“یہ میرا چمن ہے میرا چمن۔۔۔” ایک سوانحی ناول

موریشس ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی اکثریت ان تارکین وطن پر مشتمل ہے جو ہندستان اور دوسرے ممالک سے ہجرت کرکے وہاں بس گئے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اسی ملک کو اپنا ملک مان کر جی جان سے اس کی تعیر وترقی میں جٹ گئے۔  موریشس سے محبت کے باوجود انہوں نے اپنے آبائی وطن نے اپنی جڑوں سے رشتہ منقطع نہیں کیا۔ وہ مادری زبان وکلچر سے محبت کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے مسجدوں میں مکاتب قائم کرکے اردو اور دینی تعلیم کا بندوبست کیا۔ بعد کی نسلوں نے  اس سلسلے کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ اردو زبان کو ترقی دے کر اسکول اور کالج کی سطح پر متعارف کرایا۔ آج ایک ایسے وقت میں جب اردو خود ہندوستان میں جہاں اس زبان کی پیدائش ہوئی،  اسکولی نصاب سے دھیرے دھیرے ختم ہوتی  جارہی ہے موریشس کے اسکولوں میں اردو کی باقاعدہ تعلیم کا انتظام ہے۔ بچے اردو پڑھ اور سیکھ رہے ہیں۔  ہر سال وہاں سے اردو سیکھنے والے طلبا کی ایک بڑی تعداد ہندوستان کی جامعات میں اردو سیکھنے آتی ہے  اور وہاں جاکر تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔   یہ طلبا جب یہاں سے اپنے ملک جاتے ہیں تو اپنی قیمتی یادیں بھی سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔ یہی یادیں جب سمٹ کر صفحہ قرطاس پر نمودار ہوتی ہے تو اسی فنکارا اظہار سے “یہ میرا چمن ہے میرا چمن” جیسا ناول تخلیق پاتا ہے۔

موریشس میں اردو کو جن بزرگوں نے اپنے خون پسینہ سے سینچا ہے ان میں سے ایک محب اردو اور مجاہد اردو عنایت حسین عیدن بھی ہیں۔ عنایت حسین کا تعلق موریشس سے ہے۔ موریشس میں اردو زبان وادب کو فروغ دینے میں عنایت حسین عیدن کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں موریشس کا بابائے اردو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں حاصل کی۔ وہ ماریشس کے دوسرے شخص ہیں جنہوں نے اردو سے ایم اے کیا۔ 1970 میں جب وہ علی گڑھ سے ایم اے کرکے ماریشس لوٹے تو ان سے دو سال پہلے قاسم ہیرا صاحب علی گڑھ ہی سے ایم اے کرکے وہاں پہنچ چکے تھے۔ ان دونوں علی گڑھ کے فرزندوں نے ماریشس میں اردو کی تعلیم کے لئے بنیادی کام کیا۔ اساتذہ کی تربیت ، نصاب کی کتابوں کی تیاری وغیرہ کے تعلق سے ان کی ایسی بنیادی خدمات ہیں جنہیں لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔مہاتماگاندھی انسٹی ٹیوٹ سے وابستگی کے بعد عیدن صاحب نے قاسم صاحب سے مل کر اردو میں ڈپلومہ کی شروعات کی اور بعد میں بی اے آنرس کا نصاب نہایت خوبصورتی سے مرتب کیا۔ اردو کے اس مجاہد کی ان خدمات کے علاوہ ایک اہم خصوصیت جس میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے موریشس میں پہلا اردو ناول لکھا۔ ان کے ناول’اپنی زمین‘ کو موریشس کا پہلا اردو  ناول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انہوں نے خود بھی ناول اور افسانے لکھے اور ’انجمن ادب‘ کے پلیٹ فارم سے نوجوان نسل کو بھی افسانہ لکھنے کی طرف راغب کیا۔

اردو میں ناول نگاری کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد سے کیا جاتا ہے۔ ناول سے پہلے اردو فکشن داستانوں کی خیالی دنیا کی بھول بھلیوں میں گم تھا۔ ناول نے فکشن کو حقیقت سے رووبرو کیا۔ قاری کا رشتہ ادب سے جوڑا۔ لیکن اب یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ اردو میں ناول لکھنے والوں کی تعداد سمٹ کر اتنی رہ گئی ہے جنہیں ہم انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ رسوا اور پریم چند کی روایت کے امین اب نہ معلوم کہاں کھوگئے۔ آج کی اس مصروف ترین زندگی میں کسے اتنی فرصت ہے کہ کئی سو صفحات پر مشتمل ناول لکھے اور لکھنے والا لکھ بھی دے تو اس کے لئے قاری اور خریدار کہاں سے لائے۔یہ صورتحال دوسری زبانوں میں بھی ہے لیکن وہاں اب بھی اچھے ناول لکھے جارہے ہیں۔ لوگ پڑھ بھی رہے ہیں۔دوسری زبانوں میں ناول لکھنے والے راتوں رات کروڑوں کے مالک بن گئے۔ لیکن بے چارے اردو کے تخلیق کار جہاں تھے وہیں اب بھی ہیں۔  اگر سچ کہیں تو اردو میں تخلیق کاروں کی بے قدری دوسری زبانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔  خوشی کی بات یہ ہے کہ اس پرآشوب دور میں بھی کچھ اردو کے مجاہد تخلیقی کام کررہے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں نام عنایت حسین عیدن کا بھی ہے۔

’یہ میرا چمن ہے میرا چمن۔۔۔‘ عنایت حسین عیدن کا دوسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے ان کا ایک ناول ’میری زمین‘ شائع ہوچکا ہے۔ ہندوستان کے تارکین وطن جنہوں نے موریشس کو اپنا وطن بنایا ان کی روداد پرمشتمل یہ ناول عیدن صاحب کا ہی پہلا ناول نہیں ہے بلکہ سرزمین موریشس میں لکھا جانے والا پہلا اردو ناول ہے۔

’یہ میرا چمن ہے میرا چمن۔۔۔‘ کا نام مجاز کے ترانہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ماخوذ ہے۔ یہ ترانہ مجاز نے علی گڑھ اور اس کی محبت میں ڈوب کر لکھا تھا۔ اس کے ہر ہر لفظ سے علی گڑھ کی تہذیب یہاں کا کلچر طلبہ اور اولڈ بوائز کی ادارے سے محبت کی جھلک نظر آتی ہے۔ عنایت حسین عیدن کا یہ ناول بھی اسی علی گڑھ کی تہذیب اور کلچر کی ان بھولی بسری یادوں کو سمیٹنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔

’یہ میرا چمن ہے میرا چمن۔۔۔‘ دراصل مسلم یونی ورسٹی کے ایک ایسے سپوت کے احساسات ہیں جس کو علی گڑھ سے بے انتہا پیار ہے۔ اس کی اچھائیوں اور خامیوں  ہر ایک پرا س کو ناز ہے۔

ناول کی کہانی علی گڑھ میں عالمی اولڈ بواز کانفرنس سے شروع ہوتی ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے پوری دنیا میں علی گڑھ کے فارغین شرکت کے لیے آتے ہیں۔ ان اولڈ بوائز میں محسن (انگلینڈ)، انظر(موریسش) اور مولنڈو(افریقی ملک کالینگا) بھی شرکت کے لیے آتے ہیں۔ اس طرح پورے ناول کی کہانی بمشکل ایک ہفتہ پر کی روداد پر مشتمل ہے مگر فلش بیک تکنیک کا سہارا لے کر تقریباً نصف صدی کے لمبے عرصہ کو اس ناول میں سمیٹ لیا گیا ہے۔ ساتھ ہی آج سے چالیس سال پہلے کے علی گڑھ اور اس کے کلچر کا زمانہ حال سے خوب صورت اور دلچسپ موازنہ کیا گیا۔

کانفرنس میں شرکت کے بعد یہ تینوں دوست جو اپنے زمانے میں یونی ورسٹی کی مختلف فیکلٹیوں اور شعبوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے حسرت موہانی ہاسٹل کے کمرہ نمبر 20کی زیارت کرنے کے لئے جاتے ہیں جہاں وہ اپنے تعلیم کے دوران رہتیتھے۔ یہیں پر ان کی ملاقات  مظفر  اور آفاق سے ہوتی ہے۔ دونوں انجینئرنگ کے طالب علم ہیں۔  اس وقت اس کمرے میں مظفر رہ رہا ہے جس میں کبھی مولنڈو رہا کرتے تھے۔ دونوں دوستوں نے پڑوس کے کمروں سے کپ وغیرہ کا بندوبست کرکے ان سبھی مہمانوں کے لئے چائے کا انتظام کیا۔ اس کے بعد اس گروپ میں ان دونوں کی ہم سبق نیلوفر، شگفتہ اور تسنیم کی بھی شمولیت ہوجاتی ہے۔

مولونڈو کے کردار کو ناول نگار نے شروع سے اخر تک سسپنس بنا کر رکھا ہے۔ وہ اپنے ملک کا ایجوکیشن منسٹر ہے۔ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرکے وہاں کی سیاست میں اس نے اپنا عمل دخل بنالیا۔ لیکن مولونڈو کا ماننا ہے کہ علی گڑھ میں تعلیم کے دوران   یونی ورسٹی کی سیاست سے ہی اس نے اپنا کیرئر بنایا ہے۔ وہ ذاکر کو اپنا گرو مانتا ہے۔ مولونڈو کی خواہش تھی کہ وہ  علی گڑھ میں ایک طالب علم کی طرح رہے تاکہ وہ اپنی گزشتہ دنوں کی یادوں کو تازہ کرسکے یہی وجہ ہے کہ پروٹوکول کو توڑتے ہوئے اس نے  یونی ورسٹی میں کسی پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ کوئی منسٹر ہے، یہ بات صرف اس کے قریبی دوست اور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے علم میں ہیکہ مولیڈو کسی ملک کا ایجوکیشن منسٹر ہے۔

کہانی کا مرکزی کردار محسن ہے جو علی گڑھ سے اکنومکس سے ایم اے کرنے کے بعد انگلینڈ چلاگیا جہاں  اس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عیدن صاحب نے ناول میں تفصیل سے محسن کی پڑھائی اور وہاں کی زندگی کے بارے میں معلومات فراہم کی ہے۔ دراصل اس حوالے سے ناول نگار نے علی گڑھ اور انگلینڈ کی طرز معاشرت اور دونوں جگہوں کی اچھائیوں اور برائیوں کا تقابلی جائزہ لیا ہے۔ انگلینڈ میں جا کر جیب خرچ کے لئے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں برتن صاف کرنے کی نوکری کرنا، نماز اور دیگر اسلامی امور کا دھیرے دھیرے ترک کرکے کلبوں میں جاکر شراب نوشی کرنا۔ مختلف گرل فرینڈ کے ساتھ گھومنا اور ان کے ساتھ عیش ومستی کرنا۔ اور پھر ان ہی میں سے کسی ایک لڑکی سے شادی کرلینا اور شادی کے بعد بیوی کا طلاق لینا اور ساتھ ہی کورٹ کی مدد سے  گھر اور برسوں کی جمع پونجی لے کر چلی جانا۔ یہ سبھی روداد ناول نگار نے اتنے پر اثر انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری  تجسس سے صفحات در صفحات محسن کی شخصیت کی  گرہوں کو کھولتا جاتا ہے۔  محسن کی کردار نگاری کا سب سے بڑا کمال یہ  ہے کہ شروع سے آخر تک کہیں بھی تجسس کم نہیں ہوتا ہے۔ جو کسی بھی ناول کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

محسن کی کردار نگاری میں مصنف نے کمال ہوشیاری سے کام لیا ہے۔ محسن کے اندر لاکھ برائیاں ہیں۔ وہ گھر سے جانے کے بعد اپنے والدین سے زیادہ دنوں تک رابطہ نہیں رکھ سکا۔ والدین کی وفات پر وہ اپنی ’مجبوریوں‘ کی وجہ سے ان کی مٹی میں شریک نہیں ہوسکا۔ شراب اور دوسری غلط عادتیں اس کے اندر ہیں لیکن اس کے باوجود قاری کو اس سے ایک قسم ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔  اس کے دو بچے اس کو چھوڑ کرچلے جاتے ہیں جس کو وہ مکافات عمل سمجھ کر خود کو قصور وار ٹھہراتا ہے۔ علی گڑھ واپسی پر اس کی ملاقات  اپنے بھتیجے حبیب سے ہوتی ہے اس کے بعد وہ اپنے بھائی سے بھی ملاقات کرتا ہے۔  اس نے والدین کی وفات کے بعد ہندوستان ایک پاور آف  اٹارنی  بناکر بھیج دیا تھا کہ موروثی جائداد میں اس کو کوئی حصہ نہیں چاہئے اس طرح وہ ان کوتاہیوں کی بھر پائی کرنا چاہتا تھا جو والدین کی وفات کے بعد خاندان کی کفالت نہ کرسکا تھا۔ اپنے بھائی سے ملاقات کے تعلق سے اس کے خیالات ناول نگار کی زبانی:

’’محسن چپ چاپ تھا۔ گھبرایا ہوا تو نہیں تھا چہرے سے پتا نہیں چل رہا تھا کہ اس کی اندرونی کیفیت کیا ہے۔

 ’’کیا بات ہے تم کچھ نہیں کہہ رہے ہو‘‘ ندیم نے پوچھا۔

’’کیا کہوں سوچ رہا ہوں کہ عامر سے کیا کہوں ؟ کسی سے رابطہ نہیں رکھا۔ کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا کہ میں کہاں ہوں ، کیسا ہوں، اور کیا کررہاہوں ؟ تقریباً اکتالیس سال اور پانچ مہینے گزرگئے ہیں۔ میں کیا منہ دکھاؤں گا۔ بس چلتا تو کسی سے ملے بغیر ہی واپس چلا جاتا۔ مگر آیا تو تھا اسی لئے کہ۔۔۔۔۔‘‘(ص ۶۴)

تیسرا اہم کردار انظر کا ہے جو علی گڑھ سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد اپنے ملک موریشس واپس چلا جاتا ہے۔ اپنے بقیہ دو دوستوں  کے برعکس انظر نے علی گڑھ سے رشتہ بنائے رکھا تھا۔  ناول نگار نے انظر کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی اور نہ ہی موریشس اور وہاں کے کلچر کے بارے میں۔  حالانکہ عنایت حسین عیدن کے موریشس سے تعلق رکھتے ہیں اس  وجہ سے غالب گمان ہے کہ انہوں نے اس کردار کی شکل میں خود کو پیش کیا ہے۔  اس کے باوجود موریشس کی تہذیب اور کلچر کے بارے میں کچھ بیان نہ کرنے کی دو وجہیں میری سمجھ میں آتی ہیں:

چونکہ علی گڑھ کی تہذیب اور کلچر کا موازنہ کسی دوسری تہذیب اور کلچر سے کرنا تھا اس وجہ سے ایک ایسی تہذیب کو چنا گیا جو علی گڑھ سے مغایرت رکھتا ہو اس لحاظ سے موریشس کا کلچر اس کے لئے مناسب نہیں تھا۔  اس کے لئے انگلینڈ  سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہوسکتی تھی۔  موریشس پر انگریزوں کی حکمرانی رہی ہے اس وجہ سے موریشس والے وہاں کی تہذیب اور کلچر کے بارے میں زیادہ واقفیت رکھتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ناول نگار نے اپنا پہلا ناول  ’اپنی زمین‘ میں خاص طور پر موریشس کی تہذیب، کلچر اور تاریخ کو پیش کیا ہے۔ اس ناول میں بھی اگر موریشس کو پیش کیا جاتا تو دونوں میں تکرار ہوسکتا تھا۔ وجہ جو بھی رہی ہو اس ناول میں علی گڑھ کی تہذیب  کی چھوٹی سی چھوٹی چیزوں کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ علی گڑھ کی چائے نوشی،وہاں کی سائیکل،  لباس اور بڑے اور چھوٹے کا ادب و احترام  سبھی کچھ اس ناول میں ہے۔  ناول نگار کا ماننا ہے کہ آج سے چالیس سال پہلے کے علی گڑھ اور آج کے علی گڑھ  میں قدروں کے لحاظ سیکوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔ سائیکل کی جگہ پر بہت سارے طلبہ کے پاس موٹر سائیکلیں آگئی ہیں۔  شہر میں ٹریفک بڑھ گئی ہے۔ یونی ورسٹی میں لڑکیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ ان تبدیلیوں کے باوجود علی گڑھ کی تہذیب اب بھی زندہ ہے۔

ناول میں ایک بات خاص طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے وہ ہے وہاں کے طلبہ کی ادارے سے محبت اور وابستگی۔ سچ بات یہ ہے کہ اس معاملہ میں دبستان سرسید کا مقابلہ کوئی دوسرا ادارہ نہیں کرسکا ہے۔ اس ادارے کے فارغین میں ذاکر (ناول کا ایک کردار) جیسے لوگ بھی ہیں جس نے اپنی پوری زندگی علی گڑھ میں ادارے سے محبت کی وجہ سے گزار دی۔ انہوں نے اسٹوڈنٹ پالیٹکس میں حصہ لیا لیکن اپنی سیاست چمکانے کے لئے نہیں بلکہ ادارے اورطلبہ کی بھلائی کے لئے۔  سبھی لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ محسن واپس انگلینڈ نہ جاکر علی گڑھ میں ہی رہ جائیں۔ ایسے موقع پر ذاکر  اپنی دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے وائس چانسلر کو ایک تجویز پیش کرتے ہیں کہ یونی ورسٹی میں ایک ایسادفتر قائم کیا جائے جو بیرون ملک جانے والے طلبہ کو مشورہ دے سکے بیرون ملک رہنے والے فارغین کا ریکارڈ رکھ سکے تاکہ بوقت ضرورت ان کی مدد لی جاسکے۔ اس کے لئے محسن سے زیادہ کار آمد اور موزوں شخصیت نہیں ہوسکتی تھی۔ محسن اس وقت لندن کی کسی یونی ورسٹی سے پنشن لے رہے تھے اس وجہ سے انہیں اعزازی طور پر کام کرنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ ذاکر کی یہ تجویز کام آئی اور محسن اس ادارے کے لئے علی گڑھ میں ہی  رک گیے۔ اس طرح علی گڑھ کی یہ خصوصیت ثابت ہوجاتی ہے کہ اس کے اندر ایک خاص قسم کی کشش ہے۔ اس کے سحر سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ علی گڑھ کی تہذیب کیا ہے، اس پر مکالموں کے ذریعہ ناول نگار نے روشنی ڈالی ہے:

’’آپ لوگوں نے ابھی علی گڑھ کا واسطہ دیا۔ یہ کیوں؟ ‘‘ محسن نے پوچھا۔

’’اس لئے کہ ہمیں علی گڑھ بہت عزیز ہے‘‘ نیلوفر نے کہا۔

’’کیا ہر یونی ورسٹی کے طالب علم اپنی یونی ورسٹی کا واسطہ دیتے ہیں۔‘‘ محسن نے پوچھا۔

’’میرے خیال سے نہیں۔ وہ اس لئے کہ یہاں کی ایک خاص تہذیب ہے جو ہمیں بہت عزیز ہے۔‘‘ آفاق نے کہا۔

’’اچھا یہ بتائیے کہ آپ لوگوں کی نظر میں علی گڑھ کی تہذیب کیا ہے؟‘‘ محسن نے کہا۔

’’علی گڑھ تہذیب ہماری تہذیب ہے۔ جس طرح سے ہم یہاں جیتے ہیں، ہمارے ہنسی مذاق کا طریقہ، بڑوں کا ادب، دوسروں کی مدد کرنے کے لئے تیار رہنا، روشن خیال ہونا مگر دین کو نہ بھولنا۔۔۔اور تم لوگ بھی تو کہو۔ میں سب کہتی جاؤں‘‘ تسنیم نے کہا۔

’’تم نے شروع کیا۔ کس کی مجال کہ تمہیں روکے۔‘‘ شگفتہ نے کہا اور سب ہنسنے لگے۔ دادا بھی اور عامر بھی۔

’’یہی ہے ہمارے ہنسی مذاق کا طریقہ۔ خیر علی گڑھ کی تہذیب میں یہ بھی ہے کہ معقول طریقے سے لباس پہننا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، بڑوں کا احترام کرنا اور۔۔۔‘‘ مظفر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اور کیا کہے۔

’’علی گڑھ کی تہذیب مسلمانوں کی تہذیب ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ تمام تہذیبوں سے بہتر تہذیب ہے۔ اسی لئے تو اردو کے پروفیسر رشید احمد صدیقی صاحب مرحوم نے کہا ہے اگر کوئی مہذب آدمی نظرآجاتا ہے تو ہم فوراً کہتے ہیں کہ یہ آدمی ضرور ایک علیگ ہے۔‘‘  آفاق کے ایک دوست نے کہا۔

’’اور کچھ کہا جاسکتا ہے؟‘‘ محسن نے پوچھا۔

’’ہاں لڑتے بھی ہیں تو بڑی تہذیب سے۔‘‘ تسنیم نے کہا۔‘‘ (ص ۷۹۱)

ان مکالموں میں ہلکی نوک جھوک سے ناول کی فضا خوش گوار ہوگئی ہے۔ علی گڑھ سے وہاں کے طالب علموں کا لگاؤ زندگی کے آخری پڑاؤ تک باقی رہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک صاحب ایک لمبے عرصہ کے بعد اپنے مادر علمی گڑھ گئے۔ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے واہ! وہی لائبریری وہی لباس ، وہی خوش گپیاں، اتنے میں ان کی نظر ایک رکشہ پر پڑی۔ دیکھا کہ ایک لڑکا اور لڑکی محوگفتگو کہیں جارہے ہیں۔ ان کودیکھتے ہیں انہوں نے کہا: وہی معاشقے۔ لڑکے نے سنتے ہی ٹوکا، ’یہ میری بہن ہے۔‘ انہوں نے کہا: ’’اوہ، وہی بہانے۔۔۔۔‘‘

  ناول نگار نے مکالموں پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ہر کردار سے وہی مکالمے کہلوائے ہیں جو اس کے لئے مناسب ہیں۔ مولونڈو کے مکالمے اسی ضرورت کے تحت عام طور پر انگریزی میں لکھے گئے ہیں۔  ایسا سبھی جگہوں پر نہیں ہے کہیں کہیں انہوں نے اردو زبان میں بھی ان سے مکالمات کہلوائے ہیں۔

ناول کا ایک کمزور پہلو یہ ہے کہ ناول نگار نے بعض اہم مواقع پر کلائمکس کو مس miss کردیا ہے۔ حالانکہ وہاں توجہ دی گئی ہوتی تو کہانی میں جان پیدا ہوجاتی۔ مثال کے طور پر محسن کی بھیجی ہوئی پاور ا?ف  اٹارنی کے کاغذات لوٹانے کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’چائے پینے کے بعد عائشہ اپنے کمرے میں گئی اور ایک لفافہ اور ایک کپڑے کی تھیلی لے آئی اور محسن کو تھماتے ہوئے کہا: ’بھیا یہ امانت آپ کی ہے۔ اب میں اسے اور زیادہ دنوں تک نہیں رکھ سکتی۔‘‘

’’یہ کیا ہے؟‘‘ محسن نے پوچھا۔

’اس لفافے میں آپ کا پاور آف اٹارنی ہے۔ آپ نے کیا سوچ کر یہ بھیجا تھا۔ بتائے۔ بتائے۔ اور یہ امی کے زیورات ہیں۔ ایک حصہ امی نے مجھے دے دیا تھا اور کہا تھا کہ جب آپ آجائیں اور آپ کے ساتھ کوئی میم آئے تو آپ کو دے دوں۔‘‘ عائشہ نے کہا۔

’ آپ کی امانت ہے سو میں نے دے دی۔اب آپ جانیں کہ کس میم صاحبہ کو دینا چاہتے ہیں۔‘ عائشہ نے کہا۔‘‘ (ص ۶۷۱۔۷۷۱)

حالانکہ یہ کہانی کا بہت اہم حصہ تھا۔ اس کو ناول نگار اور خوب صورت انداز میں پیش کرسکتے تھے۔ اسی طرح ایک ہی بات کی تکراربعض مقامات پر ناگوار گزرتی ہے۔ مثلا لندن اور وہاں کے کلچر کے بارے میں مختلف حوالوں سے تذکرہ کئی مقامات پر کیا گیا ہے۔ ایسا غالباً دونوں تہذیبوں کے فرق کو واضح کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔

کہانی کا انجام بھی کچھ بھلا نہیں معلوم ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ناول لکھتے لکھتے کسی نے کہہ دیا کہ بس، بہت ہوگیا اور عیدن صاحب نے جملہ مکمل کرکے وہیں پر قلم روک دیا ہو۔ مناسب ہوتا کہ ناول نگار ناول کو کسی منطقی انجام تک پہنچا کر ختم کرتے مثلا ًجس آفس کے افتتاح کی تیاریاں ہورہی تھیں اس آفس کا افتتاحی پروگرام جس میں وائس چانسلر کی شرکت بھی متوقع ہے ایک بہتر اختتامیہ ہوسکتا تھا۔

کئی مقامات پر مکالمے بھی غیر فطری ہوگیے ہیں، مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

’تقریباً اکتالیس سال اور پانچ مہینے گزرگئے ہیں۔ میں کیا منہ دکھاوں گا۔ بس چلتا تو کسی سے ملے بغیر ہی واپس چلا جاتا۔۔۔‘

یہاں مکالمہ میں ’تقریباً اکتالیس سال اور پانچ مہینے‘ غیر فطری ہے۔’تقریباً‘ کے ساتھ سال اور مہینے کا تعین دو متضاد چیزیں ہیں۔

ادب کی دنیا میں کوئی بھی تخلیق مکمل نہیں ہوتی۔ پریم چند کے شاہکار ’گئودان‘ اور رسوا کے ناول ’امراؤ جان‘ پر بھی تنقید کرتے ہوئے ناقدین دسیوں خامیوں کی نشاندی کرتے ہیں۔ اس سے نہ ان ناولوں کے معیار پر حرف آتا ہے اور نہ ناول نگار کی تنقیص لازم آتی ہے۔ رسوا نے اپنا ناول امراو جان لکھنو کی تہذیب اور کلچر کو پیش کرنے کی غرض سے لکھا تھا۔ اس کے لئے رسوا نے کوٹھے کو چنا جو لکھنوی تہذیب کا سب سے بڑا مظہر تھا۔ عنایت حسین عیدن نے بھی ’یہ میرا چمن ہے میرا چمن۔۔۔‘ کے ذریعہ بنیادی طور علی گڑھ کے تہذیب اور کلچر کو پیش کیا ہے۔ لکھنوی تہذیب اور علی گڑھ کی تہذیب میں قدرے اشتراک شائستگی اور ادبی ذوق ہے۔

وابستگان علی گڑھ کو اس ناول کا مطالعہ پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے کرنا چاہئے اور جو لوگ علی گڑھ یونی ورسٹی سے وابستہ نہیں ان کے لئے یہ ناول وہاں کی تہذیب اور کلچر سے متعارف کرانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.