آزادی کے بعد اُردو شاعری میں طنزومزاح*پروفیسر توقیر احمد خان

Download PDF file

طنز اورمزاح دوالگ الگ اصطلاحات ہیں۔کسی بات کو خندہ آور بناکر پیش کرنا مزاح کہلاتا ہے اور طنز میں ضرب وزنش پوشیدہ ہے۔ ہنسی مذاق،شوخی، ظرافت، چلبلاہٹ، ٹھٹھول سب اقسامِ مزاح میں سے ہیں جن کا مقصد مسرت آفرینی ہے۔ قہقہہ، پھبتی اور فقرہ بازی وغیرہ طنز سے متعلق ہیں۔ تضحیک میں اگرچہ دکھ پہنچانے کی غرض پوشیدہ ہے لیکن طنز کی مزاح آمیز دل آزاری میں ہمدردی کا پہلو بھی پنہاں ہے اور طنزنگار مصلح عصر ہوتاہے۔ یعنی کسی ناگوار حقیقت کو ظریفانہ انداز میں پیش کرنا طنزومزاح کہلاتاہے۔
اردو شاعری میں طنز کے ابتدائی نقوش ہجوگوئی میں ملتے ہیں جس میں ذم کا پہلو پوشیدہ ہے۔اس میں مخاطب کی تحقیر مقصود ہوتی ہے مگرطنز کا مقصد نازیبا اور نامعقول صورت حا ل کی اصلاح کرنا ہے۔ اس لیے کہا جاتاہے کہ جب معاشرہ بگڑنے لگتاہے تو طنز نگار پیدا ہوتاہے لیکن طنز کی ناقابلِ برداشت تلخیوں کو کم کرنے کے لیے طنز نگار مزاح کی چاشنی بھرتاہے اور ہرناگوار کو گوارا بنا دیتا ہے۔ شعر کا کمال یہ ہے کہ وہ اس ناگوار ضرب کو نہ صرف گوارابلکہ مرغوب اور دل پذیر بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاج کے ہزاروں اشعار جن میں معاشرہ کی خامیوں اورکوتاہیوں پرسختی سے گرفت کی جاتی ہے لوگوں کوزبانی یاد ہوجاتے ہیں۔
گمان ہے کہ عہدحاضرمیں نظیرؔاور اکبرؔ جیسے باکمال طنز ومزاح نگار شاعر توپیدا نہ ہوں گے اور اگرچہ اردو زبان وادب میں معیاری اور موثر ظریفانہ شاعری مفقود ہے تاہم اردو شاعری کے گلزار ظرافت پرنگاہ ڈالنے سے پتہ چلتاہے کہ کچھ خوش نماپھول ضرور آج بھی باغ اردو کو مہکا رہے ہیں۔
گذشتہ ربع صدی میں جن شعرا نے طنز ومزاح کی شاعری میں نام پیدا کیا ان میں راجہ مہدی علی خاں، سیدمحمدجعفری، مجیدلاہوری، سیدضمیر جعفری، فرقت کاکوروی، رضا نقوی واہی، دلاور فگار اور شادعارفی سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں جن شعرا نے طنزومزاح میں طبع آزمائی کی ان میں سید محمدجعفری کی طنز نگاری معاشی اور معاشرتی کمزوریوں کا بے رحم آئینہ ہے ان کے طنز میں تلخی کے بجائے نرمی ہے وہ کسی فرد واحد کو اپنے طنز کا نشانہ بنانے کے بجائے اداروں اوراجتماعی زندگی کی خامیوں پرانگشت نمائی کرتے ہیں اور نرمی اور گوارا تلخی کے ساتھ طنز کا تازیانہ کستے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالت پر اس طرح وار کرتے ہیں کہ پڑھنے والا مزے لیتا ہے اوران کا ہم نوا ہوجاتاہے۔ سیدمحمدجعفری طنزومزاح نگاری میں اقبالؔ اور غالبؔ کے مصرعوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کے یہاں تہذیبی،سیاسی اور مذہبی ناہمواری پربھی طنز کے تیکھے نشتر ملتے ہیں۔ ایک نظم ‘‘وزیروں کی نماز’’ میں سیاست کے خودغرض پہلو کو اس طرح اجاگر کرتے ہیں:
عیدالاضحیٰ کی نماز اور وہ انبوہ کثیر

جبکہ اﷲ کے دربار میں تھے پاک وزیر
وہ مصلوں پہ مسلط تھے بحسن تقدیر

تھے ریزرو ان کے مصلوں پر مساوات کبیر
آج کل ہے یہ نماز اور کبھی تھی وہ نماز
ـ‘‘ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز’’
صف اوّل میں کھڑے تھے جو خدایان مجاز

یہ امیر اور یہ غریب اور یہ نشیب اور فراز
تجھ سے اے خالق کل چھپ نہیں سکتا ہے یہ راز

تو حقیقی وہ مجازی مجھے دونوں سے نیاز
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
کبھی رکھتے ہی نہیں اور کبھی رکھتے ہیں
سیدمحمدجعفری روزانہ کی زندگی میں پیدا ہونے والے مزاحم اورسماجی مسائل کی کثرت سے زندگی کے تعطل پررنجیدہ ہوکر ان مشکلوں کا خاکہ اڑاتے ہیں۔ اپنی ایک نظم بھنگیوں کی ہڑتال میں لکھتے ہیں:
بھنگیوں کی آجکل ہڑتال ہے

5کہتر و کمتر کا پتلا حال ہے
1گردش دوران نے ثابت کردیا

3رفع حاجت بھی بڑا جنجال ہے
9ضبط کی حد پر کھڑے ہیں شیخ جی

سانس کھینچے ہیں مگر منہ لال ہے
9پیٹ پکڑے پھر رہے ہیں سیٹھ جی

9جیسے دھوتی میں بہت سا مال ہے
5آگیا روکے سے رک سکتا نہیں

1اپنا اپنا نامۂ اعمال ہے
ہر گلی کوچے کی اپنی جھیل ہے

ہر جگہ دہلی میں نینی تال ہے
جعفری پیروڈی نگاری اور تضمین پر ملکہ رکھتے ہیں ان کی نظم ‘‘کلرک’’ دفتر کے بابوؤں میں بہت مقبول ہوئی۔ سیدمحمدجعفری کی طرح سیدضمیرجعفری نے طنزومزاح کے میدان میں خاصی شہرت حاصل کی، وہ عصری اردو شاعری میں ایسے فن کار کی حیثیت سے ابھرے ہیں جس نے اپنے فن کے لیے اندرونی ریاضت اوربیرونی قربانیاں دونوں کونبھایا ہے۔ ‘‘کھلیان’’ نام کا طنزومزاح کا شعری مجموعہ ۱۹۸۰ء میں شائع ہوچکا ہے۔ ا ن کی تصانیف میں ‘‘لہوترنگ’’؛ ‘‘جنگ کے رنگ’’؛ ‘‘میری پیار کی زمین’’ اور ‘‘جزیروں کے گیت’’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے کچھ انگریزی پنجابی شاعری کے منظوم ترجمے بھی کیے ہیں۔ ‘‘ولادیتی زعفران’’ ان کی انگریزی مزاحیہ نظموں کا ترجمہ ہے۔ طنزومزاح نگاری کے آئینہ میں وہ مزاح نگار سے زیادہ طنزنگار نظرآتے ہیں۔ ملکی سیاسی بحران،اخلاقی رشتوں کی پامالی ان کے طنز کے خاص موضوعات ہیں۔ وہ حرماں نصیبی اورانسانی ذات کی محرومیوں پرطنز کا حربہ کرتے ہیں:
کچھ اس طرح سے میرا بسیرا ہے آجکل
جو حال میرؔ کا تھا وہ میرا ہے آجکل
‘‘ ولنگٹن نپولین کی لاش’’ نامی نظم میں انسانی بدخوئی اورشخصی بے حرمتی پرشدید طنز کیا ہے۔ لندن کے مومی مجسموں کے عجائب گھر کی ایک تصویر میں انگریز سپہ سالار ولنگٹن کو نیپولین کی لاش پر کھڑا دکھایا گیا ہے۔ سیدضمیر جعفری جسم انسانی کی بے حرمتی کوگوارا نہیں کرتے :
ایک نیا منصوبۂ غارت
ایک نیا ہنگامہ قتال و جدال وداروگیر
موت کی تیز کٹار پہ جینے مرنے کی تدبیر
آدم کی تذلیل۔آدم کی توقیر
ہر فاتح مغلوب
ہرقاتل مصلوب
چمک چمک کر ٹوٹی آخر
قوموں کی تقدیر
انسانی اجنبیت، عناداور انسان ناشناسی کی کسک بھی ان کے طنز میں نمایاں ہے۔ وہ غم دوراں کا علاج انسانی ہمدردی میں تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ طنز میں بشاشیت اورشگفتگی کم ہے:
ممکن تو تھا علاج غم کائنات بھی

مشکل یہ ہے بشر کو بشر جانتا نہیں
‘سیدضمیرجعفری نے دیگرشعرا کے مصرعوں پر تضمین بھی خوب کہی ہیں۔ نظیر کے‘‘ بنجارہ نامہ ’’کی پیروڈی کرکے انھوں نے موڈرن ‘‘بنجارہ نامہ’’ بناکر پیش کیا ہے:
گو چومتے ہیں سب ہاتھ ترے اور تو ہے بڑا ہی مولانا
مت بھول کہ بھیا تجھ کو بھی اک روز یہاں سے ہے جانا
کیا بکرے نقدی، شیرینی کیا نذر و نیاز اورنذرانہ
کیا دعوت صبح وشام تری، کیا مرغ و مسلم روزانہ
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
لیڈر ہی سہی تو چوٹی کا مضبوط سہی تیرے پھندے
سن مرغِ اجل کی بانگ تری اسکیم کے اندر ہوں گندے
کیا دورے جلسے تقریریں کیا شہرت نعرے اور چندے
کیا سازش اور گٹھ جوڑ ترے، کیاپرمٹ ٹینڈر کے دھندے
سب ٹھا پڑا رہ جائے گا جب لاد چکے گا بنجارا
سیدمحمدجعفری نے ادب وفن کو بھی اپنے طنز کا موضوع بنایاہے وہ فنونِ لطیفہ کو زندگی کا آئینہ دار مانتے ہیں۔ بے مقصد، بے معنی اور مہمل اورادب کی تشکیل بنی نوع انسان کے لیے بے کار ہے۔ اپنے بے سود موڈرن آرٹ پر لکھی گئی نظم جدیدیت کی مہمل گوئی کا قلع قمع کردیتی ہے۔ جعفری صاحب نے اس نظم میں بے معنی فن پر طنز کے زبردست تازیانے لگائے ہیں جس کو مزاح کے ہلکے سے رنگ میں چھپانے کی کوشش کی ہے:
ایبسٹریکٹ آرٹ کی دیکھی تھی نمائش میں نے

کی تھی ازراہِ مروّت بھی ستائش میں نے
آج تک دونوں گناہوں کی سزا پاتا ہوں

لوگ کہتے ہیں کہ کیا دیکھا تو شرماتا ہوں
صرف کہہ سکتا ہوں اتنا ہی وہ تصویریں تھیں

یار کی زلف کو سلجھانے کی تدبیریں تھیں
ایک تصویر کو دیکھا جو کمال فن تھی

بھینس کے جسم پر اک اونٹ کی سی گردن تھی
ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں

ٹانگ کھینچی تھی کہ سوّاک جسے کہتے ہیں
نقش محبوب مصور نے سجا رکھا تھا

مجھ سے پوچھو تو تپائی پہ گھڑا رکھا تھا
یہ سمجھنے کو کہ یہ آرٹ کی کیا منزل ہے

ایک نقاد سے پوچھا جو بڑا قابل ہے
سبزۂ خط میں وہ کہنے لگا رعنائی ہے

میں یہی سمجھا کہ ناقص مری بینائی ہے
بولی تصویر جو میں نے اسے الٹا پلٹا
میں وہ جامہ ہوں کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا
سرحد پار کے طنزومزاح نگاروں میں رئیس امروہوی کا نام سرفہرست آتاہے۔ جنھوں نے طنزوظرافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور اسی کو ذریعہ معاش بھی۔انھوں نے زمانے کے ہر امر کو طنزومزاح کے معیارپررکھا۔ ان کی طنزیہ اورمزاحیہ شاعری میں عصری حقیقتوں کی تلخ عکاسی ہے شعر کہنے میں گہرا سماجی شعور رکھتے ہیں اور اپنے معاشرے کے کرب کا اظہار طنزیہ قطعات کی صورت میں عوامی جذبات واحساسات کی بے باک ترجمانی کرتے ہیں۔ عصر حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل خاص طورپر ان کے تیشہ طنز کا نشانہ ہوتے ہیں۔ سیاسی، سماجی، اخلاقی، ادبی اور مذہبی ریاکاریاں ان کی طنزنگاری کے موضوعات رہے ہیں۔ عصری حقائق سے فکرمندی کے باعث ان کی طنزنگاری میں مزاح کے مقابلہ طنز کا پلّہ بھاری ہے۔
رئیس امروہوی کی طنزیہ شاعری دعوت فکر ہے اور معاشرہ،سوسائٹی اورانسان کی اصلاح کا سبق دیتی ہے۔ وہ سیاسی اور معاشرتی موضوعات پر بطورخاص طنز کے نشترچلاتے ہیں جو فاسدمادّہ کے اخراج کا ذریعہ بنے۔ حیرت واستعجاب اورندامت ان کی طنز ساختہ کیفیات ہیں۔ اپنے دل کی بات اکثر چارمصرعو ں میں کہتے ہیں اور دوسروں کے دلوں میں کھٹک پیدا کرتے ہیں۔

‘‘خاک نشیں’’
ہائے وہ خاک نشیں جو عوض بستر ناز

زیر سر ہاتھ دھرے ہاتھ پہ سوجاتے ہیں
کتنے ایسے ہیں کہ پڑ رہتے ہیں چوراہوں پر

کتنے ایسے ہیں کہ فٹ پاتھ پہ سوجاتے ہیں
‘‘خیرات’’
نہ کر ایمان کے دعوے خدا را

اگر یہ تیرے قابو کا نہیں ہے
/امور خیر پر اترانے والے

5خدا خیرات کا بھوکا نہیں ہے
سیاسی حمق اور بے شعوری پرتحریر کرتے ہیں:
‘‘البتہ’’
کوڑی جو لائے بحث سیاست میں دور کی

کوئی نہ کوئی اس نے حماقت ضرور کی
تسلیم ہے جہاں کو ذہانت حضور کی

البتہ کچھ کمی ہے سیاسی شعور کی
_قتیلؔشفائی کی شاعری میں بھی طنز ومزاح کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ ان کے طنز کا نشانہ زیادہ تر دقیانوسیت،رجعت پسندی اورہٹ دھرمی ہے۔ طنزیہ اشعار میں مزاح کی ہلکی سی رمق بھی ملتی ہے:
‘‘وقت کا پہیہ’’
کہو کہ پیچھے گھمائے نہ وقت کا پہیہ

اگر ستاروں کی جانب قدم بڑھانا ہے
پسند اب بھی ہے جس کو سواری اونٹوں کی

اسے بتاؤ جہازوں کا یہ زمانہ ہے
‘‘لاؤڈاسپیکر’’
جو صدا حسب ضرورت تھی سہانی کل تک

اب وہی آندھی وہی طوفان بن کر رہ گئی
[لاؤڈ اسپیکر جب سے ملّاؤں کے ہاتھ آیا قتیلؔ

ایک اچھی شے وبال جان بن کر رہ گئی
طنزومزاح نگارشعرا میں دلاور فگار بہت ممتاز ومقبول ہیں۔ ظرافت ہی ان کی کل کائنات ہے۔ مکتب فکرکے لحاظ سے دلاور فگار اکبرؔ، جعفریؔ اور رئیس امروہوی سے متاثر ہیں۔ وہ ترقی پسندی اوررجعت پسندی میں اعتدال کے قائل ہیں۔ ان کا انداز تحریر نہایت شگفتہ اور دھلا منجھا ہے۔کلام میں علمی لیاقت کے ساتھ مزاح کی دلآویز چاشنی ان کا جوہر خاص ہے جس میں طنز کی رمق بھی شامل ہوتی ہے۔ اس طرح وہ طنزنگار کم اور ظرافت نگار زیادہ ہیں۔ مزاح نگاری کے میدان میں انھوں نے ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی خامیاں ان کی مزاح نگاری کے عنوانات ہیں۔ تقسیم ہند کے بعدہندوستان اورپاکستان دونوں ملکوں میں اردو بے چاری تختۂ مشق ستم بنی اور اس عہد کے تقریباً تمام ہی طنز ومزاح نگاروں نے اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کہا مگر ارد وزبان کے ان طنزیہ مرثیوں میں دلاورفگار کی نظم بے حد مقبول ہوئی جس میں علم وآگہی کے علاوہ فکری پہلوبھی نمایاں ہے:
‘‘ماتم حق اردو’’:
اے غالبؔ مرحوم یہ تو نے بھی سنا ہے

اردو پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
بزم ادب و علم میں ہنگامہ بپا ہے

اردو جسے کہتے ہیں گرفتار بلا ہے
کم بخت کے سر پر ملک الموت کھڑا ہے
اے خاصۂ خاصان ادب وقت دعا ہے
جس باغ کو خود تیری توجہ نے سنوارا

جس باغ کو چکبستؔ نے شاداب بنایا
جس باغ میں تھے نغمہ سرا جرأتؔ و انشاؔ

جس باغ میں بولا تھا کبھی طوطی سوداؔ
اس باغ فصاحت میں گدھا رینک رہا ہے
اے خاصۂ خاصان ادب وقت دعا ہے
دنیا نے اگرچہ اسے پیچھے کو دھکیلا

ہر ظلم وستم اردو کے جانباز نے جھیلا
رکتا نہیں اب اس سے ترقی کا یہ میلا

بڑھتا نہیں آگے کو یہ ٹٹو ہوا ٹھیلا
منزل کے قریب آ کے دھرا ٹوٹ گیا ہے
اے خاصۂ خاصان ادب وقت دعا ہے
تعمیر کی گردن میں ہیں تخریب کے پھندے

اردو کی ترقی کے لیے ہوتے ہیں چندے
کھا جاتے ہیں ان کو بھی کچھ اﷲ کے بندے

ﷲ بچائے یہ ادب خور درندے
کتوں کو سر راہ ادب چھوڑ دیا ہے
دلاورفگارخاص مشرقی انداز کے طنزومزاح نگار ہیں۔ سماجی مسائل لایعنی شاعری، تقدیر وتخلیق، پیشے، محفلیں اورمشاعرے وغیرہ ان کے طنز کا ہدف بنتے ہیں۔ سماج کے ناکارہ عناصر کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ خودفراموشی اور ناعاقبت اندیشی کا تمسخر اُڑاتے ہوئے ‘‘تعلیم مشترک’’ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
ہم بارہویں کلاس میں جب اسٹوڈنٹ تھے
گھنٹہ تھا ایک روز کسی لکچرار کا
وہ نوٹس بولتے تھے مگر ایک طالبہ

افسانہ لکھ رہی تھی دل بے قرار کا
;دلاورفگار کو پیروڈی لکھنے میں کمال حاصل ہے۔ پیروڈی سنجیدہ شاعری کو مضحکہ خیز بنانے کا نام ہے۔ شاعر کا اصل کلام اس کی شوخی وظرافت میں چھپ جاتا ہے۔ جیسے شوکت ؔتھانوی نے اقبال کے ایک شعر کی ایسی پیروڈی کردی کہ پیروڈی اصل شعر سے زیادہ مشہور گئی اور آج بھی لوگ اسے لطف کے ساتھ دوہراتے ہیں۔
شکوہ ہے فرشتوں کو کم آمیز ہے مومن

حوروں کو شکایت کہ بہت تیز ہے مومن
دلاورفگار نے بھی معروف شعرا کی غزلوں اور نظموں پر پیروڈیاں کی ہیں۔ وہ اقبال کی نظموں کی پیروڈی کرکے باغ ظرافت کوقہقہہ زار بناتے ہیں:
‘‘شکوہ’’
کیوں گنہگار بنوں فرض فراموش رہوں

کیوں نہ تنخواہ طلب کرکے سبکدوش رہوں
طعنے غیروں کے سنوں اورہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں کوئی بدھو ہوں کہ خاموش رہوں
جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ تنخواہ کا خاکم بدہن ہے مجھ کو
فگار کی پیروڈیوں میں انسانی دکھوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ ملتا ہے۔ بھوک، افلاس، استحصال، غریبی اور فاقہ مستی کے خلاف صدائے احتجاج بھی ہے:
ہے بجا صدقہ و خیرات میں مشہور ہیں ہم

حق محنت نہ ملے جس کو وہ مزدور ہیں ہم
فقر و فاقہ کی قسم سرمد و منصور ہیں ہم

ہوگئے پانچ مہینے کہ ‘‘بدستور’’ ہیں ہم
حاکما شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
آگیا عین پڑھائی میں اگر پے کا خیال

ماسٹر بھول گیا ماضی و مستقبل و حال
رہ گیا بورڈ پہ لکھا ہوا آدھا ہی سوال

آگئے یاد گرامر کے عوض اہل و عیال
گیٹےؔ وشیلیؔ و خیامؔ و ولیؔ ایک ہوئے
بھوک دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
پنجاب بورڈ کے ایک سنٹرنے امتحان کے پرچے میں رومانی سوال پوچھا تودلاورفگار نے ایک بڑی شگفتہ نظم ‘‘عشق کا پرچہ’’ لکھی۔ شگفتگی،مسرت اورشادمانی دلاورفگار کے کلام کا جوہر ہے ان کی نظمیں روح میں تازگی اور گدگداہٹ اورچلبلاپن پیدا کرتی ہیں۔
‘‘عشق کا پرچہ’’
محو حیرت ہوں کہ وہ سنٹر تھا کتنا خوش خیال

عشق کے بارے میں پوچھا جس نے پرچہ میں سوال
ایسے ہی سنٹر اگر کچھ اور پیدا ہوگئے

بھائیوں کو دیکھنا بہنوں پہ شیدا ہوگئے
عام ہوگی عاشقی کالج کے عرض و طول میں

لیلیٰ و مجنوں نظر آئیں گے ہر اسکول میں
عشق کے آداب لڑکوں کو سکھائے جائیں گے

غیر عاشق جو ہیں وہ عاشق بنائے جائیں گے
عاشقوں کو علم میں پرفیکٹ سمجھاجائے گا

عشق اک کمپلسری سبجیکٹ سمجھا جائے گا
امتحاں ہوگا تو پوچھے جائیں گے ایسے سوال

اپنی محبوبہ کے بارے میں کیجئے ْْکچھ اظہارِ حال
انڈیا کاایک نقشہ اپنی کاپی پر بناؤ

اور پھر اس میں حدود کوچہ جاناں دکھاؤ
کچھ مثالیں دے کے سمجھاؤ یہ قول مستند

عشق اوّل در دل معشوق پیدا می شود
ایک تحقیقی مقالہ لکھ کے سمجھاؤ یہ بات

شاخ آہو پر ہی کیوں رہتی ہے عاشق کی برات
عشق اک سائنس ہے یا آرٹ سمجھا کر لکھو

یا یہ دونوں عشق کا ہیں پارٹ سمجھا کر لکھو
اپنے اندازے سے طول شام تنہائی بتاؤ

صرف تخمیناً شب ہجراں کی لمبائی بتاؤ
چھوٹے چھوٹے نوٹس لکھو ذیل کے ٹاپکس پر

شام غم، شام جدائی، درد دل، درد جگر
آج اپنے ملک میں عاشق ہیں کتنے فی صدی

منتہی ان میں ہیں کتنے اور کتنے مبتدی
وصل کی درخواست پر کس کی سفارش چاہیے

عشق کے پودے کو کتنے انچ بارش چاہیے
کون سے آلہ سے دیکھیں حسن جانا نہ؟ لکھو

حسن کی مقدار جو ناپے وہ پیمانہ؟ لکھو
مادر لیلیٰ نے تو لیلیٰ نہ بیاہی قیس کو

تم اگر لیلیٰ کی ماں ہوتے تو کیا کرتے لکھو
ایک عاشق تین دن میں چلتا ہے انیس میل

تین عاشق کتنے دن میں جائیں گے اڑتیس میل
آپ کرسکتے ہیں ان میں سے کُل بارہ سوال
بدخطی کے پانچ نمبر ہیں رہے یہ بھی خیال
دلاورفگار کے علاوہ پاکستان کے طنزومزاح نگار شاعروں میں مسٹردہلوی بھی اپنا قافلہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ طنزومزاح نگاری میں یہ اکبر کے شاگرد معنوی ہیں اوراسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مسٹردہلوی کے مزاحیہ کلام کا مجموعہ ‘‘عطرفتنہ’’۱۹۷۲ء کے نام سے شائع ہواہے۔ مسٹر کے کلام میں شگفتگی اور طنز میں دردمندی کی آمیزش ہے۔ جاہ پسندی، صوبائیت، خود پرستی، آرام طلبی، غلامانہ ذہنیت، خوشامد، زرپرستی، رشوت اور تلّون وتضاد ان کے طنز کا نشانہ ہیں۔ ان کی طنزنگاری میں صالح معاشرہ کی تشکیل کی خواہش مندی ظاہر ہوتی ہے۔ خوشامدپسندی کے خلاف ‘‘مکھن’’ نام کی نظم میں اقبال کے ایک مصرعے پرتضمین کرتے ہیں:
ہوں بیوی میاں بھائی بہن والد واولاد

لیڈر ہو کہ ورکر ہوں کہ شاگرد کہ استاد
تھپتا رہے مکھن تو یہ سب رہتے ہیں دلشاد

غفلت ہو ذرا بھی تو ہوں آمادہ بہ بے داد
حلقہ جو کرے سب کا وہ ‘‘پرکار’’ ہے مکھن
مکھن ہے عجب چیز جہان تگ و دو میں
مسٹرؔکی شاعری میں عقل وتدبر کے تعمیری فقدان پرسختی سے طنز کے نمونے ملتے ہیں۔ سوچ کی بے راہ روی،زمانے کی ستم ظریفیاں اور غلط فہمیاں ان کی تضحیک کا ہدف بنتے ہیں۔ زاہد واعظ کے ساتھ چھیڑچھاڑ، شیخ جی پرطنز جابراقتدار کی علامات ہیں ان کی تضحیک کا مقصد جابر حکمرانوں کا مذاق اڑانا ہے۔ فیملی پلاننگ کو استحصال اور جبر وستم کی علامت بناکر مسٹر دہلوی رقمطراز ہیں:
اے مرے لخت جگر، نور نظر، جان پدر

تیرا دشمن ہوں مری جاں یہ تصور بھی نہ کر
ہو نہ اولاد پسند اس کو وہ ہے کون بشر

باغ عالم کا تو شیریں ہے یہی ایک ثمر
کیا کروں کم ہے بہت آمدنی میری مگر
پیدا ہونے کی تجھے کیسے اجازت دے دوں
بھیڑ میں ریل کے ڈبے سے ہے بدتر یہ جہاں

ہے جگہ پانچ کی افراد ہیں پچیس یہاں
جس جگہ تو ہے بھلا کب ہے کچھا کھچ یہ وہاں

چین یہ چھوڑ کے مرنے کوتوآتا ہے کہاں
بھیڑ چھٹ جائے تو پھر کیجیو تو عزم سفر
پیدا ہونے کی تجھے کیسے اجازت دے دوں
مسٹردہلوی نے طنزومزاح نگاری کو حق وصداقت اوربے باکی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ دفتر شاہی کی بدعنوانیوں اوربے راہ رویوں پرتلخ لہجے میں گرفت کرتے ہیں:
کس کو سوجھے گی کہے کون یہ مسٹرؔ کے سوا

ان وزیروں سے جو دن رات ٹور کرتے ہیں
آپ کا ٹی اے ہمارے لیے ہے ٹیکس فزا

آپ اردو میں تو ہم انگلش میں سفر کرتے ہیں
احمدعلی خان شادعارفی کا شمارخاص طنزنگاروں میں ہوتاہے۔ اوّل اوّل قدیم رنگ میں شعر کہتے تھے بعد میں پرانی روش اوررنگ قدیم کا مضحکہ اڑانے لگے اور معاشرہ کی روبہ زوال رسوم و رواج اور کمزوریوں پرطنز کرکے وارکرنے لگے۔ ذہنی مکتب فکر کے لحاظ سے یہ مشرقی انداز کے طنز و مزاح نگار شاعر تھے جو مشرقی اقدار کی بقا اور بہتری کے لیے فقرہ بازی کرتے تھے۔ انھیں زمانے کی ناقدری اوراحساس محرومی کا گلہ ہے جس سے خفا ہوکر وہ زمانے پر طنز کرتے ہیں۔ شاد کی طنز نگاری میں ہلکی پھلکی باادب اورپاکیزہ ظرافت ہوتی ہے:
جب سے پی ہے پی رہا ہے آج تک

شیخ جی بھی آدمی ہے کام کا
محکوم و مجبور اسکول ٹیچر اورپیران طریقت کی فرسودہ خیالی کا طنز کے پردے میں اس طرح پردہ چاک کیا ہے کہ طنز کی چوٹ کے ساتھ مزاح کا چٹخارہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔
اسکول ماسٹر
پانچ بچے، ایک بیوی، ایک ماں

بیس ماہانہ بہت ہیں کم کہاں؟
ان کے جوتے بخیہ گر سیتے نہیں

سول بھی غائب اگر فیتے نہیں
ٹیوشن چاہیں تو کرسکتے نہیں

سرکھپا کر پیٹ بھر سکتے نہیں
لوٹ کر آئے ہوں جیسے دھول میں

یہ مدرس ہیں کسی اسکول میں
مسجد وخانقاہ کے مدرسوں کے طالب علموں کوابلہ مسجد بننے سے روکتے ہیں اور طنز و مزاح کے پردے میں عصرنو کے تقاضوں کی فکر دلاتے ہیں:
گھر پہ کچھ بچوں کو دو آنے سبق

قرأت و تجوید پر سعی ادق
پاؤں میں جوتا نہ کپڑا تن پہ ہے

نیستی چھائی ہوئی مسکن پہ ہے
لیتے ہیں صدقات عیدالفطر بھی

رہتی ہے دو روٹیوں کی فکر بھی
قوم سے مایوس غم خواری ہیں یہ

حافظ قرآن ہیں قاری ہیں یہ
اس عہد کے معروف شعرا میں شادؔ کے ساتھ طنزومزاح نگاری میں غلام احمد فرقت کاکوروی نے بڑا نام کمایا ہے۔ ان کے طنز کا نشانہ بھی سماجی کوتاہیاں اور ناہمواریاں رہی ہیں۔ ‘‘مداوا’’ اور ‘‘ناروا’’ ان کی مزاح نگاری کی معروف تصانیف ہیں۔ طنز ومزاح کی شاعری میں فرقت کاکوروی کا مجموعہ کلام ‘‘قدمچے’’ کے عنوان سے شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے۔ فرقت نے بیش تر ادبی موضوعات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔پیروڈی نگاری فرقت کا خاص میدان ہے جس کو انھوں نے ابتذال اورمہملات کی حد تک پہنچا دیا ہے۔ ان کے اشعار میں اکثر شعوری کاوش کی زیادتی اور ظرافت کی کمی نظر آتی ہے۔ فرقت کاکوروی نے جبرواستحصال اندھی تقلید اور مذموم سماجی رسوم پرطنز کے گرز لگائے ہیں۔ اپنی ایک نظم ‘‘بچہ کشوں کے دیش میں’’معاشی بدحالی کا دلچسپ نقشہ کھینچا ہے:
وہ جن کا بہترحال ہے
ان کا بھی یہ احوال ہے
‘جب سائیکل پر چل دیے

کل فیملی اپنے لیے
دو ٹوکری میں ہیں نہاں

دو کا ہے ڈنڈے پر مکاں
شانوں کو دو پکڑے ہوئے

گردن میں دو جکڑے ہوئے
ہے کیریئر پر ماں لدی

لڑکی ہے کھونٹی سے بندھی
سیکل نے فراٹے بھرے

‘لڑکوں نے خراٹے بھرے
(پھر زن زنا زن زن زتن

زن زن زنازن زن زتن
فرقتؔ کی زبان میں دلّی کی گالی گفتاری بھی نمایاں ہے۔ مزاح کی بہتات میں سوقیانہ پن اور فحش گوئی تک اترآتے ہیں۔اوربغیر استعارے کنایے کے شرمناک باتیں کہہ جاتے ہیں:
بکرے
اردو بازار جو پہنچے تو وہاں کیا دیکھا

کوئی بکری پہ لدا تھا کوئی بکرے پہ لدا
انھیں بکروں میں کئی صاحب اولاد بھی تھے

اور اس غول میں دس پانچ کے داماد بھی تھے
_ان میں وامق بھی تھے مجنوں بھی تھے فرہاد بھی تھے

صید افلاک بھی تھے عاشق ناشاد بھی تھے
عشق کی شعبدہ بازی کے لیے مارے تھے

حسن اور عشق کے شغل میں بھی پو بارے تھے
بکریاں کتنے گھرانوں کی بھگا لائے تھے

اور اس جرم میں اغوا کی سزا پائے تھے
اس وقت کے معروف مزاح نگاروں میں کنہیالال کپورؔاوررام لال نابھویؔ کے علاوہ رضا نقوی واہیؔ نے بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس وقت ان کا شمارصف کے اوّل کے طنز ومزاح نگاروں میں ہوتاہے۔ ان کی طنزیہ اورمزاحیہ نظموں کے مجموعے ‘‘نام بدنام’’ (۱۹۷۴) اور ‘‘واہیات’’ وغیرہ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔رضا نقوی واہیؔ کے یہاں طنزومزاح محض پھبتی اورقہقہہ بازی ہی نہیں بلکہ ان کے یہاں تہذیبی قدروں کی پامالی پرگھٹن اور کڑھن پائی جاتی ہے۔ سیاست، اخلاق، ادب، مذہب اور معاشرہ ان کے طنز ومزاح کے اہم موضوعات ہیں۔ ریاکاری، بددیانتی اورفریب دہی وغیرہ پر طنز کرکے وہ ان کی کھوکھلی دیواروں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ رضانقوی واہیؔ نے بہت سے منظوم خطوط بھی لکھے ہیں۔ ان میں طنز کے مقابلہ مزاح کا رنگ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ اردو نثرکے معروف طنز ومزاح نگار اور خاکہ نویس مجتبیٰ حسین حیدرآباد کے نام ایک خط لکھتے ہیں:
واﷲ تم بھی خوب ہو اے یار مجتبیٰ

خط کا مرے جواب ابھی تک نہیں دیا
تم مصطفی کمال نہ پونم کے ہو مدیر

نیر کی طرح عشق میں بھی ہو نہ مبتلا
یوسف حسین خاں کا مرض بھی نہیں تمھیں

احمد ہمیش سے بھی الگ ہی ہے راستہ
فضل خدا سے بیگم و اولاد والے ہو

پھر یہ ادائے ناز ہے کیوں ماجرا ہے کیا
خط کا جواب دے کے صفائی ضرور دو

ورنہ لگا رہے گا مرے دل کو وسوسہ
کل شام اتفاق سے اک دوست کے یہاں

مدت کے بعد دیکھنے کو مل گیا صباؔ
یوں تو یہ ماہنامہ بہر رنگ و اعتبار

خوش ذوقی اریبؔ کا مظہر رہا صدا
ٹیڈی بوائے کی ہے مگر شان ہی کچھ اور

پڑھتے ہی دل پکار اٹھا واہ مرحبا
یوسف حسین خان کی تصویر کھینچ کر

تم نے نشاں بلند کیا اپنے آرٹ کا
ہنستے ہنساتے راز سبھی فاش کردیے

کہتے ہیں اس کو خاکہ نگاری کا معجزا
یہ تو بتاؤ سُن کے یہ مضمون لاجواب

یوسف حسین خان کا ردعمل تھا کیا
افسوس ہے کہ ان کی زیارت نہ ہوسکی

مضمون پڑھ کے ملنے کو جی چاہنے لگا
اب عرض ہے کہ رکھ کے تکلف کو برطرف

اپنی کتاب بھیج دو بہر مطالعہ
›رضانقوی واہیؔ نے اردو شاعری میں طنزومزاح کو جوفروغ دیا اس کے ثبوت میں ان کے کئی طنز ومزاح نگار وں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ابرار ساغر رضا نقوی واہی ؔکے ابھرتے ہوئے شاگرد جو کم عمری میں انتقال کرگئے۔ ان کا مجموعۂ کلام ‘‘شعلہ ظرافت’’ چھپ چکا ہے۔ ان کے اندر طنزومزاح کا اچھا شاعر بننے کی صلاحیت پوشیدہ تھیں۔ سماجی بدعنوانیوں کو دیکھ کر ابرار ساغر کے قلم سے طنز کے ساتھ مزاح کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں۔ایک طنزیہ نظم ‘‘نقلی ڈاکٹر’’ میں ایک ایسے پی ایچ ڈی ہولڈر کا پردہ فاش کیا ہے جو دوسروں کے رحم وکرم پرڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر لکچرر بن گیا تھا۔ علم وآگہی سے معریٰ ہونے کی بنا پر کلاس میں طلبا کوالٹی سیدھی باتیں ہانک کر لکچر پورا کردیتا تھا۔ ابرار ساغر نے ‘‘نقلی ڈاکٹر’’ لکھ کر سماجی عیاری اور خودغرضی پرزبردست طنز کیا ہے:
فہم و ذکا کا ان کے جہاں تک سوال تھا

ہجے بھی ٹھیک ٹھیک سے کرنا محال تھا
کہتے تھے میر الٹیاں کرکر کے مرگیا

بے چارہ ڈاکٹر بھی مداوا نہ کر سکا
غالبؔ کو آپ کہتے استادِ میر تھے

اقبالؔ ایک مرثیہ گو تھے بہت بڑے
فرماتے میر انیس قصائد کے تھے دھنی

سوداؔ کی شاعری میں ہے رومانیت بھری
;القصہ جوڑ توڑ سے وہ ڈاکٹر بنے

طینت میں بدمعاملگی کی مگر تھی لت
تھی بات پانچ سو کی دیے ڈھائی سو فقط

جھگڑے نے لین دین کے الٹا کیا اثر
یہ بات عام ہوگئی نقلی ہے ڈاکٹر
آزادی کے بعدہندوستان میں طنزومزاح کے پختہ کار شاعروں میں شہبازؔ امروہوی کا شمار صف اوّل کے شعرا میں کیاجائے گا۔ شروع شروع میں وہ سنجیدہ غزل گوشاعر تھے۔ لیکن ۱۹۴۵ء میں نعمت بصارت سے محرومی کے بعد طنزومزاح نگار شاعر بن گئے اورہنستے ہنساتے طنز کے نشتر لگاگئے۔ ۱۹۸۱ء میں ملک عدم کے سفر پر روانہ ہوئے۔شہبازؔامروہوی پرانی مشرقی قدروں کے حامل سچے وطن پرست انسان تھے۔ آزادی کے امیدوں کی پامالی اورکچھ ذاتی محرومیوں نے شہبازؔ امروہوی کو طنز کا تندوتلخ شاعر بنادیا۔ ان کی طنز ومزاح نگاری میں ہمہ جہتی تنوع اور گہرائی کے ساتھ عصری بصیرت کا شائبہ ہے۔ شہبازؔ کے طنز میں دردوکرب نظرآتاہے جس کا تعلق جبر واستحصال اورزخموں سے ہے۔ان کے دل کے زخموں کی دکھن ان کے قطعات میں اترآئی ہے۔ جن کا مجموعہ ‘‘ظ ظ’’ کے نام سے کراچی سے شائع ہوچکا ہے۔ شہبازؔامروہوی نے سماجی ناانصافیوں، سیاسی بدعنوانیوں اور اربابِ حکومت کی پرفریب شاطرانہ چالوں کوہدف ملامت بنایا ہے۔ کہیں کہیں وہ شدید طنزنگار اورکہیں وہ طنزنگار سے زیادہ مزاح نگار نظرآتے ہیں۔ طنز کی تلخی اور زہرناکی کو انھوں نے مزاح کے رس سے مندمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انسانی قدروں کی پامالی اور اخلاقی گراوٹ شہبازؔ امروہوی کی نظر میں سماج کے چہرہ پر ناسور ہیں۔ وہ تمام غیرانسانی حرکتوں اور غیراخلاقی رویوں کا کھل کر مقابلہ کرتے ہیں اور صالح معاشرہ کی تعمیر کا درس دیتے ہیں۔ شہبازؔ کی شاعری سے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
تسخیر جس سے کر لے وہ پبلک کے قلب کو

اعجاز ایسا کب کوئی اس کی زبان میں ہے
دشمن کی بے بسی کا یہ منظر تو دیکھئے

اردو سے اختلاف بھی اردو زباں میں ہے
ناظمؔ انصاری جو گذشتہ چندبرس قبل انتقال کرگئے اردوشاعری کے آسمان ادب پرفروزاں ہوئے اورجب تک رہے طنزومزاح نگار بن کر مشاعروں پر چھائے رہے۔ ناظمؔؔ انصاری کی شاعری میں حددرجہ بشاشت اور شگفتگی ہے۔ان کے مزاج میں برجستہ حاضرجوابی کی سی شان پائی جاتی ہے۔ ناظمؔؔ انصاری نے اپنی شاعری میں ادبی قدروں کی جاگزینی کے پیش نظر سماج پر نوکیلے نشترچلائے ہیں پھربھی وہ طنز نگار سے زیادہ مزاح نگار بنے رہے۔ بیگم اور محبوبہ کو انھوں نے اپنی مزاحیہ شاعری میں ایک خاص علامت کے طورپر استعمال کیا جو عوام کے لیے بداندیشی اور ستم ظریفی کوروا رکھتا ہے:
دیوانہ اس نے کر دیا اک بار دیکھ کر

ہم کر سکے نہ کچھ بھی لگاتار دیکھ کر
قسم خدا کی جوانی میں گر ملا ہوتا

تو ہاتھ دھوکے ترے پیچھے پڑ گیا ہوتا
کسی کو شک نہیں ہوتا مری محبت پر

تری گلی سے جو مسجد کا راستہ ہوتا
———
میں رئیس شہر ہوتا تو تری بساط کیا تھی

ترے والدین پر بھی مرا اختیار ہوتا
کسی یوجنا میں ناظمؔؔ ترا گھر بھی بن ہی جاتا

تو اگر نہ ہوتا شاعر کوئی ٹھیکیدار ہوتا
———
لفنگا، چور، اچکا دکھائی دیتا ہوں

میں ان کے باپ کو کیا کیا دکھائی دیتا ہوں
خدا کے فضل سے عاشق مزاج ہوں میں بھی

یہ اور بات کہ ملّا دکھائی دیتا ہوں
نظرؔبرنی اس عہد کے ممتاز طنزنگارہیں جو سچی لگن اور پکی دھن کے ساتھ طنز ومزاح نگاری کوشعار بنائے ہوئے ہیں۔ وہ سماج اورمعاشرہ سے حاصل اپنے تجربات کا براہ راست انکشاف کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی طنز ومزاج میں فکرحقیقی کی بوباس ہے۔ شاید اسی وجہ سے پروفیسر قمررئیس نے نظربرنی کو‘‘اکبرزادے’’ کے لقب سے یاد کیا ہے۔ جو زندگی کی ناہمواریوں اوربے تکے مظاہرکو طنزوتضحیک کا نشانہ بناکر ایک صحت منداور حیات بخش ماحول کا آرزومند ہے۔ دفترشاہی کی بدعنوانیاں خاص طور پرنظربرنی کے پیش نظر رہی ہیں۔ ان کے علاوہ زندگی کی دیگر ناہمواریوں،خودغرض سیاست، رشوت، وعدہ خلافی، پیمان شکنی، چغل خوری، ریاکاری، عیش پرستی، ملاوٹ، دھوکہ بازی، ابن الوقتی، دل کی کدورتوں، مہنگائی اور جھوٹی تعریفوں کے خلاف انھوں نے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ ان کے طنزیہ ومزاحیہ کلام کے مجموعے ‘‘چمچے’’ اور ‘‘کف گیر’’ کے عنوانات سے شائع ہوچکے ہیں۔ان کے ان مجموعوں کا مطالعہ کرنے سے نظربرنی میں طنز گوئی کی اتنی مہارت نظرآتی ہے کہ وہ معاشرہ کی خامی اورناپسندیدہ موضوع کو اپنے طنزیہ اشعار میں لاسکتے ہیں۔ کٹرملائیت، بگلابھگتی کے علاوہ جھوٹی خوشامد ان کے طنز کا خاص نشانہ ہے۔ دونوں مجموعوں میں انھوں نے اسی کذب شعاری پرتحقیر وملامت کی بوچھار کی ہے۔ طنز کے نوکیلے نشتروں کے ساتھ مزاح پیدا کرنا بھی انھیں اچھی طرح آتاہے۔
لیاقت کی ہم کو ضرورت ہی کیا ہے

بغیر اس کے ہوگا نتیجہ برآمد
یہی ہے فقط کامیابی کی کنجی

خوشامد خوشامد خوشامد خوشامد
پیروڈی اورتضمین پربھی نظر برنی کومہارت حاصل ہے۔ اپنے مخصوص انداز میں اقبال کے چنداشعار کی پیروڈی اس طرح کرتے ہیں:
عروج احمقاں کو دیکھ کر ہم یہ سمجھتے ہیں

لیاقت اک حماقت ہے نہ کام آتی ہیں تدبیریں
اگرکچھ مرتبہ چاہو چلم بھرنے کے گر سیکھو

اسی فن کی بدولت تو بدل جاتی ہیں تقدیریں
کچھ زندہ دل مگر گوشہ گمنامی میں پڑے شاعروں میں خان عزمیؔ ردولوی بھی اچھے مزاح نگاروں میں ابھرے ہیں۔ ان کی مزاحیہ نظموں کا مجموعہ ‘‘انداز بیاں اور’’ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ ان کا طنز مزاح کے قہقہوں میں چھپا ہوا ہے پرفکر مزاح نگاروں کی طرح۔ عزمیؔ ردولوی کے یہاں بھی انصاف کی پامالی اور اخلاقی گراوٹوں پرطنز کے چھینٹے نظرآتے ہیں۔سنسرشپ، دستور زباں بندی، جبراور نانصافی پرانھوں نے طنز کے تازیانے لگائے ہیں:
نالی میں بہہ رہا ہے ہماری رگوں کا خون

اخبار لکھ رہے ہیں یہاں کچھ ہوا نہیں
;کوئی جاتا نہیں خط لے کے ڈر سے

;وہ بھرواتے ہیں پانی نامہ برسے
عزمیؔ ردولوی نے بڑی خوشگوار پیروڈی اورتضمین بھی کہیں ہیں۔ اقبالؔ اور دیگر شعرا کے اشعار پر اس کے چندنمونے ملاحظہ ہوں:
اگر کیلو نہیں سو سو گرام پیدا کر

کبھی نہ بھولے سے رزق حرام پیدا کر
;پیام حضرت اقبال یاد رکھ عزمیؔ

‘‘خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر’’
کسی شاعر کے مصرعہ پر مزاحیہ گرہ لگاکر بات پوری کردیتے ہیں اور سنجیدہ مصرعہ میں مزاح کا رنگ پیدا کردیتے ہیں:
سیریل میں عمر بھر مرتے رہے

-ایک مرگ ناگہانی اور ہے
/امتحاں میں سوال آیا ہے

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
کچھ نہیں کچھ نہیں سے ہے عیاں

‘‘کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے’’
اس موقع پر زندہ دلان حیدرآباد کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ جو آئے دن طنزوظرافت کی محفلیں منعقد کرکے انسانی ذہن پرتفکر کا زور کم کرنے کے ساتھ اردو طنزومزاح کی شاعری میں اضافے کی کوششیں کررہے ہیں۔ زندہ دلان حیدرآباد کے ممتاز شاعروں میں ان پڑھ بھونگیری اور سرپٹ حیدرآبادی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے یہاں سماجی بے انصافیوں کے خلاف ردعمل اور طنز کے مقابلہ مزاح زیادہ ہے ان پڑھ بھونگیری کہتے ہیں:
لڑکی بی اے ہے دنیا دیکھی ہے

لڑکا ان پڑھ ہے گاؤں والا ہے
———
کارنامہ یہ کر دکھانا ہے

روڈ پر اب انھیں سلانا ہے
چند گھنٹوں کی نیند کیا ہوگی

اب انھیں عمر بھر سلانا ہے
سرپٹ حیدرآبادی بھی طنز سے زیادہ مزاح سے کام لیتے ہیں:
دبوچ بیٹھوں کہیں دفعتاً نہ میں ان کو

وہ دور بچ کے رہیں مجھ سے سر پھرا ہوں میں
سمجھ کے مجھ کو گدھا خوش ہیں وہ اگر مجھ سے

خوشی سے مجھ کو بھی منظور ہے گدھا ہوں میں
سرزمین حیدرآباد پرسلیمان خطیبؔ مشاق، متین اور پروقار مزاح گو بن کر ابھرے ہیں۔ انھوں نے دکھنی اردومیں لکھ کر طنزومزاح نگاری میں کافی شہرت حاصل کی۔ وہ زمانے کی بے ڈھنگی رفتار پر شدید طنز کرتے ہیں۔ ان کی زبان بڑی دلچسپ اورلطیف ہے۔ طنزیہ لہجے کے اعتبار سے ان کا سلسلہ اکبری طنز سے ملتا ہے۔ اکبر کی طرح وہ بھی مشرقی اقدار کے دل دادہ اورمغرب بے زار نظرآتے ہیں۔ معاشرہ کی رسوم ورواج کو طنز کا ہدف بناتے ہیں۔ زبان میں سوقیانہ پن کے بجائے متانت ہے انھوں نے مذہبی علامتوں اور استعاروں کا سہارا لے کر مزاح پیدا کیا ہے:
ٹیڈی بوائے نے یہ وصیت کی

مرنے والے کی کچھ دعا لینا
میری میت کے بعد تربت میں

ٹرانسسٹر ضرور رکھ دینا
———
ایک صاحب نماز میں یارو

تنگ پتلون چڑا کو آئے تھے
اَن کھڑا تھا کہ بس اقامت میں

لوگاں سجدے میں سر جھکائے تھے
حیدرآبادہی سے ابھرنے والے ایک اور طنزومزاح نگارشاعر مرزاؔشکور بیگ حیدرآبادی ہیں۔ یہ بھی طنز ومزاح کی شاعری میں اکبر سے لگاکھاتے ہیں۔ ان کی ظرافت سبق آموز،لطیف اور بذلہ سنج ہے۔ حیدرآباد کے متعدد مشاعروں کو زعفران زار بنانے میں کامیاب ہیں۔ ان کی شاعری میں سماجی شعور کے ساتھ کذب ودروغ کی پردہ داری بھی پائی جاتی ہے۔ ان کے مزاحیہ کلام میں ‘‘ترانے’’(۱۹۶۲) شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے۔ مرزا ؔشکوربیگ زیادہ تر دوبیتی کہتے ہیں اورچار ہی مصرعوں میں بے اعتدالیوں کوہدف مذمت بناتے ہیں :
رسم کہنہ ترک کردو اک نیا منتر پڑھو

کون کہتا ہے کہ دشمن کی طرف آگے بڑھو
ساری دنیا کے اسیروں کو پیام ہند ہے

تم کو گر آزاد ہونا ہے تو آپس میں لڑو
قفس میں بھی جو آزادی کے گن گائے وہ طائر ہوں

بس اتنا ہے زیارت گاہ علم و فن کا زائر ہوں
حقیقت میں پلیڈر ہوں زبردستی کا شاعر ہوں

مگرمیں ہنستے ہنستے چٹکیاں لینے میں ماہر ہوں
زبردستی کا شاعر ہوں خوشی کے گیت گاتا ہوں

برا کیا ہے جو تک بندی سے روتوں کوہنساتا ہوں
نظرآتی ہے جب اک مردنی سی بزم یاراں میں

سمجھ داروں کا کہنا ہے میں اکثر یادآتا ہوں
‘اسرارؔجامعی کا اِس عہد کے باکمال اور معروف شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں طنزومزاح اصلی رنگ میں نظرآتا ہے یعنی برائے طنزشامل کلام کیاجاتاہے۔ صاف ستھرے اور عمدہ معاشرے کے قائل ہیں۔اقبال کے کلام پرپیروڈی اور اقبال کے رنگ میں شعر کہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔کلام کا نمونہ ملاحظہ کریں:
بس بس ڈاکٹر ہی ڈاکٹر آئے وہاں نظر

جب کہا مالک مکاں سے وقت اک وہ آئے گا
اردو اردو ڈپاٹمنٹ بڑا باکمال ہے

جامعی رہتا تھا اس میں یہ بتایا جائے گا
حیرت سے ان کو دیکھ کے اسرار نے کہا

وہ یہ بولا کہ کرایہ گر نہ دو گے شام تک
یہ اُردو کا ہی شعبہ ہے یا اسپتال ہے

یہ سمجھ لو وقت وہ کل صبح ہی آجائے گا
اردو طنزومزاح کے ان معروف شعرا کے قافلہ میں ساغرؔخیامی کا نام بھی شامل ہے جو ہندوستان کے عام مشاعروں میں دادوتحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ساغرؔخیامی بھی طنزومزاح نگار شاعر کی حیثیت سے طنزنگار سے بڑھ کر مزاح نگار نظرآتے ہیں۔ انھوں نے اپنی ظریفانہ شاعری میں سماجی قدروں کی تنزلی اورمعاشرتی دھوکہ دھڑی کوطنز کا نشانہ بنایا ہے۔ لیکن ان کی زوردارظرافت اورقہقہہ نے طنز کو دلچسپ بنادیا ہے:
یوں پھنس گیا ہے آدمی ڈسکو کے جال میں

ڈسکو کی مے ہے حفظ مراتب کے جام میں
تبدیلیاں یہ آئیں گی اب احترام میں

ڈسکو کریں گے باپ کو بیٹے سلام میں
گھوڑے کی لید دھنیے میں بنیے ملائیں گے

وہ دن نہیں ہے دور جب ہم ہنہنائیں گے
اگنی کے سات پھیرے نہ پنڈت پھرائیں گے

دولہا دلہن کو مولوی ڈسکو کرائیں گے
اب کچھ دنوں میں اور بھی اسمارٹ ہوں گے

کک مارنے سے آدمی اسٹارٹ ہوں گے
بولا دوکاندار کہ کیا چاہئے تمھیں
میری دوکان ایسی ہے کہ ہر چیز پاؤگے
میں نے کہا کہ کتے کے کھانے کا کیک ہے
بولا یہیں پہ کھاؤگے یا لے کے جاؤگے
(اشعار کے فارمیٹ ایک جیسے کردیں(
ساغرؔخیامی کی شاعری میں فکر اورتدبر ہے۔
ہلال ؔرام پوری نے بھی طنز ومزاح کے قطعات کہہ کر اپنا ایک مقام پیداکیا۔
طنزومزاح کی شاعری کے آسمان پر ان معروف مزاح نگار شعرا کے علاوہ بوگسؔ حیدر آبادی، ضیاؔعنایتی رام پوری، پاپولرؔمیرٹھی، اشرف خوندمیری، اقبال ہاشمی، پاگلؔ عادل آبادی، اسماعیل ظریف مصطفی علی علیگ، مختاریوسفی، طالب خوندمیری، خواہ مخواہؔ، ڈم ڈم کوٹوی، کندل لال خنداں،بمبوؔ، رؤف رحیم، صبغۃ اﷲ بمباٹ اور احمد علوی روشن ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔ اورابھی طنز ومزاح نگار شاعروں کا یہ کارواں آگے کی سمت جاری ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ ہم نے اپنے اس مقالے میں سنجیدہ شعرا کو شامل نہیں کیا بلکہ ہم نے صرف ان معروف شعرا کا تذکرہ کیا ہے جن کا خاص میدان ظنزوظرافت ہے اور جو طنزومزاح کی شاعری ہی کو اپنی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔ یوں تو ہر سنجیدہ شعرگو کے کلام میں طنزومزاح کے تھوڑے بہت اشعار ضرور مل جائیں گے لیکن ہم نے اپنے مذکورہ اصول کے پیش نظر ان سے قطع نظر کی ہے۔ بہرکیف، اردوشاعری میں طنز ومزاح کے شاعروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ بیش تر طنزومزاح کے بجائے صرف مزاح نگاری میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ جن شعرا میں شعرگوئی کی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں وہ کوشش سے اردو طنزومزاح کی اس شاعری کے معیار کو بلندکرسکتے ہیں۔
(Azadi ke baad Urdu shayeri mein Tanz o mazah by Prof. Tauqeer Ahmad Khan, Urdu research jaournal, Ist. Issue page no. 26-60, ISSN 2348-3687)

Leave a Reply

2 Comments on "آزادی کے بعد اُردو شاعری میں طنزومزاح*پروفیسر توقیر احمد خان"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] آزادی کے بعد اُردو شاعری میں طنزومزاح […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.