مولانا حسرت ؔموہانی کی نعتیہ شاعری

     مولانا حسرتؔ موہانی کی شخصیت کے کئی رُخ ہیں اور وہ ان میں سے ہر رُخ میں امتیازی صفات کے حامل دکھائی دیتے ہیں ۔ایک انسان کی حیثیت سے بھی اُن کا پلہ بھاری دکھائی دیتا ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے بھی وہ بلند مقام پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ادب ، سیاست، صحافت اورمعاشرت کے شعبوں میں بھی اُن کی شخصیت کی ممتاز خصوصیات بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں ۔شعر و شاعری کی دنیا میں اُنھیں رئیس المتغزلین اور شہنشاہ تغزل کہا جاتا ہے ۔اُن کی شاعری اُن کے دل کی آواز او ر سچّے جذبوں کے اظہار کے حوالے سے شہرت کی حامل ہے۔اُنھوں نے اپنے سچّے جذبوں ، تخیّلات اور فکر کو شاعری کا جامہ پہنایا۔اُن کی غزل جدید و قدیم رنگوں کا امتزاج ہے ۔اُنھوں نے قدیم و جدید اُردو و فارسی شعرا کے کلام کا مطالعہ کیا اور اُردوئے معلی میں اُن کے کلام پر تجزیہ اور کلام سے انتخاب پیش کیا ۔حسرتؔ کے ہاں غزلوں کے ساتھ نعتیہ کلام بھی ملتا ہے۔ نبی ٔ کریم ﷺ کی مدحت میں لکھا جانے والا کلام نعت کہلاتا ہے ۔ یہ مدحت اور توصیف نثر میں ہو یا نظم میں نعت ہی کہلائے گی ،لیکن اصطلاح میں ہر اُس منظوم کلام کو نعت کہتے ہیں ،جس میں شاعر نبی ٔ آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں سرشار اپنی محبت و عقیدت کے پھول اس طرح نچھاور کرتا ہے کہ نبی ٔ کریم ﷺ کے اوصاف راۂ عمل بن کر سامنے آجاتے ہیں ۔نعت گو جس قدر نبی ٔ کریمﷺ کی سیرت مبارکہ سے آگاہی اور عمل کی سعادت رکھتا ہو، اُس کے کلام میں اُتنی ہی جان اور تڑپ ہوگی۔ علیم صبا ندوی کا کہنا درست ہے کہ:

’’ نعت شاعری کی بڑی مشکل صنف ہے ۔اس میں جتنی حد بندیاں اور پابندیاں ہیں ،اتنی کسی اور ہیت میں نہیں ۔اس میں پیش آنے والے موضوعات میں حدِ ادب سے سرِ مو بھی تجاوز نہیں کیا جا سکتا ۔جدت پسندی بھی ایک حد تک ہی اس میں روا رکھی جا سکتی ہے ۔اس ہیت میں حضور اکرم ﷺ سے عقیدت ،محبت ،ارادت اور عزت و احترام جزوِ کل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔نعت لکھنے سے پہلے شاعر کو فن سے واقفیت اور زبان پر کامل دسترس کے ساتھ ساتھ تاریخی شواہد ،قرآنی تفسیر اور حضورؐ کی سیرت سے متعلق نہ صرف صحیح معلومات کا ذخیرہ ذہن و دل میں ہو،بلکہ اسلامی قدروں کا غائر مطالعہ بھی اشد ضروری ہے عقیدت اور وجدانی کیفیات سے نور کی برساتیں ہوتی ہیں تو نعت شریف میں بڑی ابدیت اورآفاقیت پیدا ہو جاتی ہے ۔نعت دراصل دربارِ مصطفیؐ میں صالح محبتوں ،پاکیزہ عقیدتوں اور نیک جذبوں کے ساتھ گل ہائے عقیدت پیش کرنے کا عمل ہے۔‘‘۱؎

نعت گوئی کی راہ اس لیے دشوار اور سنگلاخ ہے کہ اس راستے میں جادۂ اعتدال و توازن سے ذرّہ بھر کی لغزش یا ایک لمحے کی افراط یا تفریط کی زد میں بھٹک جانا گویا باعث خسران اور موجب ہلاکت ہے۔۲؎

     حسرت ؔ کی شخصیت کا ایک پہلو اُن کا عشق رسولﷺ کا جذبہ ہے،جو اُن کے ذہن ،دل اور دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اُنھیں نبی کریمﷺ کے دیدار کا شرف بھی حاصل ہوا۔خواب میں حضور پرنورﷺ کی زیارت اُن کے عشق رسولﷺ کے سچّے اور بے پناہ جذبوں کی ہی وجہ ہے۔ اُن کی نبی ٔ کریم ﷺ سے بے پناہ عقیدت ،محبت اور عشق کا ہی نتیجہ ہے کہ اُن کے غزلیہ کلام میں بھی جا بجا نبی کریم ﷺ سے اُن کی یہ محبت ،عقیدت اور عشق آشکارہ ہوتا ہے اور نعتیہ کلام میں تو اُن کے عشق کا کیا ہی عالم ہے۔ایک نعت میں یُوں گویا ہیں :

لائوں کہاں سے حوصلہ آرزوئے سپاس کا

جبکہ صفات ِ یار میں دخل نہ ہو قیاس کا

عشق میں تیرے دل ہوا ایک جہانِ بے خودی

جان خزینہ بن گئی حیرت بے قیاس کا

لطف و عطائے یار کی عام ہیں بسکہ شہرتیں

قلب گناہگار میں نام نہیں ہر اس کا

دل کو ہو تجھ سے واسطہ لب پہ ہو نام مصطفیﷺ

وقت جب آئے اے خدا خاتمۂ حواس کا

طے نہ کسی سے ہوسکا تیرے سوا معاملہ

جان ِ اُمید وار کا حسرتِؔ محو یاس کا

     حسرتؔ کی پہلی نعت وہ ہے،جو اُنھوں نے قید فرنگ اولیٰ(۲۳ جون۱۹۰۸ء تا ۱۹ جون۱۹۰۹ کے عرصے میں لکھی۔اس پہلے مسلمان سیاسی رہنما کا جیل جانا ذہنی اذیت کا باعث تو تھاہی، اس پر مستزاد چکی کی مشقت تھی۔ حسرت ؔ حوصلہ اور ہمت سے معمور تھے اس لیے اُنھوں نے حق گوئی کی پاداش میں یہ سب کچھ برداشت کیا۔ قید کی تنہائی میں اُن کے مشاغل عبادت اور شعر گوئی تھے۔ ایسے میں عشق رسولﷺ کی تڑپ جاگی اور دربار مدینے میں حاضری دینے کے لیے بیدار ہوئی ،تو بے ساختہ اُن کے قلم سے یہ نعت نکلی، جو اُن کے پہلے مجموعہ کلام ’’گلدستہ حسرت ‘‘میں شامل ہے۔

قابو میں نہیں ہے دل شیدائے مدینہ

کب دیکھئے بر آئے تمنائے مدینہ

خوشبو ئے رسالتؐ سے ہے ازبسکہ معطر

ہر ذرہ آبادی و صحرائے مدینہ

     ہے بے خودی عشق حقیقی کا شناسا

ہر دل کہ ہے مخمور تو لائے مدینہ

آتی ہے جو ہر شے سے یہاں انس کی خوشبو

دنیا ئے محبت ہے کہ دنیائے مدینہ

ہے شام اگر گیسوئے احمدؐ کی سیاہی

تو نور خدا صبح دل آرائے مدینہ

اے وہ کہ سرور ابدی کا ہے طلب گار

پی ساغر دل سے مینائے مدینہ

ڈر غلبۂ اعدا سے نہ حسرتؔ کہ ہے نزدیک

فرمائیں مدد سیّد والائے مدینہ۔ ۳؎

     حسرتؔ کے نعتیہ کلام میں بھی وہی سوز و گداز ،والہانہ پن ،سادگی اور حُسن دکھائی دیتا ہے ،جو اُن کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔ ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی کی رائے درست ہے کہ حسرت ؔموہانی کے ہاں ایک سوز ہے ،لگن ہے، جذبہ ہے،والہانہ انداز ہے۔وہ جب بھی حضور اکرم ﷺ کا ذکر کرتے ہیں ، تو اُن کی وجدانی کیفیت اُن پر ایک اور ہی قسم کا تاثر پیداکرتی ہے اوریہ بات اُن کی قریب قریب تمام نعتوں میں ملتی ہے ۔ اُن کی زندگی میں مذہب کو، جو اہمیت حاصل تھی ،اس کا تو اندازہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اسی لیے وہ جب رسول ﷺکا ذکر کرتے ہیں ،تو اُن کا پورا وجود ایک نورانی اور رُوحانی دائرے میں آجاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اُن کی نعتوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔۴؎

     مظہر شان کبریاصلی علیٰ محمدؐ

 آئینہ خدا نما صلی علیٰ محمدؐ

     موجب ناز عارفاں باعثِ وفخر صادقاں

  سرورِ خیر انبیاء صلی علیٰ محمدؐ

     حسرتؔ اگر رکھے تو بخشش حق کی آرزو

     و رد زبان رہے صداصلی علیٰ محمدؐ

     حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عاشق ہونے کی وجہ سے دین ِ اسلام ،ارکان اسلام اور مقدس مذہبی مقامات سے بھی حسرتؔ گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔بے سروسامانی کے باوجود گیارہ حج اس کی ایک مثال ہیں ۔یہ کہنا درست ہے کہ حسرتؔ کی شعوری زندگی میں تصّوف کا رُحجان ہمیشہ نمایاں رہا ۔ مذہب اسلام اور بزرگان دین سے اُن کی گہری عقیدت کی بنیاد تصوف پر قائم نظر آتی ہے ۔اسلام اور دوسرے پیشوایان دین سے اُن کی عقیدت عشق کے درجے تک پہنچ چکی تھی۔اسی بڑھی ہوئی عقیدت مندی کا نتیجہ تھا کہ اُنھوں نے تنگ دستی کے باوجود گیارہ حج کیے اور تقریباًسارے مقدس مقامات کی زیارت کی اور ایک دفعہ انتہائی صعوبتیں برداشت کر کے خشکی کے راستے حج کو گئے اور جو مصیبتیں اس راہ میں اُٹھانی پڑیں ان کی کچھ پرواہ نہ کی۔زہد و اتقاء کی ایسی مثالیں کم سے کم شعرا کے زُمرے میں مشکل سے نظر آئیں گی۔۵؎ ڈاکٹر عزیز انصاری اس بارے میں لکھتے ہیں کہ مولانا حسرت ؔکے عاشق رسولﷺ ہونے کی اس سے زیادہ دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ عمر کے آخری حصّے میں جب حبّ رسول ﷺ کا غلبہ بہت زیادہ ہوگیا تھا،تو اُن کے دل میں صرف نعمت دید ہی کی حسرت رہ گئی تھی۔اس دَور کے اشعار میں یادِ مدینہ، خواب میں روضہ ٔرسول ﷺ کی زیارت، باربار مدینہ بلائے جانے کی خواہش، زادِ سفر کی کمی، مگر اللہ پر توکل کا ذکر ملتا ہے۔ـ۶؎ـ

پھر ایک شوق بسیار کی آرزو ہے

     طواف ِ در بار کی آرزو ہے

   جو سرسبز ہو بادۂ عشق حق سے

        پھر اس جام سرشار کی آرزو ہے

متاعِ دل وجاں کو ہم لے کے حسرتؔ

چلے ہیں خریدار کی آرزوہے

     حسرت ؔ کے نعتیہ کلام کے جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے کلام میں ایک طرف پاکیزگی اظہار ہے، تو دوسری طرف ،سادگی ادب و احترام اور بے ساختگی پائی جاتی ہے ۔اُن کے نعتیہ کلام میں طہارت فکر،سوزوگداز عشق، قوت ایمانی ، عقیدت اور والہانہ پن نظر آتا ہے۔ نعت کے عناصر جیسے توقیر و تکریم، دلکش اندازتخاطب، والہانی شیفتگی،تعلیمات رسولﷺ سے قلبی لگائو ،جذبۂ عشق رسولﷺ، جذب و اثراور نعتیہ شعری لوازمات کی پُرکاری بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں ۔اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ مولانا حسرتؔ موہانی کی ہر نعت اپنے اندر جذ ب و اثر کی نئی دُنیا لیے ہوئے ہے۔اُن کے نعتیہ اشعار میں غزل کی روایات کی دل آویزی توازن کے ساتھ نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ نعت کے تمام لوازم پوری طرح جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں ۔۷؎ اور یہ کہ حسرتؔ کی نعت میں فضائل نبوت احکام رسولﷺ کی متعابت ، سیرت طبیہ کااتباع، نیز مدینتہ الرسول ﷺ کی زیارت کے ارمان تڑپتے ہیں ۔۸؎ــ

پھر آنے لگیں شہر محبت کی ہوائیں

        پھر پیش نظر ہوگئیں جنت کی ہوائیں ۔

اے قافلے والو، کہیں وہ گنبد خضریٰ             پھر آئے نظر ہم کو کہ تم کو بھی دکھائیں

ہاتھ آئے اگر خاک ترے نقش قدم کی

  سر پر کبھی رکھیں کبھی آنکھوں سے لگائیں

نظارہ فروزی کی عجب شان ہے پیدا

  یہ شکل و شمائل یہ عبائیں یہ قبائیں

     کرتے ہیں عزیزان مدینہ کی جو خدمت

     حسرتؔ اُنھیں دیتے ہیں وہ سب دل سے دعائیں

ڈاکٹر سید خورشید نبی جعفری کا تجزیے سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ایک عاشق رسول ﷺ کی حیثیت سے مولانا حسرتؔ موہانی کے نعتیہ کلام میں دلی سوز و گداز اور عقیدت و محبت کی فراوانی پائی جاتی ہے ۔نعت کے ہر شعر سے اُن کی حضورﷺ سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ صداقت ِافکار، رفعت تخیل، شائستگی مضامین ایسی خصوصیات ہیں ،جو اُن کے نعتیہ کلام کو چار چاند لگاتی ہیں ۔ وہ جوکچھ کہتے ہیں اُس میں عشق رسولﷺ کی رنگا رنگ جھلکیاں ، اُن کے عاشق رسول ﷺ ہونے اور ایمان کی پختگی کی عکاس ہیں ۔۹؎

     دعا میں ذکر کیوں ہو مدعا کا

کہ یہ شیوہ نہیں اہل رضا کا

     طلب میری بہت کچھ ہے مگر کیا

     کرم تیرا ہے اک دریا عطاء کا

     نہیں معلوم کیا اے شاہ ؐخوباں

     تجھے کچھ حال اپنے مبتلا کا

     بجائے اسم اعظم آپﷺ کا نام

     وظیفہ ہے مرا صبح و مساکا

 حسرت ؔ کے ہاں نعتیں تو ہیں ہی ،لیکن نبی کریمﷺ سے عقیدت چونکہ ہر دم ،ہر پل اُن کے دل و دماغ میں بسی رہتی ہے اس لیے وہ غزل کہتے کہتے حضور ﷺ کی مدح بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس بارے میں خورشید احمر رقم طراز ہیں کہ:

 ’’ حسرتؔ موہانی جتنے بڑے شاعر تھے اُسی رعایت سے وہ نعت گوئی کے اعلیٰ منصب اور اس کی ذمہ داریوں کا بھی کماحقہ شعور رکھتے تھے۔ نعت گوئی کا یہ شعور اُن کی تقریبا تمام نعتوں میں ہمیں صاف صاف نظر آتا ہے۔ اُن کی نعتوں میں بعض نعتیں ایسی ہیں ، جن میں حضور ﷺ سے والہانہ محبت کے موضوعات کو براہ راست پیش کیا گیا ہے۔ بلکہ حضور ﷺ کے نام نامی کا کہیں ذکر بھی نہیں آیا ۔بظاہر یہ نعتیں ہمیں صوری اعتبار سے غزل مسلسل دکھائی دیتی ہیں ،لیکن بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات فوری طور پر سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ غزل نہیں بلکہ مطلع سے لے کر مقطع تک نعت شریف ہے۔ اسی نوع کی ایک نعت ملاحظہ فرمائیے۔

     مصیبت بھی راحت فزا ہوگئی

       تری آرزو رہنما ہوگئی

     یہ وہ راستہ ہے دیار وفا کا

  جہاں باد صرصر صبا ہوگئی

     میں درماندہ اس بارگاہ عطاء کا

 گنہگار ہوں اک خطا ہوگئی

     ترے رتبہ داں محبت کی حالت

       ترے شوق میں کیا سے کیا ہوگئی

     پہنچ جائیں گے انتہا کو بھی حسرتؔ

       جب اس راہ کی ابتداء ہوگئی۔‘‘۱۰؎

بقول یحییٰ خلیل عرب حسرتؔ رسول ﷺ کے عشق میں سرتاپا ڈوبے ہوئے تھے۔ اولیاء اللہ اور بزرگان دین سے بھی اُنھیں والہانہ محبت تھی۔ اسی لیے جب وہ دربار نبیﷺ پر حاضری دیتے ہیں ، تو صرف اُن کی آنکھیں ہی اشکبار نہیں ہوتیں ، بلکہ اُن کا دل بھی روتا ہے، جس کی بازگشت اُن کے نعتیہ کلام میں صاف سنائی دیتی ہے۔ اور یہ ان کی نعت گوئی کی بڑی خوبی ہے۔۱۱؎

     السلام اے شہؐ بشیر و نذیر

     داعی و عابد و سراج ِمنیر

     آرز و ہے کہ نام پاک حضورﷺ

     کاش ورد زباں ہو وقت اخیر

     بہ طفیل صغیر ذرّہ عشق

محو سارے ہوئے گناہ کبیر

     تم نے کیوں کر کیا دلوں کا شکار

ہے بظاہر کمان پاس نہ تیر۔

حوالے ؍حواشی:

 ۱؎۔علیم صبا نویدی ،نعتیہ شاعری میں ہئیتی تجربے ‘‘ٹمل ناڈو اُردو پبلی کیشنز ، چینئی ۲۰۰۶ء ،ص:۱۸۔

۲؎۔ ڈاکٹرمحمد اسمعیل آزاد فتح پوری ، ’’نعتیہ شاعری کا ارتقاء‘‘،فائن آفسٹ ورکس ،الہٰ آباد،۱۹۸۸ء ،ص:۹۔

۳؎۔پروفیسر شفقت رضوی ، مولانا حسرت موہانی اور ان کی نعت گوئی، مشمولہ’’مولانا حسرت موہانی دانشوروں کی نظر میں ‘‘، مرتبہ سیّد محمد اصغر کاظمی، مولانا حسرت موہانی میموریل لائبریری اینڈ ہال ٹرسٹ ،کراچی،۲۰۰۲ء ،ص:۱۹۹۔۲۰۰۔

۴؎۔ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ،حسرت موہانی کا مذہبی رجحان،مشمولہ’’ مولانا حسرت موہانی کی حمدو نعت اور منقبت گوئی‘‘، مرتبہ سیّد محمد اصغر کاظمی، مولانا حسرت موہانی میموریل لائبریری اینڈ ہال ٹرسٹ ،کراچی،۲۰۰۳ء ص:۵۶۔

۵؎۔پروفیسر عبدالقادر سروری ،’’حسرت موہانی اور اُردو غزل کا اِحیائ‘‘ ،مشمولہ اُردو ادب، حسرت موہانی نمبر ،اکتوبر ۱۹۵۱ء،ص:۱۳۰۔۱۳۱۔

ـ۶؎۔ ڈاکٹر عزیز انصاری ،حسرت اور عشق رسولؐ ، مشمولہ مولانا حسرت موہانی کی حمد و نعت اور منقبت گوئی،ص:۶۲۔

۷؎۔ڈاکٹر نظر کامرانی، حسرت موہانی کی نعتیہ شاعری،مشمولہ مولانا حسرت موہانی کی حمد و نعت اور منقبت گوئی،ص:۶۳۔۶۴۔

۸؎۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی ،حسرت موہانی کی حمدیہ و نعتیہ شاعر ی ،مشمولہ مولانا حسرت موہانی کی حمد و نعت اور منقبت گوئی،ص:۶۷۔

۹؎۔ڈاکٹر سیّد خورشید نبی جعفری ،عاشق رسول مولانا حسرت موہانی، مشمولہ مولانا حسرت موہانی کی حمد و نعت اور منقبت گوئی،ص:۷۲

۱۰؎۔ خورشید احمر، مولانا حسرت موہانی کی نعتیہ شاعری ایک مطالعہ، مشمولہ مولانا حسرت موہانی کی حمد و نعت اور منقبت گوئی،ص: ۹۵۔۹۶۔

۱۱؎ ۔ یحییٰ خلیل عرب، مولانا حسرت موہانی کی نعتیہ شاعری، مشمولہ مولانا حسرت موہانی کی حمد و نعت اور منقبت گوئی،ص:۹۹۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹرمہر محمد اعجاز صابر

ایسوسی ایٹ پروفیسر ؍ وائس پرنسپل اور صدر شعبۂ اُردو

بلوچستان ریزیڈنشیل کا لج خضدار۔پاکستان

mmejazsabir@gmail.com

0333-3547407

Leave a Reply

1 Comment on "مولانا حسرت ؔموہانی کی نعتیہ شاعری"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Shadab anwer
Guest

I love how deep and rich this character is. The way u have potrayed him it inspires me.

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.