اردو ادب کے دوراولین کی شاعرات
امیر خسرو اردو کے اولین بنیاد گذاروں میں سے ایک ہیں،جن کی گوناگوں صفات اور علمی خدمات کا زمانہ معترف ہے،امیر خسرو کے کلام میں اردو کے کچھ الفاظ ملتے ہیں جسے اردو کا نقش اول کہا جا سکتا ہے،صوفیا وغیرہ بھی وعظ و نصیحت کے لیے فارسی وغیرہ کے ساتھ اردو کے کچھ الفاظ استعمال کرتے تھے،رفتہ رفتہ یہ زبان لکھنے پڑھنے کے قابل ہوگئی،اس میں باضابطہ نثر نگاری اور شعروشاعری کی جانے لگی۔ اردو کی ابتدا سے ایک لمبے عرصے تک اردو ادب شعروشاعری کی شکل میں فروغ پاتا رہا ،ابتدا میں نثر کی طرف زیادہ توجہ نہیں تھی ،اور شعرا حضرات شعرو شاعری میں عمدہ اور دیدہ زیب تخلیق کا جلوہ دکھاتے رہے ۔اور جب ہم دکنی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دکن ابتدا سے ہی بادشاہان و نوابین کا گڑھ رہا ہے اور انہوں نے اردو زبان کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے خاص طور سے قطب شاہی اور عادل شاہی دور کا نام قابل ذکر ہے جنہوں نے اپنے دربار میںشاعروں اور ادیبوں کی دل کھول کر نہ صرف سرپرستی کی بلکہ خود بھی اردو ادب اور خاص طور سے شعر و شاعری میں اعلی ذوق رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ قلی قطب شاہ اردو ادب کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں ،لیکن اس دور کے ادب کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں صرف اور صرف مرد حضرات ہی اردو ادب میں نمایاں کارنامہ انجام دے رہے تھے خواتین کا اس دور میں دور دور تک نام و نشان تک نہیںتھا ،ہاںیہ اور بات تھی کہ جن بادشاہوں،شاعروں یا ادیبوںنے شعرو شاعری کی یا داستانیں لکھیں ان میں عورتیں یعنی صنف نازک کا ذکر ضرور کرتے تھے، کیونکہ غزل کا مطلب ہی ہوتا ہے عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا، اردو شعرو شاعری کی محفلیں بھی اسی لیے منعقد کی جاتی تھیں کہ عورتوں کے ذکر سے لطف حاصل کیاجائے ،اس لیے اس دور کے ادب میں عورتوں کا ذکر تو خوب ہوا لیکن باضابطہ خواتین قلم کا روںکی تخلیقات اس دور میں نہیں تھیں ۔لیکن پھر دھیرے دھیرے حالات بدلے ،زمانہ بدلا اور عورتوں کی تعلیم سے متعلق لوگوں کے نظریات و حالات میں تبدیلی آئی، اس کے بعد خواتین بھی تعلیم کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں، تمام میدانوں میں انہوں نے اپنی علمیت ،قابلیت اور صلاحیت کا جھنڈا لہرایا،خواتین نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھی نمایاں کردار اداکیا ہے اوراردو ادب کے تمام اصناف پر اپنی تصنیف و تالیف کے ذریعے خاطر خواہ اضافے کیے ہیں ،بہت سی ایسی خواتین ہیں کہ جن کے ذکر کے بغیر اردو زبان و ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی جب بھی اردو ادب کا ذکر آئے گا یا اس کی تاریخ پر بات کی جائے گی تو خواتین کے ذکر اور ان کے ادبی کارناموں کے بغیر تاریخ نامکمل رہے گی ۔پچھلے ایک صدی سے عورتوں نے اردو زبان کو فروغ دینے میں اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین نے سماجی ،سیاسی،ادبی اور معاشرتی غرض کہ تمام طرح کی سر گرمیوں میں حصہ لیا،اور اپنی علمی و ادبی صلاحیت کی بنیاد پر اپنی الگ شناخت اور پہچان قائم کی ہے۔
اردو زبان و ادب کے فروغ میں دو ایسی خواتین شاعرہ گزری ہیں جنہیں اردو کی پہلی باضابطہ خاتون شاعرہ کہا جا سکتا ہے، ماہ لقا چندا بائی اور لطف النساء بیگم ، ماہ لقا چندا بائی کا ذکر تو تاریخوں میں ملتا ہے اور ان پر کئی تحقیقی مضامین بھی لکھے گئے ہیں، ان کا دیوان بھی کئی مرتبہ شائع ہو چکا ہے ،لیکن امتیاز کے حالات زندگی اور ان کے کلام پر تحقیقی کام اور کلیات کی اشاعت پہلی بار ۲۰۰۵ میںہوا،اوران کے دیوان کا واحد قلمی نسخہ کتب خا نہ حیدرآباد میں موجود ہے ، نصیرالدین ہاشمی نے اپنی کتاب ــــــ’’اردوقلمی کتابوں کی وضاحتی فہرست‘‘مرتبہ ۱۹۵۸ میں سب سے پہلے امتیاز کا مختصر تعارف اس طرح کرایاہے۔
ْْْْْْْْ’’ امتیاز دکن کا شاعر تھا ہم کو یہ نہیں معلوم کہ وہ کس کا شاگرد تھا ،اس کا حال کسی قدیم یا جدیدتذکرے میں نہیں ہے، آخری شعر لفظ ’’کنیز‘‘ آیا ہے،اس سے خیال ہوتا ہے ممکن ہے کہ امتیاز کوئی شاعرہ ہو،آگے چل کر نصیرالدین ہاشمی نے اپنی کتاب ’’دکن میں اردو ‘‘ میں لکھتے ہیں، لطف النساء بیگم نام اور تخلص امتیاز تھا،ان کا وطن حیدرآبادتھا ،اور ماں کاانتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا، ان کی پرورش شاہی خاندان میں ہوئی، اور اسد علی خاں تمنا سے ان کی شادی ہوئی ،مگر جوانی میں ہی بیوہ ہو گئیں،بیسویں صدی کے ربع اول کے بعد کے تذکرہ نگاروں نے جیسے شمس الدین قادری ،ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور اور عبدالقادری سروری نے بھی امتیاز کے بارے میں کوئی خاطر خواہ معلومات فراہم نہیں کیں ہیں،جس کی وجہ سے ایک عرصے تک ماہ لقا ء چندا بائی کو اردو کی پہلی شاعرہ سمجھا جاتا رہا ،جس طرح ڈاکٹر زور کی تحقیق نے ولی کے بجائے محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر قراردیا ،اسی طرح دیوان امتیاز دستیاب ہو جانے کے بعد پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہونے کا سہرا امتیاز کے سر جاتا ہے ،چندا نے اپنا دیوان ۱۲۱۳ میں مرتب کیا اس کی ایک سال کی اولیت سے امیتاز اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ قرار پائی ہیں،مجلہ عثمانیہ دکنی ادب ضمیر ، شعبہ اردوجامعہ عثمانیہ ۱۹۹۳ میں امتیاز اور اس کی شاعری پر ڈاکٹر اشرف رفیع نے ایک تفصیلی مضمون تحریر کیا ہے، اس مضمون میں وہ امتیاز کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں ۔
’’ کل کی تحقیق نے ماہ لقاء چندا بائی کو پہلی صاحب دیوان شاعرہ کا رتبہ عطا
کیا مگر آج اسی تحقیق نے لطف النساء امتیاز کے سر پر اولیت کا تاج رکھا ہے‘‘
امتیاز کے حالات زندگی کے بارے میں جو بھی معلومات دستیاب ہوئی ہیں اس کا واحد ذریعہ ان کے دیوان میں موجود مثنوی ہے، اس مثنوی میں ہمیں امتیاز کے پیدائش سے لے کر حیدرآبادمنتقل ہونے تک کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے، اردو ادب کے لیے امتیاز کا یہ دیوان ایک انمول عطیہ ہے ،امتیاز ایک قادرالکلام اورپر گو شاعرہ تھیں، جس نے اپنے آپ کو صرف غزل گوئی تک محدود نہیں رکھا بلکہ پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کی طرح انہوں نے اردو شاعری کی ہر صنف میںطبع آزمائی کرتے ہوئے اپنا ایک مکمل کلیات یادگارچھوڑا ہے ، امتیاز کو کم و بیش سارے اصناف پر عبور حاصل تھا۔ان کے دیوان کا چند اشعار مثال کے طور پر ملاحظہ ہو۔
ہے زیب آور تخت و ہ تاجدار
سکندر مثال و سلیمان عصر
ہے دارائے ثانی شہ نامدار
ہے آصف اسی دور کا بے شبہ
شجاعت کے میدان میں جولاں ہو گر
تو اٹھ جائے رستم دلوں سے قرار
امتیاز کے دیوان میں شامل مثنوی کے علاوہ قصیدہ جات ، مخمسات، مسدسات،قطعات،رباعیات،مثمن،منقبت،نثری مسجع ومقفع عبارت فارسی غزل و قطعہ بھی شامل ہیں ،جس کے مطالعہ سے ان کی علمی و ادبی قابلیت کا پتہ چلتا ہے ۔
بعض محققین کے مطابق ماہ لقاء چندا بائی کو اردو ادب کی خواتین میں دوسرا درجہ دیا جاتا ہے، ماہ لقا اپنے زمانے کی ایک مشہور اور اچھی شاعرہ تھی ،ان کا پورا نام ماہ لقا چندا بائی تھا ،اور تخلص چنداکرتی تھی، چندا کی پیدائش۱۱۷۸ میں ہوئی،چندا میں علمی و ادبی صلاحیت بہت اچھی تھی ،شعرو شاعری میںاعلی درجے کا ذوق رکھتی تھی اس کے علاوہ موسیقی میں بھی مہارت تھی،’’شیر محمد خاں ایماں‘‘سے اصلاح لیتی تھی، صاحب گیر منصب تھیں، بڑے بڑے امرا،شعرا،ادبا ء اس کے موسیقی کے جلسے میں شریک ہوتے اور داد و تحسین سے نوازتے ،اور ان کی تعریف میں نظم کہتے تھے ،چندا کی فرمائش پر دکن کی ایک تاریخ(تاریخ دل افروز ) کے نام سے مرتب ہوئی،چندا کو مردانہ کھیلوں،تیراندازی،گھوڑسواری اور ورزش وغیرمیں بھی کافی مہا رت تھی، ارسطو جاہ کے حکم سے ۱۲۱۳ میںان کا ایک دیوان مرتب ہوا اس دیوان کے کچھ اشعار درج ذیل ہے۔
آتا نہیں ہے خواب میں بھی یاراب تلک
ہیں منتظرکی دیدئہ بیداراب تلک
سب میکدہ میں مست ہیں پر ایک تجھ سوا
دیکھا نہ ایسے دورمیںہشیار اب تلک
درج بالا اشعار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماہ لقا اپنے دور کی نہایت اعلی درجے کی با ذوق شاعرہ تھی،ماہ لقا اپنے زمانے کی نہایت خوبصورت ، حسین وجمیل اوربہترین رقاصہ تھی، وہ اپنی عشوہ ناز سے آدمیوں کومسحور کر دیا کرتی تھیں، یعنی جس نے بھی اسے دیکھا وہ اس کا اسیر ہو گیا ۔
اس طرح مجموعی طورپر ہم کہ سکتے ہیںکہ ماہ لقا چندا بائی اور لطف النساء امتیاز دونوں کا شمار اردو ادب کی اولین خواتین شاعرہ میں ہوتا ہے ،اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دونوں کا ایک ہی دور تھاصرف ایک سال کے آگے پیچھے کا فرق تھا،اس لیے محققین نے اپنے اپنے طور پر تحقیق کر کے کسی نے ماہ لقا چندا بائی کواول خاتون کا درجہ دیا تو کسی نے لطف النسابیگم کو،لیکن دونوں نے ہی اپنی علمی و ادبی کاوشوں سے اردوادب کے فروغ میںنمایاں کردار ادا کیا۔
شوخ: اصل نام گنا بیگم تھا،لیکن شوخ تخلص کرتی تھیں، نہایت حاضر جواب شوخ اور بذلہ سنج تھیں،جب بات کرتیں تو ایسا لگتا کہ ان کے منہ سے پھول جھڑرہے ہیں،اور بروقت ایسا جواب دیتیں کہ ان کی حاضر جوابی کو دیکھ کو لوگ عش عش کرنے لگتے،شعر وشاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا،میر قمرالدین منت سے اصلاح لیا کرتی تھیں،اس بات کا ذکر شیفتہ نے تذکرہ ـــ گلشن بے خار اور صاحب تذکرہ چمن انداز نے کیا ہے،اور یہی مستند بھی ہے۔
شوخ کے کلام سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ ایک نہایت اعلی اور فطری شاعرہ تھیں ،ان کے کلام میں شوخی اور بذلہ سنج کے تمام لطف موجود ہیں،چند اشعار ملاحظہ ہو
نیم بسمل نہ چھوڑجانا تھا ہاتھ ایک اور بھی لگانا تھا
یا الہی یہ کس سے کا پڑا دل تڑپتا ہے صبح و شام پڑا
خفی: نام بادشاہ بیگم تھا، لیکن تخلص خفی کرتی تھیں،صاحب تذکرہ چمن انداز نے لکھا ہے کہ خفی کو اردو ،فارسی اور انگریزی تینوں زبانوں پر اچھی دسترس تھی ،اور تینوں زبانوں میں شاعری بھی اچھی کرتی تھیں،نیز وہ ایک اچھی خوش نویس بھی تھیں،شعر وشاعری میں لوگوں کی اصلاح بھی کرتی تھیں،مگر ہر کسی کی نہیں،صرف جن سے اچھے تعلقات ہوتے تھے ان کے کلام کی اصلاح کرتی تھیں،تذکرہ چمن انداز کی تصنیف کے وقت خفی زندہ تھیں،ان کا کچھ کلام درج ذیل ہے۔
خود شوق اسیر سے پھنسے دام میں صیاد شرمندہ تیرے ایک بھی دانے کے نہیں ہم
اے خفی اپنے اشک بے تاثیر مفت میں جگ ہنسائی کرتے ہیں
پنہاںـ: آپ کا پورا نام سپرا آرا خاتون تھا،اور تخلص پنہاں کرتی تھیں،آپ بریلی کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھیں،آپ کو اردو ،فارسی اور انگریزی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا،جو انہوں نے اپنے والد سے حاصل کیا تھا،وہ اپنے وقت کی بہترین شاعرہ تھیں،نیز نثر بھی کافی خوش اسلوبی سے لکھا کرتی تھیں،فارسی زبان میں بھی اچھی شاعری کرتی تھیں،شاعری میں اصلاح قبلہ ماجد علی سے لیتی تھیں،دس سال کی عمر سے ہی مضمون لکھنا شروع کیا،ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں آپ کے مضامین شائع ہوتے تھے،شاعری اور نثر دونوں کو ابتدا سے ہی لوگوں نے کافی پسند کیا،یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی علمی وادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا،آپ کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
سیہ ہے ایک یاس کا صحرا لیے ہوئے دل رنگ گلستا ں تمنا لیے ہوئے
ہے آہ درد و سوز کی دنیا لیے ہوئے طوفاں اشک خوں گریاں لیے ہوئے یہ اشعار انہوں نے اپنے والد کی وفات پر کہے تھے،جن سے ان کے رنج و غم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
عابدہ :عابدہ کا اصل نام امرائو بیگم تھااور تخلص عابدہ اختیار کرتی تھیں، عابدہ کو اردو اور فارسی دونوں زبانوں پر قدرت حاصل تھی،اور دونوں زبانوں میں اعلی درجے کی شاعری بھی کرتی تھیں،تحقیق کے مطابق آپ نے اردو اور فارسی دونوں میں دیوان چھوڑے ہیں،اور ایک مثنوی بھی شکار کے متعلق لکھا ہے،مثال کے طور پر عابدہ کے چند اشعار تذکرۃ الخواتین سے لیے ہیں۔
یہ کرامت اس کی ہے جو پا کہ خود فرمادیا تاقیامت رحمت باری خلاق باری قبر کو
کشتہ ہیں اے لاغری ہم رنگ گندم گوں کے جو ہے شکم گندم کی بس کافی ہماری قبر کو
اختر : اختر کا نام سید سردار بیگم اور تخلص اختر تھا،ختر کو اردو ادب سے گہری دلچسپی تھی،اور اردو ادب کی ایک قابل قدر ادیبہ ،بہترین مقررہ اور نہایت خوش گو شاعرہ تھیں،ادب کے علاوہ ان کی دلچسپی سیاست میں بھی تھی،آپ کی زندگی زیادہ تر قومی خدمات میں صرف ہوئیں،مسلم لیگ کے ایک جلسہ میں انہوں نے اپنی تقریر سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا،اور اس تقریر سے مولانا عبد الحامد بدایونی اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ کو ’’ خطیبہ ہند ‘‘سے نوازا۔
اختر نے اپنی شاعری کے ذریعے پیام واصلاح کا کام لیا ہے،اختر علامہ اقبال کے کلام سے بہت زیادہ متاثر تھیں،اختر نے غزلیں اور نظمیں دونوں اچھی خاصی تعداد میںلکھی ہیں،ان کی نظموں کو غزلوں کے مقابلے میں زیادہ لوگوں نے پسند کیا ہے۔
مختصر طور پر ہم یہ بات کہ سکتے ہیں کہ اختر نے اردو ادب کے لیے جو بیش بہا خدمات انجام دی ہیںاس پر اردو شاعرات کی دنیا ناز کر سکتی ہے،آپ نے سنگاپور میں ایک مسلم لڑکی کو محو رقص دیکھ کر ایک نظم قلم بند کی تھی،اس کے چند اشعار مثال کے طور پر پیش ہیں۔
حسن کی عریانیاں باعث فخر و کمال عظمت انسانیت آہ یہ تیرا زوال
کاش کہ ملتا مجھے جلوئہ ماضی تیرا آہ ودیعت ہوا مجھ کو تیرا عہد حال
اسی طرح اردو زبان و ادب کے ابتدائی دور کی اور بھی کئی شاعرات ہیں جنہوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے،ان تمام کاذکر اور ان کی شاعری سے متعلق گفتگو ایک چھوٹے سے مقالے اور اتنے کم وقت میں ممکن نہیں،اردو زبان وادب آج جس تناور درخت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے،اسے سینچنے،سنوارنے میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین قلمکاروں نے بھی اہم کرداراداکیا ہے،بالکل ابتدائی دور میں اردو زبان وادب کے آسمان پر مرد حضرات کا ہی غلبہ اور بول بالا تھا ،لیکن جب خواتین کو اپنی بات کہنے اور اپنی تخلیقات کو منصئہ شہود پر لانے کا موقع ملاتو انہوں نے بھی تمام اصناف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،اور اردو زبان وادب کے فروغ میں اہم کردار اداکیا۔
۔۔۔۔۔۔
سروری خاتون
ریسرچ اسکالر ،جامعہ ملیہ اسلامیہ
Leave a Reply
Be the First to Comment!