بکٹ کہانی کا خالق افضل پانی پتی
اردو میں عوامی شعر و ادب کی روایت بہت قدیم ہے۔ ابتدا ہی سے اردو کا رشتہ عوام سے رہا، عوام میں مقبولیت کے سبب ہی ہندوستان میں اس کی جڑیں بہت گہری ہوگئیں۔ امیر خسرو کے گیت جس طرح ان کے عہد میں مقبول تھے، آج اکیسویں صدی میں بھی اسی ذوق و شوق سے سنے اور گائے جاتے ہیں۔ اردو نے اگر ایک طرف فارسی اور عربی ادب کی اصناف کو اپنے دامنِ ادب کی کہکشاں کی زینت بنایا تو دوسری جانب مقامی اصنافِ ادبیاتِ عوام سے رشتہ بھی اُستوار رکھا۔ غزل، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، داستان، مثنوی کے ساتھ ساتھ گیت، دوہے، بارہ ماسے، سوانگ، نوٹنکی، نوحے، عیدیاں وغیرہ جیسی عوامی اور مقامی اصناف نے بھی اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن مذکورہ عوامی اصناف میں مقامی بولیوں کے الفاظ کی شمولیت کے سبب فارسی مزاج رکھنے والے اردوداں حضرات نے واقعی ریختہ یعنی گری پڑی شئے سمجھ کر نظرانداز کیا، جبکہ تمام ماہر لسانیات اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ انہی بولیوں کے اختلاط کا نتیجہ اردو کی پیدائش کا باعث ہے۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ آرائش و زیبائش کے لیے مشہور سونا اور ہیرا بھی ابتدا میں بدشکل اور بدنما ہوتا ہے۔ بہرکیف یہ بحث دیگر ہے۔ یہاں ذکر افضل پانی پتی کا ہے جنھوں نے خالص ہندوستان کی ایک صنف شعر یعنی بارہ ماسے کی تخلیق کی۔ بارہ ماسہ کا تعلق ہندوستان کی تہذیب و معاشرت سے ہے۔ اس صنف میں بہت کم شعراء نے طبع آزمائی کی ہے۔ یہ صنف اپنے موضوع کے اعتبار سے دیگر اصناف سے مختلف ہے۔ اس کے متعلق مشہور محقق و ناقد ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں :
’’بارہ ماسہ میں موسمی کیفیات کی مصوری کے علاوہ جذبات نگاری اور تہذیبی ماحول کی عکس کشی کے بھی بہت دلکش نمونے ملتے ہیں۔ اس میں ایک غم فراق کی ستائی ہوئی عورت کی طرف سے شاعری کی جاتی ہے۔ جو ہندوی گیتوں کی صدیوں سے چلی آتی ہوئی ریت ہے۔ (پیش لفظ از اردو میں بارہ ماسہ کی روایت، مصنف ڈاکٹر تنویر احمد علوی، ص 9)
افضل کا تعلق سترہویں صدی عیسوی کے نصف اوّل سے ہے۔ شمالی ہند میں افضل کو نہ صرف ریختہ کا باقاعدہ پہلا شاعر کہا گیا ہے بلکہ اردو میں بارہ ماسہ کی روایت افضل ہی سے
شروع ہوتی ہے۔ سترہویں صدی کی اردو پر مقامی بولیوں کے اثرات زیادہ تھے۔ یہ صدی مغلیہ سلطنت کے عروج کی صدی تھی۔ اکبر کے بعد جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب جیسے بادشاہوں کا تعلق اسی صدی سے تھا۔ اسی صدی میں تاج محل جیسی عمارت تعمیر ہوئی۔ اس صدی میں اردو خواص کے ادب کی زبان اس لیے نہیں بن سکی، کیونکہ فارسی دربار کی زبان تھی اور دربار سے رسوخ کے لیے فارسی کو اختیار کرنا لازمی تھا، یہی وجہ ہے کہ سولہویں یا سترہویں صدی میں اردو کے نام پر ’بکٹ کہانی‘ جیسی مثنویاں تو لکھی گئیں، لیکن سحر البیان یا گلزار نسیم جیسی تخلیقات سامنے نہیں آئیں، یعنی اردو عوام میں فروغ پاتی رہی۔ کبیر، جائسی، رحیم، رس کھان اور افضل جیسے شاعر عوام کے لیے شاعری کرتے رہے۔ عوامی اصناف کو ذریعۂ اظہار بناتے رہے۔
افضل نے بارہ ماسہ جیسی ایک صنف کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا، جس کا تعلق صرف اور صرف عوام سے تھا، جس میں ایران یا وسط ایشیا کی تہذیب کی نہیں بلکہ صرف ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا عکس نظر آتا ہے۔ بارہ ماسہ میں شاعر ایک ایسی عورت کی دکھ بھری داستان بیان کرتا ہے جس کا شوہر پردیس چلا گیا ہو اور ہندی کے بارہ مہینوں کے موسم کی کیفیت کے ساتھ اُسے یاد کرتی ہو۔ اس میں شوہر کی یاد، انتظار اور جدائی کے غم کو عورت کی زبانی بیان کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے کہ ’’خواجہ مسعود سعد سلمان کے فارسی دیوان اور گروگرنتھ صاحب میں بھی بارہ ماسے کی مثالیں موجود ہیں۔ ‘‘ لیکن اردو کے حوالے سے افضل پانی پتی کی ’بکٹ کہانی‘ کو ہی شمالی ہند کی اوّلین شاعری کی کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ افضل کا مختلف تذکروں میں ذکر ملتا ہے، لیکن اس کی حیات کے بارے میں اختلافی بیانات نظر آتے ہیں، بلکہ اس کی زندگی سے بڑی دلچسپ کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔
اوّل تو افضل کے وطن ہی کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں ہوسکی ہے۔ کچھ تذکرہ نگاروں نے بشمول قائمؔ چاندپوری نے افضل کا تعلق میرٹھ کے پاس ایک قصبہ جھنجھانہ سے بتایا ہے۔ اسی روایت کو اشپرنگر اور بعد میں حافظ محمود شیرانی نے دہرایا ہے۔ بقول ڈاکٹر تنویر احمد علوی ’’بکٹ کہانی کی اپنی داخلی (لسانی) شہادت بھی اس کے حق میں جاتی ہے کہ افضل پانی پت سے نہیں جھنجھانہ (ضلع مظفرنگر) کے لسانی منطقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ماہر لسانیات اور مرتب بکٹ کہانی پروفیسر مسعود حسین خاں بھی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’افضل کی زبان ہریانوی کے لسانی اثرات نہیں رکھتی۔‘‘ لسانی شواہد کی بنیاد پر ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے یہ قیاس پیش کیا ہے کہ محمد افضل کا تعلق جھنجھانہ ضلع مظفرنگر سے تھا، لیکن ملازمت کے لیے پانی پت میں قیام کیا، جس کی وجہ سے پانی پتی کہلائے۔
افضل پانی پتی کی زندگی سے ان کے عشق کی کہانی جڑی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افضل صوفی منش تھے، ان کا شمار فارسی کے اچھے شاعروں اور علماء میں ہوتا تھا، لیکن اَدھیڑ عمر میں کسی ہندو لڑکی پر عاشق ہوگیے۔ عشق جنون کی حد تک پہنچ گیا۔ لڑکی کے خاندان والوں نے بدنامی کے خوف سے لڑکی کو متھرا بھیج دیا۔ افضل بھی اس کی تلاش میں متھرا پہنچ گیے۔ ایک دن اتفاق سے اس لڑکی سے ملاقات ہوگئی، اظہار عشق کیا تو لڑکی نے ملامت کی کہ اس عمر میں سفید داڑھی رکھتے ہوئے اس طرح کی حرکت کرتے ہو۔ مولانا پر جنون سوار تھا، جوشِ عشق میں داڑھی منڈوادی۔ ایک مندر میں جاکر کسی پجاری کے مرید ہوگیے، گوپال نام اختیار کیا۔ پجاری اُن کی خدمت سے اس قدر مرعوب ہوا کہ اپنی موت کے بعد انھیں اپنا جانشین مقرر کرگیا۔ دستور کے مطابق ایک دن وہاں کی خواتین پجاری کی قدم بوسی کے لیے مندر آئیں، جن میں وہ عورت بھی تھی۔ جب وہ قدم بوسی کے لیے جھکی تو انھوں نے اس کا ہاتھ پکڑکر چوم لیا اور کہا کہ مجھے پہچانا نہیں۔ وہ لڑکی پہچان گئی۔ ان کی محبت کی قدر کرتے ہوئے خود کو اُن کے حوالے کردیا اور اس طرح دونوں کی نئی زندگی کا آغاز ہوا۔
مذکورہ روایت میں کتنی صداقت ہے کہا نہیں جاسکتا، لیکن افضل کی ’’بکٹ کہانی‘‘ میں جن عشقیہ اور حزنیہ جذبات کو پیش کیا گیا ہے وہ شاعر کی داخلی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ افضل کی ’’بکٹ کہانی‘‘ کے علاوہ کوئی دوسری تصنیف دستیاب نہیں ہے، لیکن تذکروں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ افضل فارسی کے بھی اچھے شاعر اور نثرنگار تھے۔ ’’بکٹ کہانی‘‘ میں اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اشعار بھی موجود ہیں۔ قائمؔ نے اپنے تذکرہ ’’مخزن نکات‘‘ میں افضل کا شمار سعدی، امیر خسرو اور ملانوری کے ساتھ کیا ہے۔ میرحسن نے بھی اپنے ’’تذکرئہ شعرائے اردو‘‘ میں افضلؔ کا ذکر کیا ہے۔ بعد کے تذکرہ نگاروں کے یہاں بھی افضل کی شعری خدمات کا اعتراف ملتا ہے، بلکہ اشپرنگر، گلکرسٹ اور گارساں دتاسی کے یہاں بھی افضل کا ذکر موجود ہے۔ افضل کی حالات زندگی کے بارے میں اہم تفصیلات فارسی شعرا کے تذکرے ’’ریاض الشعراء‘‘ میں علی قلی خاں نے پیش کی ہیں، جس کا سن تصنیف ۱۷۴۷ء ہے۔ اسی تذکرے میں انھیں پانی پت کا بتایا گیا ہے۔ ان کے بارے میں علی قلی خاں نے لکھا ہے کہ وہ ایک مقبول ترین معلم تھے، ان سے درس حاصل کرنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے تھے، لیکن عشق میں گرفتار ہوکر سب زہد و تقویٰ جاتا رہا اور مجنونانہ کیفیت ہوگئی۔
افضل پانی پتی کی حیات سے متعلق روایت میں کتنی صداقت ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا، اس لیے کہ عموماً ہوتا یہ ہے کہ ابتدا میں کوئی تذکرہ نگار یا مورخ جو کچھ بیان کردیتا ہے بنا تصدیق کے آئندہ لکھنے والے اُسے دہراتے رہتے ہیں بلکہ زیب داستاں کے لیے کچھ دلچسپ اضافے بھی کردیتے ہیں۔ افضل کی حیات معاشقہ دلچسپ داستان کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ بہرکیف افضل کی حیات سے متعلق کوئی بھی کہانی وابستہ ہو، لیکن سچائی یہ ہے کہ ان کی شعری تصنیف کو شمالی ہند میں اوّلیت حاصل ہے۔ اگرچہ اس میں نصف اردو اور نصف فارسی ہے، لیکن اس کی زبان ناقابل فہم نہیں۔ افضل کا انتقال ۱۶۲۵ء میں ہوا گویا یہ اس سے قبل یعنی اکبر اور جہانگیر کے عہد کی تصنیف ہے۔ ’’بکٹ کہانی‘‘ میں ہندی الفاظ کا استعمال اس صنف کی ضرورت ہے۔ بارہ ماسوں میں ہندی مہینوں کا ذکر ہوتا ہے۔ بارہ ماسے کے سلسلے میں ڈاکٹر تنویر احمد علوی لکھتے ہیں :
’’مارہ ماسے ہندی مہینوں کی رعایت سے لکھے جاتے ہیں اور ان کا سلسلہ موسموں سے جڑا ہوا ہے، علاقائی رسم و رواج، تیج تہوار، رہن سہن اور گھر آنگن کی فضائوں کا گہرا تعلق ہے، ایسے بھی بارہ ماسے جو مذہبی جذبات کی نقش گری اور ایک گونہ تبلیغی مقاصد کے تحت لکھے گیے ہیں۔ عشق و عقیدت کے جذبات و احساسات سے بارہ ماسے کو الگ کرکے دیکھنا مشکل ہے۔‘‘ (اردو میں لوک ادب، مرتبہ قمر رئیس، ص ۷۷)
افضل نے بارہ ماسہ لکھتے وقت اس کے فنی اور موضوعاتی تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ ایک عورت کے ہجر و فراق کی داستان ہندی کے بارہ مہینوں کا لحاظ رکھتے ہوئے بیان کی ہے۔ شوہر کی جدائی میں بے قرار عورت اپنی آپ بیتی اس طرح بیان کرتی ہے ؎
سنو سکھیو! بکٹ میری کہانی
بھئی ہوں عشق کے غم سوں دوانی
نہ مجھ کوں بھوک دن، نا نیند راتا
برہ کے درد سوں سینہ پِراتا
وہ کہتی ہے کہ ہجر کا یہ دیو جس کو لگ جاتا ہے، جھاڑ پھونک کرنے والا بھی اس سے دور بھاگتا ہے۔ جدائی کا ناگ جسے ڈس لیتا ہے اس کا زہر سپیرا بھی نہیں اُتار پاتا ؎
ارے جس شخص کو یہ دیو لاگا
سیانا دیکھ اُس کوں دور بھاگا
ارے یہ ناگ جس کے ڈنک لاوے
نہ پاوے گا ڈرو جیوڑا گنوادے
عورت کے ہجر کی کہانی ہر عہد کی کہانی ہے۔ گزشتہ صدیوں میں جو لوگ فوج میں ملازمت کرتے تھے وہ بادشاہ کے ساتھ جنگوں میں گھر بار چھوڑکر برسوں کے لیے چلے جاتے تھے، بلکہ اُن میں نہ جانے کتنے فوجیوں کو گھر واپسی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی، ان کی عورتوں کی زندگی مجسم انتظار بن جاتی تھی۔ بادشاہ اورنگ زیب نے دکن کی مہمات کے لیے برسوں دکن میں گزار دیے تو شمالی ہند کی عورتیں ان الفاظ میں اپنا دکھ بیان کرتی تھیں ؎
بیٹھی رہو کرار سے من موں راکھو دھیر
اب کے بچھڑے تب ملیں جب بوہریں عالمگیر
بِنتی کرو اس سائیں سے کہ بوہریں عالمگیر
بارہ ماسہ میں ایسی ہی عورتوں کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ آج بھی مزدور طبقہ گھر بار چھوڑکر گائوں سے شہروں میں جاتا ہے، لیکن اس عہد میں اتنی سہولتیں ہیں کہ وہ اپنے بیوی بچوں سے بات چیت کرلیتا ہے۔ بارہ ماسہ میں بدلتے موسموں کا جذباتی اظہار ہوتا ہے۔ افضل نے ’’بکٹ کہانی‘‘ میں عورت کے ہجر و فراق کے درد کو انتہائی پُرسوز انداز میں بیان کیا ہے۔ اس درد میں اس وقت اور اضافہ ہوجاتا ہے جب وہ عورت دوسری عورتوں کو اپنے شوہروں کے ساتھ رنگ رلیاں کرتے ہوئے دیکھتی ہے، اُسے اپنے شوہر کی کمی کا احساس ناگ بن کر ڈستا ہے۔ بارہ ماسہ میں ہندی مہینوں کے استعمال کا لحاظ رکھتے ہوئے ہندوستانی تہذیب اور ہندوانہ تہواروں کو شامل کیا جاتا ہے۔ آغاز ساون کے مہینے سے ہوتا ہے اور اساڑھ کے مہینے پر یہ بیان ختم ہوتا ہے۔ افضل ساون کا بیان اس طرح کرتے ہیں ؎
چڑھا ساون، بجا مارو نقارا
سجن بن کون ہے، ساتھی ہمارا
گھٹا کاری چہاروں اور چھائی
برہ کی فوج نے کینی چڑھائی
پپیہا پیو پیو نِس دن پکارے
پکارے دادُر جھینگر جھنگارے
ارے جب کوک کوئل نے سنائی
تمامی تن بدن میں آگ لائی
چلا ساون مگر ساجن نہ آئے
اری کِن رُتیوں نے ٹونے چلائے
بھادوں کا بیان یوں کرتی ہے؎
سکھی! بھادوں نپٹ تپتی پڑے ری
تمامی تن بدن میرا جرے ری
سبھی سکھیاں پیا سنگ سکھ کرت ہیں
ہمن سی پاپیاں نت دکھ بھرت ہیں
پیا پردیس جا ہم کوں بسارا
نہ جانوں کیا گنہ دیکھا ہمارا
اسی طرح کنوار، کاتک، اگہن، پوس، ماگھ، پھاگن، چیت، بیساکھ، جیٹھ اور اَساڑھ میں گزرنے والی کیفیات کو افضل نے پُردرد انداز میں پیش کیا ہے۔
پوس کا مہینہ جو جاڑوں کا سرد ترین مہینہ ہوتا ہے، ہجر سے ماری عورت کو تنہائی کا بہت احساس دلاتا ہے۔ افضل کہتے ہیں :
اگہن دکھ دے گیا، اب پوس آیا
پیا کی چاہ نے غلبہ اُٹھایا
پڑے پالا کرے تھرتھر مری دیہہ
سکھی! کس بد گھڑی لاگا مرانیہہ
کریں عشرت پیا سنگ ناریاں سب
میں ہی کانپوں اکیلی، ہائے یارب
پوس کے مہینے میں اس عورت کو شوہر کی کمی اس قدر محسوس ہوتی ہے کہ تمام تراکیب کو استعمال کرکے پیا کے واپس بلانے کا جتن کرتی ہے، ملّا، پنڈت، سیانے سب سے رابطہ کرتی ہے:
اجی ملّاں ! مرا ٹک حال دیکھو
پیارے کے ملن کی فال دیکھو
لکھو تعویذ پی آوے ہمارا
وگرنہ جائے یہ جیوڑا بچارا
تمہارا مجھ اُپر احسان ہوگا
گویا مردے کے تئیں جیودان ہوگا
ارے سیانو! تمھیں ٹونا کر ورے
پیا کے وصل کی دعوت پڑھو رے
غرضیکہ ’’بکٹ کہانی‘‘ میں بارہ مہینوں میں ہجر کی جو کیفیات بیان کی گئی ہیں وہ سوز و گداز سے پُر ہیں۔ افضل کا بیان دل کو چھولیتا ہے۔ انھوں نے ایک ہجرزدہ عورت کے جذبات کی عکاسی میں حقیقت کے رنگ بھردیے ہیں۔
افضل پانی پتی کا عہد میر اور مرزا سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل کا ہے، لیکن اُن کی شاعری دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افضل کے عہد کی اردو بھی عام بول چال کی صاف ستھری زبان تھی، جسے سمجھنے میں دقت پیش نہیں آتی۔ اگر ’’بکٹ کہانی‘‘ میں مقامی بولیوں یا ہندی کا استعمال کیا گیا ہے تو فارسی کے الفاظ اور تراکیب کو بھی بڑی روانی سے استعمال کیا ہے، مثلاً:
کوئی اُمید میری بَر نہ لایا
دیا مجھ کوں سبھوں نے دُکھ سوایا
————
براہش منتظر باشم شب و روز
بہر کس گویم ایں افسانہ دل سوز
————
نصیحت کر مجھے کا ہے جلائو
کرو کچھ فکر پیارے سوں ملائو
————
اگر باشد خطایم بخش دیجو
خبر میری سویرے آئے لیجو
زبان کی صفائی اور سادگی دیکھ کر یہ علم ہوتا ہے کہ ولیؔ دکنی کے دہلی آنے سے سو سال پہلے بھی شمالی ہند میں صاف شفاف اردو میں شاعری کی جاتی تھی، لیکن فارسی کے غلبہ نے اُسے ریختہ ہی کا مقام دیا۔ کچھ مثالیں ملاحظہ کیجئے:
تری باندی کی باندی ہو رہوں گی
جو کچھ مجھ کو کہے گا سو کروں گی
————
ہمارے پائوں ننگے، دھوپ سر پر
پھروں ہوں دوڑتی پیوباج گھر گھر
————
دغابازی مسافر سوں نہ کیجئے
ایتاد کھڑا غریبوں کو نہ دیجے
————
ارے یہ عشق کا پھندا بِکٹ ہے
نپٹ مشکل، نپٹ مشکل، نپٹ ہے
افضل پانی پتی کی زبان کا کوئی مخصوص لہجہ نہیں ہے اُس میں مختلف علاقوں کی بولیوں کے ساتھ ساتھ، اُن کی فارسی دانی کا بھی اثر نمایاں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ افضل نے اردو میں غزلیں بھی کہی ہوں یا ان کے عہد میں اردو غزل کے دیگر شعراء میں بھی موجود ہوں جن کا کلام دستیاب نہیں ہے۔ بہرکیف افضل پانی پتی ’’بکٹ کہانی‘‘ کی وجہ سے اردو زبان و ادب کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔
٭٭٭
٭٭٭
Leave a Reply
2 Comments on "بکٹ کہانی کا خالق افضل پانی پتی"
[…] 106.بکٹ کہانی کا خالق افضل پانی پتی […]
[…] بکٹ کہانی کا خالق افضل پانی پتی […]