اقبال کے تعلیمی تصورات
علامہ اقبال ملت اسلامیہ کے ان افراد میں سے ہیں جو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور جن کا کام اس لیے فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے ملت کے افتخار کی بحالی کاکام کیاہے۔
جس دور میں اقبالؒ نے ملت مسلمہ کی خدمت کا بیڑا اٹھایا، اس وقت ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مسلمان ایک مخصوص صورت حال سے دوچار تھے۔ مسلمان چالیس سے زائد ممالک میں اکثریت کی آبادی رکھنے کے باوجود ہر جگہ غلامی کی زندگی گزار رہے تھے۔ سیاسی انحطاط اور معاشی بدحالی سے پوری قوم دوچارتھی۔ مغربی تہذیب کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ سمجھ کر اختیار کررہے تھے جو شے انہیں مغرب سے ملتی تھی وہ اسے وحی و الہام کے مقام پر رکھ کر قبول کرتے تھے۔ علم ، لباس، کردار، طرز عمل ،اطوار اور طرز بود و باش ہر چیز پر مغربی تہذیب غالب تھی۔خصوصاً جن لوگوں نے کوئی یورپین زبان سیکھ لی تھی ان کے لیے تو اپنی مادری زبان طعن بن کر رہ گئی اور وطنی لباس ان کے لیے موجب ننگ ہوگیاتھا۔
اقبالؒ کی تعلیمات کا منبع اسلام ہے۔ وہ آفاقی نظریۂ اسلام کے علمبردار ہیں وہ اسلام جو زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اقبالؒ کے تمام تصورات ونظریات اسلام کی روشنی میں تشکیل پاتے ہیں۔ وہ اسلام کے نظریے کو بنی نوع انسان کی تمام مشکلات کا واحد حل قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کے تمام مسائل کی شاہِ کلید قرآن مجید ہے۔
وہ برصغیر ہندوپاک میں آباد ملت اسلامیہ کے ان چند عظیم افراد میں سے ہیں، جن کے افکار نے اس ملت کے روز و شب پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اقبالؒ نے زوال پذیر اور مضمحل ہندوستانی مسلمانوںکو زندگی آمیز جدوجہد کا سبق دیا جو خودی کو برے مفہوم اور بے خودی کو اچھے مفہوم کے ساتھ قبول کرچکی تھی۔ انھوں نے بے ضمیری کی زندگی پر موت کو ترجیح دی۔ اور اسے زندگی کے میدان میں باضمیر اور خود دار قوم کی حیثیت سے رہنے کی تلقین کی۔ انھوں نے مسلمانوں کے قوانین کی دورِ جدید کی روشنی میںتدوین جدید کی طرح ڈالی۔انھوں نے ایک مضمحل ملت کو ولولہ تازہ عطا کیا۔ وہ جس اسلامی مملکت کا خواب دیکھ رہے تھے اس کے لیے اسلامی قوانین کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اس کے نظام تعلیم کے بنیادی اصول بھی وضع کررہے تھے۔ چنانچہ ان کے تصورِ تعلیم کے بنیادی اصول بہت واضح ہیں۔
ان کے فکر و عمل کا حقیقی محورقرآن کی تعلیمات اور عشق رسولؐ کا قوی ترین جذبہ تھا۔ وہ تہذیب مغرب کی تہہ میں اتر کر یہ ثبوت ڈھونڈلائے تھے کہ اسلام ہی انسانی زندگی کا واحد قابل عمل لائحہ عمل ہے جو انسانوں کی عالمگیر برادری قائم کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اسلام ہی انسانوں کو علاقائی، نسلی، قبائلی اور رنگ و زبان کی حد بندیوں سے اٹھاکر ایک خدا کی بندگی کے عالمگیر پلیٹ فارم پر برادرانہ جذبات کے ساتھ جمع کرتا ہے۔ انھوں نے قرآن میں ڈوب کر مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کے اصول فراہم کیے اور اپنے وسیع مطالعہ کی روشنی میں انہیں اپنی پوری قوت اور بلند آہنگی کے ساتھ پیش کیا۔
بیسویں صدی کے اسلامی مفکرین میں اقبال کا مقام بہت بلند ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ فقہی معلومات پر زیادہ دسترس نہ رکھتے ہوں لیکن روح اسلام سے وہ پوری طرح واقف تھے۔ وہ اپنی علمی جدوجہد میں مغربی تہذیب کی الحادی یلغار کے سامنے پہاڑ کی مانند ڈٹے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ان کی فکر میں مرعوبیت نہیں ہے بلکہ جارحانہ اقدام ہے۔ یہی چیز انھیں اپنے دور کے تمام مفکرین میں ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ مغربی تہذیب کے خلاف ان کے حملے میں جھنجھلاہٹ نہیں بلکہ قوت اور دلیل ہے۔
درحقیقت زندگی کے سارے ہی پہلوئوں پر ان کی نگاہ ہے۔ چنانچہ انھوں نے ملت مسلمہ کے لیے اپنا ایک نظریۂ تعلیم بھی پیش کیا ہے۔ جو ایک قوم کی خودی، اس کی تعلیمات کی روح اور اس کے تصورِ تربیت وتشکیل کردار کی بہترین انداز میں نمائندگی کرتا ہے۔ اقبالؒ کا یہ تصورتعلیم چار عناصر پر مشتمل ہے:
٭ حقیقت کی تلاش
٭ خودی کی پرورش
٭ مقصد زندگی کا تعین
٭ اسلامی اجتماعیت سے ربط و وفاداری
ہم ان چاروں نکات پراختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں:
(۱) سب سے پہلا اور ہم مسئلہ حقیقت کی تلاش ہے۔ ایک آزاد اسلامی تصور تعلیم کے لیے جوچیز بنیادی حیثیت رکھتی ہے اورجسے اقبالؒ نہایت درجہ اہمیت سے پیش کرتے ہیں۔ وہ حقیقت کی تلاش و جستجو کاپرزور اور بھرپور جذبہ ہے۔اقبالؒ کے نزدیک وہ نظام تعلیم محض بیکار ہے جو صرف کتب نصاب کو رٹ کر پاس کرجائے اور روزگار کے حصول کے لیے ایک پروانہ راہداری حاصل کرنے کا داعیہ پیدا کرتاہے۔ ان کے نزدیک تفتیش وتحقیق،مسلسل جدوجہد اور ایک بلند ترین نصب العین کے حصول کی تڑپ پیدا کرنا ایک نظام تعلیم کابنیادی وصف اور مزاج ہونا چاہیے۔
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ ہنر کیا
مقصودِ ہنر سوزِ حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
بے معرکہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جوضربِ کلیمیؔ نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
اسی جدوجہد اور جان گسل کش مکش کو تعلیم کا حقیقی مقصد قراردیتے ہوئے جب وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں اور ان کی آرام طلبی پرنگاہ ڈالتے ہیں تو بے ساختہ ان کادل دکھ دردسے بھر آتاہے۔
تیرے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا شکوہ و خسروی بھی ہوتو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغنا ئے سلمانی
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبدپر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اس طرح اقبالؒ نوجوانوں کو جستجو، تحقیق، علم ، محنت اور جدوجہد کی تعلیم دیتے ہیں اور اس ساری جدوجہد کے ذریعے انہیں ابھارتے ہیں کہ وہ اس موتی کو تلاش کریں جو تخلیق کائنات کا حقیقی مقصود ومدعا ہے۔
۲۔ اقبالؒ کے اسلامی نظریۂ تعلیم کا دوسرا اہم مسئلہ خودی کی پرورش ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک تعلیم کا یہ دوسرا مقصد بھی نہایت اہم ہے۔ انسان سازی درحقیقت انسان کی خودی کی پرورش کاہی دوسرا نام ہے۔ اس لیے کہ یہی وہ جوہر ہے جس سے انسان اشرف المخلوقات بنتا ہے۔ انسان میں شعور ذات نہ ہوتو وہ بھی مختلف انواع حیوانات میں سے ایک نوع حیوان ہے۔ اس کے علاوہ اقبالؒ جسم و جان اور تن و توش کی گرانی کو بھی قوت و شوکت کامظہر نہیں سمجھتے۔ اس لیے کہ یہ وجود تو حیوانی غذائیت کی بہتات وافراط سے تشکیل پاتا ہے، بلکہ اقبالؒ انسان کے اندر جذبہ خودی، حریت فکراور ذوق وشوق اورایمان و عزیمت کو انسانیت کاسرچشمہ قراردیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی قوم کی نئی نسل کو پرورش تن کے بجائے پرورش خودی پر ابھارتے ہیں:
رائی زور خودی سے پربت
پربت ضعفِ خودی سے رائی
ایک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں
باقی ہے نمود سیمیائی
بے ذوقِ نمود زندگی، موت
تعمیر خودی میں ہے خدائی
اسی خودی کو بیدار کرنے اور روبہ عمل لانے کے لیے وہ نوجوانوں سے کہتے ہیں:
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا وجام پیدا کر
وہ انہیں صاف صاف تلقین کرتے ہیں کہ علم و ہنر کے لیے ذہنی کاوش کی ضرورت ہوتی ہے اور لباس خوب پہن لینے سے نہ علم حاصل ہوتا ہے اور نہ اقوام کی شوکت و قوت لباسِ خوب میں پنہاں ہے۔
علم و فن را اے جوانِ شوخ و شنگ
مغز می بائد، نہ ملبوسِ فرنگ
ان کے نزدیک خودی ہی آزادی اور بلند پروازی کی بنیاد ہے۔ خودی نہ ہوتو انسانی زندگی جوئے بے آب بن کررہ جاتی ہے۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
تخلیقی صلاحیتوں کا تمام تر انحصار انسان کے اندر خودی اور فکر وعمل کی حریت پر مبنی ہے۔ اگر ذہنی غلامی نے کسی قوم کو دوسروں کا دستِ نگر بنارکھا ہوتو اس کی تخلیقی صلاحیتیں مرجھا جاتی ہیں وہ کبھی بیدار نہیں ہوسکتیں، اس لیے کہ ذہنی غلامی اورخودی بالکل متضاد اثرات اورکیفیات رکھتی ہے۔
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ذوقِ انقلاب
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ملت کا شباب
ندرت فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی،
ندرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارا لعلِ تاب
علامہ اقبالؒ تعلیم کے ذریعہ خودی کو جلا دے کر قوم کے افراد کو جہاد زندگی کے مردانِ غازی بنانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے نظام تعلیم کو روحِ جہاد پیدا کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔
من آں علم وہنر راباپرِ کا ہے نمی ارزم
کہ از تیغ وسپر بیگانہ سازد مردِ غازی را
اس حقیقت کو انہوں نے ایک کرم کتابی اور پروانے کے مکالمے میں بیان کیا ہے۔ اس حکایت میں انہوں نے اس راز خودی کو منکشف کیا ہے جب ایک کرم کتابی پروانے سے کہتا ہے کہ میں نے فارابیؔ، سیناؔ اور غزالیؔ کا مطالعہ کیا اور ان کے اوراق علم و حکمت میں زندگی کو تلاش کرنے کی پیہم کوشش کی لیکن افسوس کہ میں اتنی دماغ سوزی کے باوجوداب تک محروم یقین ہوں اور تاریکی میں بھٹکتا پھرتا ہوں۔ اس کا کیاعلاج ہے۔ اس کے جواب میں پروانے نے جو بات کہی، وہی اقبالؒ کا نظریۂ تعلیم ہے جوہمہ تن تجسس و جستجو ہے۔
تپش می کند زندہ تر زندگی را
تپش می دھد بال و پر زندگی را
چنانچہ استاد کی عظیم ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکیم الامت نے کہا:
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی
۳۔ اقبالؒ کے نظریۂ تعلیم کا تیسرا بنیادی ستون مقصد زندگی کا تعین ہے۔ اقبالؒ کا نظریۂ تعلیم مقصد زندگی کوبنیادی اہمیت دیتا ہے ان کے نزدیک وہ نظام تعلیم عبث ہے جونوجوان نسل کو اس کے مقصد حیات سے بے خبر رکھے۔ مقصد زندگی کے بغیر ہر زندگی بے لنگر جہاز کی مانند ہے جسے خواہشات کے طوفانی اور خام آرزوئوں کے تھپیڑے وقت کے ناپید کنار سمندر میں بھٹکائے پھرتے ہیں۔ اقبالؒ کے خیال میں وہ نظام تعلیم زہر ہلاہل سے زیادہ مہلک ہے جونوجوان نسل کے فکری سفینے کو لنگر مہیا نہ کرے۔ نصب العین کو متعین کرنا، اس کے لیے دلائل فراہم کرنا، اسے اس نصب العین پر مطمئن کرنا اوراسے زندگی کے میدانِ عمل میں اتارنے سے پہلے ایک بامقصد انسان بنا کر تیارکرنا ہرنظام تعلیم کا فریضہ ہے۔
اس سلسلے میں اقبالؒ نے آدم کے آسمان سے زمین پر آنے کے منظر کو مقصد حیات بیان کرنے کا موزوں ترین راستہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس منظر کو پیش کرتے ہوئے روح ارضی کے استقبال میں انھوںنے اس مقصد زندگی کی طرف واضح اشارے کیے ہیں۔ یہ آغاز زندگی کا وقت ہے اور یہی مقصد زندگی کو بیان کرنے کا وقت ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ ساری کائنات انسان کے تصرف میں دی گئی ہے بلکہ یہ اسی کے لیے وجود میں آئی ہے۔ وہ اس کی مددگار اور معاون ہے۔ وہ اس کی دنیوی زندگی کی جدوجہد کے مختلف مراحل میں راہ ہدایت پر چلتے ہوئے اس سے ہم آہنگ ہے اور بے راہ روی میں وہ اس سے متصادم ہے۔ اقبالؒ نے کائنات کا وسیع و عریض میدان قدرت کی طرف سے انسان کے تصرف میں دینے کی طرف بڑے خوبصورت پیرائے میں اشارہ کیا ہے:
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
اور زمین پر اسے اس لیے اتارا گیا ہے کہ:
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تیری پنہاں ہے تیرے خونِ جگر میں
اے پیکرِگل کوشش پیہم کی جزا دیکھ
انسان اپنی زندگی میں جس چیز کی جستجو پر مامور ہے اور جس سے اس کی انسانیت کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے وہ اس کے فن کی دنیا سے یعنی اطمینان قلب جو تمام تر بندگی خالق سے حاصل ہوتا ہے اور انسانی دل جو معبود برحق کی بارگاہ ہے کبھی اطمینان اور سکون سے دوچار نہیں ہوتے۔ جب تک اس کے اندر سے سارے بت نکال کر اسے کعبے کی طرح صاف نہ کیا جائے اوراس میں صرف جلوئہ ربانی کے لیے شہ نشیں تعمیر نہ کی جائے۔ ’’من کی دنیا‘‘ جو سکون و اطمینان سے لبریز دنیا ہو، سب سے عظیم سلطنت ہے۔ یہ سلطنت آج تک کسی سکندر و دارا کوبھی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
من کی دنیا، من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق
تن کی دنیا، تن کی دنیا سود و سودا فکر وفن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھائوں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے شیخ وبرہمن
————
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
یہ ہے وہ نصب العین اور مقصد زندگی جو اقبال اپنے تصور تعلیم کے لیے متعین کرتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ:
’’تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من‘‘
گویا غیر اللہ سے مکمل بغاوت ، صرف اللہ کی اطاعت اور اس کی حاکمیت کا اقرار اور اللہ کی بندگی اور اطاعت انسانی زندگی کا منتہائے مقصود ہے اور انسانی زندگی اطاعت حق سے عبارت ہے۔
۴۔ اقبالؒ کے تصور تعلیم کا چوتھا ستون اجتماعیت سے ربط و وفاداری ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے نظام تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ وہ نئی نسل میں مسلمان معاشرے کی ہمدردی، محبت، وفاداری اور بہی خواہی کا جذبہ پیدا کرے۔ اس لیے کہ:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
چنانچہ معاشرے کے اخلاقی اور معاشرتی قواعد و ضوابط سے آزادی کواقبالؒ نے خطرناک قرار دیا ہے:
اس قوم میں ہے شوخیٔ اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکرِ خدا داد سے روشن ہے زمانہ
آزادیٔ افکار ہے ابلیسؔ کی ایجاد
اپنے تعلیمی تصورات کا اظہار کرتے ہوئے اقبال نے ایک ماہر تعلیم کے نام اپنے خط میں لکھا:
’علم سے میری مرادوہ علم ہے جس کا دارومدار حواس پر ہو۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہیں معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جسے
یقینا دین کے ماتحت ہونا چاہیے۔ اگر علم دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے یہ علم، علم حق کی ابتدا ہے اوروہ علم جو علم حق کی آخری منزل ہے اس کا دوسرا نام عشق ہے۔ مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ علم کومسلمان کرے یعنی بولہب را حیدرِ کرار کن۔‘(
اقبالؒ کے تعلیمی تصورات کے بعض دوسرے گوشے بھی متعین کیے جاسکتے ہیں لیکن ان کی حیثیت توضیحات وتشریحات کی ہوسکتی ہے۔ درحقیقت بنیادی طور پر اقبالؒ کی فکری عمارت کے یہی چار مضبوط ستون ہیں جن کے بغیر عمارت کھڑی نہیں ہوتی۔ اقبالؒ نے مسلمانوں کے لیے جو تعلیمی تصورات مہیا کیے ہیں وہ قرآنی بنیادوں پر قائم ہیں اوران بنیادوں پر مسلمانوں کے لیے ایک جدید نظام تعلیم وتربیت قائم کرنے سے ہی اس ملت کا اضطراب مستقل سکون سے بدل سکتا ہے۔ یہی تعلیمی تصورات ہماری آئندہ نسلوں کے حریت پسند ، حقیقی نظریاتی اور عملی مسلمان مردانِ مجاہد اور قوموں کی امامت کے مقام پر فائز ہونے کے ضامن ہوسکتے ہیں۔
بلاشبہ علامہ اقبالؒ کی تعلیمات امت مسلمہ کی تعمیر جدید اور احیا کے کام میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں اور آج دنیا بھر میں مسلمانوں کی قومی وسیاسی آزادی اقبالؒ کی حریت فکر کی مرہونِ منت ہیں۔
¡¡
محمدشفیق عالم
ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو
جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی
دہلی
Leave a Reply
1 Comment on "اقبال کے تعلیمی تصورات"
[…] 83. اقبال کے تعلیمی تصورات […]