مارواڑ میں اردو

نام کتاب:مارواڑ میں اردو

مصنف:ڈاکٹر ضیاء الحسن قادری

صفحات:480

قیمت:282 روپے

ناشر:گلوبل اردو کمپیوٹرس اینڈ پرنٹرس جے پور راجستھان

مبصر:سلمان فیصل

 راجستھان میں اردو کی تاریخ بہت پرانی ہے جس کا سرا فارسی کے توسط سے مغل بادشاہ اکبر کے نورتنوں میں سے فیضی اور ابوالفضل سے ملتا ہے۔راجستھان صدیوں سے ایک راجپوتانہ علاقہ رہا ہے۔اس کے قدیم مشہور علاقے ڈھونڈہار، شیخاوٹی، میواڑ، میوات، واگڑ اور ہاڑوتی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان علاقوں میں صوفی سنتوں کا ورود مسعود بہت رہا ہے۔ جس کے سبب یہاں فارسی پھلی پھولی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے اردو کی تخلیق میں معاون ثابت ہوئی۔ یوں تو راجستھان میں اردو کی ترویج و اشاعت اور اردو خدمات کے سلسلے میں کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں لیکن زیر تبصرہ ڈاکٹر ضیاء الحسن قادری کی یہ کتاب راجستھان کے ایک خاص علاقے کی اردو میں علمی و دادبی خدمات کو محیط ہے۔ وہ علاقہ مارواڑ کا جس کے تحت جودھ پور، بیکانیر، ناگور، پالی، جالور، جیسلمیر، باڑمیر اور سروہی کے علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں کے لوگوں کی مادری زبان مارواڑ ہے۔ اس لحاظ سے اس خطہ ارض کی علمی و ادبی خدمات کو ’’مارواڑ میں اردو‘‘ کے عنوان کے تحت ایک کتاب میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔

کتاب کے مشمولات پر سرسری نظر ڈالنے سے علم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں جو ابواب بندی کی گئی ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ پہلے باب کا عنوان ’’مارواڑ میں اردو شعر و ادب (1947تک)‘‘ رکھا گیا ہے ۔ اس کے بعد کے ابواب میں 1947کے بعد کی ادبی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے جو ذرا تفصیل سے ہے ۔ مصنف نے جودھ پور ارو بیکانیر کے لیے الگ الگ باب قائم کیے ہیں جبکہ چوتھے باب میں ناگور، پالی، سروہی، جیسلمیر اور باڑمیر کی ادبی تاریخ کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں تقریباً ساڑھے چار سو صفحے کے بعد مارواڑ میں اردو و شعر و ادب کے جدید رجحانات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ پوری کتاب میں سب سے زیادہ جگہ جودھ پور اور بیکانیر کو ملی ہے کیونکہ اس علاقے کی ادبی زمین بہت زرخیز رہی ہے۔ یہاں شعرا و ادبا کی کثیر تعداد نے اردو ادب کی شمع کو روشن رکھنے اور اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ڈاکٹر ضیاء الحسن قادری نے پہلے باب میں مارواڑ میں اردوشعر و ادب کی صورت حال کا جائزے لیتے ہوئے آزادی سے قبل تک کا احاط کیا ہے ۔ اس کے تحت انھوں نے جن ہستیوں پر ذرا تفصیل سے لکھا ہے ان میں ناگور میں سکونت پذیر صوفی حمید الدین فاروقی، جودھ پور کے محمد اکرم فیض،محمد مردان علی خاں، دیبی پرشاد بشاش، عبداللطیف فاروقی، قاضی کبیر احمد کبیر، عبدالباری تنہا،سید  محمد مرغوب اختر، بیکانیر کے منشی سوہن لال بھٹناگر، محمد عبداللہ بیدل، شیخ خلیل احمد خلیل،منشی جلال الدین اثر، شوکت عثمانی، سروہی کے منشی عبدالوحید رضوی وغیرہ قبل ذکر ہیں۔

مصنف نے 1947کے بعد کی ادبی تاریخ کو مرتب کرتے وقت انھوں نے جودھ پور اور بیکانیر کو الگ الگ باب میں تقسیم کرکے قدرے تفصیل سے معلومات فراہم کی ہیں۔ مصنف نے یہ بھی خیال رکھا ہے کہ اگر کوئی ادیب راجستھانی باشندہ نہیں ہے لیکن اس نے راجستھان میںزیادہ دن گزارے ہیں تو ان کو بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے جیسے عصمت چغتائی اور بے خود بدایونی وغیرہ۔ جودھ پور میں اردو شعر و ادب کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے شرف الدین یکتا، پریم شنکر شریواستو، شین کاف نظان، حبیب کیفی، وحیداللہ خاں وحید، حفیظ اللہ بیکس، منشی کالے خاں ابر، ابوالاسرار رمزی،امجد علی امجد، موہن لال کول، محمودالحسن پارس، پریم ٹونکی، امین جودھپوری کا خاص طور سے ذکر کیا اور ان کے کلام کے نمونوں کے ذریعے ان کی قدر و منزلت کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔فاضل مصنف نے جودھپور کے موجودہ شعرا کے عنوان کے تحت موجودہ شعری و ادبی صورت حال کو واضح کیا ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے سید محمد علی اثر اجمیری، ایم اے غفار راز، اے ڈی راہی، سکندر شاہ خوش دل، روی بھاردواج، حنیف کیفی، سرفراز شاکر، نثار راہی وغیرہ کا خاص طور سے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جودھپور میں نشاعری کے نئی پود کے عنوان کے تحت متعدد شعرا کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

جودھپور کے بعد بیکانیر کی ادبی صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس حصے میں مصنف نے کثیر تعداد میں شعرا و ادبا کا تذکرہ کیا ہے۔ شعرا کی ایک طویل فہرست ہے جن کے بارے میں مصنف نے معلومات فراہم کی ہیں۔ ان میں چند قابل ذکر شعرا کے نام محمد یوسف عزیز،غلام نبی اسیر، کامیشور دیال حزیں، پریم سنگھ کمار پریم، محمد ایوب سالک، غلام حسین کلیم ہاشمی، دیوان چند دیوان، عزیز آزاد وغیرہ ہیں۔ مصنف نے اس کے بعد حصے میں موجودہ شعرا کا تذکرہ کیا ہے جن میں قابل ِذکر نام محمد حنیف شمیم بیکانیری، غلام محی الدین ماہر،عبدالمغنی رہبر، ذاکر حسین ادیب، شمس الدین ساحل وغیرہ ہیں۔ بیکانیر میں اردو کی نئی نسل کے تحت متعدد شعرا کا ذکر ہے۔ اس حصے میں بیکانیر کچھ اہم ادبی تنظیموں اور مشاعروں کا بھی ذکر ہے جن سے بیکانیر کی ادبی فضا کی صورت حال اندازہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ضیاء الحسن قادری نے جودھ پور اور بیکانیر کی علمی و ادبی خدمات کے بعد ناگور ، پالی، سروہی، جیسلمیراور باڑمیر کی شعری فضا اور وہاں کے ادب کا جائزہ لیا ہے۔ اس حصے میں مصنف نے کثیر تعداد میں شعرا کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے مارواڑ کا شعروادب اور جدید رجحانات کے  زیرعنوان وہاں کی موجودہ علمی و ادبی رجحانات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے ترقی پسند تحریک اور جدید و مابعد جدیدت کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب اردو ادب کی تاریخ میں اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں ایک علاقے کی  زرخیزادبی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ آخر میں مارواڑ کی علمی و ادبی فضا کے تعلق سے خود مصنف کا بیان ملاحظہ فرمائیں :

’’یہاں کی شاعری روایتی اور سماعتی ہونے کے باوجود زندگی کی ترجمانی کرتی رہی ہے۔ اس نے حسن و عشق کے ساتھ تعلق برقرار رکھتے ہوئے بھی زندگی کا دامن بھی تھامے رکھا اور غرض کہ غریبوں، مزدوروں اور مظلوموں کا درد بیان کیا ہے۔ یہاں کے ادب میں عورتوں پر ظلم، مہنگائی اوربے روزگاری کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہاں کے شعرا نے ہیئت اور اصناف کے لحاظ سے غزل کے دامن کو تھامے رکھا اور نئی اصناف مثلاً دوہا، ماہیا، ہائیکو ، آزاد نظمیں، نثری نظمیں بھی کہتے رہے۔ یہاں پر افسانے اور ناول بھی لکھے جارہے ہیں۔ جن میں نئے قسم کے مضامین پیش کیے جارہے ہیں۔علاوہ ازیں یہاں پر تحقیق و تنقید اور ترجمے کے شعبے میں بھی گراں قدر کاوشات انجام دی جارہی ہیں۔‘‘ (مارواڑ میں اردو: ضاء الحسن قادری،ص:468)

****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.