سردار پنچھی ؔکی نعت گوئی* محمود فیصل
جو پیاسی روح کو تسکین دے دے
ترا کلمہ ہے وہ جھونکا ہوا کا
کرنال سنگھ سردار پنچھیؔ اس فنکار کا نام ہے جس کے کلام میں رعنائی و دلکشی اپنی پوری آب و تا ب کے ساتھ جلوہ گر ہے، ان کی شاعری میں مصوری، موسیقی بدرجہ وأتم موجود ہے ، اصلی فنکاروہی ہوتا ہے جس کی سوچ کسی خاص طبقے کی رہنمائی نہ کرتی ہو، جس کا تخلیقی نقطہء نظرانسان ذات ہو،جوآدمیت کی زندہ جاوید مثال ہوجس کا مذہب انسانیت کا فروغ ہو ۔ کرنال سنگھ سردار پنچھی ؔاس کی زندہ مثال ہیں ۔
ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو ایرانیوں ،ترکمانیوں، پٹھانوں، برہمنوں، راجپوتوں اور اس سر زمین پربسنے والے لاکھوں انسانوں نے اپنے خون جگر سے سینچا ۔جہاں سنسکرت ،اودھی اور برج بھاشا کے فروغ میں حضرت امیر خسرو ؔ،عبدالحکیم خان خاناںؔ، رس خانؔ، ولی دکنیؔ اور دارا شکوہؔ جیسے ہزاروں مسلم شاعروں کی قربانیاں شامل ہیں ،وہیں اردو کی نوک پلک سنوارنے میں منشی ٹیک چند بہادرؔ، پنڈت دیا رام پنڈتؔ،پنڈت دیا شنکر نسیمؔ، راجہ جسونت سنگھ پروانہؔ ،منشی جواہر سنگھ جواہرؔ،لالہ مادھو رام کوٹھی والؔ، رائے بہادر منشی شیو نارائن آرامؔ، برج موہن د تریہ کیفیؔ، پنڈت آنند نرائن ملاؔ، رگھو پتی سہائے فراق ؔگورکھپوری، منشی پریم چندؔ،راجندر سنگھ بیدی ؔ،کنھیا لال کپورؔ، کرشن چندرؔ، تلوک چند محرومؔ، رتن ناتھ سرشارؔ، مالک رامؔ، جوش ملسیانیؔ، عرش ملسیانیؔ، پنڈت جگن ناتھ آزادؔ،رتن سنگھؔ،بلونت سنگھؔ،بل راج کوملؔ،بلراج مینراؔ،آنند موہن زتشی گلزارؔ دہلوی،گوپی چند نارنگ ؔ،چندربھان خیالؔ اور کشمیری لال ذاکرؔ وغیرہ جیسے غیر مسلم شاعروں و ادیبوں کی خدمات کے اعتراف کئے بغیر یہ تاریخ نا مکمل ہے۔
اردو نے ہر دور میں اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کو فروغ دیا، اردو نے ہی شیخ و برہمن کو ایک صف میں لاکھڑا کیا، ایک دوسرے کے خیالات، نظریات اور تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوئی، اسی لیے اردو ہمیشہ میل جول کی زبان کے نام سے مشہور و معروف رہی ہے۔
اردو کی اسی میل جول کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سردار پنچھی ؔنے صنف شاعری میں الگ مقام بنایاہے، ان کی شاعری میں غنائی و رعنائی اپنی پوری دلکشی کے ساتھ جلوہ فگن ہے ۔عزم و ہمت کے اس ہمالہ نے زندگی کی تمام حوادثات کا مقابلہ بحسن وخوبی کیا، لیکن یہ حوادث سردار پنچھی ؔکے اندر کے فن کار کو کبھی پژ مردہ نہ کر پائے بلکہ وقفے وقفے سے لگنے والی ٹھوکر سردار پنچھیؔ کو مزید استحکام عطا کر تی چلی گئی۔ اور جہد مسلسل نے ان کو ایک کامیاب شاعر اور ادیب کی پہچان دی۔ان کے قلم سے شائع ہونے والی شاعری کی کتابوں میں غزلوں کا روایتی رنگ جدت کے ساتھ کافی نکھرا ہوا ہے،انہوں نے دیوناگری ،فارسی اور گورمکھی رسم الخط میں کئے کتابیں تصنیف کیں،آپ کی کتابوں میں ’’ مزدور کی پکار(ہندی گیت دہوناگری رسم الخط)، سانولے سورج(اردو غزلیں گورمکھی رسم الخط) ، سورج کی شاخیں(اردو غزلیں گورمکھی اور فارسی رسم الخط)، ٹکڑے ٹکڑے آئینہ(اردو غزلیں فارسی رسم الخط)،درد کا ترجمہ(اردو غزلیں،فارسی اور گورمکھی رسم الخط)، نقش قدم(اردو کے چھوٹے چھوٹے مضامین فارسی رسم الخط)،ادھورے بت(اردو کی نظمیں فارسی اور گورمکھی رسم الخط)‘‘شامل ہیں آپ کی یہ تمام تصنیفات سردار پنچھی کی اردو کی دوستی کا منھ بولتا ثبوت ہیں
کرنال سنگھ سردار پنچھی ؔایک نعت گو شاعر ،مداح رسول، اور عاشق نبی ہیں، عقیدت و احترام کے جذبات ان کی سرشت میں موجزن رہے ہیں اور یہ عقیدت کسی ایک آستانے کے لئے محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے مذہب و ملت اور بھید بھاؤ سے اوپر اٹھ کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے، سردار پنچھیؔ نے ایک جانب سکھ گورو صاحبان نیز شہدائے پنتھ کے تئیں جذبات کا منظوم اظہار’ قربانیوں کے وارث‘ کی صورت میں کیا تو ’بوستان عقیدت‘منقبت و سلام کا نذرانہ بحضور اہل بیت منظر عام پر آئی اوربحیثیت شاعر خیر البشر رحمت اللعالمین حضرت محمدؐ کی ذات مبارک کے تئیں ان کے مودت کے اظہار سے مجموعہ نعت ’ گلستان عقیدت‘ کی شکل میں وجود میں آئی ان کی نعتیہ شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عقیدت راویتی یا رسمی نہیں ہے ۔بلکہ آپؐ کے اخلاق حسنہ اور سیرت مبارکہ نے سردار پنچھیؔ کے اندر عقیدت کے سمندر موجزن کئے ہیں آپ کی تعلیمات نے سردار پنچھی کو عقیدت مند بنا دیا ،سردار پنچھیؔ اسلامی تعلیمات کے ساتھ اس وقت کے معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کے لئے صحت مند اور انقلابی تبدیلیوں سے بہت متاثر تھے رسول اکرم حضرت محمد مصطفیؐ نے حضرت بلال کو موذن مقرر کر کے ذات پات کے خاتمے کو عملی جامہ پہنایا تھا ایک جگہ سردار پنچھیؔ خودرقم طراز ہیں ’ میں نے فرقہ وارانہ نہج سے اوپر اٹھ کر لکھا ہے ،میری رائے بنانے میں اسلامی تاریخ کا اہم کردار رہا ہے۔‘
’گلستان عقیدت ‘کے مطالعے سے منکشف ہوتا ہے کہ سردار پنچھی ؔکی عقیدت محض رسمی نہیں ہے بلکہ ان کی نظر میں سرور کائنات کی شخصیت کے تمام پہلو ہیں، سردار پنچھیؔ کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے اور عاشقان رسول شعراء میں ان کا شمار ہو تا ہے ،اسی عقیدت نے ان کو نعت گو شاعر بنا دیا۔ آپؐ کی ذات اقدس میں شاعر کو اپنے لئے ایک اعلیٰ ترین اوصاف سے متصف ایک قابل تقلید اسوہ دیکھنے کو ملتا ہے اور اسی جذبے سے لبریز ہو کر سردار پنچھی ؔکی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے
عقیدت کہہ رہی ہے آج اس کی چوم لوں آنکھیں
کہ جس نے گنبد خضریٰ پہ چھائی چاندنی دیکھی
گلستان عقیدت سردار پنچھیؔ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ہے اس کتاب کے انتساب میں انہوں نے لکھا ’’ ان تمام لوگوں کے نام جو رسول اﷲ کے اکرام سے فیض یاب ہو چکے ہیں ۔‘
ایک سچے صاحب ایمان کی طرح سردار پنچھی ؔکوحضرت محمد مصطفیٰ کے قیامت تک کے لئے سر چشمہ رشد و ہدایت ہونے پر کامل یقین ہے اور یہ یقین بھی ہے کہ جو آپ ؐکے ارشادات سے رد گردانی کرے گا اس کے گمراہ ہو جانے میں کوئی شک نہیں ہے اور وہ فلاح و کامرانی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔مگر بحیثیت شاعر وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں اس لئے کہ انسان بہت بڑا فنکار ہوتا ہے اور ہی فنکار کی آواز ہے اور بحیثیت انسان انہیں آپ ؐ کی تعلیمات نے بہت متأثر کیا،اگر چہ وہ ان تعلیمات سے متأثر ہوکر مسلمان تو نہیں ہوئے مگران تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کی، اور ان کو اپنے اشعار میں جگہ دی۔
مومن ہیں اور صاحب ایمان نہیں ہے
دل میں ذرا بھی عزت قرآن نہیں ہے
مانے نہ محمدکی جو تعلیم تو پنچھی
وہ کچھ بھی ہو لیکن وہ مسلمان نہیں ہے
سردار پنچھی ؔکو مداح رسول بنانے میں مساوات اور اخلاقی تعلیمات پر مبنی پیغامات نے اہم رول ادا کیاآپ نے قرآن کا ہندی ترجمہ بھی پڑھا ہے رسولؐ کی حالات زندگی پڑھی ،آپ نے عرب معاشرے میں صحت مند اور انقلابی تبدیلیاں کیں ، آپؐ کی مساوات کی تعلیمات نے سردار پنچھی کو بہت متأثر کیا ـانہوں نے بنی نوع انساں کو ایک ڈوری سے باندھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے خوشگوارنتایج بھی سامنے آئے، ایک فارمولے کے تحت پوری دنیا کے لوگ ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے حصے دار ہیں‘‘میرے خیال میں یہ فارمولہ بے لوث اور لاثانی ہے، انہیں خیالات کو سردار پنچھی ؔنے بڑ ی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اشعار میں پیش کیا ہے ۔ ان کے نمونہ کلام مندرجہ ذیل ہیں
اگر دیکھی نبوت تو محمد آپ کی دیکھی
کرم دیکھا، عمل دیکھا، مثالی زندگی دیکھی
پرواز خیالوں نے ہر دل نے نظر پائی
کیا کیا نہ ملا ہم کو اس حسن مجسم سے
حق سے کرو محبتیں باطل سے نفرتیں
رکھنا ہمیشہ یاد نصیحت رسول کی
زندگی کو دلکشی ملے تیرگی میں روشنی ملے
بونوں کوقد آوری ملے سب کو ایک برابری ملے
پرچم مساوات اونچا اٹھانے کو
رنگ نسل بھید سارے جڑ سے مٹانے کو
آقائے بلال آگیا
آمنہ کا لال آگیا
وہ اک آب رواں ہے وہ چلتا کارواں ہے
محبت کی نظر ہے وہی خیر البشر ہے
وہ رحمت کی نظر ہے وہ ہر غم کی دوا ہے
ہر اک مشکل میں لوگو ں وہی مشکل کشا ہے
مجسم ہے عبادت وہ اک حمد و ثنا ہے
کہ تپتی زندگی میں وہ اک ٹھنڈی ہوا ہے
آپ کے سر پہ جو کوڑا پھینکتی تھی روز وہ
جب ہوئی بیمار دیکھی شیریں خصلت آپ کی
ایک بار سردار پنچھی ؔکی ورک شاپ سی مشین کا بھاری بھرکم پرزہ ،جو کہ مرمت کے لئے آیا تھا چوری ہو گیا جب اس کی خبر سردار پنچھیؔ کو ملی تو وہ بہت پریشان ہوئے وہ اس واقعہ کا ذکروہ اس انداز میں کرتے ہیں ’’میں خاموشی کی ساتھ گھر لوٹ آیا اور اپنے دیوان خانے کو اندر سے بند کرکے بیٹھ گیا پھر تھوڑی دیر بعدمیں نے دونوں ہاتھوں کو اوپر جوڑ کر رسول اﷲ ؐ کا نام لیا اور ان سے استدعا کی اے خیر البشر! اے مشکل کشا ! میری مشکل دور کیجئے میں ایک ادنیٰ سا شاعر ہوں آپ کا مداح ہوں اپنے دیوانے پر کرم فرمایئے ۔یہ دعا کرنے کے دو منٹ بعد مجھے احساس ہو اکہ میرے جسم میں جان لوٹ آئی ہے اور ایک منٹ گزرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی میں نے ریسیور اٹھایا ،دوسری طرف سے آواز آئی یہ اودھ میل کا اخبار کا دفترہے ۔میں نے جواب دیا جی ہاں ،میں نے جواب دیا، سردار پنچھیؔ صاحب سے بات ہوسکتی ہے ‘،جی ہاں بول ریا ہوں،میں کوتوالی سے انسپکٹر سنہا بول رہاہوں ہم نے چوری کے مال کا ایک ٹرک پکڑا ہے چوروں نے آپ کے کارخانے سے مال چرائے ہیں آپ کوتوالی چلے آئیں اور اپنامال لے جائیں، اس طرح میرا چوری شدہ مال برآمدہو گیا‘ اس واقعہ نے حضرت محمد ؐ کے تئیں میرے دل میں بیکراں عقیدت پیدا کردی اور یہ اٹوٹ رشتہ آج تک قائم ہے اور اسے اٹوٹ رشتے کے زیر اثرعشق رسول میں ڈوب کر سردار پنچھی ؔنے یہ اشعار پیش کئے ہیں
جسے بھی خوف ہو روز جزا کا
وہ دامن تھام لے خیرالوریٰ کا
غم آئے تو آنے دو ہم ڈرتے نہیں غم سے
لو ہم نے لگائی ہے سرکاردو عالم سے
دل میں بسالے دوست عقیدت رسول کی
شب و روز تجھ پہ برسے رحمت رسول کی
محمد مصیبت میں حاجت روا ہیں
وہ کشتی اسلام کے ناخدا ہیں
لکھاہے قرآن میں پڑھ لو پنچھی
محمد نبی ہیں رسول خدا ہیں
سردار پنچھی ؔاسلامی تعلیمات سے بہت حد تک واقف تھے یہا ں تک کہ انہیں ماہ صیام کی برکتوں کاعلم بھی ہے ا ور انہوں نے بحیثیت فنکار اس کی برکتوں فیوض کو اپنی برکتوں کو اپنی تحریروں میں سمو دیا اور رمضان المبارک کے مہینے کی رحمتوں کے تذکرے سردارپنچھی ؔکے یہاں کچھ اس طرح ملتے ہیں
رحمت کی بارش ہو تی ہے آیا ہے مہینہ روزے کا
وہ رحمت والے ہیں لوگو جن پر ہے سایہ روزے کا
روحوں کی ہوتی ہے صفائی
نیکی کی ہوتی ہے کمائی
آقا کی طرف سے لوگوں نے پایا ہے یہ تحفہ روزے کا
رحمت کی بارش ہوتی ہے آیا ہے مہینہ روزے کا
سردار پنچھیؔ کو آپؐ کی زندگی کے بصیرت افروز واقعات نے حق کی سر بلندی کی کوشش میں اپنوں اور غیروں کی مخالفت کا طوفان، مشرکین کے انسانیت سوز مظالم، صبر واستقامت کا ہمالہ، دشمنوں کے لئے بھی دعائیں اوروطن عزیز سے امن و سلامتی کی خاطر ہجرت اور فتح مکہ کے خون کے پیاسوں کے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک یہ اس طرح کی چیزیں ہیں جس نے غیرمسلم شاعر کو شیدائے رسول بنا دیا،
وہ مدینہ اور مکہ کی خوشبوؤں سے معمور فضا کے بارے میں عقیدت کے پھول اس طرح نچھاور کرتے ہیں
یہ وہ در ہے جہاں پر بد نصیبی دور ہوتی ہے
امیری پاس آتی ہے غریبی دور ہوتی ہے
سردار پنچھیؔ نے زیارت کی ایک نئی تشبیہ پیش کی ہے
نہ ہو مایوس پنچھیؔ اک زیارت یوں بھی ہوتی ہے
اسی کو دیکھ لے جس نے مدینے کی گلی دیکھی
کہتے ہیں محبت اور عقیدت میں طغیانی اکثر اپنے حصار توڑ دیتی ہے ،سردار پنچھیؔ کے یہاں بھی اس طرح کی طغیانی دیکھنے کو ملتی ہے جس کی اجازت اسلامی شریعت میں بالکل نہیں ،چاہے وہ نثر کے پیرائے میں ہو یا نظم کے۔ مگر شاعری کی رعایت میں مبالغہ آرائی کو نظر میں رکھنا چاہئے تاکہ شاعر خلوص نیت اور شریعت کی حدمیں رہتے ہوئے عقیدت کے پھول نچھاور کرسکے۔توقع ہے کہ ’’گلستان عقیدت‘‘ کے ذیعہ کرنال سنگھ سردار پنچھی ؔکو نئی پہچان ملے گی۔
(Sardar Panchi bahisiyat naat go by Mahmood Failsal, Urdu research jaournal, Ist. Issue page no. 61-70, ISSN 2348-3687)
محمود فیصل
ریسرچ اسکالر
دہلی یونیورسٹی
Leave a Reply
3 Comments on "سردار پنچھی ؔکی نعت گوئی* محمود فیصل"
کافی معلومات بھری تحقیق ہے.
غیر مسلم شعراء کے بارے میں، اور خاص کر “سردارپنچھی” کے بارے میں کافی اچھی اور نئی معلومات ملی.
*
سید منصور راشد.
[…] سردار پنچھی ؔکی نعت گوئی […]