پروفیسر محمود الٰہی کے تحقیقی کارنامے
عہد حاضر میں اردو محققین ونقاد کی اولین صف میں آل احمد سرور، احتشام حسین، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، مجنوں گورکھپوری، اختر حسین رائے پوری، خواجہ احمد فاروقی، خلیل الرحمن اعظمی، پروفیسر محمد حسن، وہاب اشرفی، قاضی عبد الودود، امتیاز علی عرشی، رشید حسن خاں وغیرہ ایسی قد رآور شخصیتیں ہیں جن کے آگے دنیائے ادب سر جھکا چکی ہے اور ان ہستیوں کی گراں قدر ادبی خدمات کا اعتراف کیا جاچکا ہے، ساتھ ہی ان اساتذۂ ادب کے کارناموں سے متعلق بے شمار مطالعے اور تجزیے بھی منظر عام پر آچکے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی بڑی تیزی وتندہی کے ساتھ جاری ہے۔ جو آسمان ان اونچے سروں پر سایہ فگن ہے، یہ زمین دیکھ چکی ہے کہ اسی سائے تلے پروفیسر محمود الٰہی بھی نظر آتے رہے ہیں اور مذکورہ سارے دانشوروں کے ساتھ موصوف کے دوستانہ مراسم رہے ہیں۔ اردو ادب کی جتنی خدمتیں ان حضرات نے کیں، ان سے کہیں زیادہ پروفیسر محمود الٰہی نے اردو ادب کو سجانے سنوارنے میں اپنے پسینے بہائے۔ اس علم میں پروفیسر محمود الٰہی کے ماتھے سے ٹپکتے ہوئے موتیوں کی چمک ان دانشوروں نے دیکھی ہے اور اس بات کا کھل کر اعتراف کیا ہے کہ پروفیسر محمود الٰہی اردو کے ایک مایۂ ناز محقق ونقاد ہیں۔ رشید احمد صدیقی صف اول کے تخلیق کار بھی ہیں اور نقاد بھی۔ ان کی تنقیدی بصیرت کا زمانہ اعتراف کرتا ہے۔ پروفیسر محمود الٰہی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، ملاحظہ کیجئے:
’’…… ڈاکٹر محمود الٰہی اردو کے ان اہل قلم کی صف میں داخل ہوچکے ہیں جن کو ہماری یونیورسٹیوں میں تحقیقی وتنقیدی صلاحیتوں کے اعتبار سے ممتاز درجہ حاصل ہے۔‘‘ (بحوالہ بازیافت: ڈاکٹر محمود الٰہی۔ ص۔ ۲۲۳)۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے پروفیسر محمود الٰہی کی تحقیقی وتنقیدی صلاحیتوں سے متعلق یہ خیال ان دنوں ظاہر کیا جب ان کے مطالعہ کی میز پر مولوی کریم الدین کی کتاب ’’خط تقدیر‘‘ رکھی تھی۔ در اصل یہ کتاب طبقات شعرائے ہند والے مولوی کریم الدین نے 1862ء میں لکھی تھی۔ بعد میں اس کے دو ایڈیشن 1864ء میں اور 1865ء میں منظر عام پر آـئے تھے۔ یہ ہمارے افسانوی ادب کے سلسلۂ تاریخ کی اہم کڑی ہے۔ ایک سو برس گزر جانے کے بعد پروفیسر محمود الٰہی نے اس کا متن دریافت کیا اور اسے مرتب کرکے پھر سے شائع کیا۔ اس کی اشاعت کے بعد افسانوی ادب پر تحقیق کرنے والوں کو یقینی طور پر نئے گوشے نظر آئے اور ایک بڑے حلقے نے اس کتاب کو اردو کا پہلا ناول قرار دیا۔ اس کتاب پر پروفیسر محمود الٰہی نے اپنا جو فاضلانہ مقدمہ لکھا ہے، اس نے اصل قصے کی اہمیت اور بڑھا دی ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی بھی معترف ہیں کہ انہوں نے کتاب کا مقدمہ جس شرح وبسط کے ساتھ لکھا ہے وہ قابل تعریف ہے، مصنف کتاب نے اس کے زمانے اور موجودہ عہد کے تصنیفی اور تنقیدی تقاضوں کو بڑے سلیقے اور دقت نظر سے پیش کیا ہے۔
یہ تو تھا پروفیسر رشید احمد صدیقی کا کمال انتخاب۔ اب ذرا عظیم آباد کی زمین پر قدم رکھئے اور پوچھئے ان لوگوں سے، جنہوں نے قاضی عبد الودود کو دیکھا ہے۔ انہوں نے یقینا دیکھا ہوگا کہ شہر عظیم آباد کی برلا مندر روڈ پر واقع ان کے مکان پر پروفیسر محمود الٰہی تشریف لائے ہوئے ہیں اور قاضی عبد الودود بڑھ چڑھ کر ان کی تواضع کرنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ یہاں قارئین ہرگز نہ سمجھیں کہ میں تحقیق کے میدان میں دونوں کے درمیان مقابلے کروا رہا ہوں، لیکن اتنا تو ضرور تھا کہ دونوں ہستیاں تحقیق کے رموز ونکات پر اکثر باتیں کرتے نظر آئیں۔ قاضی عبد الودود پروفیسر محمود الٰہی کے محترم وبزرگ رفقا میں سے تھے۔ پروفیسر محمود الٰہی نے اپنی تحقیق کی راہوں میں قاضی صاحب سے بے شمار کرنیں سمیتی ہیں۔ جگہ جگہ استفادے کیے ہیں اور ان کے اصول تحقیق کو عملی شکل دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کے اخبار ’’الہلال‘‘ کی تدوین وترتیب میں پروفیسر محمود الٰہی نے جو عرق ریزیاں کیں یا ’’تذکرۂ شورش‘‘ کے تعلق سے جو صعوبتیں جھیلیں، اس بات کی غماز ہیں۔ بہرکیف قاضی عبد الودود پروفیسر محمود الٰہی کے تحقیقی مجاہدے کے بے حد معترف ہیں۔
یہیں ایک بات اور۔ اردو مکتوب نگاری میں ’’صحیفۂ محبت‘‘ کو بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ’’صحیفۂ محبت‘‘ در اصل نام ہے خطوط کے اس مجموعے کا جنہیں اردو کے مشہور نقاد مہدی افادی نے اپنی بیگم کو لکھے۔ پروفیسر محمود الٰہی نے بیگم مہدی سے وہ خطوط حاصل کیے اور ان سے اجازت لے کر انہیں مرتب کرکے شائع کیا اور ’’صحیفۂ محبت‘‘ نام رکھا۔ آئندہ سطور میں اس کتاب پر تھوڑی سی گفتگو ہوگی۔ یہاں مجھے صرف اس قدر بتانا ہے کہ ’’صحیفہ محبت‘‘ کی اشاعت میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کی پُرخلوص خواہشوں کو بڑا دخل ہے۔ وہ ہمیشہ پروفیسر محمود الٰہی کو لکھتے رہتے تھے کہ گورکھپور کی ادبی شخصیات پر کچھ نہ کچھ لکھنا تمہارے واجبات میں داخل ہوگا۔ اس سلسلے میں وہ ہمیشہ قیمتی مشورے بھی بھیجا کرتے تھے۔ اگر پروفیسر رشید احمد صدیقی کا اصرار شامل حال نہ ہوتا تو ’’صحیفۂ محبت‘‘ آج کتابی صورت اختیار نہ کرتا۔ پروفیسر محمود الٰہی پروفیسر رشید احمد صدیقی کے ممنون کرم ہیں کہ ان کی ایک نگاہ التفات نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچادیا۔
قصہ مختصر میں اپنے محترم قارئین کو صرف اس سچائی کو دکھانا چاہتا ہوں کہ عصر حاضر میں اردو تنقید وتحقیق کے جتنے بھی اساتذہ ہیں، ان میں پروفیسر محمود الٰہی اسی درجے پر فائز ہیں، جس درجے پر ان کے معاصرین جلوہ افروز ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سب پر بے شمار مضامین ہیں اور متعدد کتابیں بھی ہیں لیکن پروفیسر محمود الٰہی سے متعلق کسی نے ایک حرف بھی احاطۂ تحریر میں لانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہ تعصب پرستی نہیں تو اور کیا ہے۔
بہرکیف مجھے اس مختصر سے مضمون میں پروفیسر محمود الٰہی کی ادبی خدمات کے تعلق سے تھوڑی سی باتیں کرنی ہیں اور اس کے لیے یہاں اس ناچیز کی خواہش ہے کہ موصوف کا ایک مختصر ترین سوانحی خاکہ قارئین کے آگے رکھ دیا جائے تاکہ ان کی ادبی نگارشات کے بارے میں کچھ بھی جاننے کے لیے مطلع صاف ہوجائے۔ صوبہ اترپردیش کے مقام ٹانڈہ، ضلع امبیڈکر نگر میں ایک عالی شان اسلامی ادارہ ہے۔ اس ادارے کا نام ہے ’’مدرسہ کنز العلوم‘‘۔ اس مدرسے کے بانی استاذ ایک جید عالم مولانا علیم اﷲ صاحب تھے۔ ایک بے حد دین دار اور خدا ترس شخصیت کے مالک۔ پروفیسر محمود الٰہی ان ہی کے فرزند ارجمند ہیں۔ ان کی پیدائش ٹانڈہ ہی میں ۲؍ ستمبر ۱۹۳۰ء کو ہوئی۔ پانچ سال کی عمر میں تعلیمی سلسلے کا آغاز ہوا۔ مقامی اسکول سے ہی اپنی تعلیم شروع کی اور وہیں سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ ان ہی دنوں محمود الٰہی نے اپنا تخلص زخمیؔ رکھا۔
میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد محمود الٰہی آگرہ چلے آئے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے یہیں آگرہ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اس یونیورسٹی سے انہوں نے اردو میں بی۔اے اور ایم۔ اے کی ڈگریاں امتیازی نمبروں سے حاصل کیں۔ اس کے بعد انہیں پی ایچ ڈی کرنے کا خیال ہوا۔ اس کی خاطر انہوں نے اردو کے مشہور نقاد، ادیب اور استاد پروفیسر محمد حسن سے قربت حاصل کی اور ان ہی کی نگرانی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری 1858ء میں حاصل کی۔ پی ایچ۔ ڈی کے لیے ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا ’’اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ‘‘ اسی سال یعنی 1958ء میں ہی محمود الٰہی گورنمنٹ کالج، رامپور میں اردو کے لکچرر بحال ہوئے۔ مگر یہ جگہ تو معمولی تھی۔ انہیں اور اونچا جانا تھا۔ لہٰذا 1958ء میں ہی موصوف گورکھ پور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں استاد مقرر کرلیے گئے اور وہیں سے 1991ء میں وہ پروفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ اسی ملازمت کے دوران دو دفعہ چھ برسوں تک موصوف اتر پردیش اردو اکادمی کے چیرمین بھی رہے،جہاں سے انہوں نے اردو ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔
ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد پروفیسر محمود الٰہی کچھ دنوں کے لیے اپنے گہر چلے گئے اور مسلسل لکھنے پڑھنے کا کام کرتے رہے۔ ان دنوں موصوف اپنی چوتھی بیٹی قدسیہ بانو کے گہر لکھنؤ میں مقیم ہیں۔ قدسیہ بانو لکھنؤ کے ایک کالج میں کیمسٹری پڑھاتی ہیں۔ ان کے شوہر ڈاکٹر سلیم احمد اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے دفتر میں محکمۂ ترجمہ میں ایک اونچے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ یہی دونوں پروفیسر محمود الٰہی کی دن رات خدمت کر رہے ہیں۔(۱)
پروفیسر محمود الٰہی زخمیؔ کی ذات گرامی سے اردو میں جن علمی اور ادبی خدمات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اس کی پہلی کڑی آب کی شہرۂ آفاق تنقیدی اور تحقیقی کاوش ’’اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ‘‘ ہے۔ اس کتاب سے قبل اردو کی دیگر اصناف ادب پر تنقیدی کتابیں وافر مقدار میں مل جاتی ہیں۔ لیکن جب صنف قصیدہ سے متعلق کچھ جاننے کی خواہش بیدا ہوتی ہے تو بیحد مایوسی ہاتھ آتی ہے۔ پہلی دفعہ پروفیسر محمود الٰہی نے اس کمی کو شدت سے محسوس کیا اور اردو قصیدوں کا ایک ایسا گراں قدر مطالعہ پیش کیا کہ دنیائے ادب حیران وششدر رہ گئی۔ پی ایچ ۔ ڈی کی ڈگری کے لیے یہ مقالہ پروفیسر محمد حسن کی نگرانی میں مکمل کیا گیا اور1985ء میں اس پر پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری ملی۔ لیکن چودہ برس کے بنواس کے بعد پہلی بار اس مقالے کو مکتبہ جامع لمٹیڈ نے 1972ء میں شائع کیا۔ اس درمیان قصیدے کی صنف پر ڈاکٹر ابو محمد سحر کی کتاب ’’اردو میں قصیدہ نگاری‘‘ منظر عام پر آگئی تھی۔ لیکن پروفیسر محمود الٰہی کی تحقیق کا جو سورج طلوع ہوا تو بقیہ چاند تاروں پر مردنی چھا گئی۔ موصوف نے اپنے اس تنقیدی جائزے کو آٹھ ابواب میں منقسم کیا ہے، جن میں صنف قصیدہ کی تعریف، عربی اور فارسی قصیدوں کا مطالعہ، دکن میں اردو قصیدے کی روایات، شمالی ہند میں اردو قصیدہ نگاری کا ارتقا، سودا کے قصائد پر سیر حاصل بحث، سودا کے معاصرین کا تذکرہ، ذوق، مومن، غالب وغیرہ کے امتیازات غرض اردو قصیدہ نگاری سے متعلق تمام تر مفید معلومات اور اردو شاعری میں صنف قصیدہ کا مرتبہ پوری تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔
’’بازیافت‘‘ پروفیسر محمود الٰہی کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب پہلی بار دانش محل، لکھنؤ سے 19 6 5 ء میں شائع ہوئی۔ حرف آغاز کے علاوہ اس کتاب میں درج ذیل مضامین ہیں:
’’اردو میں جدید تحقیق کا آغاز طبقات شعرائے ہند، اردو ڈراما اور انار کلی، مشرقی اترپردیش کا ایک قدیم اخبار، ناسخ کا دیوان دوم، شاہ رفیع الدین دہلوی کا ایک اور نثری کارنامہ، تذکرہ بہادر سنگھ، اردومیں عربی شعرا کا پہلا تذکرہ، مقدمہ تذکرۂ شورش اور احتشام حسین بحیثیت نقاد‘‘۔
آخری مضمون کو چھوڑ کر بقیہ سارے مضامین تحقیقی نوعیت کے ہیں۔ پروفیسر محمود الٰہی چاہتے تھے کہ ان میں سے ہر تحقیقی مضمون کو ایک باضابطہ کتاب کی شکل دی جائے ملر ان کی صحت اس پر آمادہ نہیں ہوئی۔ پہلا مضمون کافی معلوماتی ہے۔ اس کے تحت موصوف نے تحقیق کے فن پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے کامیابی کے ساتھ اس بات کی دریافت کی ہے کہ اردو میں جدید تحقیق کا آغاز سرسید سے ہوتا ہے۔ اور آثار الصنادید نے ثابت کردیا ہے کہ سرسید ہی اردو کے اولین محقق ہیں۔ اس بابت پروفیسر محمود الٰہی نے جو عرق ریزیاں کی ہیں، وہ قابل ستائش ہیں۔ طبقات شعرائے ہند اور تذکرۂ شورش پر پہلے مضامین تو لکھے لیکن آگے چل کر دونوں تصنیفات پر تحقیق کی ہے اور اصل متن دریافت کرکے اپنے مبسوط مقدموں کے ساتھ انہیں شائع کردیا ہے۔ اردو ڈراما اور انار کلی پہلی بار 1959ء میں شائع ہوا تھا۔ بازیافت میں اسے دوبارہ شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ مضمون پروفیسر محمود الٰہی کی تنقیدی اور تحقیقی زندگی کا نقش اول ہے۔ اپنے اس مضمون میں پروفیسر محمود الٰہی یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ڈراما ایک اہم صنف ادب ہے اور ’انار کلی‘ اردو ڈراموں کا سرتاج ہے۔
شمالی ہند میں اردو کے نثری ادب کا آغاز اور ارتقا کب اور کیوں کر ہوا۔ یہ بات ہنوز بحث طلب ہے۔ نثری ادب میں تو خیر لوگوں نے انشاء اﷲ خاں انشا کی داستان ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ کو پہلی کتاب قرار دے دیا ہے۔ دیکھئے اس بابت مزید تحقیق کیا گل کھلاتی ہے۔ ویسے پروفیسر محمود الٰہی نے نثر کی ایک اور کتاب ڈھونڈ نکالی ہے اور وہ ہے ’’تفسیر رفیعی‘‘ پروفیسر محمود الٰہی کی تحقیق کے مطابق دہلی میں ایک شاہ رفیع الدین گزرے ہیں جن کا سنہ ولادت 1163ھ اور سنہ وفات 1232ھ لکھا ہے۔ 1200ھ کے آس پاس شاہ رفیع الدین دہلوی نے کلام پاک کا اردو میں ترجمہ کیا اور ’’تفسیر رفیع‘‘ نام رکھا۔ اردو نثر کے ابتدائی ارتقا میں اس ترجمے کی بڑی اہمیت ہے۔ پروفیسر محمود الٰہی نے اپنے اس مضمون میں اس ضمن میں تفصیل سے تحقیقی گرہیں کھولی ہیں۔
سرسید نے اپنی ملازمت کے دوران غازی پور ضلع کے قصبہ سید بور سے ’’آئینۂ تہذیب‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالا تھا۔ امتداد زمانہ نے اس اخبار کی ساری کاپیاں نگل لیں۔ یہ تو پروفیسر محمود الٰہی کی تحقیقی کوشش کا نتیجہ ہوا کہ ’’آئینۂ تہذیب‘‘ کے بارے میں ہمیں کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اس اخبار سے متعلق موصوف کا تحقیقی مضمون ’’مشرقی اتر پردیش کا ایک قدیم اخبار‘‘ کافی اہم ہے۔
پرانی کتابوں کی تلاش وتفتیش کے دوران پروفیسر محمود الٰہی کو ایم۔ ایل کے ڈگری کالج، بلرام پور کی لائبریری میں ’’یادگار بہادری‘‘ کا ایک نسخہ ملا۔ اس نسخے کے مطالعے کے بعد پروفیسر محمود الٰہی کو پتا چلا کہ یہ کتاب کئی حیثیتوں سے مفید ہے۔ اس کتاب میں فارسی شاعروں کا تذکرہ تو ہے ہی اس کا ایک جداگانہ باب اردو شاعروں سے متعلق ہے جسے در اصل ترانوے شعرائے اردو پر مشتمل ایک تذکرے کی حیثیت حاصل ہے اور بہادر سنگھ ’’یادگار بہادری‘‘ اس کے مؤلف ہیں۔ پروفیسر محمود الٰہی نے تذکرہ ٔبہادر سنگھ والے مضمون میں اس بابت ایک کامیاب تحقیق کی ہے۔
’’آب حیات‘‘ کی تصنیف سے پہلے کلیات ناسخ شائع ہوچکا تھا، مگر آزاد کو اتنی فرصت نہ ملی کہ وہ اپنی آنکھوں سے کلیات ناسخ دیکھ لیتے۔ ناسخ کے تین دیوانوں سے متعلق آزاد کے بیان کو دیکھ کر پروفیسر محمود الٰہی کافی دنوں سے پریشان رہے ہیں۔ ان کی تحقیقی طبیعت کی بے چینی جب حد سے تجاوز کرگئی تو انہوں نے امتیاز علی عرشی سے اس ضمن میں تبادلۂ خیال کیا اور اس سے متعلق چھان بین شروع کردی۔ اور اس حقیقت کا سراغ لگا لیا کہ ناسخ کے تین نہیں صر ف دو دیوان ہیں۔ پروفیسر محمود الٰہی کا مضمون ’’ناسخ کا دیوان دوم‘‘ اس تحقیق کی وضاحت پیش کرتا ہے۔
متن کی تحقیق، ترتیب، تدوین اور اس سے متعلق جس قدر بھی تقاضے ہوسکتے ہیں، ان تقاضوں کے عرفان اور ان کی عملی پاسداری میں پروفیسر محمود الٰہی کا نام لوگ بڑے فخر کے ساتھ لیتے ہیں۔ موصوف اس علم میں جس رتبے پر فائز ہیں ، اسے قاضی عبد الودود اور امتیاز علی عرشی جیسے نامور اور عظیم محققین نے بھی تسلیم کیا ہے۔ ’’فسانہ عجائب کا بنیادی متن‘‘ اردو تحقیق میں پروفیسر محمود الٰہی کا ایک قابل احترام اور ضافی کارنامہ ہے۔
اردو فکشن میں ’’فسانۂ عجائب‘‘ کا درجہ بہت بلند ہے۔ اس کے باوصف پروفیسر محمود الٰہی کے خیال میں یہ داستان اردو نثر کی فطری نشو ونما کا ایک حصہ نہیں ہوسکی۔ بہت زمانے کے بعد پروفیسر محمود الٰہی کو اس کتاب کا ایک خطی نسخہ ملا ہے جس سے بہت سی متعلقہ باتیں غلط ثابت ہوجاتی ہیں۔ حاصل شدہ نسخے کی پروفیسر محمود الٰہی نے ازسرنو تحقیق کی اور کافی تفتیش اور تصحیح کے بعد اس متن کو شائع کیا اور ’’فسانۂ عجائب کا بنیادی متن‘‘ نام رکھا۔ پروفیسر محمود الٰہی کی اس تحقیقی ریاضت میں ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی، ڈاکٹر نیر مسعود، اطہر پرویز، ڈاکٹر عبد الحق اور ڈاکٹر احمر لاری کا تعاون حاصل ہے۔ موصوف ان سب کے بے حد مشکور ہیں۔
رجب علی بیگ سرور کی نثر پر کام کرتے ہوئے پروفیسر محمود الٰہی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ پہلی دفعہ فسانۂ عجائب کی تصنیف میں سرور نے جومعیاری نثر پیش کی تھی وہ نثر ۱۲۵۹ھ میں فسانہ عجائب کی پہلی اشاعت کے بعد ہی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ فسانۂ عجائب کی تکمیل کے وقت اس کی نثر بے حد سلیس، صاف اور عام فہم تھی۔ انیس برسوں تک اس کے قلمی نسخوں سے لوگ فطری اور دلکش نثر کا مزہ لیتے رہے لیکن جوں ہی اس کی اشاعت کی نوبت آئی مصنف نے اپنی نثر میں حیرت انگیز تبدیلیاں کر ڈالیں۔ چنانچہ ’’فسانہ عجائب کا بنیادی متن‘‘ کی تدوین وترتیب کے درمیان محمود الٰہی نے ان تبدیلیوں کا سراغ لگایا ہے، جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پروفیسر محمود الٰہی نے اس کام میں اپنا کتنا خون جگر صرف کیا ہوگا۔
اردو شاعروں کے تذکرے پر مشتمل میر تقی میر کا تذکرہ ’’نکات الشعراء‘‘ اردو شاعری کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ شمالی ہند میں لکھے گئے تذکروں میں نکات الشعرا کے علاوہ ’’تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ اور ’’مخزن نکات‘‘ کو قدامت کے لحاظ سے اولیت حاصل ہے۔ پروفیسر محمود الٰہی کی تحقیق کے مطابق یہ تینوں تذکرے ایک ہی زمانے کی پیداوار ہیں۔ تذکرہ ریختہ گویاں میں جو ترقیمہ موجود ہے اس کے مطابق یہ تذکرہ 1166ھ میں مکمل ہوا۔ گردیزی کا لکھا ہوا ہے۔ یہ دونوں تذکرے اقربا پروری کی چغلی کھاتے ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی اچھے شاعروں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے۔ یہ دونوں تذکرے معاصرانہ چشمک کے عکاس ہیں۔ چنانچہ ایک کا مطالعہ دوسرے کے مطالعہ کے بغیر ناممکن ہے۔ ان دونوں تذکروں کو صدائے احتجاج کی حیثیت حاصل ہے۔ میر نے نکات الشعرا کے ذریعہ انعام اﷲ خان یقین اور مرزا مظہر جان جاناں کے دیگر تلامذہ کو ان کی حیثیت سے زیادہ اونچا اٹھانے پر احتجاج کیا ہے۔ اسی طرح گردیزی نے تذکرہ ریختہ گویاں میں حلقہ میر کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذا ان دونوں تذکروں کے ذریعہ پھیلائی گئی غلط فہمیوں کی افہام وتفہیم کی خاطر پروفیسر محمود الٰہی نے از سر نو نکات الشعرا اور تذکرہ ریختہ گویاں کا بڑا عمیق تحقیقی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اور نکات الشعرا پر یہ حکم عاید کیا ہے کہ یہ دوسرے شاعروں کا تذکرہ کم اور خود میر کا اپنا تذکرہ زیادہ ہے۔ نکات الشعراء سے متعلق پروفیسر محمود الٰہی کو حیرت ہوتی ہے کہ اسے قبول عام تو ملا لیکن اس کے قلمی نسخے تعجب خیر حد تک کمیاب ہیں۔ موصوف نے اس کے خطی نسخے کی تلاش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے پھر اسے مرتب کرکے شائع کیا۔
اردو شاعروں کے جس قدر بھی تذکرے لکھے گئے ہیں، ان میں ’’تذکرۂ شورش‘‘ کو کئی حیثیتوں سے امتیاز حاصل ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصویت یہ ہے کہ یہ تذکرہ قدیم ترین ہے۔ جو بہار کے اردو شاعروں کے متعلق ہے۔ بہار میں اردو شاعری کی ابتدائی نشو ونما پر اس سے اچھا ماخذ کوئی دوسرا تذکرہ نہیں ہے۔ پروفیسر محمود الٰہی کا خیال ہے کہ اگر تذکرہ شورش کچھ اور پہلے منظر عام پر آجاتا تو گزشتہ نصف صدی سے بہار میں اردو شاعری کے آغاز وارتقا سے متعلق جو اختلاف رائے پایا جاتا ہے، اس کی شدت بڑی حد تک کم ہوجاتی۔ کیونکہ اس اختلافی موضوع پر اسے اصل ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ اور اب تک زیادہ تر ثانوی ماخذ سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ شورش کا انتقال 1781ء میں ہوا اور اپنی وفات سے چار سال پہلے یعنی 1777ء میں اپنا تذکرہ لکھا۔ پروفیسر محمود الٰہی کو بے حد افسوس ہے کہ شورش کی وفات کے بعد لوگوں نے اس میں کافی پھیر بدل کردیا۔ تذکرہ شورش کا وہی مسخ شدہ نسخہ آکسفورڈ میں محفوظ ہے۔ اور پروفیسر کلیم الدین احمد نے اپنے تذکروں میں اسی مسخ شدہ نسخے کو شامل کیا ہے۔ قاضی عبد الودود کا بھی خیال ہے کہ آکسفورڈ والے نسخے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پروفیسر محمود الٰہی نے تذکرہ شورش کے اصلی خطی نسخے کی تلاش کرکے منظر عام پر لے آئے۔ اس طور پر موصوف نے بہار کے باشندوں کے دلوں میں اپنے لیے ایک مستقل جگہ بنالی۔ یہاں ہم پاتے ہیں کہ تذکرہ شورش تقریباً دو سو سال تک گوشہ گمنامی میں پڑا رہا۔ آج ہم بکی آسانی سے بہار میں اردو شاعری کے ارتقا سے متعلق کچھ بھی معلوم کرسکتے ہیں۔ یہ پروفیسر محمود الٰہی کا ہم پر بڑا احسان ہے۔
سطور بالا میں پروفیسر محمود الٰہی کے جن تحقیقی اور تنقیدی کارناموں کے محض مختصر اشارے پیش کیے گئے، ان کے علاوہ بھی موصوف کے بے شمار ایسے کارنامے ہیں جو اردو کے تحقیقی اور تنقیدی ادب میں امتیاز ی حیثیت کے حامل ہیں۔ مگر مضمون کی ضخامت مزید اشاروں کی پیش کش پر انگلی اٹھانے لگی ہے۔ لہٰذا ذیل میں موصوف کے چند اور ہم کارناموں کے صرف نام درج کئے جاتے ہیں۔
طبقات شعرائے ہند (مولوی کریم الدین)، صحیفۂ محبت (مہدی افادی)، دستاویز، انتخاب تذکرہ (مولانا ابو الکلام آزاد)، ہفتہ وار پیغام (مولانا ابو الکلام آزاد)، الہلال (مولانا ابو الکلام آزاد)، خلافت کانفرنس، خطبہ صدارت، انتخاب نثر، انتخاب نظم، انتخاب غزلیات، انتخاب ہمدرد وغیرہ۔
سطور بالا میں پروفیسر محمود الٰہی سے متعلق میں نے جو کچھ لکھا وہ ان کے تحقیقی اور تنقیدی بحر بے کراں کے ایک ننھے سے قطرے کی بھی ہمسری نہیں کرسکتا۔ شروع میں یہ عرض کیا تھا کہ میں موصوف کی نگارشات کے محض چند اشارے ہی پیش کرسکوں گا، مگر یہاں میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کام کو بھی پورا نہیں کرسکا۔ صرف چند وضاحت اشاریوں کی خاطر دو سو تین سو صفحات پر مشتمل ایک مستقل کتاب کی ضرورت کا یہاں ایک شدید احساس ہوتا ہے اور اگر موصوف کی تمام ادبی خدمات کا مکمل اور تفصیلی مطالعہ پیش کرنے کا خیال کیا جائے تو اس کے لیے نہ جانے کتنے دفتروں کی ضرورت پیش آئے گی۔ ایسی صورت میں اپنے قارئین سے صرف اس حد تک درخواست کرسکتا ہوں کہ آپ میں سے جو لوگ لکھتے پڑھتے ہیں اور دیگر نقاد ومحققین کی نگارشات پر قلم اٹھاتے ہیں ذرا پروفیسر محمود الٰہی کی مرتب کردہ کتابوں کو بھی اپنے مطالعے کی میز پر لایئے اور دیکھئے کہ یہ خود آپ کے اندر کچھ لکھنے کی کیسی کیسی خواہشیں اور قوتیں پیدا کرتی ہیں۔ اگر واقعتاً ایسا ہوا تو یقین جانئے کہ آپ ایک صاحب قلم ہیں، ورنہ آپ جانیں اور آپ کا یہ اردو ادب۔
٭٭٭
حواشی:
۱۔ یہ مضمون پروفیسر محمود الٰہی کی زندگی میں لکھا گیا تھااور پٹنہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے ’اردوجرنل‘ میں شائع ہوا تھا۔ ’اردو جرنل‘ کی اجازت سے یہاں شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
“Prof. Mahmood Ilahi Ke Tahqiqi Karnaame by Dr. M Azimullah” by Dr. M. Azeemullah, “Urdu Research Journal” ISSN 2348-3687, Vol. I, Issue II, page No 10-19.
Leave a Reply
1 Comment on "پروفیسر محمود الٰہی کے تحقیقی کارنامے"
[…] پروفیسر محمود الٰہی کے تحقیقی کارنامے […]