دانش گاہوں میں تحقیق : سمت و رفتار* پروفیسر ابن کنول

Download PDF file

تقسیم ہند سے قبل اردو میں تحقیق کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ،عموما جو کچھ دستیاب ہوتا تھا اسے جوں کا توں پیش کردیا جاتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شاعر کا کلام دوسرے کے دیوان میں اور دوسرے کا تیسرے شاعر کے شعری مجموعے میں نام کی یکسانیت کے سبب شامل ہوجاتا ، قارئین طبع شدہ متن کو ہی سند مانتے تھے ، کسی کے دل میں شک و شبہ پیدا نہیں ہوتا تھا ظاہر ہے تحقیق کی بنیاد ہی شک و شبہ پر ہے، معصوم قارئین نے الحاق کو اصل تسلیم کرلیا تو تحقیق کی ابتدا کیوں کر ہوتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری زبان کی عمر کم ہے ، اور ماضی قریب کو تحقیق کی ضرورت کم ہی پیش آتی ہے ۔ پھر چند دیوانوں نے جوئے شیر لانے کے لیے تیشے سنبھال کر کو ہ کنی شروع کی۔ اسی جنون کے سبب بعض مروج حقائق سے پردہ اٹھا اور سچ سامنے آیا ، واقعہ یہ ہے کہ سچ بولنا ، سچ کہنا اور سچ کی تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے سچ کی تلاش و جستجو کا نام ہی تحقیق ہے، ہمارے سامنے سب کچھ نہیں ہوتا ، جو کچھ ہوتا ہے وہ سو فی صد سچ نہیں ہوتا اور یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ سچ جاننے کے لیے مضطرب رہتا ہے، تحقیق کی بنیاد اسی اضطرابی کیفیت یعنی موجود حقایق کے متعلق شک پیدا ہونے پر ہے، تحقیق کا عمل محنت طلب ہے ،اس لیے بہت کم لوگ اس دشوار گزار راستے کو اختیار کرتے ہیں۔ تحقیق انہماک اور صبر چاہتی ہے، اس میدان میں ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ نہ کرنے والا شخص ہی قدم رکھ سکتا ہے ، بیسویں صدی کے نصف اول میں جن لوگوں نے تحقیق کی طرف توجہ دی وہ صرف ذاتی شوق تھا ، دانش گاہوں میں اس وقت تحقیق عام نہیں تھی لیکن اب ملک کی ان سبھی دانش گاہوں میں جہاں ریسرچ کی سہولت ہے تحقیق کی طرف کافی توجہ دی جارہی ہے۔ عام طور پر ایم۔ اے۔ کے بعد طالب علم کو اپنا مستقبل کوئی خاص روشن نظر نہیں آتا ،اس لیے وہ اور کچھ کرنے کے بجائے تحقیق کرنے ہی کو مناسب اور نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ ان میں اسی فی صد طالب علم مجبورا یہ راہ اختیار کرتے ہیں اور ان میں سے پچاس فی صد برسوں کوہ کنی کے باوجود کچھ نہیں کرپاتے ۔نتیجہ کوہ کندن و کاہ برآوردن۔ تقریبا بیس فی صد تحقیقی مقالے یقینا اس لائق ہوتے ہیں جن میں اسکالر کا نہ صرف ذوق و شوق نظر آتا ہے بلکہ زبان و ادب کی تاریخ میں نئے حقائق سامنے آتے ہیں۔
دانش گاہوں میں ریسرچ کرنے کے لیے سب سے پہلا مرحلہ طالب علموں کے انتخاب کا آتا ہے ۔ میرا خیال ہے موضوع کے انتخاب سے زیادہ اہم کام طالب علم کا انتخاب ہے۔ اساتذہ کو یہ اچھی طرح دیکھ اور پرکھ لینا چاہیے کہ جو طالب علم ریسرچ کرنا چاہتا ہے کیاا س میں تحقیق کرنے کی صلاحیت بھی ہے ۔ ایم ۔اے ۔ امتیازی نمبر حاصل کرکے پاس کرنا علاحدہ بات ہے اور تحقیقی مقالہ لکھنا دیگر بات ہے ۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ نمبر حاصل کرتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ باوجود اس کے آج تک کوئی خاتون حافظ محمود شیرانی ، قاضی عبدالودود یا امتیاز علی خاں عرشی جیسے محققین کی صف میں آکر کھڑی نہیں ہوسکی، میرا مقصد خواتین کی صلاحیتوں پر شک کرنا یا کم تر کہنا نہیں ہے ، بلکہ ان کی اپنی مجبوریاں ہیں۔میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ضروری نہیں کہ اچھے
نمبر حاصل کرنے والا طالب علم اچھا ریسرچ اسکالر بھی ثابت ہو، ریسرچ اسکالر کا مزاج ہی کچھ اور ہوتا ہے جو طالب علم خوب سے خوب تر کی تلاش کرنے اور بال کی کھال نکالنے کی تڑپ اپنے اندر رکھتا ہو اور جسے اپنی بات کو لکھنے کا سلیقہ بھی آتا ہو، ہوتا یہ ہے کہ جس طالب علم نے کبھی ماں باپ کو خط کے علاوہ کچھ نہیں لکھا اسے تحقیقی مقالہ لکھنے کو دے دیا جاتا ہے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ راہ فرار اختیار کرتا ہے یا مختلف کتابوں سے نقل کردیتا ہے یا اپنے نگراں کی اتنی خدمت کرتا ہے کہ اس کے صلے میں نگراں اسے نقل کرادیتا ہے۔ظاہر ہے ایسے طالب علم سے مستبقل میں کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرکے اعلی تعلیم کی آخری منزل تک تو پہنچ جائے گا لیکن زندگی بھر وہ مقام اور اعتبار حاصل نہیں کرسکے گا جو ایک محقق کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے طالب علم کے انتخاب میں کافی سختی برتنی چاہئے۔ محض فرسٹ ڈویژن دیکھ کر داخلہ دینا مناسب نہیں اور پھر با صلاحیت طالب علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پی ایچ ڈی میں داخلے سے قبل اس کی اچھی تربیت کی جائے اسے تحقیق کے اصولوں سے واقف کرایا جائے ۔ اس کے لیے مختلف یونیورسٹیوں میں ایک یا ڈیڑھ سال کا ایم ۔ فل کا کورس موجود ہے جس میں نہ صرف تحقیق کے طریقۂ کار سے واقف کرایا جاتا ہے بلکہ کم وقت میں ایک مختصر مقالہ یا Drttn بھی لکھوایا جاتا ہے ۔ ایم فل کرنے کے بعد طالب علم کی کافی حد تک تحقیقی کام کرنے کی تربیت ہوجاتی ہے ۔ طالب علم کے انتخاب کے بعد موضوع کا تعین دوسرا اہم مرحلہ ہے ، یوں تو دانش گاہوں میں ہونے والی ریسرچ کو تحقیق اور مقالہ کو تحقیقی مقالہ کہا جاتا ہے لیکن آج کل طلبا کو دیئے جانے والے بیشتر موضوعات تحقیقی کم تنقیدی زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحقیق اور تحقیق کے ساتھ وابستہ تدوین انتہائی دل سوزی کا عمل ہے ، دل لگا کر اور دل جلا کر جو طالب علم کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو، وہی اس جانب رخ کرسکتا ہے ۔اس کے برعکس تنقیدی مطالعہ قدرے آسان ہوجاتاہے، بہرحال تنقیدی مطالعہ میں بھی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ نئے حقائق و نتائج کو پیش کرنے کی سعی کرے، موضوع کے انتخاب میں اول تویہ کوشش کہ موضوع زبان و ادب کے لیے کس قدر اہم ہے یعنی اس کی افادیت کیا ہے ؟ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو موضوع منتخب کیا جارہا ہے کیا وہ اس لائق ہے کہ جسے ڈاکٹریٹ جیسی باوقار سند حاصل کرنے کے لیے پیش کیاجاسکے، ہوتا یہ ہے کہ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے والے اسکالر ایسا موضوع تلاش کرتے ہیں جس پر وافر مقدار میں مواد موجود ہو اور پھر اسکالر کاکام محض کٹنگ پیسٹنگ کا ر ہ جاتا ہے اور نگراں حضرات اسکالر کی خدمات کے پیش نظرممتحن سے ذاتی مراسم کی بنیاد پر ڈگری دینے کی سفارش بھی کرالیتے ہیں،ظاہر ہے اس طرح کے تحقیقی مقالات کا معیار اور مستقبل کیا ہوگا اس کا اندازہ خود ہی لگایا جاسکتا ہے ۔ اس لیے حتی الامکان یہ کوشش کی جائے کہ موضوع نیا اور اچھوتاہو اور اگر پرانا بھی ہو تو اس میں نیا کہنے کے لیے کچھ موجود ہو۔ ہماری جامعات میں اساتذہ طلبا کی دلچسپی جانے بغیر انہیں اپنی دلچسپی یا پسند کا موضوع دے دیتے ہیں ایسی صورت میں اسکالر کو موضوع کو سمجھنے اور اس میں دلچسپی پیدا کرنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے بہتر ہو کہ طالب علم کی دلچسپی کے مطابق اسے موضوع دیا جائے ۔ یوں بھی طالب علموں کی اکثریت میں سنجیدگی اور تحقیقی صلاحیت کا فقدان ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آج کے طالب علم کی دلچسپیاں اور مصروفیات پہلے کے مقابلے میں مختلف ہیں بہرکیف اردو زبان و ادب اور اس کے شعبوں کی بقا کے لیے انہیں پر اکتفا کرکے سندی تحقیق کے اس سلسلے کو اسی طرح جاری رکھنا ہوگا ۔ غزنوی میں تڑپ اور زلف ایاز میں خم نہ سہی ، غزنوی اور ایاز تو ہیں،اس لیے موضوع کا انتخاب طالب علم کے میلان طبع کے مطابق کیا جائے تو بہتر ہے۔ طالب علم اگر فارسی کی شد بد رکھتا ہوتو اسے بلا جھجھک کلاسیکی اردو کے تاریک گوشوں کا اجاگر کرنے کی طرف راغب کرایا جائے اور اگر تنقیدی بصیرت کا حامل ہو تو تنقیدی موضوعات تفویض کئے جائیں ۔ موضوع کوئی بھی ہو ، انتخاب کے وقت چند نکات کا لحاظ رکھیں :

۱۔۔موضوع کی افادیت
۲۔۔منتخب موضوع پر کیا پہلے کبھی کام ہوا ہے اور ہوا ہے تو کس نوعیت کا ؟
۳۔۔کیا مقررہ مدت میں اسکالر کام کو مکمل کرسکتا ہے؟
۴۔۔کیا بآسانی تحقیقی مواد فراہم ہوسکتا ہے؟
موضوع کی افادیت کا لحاظ رکھتے ہوئے اگر کام کیا جائے گا تو تحقیقی مقالہ محض سندی تحقیقی بن کر لائبریری میں گم نہیں ہوگا بلکہ ہر عہد میں سند کے طور پیش کیا جائے گا ۔ منتخب موضوع پر یہ جاننا کہ پہلے کبھی اس موضوع پر مقالہ لکھا گیا ہے یا نہیں اس لیے لازمی ہے کہ اس سے تکرار کا اندیشہ کم رہتا ہے ایک ہی موضوع پر کئی مقالے مختلف نظریات اور زاویوں سے لکھے جاسکتے ہیں کوئی بھی کام حرف آخر نہیں ہوتا ہے اس لیے اسکالر سے دہرانے کے بجائے اضافے کی امید کرنی چاہیے۔ موضوع کے تعین کے وقت اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ اسکالر اس کام کو دو تین سال میں مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ایسا نہ ہو کہ اس کی عمر عزیز مواد کی فراہمی ہی میں گزر جائے ۔ تحقیقی مقالے کے لیے ایسا موضوع بھی نہیں ہونا چاہیے جس پر مواد ہی ملنا مشکل ہو اور اسکالر گھبرا کر راہ فرار اختیار کرے۔
ہماری دانش گاہوں میں ایک بات یہ بھی عام ہوگئی ہے کہ زندہ ادیب اور شاعروں پر تحقیقی مقالے لکھوائے جارہے ہیں ، ان میں ایسے ادیب اور شاعر بھی شامل ہیں ،جنہوں نے ابھی لکھنا شروع کیا ہے محض ایک ڈیڑھ کتاب ان کے نامۂ اعمال میں ہے لیکن یونیورسٹی کے اساتذہ دوستی کا حق اداکرنے کے لیے انہیں موضوع تحقیق بنادیتے ہیں اس میں استاد اور شاگرد دونوں ہی کا بھلا ہوتا ہے ، دونوں کو کچھ نہیں کرنا ، ’’ زیر تحقیق ‘‘ شخصیت سب کردیتی ہے۔ دانشگاہوں کی ریسرچ کمیٹی کو ایسے زندہ ادیبوں پر تحقیقی مقالے لکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے جنہیں ابھی بہت کچھ لکھنا ہے ۔ اس سلسلے میں رشید حسن خاں نے لکھا ہے :
’’زندہ لوگوں کو موضوع تحقیق بنانا بھی غیر مناسب ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مختلف اثرات کے تحت حقائق کا صحیح طور پر علم نہیں ہوپائے گا۔ ذاتی اثرات ، غیر معتبر روایتیں ، گروہ بندی اور مذہبی یا سیاسی وابستگیوں کی پیدا کی ہوئی مصنوعی عقیدت ، یہ ایسے عوامل ہیں کہ ان کا پھیلایا ہوا غبار زندگی میں ابہام کا دھندلکا پھیلائے رکھتا ہے آدمی جب تک زندہ رہے گا اس کا امکان ہے کہ وہ فکر و عمل کی تبدیلیوں سے دو چار ہوتا رہے اور ایسی تبدیلیوں کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ اسی لیے زندہ آدمی کے اعمال و افکار کا مکمل تجزیہ ممکن نہیں ۔ مکمل تجزیے کے بغیر کسی شخص کے ساتھ انصاف کیا ہی نہیں جاسکتا، زندہ آدمی کی شخصیت نقاب پوش رہتی ہے اب تک یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جن زندہ لوگوں کو موضوع تحقیق بنایاگیا تو اس انتخاب میں دنیاداری کی کسی مصلحت کو ضرور دخل تھا۔‘‘
دانش گاہوں میں ہونے والی تحقیق کا معیار اسی وقت بلند ہوسکتا ہے جب داخلوں اور موضوعات کے انتخابی ضوابط میں سختی برتی جائے ۔ ہر سال اردو میں تحقیق کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، اضافہ ہونا نیک فال ہے لیکن قابل افتخار اس وقت ہوگا ہے جب لائق اور سنجیدہ اسکالر تحقیقی مقالات قلم بند کریں گے ۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبا میں ایسا ذوق و شوق پیدا کریں کہ تحقیق ان کے مزاج کاحصہ بن جائے اور صرف سند حاصل کرنے کے لیے مقالہ نہ لکھیں۔
گذشتہ پچاس سالوں میں جامعات ہند میں جو تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ان کی موضوعات کے اعتبار سے اگر درجہ بندی کی جائے تو شخصیات پر سب سے زیادہ مقالات نظر آتے ہیں دواوین کی تدوین کا کام بھی تقریبا سبھی یونیورسٹیوں میں ہوا ہے ، ان کے علاوہ جن موضوعات پر تحقیقی مقالے قلمبند ہوئے ہیں ان میں تنقیدی مطالعے اور تجزیے ، شعری نظریات و تصورات ، ادبی و لسانی اورتہذیبی جائزے ، مختلف اصناف کی ارتقائی تاریخ وغیرہ شامل ہیں۔
شخصیات پر کام کرنا مشکل بھی ہے اور آسان بھی ۔ مشکل اس طرح کہ اگر شخصیت ماضی بعید کی ہے تو اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں خاصی دشواری پیدا ہوتی ہے، اس کے برعکس ماضی قریب یا حال کی شخصیات پر کام کرنا قدرے آسان ہوتا ہے نہ صرف حالات زندگی بآسانی معلوم ہوجاتے ہیں بلکہ تصانیف بھی دستیاب ہوجاتی ہیں دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں جن اہم شخصیتوں پر تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
۱۔۔مومن دہلوی کی حیات اور کارناموں کا تنقیدی مطالعہ ۔۔ظہیر۔احمد صدیقی
۲۔۔مرزا مظہر جان جاناں۔۔۔۔خلیق انجم
۳۔۔بہادر شاہ ظفر اور ان کی شاعری۔۔۔۔اسلم پرویز
۴۔۔مصحفی کی حیات اور شاعری کا تنقیدی مطالعہ۔۔نورالحسن نقوی
۵۔۔اسمعیل میرٹھی۔۔۔۔۔سیفی پریمی
۶۔۔شیفتہ : حیات اور کارنامے۔۔۔۔صلاح الدین خاں
۷۔۔عبدالحلیم شرر : حیات اور کارنامے۔۔۔شریف احمد
۸۔محمد علی طبیب : حیات اور کارنامے۔۔۔عبدالحئی
۹۔۔میرامن دہلوی کی حیات اور کارنامے۔۔۔نفیس جہاں بیگم
۱۰۔۔میر مہدی مجروحؔ کی حیات اور خدمات۔۔۔محمد فیروز
۱۱۔۔حجاب امتیاز علی : حیات اور خدمات۔۔۔مجیب احمد خاں
۱۲۔۔ملا وجہی۔۔۔۔۔۔۔جاویدوششٹ
۱۳۔۔خواجہ حسن نظامی : حیات اور خدمات۔۔۔نسرین سلطان
۱۴۔۔ناصرنذیر فراقؔ اور ادبی خدمات۔۔۔۔فیضان حسن
۱۵۔۔اخترالایمان : شخصیت اور خدمات۔۔۔نوشاد عالم
مذکورہ شخصیات اردو ادب کا اہم حصہ ہیں ان میں سے تقریبا سبھی مقالے شائع بھی ہوچکے ہیں پچھلے تیس سالوں میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں جن اہم شخصیات پر تحقیقی مقالے قلمبند کئے گئے وہ اس طرح ہیں:
۱۔۔ذوق : سوانح اور انتقاد۔۔۔۔تنویر احمد علوی
۲۔۔ابوالکلام آزاد۔۔۔۔۔رضی الدین
۳۔۔پریم چند کے ناولوں کا تنقیدی مطالعہ۔۔۔قمر رئیس۔
۴۔۔رشید احمد صدیقی : حیات اور فن ۔۔۔۔رونق جہاں زیدی
۵۔۔عبدالرحمن بجنوری : حیات اور ادبی کارنامے۔۔محمد زاہد
۶۔۔دیا شنکر نسیم : حیات اور شاعری۔۔۔۔مسعود اختر
۷۔۔سید سلیمان ندوی: حیات اور ادبی کارنامے۔۔سید محمد ہاشم

۸۔۔سجاد حسین : حیات اور کارنامے۔۔۔۔عائشہ بیگم
۹۔۔راشد الخیری کے ادبی کارناموں کا تنقیدی مطالعہ۔منور سلطانہ
۱۰۔۔میر محفوظ علی۔۔۔۔۔رعنا رکن الدین
۱۱۔۔خواجہ حسن نظامی حیات اور ادبی خدمات۔امام مرتضی نقوی
۱۲۔۔فراق شخصیت شاعری۔۔۔۔تسکینہ فاصل
۱۳۔۔فراق شخص و شاعر۔۔۔افغان اﷲ خاں گورکھپور یونیورسٹی
۱۴۔۔حسرت موہانی۔۔۔احمد لاری گورکھپور یونیورسٹی
کشمیر یونیورسٹی سری نگر میں جن قابل ذکر شخصیات پر تحقیقی مقالے لکھے گئے ان میں حسب ذیل نام شامل ہیں:
۱۔۔منٹو : حیات اور کارنامے ۔۔۔۔برج پریمی
۲۔۔مرزا سلامت علی دبیرؔ : حیات اور کارنامے۔۔۔محمد زماں آزردہ
۳۔۔عصمت چغتائی : شخصیت اور فن۔۔۔۔دل افروز گنجو
۴۔۔شاہ حاتم : حیات اور شاعری۔۔۔۔غلام نبی بٹ
۵۔۔سردار جعفری : شخصیت اور فن۔۔۔۔کوثر پروین
۶۔۔اکبر حیدری : حیات اور کارنامے۔۔۔محمد جعفر
۷۔۔ماہرالقادری کی ادبی خدمات۔۔۔۔عبدالحمید گنائی
۸۔۔پروفیسر محمد امین اندرابی حیات اور کارنامے۔۔فاروق احمد راتھر
دکن میں ممبئی یونیورسٹی ، حیدرآباد اور دوسری یونیورسٹیوں میں بھی تحقیق کا کام شمالی ہند کی طرز پر ہی جاری ہے، ممبئی یونیورسٹی میں حسب ذیل شخصیات پر تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں :
۱۔۔مولانا محمد حسین آزاد: حیات اور کارنامے۔۔۔عبدالستار دلوی
۲۔۔مرزا رسوا : حیات اور ناول نگاری۔۔۔آدم شیخ
۳۔۔نظیر اکبر آبادی : حیات اور شاعری۔۔۔ضمیر الدین خاں
۴۔۔آرزو لکھنوی : حیات اور کارنامے۔۔۔سید مجاہد حسین حسینی
۵۔۔نوح ناروی : حیات اور کارنامے۔۔۔ظفر الاسلام ظفر
۶۔۔مولانا محمد علی جوہر: سیاسی فکر و عمل۔۔۔سید شبیر علی
۷۔۔عبدالماجد دریابادی: حیات اور کارنامے۔۔۔طاہرہ محمد حلیم
۸۔۔عندلیب شادانی : حیات اور کارنامے۔۔۔کلثوم ابو البشر
۹۔۔سید سلیمان ندوی : حیات اور کارنامے۔۔۔شیخ عبداﷲ
۱۰۔۔کرشن چندر بحیثیت طنزومزاح نگار۔۔۔عقیل احمد شیخ
اسی طرح حیدرآباد ، لکھنٔو، الہ آباد ، پٹنہ اور ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں معروف اور غیر معروف ، مستحق اور غیر مستحق شخصیات پر تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں یا لکھے جارہے ہیں ہندوستان میں کیونکہ کثیر تعدادمیں تحقیقی مقالے قلمبند ہوتے ہیں اس لیے ایسی زندہ شخصیات کو بھی تعلقات کی بنا پر موضوع تحقیق بننے کا اعزاز نصیب ہوجاتا ہے ،جنہیں شاید پس از مرگ کوئی یاد بھی نہ کرے۔ اسی لیے بعض دانشگاہوں نے حیات اور خدمات پر تحقیقی مقالے لکھنے کو ممنوع قرار دے دیا ہے اس میں دہلی یونیورسٹی خاص طور سے شامل ہے۔ شخصیات کے بعد دوسرا اہم موضوع تنقیدی مطالعے یا تجزیے کا ہے،یہ شخصیات پر کام کرنے کے لیے ہاتھ گھماکر ناک پکڑنے والا معاملہ ہے، کسی شاعر یا ادیب کی تخلیقات کا تنقیدی مطالعہ یا تجزیہ پیش کرنے سے قبل اسکالر ایک باب میں شاعر یا ادیب کی سوانح بیان کرتا ہے اور موضوع وہی بن جاتا ہے جو حیات اور خدمات کا ہے اس طرح کے تحقیقی مقالوں کے بعض موضوع حسب ذیل ہیں، شعبۂ اردو ، دہلی یونیورسٹی کے عنوانات ہیں:
۱۔۔جرأت کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ۔۔۔مجیب الرحمن قریشی
۲۔۔جوشؔ ملیح آبادی کی امیجری کا تنقیدی مطالعہ۔۔نسرین رئیس خاں
۳۔۔فکر اقبال کا تنقیدی مطالعہ۔۔۔۔شمیم احمد
۴۔۔اقبالیات کا تنقیدی جائزہ۔۔۔۔محمدمحسن
۵۔۔راجندر سنگھ بیدی کے فن کا تنقیدی مطالعہ۔۔۔پرویز احمد
۶۔۔عظیم بیگ چغتائی کی تصانیف کا تنقیدی مطالعہ۔۔خدیجہ خاتون
مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ اس طرح کے تحقیقی مقالے درج ذیل عنوانات سے لکھے گئے ہیں:
۱۔۔میرسوزؔ کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ۔۔۔نجمہ رضوی
۲۔۔قائمؔ کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ۔۔۔۔شمیم زہرا
۳۔۔میر دردؔ کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ۔۔۔شہناز بانو
۴۔۔مصحفیؔ کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ۔۔۔سعید الدین مینائی
۵۔۔اردو کی خواتین ناول نگاروں کا تنقیدی مطالعہ۔۔شہناز مرزا
ملک کی دوسری دانشگاہوں کے عنوانات بھی مذکورہ عنوانات سے مختلف نہیں میرا مقصد فہرست سازی نہیں اور نہ یہ ممکن ہے میں یہ بات واضح کرنا چاہتاہوں کہ مختلف دانشگاہوں میں سندی تحقیق کی سمت و رفتار کیا ہے کس طرح کے مقالے قلمبند کیے جارہے ہیں بعض دانشگاہوں میں تحقیق و تدوین اور فرہنگ سازی کا کام بھی ہوا ہے مثلا دہلی یونیورسٹی کے کچھ موضوعات اس طرح ہیں:
۱۔۔دیوان میر اثرؔ کی تدوین۔۔۔۔فضل حق قریشی
۲۔۔کلام ممنونؔ کی تحقیقی اور تنقیدی تدوین ۔۔۔افسری افتخار
۳۔۔کلام یقینؔ کی تحقیق اور تنقیدی تدوین۔۔۔فرحت فاطمہ
۴۔۔مکاتیب اقبال کی تدوین و تجزیہ۔۔۔۔شبیر حسین خاں
ان کے علاوہ شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی نے رشید حسن خاں مرحوم کی مدد سے تحقیق و تدوین کا کافی کام کیا ہے ۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تدوین کے ساتھ ساتھ فرہنگ سازی پر بھی توجہ دی گئی ہے مثلا:
۱۔۔نظیر اکبر آبادی کے کلام کی فرہنگ۔۔۔نعیم فاطمہ جعفری

۲۔۔طلسم ہوشربا کی فرہنگ۔۔۔۔نگہت سلطانہ
۳۔۔شمالی ہند کے اردو قصائد کی فرہنگ۔۔۔ام ہانی اشرف
۴۔۔فرہنگ انیسؔ و دبیرؔ۔۔۔۔۔نسرین ہاشمی
۵۔۔فرہنگ غالبؔ۔۔۔۔۔نجمہ شمشاد
۶۔۔فرہنگ اقبال۔۔۔۔۔امتیاز احمد
۷۔۔شمالی ہند کی اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مثنویوں کی فرہنگ۔ضیاالدین انصاری
یہاں میرؔ کے تمام دواوین کے علاوہ ناسخ ، قدرت اﷲ قاسم ، کریم الدین ،نواب یوسف علی خاں ناظمؔ ،مرزا محمد تقی خاں ترقیؔ کے کلام کی تدوین بھی عمل میں آئی۔ کشمیر یونیورسٹی میں اس طرح کا کوئی تحقیقی کام میرے علم میں نہیں ہے البتہ دوسری یونیورسٹیوں میں تدوین اور فرہنگ سازی کے تحقیقی کام ہوئے ہیں۔ اصناف کے تحقیقی و تنقیدی اور ارتقائی جائزے پر تقریبا سبھی دانشگاہوں میں کام ہوا ہے ، اس طرح کے تحقیقی مقالے تاریخ ادب کے مطالعہ کے لیے خاصے کا رآمدثابت ہوتے ہیں، کچھ مقالوں کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
۱۔۔مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی ارتقا۔خواجہ احمد فاروقی۔دہلی یونیورسٹی
۲۔۔اردو ناول کا آغاز وارتقا ۱۸۵۷ سے ۱۹۱۴ تک، عظیم الشان صدیقی۔دہلی یونیورسٹی
۳۔۔اردو میں شہر آشوب۔۔۔نعیم احمد۔۔دہلی یونیورسٹی
۴۔۔اردو نثر کا ارتقا ۱۸۰۰ سے ۱۸۵۷ تک۔۔عابدہ بیگم۔۔دہلی یونیورسٹی
۵۔۔اردو میں سوانح نگاری کا ارتقا ۱۹۱۴ سے ۱۹۴۵تک۔۔ممتاز فاخرہ۔دہلی یونیورسٹی
۶۔۔اردو ڈرامہ نگاروں کا تذکرہ۔۔مظہر الحق۔۔دہلی یونیورسٹی
۷۔۔اردو مختصر افسانہ ۱۹۴۷ تا حال۔۔نگہت ریحانہ خان۔دہلی یونیورسٹی
۸۔۔اردو میں رپوتاژ کاتنقیدی مطالعہ۔۔۔طلعت گل۔دہلی یونیورسٹی
۹۔۔اردو افسانے کا ارتقا پریم چند تا حال، جمال آرا نظامی۔مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
۱۰۔۔اردو نظم کا مطالعہ ۱۹۳۶ تا حال۔ عقیل احمد۔۔مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
۱۱۔۔اردو ہجویات کا تاریخی اور تہذیبی مطالعہ۔۔ضرغام حیدر۔مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
۱۲۔۔اردو غزل : جدید سے مابعد جدیدیت تک۔۔۔شبینہ پروین۔کشمیر یونیورسٹی
۱۳۔۔اردو تنقید : ۱۹۶۰ کے بعد۔۔۔۔غلام نبی مومن۔ممبئی یونیورسٹی
۱۴۔۔اردو نظم : ۱۹۶۰ کے بعد۔۔۔۔محمد قاسم امام الدین۔ممبئی یونیورسٹی
شاعری اور نثری اصناف میں مختلف نظریات، تصورات اور تہذیبی و سماجی عناصرکی تلاش بھی تحقیق کا خاص موضوع رہا ہے ۔ مثلا:
۱۔۔اردو شاعری میں ہندوستانی عناصر۔۔۔گوپی چند نارنگ۔دہلی یونیورسٹی
۲۔۔اردو شاعری میں قومیت کا تصور۔۔مغیث الدین فریدی دہلی یونیورسٹی
۳۔۔بوستان خیال کا تہذیبی اور لسانی مطالعہ۔۔ناصر محمود کمال۔دہلی یونیورسٹی
۴۔۔اردو افسانہ کا سماجی مطالعہ۔۔۔عائشہ سلطانہ۔دہلی یونیورسٹی

۵۔۔اردو غزل کا علامتی ، سماجی اور تہذیبی پس منظر۔۔سراج الدین اجملی۔دہلی یونیورسٹی
۶۔۔اردو غزل کے تہذیبی تناظر۔۔۔۔طاہرہ منظور۔دہلی یونیورسٹی
۷۔۔اردو ناول میں حقیقت نگاری۔سرفراز اختر۔مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
۸۔۔اردو غزل میں جدید میلانات۔منظور ہاشمی۔مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
۹۔۔اردو نظم پر یوروپی اثرات۔۔حامدی کاشمیری۔کشمیر یونیورسٹی
۱۰۔۔اردو افسانے میں تہذیبی عناصر۔۔۔۔منصور احمد میر۔کشمیر یونیورسٹی
۱۱۔۔اردو افسانے میں سماجی شعور۔شفیقہ خان۔کشمیر یونیورسٹی
۱۲۔۔اردو ناول میں المیہ عناصر۔۔محمد اشرف۔کشمیر یونیورسٹی
۱۳۔۔اردو غزل میں ہندوستانی موسیقی کے عناصر۔۔۔عبدالقیوم ختائی۔کشمیر یونیورسٹی
۱۴۔۔اردو تنقیدپر سماجی و تہذیبی اثرات۔۔۔غلام محمد وانی۔کشمیر یونیورسٹی
۱۵۔۔اردو انشائیہ میں سماجی طنز۔۔۔۔بشیر احمد۔۔کشمیر یونیورسٹی
۱۶۔۔اردو شاعری میں عشق کا تصور اور اس کی روایت۔۔سید محمد حسن۔ممبئی یونیورسٹی
۱۷۔۔اردو شاعری میں شیعی اثرات۔۔۔۔رفیعہ شبنم عابدی۔ممبئی یونیورسٹی
۱۸۔۔اردو شاعری میں معاشیات و اقتصادیات۔۔۔قاضی مغیث الدین۔ممبئی یونیورسٹی
۱۹۔۔اردو شاعری میں اسلامی تلمیحات۔۔۔عطاء الرحمن صدیقی۔ممبئی یونیورسٹی
۲۰۔۔اردو افسانے میں مشترکہ تہذیب کے عناصر۔۔احمد طارق۔۔الہ آباد یونیورسٹی
۲۱۔۔اردو ناول کا سماجی اور سیاسی مطالعہ۔۔۔صالحہ زریں۔الہ آباد یونیورسٹی
۲۲۔۔اردو ناول میں خاندانی زندگی۔۔۔۔فخر الکریم۔۔الہ آباد یونیورسٹی
تحقیقی مقالوں کے موضوعات کو علاقائیت کے لحاظ سے بھی تقسیم کیا گیا ہے یعنی جس صوبے سے اسکالر کا تعلق ہے اس نے وہاں کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کرکے تاریخی و تحقیقی کام کیا ہے ۔ مثلا :
۱۔۔میسور اسٹیٹ میں اردو کی نشوونما۔۔۔حبیب النساء بیگم۔دہلی یونیورسٹی
۲۔۔دلی میں اردو افسانہ ۱۹۰۰ تا ۱۹۴۷ ۔۔۔ظل ہما۔۔دہلی یونیورسٹی
۳۔۔جونپور کی ادبی خدمات۔۔۔۔خدیجہ طاہرہ۔دہلی یونیورسٹی
۴۔۔اردو کی ادبی نثر اور دہلی کے نثر نگار۔۔۔رئیسہ بانو خاں۔دہلی یونیورسٹی
۵۔۔دہلی میں اردو ادب کے طنز و مزاح کا ارتقاء۔۔۔اختر سلطانہ۔دہلی یونیورسٹی
۶۔۔دہلی میں رومانوی مثنویوں کا تنقیدی مطالعہ۔۔۔محمد یحیی۔۔دہلی یونیورسٹی
۷۔۔اردو افسانے کے فروغ میں علی گڑھ کا حصہ۔۔۔فرح جاوید۔دہلی یونیورسٹی
۸۔۔اردو نظم دبستان لکھنٔو میں۔۔۔۔منہاج اختر خاں۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
۹۔۔شمالی ہند کی اردو شاعری میں ایہام گوئی۔۔۔حسن احمد نظامی۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

۱۰۔۔اردو اور کشمیری شاعری میں رومانیت۔۔۔محبوبہ وانی۔۔کشمیر یونیورسٹی
۱۱۔۔اردو اور کشمیری شاعری میں ترقی پسند رجحانات۔۔محمد رمضان بٹ۔کشمیر یونیورسٹی
۱۲۔۔کشمیری غزل پر اردو غزل کے اثرات۔۔۔غلام محمد بژھ۔کشمیر یونیورسٹی
۱۳۔۔کشمیری اور اردو مرثیہ میں ڈرامائی عناصر۔۔۔نرگس بانو۔۔کشمیر یونیورسٹی
۱۴۔۔بمبئی میں اردو۔۔۔۔۔میمونہ عبدالستار دلوی۔ ممبئی یونیورسٹی
۱۵۔۔بیجا پور کی اردو مثنویاں۔۔۔۔شیخ عبدالقیوم صادق۔ ممبئی یونیورسٹی
۱۶۔۔مہاراشٹر کی اردو مثنویوں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ۔۔سعیدہ اختر پٹیل۔ ممبئی یونیورسٹی
۱۷۔۔اردو شعر وادب کے فروغ میں ریاست رامپور کا حصہ۔۔محمد الیاس۔۔جامعہ ملیہ اسلامیہ
اسی طرح کے بہت سے موضوعات پر تحقیقی مقالے مختلف صوبوں کی دانشگاہوں میں لکھے گئے ہیں ا س طرح کے تحقیقی کام کا یہ فائدہ بھی ہے کہ جن ادیبوں اور شاعروں کا ذکر تاریخ ادب اردو میں نہیں آپاتا وہ ان مقالوں کا حصہ بن کر تاریخ کا حصہ بن جاتے ہین ۔ نمائندہ ادبی و تعلیمی اداروں پر بھی ملک کی مختلف دانشگاہوں میں تحقیقی مقالے قلمبند ہوئے ہیں۔ مثلا :
۱۔۔اردو کے ارتقا میں دارالمصنفین کا حصہ۔۔۔عطاء اﷲ خاور ہاشمی۔دہلی یونیورسٹی
۲۔۔دارالترجمہ عثمانیہ کی علمی اور ادبی خدمات۔۔۔مجیب الاسلام۔دہلی یونیورسٹی
۳۔۔فورٹ ولیم کالج کی نثری داستانوں کا تہذیبی مطالعہ۔۔عفت زریں۔دہلی یونیورسٹی
۴۔۔اردو کی ادبی نثر کے ارتقامیں جامعہ کا حصہ۔۔۔مہدی حسن۔جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی
۵۔۔جموں و کشمیر اکادمی کی ادبی خدمات۔۔۔عبدالحمیدبٹ۔کشمیر یونیورسٹی
۶۔۔اردو زبان کی ترویج و ترقی میں نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کا حصہ مشتاق احمد۔کشمیر یونیورسٹی
۷۔۔اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں ساہتیہ اکادمی کا حصہ۔نصرت جان۔کشمیر یونیورسٹی
ان کے علاوہ بھی دیگر اداروں پر تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔
ہندوستان کے بیشتر صوبوں کی دانشگاہوں میں متعددتحقیقی مقالے مختلف موضوعات پر لکھے جارہے ہیں جن کی فہرست تیار کرنا خاصا دشوار کام ہے ، لیکن تحقیق کی یہ صورتحال دیکھتے ہوئے بلا شبہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دانشگاہوں میں تحقیق کی رفتار مایوس کن نہیں ہے ، یہ الگ بات ہے کہ زیادتی کے سبب معیار میں گراوٹ ہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے ہر عمارت تاج محل نہیں ہوتی۔
(Universitiyon mein Urdu tahqeeq: samt o Raftar, Urdu research jaournal, Ist. Issue page no. 7-25, ISSN 2348-3687)
٭٭٭

Leave a Reply

6 Comments on "دانش گاہوں میں تحقیق : سمت و رفتار* پروفیسر ابن کنول"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Dr. Perwaiz Shaharyar
Guest
Thsnks a lot Porf Ibne Kanwal sb for publushing such informative and authentic write up. As far as the tpic of my ph d is concerned it is “A Critical Study of Art of Fiction Of Rajinder Singh Bedi”. The degree awarded in 2009. It covers only short stories and novel and does not cover radeo dramas and film scripts of Bedi. One of my book ” Rajinder Sigh Bedi ki Navil Nigari” is to be published shortly and will be released on the occasion of The First Century of his Birth Anniversary in September 2015. Your sincrely Perwaiz Shaharyar… Read more »
shahana maryam
Guest
میرے نئی کتاب کا موضوع ہے عالمی جامعات میں اردو تحقیق کی رفتار،صورتحال۔۔۔انشا للہ بہت جلد کتاب منظر عام آجائے گی۔۔۔۔،آپ سب حضرات سے گذارش ہے کہ نئے ریسرچ اسکالز اپنے اپنے موضوعات ،یونیورسٹٰی کا نام،نگران کار نام ،گر سند ایوارڈ ہو چکی ہو تو سنہ ایواڈ،ایم فل یا پی ایچ ڈی کی سند۔ ،سے مجھے مطلع فرمائیں،تاکہ میں اپنی کتاب کو اپڈیٹ کر کے شائع کر سکوں۔۔۔جزاک اللہ
محمد بلال
Guest
کوٹ ادو میں اردو ادب کی روایت
shahana maryam
Guest
سن ایوارڈ
trackback

[…] دانش گاہوں میں تحقیق : سمت و رفتار* پروفیسر ابن کنول← […]

trackback

[…] دانش گاہوں میں تحقیق : سمت و رفتار […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.