ڈاکٹربرج پریمی بحیثیت نقاد
ڈاکٹر برج پریمی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ادبی دنیا میں برج پریمی ایک مقبول افسانہ نگار، محقق اور کامیاب ناقد کی حیثیت سے قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ۔ آپ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا ہے،بعدازاں تحقیق و تنقید کے میدان میں قدم رکھ کر اپنی ذہانت و متانت اوروسیع مطالعے کی وساطت سے ایک اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ ۱۹۸۲ء میں ’ ’ حرف جستجو‘‘ کے نام سے ان کے تنقیدی مضامین کاپہلا مجموعہ شائع ہوا جس میں وہ اپنے تخلیقی سفر کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’میری ادبی زندگی کاسفر بیسویں صدی کے نصف میں ایک کہانی کارکی حیثیت سے ہوا……سال ہا سال گزرنے کے بعد تحقیقی‘تنقیدی اور علمی مضامین کی طرف رغبت ہوئی ۔ ممکن ہے کہ اس کے محرکات میں میری تدریسی زندگی کی ضرورتیں بھی شامل ہوں ۔ اب تک میں نے مختلف موضوعات پر کم و بیش پچاس مضامین لکھے ہیں جو ملک کے مختلف نامور جریدوں میں شائع ہوچکے ہیں ۔‘‘
برج پریمی ،حرف جستجو (دیپ پبلیکیشنز ’’کلپنا ‘‘آزاد بستی، نٹی پورہ ،سری نگر ،۱۹۸۲ء)ص نمبر ۱۱
برج پریمیؔ کی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو صحیح سمت عطا کرنے میں پروفیسر عبدالقادر سروریؔ کاکافی اہم کردار رہا ہے ۔ سروری ؔکے تحقیقی پروجیکٹ’’کشمیر میں اردو‘‘ پر کام کرنے کے دوران بر ج پریمی ؔکو ان کے ہمراہ کشمیر کے بہت سے ادباء ومشاہیر سے ملنے کاموقع ملا جس کانتیجہ یہ ہوا کہ انہیں تحقیق و تنقید کے اسرار ورموز سے شناسائی نصیب ہوئی۔ اپنی تصنیف’’ ذوق نظر‘‘ میں برج پریمیؔ نے خود اس بات کااعتراف کیاہے کہ سروریؔ نے استاد نہ ہوتے ہوئے بھی قلیل عرصہ تک ہی سہی‘میری استادی کاحق ادا کیاہے او رتحقیق کے رموز سکھائیں جن سے میں آج تک روشنی حاصل کررہا ہوں ۔
برج پریمیؔ کاپہلا تحقیقی کارنامہ’’ سعادت حسن منٹو حیات او رکارنامے‘‘ ہے جس پر۱۹۷۶ء میں انہیں کشمیر یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی ۔۱۹۷۷ء میں وہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے منسلک ہوئے جہاں وہ تحقیقی و تنقیدی کام انہماک کے ساتھ انجام دینے میں مشغول ہوئے او رمحض تیرہ سال کی قلیل مدت کے دوران انہوں نے ڈیڑھ درجن کے قریب کتابیں لکھیں جن میں سے بیشتر کتابیں خالص تحقیقی وتنقیدی نوعیت کی ہیں ۔
تنقید و تحقیق کے میدان میں برج پریمیؔ نے جو خدمات انجام دی ان کی برصغیر کے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی اور انہوں نے محقق و ناقد کے پہلو بہ پہلو منٹوشناس اور کشمیر شناس کہلانے کا بھی حق پالیا۔پروفیسر حامدی کاشمیری نے برج پریمیؔکی تصنیف ’’کشمیر کے مضامین‘‘ کے پیش لفظ میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’برج پریمیؔ نقاد بھی ہیں او رمحقق بھی او ر اپنی شخصیت کی ان دونوں حیثیتوں کالوہا وہ پور ے ملک میں سعادت حسن منٹوؔ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر منوا چکے ہیں ۔ ادھر چند برسوں سے ان کاذہن تحقیق کی طرف زیادہ مائل ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ریاستی اور ملکی اد ب سے وابستہ بعض شخصیات کے علاوہ کشمیریات کو اپنا موضوع ِخاص بنایا ہے ۔پریمی کی نگارشات کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی تحقیقی موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے صرف معلومات او ر اعداد و شمار جمع کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے‘ بلکہ ان کو نقد واحتساب کی کسوٹی پر بھی پرکھتے ہیں ۔اس طرح سے ان کی تحقیق نام نہاد محققین کی طرح محض بے فیض برداری‘ ہوکر نہیں رہ جاتی‘ بلکہ ایک بامعنی اور ترسیلی کارگزاری بن جاتی ہے ۔‘‘
برج پریمی ،کشمیر کے مضامین (دیپ پبلی کیشنز ’’تپسیا ‘‘۵۸۔آزاد بستی نٹی پورہ،سری نگر ،۱۹۸۹ء)ص نمبر ۱۲
برج پریمیؔ کی جو خالص تحقیقی وتنقیدی کتابیں شائع ہوکر اردو دنیا میں مشہور و مقبول ہوکر قارئین سے دادوتحسین حاصلکرچکی ہیں ان میں ’’حرف جستجو ‘‘(۱۹۸۲ء) ’’جلوۂ صدرنگ‘‘(۱۹۸۵ء)‘ سعادت حسن منٹو حیات اور کارنامے (۱۹۸۶ء)‘ذوقِ نظر(۱۹۸۷ء)‘چندتحریریں (۱۹۸۸ء)‘جموں کشمیر میں اردواد ب کی نشوونما (۱۹۹۲) منٹو کتھا(۱۹۹۴ء) ‘مباحث(۱۹۹۷ء) اور پریم ناتھ پردیسی …عہدشخص اور فنکار شامل ہیں ۔یہ تمام تصانیف برج پریمیؔ کی فنی صلاحیت او روسیع مطالعے کی ترجمان ہیں ۔ ان تصانیف کے غائرمطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ برج پریمیؔ نکھرا ہوا تحقیقی او رتنقیدی شعور رکھتے ہیں ۔
ان کی تنقیدی صلاحتیں اس وقت رونما ہوئیں جب انہوں نے ’’ سعادت حسن منٹو __حیات اور کارنامے ‘‘ جیسا مقالہ لکھ کر ادبی حلقوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ اس تحقیقی اور تنقیدی کارنامے سے متعلق پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیں :
’’برج پریمی نے سعادت حسن منٹو __حیات اور کارنامے ‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا ہے ‘ جو ابھی تک منٹو پر شائع ہونے والے سبھی مضامین اور کتابوں پر بھاری ہے ۔منٹو کے خاندان، اسلاف اور ان کی اپنی شخصیت کے بارے میں بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے برج پریمی نے بڑی دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں جو عام طور پر لوگوں کے علم میں نہیں ہیں ۔‘‘
پریمی رومانی،برج پریمی ایک مطالعہ(دیپ پبلی کیشنز پریس موڑ ،باغ باہو جموں (توی)۱۹۹۳ء)ص نمبر ۱۳۹
برج پریمی کا یہ اولین تحقیقی و تنقیدی مقالہ چھ ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا باب منٹو کی سوانح حیات اور ان کی شخصیت کے تر کیبی عنا صر سے متعلق ہے، جبکہ دوسرے باب میں اردو کے مختصر افسانے کی تاریخ منٹو سے پہلے تک بیان کی گئی ہے ۔ تیسرے باب میں اس مقالے کا اہم حصہ یعنی منٹو کی افسانہ نگاری کے مختلف پہلوؤں کا بہت تفصیلی اور عمدہ تنقیدی جائزہ شامل ہے ۔ مقالے کے چوتھے باب میں منٹوکے مضامین ، انشائیوں اور خاکوں کا بغور جائزہ پیش کیا گیا ہے اور پانچویں باب میں ان کے خطوط پر اظہار خیال ملتاہے ۔ اسی طرح مقالے کے چھٹے اور آخری باب میں منٹو کی نگارشات مثلاً ڈراما، ناول ، تراجم اور صحافت سے بحث ملتی ہے ۔ غرض برج پریمی نے منٹو کے ہر گوشے پر اپنی محققانہ اور ناقدانہ نظر معروضی انداز میں ڈالی ہے اور یہی خوبی ان کی اس کاوش کو ایک خاص اور منفرد مقام دلانے میں معاون ثابت ہوئی ہے ۔
وادیٔ کشمیر کے مشہور افسانہ نگار اور شاعر پریم ناتھ پردیسی پر برج پریمی ؔ کی تصنیف حرفِ جستجو میں دو مقالات شامل ہیں ’ ’ پردیسی او ران کے افسانے‘‘او ر’’ پردیسی کاتخلیقی سفر ابتدائی دور‘‘۔اولذکر مقالے میں برج پریمی نے پریم ناتھ پردیسی کی افسانہ نگاری کا فنی او رتنقیدی جائزہ لیا گیاہے ۔پردیسی چونکہ برج پریمیؔ کے استاد بھی رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ غیر جانبدارانہ انداز سے ان کی فنی کمزوریوں کابلا جھجک اظہار کرتے ہیں اور ان کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں کشمیر کا ایک عظیم فنکار قرار دیتے ہیں ۔ پردیسی کے ابتدائی دور کے افسانوں کے بارے میں برج پریمیؔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’پردیسیؔ کاابتدائی فن اخبار(روزنامہ مارتنڈ)کی گزشتہ اشاعتوں میں دفن ہے ۔پردیسیؔ اس اخبار کے خاص اورمستقل قلم کار تھے اورکئی ناموں سے لکھتے تھے ۔ پریم چند اورسعادت حسن منٹو کی طرح انہوں نے اپنے لیے کئی قلمی نام وضع کئے تھے ……اس دور میں پردیسیؔ نے اپنے زرخیز ذہن کی پوری توانائی کے ساتھ رومان‘ رنگ او رحُسن میں ڈوبے ہوئے افسانے تخلیق کئے ۔یہ الگ بات ہے کہ ان افسانوں میں نہ خیال کی پختگی تھی او رنہ فن کی نزاکت۔‘‘
برج پریمی ،حرف جستجو (دیپ پبلیکیشنز ’’کلپنا ‘‘آزاد بستی، نٹی پورہ ،سری نگر ،۱۹۸۲ء)ص نمبر ۹۷۔۹۸
پردیسیؔ کی متوسط دور کی کہانیوں کاجائزہ لیتے ہوئے برج پریمیؔ رقمطراز ہیں :
’’پردیسی ‘منٹوؔ او ربیدیؔ کی طرح کفایت الفاظ کے فن کار نظر آتے ہیں ۔ وہ کم سے کم الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کو فنی پیرایہ میں بیان کرتے ہیں اور الفاظ کے بیجا اصراف سے افسانے کے وحدتِ تاثر کومجروح نہیں کرتے۔ پردیسیؔ کے ان افسانوں میں نہ شاعری کااحساس ہوتاہے اور نہ رومانی او رتخیلی اندازِ نظر سامنے آتاہے۔‘‘
برج پریمی ،حرف جستجو (دیپ پبلیکیشنز ’’کلپنا ‘‘آزاد بستی، نٹی پورہ ،سری نگر ،۱۹۸۲ء)ص نمبر ۱۰۴
’’پردیسیؔ کاتخلیقی سفر۔ ابتدائی دور‘‘ بھی برج پریمی کی تحقیقی و تنقیدی بصیرتوں کامظہر ایک دلچسپ او رمعلوماتی مقالہ ہے ۔جس میں کشمیر کے پریم چند ‘پریم ناتھ پردیسی کے ابتدائی دور کے تخلیقی سفر سے بحث کی گئی ہے ۔مقالے میں برج پریمی ؔنے پریم ناتھ پردیسی کے کئی اشعار او رنثری اقتباسات کے حوالے دے کر مدلل طور پر ان کی ابتدائی دور کی افسانہ نگاری ‘ناول نگاری‘شاعری اور صحافتی خدمات کاجائزہ لیاہے ۔ انہوں نے اپنی محققانہ بصیرت کو بروئے کار لاکر نرسنگھ داس نرگس کے اس بیان کی تردید کی ہے کہ پردیسی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز ماہنامہ’’ رتن‘‘ جموں سے کیا۔ جس میں انہوں نے اولاً بچوں کی چھوٹی چھوٹی دردناک کہانیاں لکھیں ۔
اس کے علاوہ ’’جلوہ صدرنگ ‘‘ اور ’’ جموں وکشمیر میں اردو ادب کی نشوونما ‘‘ میں کئی مضامین یکساں موضوعات پر لکھے گئے ہیں مثلاً ’’ جموں وکشمیر میں اردو نثر‘‘ اور ’’ اردو افسانہ ‘‘ ایسے موضوعات ہیں ،جن کی الگ الگ وضاحت کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ’’ جموں وکشمیر میں اردو ادب کی نشوونما ‘‘میں ایک پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اس میں کشمیر کے اردو نقادوں کا جائزہ الگ طورسے لیا گیا ہے ، تاکہ قارئین کو ان نقادوں کی شخصیات سمجھنے میں آسانی رہے ۔ مگر اس کے مقابلے میں ’’ جلوہ صدرنگ ‘‘میں کشمیر سے متعلق ایسے موضوعات بھی آئے ہیں جن کی بنا پر اس کتاب کی حیثیت تنقید سے زیادہ تاریخی رہ گئی ہے ۔ ان کتابوں کے علاوہ جس کتاب نے برج پریمی کو ایک مستند نقاد کا درجہ دلوایا ہے وہ ان کی عدیم المثال تنقیدی کتاب ’’ ذوق نظر ‘‘ ہے ،جو ۱۹۸۷ء میں اپنے گیارہ مقالات کے ساتھ منظر عام پر آئی۔ اس کتاب کے دیباچے میں وہ اپنی ادبی صلاحیتوں کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ مجھے پیشہ ور ناقد اور محقق ہونے کا دعویٰ نہیں ۔ البتہ فن، ادب ، ثقافت اور آرٹ کے مختلف شعبوں سے گہری دلچسپی ہے ۔ان کے بارے میں غور وفکر کرتا رہتا ہوں اور اپنا رد عمل اپنی تحریروں میں پیش کرتا ہوں ۔‘‘
برج پریمی،ذوق نظر (دیپ پبلی کیشنز’’تپسیا‘‘۵۸آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر کشمیر ،۱۹۸۷ء)ص نمبر ۷
’’کشمیر میں اردو تنقید‘‘ذوق نظر کا ایک بصیرت افروز مقالہ ہے جس میں برج پریمیؔ نے ریاست کے ان نمائندہ نقادوں ‘دانشوروں ‘ادیبوں او رصحافیوں کی تنقیدی کاوشوں کاجائزہ لیاہے جنہوں نے ریاست میں اردو تنقید کی ترویج وترقی میں اپنا اپناکردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ مختلف ادیبوں او رادبی انجمنوں کی کوششوں سے شائع ہونے والے ان اخبارات اور رسائل سے بھی بحث کی ہے جنہوں نے اردو تنقید کو جلا بخشی۔پریمیؔ کے مطابق یہاں محمد الدین فوقؔمرحوم کی تحریروں میں اردو تنقید کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں ۔اگرچہ فوق مرحوم کاتنقید کے ساتھبراہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا لیکن ان کی متعدد تصنیفات میں اقتضائے زمانہ کے مطابق تنقیدی خیالات کااظہار ملتاہے ۔ محمد عمر‘ نور الٰہی کی ناٹک ساگر کو برج پریمیؔ ادبی تنقید کاابتدائی نمونہ تسلیم کرتے ہیں او رعبدالاحد آزادؔ کی تصنیف’’کشمیری زبان او رشاعری‘‘ کوتنقید و تحقیق کے شعبے میں ایک گراں قدر تصنیف خیال کرتے ہیں ۔ زیر بحث مقالے سے ریاست کے نمائندہ نقادوں کی ایک لمبی فہرست مرتب کی جاسکتی ہے اور اس سے پہلو بہ پہلو ان غیر کشمیری عالموں ،فاضلوں ،دانشوروں ، محققوں اورناقدوں کی بھی جنہوں نے کشمیر میں اردو ادب کی آبیاری کی ۔ ان میں علامہ کیفی‘خلیفہ عبدالحکیم‘جعفر علی خاں اثر‘ڈاکٹر محمد دین تاثیر ‘ ڈاکٹر محی الدین قادری زور‘پروفیسر عبدالقادر سروری‘ پروفیسر آل احمد سرور‘پروفیسر شکیل الرحمن‘ڈاکٹر مسعود حسین خان‘ڈاکٹر محمد حسن‘ڈاکٹر گیان چند جین‘پروفیسر عالم خوندمیری‘ڈاکٹر جعفر رضااو رمظہر امام وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ریاست میں اردوتنقید کی ترقی و ترویج میں برج پریمیؔ نے نہ صرف دور درشن او رریڈیو جموں کی خدمات کو سراہا ہے بلکہ ریاستی کلچر ل اکادمی اور کشمیر اور جموں یونیورسٹیوں کے اردو شعبہ جات کے مختلف رسالوں او رتحقیقی وتنقیدی مجلوں کو بھی اردو تنقید کے حوالے سے اہم قرار دیا ہے ان کے مطابق یہ ادارے اردو تنقید کی نئی جہتوں کی طرف نشاندہی کرتے رہے ہیں جہاں بحث و تمحیص کے ذریعے مسائل کے نت نئے پہلو سامنے آجاتے ہیں ۔
’’ذوق نظر ‘‘ کے علاوہ برج پریمی کی ایک اور کتاب ’’ کشمیر کے مضامین ‘‘ہے جو ۱۹۸۹ء میں شائع ہوئی۔ اگر چہ گذشتہ کتابوں کی طرح اس میں بھی کشمیر کی ثقافت، تاریخ ، شخصیات اور کشمیری ادب پر طبع آزمائی کی گئی ہے تاہم اس میں شامل کچھ مضامین برج پریمی کے تنقیدی شعور کا پتہ دیتے ہیں ۔ چار مضامین اس کتاب میں ادب کے زیر عنوان درج ہیں ۔لل دید کی شاعری،منٹو اور شاعرِ کشمیر مہجور،کشمیر میں ترقی پسند ادبی تحریک اور کشمیر میں اردو ،کتاب کا آخری مقالہ جموں وکشمیرمیں صحافت سے متعلق ہے۔ہم اردو والوں نے لل دید کا نام ضرور سنا ہے ،لیکن ان کے کلام سے واقف نہیں ہیں ۔برج پریمی نے اپنے اس مضمون میں اپنے قاری کو لل دید کی شاعری کے محاسن سے آشنا نہیں کیا ہے بلکہ ان کے کشمیری کلام کے اردو ترجموں کو مضمون میں شامل کرکے فنکار اور اس کے کشمیری نہ جاننے والے قارئین کے درمیان جو فاصلہ حائل تھا اسے ختم کردیا ہے ۔اس مضمون کی بدولت کشمیری نہ جاننے والے اردوداں لل دید کی شاعری کے صرف مفہوم ہی سے آشنا نہیں ہوسکتے بلکہ ان کے کلام کی شرینی اور غنایت سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔
کشمیر میں ترقی پسند ادبی تحریک اس کتاب کا ایک بہت ہی اہم مضمون ہے۔ ترقی پسند ادب کی تاریخ لکھنے میں کوئی مورخ اس مضمون کو نظرانداز کرکے اپنے موضوع سے انصاف نہیں کرسکتا ۔یہ مضمون ادب کی ترقی پسند تحریک کے تعلق سے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم پریم ناتھ بزاز،پیر عبدالاحد،شاعرِکشمیر مہجور، ارجن دیو مجبور،سومناتھ زتشی، ماسٹر زندہ کول، علی محمد لون،قصیر قلندر، حبیب کامران اور دوسرے اردو اور کشمیری اہل قلم کی وہ ادبی سرگرمیاں دیکھ سکتے ہیں جن کا تعلق براہ راست ادب کی ترقی پسند تحریک سے تھا۔ یہ مضمون کشمیر میں ادب کی ترقی پسند تحریک کا ایک ایسا باب ہے جس کے بغیر ہندوستان میں ترقی پسند ادب کی تاریخ مکمل قرار نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح ’’ کشمیر میں اردو‘‘ پروفیسر عبدالقادر سروری مرحوم کی اسی نام کی کتاب پرایک تبصرہ ہے جو ایک طویل محققانہ موضوع کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔اس مضمون پر برج پریمی صاحب ایک مستند محقق کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ مختصراً برج پریمی عموماً مانوس موضوعات پر ہی لکھتے ہیں اور عام نتائج کا استنباط کرتے رہے ، اصل میں ان کا اندازنقد تاریخی اور علمی تھا ۔وہ ایک دیدہ ور نقاد کی طرح ادب کے رموز و اسرار کی پردہ کشائی سے سروکار نہیں رکھتے تھے ۔
’’ چند تحریریں ‘‘ برج پریمیؔ کی ایک اورتصنیف ہے جو ۱۹۸۸ء میں دیپ پبلی کیشنز سرینگر کے اہتمام سے شائع ہوئی۔اس میں تحقیق وتنقید ‘مختصر سفر نامہ‘انشائیے‘دیو مالا ‘ فلم‘نثری مرثیے(شخصی)اورترجمہ کے عنوانات کے تحت کل ملا کر۲۳ مضامین شامل ہیں ۔ جن کے مطالعے سے برج پریمیؔ کی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تحقیق و تنقید کے باب کے تحت اس میں چھ مضامین درج ہیں ۔ تحریک آزادی او راردو ادب‘اردو فکشن اور قومی وحدت‘ قومی وحدت اور اردو شاعری‘ منٹو کاعہد بوئے خلوص کامتلاشی اور منٹو کی دو کہانیاں ایک اجمالی مطالعہ۔
غرض تحقیق وتنقید کے میدان میں برج پریمی نے جو خدمات انجام دی ان کی برصغیر کے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی اور انہوں نے محقق و ناقد کے پہلو بہ پہلو منٹو شناس اور کشمیر شناس کہلانے کا حق بھی پالیا ۔منٹو شناسی کے حوالے سے پروفیسر گوپی چند نارنگ یوں رقمطراز ہیں :
’’ ڈاکٹر برج پریمی اردو کے ان معلمین میں سے ہیں جو خاموشی سے علمی کام کرتے رہتے ہیں ۔وہ ہندوستان کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں ۔جنہوں نے سعادحسن منٹو کا مطالعہ نہایت دل سوزی سے کیا ہے ………. منٹو کی شخصیت اور فن پر ان کی کتاب بنیادی حوالے کا درجہ رکھتی ہے ۔‘‘
برج پریمی ،کشمیر کے مضامین (دیپ پبلی کیشنز ’’تپسیا ‘‘۵۸۔آزاد بستی نٹی پورہ،سری نگر ،۱۹۸۹ء)
Leave a Reply
2 Comments on "ڈاکٹربرج پریمی بحیثیت نقاد"
kindly let me know how to read the next paragraph after the above line.I am not able to read the full article