اردو تنقید اور اسلوب احمد انصاری
اسلوب احمد انصاری (2016-1925)کی ادبی عمر تقریبا پچہتر سال پر محیط ہے۔انھوں نے اپنا پہلا مضمون’اقبال کا ذہنی ارتقا‘ کے عنوان سے لکھا تھا اور رسالہ’جامعہ‘ میں شائع ہوا تھا۔ اقبال کے ذہنی ارتقا پر لکھنے کی ابتدا کی اور آگے چل کر اقبال اور غالب شنا س کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔انھوں نے اقبال پر اہم کام کیا ہے۔اس اعتبار سے ان کی کئی کتابیں اقبالیات میں حوالہ کا درجہ رکھتی ہیں۔اردو میں انھیں جس طرح شہرت ملی، لوگ یہی سمجھتے رہے کہ وہ پیشے سے بھی اردو کے شعبے سے وابستہ تھے۔ جب کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ انگریزی میں استاد تھے۔ادب کا مطالعہ انھوں نے انگریزی اور اردو دونوں کا کیا۔اس مطالعہ کا نتیجہ ان کی کتابوں کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔یقینا ان کی اس کاوش سے آنے والی نسلیں بھی مستفید ہوتی رہیں گی۔اسلوب احمد انصاری نے علمی کام کرنے پر زور دیا، انھوں نے کبھی بھی شہرت کی تمنا نہیں کی۔ان کا ماننا تھا کہ اچھا کام خود مشہور کر دیتا ہے۔وہ ادب میں نئے نئے نکات ، مضامین کے ذریعے قاری کے سامنے پیش کرتے رہے۔ان کی تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔تعلق کی بنا پر کبھی کچھ نہیں لکھا۔جس فن پارے نے انھیں متاثرکیااز خود ان کا قلم اٹھ گیا۔خلیل الرحمن اعظمی نے ان کی انھیں خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس عرصے میں کوئی اور پیشہ وریا تجارتی ادیب و اشتہارباز ہوتا تو نہ جانے کتنی کتابیں اس کی بازار میں بکتیں۔لیکن اسلوب صاحب کا یہ حال ہے کہ برسوں میں کہیں ایک مضمون لکھیں گے اور اسے بھی بہت غور و فکر اور نظر ثانی کے بعد چھپنے کے لئے دیں گے یہی وجہ ہے کہ رسالوں میں ایک لمبے وقفے کے بعد ان کا کوئی مضمون شائع ہوتا…….ان کا کوئی مضمون ایسا نہیں جو سرسری یا صحافتی اور بھرتی کا ہو اور اسے اول درجے کا اہل علم نے نہ سراہاہو۔‘‘
(نقوش۔شخصیات نمبر2۔مرتب، محمد طفیل۔ادارۂ فروغ اردو، لاہور۔اکیتوبر1956۔ص، 1338)
خلیل الرحمن اعظمی کا یہ خیال ان کے علم کے تعلق سے تھا۔وہ لکھنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔جو بھی لکھتے تھے، خوب جانچ پرکھ کر لکھتے تھے، یقینا ایسا کرنے والے صدیوں تک اپنی تحریروں سے لوگوں کو مستفید کرتے ہیں۔اسلوب احمد انصاری کی شخصیت کے تعلق سے خلیل الرحمن اعظمی کے یہ جملے قابل غور ہیں:
’’لیکچرر ہونے کے بعداپنی شخصیت اور زندگی کے بعض نقوش کے تشنۂ تکمیل ہونے کا اسلوب صاحب کو احساس ہونے لگا لیکن یہ ایک دن کا کام نہیں، پھر بھی ادھر چند سالوں میں انھوں نے اپنے آپ کو بہت بدلا ہے۔کم آمیزی کی عادت کم کی ہے اور ان محفلوں میں بھی نظر آتے ہیں اور احباب اور واقف کار وں کا حلقہ بھی بڑھ گیا ہے۔کھل کر ہنسنے اور قہقہہ لگانے لگے ہیں، لطائف و ظرائف، بھپتی اور شکوہ شکایت سے بھی تھوڑی بہت دل چسپی لینے لگے ہیں۔اپنی رائے کو منوانے کے لئے ذرا بلند آہنگی سے بولنا اور اپنی بات پر اڑجانا بھی سیکھ لیاہے۔ غرض اسلوب صاحب آہستہ آہستہ کتابوں کے اس بھاری بوجھ کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں جس نے ان کی قابلیت و لیاقت میں تو بے انتہا اضافہ کر دیا تھا لیکن شخصیت کا سارا رس چوس لیا تھا۔‘‘ (ایضا۔ص، 1337)
اسلوب احمد انصاری کی اردو میں پہلی کتاب ’ادب اور تنقید ‘کے نام سے 1968میں شائع ہوئی۔اردو ادب میں اسلوب احمد انصاری کی کئی حیثیت سے پہچان ہے۔انھیں ماہر غالبیات بھی کہا جاتا ہے اور ماہر اقبالیا ت بھی۔اس کے علاوہ انھوں نے رشید احمد صدیقی کے تعلق سے اپنی گرانقدر رائے کااظہار’اطراف رشید احمد صدیقی‘نامی کتاب میں کیاہے۔غالب پرانھوں نے جو تحقیقی کام کیا ہے، اس سے ان کا مرتبہ غالب شناسی میں بلند ہے۔کام کی نوعیت کے اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ اسلوب احمد انصاری کا پسندیدہ موضوع اقبالیات ہی ہے۔انھوں نے اقبالیات کے حوالے سے جو بھی کام کیا ہے، وہ حوالے کا درجہ رکھتا ہے۔
اسلوب احمد انصاری کی پہلی اردو کتاب ادب اور تنقید میں مختلف موضوعات پرکل سترہ مضامین ہیں۔اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلوب احمد انصاری نے اردو تنقیدمیں پرکھنے کا جو اصول بنایا تھا، وہ ممکن ہے کہ کسی کے لیے سخت ہو، لیکن انھوں نے اپنے اصولوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔چونکہ وہ انگریزی زبان و ادب کے استاد تھے،اس اعتبار سے انھوں نے مغربی لٹریچرکا بھی بہت باریک بینی سے مطالعہ کیا تھا۔انگریزی ادب کے مطالعے سے بلاشبہ استفادہ کرنا چاہئے، لیکن دونوں کے بیچ جو حد فاصل ہے اسے بھی برقرار رکھنا چاہئے۔اسی لیے انھوں نے لکھا ہے:
’’ چھان بین (Evaluation) کے اس عمل میں انگریزی ادب کے مطالعے سے بھی حتی الوسع استفادہ کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ ہمیں مغربی ادب کی روایات اور رسومات(Conventions)کو قبول کر کے ان کا اطلاق اپنی زبان کے کارناموں پر میکانکی انداز سے تو نہیں کرنا چاہیئے۔لیکن ذہن کے دریچوں کو کھلا ضرور رکھنا چاہیئے تاکہ تازہ اور فرحت بخش ہواؤں کا اس میں سے گزر ہو سکے۔‘‘
(ادب اور تنقید،اسلوب احمد انصاری۔سنگم بپلیشرز، الہ آباد۔1968۔ص،8 )
درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ اسلوب احمد انصاری مغربی مفکرین کے خیالات سے مستفید ہونے کی تو بات کرتے ہیں، لیکن ان کا اطلاق اپنی زبان کے کارناموں پر میکانکی اندازمیں،کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین میں مغرب کے اہم ناقدین کا حوالہ دیاہے، لیکن ان حوالوں سے کہیں سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ مغربی نقادوں سے بے جا مرعوب ہیں۔انھوں نے اپنے مضمونـ’غزل میں فراق کا کارنامہ‘میں واضح کیا ہے کہ وہ کون سے امور تھے، جس روایت سے فراق نے روگردانی کی اور اردو شاعری میں اپنا الگ مقام بنایا۔ان کے خیال کے مطابق پہلے کے شعرا کے یہاں عام طور پرتصور حیات اورتصور عشق دونوں محدود تھے۔یہی وہ چیز تھی جسے فراق کے وجدان شاعری نے قبول کرنے سے انکار کیا۔در اصل فراق کے یہاں جو تصور عشق ہے وہ اس لیے مختلف ہے کہ انھوں نے غزل کی کائنات کو وسعت بخشنے میں الگ الگ شعرا سے اثر قبول کیا۔اس پورے تناظر میں اسلوب احمد انصاری نے اردو شعرا کاہی ذکر کیا ہے، البتہ فراق کی شاعری میں مزید وسعت جن چیزوں کے مطالعے سے ہوئی، اس کے متعلق اسلوب احمد انصاری نے لکھا ہے:
فراق نے اردو کے جن شاعروں سے اثر قبول کیا ہے ان میں میر، مصحفی اور غالب ہیں۔میر سے انھوں نے سوز وگداز اور جذبے کی پختگی، مصحفی سے لمسیت اور شادابی اور غالب سے وسعت خیال اور احساس کی طرفگی اور پیچیدگی کو نمایاں کرنے کا فن سیکھا۔انگریزی شاعر ورڈزورتھ اور ہندی اور سنسکرت ادب کے مطالعہ اور مغربی علم و فن سے انھوں نے حیات وکائنات کا ادراک ، فطرت سے وابستگی ، زمین کے حسن اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا ولولہ لیا۔‘‘(ایضاً۔ص، 181)
فراق کی شاعری کے تعلق سے اسلوب احمد انصاری نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔فراق کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی جو عکاسی ملتی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فراق کی شاعر ی دراصل سنسکرت ادب سے لے کر اب تک جو لٹریچر لکھے گئے ہیں، ان سب کا مرکب ہے۔اسلوب احمد انصاری نے بڑی خوبی سے فراق کی غزلیہ شاعری کا جائزہ پیش کیا ہے، اور اس طور سے پیش کیا ہے کہ فراق کی غزلیہ شاعری کے خدو خال واضح طور پر سامنے آگئے ہیں۔
اسلوب احمد انصاری نے راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں کے تعلق سے جو فنی جائزہ لیا ہے، وہ غیرجانب داری کی مثال ہے۔جہاں انھوں نے بیدی کے فن سے اختلاف کیا ہے اس کا جواز بھی دیاہے۔کیونکہ کوئی بھی فن کار کا مکمل فن پارہ فن کی اعلی مثال ہو ایسا شاید ممکن نہیں۔تخلیق کار در اصل کچھ ہی کہانیوں کو اس کی روح میں اتر کر لکھتا ہے، اوربعد میںاسی اچھی کہانیوں کے ذریعہ ادب میں فن کار کی نمائندگی ہوتی ہے۔کیونکہ بید ی کی کہانیاں ہندواور سکھ کے متوسط طبقے کے گھرانوں کی زندگی سے متعلق ہیں۔لیکن غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جس کی بات ہو رہی ہے اس کی زندگی کی مکمل تصویر نہیں ہے، بلکہ اس حصے کو منتخب کیا گیا ہے جن سے سماجی زندگی کا کوئی مظہر یا انسانی زندگی کا کوئی حصہ بے نقاب ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ بیدی نے ایسے موضوعات کو ایسے ہی نہیں لیا ہے ، غور کریں تو اس کی معنی خیزی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ بیدی کے کرداروں اور صورت حال کے رد عمل سے ان کی کہانیوں کا نقطۂ نظر واضح طور پر سامنے آتا ہے۔بیدی کی کہانیاں دراصل زندگی کے مشاہدات اور انسانی فطرت کے مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ اسلوب احمد انصاری نے متن کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ان کی تنقیدی بصیرت کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مشرقی اصناف کو مغرب کی عینک سے نہیں دیکھا۔بلکہ انھوں نے متن کے پس منظر میں جا کر متن کا تجزیہ پیش کیا ہے۔متن کے تجزیہ کاحق بھی تبھی ادا ہو سکتا ہے، جن نقاد تخلیق نگار کے ذہن میں اتر جائے۔اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر ادھرادھر کی باتیں ہوں گی،تجزیہ کا حق ادا نہیں ہو سکے گا۔اسلوب احمد انصاری کی ناقدانہ بصیرت اس اعتبار سے کافی اہمیت کی حامل ہے۔
ادب اور تنقید میں شامل مضامین اپنے موضوع کے اعتبار سے کافی اہم ہیں۔حسرت کی عشقیہ شاعر ی پر گفتگو کی گئی تو کلام غالب کے ایک رخ کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیاہے ۔مجاز، شاذ تمکنت،اور رشیداحمدصدیقی پر بھی اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ادبی تاریخ اور ادبی تنقیدکے متعلق لکھا ہے کہ ادبی تاریخ نگاری کا انداز اردو اور انگریزی میں عام طور پرجورائج رہا ہے وہ ایک دوسرے سے کسی قدر مختلف ہے۔اسلوب احمد انصاری نے اس تعلق سے بہت تفصیل سے اپنا مدعا واضح کیا ہے۔ انھوںنے ادبی تنقید کے تعلق سے لکھا ہے:
’’ادبی تاریخ سے ہٹ کر جب ہم ادبی تنقید کا رخ کرتے ہیں، تو ہمیں فورا یہ احساس ہوتا ہے، کہ ہم باہر کی دینا سے سفر کر کے اندر کی دنیا میں آگئے ہیںادبی تنقید، ادبی تاریخ نگاری کا ضمیمہ نہیں ہے۔بلکہ دونوں جداگانہ حیثیت کی مالک ہیں۔اور ایک دوسرے کا تکملہ کرتی ہیں۔وہ سب امور جو تاریخ نگاری میں مسلمات کا درجہ رکھتے ہیںیا مرکزی کہے جا سکتے ہیں، ادبی تنقید نگاری میں فروعی حیثیت رکھتے ہیں۔تاریخ نگاری میں قدم قدم پر شہادت فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے۔جس کی لوگ تنقیح کر سکیں …….تنقید نگاری میں زیادہ عمل دخل ذوق ، ادراک اور وجدانی شعور کا ہوتا ہے۔اس میں تجزیہ سے زیادہ شیرازہ بندی(Synthesis)ضروری ہے۔‘‘
(ایضاً۔ص، 102)
درج بالا اقتبا س سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلوب احمد انصاری نے ادبی تاریخ اور ادبی تنقیدکے ما بین جو بنیادی فرق ہے، اسے بخوبی جانچا اور پرکھا ہے،اس کے بعد اپنے مطالعے کا حاصل ذکر بالا مضمون کی صورت میں قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں اپنے اپنے نقطۂ نظر سے کام کرتے ہیں، اس مضمون میں انھوں نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔پروفیسر قمر رئیس نے لکھا ہے:
’’[ادب اور تنقید]میں ابتدائی سات مضامین ایسے ہیں جو شعر وادب کے بعض بنیادی مباحث اور مسائل کا احاطہ کرتے ہیں مثلا شعری صداقت ادب کی قدریں نثر کا آہنگ تنقید اور تخلیق (کا رشتہ) وغیرہ۔یہ ایسے نظری مباحث تھے جن پر اردو یا فارسی کے ناقدین نے نہ تو سوچنے کی زحمت کی تھی اور نہ ہی لکھا تھا۔پروفیسر انصاری کو اس کا احساس تھااور یہ بھی سمجھتے تھے کہ جب جب تک ان نظری مسائل پر گفتگو نہ ہو۔ادب کے اساسی مقدمات کی وضاحت نہ ہو اس وقت تک عہد جدید میں عملی تنقید کے نئے امکانات کی تلاش کامیاب نہیں ہو سکتی۔‘‘
(اسلوب احمد انصاری شخصیت، تنقید اور انداز تحریر۔مرتبین ، عبد المتین، محمد یوسف امین۔یونیورسل بک ہاؤس، عبد القادر مارکیٹ، علی گڑھ۔2010۔ص، 120)
بحیثیت مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ اسلوب احمد انصاری نے اردو تنقیدکو معیار عطا کر نے میں اپنا کرداربخوبی ادا کیا ہے۔انھوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ غالب اور اقبال شناسی کاجب بھی ذکر ہوگا، اسلوب احمد انصاری کو ضرور یاد کیا جائے گا۔اسی طرح سے اردو تنقید میں اسلوب احمد انصاری نے جو گرانقدر کارنامہ انجام یا ہے، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔جس طرح سے انھوں نے کام کیا ہے، آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہوتی رہیں گی۔
٭٭٭
شاہ نواز فیاض
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
Mob.No.9891438766، Email ID: sanjujmi@gmail.com
Leave a Reply
3 Comments on "اردو تنقید اور اسلوب احمد انصاری"
[…] اردو تنقید اور اسلوب احمد انصاری […]
[…] 103.اردو تنقید اور اسلوب احمد انصاری […]