مر گیا غالبؔ ِآشفتہ نوا ،کہتے ہیں
انسان کو زندگی اور اس کے تجربات کا اندازہ اسے رحم مادرسے ہی ہونا شروع ہوجاتا ہے اوروہ زندگی کی گوناگوںلذتوںسے اپنے احساس کی حس سے دوچار ہوتا ہے ۔جس شئے کی بھی دنیا میںتخلیق ہوئی ہے اورجس کاوجودمتحقق ہو چکاہے وہ قاعدۂ خداوندی …کل من علیہا فان ٍ کے مطابق …ایک دن فنا ہو جائے گی ۔اس مسلمہ اصول کو حضرتِ انسان نے بڑی آسانی سے مان لیا کہ ہر ایک وجود کو ایک دن فنا ہوجا نا ہے جس کو موت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ موت کا تذکرہ آتے ہی ہمارے دلوں پراس کی تلخی اور ہولناکی کا منظرپھر جاتا ہے۔ چنانچہ اس ارض خداوندی پر کوئی بھی بشر ایسا موجود نہیں ہے جو اس کی صداقت سے انکار کرے،مگر ایسے میں ایک شخص جس نے موت کو مضحکہ خیز بنا دیا اور ساتھ ہی اپنے مزاحیہ الفاظ سے اس کی تلخی و سوزش کو لطیفے کی شکل دی اور اس کی دشواریوں سے مردانہ وار مقابلہ کا ہنر سکھایا دنیا اسے آج غالبؔ کے نام سے یاد کر تی ہے۔ غالبؔ کے حالات زندگی پر نظر ڈالتے ہیںتوایسا معلو م پڑتا ہے کہ غالبؔ دنیا سے بیزار رہے اور موت کی جائے پناہ میں جانا چاہتے تھے مگر ایسانہیں ہے، کیونکہ غالبؔ نے حیات انسانی کے معروضی زاوئیے کو ہمیشہ اہمیت دی ہے ۔ وہ زندگی کو اپنی تمام لطافتوں اور کثافتوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور زندگی سے بھرپور وابستگی ضروری سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے کہیں اپنے آپ کو ’’نا آفریدہ گلشن کے نغمہ کار‘‘ کہتے ہیں تو کہیں
’’نہ گلِ نغمہ ہوں ، نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
غالبؔ دراصل ایک پا بہ گل انسان ہیں جن کی ارضیت پسندی ان کے فکروخیال کے ہر زاوئیے سے واضح ہوتی ہے۔ وہ کسب سرور کے لئے ماضی کی یادوں کا سہارا بھی لیتے ہیںاور مستقبل کی متوقع آسودگی کے تصور میں بھی گم رہتے ہیں ۔ ان دونوںزمانوں کے حدِ اتصال پر غالبؔ کا اپنا زمانہ ہے جس کے شیشۂ ساعت سے ریت کے ذرے ہر لمحہ گر گر کر ماضی کی عدم موجودگی میں گم ہو رہے ہیں ۔ غالبؔ کی پوری زندگی آرزوؤں کی شکستگی اورتمناؤں کی ناآسودگی کی ایک طویل داستان ہے۔ عہد غالبؔ پر نظر ڈالنے سے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ ان کاعہد سیاسی اتھل پتھل سے دوچار تھا۔ مغل اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا اور اس کا اقبا ل زوال آمادہ تھا۔ مغل حکومت کی حدیںسمٹ کر لالم سے پالم تک ہی محدود ہوکر رہ گئی تھیں اور آخری تاجدارِ مغل بہادر شاہ بس نام کے بادشاہ رہ گئے تھے۔ اس پش منظر میں غالبؔ کا یہ شعر قابل توجہ ہے :
داغِ فراقِ صحبت ِشب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
غالبؔ کے یہاں جس طرح زندگی کا ادراک بڑا گہرا ہے،وہیںموت کا شعور بھی بڑا پختہ نظر آتاہے ۔ بلکہ غالبؔ جس شدومد سے موت کے خواہاں رہتے ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ شاید زندگی کی مشکلات کا سامناکرنے سے گریزاں ہیں اور اس سے فرار اختیار کرکے موت کی جائے پناہ میں دائمی سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ غالبؔ مشکل پسند شاعر ہیں وہ ہر مشکلات سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا جانتے ہیں اور غم میں بھی مسکرانا جانتے ہیں ۔
غالبؔ کے خاندانی حالات کا جائزہ لیجئے تو ان کے آباء و اجدادکے یہاں بھی موت اور حیات میں کچھ زیادہ فاصلہ نظر نہیں آتا ہے ۔ غالبؔ کا دعویٰ ہے کہ ا ن کا شجرۂ نسب انہیں بقیۃ السیف تورانیوں جن میں الپ ارسلان، ملک شاہ اور سنجر جیسے نامور اہل سیف گزرے ہیں سے ملتا ہے ۔ گویا غالبؔ کے آباء و اجداد کو زندگی برقرار رکھنے کے لئے تلوار ہر وقت ہاتھ میں رکھنی پڑتی تھی۔چنانچہ یہ تلوار غالبؔ کے دادا مرزا قوقان بیگ تک وراثت میں آئی اور اسی طرح مرزا عبداللہ بیگ جو غالب کے والد تھے، کا سرمایۂ افتخار بھی تلوار تھی۔ انہوں نے پہلے لکھنؤ میں آصف الدولہ کی نوکری کی ۔ پھر نظام علی خاں کے دربار حیدرآباد چلے گئے ، ملازمت جاتی رہی تو آگرہ آگئے جہاں راجہ بختاور سنگھ کی فوج میں شامل ہوگئے اور یہیں گولی کھاکر شہید ہوگئے۔اسی طرح بقول غالبؔ ’’سوپشت سے ہے پیشۂ آباء سپہ گری‘‘ رہی ہے اور یہ تمام لوگ جنگوں میں اپنی جان بچانے کے لئے دشمنوں پر کاری وار لگائے رہتے ہوں گے جنہیں ہرروز موت کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا جس سے موت کا خوف یقینی طور پر ختم ہوگیا ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ غالبؔ شیر دل کی طرح موت کو ہر لمحہ گلے سے لگائے رہتے تھے جس کی بنا پر ہر مشکل حالات میں بھی وہ خوش رہتے اور دوسروں کو بھی اپنی شوخی و ظرافت سے خوش رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ غالبؔ کی شخصی زندگی دیکھیں تو موت ان پر ہر وقت سایہ فگن نظر آتی ہے ۔ غالبؔ ابھی کم سن ہی تھے کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ سن شعور کو بھی نہیں پہنچ پائے تھے کہ چچا نصر اللہ بیگ بھی اس بے ثبات دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔اس وقت غالبؔ کی عمر صرف نو برس کی تھی اور اس صغر سنی میں ہی غالبؔ کو دو اموات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں اموات اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان کے ساتھ ہی غالبؔ کی کفالت کے تمام سلسلے منقطع ہوگئے۔عزیزوں ، دوستوں ، راشتہ داروں اور اہل شہر کی اموات کا سلسلہ غالبؔ کی وفات تک جاری رہا۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ بہتّر برس کی عمر تک غالبؔ کے یہاں سات بچے پیدا ہوئے اور کوئی پندرہ مہینے سے زیادہ نہ جی سکا ۔اولاد کی جانب سے مایوسی ہوئی تو زین العابدین عارفؔ کو اپنابیٹا بنالیا مگر یہ بیٹا بھی عین جوانی میں داغِ مفارقت دے گیا۔عارفؔ کی ماں بنیادی بیگم تھیں ان کا بھی انتقال غالبؔ کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ بھائی مرزا یوسف خاںتیس سال دیوانگی اور کسمپرسی کے عالم میں رہنے کے بعد فوت ہوگئے۔ یہ واقعہ عین اس حالت میں ہوا جب ہندوستان کی تاریخ میں غدر برپا تھا اور ایسے حالات میں بھائی کو معقول کفن و دفن نصیب نہ ہوسکا اور خود غالبؔ غدر کی وجہ سے بھائی کے جنازے میں شرکت نہ کر سکے۔اس کے علاوہ عزیزوں میں علی بخش رنجورؔ اور معاصرین میں ذوقؔ و مومنؔ بھی برسوں کی دوستی ترک کرکے دنیا اور دوستی دونوں سے دغادے گئے۔ پھر ۱۸۵۷ء کا خوں ریز اور پر آشوب دور شروع ہوا جس میں غالبؔ کے ملنے جلنے والے سیکڑوں دوست واحباب ( جن میں گورے اور کالے دونوں تھے) موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔اس خوں ریز داستان کو غالبؔ کے مختلف خطوط میں دیکھا جا سکتا ہے۔ غالبؔ اس غم انگیز واقعہ کے کچھ نقش ’’حکیم غلام نجف خاں‘‘ کے نام خط میں پیش کرتے ہیں جو اس طرح ہے:
’’میاں میں ایک کثیر الاحباب شخص ہوں ۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں دوست اس باسٹھ سال میں مر گئے۔ خصوصاً اس فتنۂ آشوب میں توکوئی میرا جاننے والا نہ بچے گا۔ اس راہ سے مجھ کو ،جو دوست ابھی باقی ہیں ۔ واللہ دعا مانگتا ہوں کہ اب احباب میں سے کوئی میرے سامنے نہ مرے۔‘‘
اموات کے ا س طویل سلسلے نے غالبؔ کو صرف ذہنی اذیت سے ہی آشنا نہیں کیا بلکہ اس کا ذائقہ بار بار چکھنے کا موقع بھی دیا۔ ہر ایک موت غالبؔ کے لئے مہیب شبِ غم تھی جس کے نمودار ہونے سے پہلے ہی ایک ا ور موت شب غم لیکر آجاتی تھی۔غالبؔ اس بار بار کی موت سے بہتر صرف ایک بار مرنے کے خواہاں تھے ۔ مگر ان کی یہ حسرت پوری نہ ہوسکی ۔
کہوںکس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے، پر نہیں آتی
اس کے باوجود غالبؔ کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے کبھی موت کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس کا مردانہ وار سامنا کیا۔موت کو زندگی کیلئے خطرہ تصور نہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ مسرت افزا امیدیں وابستہ کیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ کسی فرد کی موت سے نہ زیادہ ہراساں ہوئے اور نہ ہی اسے غیر معمولی اہمیت دی۔ اس امرکی عکاسی کرتے ہوئے حاتم علی میرؔ کے خط میں لکھتے ہیں کہ:
’’کسی کے مرنے کا غم وہ کرے جو آپ نہ مرے۔‘‘
غالبؔ کی زندگی موت کے تلخ تجربوں سے ہر پل دوچار ہوتی رہی ہے اور ہر بار ان تجربوں کو وہ اپنے مخصوص طرز تخاطب سے اپنی نثری تحریروں او راشعار کے ذریعے پیش کرتے رہے ہیں ۔کبھی اپنے آپ کو ’مرگ ناگہاں‘ اور’ غالبؔ بمرد ‘جیسے استعاروں سے تشبیہ دیتے ہیں تو کبھی خود کو نجات ومغفرت کا طالب کہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ موت کے خوف سے ہراساں ہیں لیکن ایسا نہیں ہے ، وہ زندگی اور موت کو یکساں طور پر قبول کرتے ہیں، وہ موت کے خوف سے نہ ایک د م منکر ہیں اور نہ ہی اسے غیر معمولی چیز سمجھتے ہیںبلکہ اس کے ہر ایک لمحہ کو تعزیت کے نئے پہلو کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔ لوگوں کو صبر کی تلقین اور دعائے مغفرت دینے کے ساتھ ساتھ مزاح کے ایسے پہلو بھی تلاش لیا کرتے ہیں تاکہ لوگ اپنی کھوئی ہوئی ہنسی پھر سے واپس لا سکیں ۔ مگر اس کے باوجود بھی غم کے کسی لمحے کو فراموش کرنا نہیں چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظم و نثر دونوںمیں بے انتہا رثائی اشعار و عبارت بکھری پڑی ہیں ۔ مثلاً
رونے سے، اورعشق میں بے باک ہوگئے
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہوگئے
غم سے مرتاہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیتِ مہرووفا میرے بعد
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیئہ طوفاں کیے ہوئے
غالبؔ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معقول اوقات میں وہ برمحل آرزوؤں کے خواہاں رہے۔ مثلاً عمر کے آخری پڑاؤ میں غالبؔ لوگوں سے دعائے مغفرت کی آرزو رکھتے تھے ، انہوں نے کبھی کسی سے صحت کی دعا نہیں مانگی، وہ ہروقت ’’نجات کا طالب‘‘ ’’مغفرت کا طالب‘‘ اور کچھ اسی طرح دعائے مغفرت کی فرمائش لوگوں سے کیا کرتے تھے ۔ ایک خط میں اس امرکی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’اگر کسی صاحب کومیری طرف سے کچھ رنج و ملال ہو تو خالصاً للہ معاف فرمائیں۔ اگر جوان ہوتا تو احباب سے دعائے صحت کا طلبگار ہوتا ۔ اب جو بوڑھا ہوں تو دعائے مغفرت کا خواہاں ہو۔‘‘
اس طرح سے غالبؔ کی شاعری خطوط و دیگر عبارتوں کے اندرونی شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غالبؔ موقع محل کے مطابق لوگوں کو صبر کی تلقین و تعزیت مہروفا کی تاکید کیا کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ تعزیت ناموں کے اصول مرتب کرتے ہوئے اس کے ضوابط بھی بیان کرتے ہیں کہ :
’’تعزیت کے واسطے تین باتیں ہیں : اظہار غم ، تلقینِ، صبر اور دعائے مغفرت‘‘
اور پھرؔ ہر ممکن معلومات کی بنا پر موت سے پیدا ہونے والے رنج و ملال وتلخ تجربوں کووہ بڑی شدومد سے پیش کرتے ہیں جو ان کا ایک وصف خاص ہے ۔ تعزیت کے اس وصف خاص کے غالبؔ خود موجدبھی ہیں اور موخر بھی۔لوگ ان سے اپنے عزیزوں کی موت پر قطعات ،تاریخ وفات ومراثی وغیرہ لکھنے کی فرمائش کیا کرتے تھے اور بہت سی فرمائش غالبؔ نے پوری بھی کی ہے جو ان کی ’’کلیات نظم فارسی‘‘ اور دیگر خطوط وغیرہ میں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔لیکن جب ان کی طبیعت میں سیمابیت ہوتی تھی تو وہ اپنے شاگردوں اور دوسرے احباب سے اس فرمائش کو پوراکرواتے تھے ۔ مثلاً کسی نے اپنے بھتیجے کی تاریخ وفات لکھنے کی فرمائش کی تو غالبؔ مرزا ہرگوپال تفتہؔ کے نام لکھتے ہیں کہ :
’’ ایک میرادوست اور تمہارا ہمدرد ہے اسنے اپنے حقیقی بھتیجے کو بیٹا کرلیا تھا ، اٹھارہ انیس برس کی عمر ،قوم کا کھتری ،خوبصورت، وضعدار نوجوان ۱۲۷۳ھ میں بیمار پڑ کرمرگیا۔ اب اس کاباپ مجھ سے آرزو کرتا ہے کہ ایک تاریخ اس کے مرنے کی لکھوں ، ایسی کہ وہ فقط تاریخ نہ ہو بلکہ مرثیہ ہوکہ وہ اس کو پڑھ پڑھ کر رویا کرے۔سو بھائی اس سائل کی خاطر مجھ عزیز اور فکر شعراء متروک محض یہ واقعہ تمہارے حسب حال ہے جو خونچکاں شعر تم نکالوگے وہ مجھ سے کہاں نکلیں گے ۔بطریق مثنوی بیس بیس شعر لکھ دو ، مصرع کے آخرمیں مادۂ تاریخ ڈال دو۔ ‘‘
مذکورہ بالا عبارت سے ظاہرہوتا ہے کہ غالبؔ تعزیت نامے ، مراثی و تاریخی قطعات لکھنے کے صرف خواہاں ہی نہیں تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس میدان میں لاناچاہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی دلی خواہش یہ رہی ہے کہ لوگ ان کی وفات کے بعد ان کامرثیہ لکھیں:
وحشتؔ و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید
مرگیا غالبِؔ آشفتہ نوا، کہتے ہیں
تمام اصولوں اور شواہد کی بنا پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غالبؔ شخصی مراثی کہنے و تعزیتی خطوط وغیرہ لکھنے کے طرف دار تھے جو خود بھی اس میدان میں باعمل رہے اور ساتھ ہی ساتھ اس فن میں جدت پسندی کی مثال بھی قائم کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ غالبؔ سے شخصی مرثیوں کی روایت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ چونکہ غالبؔ ایک جرأت مند شاعر ہے ان کے مزاج میں بلا کی اَنا ہے اور اسی اَنا کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہر جگہ ’مردہ‘ ’نیم مردہ‘ اور ’مرگ ناگہاں‘ وغیرہ کہتے ہیں توکبھی اپنی تاریخ وفات لکھتے ہیں کیونکہ غالبؔ ایک منفرد شاعر ہیں جنہوں نے اپنی حیات میں ہر روز کی موت سے تنگ آکر چند اشعار ایسے کہے ہیں جسے ہم خود نوشت مرثیے کی صف میں رکھ سکتے ہیں ۔ چند اشعار بطور مثال ملاحظہ کیجئے ۔
اسد اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رندِ شاہد باز
یہ لاش بے کفن اسدِؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
اس طرح غالبؔ کی حقیقی وفات پندرہ فروری ۱۸۶۹ ء کو تہتر سال چارمہینے کی عمر میں بہ مطابق۲؍ذی القعدہ۱۲۸۵ھ کو ہوئی۔ ’’شاہ غوث علی قلندر‘‘مرزا کی وفات کے وقت زندہ تھے کسی نے آکر خبر سنائی،شاہ صاحب کو بڑا افسوس ہوا اور کئی حسرت بھرے شعرپڑھے پھر مرزا کے نسبت کہا…
’’نہایت خوب آدمی تھے،عجزوانکسار بہت تھا، فقیر دوست بدر جہ غائت اور خلیق ازحد تھے‘‘
غالبؔ کی نماز جنازہ دہلی دروازے کے باہر پڑھی گئی اور حضرت نظاالدین اولیاء کی درگاہ کے قریب نواب الٰہی بخش خاں معروفؔ کے مزار کے پاس دفن کئے گئے ان کے مزار پر چونے کا پلستر ہے اور سرہانے سنگ مرمر کی ایک لوح نصب ہے جس پر
رشک عرفی وفخر طالب مرد
اسداللہ خاں غالب مرد
اورمیر مہدی حسن علی مجروح ؔکا یہ تاریخی قطعہ
کل میں غم واندوہ میں باخاطر محزوں تھا تربتِ استادپر بیٹھا ہو غم ناک
دیکھا جو مجھے فکر میں ،تاریخ کے مجروحؔہاتف نے کہا’’گنج معنی ہے تہِہ خاک‘‘
لکھا ہے۔
غالبؔ ایک خوش خلق ،خوش مزاج ،فقیر دوست اور وسیع المشرب انسان تھے جنکی وفات نے ہر ایک شعبۂ کو پرنم اور ہر ایک قلب کو غم اندو ہ میں ڈوبو دیا دو ستوں اور شاگردوں نے تاریخی قطعات ومرثیے لکھے تو اس دور کے اخباروں ورسالوں نے نثری ونظمی تعزیت نامے پیش کئے ہر چھوٹے بڑے کو ان کی موت پر افسوس ہوا اور ہر کسی نے اپنے مخصوص طرز تخاطب سے رنج وملال کا اظہار کیا اور انکے یہ کہنے کے باوجود بھی کہ وہ ایک ’’ناآفریدہ گلشن کے نغمہ کار‘‘ہیں اپنے عہد سے لا تعلق نہیں تھے بلکہ جتنا گہرا تعلق ان کو اپنے عہد سے تھا اتنا ان معاصرین میں کسی کو نہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ اپنے حیات میں ہی انہوں نے جتنی ناموری و شہرت پائی اس کا ہمسری کوئی دوسرا نہیں کر سکا اور آج بھی اُن کی عظمت کا ستارہ اپنے عروج پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد اشرف
میڈیا انچارج، دہلی مائنارٹی کمیشن، دہلی
ashrafalimehadvi@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!