علامہ اقبال اور ہندوستانی تہذیب

کسی بھی معاشرے کی طرز زندگی اور فکرو احساس کا نام تہذیب ہے۔لغت کی رو سے تہذیب کے معنی چھانٹنے،اصلاح کرنے،سنوارنے،درست کرنے،خالص کرنے اور پاکیزہ کرنے کے ہیں۔اصطلاح میں تہذیب سے مراد کسی قوم کی وہ طرز زندگی،رہن سہن کے طریقے اور بنیادی افکار و نظریات ہوتے ہیں جو اس کے اعمال و افعال کو جنم دیتے ہیں اور اسے دوسری قوموں سے ممتاز بنادیتے ہیں۔زبان،عادات واطوار،خیالات و جذبات، رسم و رواج، نظام معاشرت، فنون لطیفہ،علم و ادب،عقائد،اخلاق،تجارت و زراعت اور عشق و محبت تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔سرسید احمد خان کے مطابق جب ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکھٹا ہوکر بستا ہے تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں،ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں،ان کی معلومات اور ان کے خیالات،ان کی مسرت کی باتیں اور ان کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں اور اس لئے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں۔برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سولزیشن ہے۔علامہ اقبال کے نزدیک تمدن کا تعلق ظاہری آداب و رسوم سے ہے جب کہ تہذیب کا انسان کی باطنی اور ذہنی کیفیتوں سے ہے۔ تہذیب زند گی کی ساری سرگرمیوں کا خواہ وہ فکری ہوں یا مادی،خارجی ہوں یا داخلی احاطہ کر لیتی ہے۔

  ہر قوم کی ایک مخصوص تہذیب ہوتی ہے۔لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ نئی تکنالوجی،نئے میلانات اور رجحانات کے اس پر اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں جس وجہ سے اس میں بعض پہلو ایسے بھی در آتے ہیںجو دوسری تہذیبوں سے ملتے جلتے ہیں۔تاہم اس میں بہت سی ایسی خصوصیات بھی ہوتی ہیں جو ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے ممتاز بنا دیتی ہے۔جس سماج میں مختلف مذاہب اور زبانیں رائج ہوتی ہیںوہ تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے تہہ در تہہ اور پیچیدہ ہوتا ہے۔

 جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے  یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔کثیر اللسانی،مذہبی،ثقافتی اور نسلی اعتبار سے یہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ہندوستان میں بولی جانے والی سیکڑوں زبانیں مختلف تہذیبوں کے اشتراک و ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔مذاہب میں ہندومت،بدھ مت، سکھ مت اور جین مت نے اسی ملک میں جنم لیا جب کہ زرتشت،جودھامت،عسائیت اور اسلام مختلف تحریکات و شخصیات کی مدد سے یہاں پہنچ گئے اور ہندوستان کی تہذیب و ثقافت پر گہرے نقوش مرتب کئے۔اس طرح ہندوستان مختلف زبانوں،مذہبوں اور تہذیبوں کی آماجگاہ اور تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے تہہ دار،پیچیدہ اور منفرد ملک بن گیا۔

 زبان ہر ملک کی  تہذیبی شناخت میں اہم کردار نبھا تی ہے۔یہ اپنے ملک کی تہذیبی جڑوں سے پیوست ہوتی ہے اور ہر سماج کا تہذیبی و تاریخی ورثہ،اس کی انسانی قدریں،جذبات و آرزوئیں،عشق و محبت کی داستانیں،فکرو فلسفہ اورنظام حیات کے  اتار چڑھائو ادب کے تخلیقی عمل میں

 ۲

برسر پیکار رہتے ہیں۔ ہندوستان کاہر ادب اپنے تہذیبی ورثہ اور عناصر کو ابتداء سے ہی کسی نہ کسی صورت میں پیش کرتا رہا ہے اور یہاں کی تہذیب و ثقافت کو  سمجھنے میں جو مدد ادبی سرمایہ سے ملتی ہے وہ کسی دوسرے ذرائع سے حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔کیوں کہ تاریخ کے برعکس ادب بلا لحاظ مذہب و ملت،نسل اور ذات پات کے تخلیق کیا جاتا ہے۔اس میں جو کچھ بھی بیان کیا جاتا ہے وہ تعصب سے پاک ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے ادب کو تاریخ سے بڑھ کر قرار دیا ہے۔میں یہاں پر جس زبان و ادب کی بات کرنے جارہا  ہوں وہ ہندوستاں کی دوسری زبانوں اور ادب سے بالکل مختلف ہے۔میری مراد اردو زبان و ادب سے ہے۔کیوں کہ اردو ہندوستان کی واحد زبان ہے جس نے یہاں کے مختلف خطوں،تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان ایک پل کا کام کیاہے اور آج بھی احسن طریقے سے کررہی ہے۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں اور خطوں کو ملانے میں جو کردار اردو زبان نے ادا کیا کوئی دوسری زبان نہ کرسکی۔یہ  ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی علمبردار اور رنگارنگ کلچر کی علامت ہے۔ہندوستان کی رنگارنگ تہذیب کی جو صحت مند روایت اردو زبان و ادب میں ملتی ہے اس کی مثال یہاں کی کسی دوسری زبان میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ہندومت،اسلام،بدھ مت،سکھ مت غرض ہر مذہب اور تہذیب کی خوبیوں کو اجاگر کرنے میں یہ پیش پیش رہی ہے۔اس حوالے سے جن اردو شعراء اور ادباء نے اہم کردار نبھایا ان میں سلطان محمدقلی ؔ قطب شاہ،نظیرؔ اکبر آبادی ،غالبؔ، ؔاکبرؔ الہ آبادی،حالیؔ،آزادؔ،شبلی ؔ،فراقؔ،سرسید، پریم چند،اعظم کریوی ،چکبستؔ،درگا سہائے سرورؔ،جوشؔاورعلامہ محمد اقبالؔ خاص طور پر قابل ذکرہیں۔

  اکثر لوگ علامہ اقبال ؔکو اسلامی شاعر،مفکر اور فلسفی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور شاعر مشرق،شاعر اسلام جیسے القاب دے کر ان کی شاعری کو ایک مخصوص طبقے تک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،جو ظاہر ہے نہ صرف شاعر کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ ادب کو تنگ دائرے میں بند کرنے کے مترادف بھی ہے۔علامہ اقبالؔ اس بات سے واقف نظر آتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی تہذیب میں زبان کا اہم کردار رہتا ہے اور ہندوستان چوں کہ کثیر لسانی ملک ہے اس لیے ان سب زبانوں کے ساتھ یکساں برتائو لازمی ہے اور یہی ہندوستانی تہذیب کی شناخت بھی ہے۔اقبالؔ سبھی مذاہب کے قدردان تھے۔فرقہ آرائی اور آپسی انتشار سے وہ بے زار تھے۔علامہ قومی یگانگت،آپسی بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کے قائل تھے۔ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے حوالے سے وہ فکر مند رہتے اور اس کو ٹوٹتے بکھرتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔انہوں نے مذہب کی حد بندیوں سے اُوپر اٹھ کر ہندوستانی سماج اور تہذیب کی  فلاح و تحفظ کے لئے کوششیں کیں۔چناچہ وہ کہتے ہیں: ؎

  اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے  احساں

  سفال  ہند  سے  مینا  و جام پیدا کر

 یہاں شاعر کی مراد  علوم کا حصول یافنون کی تعلیم نہیں بلکہ تہذیب سیکھنے اور سکھانے والوں کی طرف اشارہ ہے اور ہر اس تقلیدی روش پر طنز ہے جو مشرقی روایت کو روند کر بنائی جارہی تھی۔اقبال ؔکے کلام میں مقامی تہذیب و ثقافت کا حسین رنگ نظر آتا ہے۔انہوں نے بلا لحاظ مذہب و ملت جہاں مسلم شخصیات پر خوب صورت نظمیں لکھیں وہیں دوسرے مذاہب کی شخصیات کو بھی اپنا مو ضوع خاص بنایا۔ہمایوں،میرؔ،غالبؔ،داغؔ و دیگر شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ گوتم بدھ،نانک،سوامی رام تیرتھ اور رام چندر جی کا ذکر بھی بڑے احترام سے کیا ہے۔اس طرح کی نظموں میں ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘،’’سوامی رام تیرتھ‘‘،’’نانک‘‘،’’ رام‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔اقبال مسعود کے مطابق شیو کو اقبالؔ ہی نے سب سے پہلے ہندوستانی فلسفہ فکر اور جمال کی شکل میں دیکھا اور ان کو فارسی ادب میں زندہ جاوید بنادیا۔علامہ اقبال ؔکی یہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے دلچسپی ہی تھی کہ وہ رام کو ’’چراغ ہدایت‘‘،’’امام ہند‘‘،گورو نانک کو ’’مرد کامل‘‘ اور گوتم بدھ کو ’’گوہر یک دانہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔یہاں پر نظم’’نانک‘‘ اور ’’رام‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:؎

  قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی

  قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

  ۳

آہ !شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے

 درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

 برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں

 شمع  گوتم  جل  رہی ہے محفل اغیار میں

 بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر  روشن  ہوا

 نور ابراہیم ؑ سے آزر  کا  گھر  روشن  ہوا

 پھر اُ ٹھی آخر  صدا  توحید کی پنجاب  سے

 ہند کو اک  مرد کامل نے جگایا خواب سے  ؎۱

 (نانک)

 یہ  ہندیوں  کی  فکر فلک  رس  کا  ہے  اثر

 رفعت میں آسماں  سے  بھی اُونچا ہے بام ہند

 اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت

 مشہور  جن کے دم سے ہے دنیا  میں  نام  ہند

 ہے  رام  کے  وجود  پہ  ہندوستاں  کو  ناز

  اہل  نظر  سمجھتےہیں  اس  کو  امام  ہند  ؎۲

  (رام)

علامہ اقبالؔ کے یہاں جہاں اسلامی تعلیمات سے متعلق بے شمار اشعار ملتے ہیں وہیں ہندو سماج کے غیر معمولی تصورات بھی ملتے ہیں۔ان کے کلام میں ہندوستانی تہذیب رچ بس گئی ہے۔بقول علی احمد فاطمی:

  ’’حالیؔ کی نظمیں،آزادؔ و شبلیؔ کی نظمیں،چکبستؔ کی قومی نظمیں،سرؔور جہاں آبادی،اقبال،جوشؔ اور فراقؔ   کی نظمیں غزلیں۔ان سب نے اس تہذیب میں ایسی رونق اور جگمگاہٹیں بخشیں کہ اردو شاعر ی اور مشترکہ   تہذیب ایک ہی تصویر کے دو رخ ہوگئے۔اقبال جو اسلامی فکر کے شاعر کہے جاتے ہیں’’امام ہند‘‘ کے   عنوان سے بھگوان رام پر ان کی غیر معمولی نظم ملتی ہے۔‘‘  ؎۳

  اقبال ؔ ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب کے پاسدار رہے ہیں اور اس کو اپنی شاعری میں پیش کرکے نئی روح بخشی ہے۔ان کی نظم’’ترانۂ ٔہندی‘‘ نہ صرف ہندوستان کی عظمت کا حسین بیان ہے بلکہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کا بہترین نمونہ بھی ہے:؎

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں  ہمارا

ہم  بلبلیں ہیں اس کی ، یہ گلستاں  ہمارا

اے آب ِرود گنگا!وہ دن ہیں یاد  تجھ کو ؟

  اترا ترے کنارے جب  کارواں  ہمارا

  ۴

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں  بیر رکھنا

  ہندی ہیں ہم،وطن ہے ہندوستاں ہمارا

 کچھ بات ہے کہ  ہستی  مٹتی نہیں ہماری

  صدیوں  رہا ہے دشمن دور ِ  زماں ہمار ا  ؎۴

 (ترانۂ ہندی)

  مذکورہ نظم میں ہندوستان کی تہذیبی شان تمام جزئیات کے ساتھ ُابھر کر سامنے آتی ہے۔یہ اقبالؔ کی وہ نظم ہے جس سے ہندوستان کا بچہ بچہ واقف ہے اور جو زبان زد عام ہے۔نظم’’ترانۂ ہندی‘‘ ہندوستان کی عظیم شخصیات جن میں بابائے قوم مہاتماگاندھی اور مسز اندرا گاندھی بھی شامل ہیں کے دلوں کی دڈکن تھی۔یہی وجہ ہے کہ برسوں تک یہ ہندوستان کا قومی ترانہ بھی رہی۔اگرچہ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اب ہندوستان میں اس کا وہ مقام نہ رہا تاہم اس میں ہندوستان کی عظمت،بلندی اور تہذیبی عناصر کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔اقبالؔ کے اسلوب بیان اور لفظیات میں بھی ہندوستانی تہذیب کا فن کارانہ استعمال ملتا ہے۔انہیں ہندوستان اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے اس قدر انس تھا کہ اپنی اکثر نظموں میں لفظ’’ہندی‘‘ اور ’’ہندوستان‘‘ کا بار بار استعمال کیا ہے۔یہاں تک کہ اپنی اواخر عمر میںجب ان کا قومی تصور بدل چکا تھا ’’بال جبریل‘‘ کی شاہکار نظم’’مسجد قرطبہ‘‘ میں لفظ ’’ہندی‘‘ کو جذبہ اور ولولہ کے ساتھ باندھا ہے:

؎

کافر ہندی ہوں میں،دیکھ مرا ذوق و شوق

دل میں صلواۃ ودرود، لب پہ صلواۃو درود

  مجموعہ’’ضرب کلیم‘‘ میں تو علامہ نے ’’ہندی مسلمان‘‘،’’ہندی اسلام‘‘ اور ’’ہندی مکتب‘‘ جیسے عنوان کی نظمیں بھی لکھی ہیں جو ہندوستان اور ہندوستانی تہذیب سے علامہ کی رغبت کا اہم ثبوت فراہم کرتی ہیں۔اردو کے علاوہ ہندوستان کی دیگر زبانوں جن میں ہندی،سنسکرت،پنجابی وغیرہ شامل ہیں کے سیکھنے اور ان کے الفاظ کو اپنی شاعری میں برتنے سے اقبالؔ نے کبھی تنگ نظری سے کام نہیں لیا ہے۔مثال کے طور پر ان کی بہترین نظم’’نیا شوالہ‘‘ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:؎

 سونی  پڑی  ہوئی  ہے مدت سے دل کی بستی

 آ،  اک  نیا شوالہ  اس  دیس  میں  بنادیں

 دنیا کے  تیرتھوں  سے  اونچا  ہو  اپنا تیرتھ

 دامانِ  آسماں  سے  اس  کا  کلس  ملا دیں

  ہر صبح  اُٹھ  کے  گائیں  منتر  وہ میٹھے میٹھے

 سارے  پُجاریوں کو  مئے پیت  کی پلادیں

 شکتی بھی،شانتی بھی  بھگتوں کے گیت میں ہے

 دھرتی کے باسیوں  کی  مُکتی  پریت میں ہے؎۵

  (نیا شوالہ)

 ۵

 علامہ اقبالؔنے اس نظم میں سونی، دیس، تیرتھ، منتر، پجاریوں، پیت،شکتی،شانتی،بھگتوں،گیت،دھرتی،باسیوں،مکتی اور پریت جیسے ہندی و سنسکرت الفاظ کا استعمال جس خوب صورتی سے کیا ہے اس پر ہندی زبان کے بڑے بڑے شعراء کو بھی رشک آتا ہوگا۔ہندوستان اور ہندوستانی تہذیب سے علامہ اقبالؔ کو ابتداء سے ہی لگاؤ رہا ہے۔وہ ہندو فکر اور فلسفہ سے خاصے متاثر رہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف سنسکرت زبان سیکھی بلکہ اس سے استفادہ بھی کیا۔’’وید مقدس‘‘ کی ایک مشہور دعا’’گائیتری منتر‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ ’’آفتاب‘‘ کے نام سے کیا۔ یہ نظم ان کے پہلے مجموعہ کلام’’با نگ د را‘‘ میں شامل ہے۔ہندوستانی تہذیب و تمدن کے حوالے سے یہ ایک بہترین نمونہ ہے۔ اقبالؔ نے کوہ ہمالہ پر بھی خوب صورت نظم لکھی۔ان کی نگاہ میں یہ صرف ایک پہاڑ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہزاروں سال کی داستانیں وابستہ ہیں۔کوہ ہمالہ کے دامن میں سرسبز و شاداب جنگلات اور کئی خو ب صو رت شہر آباد ہیں جن میں مختلف مذاہب اور کئی طرح کی زبانیں بولنے والے لوگ بستے ہیں۔یہ صرف ایک پہاڑ ہی نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب کا  بہترین مظہر بھی ہے:  ؎

اے ہمالہ!  اے  فصیل  کشور  ہندوستاں!

چومتا ہے  تیری  پیشانی  کو  جھک کر آسماں

تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے  نشاں

تو جواں  ہے گردش  شام و سحر  کے  درمیاں

اے ہمالہ!داستاں اس  وقت  کی  کوئی  سُنا

مسکن  آبائے  انساں  جب  بنا  د امن  ترا

کچھ بتا  اس  سیدھی  سادی  زندگی  کا  ماجرا

 داغ جس  پر  غازۂ رنگ  تکلف  کا  نہ  تھا

 ہاں دکھا دے  اے تصور! پھر وہ صبح و شام  تو

 دوڑ پیچھے  کی  طرف اے  گردش  ایام  تو؎۶

 (ہمالہ)

 پہاڑوں اور میدانوں کے علاوہ اقبالؔ کے کلام میں ہندوستان کے دریاؤں اور ندیوں کا بھی ذکر ملتا ہے جن میں گنگا،جمنا اور راوی خاص طور پرقابل ذکر ہیں۔ان میں انہوں نے نہ صرف دل کش مناظر ابھارے ہیں بلکہ ہندوستانی ماحول کی عکاسی بھی نہایت ہی دلفریب انداز میں کی ہے:  ؎

  سکوت شام  میں  محو  سرود  ہے  راوی

  نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی

(کنار راوی)

  اے آبِ رودِ گنگا! وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟

  اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا

 (ترانۂ ہندی)

 مذکورہ نظموں کے علاوہ کلام اقبال میںبہت سی ایسی نظمیں ملتی ہیں جن میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر نمایاں ہیں۔مثال

  ۶

کے طور پر  ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘،’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘،’’ابر کوہسار‘‘ وغیرہ:

چستی  ؒ نے جس زمیں میں  پیغام  حق  سنایا

نانک  نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

تا تاریوں  نے  جس  کو  اپنا  وطنبنایا

جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب  چُھڑایا

میرا وطن وہی ہے،میرا وطن وہی ہے

یونانیوں  کو  جس  نے  حیران  کردیا تھا

سارے  جہاں  کو  جس نے علم و ہُنردیا تھاـ

مٹی کو جس  کی  حق نے  زر  کا  اثر  دیا  تھا

ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا  تھا

میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے؎۷

علامہ اقبالؔ ہندوستان میں پیدا ہوئے،ہندوستان میں پلے بڑھے اور ہندوستان میں ہی انتقال کیا۔غیر معمولی ذہنیت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ متحدہ ہندوستان کی جڑوں کے ساتھ ان کی گہری وابستگی تھی۔انہیں ہندوستان کے پہاڑوں، ندیوں، نالوں، درختوں، پھولوں، پھلوں، فضاؤں، میدانوں،شہروں،گاؤں غرض ہر شے سے بے پناہ محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلام اور اسلامی تعلیمات و تہذیب کے ساتھ ساتھ ہندوی و سنسکرتی علوم و فنون اور ہندوستانی تہذیب کو اپنی شعری تخلیقات میں پیش کیا ہے۔اردو ،فارسی اور عربی زبانوں کے ساتھ ساتھ سنسکرت اور  ہندی زبانوں پر بھی ان کی دسترس ہے اور ان کے الفاظ کو ہنر مندی کے ساتھ اپنے کلام میں برتا ہے۔اقبالؔ صرف ایک فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کے علم بردار بھی ہیں۔انہوں نے ہندوستان کی وحدت اور ملکی سا  لمیت و تحفظ کے لیے نہایت ہی خوب صورت اور پر جوش نظمیں لکھیں۔

  حوالہ جات

  ۱۔علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال،نظم:’’نانک‘‘(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،۲۰۰۵ئ) ص:۳۴۸۔۳۴۹

  ۲۔علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال،نظم:’’رام‘‘(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،۲۰۰۵ئ) ص:۲۷۰

  ۳۔پروفیسر علی احمد فاطمی،’’مشترکہ تہذیب:روایت اور حقیقت‘‘  مشمولہ: ہفتہ وار،’’چوتھی دنیا‘‘،۱۳؍اگست،۲۰۱۰ء

 ۴۔علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال،نظم:’’ترانۂ ہندی‘‘(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،۲۰۰۵ئ) ص:۱۳۴۔۱۳۵

  ۵۔علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال،نظم:’’نیاشوالہ‘‘(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،۲۰۰۵ئ) ص:۱۴۳

  ۶۔علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال،نظم:’’ہمالہ‘‘(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،۲۰۰۵ئ) ص:۴۵،۴۷،۴۸

  ۷۔علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال،نظم:’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،۲۰۰۵ئ) ص:۱۴۱

  ٭٭٭

فیاض احمد بٹ

پی ایچ ،ڈی  ریسرچ اسکالر

  اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی،کشمیر یونیورسٹی ،سرینگر

 موبائل نمبر: 9796124041

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.