اپنی بات
سر سید کی صد سالہ تقریبات کا دور دورہ ہے۔ ملک کے تقریباً سبھی اہم اداروں اور انجمنوں کی طرف سے سرسید کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سرسید نے قوم اور اردو زبان و ادب کی اہم خدمت انجام دی ہے۔ ان کی خدمات کے لیے ہزاروں سمینار اور کانفرنس ناکافی ہیں۔ لیکن ان پر منعقدہ سمیناروں میں دانشوری کے نام پر سرسید اور چند علما کے اختلافات کو جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اس کو صحت مند علمی روایت کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ سرسید پوری زندگی علما سے برسر پیکار تھے جو سراسر غلط ہے۔ اگر کچھ علما ان کی مخالفت کررہےتھے تو کچھ ان کی حمایت بھی کررہے تھے۔ہر زمانے میں چند علما ایسے رہے ہیں جو اپنے انتہا پسندانہ رویوں کی وجہ سے اپنے مخالفین کو کافر، دین سے خارج اور گمراہ جیسے القاب سے نوازتے رہے ہیں۔ زمانہ کافی ترقی کرگیا اس کے باوجود چند عجوبہ روزگار فتاوے اب بھی آجاتے ہیں جو میڈیا میں مسلمانوں کی رسوائی کا سامان بنتےہیں۔ ان فتوؤں پر نہ پہلے کوئی توجہ دیتا تھا نہ اب ان کی کوئی وقعت ہے۔
جب ہمارے اردو کے دانشور سرسید اور اقبال کا ذکر کرتے ہیں تو ان فتوؤں کو ذکر کرنا نہیں بھولتے جن کے خالق اپنی گمنامی کی زندگی مرگیے ہوتے اگر ان کو ہم لوگوں نے زندہ نہ رکھا ہوتا۔ سرسید ایک مفکر تعلیم، صحافی، محقق، ادیب اور مصلح تھے لیکن ان سب سے پہلے وہ ایک مولوی تھے۔ ان کی اس حیثیت کوہمیں نہیں بھولنا چاہئے۔ وہ اسلام کے بنیادی مصادر سے براہ راست استفادہ کرتے تھے۔ شریعت کی نظر میں اجتہاد کرنے والا اگر غلطی بھی کرجائے تو ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ سرسید نے جو بھی لکھا وہ ان کا اجتہاد تھا۔ اس وقت بعض علما نے جو ان پر نکیر کی وہ بھی ایک فطری عمل تھا۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ مفکرین کا رویہ سرسید کی مخالفت کرنے والے علما سے مختلف نہیں ہے۔ انہوں نے کھل کر مخالفت کی تھی جب کہ آج کے مفکرین نے سرسید کی مذہبی تحریروں کو بوتل میں بند جن سمجھ کر عوام سے دور رکھا ہے۔ حالانکہ اس میں چند ایسی کتابیں بھی ہیں جو واقعی اہم ہیں اور آج کے حالات کے مطابق ان کی اشاعت ضرور ہونی چاہئے تھی۔
اردو ریسرچ جرنل کا تیرہواں شمارہ حاضر ہے۔ اس شمارے میں زبان وادب سے متعلق کئی اہم تحقیقی وتنقیدی مقالے شامل ہیں۔ جرنل کے سرپرست پروفیسر ابن کنول کا مقالہ “بکٹ کہانی کا خالق افضل پانی پتی” اردو ایک کلاسیکی شاعر کی بازیافت کی عمدہ کوشش ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد قادری کا مقالہ “ترجمہ کے چند نظری مباحث” فن ترجمہ کے بنادی اصولوں کی وضاحت کے لیے ایک اہم دستاویز ہے۔ “تنقید کے بنیادی مباحث” پر قندیل بدر کا مقالہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ “فکشن کی جمالیات”، “تحریکات ورجحانات”، غالبیات اور اقبالیات کے تحت کافی اہم مضامین شامل ہیں۔ امید ہے کہ قارئین ان سے فائدہ اٹھائیں گے۔
ڈاکٹر عزیر اسرائیل
(مدیر)
Leave a Reply
1 Comment on "اپنی بات"
[…] 7. اپنی بات […]