اکبر کی شاعری کی خصوصیات

اکبر کا نام نامی اسم گرامی سید اکبر حسین اکبر تھا۔ ان کا تعلق یوپی کے معزز اور خوشحال خانوادے سے تھا۔ ان کے والد محترم کا نام سید تفضیل حسین تھا۔ اکبر ۱۶ نومبر ۱۸۴۶؁ء بہ مقام موضع بارہ ضلع الہ آباد تولّد پذیر ہوئے۔ گھر کا ماحول بہت مذہبی تھا ۔ زمانے کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ عربی، فارسی، اردو انگریزی اور ریاضی کی ابتدائی کتابیں انہوں نے گھر ہی میں پڑھی تھیں۔ریاضی سے بہت ہی دلچسپی تھی۔ ذاتی لیاقت اور شغف کی بنا پر انگریزی سے بھی ا چھی واقفیت حاصل کر لی تھی۔

عملی زندگی کی شروعات عرض نویسی سے کی۔ ۱۸۶۶؁ء میں مختاری کا امتحان پاس کیا۔ اور سرکاری ملازمت میں نائب تحصیل دار ہو گئے اور پھر ترقی کرتے کرتے ۱۸۸۱؁ء میں منصف کے عہدے تک پہنچے۔ ۱۸۹۴؁ء میں سیشن جج بنائے گئے لیکن ۱۹۰۳؁ء میں خرابی صحت کی بنیاد پر قبل از وقت پینشن لے لی اور شعری ادب کی آبیاری کرتے ہو ئے عملی زندگی گزارنے لگے۔ ۹ دسمبر ۱۹۲۱؁ء کو الہٰ آباد ہی میں داعی اجل کو لبیک کہا اور وہیں مدفون ہوئے۔

اکبر نے اپنی شاعری کا آغاز سنجیدہ شاعری سے کیا پھر طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب اختیار کیا اور اس میں اپنا وہ مقام بنا لیا کہ ان کی سنجیدہ شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی گئی اور وہ طنزیہ اور مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے مشہور ہو گئے۔ اکبر نے اپنی شاعری میں معاشرے کے ان رویوں، ان خیالات پر طنزیہ و مزاحیہ انداز میں اظہار خیال کیا جن میں توازن نہیں تھا انہوں نے اس پر زور دیا کہ ہمیں اپنے مذہب ، اپنی تہذیب اور قدروں کی بنیاد پر ترقی کرنی چاہیئے۔

اکبر کی شاعری کو رشید احمد صدیقی نے اپنے مخصوص انداز میں خراج تحسین پیش کیا اور کلیم الدین احمد نے اکبر کی شاعری کو صحیح تناظر میں دیکھا۔ اب تک جس نہج پر اکبر کی شاعری پر تنقید کی جا رہی ہے اس میں خوش گوارتبدیلی آئی ہے۔ اکبر نے طنز و مزاح کی روایت کو آگے بڑھایا اور اردو شاعری میں اپنے اسلوب، موضوعات اور زبان سے گرانقدر اضافہ کیا۔ اکبر نے شاعری کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی۔ مثلا غزل، قطعات، رباعیات، نظمیں اور بے قافیہ نظمیں وغیرہ ۔ لیکن انہوں نے اپنی شاعری کی ابتدا غزل گوئی سے ہی کی۔ ان کے ابتدائی کلام میں رنگینی ہے، شوخی ہے، غزل کے روایتی لب و لہجے میں ہجر و وصال کے بیان ہیں، زبان کا چٹخارہ، رعایت لفظی کا اہتمام اور دوراز تشبیہات ہیںمگر وقت کے ساتھ ان کی غزلوں میں اعلیٰ مضامین کے علاوہ گہرائی اور تہ داری آتی گئی۔ غزل کا سب سے بڑا وصف تغزل ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں جس جذبات کا اظہار کیا جائے وہ فطری ہوں۔ ان کو بیان کرنے میں شاعر ایک خاص تہذیب اور نظم و ضبط کو ملحوظ رکھے۔ شعر میں لطافت اور درد مندی بھی ہو۔ اکبر کی غزلیں ان سب خصوصیات کی آئینہ د ار ہیں۔

غزل ایسی پڑھو جو ہو اعلیٰ مضامین سے کرو     اب دوسرے کوچے میں اے اکبر گزر اپنا

اگرچہ غزل گوئی ان کا مزاج نہیں تھا مگر پھر بھی ان کی غزلیں عامیانہ یا معمولی سطح کی نہیں ہیں۔ غزلوں میں جذبات نگاری ایسی ہیں جیسے خود پر گزری ہو۔ سیدھے سادے الفاظ ہیںاور بیان میں سادگی اور صفائی نمایاں ہیں۔ اکبر فطری شاعر تھے اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا جادو ان کی طنز و مزاح کی شاعری میں اپنی بلندیوںپر نظر آتا ہے۔ اکبر اپنے مزاج سے انسان دوست اور وطن پرست تھے۔ اس لئے انہوں نے شاعری صرف ہنسنے ہنسانے کے لئے نہیں بلکہ اسے سماجی اصلاح کا وسیلہ بنایا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کے منفی اثرات اجاگر کئے۔ یوں کہیے کہ انہوں نے اپنے پر مزاح اشعار سے وہ کام لیا جو بڑے بڑے مصلح اپنی تقریروں سے نہ لے پاتے۔اکبر کی شاعری پر مزاح شاعری ہے مگر ان کے مزاج میں متانت اور سنجیدگی کی چاشنی اور مقصدیت کی لپک ہے۔ گویا ظرافت اور مقصد لازم و ملزوم ہیں۔ ان کی شاعری میں طنز و مزاح کے ایسے نمونے ملتے ہیں جوز ندگی کے مختلف شعبے مثلا سماجی، سیاسی، مذہبی، معاشی، تہذیبی و ثقافتی پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ طنز و مزاح کے پیرائے میں انہوں نے زندگی اور سماج کی ایسی تلخ حقیقتوں کو پیش کیا ہے جس سے ہمارا ملک اس وقت دو چار ہو رہا تھا۔ایک شاعر کی حیثیت سے اکبر کو اردو ادب میں وہ مقام حاصل نہیں ہوا جس کے وہ حقدار تھے۔ عام طور پر انہیں طنز و مزاح کا شاعر کہا جاتا ہے اور ان کی شاعری کو اسی صنف میں رکھ کر اس کی وقعت سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ عام قارئین ان کی مزاحیہ شاعری کا مطالعہ کرکے چند لمحوں کے لئے لطف اندوز ہو کر سرسری گذر جاتے ہیں اور ان کی گہرائی میں نہیں اترتے ۔ لیکن اس طرح ان کی شاعری کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ اکبر کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے لئے گہرا تنقیدی شعور اور سماجی بصیرت درکار ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان کی قدیم تاریخ اور اس دور کے سماجی اور سیاسی حالات کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ اکبر کی شاعری اپنے دور کی شاعری کی ترجمان اور اس وقت کے ماحول کی پیدا وار ہے جب ہندوستان پر برطانوی حکومت اور نئی ایجادات سے متاثر ہو کر تغیر و تبدل کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اکبر نے اپنی ظریفانہ شاعری میں زندگی کے نشیب و فراز پر نظر ڈالی ہے۔ اورروحانیت، جوش، اندھی تقلید، غلامانہ ذہنیت، بدکرداری اور بد اخلاقی کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے انتہاء پسندی پر بھی طنز کیا اور اپنے دور  میں مغرب کی نقالی اور نئی نسل کی اپنے زمانے سے بے گانگی کو بھی سامنے لائے ہیں۔اپنی شاعری کو اکبر نے تصنع اور نازک خیالی سے نہیں سجایاہے بلکہ عمومی مضامین کو اپنے اشعار میں ڈھال کر اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ مخصوص الفاظ کی ان کی ایک اپنی فہرست ہے اور شیخ، بدھو، جمن، اونٹ، ٹٹو، گائے وغیرہ کی اصطلاحوںمیں انہوں نے معاشرے میں اور معاشرتی زندگی کی کمزوریوں کو ابھارا ہے اور بڑے لطیف پیرائے میں طنز بھی کیا ہے مگر یہ طنز ناگوار نہیں گزرتا ہے۔

اکبر کی شاعری میں وہ بات زیادہ اہم ہوتی ہے جو شعر کے پس منظر میں ہوتی ہے اسی لئے ان کی شاعری کے اصل معنی تک رسائی مشکل سے ہو پاتی ہے۔ ہمارے دماغ اس بات کو قبول کر لیتے ہیں جو سامنے ہوتی ہے اس کے پس پردہ جھانکنے کی عام طور پر کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ اکبر نے لمبی نظمیں اور قطعے بہت کم کہے ہیں ۔ ان کی شاعری زیادہ تر چھوٹے چھوٹے قطعوں ، نظموں ، رباعیوں اور مفرد اشعار پر مشتمل ہیں۔ لیکن وہ اکثر ایسے شعر تراشتے ہیں جو نشتر کی طرح دلوں میں چبھتے ہیں۔ اکثر یہ اشعار اور قطعے دماغ میں ہیجان برپا کر دیتے ہیں اور ایک وسیع منظر سامنے لا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔

اکبر الہٰ آبادی کی شاعری میں طنزیہ عناصر ، علامت نگاری، اشاریت، نئے ادب و نظریات کی مخالفت وغیرہ خاص اہمیت کے حامل ہیں جس سے اکثر لوگ نا واقف ہیں۔ لیکن ان کے کلام کی ایک بہت بڑی خصوصیت جس پر عام قارئین و ناقدین کی توجہ کم رہی ہے وہ ہیں ان کی ذو معنی شاعری، ذو معنی سے مراد دو معنوں والا ہے مثلا وہ بات جس میں کئی پہلو یا کئی معنی نکلتے ہوں جس کے تحت شاعر اپنے خیالات کا اظہار بھی کر دیتا ہے اور اسے کوئی نقصان بھی نہیں پہنچتا۔

اکبر کا دور وہ دور تھاجس میں اپنی آواز کو ادنی سطح پر بلند کرنا برطانوی حکومت کے لئے ناگوار تھا۔ اس لئے انہیں علامتوں، اشاروں ، کنایوں او ر طنز و مزاح کا سہارا لینا پڑا اور اس طرح ان کی شاعری کے دو معنی ظاہرہوتے ہیں۔ ایک تو سطحی معنی جو سرسری ہوتا ہے اور جلد ہی گرفت میں آجاتا ہے اور دوسرا جو تھوڑا غور و فکر اور ذہنی ورزش کے بعد برآمد ہوتا ہے۔ اکبر کے یہاں ایسے اشعار بے شمار ہیں۔

دھن دیس کی تھی جس میں گاتا تھا اک دیہاتی       بسکٹ سے ہے ملائم پوری ہو یا چپاتی

 یہاں بسکٹ ، پوری ، چپاتی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ یوں تو ہم سبھی واقف ہیں کہ پوری اور چپاتی بسکٹ کے بہ نسبت زیادہ نرم ہوتی ہیں اور دیہات کے لوگ پوری اور چپاتی کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ تو عام معنی ہیں لیکن اس کے اصل معنی و مفہوم کی طرف کم توجہ دیتے ہیںجس کی وضاحت کے لئے مزیدگہرائی میں جانا پڑے گا۔ ذرا غور کیجئے  بسکٹ سے انگریزوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ پوری ہندوؤں اور چپاتی مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مثلا ہندوستانی خواہ مسلم ہو یا ہندو انگریزوںکے بہ نسبت زیادہ رحم دل ہیں اور ان کے برعکس برطانوی حکمراں بے حد سخت اور ان کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں۔

پہلے مصرعے میں دیس کا ذکر آیا ہے جو کہ راگ کی ایک قسم ہے جس سے اکبر کے علم موسیقی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اکبر کی شاعری کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ ان کی شاعری میں اپنے عہد کے تمام رجحانات کی عکاسی ملتی ہے چاہے وہ سیاسی ہوں یا سماجی۔ اکبر سرکاری نوکر تھے اور پنشن خوار بھی، وہ حکومت سے ڈرتے بھی تھے اور اپنی صفائیاں بھی دیتے تھے مگر اس کے خلاف اپنی شاعری میں جو کچھ کہہ دیا وہ اس وقت کے بڑے بڑے لیڈر بھی کہتے ہوئے جھجھکتے تھے۔ انہوں نے سامراج کے جبر و استبداد اور ہندوستان میں غیر ملکی حکومت کے معاشی و اقتصادی استحصال کے خلاف آواز بلند کی ۔

تمھارے فریادیوں کو دیکھا    تمہارے عذرات بھی سنے ہیں

خفا نہ ہو جاؤ تو یہ پوچھوں      کسی کا دل تم سے شاد بھی ہے

                                           اگرچہ ظلم سے دل مائل فریاد ہوتا ہے

                                          مگر کہنا ہی پڑتا ہے بجا ارشاد ہوتا ہے۔

جب تحریک ترک موالات شروع ہوئی تو حکومت نے اسے شدت سے کچلنا چاہا۔ اکبر کو حکم ملا کہ اس کے خلاف شعر کہو۔ اکبر انگریزی حکومت کے پنشن یافتہ تھے انہوں نے اس پر جو احتجاج کیا وہ ان کے کرب کا اظہار ہے۔

بھرتے ہیں میری آ ہ کو فوٹو گراف میں       کہتے ہیں فیس لیجئے اور آہ کیجئے

انگریزوں کی رائج کردہ تعلیم پر اس سے اچھا طنز اور کیا ہو سکتاتھا۔

اجسام کے فنون کا کرتے ہیں خود عمل

اجرام کے علوم کا دیتے ہیں ہم کو درس

اپنی شاعری میں انہوں نے نہ صرف ہر سیاسی واقعے کا ذکر کیا ہے بلکہ اس پر اپنے نقطہء نظر سے تبصرہ بھی کیا ہے۔ چاہے مسجد کانپور کا قصہ ہویاجلیان والا باغ کا خونی حادثہ، تحریک ترک موالات ہو، یا گئو رکھشا کی تحریک ، زبان سے متعلق اختلافات ہوں یا شیعہ سنی جھگڑے، مسلم لیگ ہو کہ گانگریس، بنگال کی تحریک تقسیم ہو کہ تحریک خلافت۔

بھائی صاحب تو ادھر فکر مساوات میںہیں

شیخ صاحب کو سنا ہے کہ حوالات میں ہیں۔

اکبر نے ملک و قوم کی اصلاح کے لئے شاعری کی جس میں وہ ہندو مسلم سب سے ہی مخاطب ہوئے مگر روئے سخن زیادہ تر مسلمانوں ہی کی طرف ہے ۔ اکبر کی شاعری کا بنیادی مقصدجیسا کہ کہا گیا قوم کی اصلاح تھا لیکن ان کے کلام میں ایسی نظمیں بھی موجود ہیں جو کسی تبلیغی مقصد کے لئے نہیں کہی گئیں ہیں۔ ایسی نظموں میںجلوہ دربار دہلی، پانی کا بہاؤ اور برق کلیسا خصوصیت سے قابل ذکر ہیںاور ان کی ادبی حیثیت مسلّم ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی کو طنز و مزاح کے شاعر کے طور پر جانا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی انسان دوستی اور حب الوطنی کے جذبات کی بھرپور پذیرائی نہیں کی جا سکی ہے۔ اکبر کی مزاحیہ شاعری سے لطف تو سبھی پڑھنے والوں نے اٹھایا لیکن اس طرف کم ہی لوگوں کی توجہ گئی ہے کہ اکبر اس دور میں جی رہے تھے جو ہماری جدوجہد آزادی کا دور تھا۔ وہ ہندوستانی تھے مگر انگریزوں کی حکومت میں ایک ذمہ دار عہدے پر تھے اور بطور ہندوستانی وہ بھی ملک کی آزادی کے خواہاں تھے لیکن سرکاری ملازمتوں کی بندشوں سے نہ تو تحریک آزادی میں حصہ لے سکتے تھے اور نہ ہی تحریر و تقریر کے ذریعے اپنی وطن پرستی کا کھل کر اظہار کر سکتے تھے ۔ وہ ذہین آدمی تھے اور شعر گوئی کی خداداد صلاحیت ان میں موجود تھی۔ انہوں نے براہ راست اپنے جذبوں کا اظہار کرنے کے طنز و مزاح کے سائے میں اپنی وطن پرستی اور سماجی اصلاح کا جادو جگایا۔

وہ مذہبی آدمی تھے مگر انتہاء پسند نہ تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہر ہندوستانی وطن سے محبت اور اپنے مذہب کی حفاظت کرے، بزرگوں کا ادب کرے، ماضی سے واقف ہو، حال کو پرکھے اور بہتر مستقبل ساخت کرے۔ مشرقی تہذب پر مغربی تہذیب کا غلبہ انہیں کسی طرح بھی گوارا نہیں تھااس لئے انہوں نے کہا:

راہ مغرب میں یہ لڑکے لٹ گئے       وا ں نہ پہنچے اور ہم سے چھٹ گئے

 پرانی روشنی میں اور نئی میں فرق اتنا ہے     اسے کشتی نہیں ملتی اسے ساحل نہیں ملتا

مغربی تہذیب کے اثرات سے کون بے خبر ہے۔ مشرقی تہذیب کا زوال اور مذہب بیزاری ایک عریاں حقیقت بن کر سامنے آچکی تھی۔ نمود و نمائش، منافقت، مذہبی پیشواؤں کی ریا کاری، سیاسی حکمراؤں کے خوش نمااوردلفریب وعدے، تعلیم و تہذیب کے نام پر پرانی قدروں کی پامالی اور حقوق نسواں کے پردے میں عورت کو شمع خانہ سے شمع انجمن بنانے کی کوشش سب کے سامنے کی باتیں ہیںلہذا اکبر جب ان موضوعات پر اپنے خاص انداز میں روشنی ڈالتے ہیں تو ان کی باتیں ہمارے دلوں پر اپنا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ ہمیں اکبر کی بعض باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ہمیں ان کے خلوص پر شبہ نہیں ہوتا۔

انہیں مغربی تہذیب اور اس کی تمام نشانیوں سے چڑھ تھی۔ اس تہذیب کی لائی ہوئی بے شرمی اور بے حیائی پر حد درجہ افسردہ تھے ۔ قوم کی بچیوں کی آزادی اور بے پردگی کے سخت مخالف تھے۔ بہت سے اشعار میں عورتوں کی بے پر دگی اور ان کے شمع انجمن بن جانے پر طنزیہ لہجے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔

بے پردہ نظر آئی جو کل چند بیبیاں           اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھاجو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا        کہنے لگیں کہ عقل پر مردوں کے پڑ گیا

اکبر کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے ۔ زبان قابل تعریف حد تک پاکیزہ اور شستہ ہے ۔ روزمرہ کے محاوروں کا استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے۔ وہ اپنے مفہوم کو بہتر طور سے ادا کرنے اور اس کی معنویت میں وسعت پیدا کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے طنز میں کیسے نشتریت پیدا ہو سکتی ہے۔ اور کب کون سا حربہ ان کے طنز کے لئے زیادہ کارگر ہو گا۔ اکبر نے لفظوں کے الٹ پھیر سے طنزیہ کیفیت پیدا کی ہے لیکن لفظوں کے اس کھیل میں بھی ان کی ذہانت اور کنانیت نے ایسا اثر پیدا کر دیا ہے جو کسی اور شاعر کے یہاں نظر نہیں آتا ۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے ایک مضمون لکھا     شہر میںنے مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

اکبر نے کبھی کبھی ایسے قافیے استعمال کئے ہیںجن سے ان کے اشعار کی معنویت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ قافیے بڑے چست اور معنویت سے بھر پور ہیں۔

اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے            لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے

اکبر انگریزی کے الفاظ طنزیہ حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ الفاظ اردو زبان میں ذرا بھی اجنبی معلوم نہیں پڑتے۔ یہ الفاظ اپنے مخصوص کردار اور ماحول کے پس منظر کے ساتھ ساتھ اشعار کی معنویت میں اضافہ کر دیتے ہیںاور ان سے اشعار کی روانی اور برجستگی میں ذرا بھی فرق نہیں پڑتا۔

کوٹھی میں جمع ہے نہ ڈپازٹ ہے بینک میں       قلاش کر دیا ہے مجھے دو چار تھینک نے

اکبر کے طنز میں سارا کھیل لفظوںکے الٹ پھیر کا ہی نہیں ہے اکثر خیال مضحکہ خیز ہوتا ہے اور وہ خیال و موادکے تیکھے پن سے مضحک پہلو نکال لیتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار میں خیال اور مواد کا تیکھا پن ہی ہمیں چونکاتا ہے۔ اسلوب ہمیں اپنی طرف متوجہ نہیں کر پاتا۔

شیخ کے دونوں بیٹے با ہنر پیدا ہوئے        ایک ہیں خفیہ پولیس میں ایک پھانسی پا گئے

اس طرح اکبر نے اسلوب اور مواد دونوں کو ہی طنزیہ حربے کے طور پر استعمال کرکے سماج میں پائے جانے والے تضاد و عدم توازن ، عالمگیر حماقتوں اور مغربی تہذیب کے مظاہر و آثار پر طنز کے تیر چلائے ہیں۔ فنکارانہ بصیرت کے ساتھ ساتھ اکبر کے بے پناہ خلوص و ہمدردی نے ان کی شاعری کو وہ عظمت عطا کی کہ شاعری کے اس مخصوص میدان میں آج تک کوئی ان کا حریف و مقابل نہیں پیدا ہو سکا۔

ڈاکٹر ناصرہ سلطانہ

شعبئہ اردو

دہلی یونیورسٹی

مو بائل : ۸۱۳۰۶۴۶۲۱۲

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.