مجتبیٰ حسین : ایک منفرد اورعہدساز انشائیہ نگار

     مجتبیٰ حسین ایک بسیار نویس ادیب ہیں اور ان کی ادبی زندگی چاردہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ ان کی بے پناہ شہرت ومقبولیت کا راز ان کے فن میں پوشیدہ ہے۔ ان کی تحریریں شگفتہ، شائستہ،چلبلی اور دلکش ہواکرتی ہیں۔ان کے لطیف مزاح، شائستگی،شرافت، اعتدال پسندی، رمزیت، برجستگی، طنز کی ہلکی آمیزش، زبان کا رچاؤ، تیکھے اور دلکش اسلوب نے انہیں ان کے ہم عصروں میں ممتازومنفرد بنایاہے۔ مجتبیٰ حسین کے انشائیوں میں مزاح کا اسلوب غالب ہے۔ان کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کا موضوع نوع انسان ہے۔وہ اسے انسان کی حیثیت سے دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمال فن عروج پر نظر آتا ہے۔ان کا مشاہدہ کافی عمیق ہے ۔اسی وصف کے سہارے وہ مختلف واقعات کے مضحک پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ہماری روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے معمولی سے معمولی واقعات پر بھی انکی توجہ رہتی ہے۔سماج کے مختلف طبقات اور شعبہء حیات سے متعلق افراد کے طرز زندگی،ان کے مسائل اور ان کے مخصوص رویوں،عادتوں اور خصائل کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔بات سے بات پیدا کرنے کا فن انھیں بخوبی آتا ہے۔اس ضمن میںان کے ایک انشائیہ’’ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں‘‘ کا یہ اقتباس پیش خدمت ہے۔جس میں ان لوگوں پر طنز کیا گیا ہے جو غالب کی شاعری کو سمجھتے نہیں اوران سے صرف عقیدت کے سبب بڑاشاعرمانتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں:

’’ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ قبلہ !ضروریات زندگی میں کون کون سی اشیا شامل ہوتی ہیں ؟انہوں نے کہا:’’کھانا،کپڑا،مکان ،غالب اوردیوان غالب ۔‘‘صاف ظاہر ہے کہ یہ صاحب غالب کے طرفدار تھے اور اس حد تک طرفدار تھے کہ خود غالب کی ذات کو’’دیوان غالب‘‘ سے جدا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے دیکھاکہ ان صاحب نے غالب سے اپنی طرفداری جتانے کے لیے’’ کلیات میر‘‘ پر بھی دیوان غالب کا ٹائٹل چڑھا رکھا ہے اور محض ٹائٹل کے دھوکے میں میر کے کلام کو بھی غالب کا کلام سمجھتے ہیںاور اس سلسلے میں قطع کلام کرنے کا کوئی موقع عنایت نہیں کرتے کیوں کہ ان صاحب کی نظر میں اردوشاعری نے صرف ایک ہی شاعر پیدا کیا ہے اور وہ ہے غالب ۔ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ جناب والا !اردو کے تین بڑے شعرا کے نام بتائیے۔موصوف نے کہا تھا: ’’غالب،مرزا غالب اور مرزا اسداللہ خاں غالب۔‘‘اس پر ہم نے فرض کرتے ہوئے کہ آگے ان کی دال نہ گلے گی،پوچھا کہ اب لگے ہاتھوں چوتھے بڑے شاعر کا نام بھی بتائیے تو کہنے لگے :’’نجم الدولہ،دبیرالملک مرزااسداللہ خاںبہادر نظام جنگ غالب ۔‘‘ (۱)

     مجتبیٰ حسین نے اپنے مضامین میں تشبیہات واستعارات کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ان کی تشبیہات میں بڑی تازگی اور انفرادیت ہوتی ہے۔جو بالعموم موضوع اور نفس مضمون سے پوری مطابقت رکھتی ہیں۔وہ زومعنی الفاظ سے اپنے انشائیوں میں مزاح پیدا کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ان کے یہاں طنز دیرپا اور گہرا ہوتا ہے لیکن اس میں مزاح کی چاشنی بھی ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں رونما ہونے والے فسادات پر گہرا طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’اگر آپ خالص فسادات دیکھنا چاہتے ہیں توپھر ہندوستان ہی جائیے۔یہاں کے فساداتاتنے خالص ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں بھی انسانیت کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔اس صفائی سے انسانوںکے سر کاٹے جاتے ہیں اور ان کے جسموں میں چھرے بھونک دیے جاتے ہیں کہ عقل حیران اور نظر دنگ رہ جاتی ہے۔مجھے بتایا گیا کہ فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کابڑا قدیم کھیل ہے‘‘(۲)

اسی طرح ’’اردو کا آخری قاری‘‘میں ادب میں ہونے والے نئے نئے تجربات پر یوں طنز کرتے ہیں کہ:

’’مجھے بتایا گیا کہ اب ادب میں ذات کے کرب کااظہارضروری ہوگیا ہے۔میں نے شعرپڑھنا چاہاتو مجھے عجیب وغریب علامتیں دی گئیں۔میں نے افسانہ پڑھناچاہاتونفسیات میرے آگے بڑھادی گئی۔نظم پڑھنی چاہی توتنہاہی کا زہرمیری ذات میں گھولاجانے لگا۔ادب میں اتنے تجربات کیے گئے کہ ادب لیبا ریٹری میں تبدیل ہوگیا ہے۔ہر ادیب نے ادب کو ایک نیا موڑ دینا چاہا۔چنانچہ ہمارا ادب اتنا مڑا تڑا ہوگیا ہے کہ اسے دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ بر سوں بعد کسی گھڑے میں سے نکالی ہوئی شیروانی کو دیکھ رہا ہوں۔جب افسانے میں سے کہانی اورغزل میں سے شاعری غائب ہونے لگی تو میں نے دبی زبان میںآپ حضرات سے پھرشکایت کی۔‘‘(۳)

مجتبیٰ حسین نے بہت سارے انشائیے لکھے ہیں۔جو عوام وخواص میں بے حد مقبول ہوئے ہیں۔ان کے انشائیے غیر رسمیت اور بے تکلفی کے باوصف بڑے منضبط ہوتے ہیں اور قاری کو فنی تکمیل کا احساس بھی دلاتے ہیں۔وہ اپنے انشائیوں میں کسی مرکزی بات سے ضمنی باتیں نکال کر اس کا تانا بانا بنتے ہیں اور کبھی وہ یہی کام کسی کلیدی لفظ سے لیتے ہیں۔’’ہماری بے مکانی دیکھتے جائو‘‘ان کا ایک دلچسپ اور لطیف انشائیہ ہے۔اس انشائیہ میں انھوں نے ایک لفظ ’’اتفاق‘‘ کا بارہا بخوبی استعمال کیا ہے۔مجتبیٰ حسین نے اس انشائیہ میں کرایہ داروں کو ہونے والی مشکلات ،پریشانیوں اور مکان مالکوں کے کرایہ وصولی کے انوکھے طریقوں اور بہانوں کا بڑے شگفتہ انداز میں ذکر کیا ہے۔اس انشائیہ کا یہ اقتباس دیکھیں:

’’مکان یاد آنے لگے تو مکان کے مالک بھی یاد آتے چلے گئے۔ایک مالک اتفاق سے ہرمہینے کی پہلی تاریخ کو ہمارے گھر کے سامنے سے گذرتے تھے نہ صرف اتفاق سے گذرتے تھے بلکہ اتفاق سے کال بیل بھی بجادیتے تھے۔میں اتفاق سے گھرپرہوتا توکہتے بھئی اتفاق سے ادھر سے گذر رہا تھا،سوچا آپ سے مل لوں۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ آج پہلی تاریخ ہے۔ایک مہینہ میں اکتیس تاریخ کو اتفاق سے ان کے گھرپہنچا۔مجھے دیکھ کر بہت سٹپٹاگئے بولے’’آج آپ کے اتفاق سے ادھر چلے آنے سے کچھ نااتفاقی کی بو آرہی ہے۔‘‘

’’قصہ داڑھ کے درد کا‘‘مجتبیٰ حسین کا ایک دلچسپ اور مشہورانشائیہ ہے۔انسان اپنی زندگی میں بہت ساری بیماریوں سے دوچار ہوتا ہے اور تکلیفیں برداشت کرتا ہے۔کچھ بیماریوں کا درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان کو اسے برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ایسا ہی ایک درد داڑھ کادرد ہے۔جو ناقابل برداشت ہے۔اسی داڑھ کے درد کو دھیان میں رکھتے ہوئے مجتبیٰ حسین نے اپنا یہ انشائیہ تحریرکیا ہے۔اس انشائیہ میں جہاں اس درد سے پیدا ہونے والی ذہنی وجسمانی کیفیات کا انوکھے انداز میں ذکر کیا گیا ہے وہیں پر اس سے ہونے والی پریشانیوں کوبھی شگفتہ انداز میںپیش کیا گیا ہے۔اس انشائیہ کایہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

جب داڑھ کا درد اپنی حدوں کوپھلانگ کر کائنات کی وسعتوں میں پھیلنے کی کوشش کرنے لگتا ہے تو آدمی اس درد کی وسعت کے آگے ایک ادنیٰ سا ذرہ معلوم ہونے لگتا ہے۔جب پہلے پہل ہمارے سیدھے جبڑے والی داڑھ کا درد حدسے سوا ہوگیااورہم سیدھی جانب زیادہ جھکائو محسوس کرنے لگے تو اس عدم توازن کے احساس نے ہم میں بڑی بے چینی پیدا کردی۔آئینہ میں صورت دیکھی توپتہ چلا کہ آئینہ میں ہماری جگہ ایک بھوت کھڑا ہے۔ہم گھبراکر فوراًدانتوں کے ایک ڈاکٹر کے پاس بھاگے وہ ہمیں پہلے سے جانتے تھے لیکن داڑھ کے درد کے ساتھ انھوں نے ہمیں پہچاننے سے انکار کردیا۔ہم نے اس بات کی شکایت کی توبولے’’بھائی صاحب!داڑھ کے درد کے بعد آدمی کی پہچان بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔مجھے تو اپنے سارے ہی مریض’’ہم شکل ‘‘نظرآتے ہیں۔کس کس کوکہاں تک پہچانوں۔‘‘یوں بھی آپ کے سامنے اگربہت ساری ڈبل روٹیاں ایک ساتھ رکھ دی جائیں تو آپ ان ڈبل روٹیوں کو کیسے پہچانیں گے یہ ڈبل روٹی زیدہے اور وہ ڈبل روٹی بکر ہے۔داڑھ کے درد کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ آدمی کے چہرے کودیکھئے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آدمی کا چہرہ ڈبل روٹی بنانے کی مشین سے ڈھل کر نکلا ہے۔‘‘(۵)

مجتبیٰ حسین کے اشائیوں میں معاشرے کے مجبور وبے بس اور دبے کچلے انسانوں کے تئیں دردمندی اور ہمدردی کا احساس دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے انشائیہ’’یہ رکشا والے‘‘کا یہ اقتباس دیکھیں:

’’ایک دن ایک صاحب بس اسٹاپ پر کھڑے بس کا انتطار کررہے تھے۔جب بہت دیر تک بس نہ آئی تو انھوں نے ایک رکشاوالے کوبلایا

          پوچھا’’کرایہ کروگے؟‘‘

     رکشا والے نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا:

     ’’توکیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم یوں ہی تفریحاً گھوم رہے ہیں؟‘‘

          وہ صاحب بولے ’’نہیں بھئی !میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کہیں تم کسی اورجگہ تونہیں جارہے ہو‘‘

          رکشاوالے نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:’’اجی قبلہ!اس دنیا کوچھوڑکر جابھی کہاں سکتے ہیں۔ فرمائیے،آپ کو کہاں جانا ہے؟‘‘

          وہ بولے’’مجھے سلطان بازار چھوڑدو‘‘

          ’’ضرورچھوڑدوں گا۔آٹھ آنے ہوں گے‘‘

          وہ صاحب حیرت سے بولے’’آٹھ آنے!بس کا کرایہ توصرف دس پیسے ہوتا ہے۔‘‘

          اس پر رکشاوالے نے کہا’’جی!دس پیسے ہوتا ہے مگر آپ نے یہ غورنہیں فرمایا کہ بس پیٹرول سے چلتی ہے اور رکشاخون سے۔‘‘یہ جملہ کہتے ہوئے رکشا والے کی آنکھوں میں سرخی دوڑ گئی۔‘‘(۶)

تکلف برطرف (۱۹۴۹)، قطع کلام(۱۹۶۹)قصہ مختصر(۱۹۷۲) بہرحال(۱۹۷۴)بالآخر(۱۹۸۲) اور الغرض (۱۹۸۷) وغیرہ ان کے طنزیہ ومزاحیہ مضامین اور انشائیوں کے مشہور ومعروف مجموعے ہیں جن کی شہرت و مقبولیت سدابرقرار رہے گی۔مجتبیٰ حسین کی تخلیقی صلاحیتوں اور ادب کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی سارے انعامات واعزازات سے نوازا گیا ہے۔مثلاً۱۹۸۲میں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی جانب سے پہلا’’غالب ایوارڈ برائے اردو طنزومزاح ‘‘سے نوازا گیا۔اسی طرح۱۹۹۰میں اردو اکادمی دہلی نے تخلیقی نثر کا سب سے بڑا ایوارڈ’’ایوارڈبرائے تخلیقی نثر ‘‘سے نوازا۔۱۹۹۲میں آندھرا پردیش اردو اکادمی نے پہلے’’کل ہند مخدوم محی الدین ادبی ایوارڈ‘‘سے سرفراز کیا۔۱۹۹۸میں ہریانہ اردو اکادمی کی جانب سے’’کل ہند مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ برائے طنزومزاح ‘‘سے نوازاگیا۔۲۰۰۱میں کرناٹک اردو اکادمی نے ’’کل ہند ایوارڈ برائے مجموعی خدمات ‘‘سے نوازا۔۲۰۰۳میں مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے ’’کل ہند جوہر قریشی ایوارڈ‘‘سے سرفراز کیا۔ انھیں۲۰۰۷میں حکومت ہند نے اپنے ایک اعلیٰ شہری ایوارڈ’’پدم شری‘‘ سے سرفراز کیا۔۲۰۱۱میں اردو ساہتیہ اکادمی حکومت مہاراشٹر نے ’’سنت گیا نیشورنیشنل ایوارڈ‘‘عطا کیا۔علاوہ ازیں مجتبیٰ حسین کی بیشتر تصانیف کو ملک وبیرون ملک کی مختلف اردو اکادمیوں اورادبی انجمنوںکی جانب سے انعامات و اعزازات سے نوازاگیا ہے۔ الغرض مجتبیٰ حسین ایک منفرد،عہدساز اور نہایت اعلیٰ مقام پر فائزانشائیہ نگار ہیں۔ انھوں نے انشائیہ کی صحت مند روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے مزید بلندیوں پر پہنچایا ہے۔

حواشی:

(۱)مجتبیٰ حسین، تکلف برطرف، نیشنل بک ڈپو، حیدرآباد، ۱۹۶۸، ص:۵۴

(۲)مجتبیٰ حسین، قطع کلام، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی، ۲۰۱۱، ص:۵۷

(۳)مجتبیٰ حسین، بالآخر، حسامی بک ڈپو، حیدرآباد، ۱۹۸۲،ص:۱۷

(۴) نصیراحمد خاں(مرتب)آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ، اردو اکادمی دہلی،۲۰۰۳،ص۲۹۲۔۲۹۳

(۵) نصیراحمد خاں(مرتب)آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ، اردو اکادمی دہلی،۲۰۰۳،ص۲۹۵۔۲۹۶

(۶)مجتبیٰ حسین،قطع کلام،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی، ۲۰۱۱، ص:۳۴

     ***

منظر کمال

(ریسرچ اسکالر)

ہندوستانی زبانوں کا مرکز،جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، دہلی

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.