظیم الشان شاعری معرض وجود میں آئی
ذرا دیکھ اس کو جو ہورہا ہے ہونے والا
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
یہ خاموشی کہاں تک لذتِ فریاد پیدا کر
زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
آپ کی شاعری ہر اس درد کی دوا ہر اس زہر کے لیے تریاق تھا جس کی ہلاکت خیزیوں سے انسانیت دو چار تھی گویا آپ کی شاعری پوری انسانیت کے لیے مسیحائی کے فرائض انجام دے رہی تھی۔ شاید آپ کے نہاں خانہ دل میں یہ صدائے درد آئی تھی کہ:
ترا بحر پر سکوں ہے یہ سکوں ہے یا فسوں ہے
نہ نہنگ ہے نہ طوفاں نہ خرابی کنارہ
کبھی آواز آئی
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ایسے پرفتن و پرآشوب دور میں آپ نے انسانیت کے درماندہ قافلے کو ’’بانگِ درا‘‘ دیتے ہوئے کہا:
ہویداآج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا
لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
اور کبھی ’’بالِ جبریل‘‘ سے لیس ہوکر اپنے شاعری کو آفاق رنگ دے کر انسانیت کو یہ پیغام دیا:
تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ
یہ بندگی خدائی وہ بندگی گدائی
یا بندۂ خدا بن بندۂ زمانہ
کبھی فرمایا:
تاروں کی فضا ہے بے کرانہ
تو بھی یہ مقامِ آرزو کر
بے ذوق نہیں اگر چہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
گویا آپ حقیقت نگار شاعری کرکے حالی کی تعبیر تھے، محمد حسین آزاد کی شاعری کے امین تھے اور شبلی کے قول کی صداقت جس میں شبلی نے کہا تھا کہ ’’جب آزاد اور حالی کی کرسیاں خالی ہو جائیں گی تو لوگ اقبال کو ڈھونڈھیں گے‘‘۔
آپ کی آفاقیت کا راز اس نقطے میں ہے کہ آپ کے یہاں شعر کی آفرینش مقدم اور صنعت موخر تھی کیونکہ آپ کی شاعری عرفانِ نفس اور زندگی کے سربستہ ہائے راز تلاش کرتی ہے، یہاں ماضی کے تخیل میں ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی لن ترانیاں ناپید ہیں۔ یہ آفاقی شاعری ماضی کی اعلی اقدار کو حال میں مدغم کرکے روشن مستقبل کی نوید سناتی ہے اور زندگی خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے اور یہ گن گاتی ہے:
ہزاروں خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
آپ کی فکری شاعری میں غضب کا اعتدال و توازن ہے، آپ مختلف تہذیب و تمدن کی احسن چیز کو اختیار کرتے ہیں اور اس کے منفی پہلوں پر زور دار تنقید کرتے ہیں، جمہوریت اور اشتراکیت کے نظریات ہوں یا مسولینی و مصطفی کمال پاشا کے افکار ہوں اس توازن و اعتدال کی کسوٹی آپ کے یہاں قرآن کریم ہے آپ دنیا کے تمام تر فکری و نظریاتی عناصر کا مطالعہ قرآن کی روشنی میں کرتے تھے۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
تو حید آپ کی شاعری کا افتخار ہے زندگی کا ماحصل ہے:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!
تاریخی انسانی میکاولی کے لا دینی تصور سے مرعوب رہی تھی علامہ نے اس پر ضرب لگاتے ہوئے کہا:
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
غربت و لاچاری جس کے بوجھ تلے ہزاروں خواب ریزہ ریزہ ہوتے ہیں اور دنیا کی اک جوئے کم آب کے مانند آبادی دولت و ثروت کے اس خزانے پر قارون بن کر بیٹھی ہوئی ہے اس کی تردید اور مساوات وانصاف کا علم بلند کرتے ہوئے علامہ اعلان کرتے ہیں:
جو حرف قلِ العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
آپ کی شاعری کوئی خاقانی شاعری نہیں تھی جو صرف علم و حکمت کے گل کھلاتی ہے بلکہ یہاں دلنشیں عمل پیہم اور یقیں محکم کارفرما ہے جو علم کو عملی جامہ پہنا کر انسانی زندگی کے لیے رہنما بناتا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
گویا آپ کی شاعری پوری انسانیت کو خواب خرگوش سے جگاتی ہے زندگی کو تابندہ سے پائندہ تر بناتی ہے شاید اسی آفاقی شاعری کے لیے ’’ٹینی سن‘‘ نے کہا تھا:
’’جس شاعری سے ملت کا دل قوی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوں اس کو اعلی درجے کے اعمال حسنہ میں شمار کرنا چاہیے‘‘۔
جہاں تک نظام فن کی نزاکتوں اور لطافتوں کا تعلق ہے تو اس میدان میں بھی اقبال نے تمام تر روایتوں کو جدت و جمال کی بلندیاں نوازی ہے۔اقبال کی نظمیں عالمی ادب میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں۔ فن و ادب کے جو سانچے جو آہنگ حافظ، رومی اور میر اور غالب نے بنائے تھے ان کو علامہ نے معراج بخشی ہے، جس کی وجہ سے اردو ادب عالمی ادب میں اپنا ممتاز مقام رکھتا ہے، آپ کی نظموں میں فنِ شعریت کی رمزیت، اشاریت و ایمائیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے آپ کی مشہور نظمیں مسجد قرطبہ، شمع و شاعر، خضر راہ، ساقی نامہ، اور مثنوی اسرار خودی، رموزے بے خودی اور جاوید نامہ دنیائے شاعری کے لیے صد افتخار ہیں جگن ناتھ آزاد ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
’’یہ نظم صرف اقبال ہی کا شاہکار نہیں بلکہ ساری اردو شاعری کا شاہکار ہے اردو شاعری میں اس نظم کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی ہماری شاعری دنیا کی صف اول کی شاعری میں ایک ممتاز مقام حاصل کر سکتی تھی‘‘۔
غزلوں کو علامہ اقبال نے ایسا لب و لہجہ بخشا اور ایسے آہنگ اور ڈھنگ سے سنوارا کہ غزل اپنی نازکی و دلفریبی کے باوجود آپ کے آفاقی پیغام میں ڈھل گئی اور بالکل میلی نہیں ہوئی بلکہ اجلی ہوکر وجد کرنے لگی وہ غزل جو نازکیِ لب اور عشوہ و غمزہ سے عبارت تھی مکمل ضابطہ حیات کی ترجمان بن گئی غزل کی زبان اور غزل کا آہنگ علامہ کے یہاں کس شان سے جلوہ افروز ہے:
آزاد کا ہر لحظہ پیام ابدیت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم اندیشہ گرفتار خرافات
گویا غزل میں آپ نے ثقیل سے ثقیل دقیق سے دقیق خیالات و نظریات کو بھی ترنم و نغمگی کے سروں سے سجا دیا:
اگر کج رو انجم آسماں تیراہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
ہر طرح کا جلال و جمال غزلوں کی تہوں میں پیوست ہے اور رمزیت و شعریت کے تمام تر اجزاء بھی محفوظ۔
الغرض علامہ کی شاعری ادب کے تمام تر لوازم و شرائط کے ساتھ آفاقیت کے زیورات سے آراستہ ہے مرحوم ’عبدالمغنی‘‘ اقبال کی آفاقیت کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ
’’اقبال کی شاعری میں فکرو فن کی عظمتوں کا جو امتزاج کامل ہے و ہ دنیائے شاعری میں اپنی مثال آپ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مشرق و مغرب میں کہیں بھی نہ تو کسی شاعر نے آج تک اتنے زبردست تفکر سے کام لیا اور نہ کسی مفکر نے ایسی عظیم شاعری کی ہے۔ پھر تفکر بھی ایک منظم فکر اور محیط فلسفے کی شکل میں اور شاعری صنائع و بدائع اور فصاحت و بلاغت کے جملہ سامان فن کے ساتھ، پھر فکر و فن دونوں کے سالمات ایک انتہائی طاقتور جذبے اور اس سے پیدا ہونے والے سوزو گداز سے پگھل کر ایک ہم آہنگ مرکب میں ڈھلے ہوئے، جس کے نتیجے میں حسن و صداقت کی ایک ایسی کامل یکجہتی کہ اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اور اس یکجہتی میں ایسی آفاقیت کہ جدید وقدیم اور مشرق و مغرب کے تمام صحیح و صالح افکار اور حسین و جمیل استعمارات کا عطرمجموعہ۔ اقبال کی شاعری کالی داس، دانتے، رومی، حافظ، شکسپیر، گوئٹے اور غالب کی بہترین اقدار فکر اور روایات فن کی امانت دار اور ان میں توسیع و اضافہ کرنے والی ہے۔ اس عظیم و بسیط مرکت و منظم زیبا و رعنا اور دانشورانہ خردمندانہ شاعری پر تنقید صرف اس قول سے کی جا سکتی ہے‘‘
ان من الشعر الحکمۃ
وان من البیان لسحرا
گویاں یوں کہیے:
محمد بھی تیر، ا جبریل بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
شاعر مشرق کی آفاقی شاعری پر کچھ لوگ اعتراض کر تے ہوئے ماتم کناں ہوتے ہیں کہ ان کی شاعری اسلامی شاعری ہے انھوں نے پہلے وطنی شاعری کی بعد میں اپنی قوم کے لیے شاعری شروع کردی۔ اگر صدق دل سے اقرار کیا جائے تو حقیقتا ان کی شاعری کو آفاقیت کے جلوے اسلام کی تعلیمات ہی نے عطا کیے ہیں، لیکن ایک ہندوستانی ناقد مرعوبیت کا شکار ہو کر یہ کہنے لگتا ہے کہ نہیں وہ اسلامی شاعر نہیں ہیں، انھوں نے تو پوری انسانیت کے لیے شاعری کی ہے، انھوں نے خاکِ وطن کو دیوتا مانا ہے، رام اور نانک کی تعریف کے گن گائے ہیں، نیا شوالہ لکھا ہے۔ وہ نادان یہ نہیں جانتا کہ اولاً تو اس قسم کی شاعری کا کچھ حصہ ان کے ابتدائی نظریات پر مبنی ہے۔
ثانیا اسلام نے ان کو رواداری کے جو عظیم الشان درس دیا تھا اس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں:
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
ثالثا:وہ اس حقیقت عظمی سے آشنا ہو چکے تھے کہ اسلام ہی درحقیقت تمام تر کامیابیوں و کامرانیوں کا منبع و مصدر ہے اور اسی کی پیروی میں اس مشتِ خاکی کی بھلائی ہے اور یہ مکمل انسانیت کی شاعری ہے:
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی رہے باقی
اور جہاں تک مسئلہ ہے کہ وہ ایک خا ص قوم کو مخاطب کرتے ہیں تو آپ کا مطمح نظر ہے کہ وہ اس خاص جماعت کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے تیار کرناچاہتے ہیں اسے مرکز و محور بنا کر اس آفاقی پیغام کو زبانِ شاعری دنیا کے چپے چپے میں پہنچانا چاہتے ہیں۔
اگر چہ بت ہے جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الا اﷲ
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسناں اول طاؤس و رباب آخر
اور اگر یہی اعتراض ہے کہ یہاں ’’خودی کا سر نہاں لاالہ الا اﷲ‘‘ ہے یہاں ’’ ان وعدہ اﷲ یاد رکھ‘‘ کی تلقین ہے،’’اے لاالہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں‘‘ کہ صدائے افسوس ہے، تو دانتے کی Divine Comedyکیا ہے؟ جو سراسر مسیحیت کے برگ و بار کی داستان طولانی ہے۔ ملٹن کی Paradise Lostکیا ہے؟ جس میں عیسائیت کے ملغوبات کی عکاسی ہے۔ گوئٹے کا ’’فاؤسٹ‘‘ کیا ہے؟ جس میں انتہائی درجے کا سفلہ پن ہے۔ اور شکسپیر کے تمام ڈرامے کیا ہیں؟ جو یونانی و عیسائی واہیات اور خرافات پر مبنی ہیں۔
در حقیقت کسی بھی فن کو اس کا مواد،ہیئت اور حسنِ ادائیگی آفاقیت عطا کرتی ہے اور اس میدان میں اقبال کی شاعری دنیا کی مجموعی شاعری کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر دانتے کی شاعری کی معراج Divine Comedyہے، اس کے مقابلے میں جاوید نامہ فن اور موضوع دونوں اعتبار سے بھاری ہے۔ شکسپیر کی مکالمہ نگاری اسے عظیم بناتی ہے، علامہ کی شاعری کی مجموعی مکالمہ نگاری خصوصا ابلیس کی مجلس شوری کی مکالمہ نگاری اس کے مدمقابل میں با آسانی رکھی جا سکتی ہے۔ ورڈس ورتھ کی فطرت نگاری بھی علامہ کی فطرت نگاری کے سامنے اک جوئے کم آب معلوم ہوتی ہے۔ گویا علامہ کی شاعری اک بحرذخار ہے جہاں حافظ کی غزلیں، پیرِ رومی کی مثنویاں، خیامی کی رباعیات اپنی تمام تر جلوہ افروزیوں کے ساتھ موجود ہیں، غالب و میر کی غزلیں فن کی آخری حد کو چھوتی ہیں، جہاں ٹیگور کی شاعری کی تمام تر لطافت و صداقت پنہاں ہے۔
گویا علامہ کی شاعری ایک مکمل ضابطہ حیات بخشتی ہے:
یہ یورپ، یہ پچھم، چکوروں کی دنیا
میرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
مذکورہ بالا صفحات اس بات پر شاہد عدل ہے کہ آپ کی شاعری میں آفاقی شاعری کے جتنے نکات اور جتنے قاعدے اس دنیا میں ممکن ہوسکتے ہیں ان سے آپ کی شاعری مزین و مرصع ہے بلا شبہ آپ کو دنیا کا سب سے عظیم شاعر کہا جا سکتا ہے اور کہنا بھی چاہیے۔ میری نظر میں آپ شاعر اعظم کہلانے کے مستحق ہیں آپ کی شاعری لامحدود ہے لازوال ہے۔ گویا آپ کی شاعری اس شعر سے عبارت ہے:
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے ہے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
یہ شاعری نہیں بلکہ Divine Wonderیعنی خدائی معجزہ ہے۔ اور اس خدائی معجزے۷ کی بیان و تبیین تعریف و توصیف کے لیے نوکِ قلم و صفحہ قرطاس دونوں عاجز و دوماند ہ ہیں۔
ورق تمام ہوا مدح ابھی باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
٭٭٭
“Iqbal Bahasiat Aafaaqi Shair” by Mr. Ziaul Haq, reseach scholar, Deptt. of Urdu, University of Delhi,”Urdu Research Journal” ISSN 2348-3687, Vol. I, Issue II, page No 46-55.

Leave a Reply

3 Comments on "اقبال بحیثیت آفاقی شاعر"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
ایم سفیان سیف
Guest
بہت شاندار لگا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔گہری معلومات ۔۔۔۔میرے علم میں اضافے باعث
زمرد حسین
Guest
ماشاء اللہ
بہت خوب۔ اللہ ہمارے عظیم شاعر کے درجات بلند فرمائے
آمین
trackback

[…] اقبال بحیثیت آفاقی شاعر […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.