پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ بحیثیت اقبالؔ شناس
علاّمہ اقبال ؔ کی ہمہ گیر شخصیت نے علم و ادب اور فن کی دنیا کو آفاقی سطح پر متاثر کیا ہے۔آپ کے کلام نے ان کے عہد میں ہی محققّین اور ناقدین فن کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ کلامِ اقبالؔ کی عالمگیر اپیل نے اسے مشرق و مغرب اور عرب و عجم میں بحث و تمحیص کا موضوع بنایا۔ آج تک اقبال ؔ کے فکر و فن پر ہزاروں کی تعداد میں مقالات اور کتابیں تحریر ہوئیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ دنیا کی کئی جامعات میں اقبالیات کے شعبے قائم ہوئے جن میں تحقیق و تدقیق کا کام شدّومد سے جاری ہے۔ اس طرح اقبالؔ شناسی علمیت (Epistemology)کے مستقل شعبے کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔
در اصل اقبالؔ شناسی کا آغاز خود اقبالؔ کی ذات سے ہوا ہے۔ اقبالؔ نے علّام و مشاہیرکے نام خطوط ، مقدّماتِ کتب اور خطبات وغیرہ میں اپنے کلام کی تشر یح و توضیح کی۔ شاعری میں بھی کہیں کہیں افکار اقبال ؔ کا پرتو راست انداز میں سامنے آتا ہے۔ آپ نے اپنی تصنیف ’’ ارمغانِ حجاز‘‘ کے ایک قطعہ ’’خاتمہ‘‘ میں کہاہے ؎
نہ از ساقی نہ از پیمانہ گفتم حدیثِ عشق بے باکانہ گُفتم
شنیدم آنچہ از پاکانِ اُمّت ترا با شوخی رِندانہ گُفتم ۱
(ترجمہ : میں نے تو ساقی کی بات کی ہے نہ پیمانے کی۔ بس عشق کی باتیں بے باکانہ بیان کی ہیں ۔ میں نے اُمّت کے پاک بازوں سے جو کچھ بھی سنا ہے، وہ میں نے رندانہ شوخی سے آپ تک پہنچایا ہے۔)
اس طرح اقبال ؔ کی نظر ماضی پر بھی تھی اور عصریت کے ساتھ ساتھ مُستقبل پر بھی تھی۔ اقبالؔ کے احساسات اس نظم میں ملاحظہ فرمائیے:
طوسی و رازی و سینا و غزالی و ظہیر
آہ وہ دلکش مرقّع پھر دکھا سکتا ہوں میں
آ ئیں اُڑ اُڑ کے پتنگے مصر و روم و شام سے
شمع اک پنجاب میں ایسی جلا سکتا ہوں میں
آزما کر تم ذرا یکھو مرے اعجاز کو
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ دکھا سکتا ہوں میں
گوش بر آواز تھا مغرب کبھی جس کے لئے
وہ صدا پھر اس زمانے کود کھا سکتا ہوں میں
اقبالؔ کا مطمّحِ نظر انسانیت کا تفوّق تھا۔ اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے آپ نے مذاہب عالم اور افکارِ عالم کا سنجیدہ ، وسیع و عمیق مطالعہ کیا۔ آپ نے حکمائے عالم سے نہ صرف کسبِ فیض کیا بلکہ ان کو اپنی طرف سے بہت کچھ دیابھی۔ اقبالؔ نے تقلید کے بجائے تحقیق سے کام لے کر افکار عالیہ کا تدریجی سفر طے کیا۔ آپ نے ایک با ذوق نقادکی حیثیت سے ردّ وقبول کے مراحل طے کیے۔ مولانا جلال الدین رومی ؒ کو اقبالؔنے اپنا رہبر مانا۔ آپ اپنی مثنوی ’’ پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘‘ میں پیرِ رومیؒ کے بارے میں فرماتے ہیں ؎
پیر رومی مُرشد روشن ضمیر
کاروان ِ عشق و مستی را امیر ۲
(ترجمہ : پیر رومی ؒ ایک روشن ضمیر مُرشدہیں اور عشق و مستی کے قافلہ کے سالار ہیں۔)
لیکن اس اعتراف کے باوجود بھی اقبالؔ نے رومی کو بہت حدتک نئی معنویت عطا کی۔ یہ اقبالؔ ؒ جیسے نابغہ روزگار کی بڑی دین ہے۔ مالک رام اس حوالے سے یوں رقمطراز ہیں :
’’اقبالؔ نے رومی سے بہت استفادہ کیا ہے جیسا کہ ان کے کلام
سے ظاہر ہے ، لیکن اس طرف بہت کم لوگوں کا خیال گیا ہے کہ
خود اقبالؔ نے بھی رومیؒ کو بہت کُچھ دیا۔ رومیؔ کی معنویت میں
اقبالؔ کی بدولت بہت وسعت پیدا ہوگئی۔‘‘ ۳
غرضیکہ جہاں اقبالؔ نے مشرق و مغرب کے مفکّرین سے استفادہ کیا وہاں انہیں تفوّق انسانیت کی عظیم فکر سے روشناس بھی کیا۔ ان افکار عالیہ کوآپ نے ’’ اسلام ‘‘ میں رفعتوں کے ساتھ موجود پایا۔ آپ نے ’’ فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ کر کے اسلام کو ایسے تصوّرات سے نجات دلائی جنہوں نے اسلام کو ترکِ دنیا کا مذہب بنایا تھا۔ اقبالؔ نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ اسلام ترکِ دنیا کی نہیں بلکہ تسخیرِ دنیا کی تعلیم دیتا ہے۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ میں آپ فرماتے ہیں ؎
آیئہ تسخیر اندر شان کیست
ایں سپہر نیلگوں حیران کیست ۴
(ترجمہ : قرآن مجید میں آیہ تسخیر کس کی شان میں ہے۔ یہ نیلا آسمان کس کی عظمت پر حیران ہے۔) گویا اللہ تعالٰی نے یہ عظمت انسان کو بخشی ہے جس کو دیکھ کر آسمان حیرانی کا شکار ہے۔
اقبالؔؒ نے اس ہمہ جہت فکر میں ما بعد الطبیعاتی تصوّرات مثلاً خودی، بے خودی، وجدان، عقل و عشق وغیرہ نئی معنویت کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ اس طرح اقبالؔ انسانیت کے سامنے ایک بصیرت افروز فکر کو عام کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے اوریہ دعا بھی کرتے رہے ؎
خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نورِبصیرت عام کر دے
اللہ نے اُن کی یہ دعا قبول کی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ اقبال ؔ کو اپنے عہد ہی میں بہترین سمجھنے اور سمجھانے والے نصیب ہوئے۔ پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ ان صفِ اوّل کے اقبالؔ شناسوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
جگن ناتھ آزادؔ کو اقبال ؔ شناسی ورثے میں اپنے والدتلک چند محروم ؔسے ملی تھی۔ محرومؔ اپنے فرزند جگن ناتھ آزادؔ کے سامنے اکثر ذکرِ اقبالؔؒ کرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں کلامِ اقبالؔ پڑھنے کو کہتے تھے۔ رفتہ رفتہ اقبالؔ ، آزادؔ کے ذہن میں سما گئے، لیکن آزادؔ نے کبھی بھی اپنے محبوب شاعر کو بالمشافہ دیکھنے کی ہمّت نہ کی۔ ایک بار آپ اپنے استاد تاج ور نجیب آبادی کے ہمراہ اقبال ؔ سے ملنے کے لیے اُن کے دروازے تک آگئے لیکن اپنے محبوب شاعر کو بالمشافہ دیکھنے کی ہمّت نہ پاکر واپس لوٹ آئے۔
جگن ناتھ آزاد ؔ نے ۱۹۳۶ء سے ہی اقبالؔ کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کا پہلا مضمون ’’ اقبالؔ کی منظر نگاری‘‘ ’’ہمایوںــ‘‘ مئی ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا تھا۔ اس زمانے میں اقبالؔ کے چرچے عام ہو رہے تھے۔ جگن ناتھ آزادؔ کو کلام اقبالؔ از بر تھا۔ اس وجہ سے آپ ’’ حافظِ اقبال ؔ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ۱۹۳۸ء میں جگن ناتھ آزاد ؔ نے راولپنڈی کا سفر کیا اور وہیں انہوں نے اقبالؔؒ کے انتقال کی خبر سُنی اور انہیں کافی صدمہ ہوا۔آپ آخری تقریبات میں شرکت نہ کر سکے تھے۔ آزادؔ نے ’’ماتمِ اقبالؔ‘‘ کے عنوان سے ایک مرثیہ لکھا۔ اس مرثیہ کے چند شعریوں ہیں ؎
تو نے سُخن کو زندئہ جاوید کردیا
تیرے نفس نے دی چمن شعر کو بہار
دو گز زمین آہ تجھے راس آگئی
شہرت پہ تیری تنگ تھا دامانِ روزگار ۵
پروفیسر آزادؔ کی زندگی عشقِ اقبالؔ سے سرشار تھی اور اس بے لوث عشق کا پرتو آزاد ؔ کے تحقیقی مقالات، خطبات اور شاعری میں واشگاف نظر آتا ہے۔ آزادی سے قبل یا فوراً بعد اقبال ؔ پر لکھنے والے بعض حضرات نے ان کو اپنی کوتاہ بینی سے محدود کر دیا تھا۔ ایسے لوگوں میں سچدانند سنہا اور علی سردار جعفری وغیرہ پیش پیش تھے۔ ڈاکٹر سنہا نے اقبالؔ پر فاشسٹ ہونے کا الزام لگایاتھا۔ اس طرح کے اور اقبال مخالف رجحانات نے ہندوستان میں اقبال کو شجرِ ممنوعہ بنایا تھا۔ جگن ناتھ آزاد ؔ نے ان حالات کو بھانپ لیا اور معارف اقبالؔ کی حیثیت سے ہندوستان میں اقبالیات کے احیائے نو کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ ۱۹۵۵ء میں جگن ناتھ آزادؔ نے جموں و کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اصغر علی فیضی کی فرمائش پر مندرجہ ذیل عنوانات پر لیکچر تیار کیے:۔
’’۱۔ کلامِ اقبالؔ کا ہندوستانی پسِ منظر
۲۔ اقبال ؔ کے کلام کا صوفیانہ لب و لہجہ
۳۔ اقبالؔ اور اس کا عہد‘‘ ۶
ان مقالات کی تیاری کے بعد جگن ناتھ آزاد کو جموں و کشمیر یونیورسٹی میں لکچر دینے کی اجازت نہیں ملی۔کچھ عرصہ بعد یہ لیکچر ۱۹۶۰ء میں پہلی بار ’’ اقبالؔ اور اس کا عہد‘‘ کے نام سے ادارئہ انیس اردو ، الہ آباد سے شایع ہوئے۔ جگن ناتھ آزادؔ نے اس کتاب میں فکرِ اقبالؔ کی عصری معنویت کو اجاگر کرتے ہوئے ہندوستان میں اقبالؔ مخالف رحجان کو مسکت جواب دیا۔ آپ لکھتے ہیں:
’’ اقبالؔ کی شخصیت ایک جلوئہ صد رنگ، بلکہ ہزار رنگ کا مرقّع ہے لیکن کوتاہ بین نگاہوں نے صرف ایک ایک پہلو کو دیکھا اور وہ بھی نا مکمل طور پر ۔ اگر ایک ہی پہلو پر پورے خلوص اور جامعیت کے ساتھ نظر ڈالی جاتی تو ہندوستان کی تمدّنی فضا آج سے بہت مختلف ہوتی۔‘‘ ۷
اس کتاب کے پہلے مقالہ ’’ شعر اقبالؔ کا ہندوستانی پس منظر‘‘ میں آزادؔ نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ فکرِ اقبالؔ کا ایک اہم سر چشمہ ہندوستانی تہذیب ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’ آج تک شاید ہی کوئی اردو یا فارسی کا ہندوستانی شاعر ایسا نظر آئے جس نے قدیم بھارتی سنسکرتی کواس احترام کی نگاہ سے دیکھا ہو جس سے علامہ اقبالؔ نے دیکھا ہے اور اس سے اس قدر فیض حاصل کیا ہو جس قدر اقبالؔ نے کیا۔‘‘ ۸
آزاد ؔ نے اس مقالے میں کلام اقبالؔ کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ کلام ِ اقبال کی جامعیت میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے عناصر ہر جگہ نمایاں ہیں۔ آزادؔ نے اقبالؔ کی نظم ’’ آفتاب‘‘کا شذرئہ تمہیدی ،جو آج کلامِ اقبالؔ میں مفقود ہے ،پیش کرکے کئی حقائق سامنے لائے ہیں۔ اس شذرہ میں اقبالؔ نے بتایا کہ ’’ آفتاب رگ وید میں شامل مشہور دعا ’’ گایتری‘‘ کا ترجمہ ہے۔‘‘ اقبالؔ لکھتے ہیں :
’’ ترجمہ کرنے کو تو میں نے کر دیا مگر مجھے اندیشہ ہے کہ سنسکرت دان
اصحاب اس پر وہی راے قائم کریں گے جو چیپ مین نے پوپ کا ترجمہ
ہو مرپڑھ کر قائم کی تھی یعنی شعر تو خاصے ہیں لیکن یہ گایتری نہیں ہے‘‘ ۹
آزادؔ نے اس پورے مقالے میں لکھا ہے کہ اقبالؔ ’’توحید‘‘ کو مذاہب کی مشترکہ میراث مانتے ہیں ۔ نظم ’’تصویرِ درد‘‘ کے حوالے سے آزادؔ نے سمجھایا ہے کہ اقبالؔ امتیاز رنگ و خوں کے مخالف تھے اور اسے قوم کی تنزلی کا باعث مانتے تھے ۔
اقبالؔ کے مجموعۂ کلام ’’ پیامِ مشرق‘‘ کے حوالے سے آزادؔ نے لکھا ہے :
’’پیامِ مشرق صرف کشمیر اور غنی ؔکشمیری کے ذِکر سے لبریز نہیں ہے
بلکہ ہندوستان کی غلامی پر اشعار اقبالؔ کو ان ممتاز شخصیتوں میں لے
آتے ہیں جنہوں نے ہندوستان کو بند غلامی سے چھڑانے کے لیے
عملی جدّو جہدمیں حصّہ لیا ‘‘ ۱۰
اس مقالے میں آزا دؔ نے کئی شخصیات کا ذکر کیا جن کے ساتھ اقبالؔ فکری طور وابستہ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے جمال الدین افغانی اور خوشحال خان خٹک کا ذکر کیا جن کے یہاں وطنیت کا سیاسی تصوّر نمایاں ہے۔ آزا دؔ نے اقبال ؔ کی نظم ’’ خوشحال خان خٹک کی اپنے مریدوں سے وصیّت‘‘ بھی پیش کی ہے۔ اقبال ؔ کی نظم ’’ بندگی نامہ ‘‘ کے حوالے سے آزادؔ لکھتے ہیں کہ اس نظم کے اوّلین مخاطب اقبالؔ کے اپنے ہم وطن ہیں۔ آزادؔ لکھتے ہیں:
’’ یہی سبب ہے کہ اس مثنوی میں تمام اشارے اور تلمیحات ہندوستانی ہیں۔‘‘ ۱۱
’’ جاوید نامہ‘‘ کے حوالے سے آزادؔ نے مدلّل بحث کی ہے۔ آپ نے اقبالؔ کی اس شاہکار تصنیف میں ہندوستان کی پاکیزہ روحانی فکر کی نشاندہی کی ہے۔ اس تصنیف میں اقبال ؔنے جس عارف ہندی ’’ جہاں دوست‘‘ کا ذکر کیا اس بارے میں آزادؔ رقمطراز ہیں:
’’جہاں دوست‘‘ کا لغت کی رو سے ترجمہ کرتے ہوئے عام طور پر
معنی ’’وشوامتر‘‘ لکھ دئے گئے ہیںلیکن علامہ کے اشعار میں ’’ جہاں
دوست‘‘ کی جو وضاحت کی گئی ہے اس سے یہ راز کھُلتا ہے کہ جہاں
دوست وشوامتر نہیں بلکہ شِو جی مہاراج ہیں۔ ۱۲
’’جاوید نامہ ‘‘ اقبالؔ کا افلاکی سفر ہے جو اُنہوںنے اپنے مُرشدمولانا رومی ؒ کی رہنمائی میں طے کیا۔ آزادؔ نے حاشیے میںوضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ یہ سفر اس انداز کا سفر ہے جو دانتے نے اپنی محبوبہ بیترس کی جستجو
کے لیے ورجل کی رہنمائی میںکیا ہے ۔ جہاں سے دانتے کا سفر ختم
ہوتا ہے وہاں سے اقبالؔ کا سفر شروع ہوتا ہے۔‘‘ ۱۳
اس پورے سفر کے د وران اقبالؔ جن دیگر ہندوستانیوں سے مُستفید ہوتے ہیں، ان میں بھرتری ہری اور سلطان شہید یعنی ٹیپو سلطان بھی شامل ہیں۔ اقبالؔ بھر تری ہری کے سامنے ہندوستان کی بے چینی اور بے بسی یوں بیان کرتے ہیں :
ہندیاں را دیدہ ام در پیچ و تاب
سرّ حق، وقت است، گوئی بے حجاب ۱۴
(ترجمہ : میں نے اہلِ ہند کو بے قرار دیکھا ہے اب یہ وقت ہے کہ تُو حق کا راز کھُل کر یا واضح بیان کردے۔)
آزادؔ لکھتے ہیں :
’’ اس کے جواب میں بھرتری ہری اقبالؔ کو وہ پیغام دیتے ہیں
جسے گیتا کی تعلیم کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔‘‘ ۱۵
زیر نظر مقالے میں جگن ناتھ آزادنے ؔ سلطان شہید ٹیپو اور اقبالؔ کی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ آزاد ؔ نے ٹیپو سلطان کی آراء کو اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے :
’’ کاویری ندی بھی زندہ رود ہے تو بھی زندہ رود ہے۔‘‘ تو یہ پیغام
کاویری تک پہنچائے گا تو گویا نغمے میں نغمہ شامل ہو جائے گا۔ ۱۶
سلطان شہید ٹیپو کاویری کو
اے مرا خوشتر ز جیحوں و فرات
اے دکن را آب تو آبِ حیات ۱۷
(ترجمہ : اے کاویری ! تو مجھے جیحوں اور فرات جیسے دریائوں سے بھی عزیز ہے۔ کیوں کہ دکن کے لیے تیرا پانی آبِ حیات ہے۔)
غرضیکہ آزادؔ نے مفصّل انداز میں کلامِ اقبالؔ میں ہندوستانی فکری و تہذیبی عناصر کی نشاندہی کر کے معترضین کومسکت جواب دیا۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ اقبالؔ نے جس فکر سے انسانیت کی شبِ تاریک کو سحر میں بدل دیا اس کے پسِ منظر میں ہندوستانی افکار عالیہ واشگاف ہیں۔
اس کتاب کے دوسرے مقالے ’’ کلام ِ اقبالؔ میں صوفیانہ لب و لہجہ‘‘ کلام اقبالؔ کے حوالوں سے تصوّف کی اصلیت اور مسائل کو واضح کیا ہے۔ آپ نے اقبال ؔ کی تصنیفات کے حوالے سے اسلامی تصوّف اور وحدت الوجود کو حقایق کا ترجمان بن کر واضح کیا۔ آزادؔ لکھتے ہیں :
’’اقبالؔ نے تصوّف میں سے زندہ و پایندہ عناصر چُن چُن کر
اسلام کو واپس لوٹائے۔ اسلامی اور غیر اسلامی تصوّف میں ایک
واضح لکیر کھینچی اور اسلام اور بنی نوع انسان کی ایک بہت بڑی
خدمت انجام دی۔‘‘ ۱۸
جہاں تک ’’وحدت الوجود‘‘ کا تعلق ہے اقبالؔ ابتداء میں اس کے زبردست مخالف تھے اور اسے غیر اسلامی کہتے رہے۔ آزادؔ لکھتے ہیں کہ اقبالؔ ۱۹۲۲ ء کے بعداس نظریے کے قائل ہوئے ۔ آپ لکھتے ہیں :
’’ اقبالؔ ایک زمانے تک شنکر آچاریہ اور شیخ اکبر کی تعلیم ِ وحدت الوجود
کو ایک ہی سمجھتے رہے اور دونوں کو غیر اسلامی کہتے رہے لیکن جب ان
پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ شیخِ موصوف اور شنکر آچاریہ اس نکتے پر متفق
ہیںکہ حقیقی معنی میں صرف حق تعالیٰ ہی موجود ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر
امور میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور شیخ اکبر نے قرآن اور حدیث
ہی اپنے نظام کا مآخذ بنایا ہے تو انہوں نے شیخِ اکبر کے نظریے کی مخالفت
ترک کر دی۔‘‘ ۱۹
در اصل بقولِ آزادؔ اقبالؔ نے تصوّف اور وحدت الوجود کو صرف صحیح اسلامی معنویت کے ساتھ قبول کیا۔
اس کتاب یعنی ’’ اقبالؔ اور اس کا عہد‘‘ کے تیسرے مقالے میں آزاد ؔ نے اقبالؔ اور اس کے عہد کے حوالے سے اُن کے فکرو فن پر مفصّل بحث کی ہے۔ اس مقالے میں آزاؔ دنے اقبالؔ پر کئے گئے کئی اعتراضات کے بے مثال جواب دئے۔ آزاد،ؔ اقبالؔ کے فکروفن کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’اقبال نے ہماری توجّہ شعر کے نام نہاد حُسن سے ہٹاکر موضوع
و معانی کی طرف مبذول کی۔ اس موضوع و معنی کی طرف جو الفاظ
سے ہم آہنگ ہو کر شعر دل نشین کی تشکیل کا باعث بنتا ہے۔ ۲۰
اقبالؔ کئی زبانوں کے ماہر تھے، مثلاً عربی، فارسی، انگریزی، اردو اور پنجابی وغیرہ۔ اقبالؔ نے ان زبانوں سے منسلک تہذیبوں کا بھی وسیع مطالعہ کیا تھا۔ آزادؔ نے اقبالؔ کو ایک مضبوط پُل سے تعبیرکیاہے۔ آپ لکھتے ہیں :
’’نیتشے نے ’ بقول زردشت‘ میں کہا ہے کہ انسان کا بڑا کارنامہ یہ
ہے کہ وہ ایک منزل ہے اور جہاں تک مشرقی اور مغربی فلسفے کو آپس
میں ملانے کا تعلق ہے اقبال ؔ کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے ایک
مضبوط پُل کا کام دیا۔‘‘ ۲۱
مجموعی طور پر اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ جگن ناتھ آزادؔ نے نہایت ہی مدلل انداز میں اقبالؔ کے مخالفین کی آرأکو مسترد کر کے کلام ِ اقبالؔ کی آفاقیت واضح کی۔
اقبالیات کے سلسلے میں آزادؔ کی تین کتابیں سوانح نگاری کے زُمرے میں آتی ہیں جو اس طرح سے ہیں :
۱۔ اقبالؔ کی کہانی
۲۔ اقبالؔ، زندگی، شخصیت اور شاعری
۳۔ اقبال۔ؔ ایک ادبی سوانح حیات
جگن ناتھ آزاد ؔ نے ان تینوں کتابوں کو منفرد انداز سے قارئین کی عمر کو ملحوظ رکھ کر ترتیب دیا ہے۔
اقبالؔ کی کہانی ۔ جگن ناتھ آزادؔ نے یہ کتاب ترقّی ٔاردو بور ڈ وزارت تعلیم حکومتِ ہندکی فرمائش پر تحریر کی ہے۔ اس کتاب میں جگن ناتھ آزادؔ نے کہانی کے انداز میں بچوں کے لئے اقبالؔ اور اس کے کلام کا انتخاب پیش کیا ہے۔ کلام کا انتخاب ’’ بانگِ درا‘‘ کی نظموں اور غیر مطبوعہ کلام پر مشتمل ہے۔ غیر مطبوعہ کلام کی نظمیں ’’شہد کی مکھّی‘‘، ’’ جہاں تک ہو سکے نیکی کرو‘‘ ’’ چند نصیحتیں مصنّف نے ’’ مخزن‘‘ اور دوسرے رسائل سے اخذ کی ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کتاب بچّوں کی نفسیات کے حوالے سے اہم ہے۔ اس کتاب پر آزادؔ کو ایوارڈ بھی ملا ہے۔
’’ ۱۹۷۹ ء میں بہار اردو اکیڈمی پٹنہ نے آزادؔ کو ’’ اقبال کی کہانی‘‘ پر ایوارڈ سے نوازا‘‘ ۲۲
’’اقبالؔ ، زندگی ، شخصیت اور شاعری ‘‘اور ’’اقبال ایک ادبی سوانح حیات‘‘ بھی آزادؔ نے مخصوص انداز میں علامہ اقبالؔ کی سوانح لکھی ۔ محمد منظور عالم اپنی کتاب ’’ جگن ناتھ آزاد۔ؔ فکر وفن‘‘ میں ان کتابوں پرا س طرح رائے دیتے ہیں۔
’’ آزادؔ نے مذکورہ تینوں کتابوں میں اقبال کی پیدائش ، ان کی عا دات
و اطوار ، تعلیم و تربیت اور ان کی شاعری کا سرسری ذکر کیا ہے۔ البتہ ان کی
تیسری کتاب میں سوانح حیات کسی قدر مفصّل ہے۔‘‘ ۲۳
اقبال ؔ کی ادبی سوانح حیات پانچ حصّوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے حرفِ اوّل میں آزادؔ نے اقبالؔ پر اپنے اجمالی کام کا خاکہ کھینچا ہے۔ آزادؔ نے کتاب کے باضابطہ آغاز سے پہلے اقبالؔ کے تاثرات قلمبند کئے ہیں۔
’’ اگر وہ باتیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیں ،کبھی سامنے آجائیں
تو مجھے یقین ہے ،دنیا میرے انتقال کے بعد ایک نہ ایک
دن بالضرور میری پرستش کرے گی ، وہ میری کوتاہیوں کو
بھُلا دے گی اور آنسوئوں کی شکل میں خراجِ تحسین ادا کرے گی۔‘‘ ۲۴
اس کتاب میں آزادؔ نے عہدِ اقبال ؔ کی خوب صورت عکّاسی کی ہے۔ اس کتاب کو مصنّف نے پانچ حصّوں میں الگ الگ عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصّہ بچپن اور تعلیم و تربیت ، دوسرا اقبالؔ لاہور میں ، تیسرا یورپ میں تین برس ، چوتھا مصروف زندگی کے بیس سال پانچواں اور آخری حصّہ آخری آٹھ برس پر مشتمل ہے۔ اس پوری کتاب میں آزادؔ نے اقبالؔ کی زندگی ، فکروفن، یورپ میں قیام اور معاصرین کے ساتھ روابط کا بہترین خاکہ کھینچا ہے۔ آزادؔ نے قیامِ یورپ کے دوران اقبالؔ کی طرح طرح کی ذہنی کشمکش کا ذکر کیا ہے۔ اس ذہنی کشمکش کے دوران اقبال نےؔ شاعری کو ’’ تضیعِ اوقات‘‘ سمجھ کر ترک کرنے کا بھی ارادہ کیا تھا۔
مدیر’’ مخزن‘‘ سر شیخ عبدالقادر بھی اُس زمانے میں لندن میں مقیم تھے۔ لہٰذا حتمی فیصلے کے لئے دونوں پروفیسر آرنلڈ کے پاس گئے۔ آزادؔ لکھتے ہیں :
’’ یہ اردو شاعری اور اردو ادب کی خوش قسمتی ہے کہ آرنلڈ نے
عبدالقادر کی حمایت کی اور اقبالؔ سے کہا کہ آپ کی شاعری
وہ شاعری نہیں ہے جسے تضیع ِ اوقات کہا جائے بلکہ آپ کی
شاعری زندگی کی آئینہ دار اور خوب سے خوب تر کی جستجو کا
ایک ذریعہ ہے۔‘‘ ۲۵
آزادؔ نے بتایا کہ اقبال ؔ کی دوسری ذہنی کشمکش کا سبب تعلیم اسلام کے متعلق بعض ایسی کتابیں ہیں جن کا اصلاًاسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ آزادؔ لکھتے ہیں :
’’ یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے شیخ محی الدین عربی کی’’فصوص الحکم‘‘اور
شیخ شہاب الدین سہروردی کی ’’ حکمت الاشراق‘‘ کا متعدد بار بالاستیعاب
مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر چہ ان بزرگوں کے علم و ذوق میں کوئی کلام
نہیں لیکن ان کتابوں میں اکثر مندرجات کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ‘‘ ۲۶
اس کتاب میں مصنّف نے اقبال ؔ کے بیگم عطیہ فیضی کے ساتھ روابط کا بھی ذکر کیا ہے۔ مصنّف نے اقبالؔ کی زندگی کے ۱۹۱۴ء سے ۱۹۳۰ء تک کے زمانے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس زمانے میں اقبالؔ پر ’’ اسلام دشمن‘‘ اور ’’ مرتد‘‘جیسے فتوے دئے گئے۔
’’ لیکن اقبالؔ پر ان فتووں کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے علمی اور ادبی کام
میں منہمک رہے۔ ‘‘ ۲۷
مجموعی طور پر یہ کتاب تحقیقی مقالے سے زیادہ پیام ِ اقبالؔ کو عام کرنے کی مساعیٔ جمیلہ ہے۔ یاسمین کوثرؔ اپنی کتاب ’’ جگن ناتھ آزا دؔ بطور اقبال شناس‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’یہ ُد رست ہے کہ عام قارئین کے لئے یہ مفید اور معلومات افزا سوانح
حیات ہے۔ اس سے طالب علم بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔‘‘ ۲۸
آزادؔ نے کشمیر اور اہلِ کشمیر کے ساتھ اقبال کے تعلق خاطر کو کئی مقالات اور کتابوں میں موضوع بحث بنایا۔ آزادؔفرماتے ہیں:
’’ تنم گُلے ز خیابان جنّت کشمیر‘‘ یعنی میرا جسم جنّت کشمیر کے خیابان کا پھول
ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر کے ساتھ اقبالؔکا ایک روحانی تعلق بھی تھا اور وہ تعلق
حیات اقبال میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔‘‘ ۲۹
جس طرح اقبالؔ کا کشمیر اور اہل کشمیر کے ساتھ تعلق خاطر رہا ہے اسی طرح کشمیریوں کا بھی اقبالؔ کے ساتھ تعلق قائم ہے۔ بقولِ آزادؔ :
’’ ذکر اقبالؔ اہلِ کشمیر کے لئے ایک موضوع نہیں بلکہ ایک تہذیبی انداز
فکر اور ایک طرح کا رجحان ِ طبع ہے۔ ‘‘ ۳۰
کشمیر کے ساتھ اقبال ؔ کی وابستگی اور دل بستگی کو ظاہر کرنے کے لیے جگن ناتھ آزادؔ نے ’’ اقبال اور کشمیر‘‘ نام کی کتاب لکھی۔ آزاد ؔ نے کلام ِ اقبالؔ کے اوّلین جوہر شناس کے باب میں ان کشمیری مصنّفین کا ذکر کیا ہے جنہوں نے سب سے پہلے اقبالؔ کی حیات اور فکر و فن کے حوالے سے مساعی کی۔ ان اقبال ؔ شناسوں میں منشی محمدد ین فوقؔ، مولوی احمدالدین ایڈوکیٹ وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ مصنّف نے فوقؔ کے علمی و ادبی کارناموں کا نہایت ہی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
’’کشمیری میگزین‘‘ فوقؔ کا ماہنامہ جریدہ تھا۔ اس جریدے میں ’’انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہور‘‘ کی رودادیں اور اقبال کی نظمیں با قاعدگی سے شائع ہوتی تھیں ۔ اس کے علاوہ ’’حالاتِ اقبال‘‘ کے تعلق سے اس جریدے میں مضامین شائع کیے جاتے تھے جو بعد میں فوقؔ نے کتابی صورت میں ’’ حالاتِ اقبالؔ‘ کے نام سے شایع کی ہے۔ آزادؔ نے اس کتاب کے علاوہ فوق ؔ کی کتاب’’ مشاہیر کشمیر‘‘ کا تحقیقی جائزہ بھی لیا ہے۔ اس کے علاوہ اقبال ؔ کے کئی خطوط منشی محمد الدین فوقؔ کے نام بھی اس کتاب کا حصّہ ہیں۔ سفر کشمیر کا جائزہ لیتے ہوئے آزادؔ نے تحقیقاً ثابت کیا ہے کہ اقبالؔ صرف ایک بار کشمیر آئے تھے۔ آزاد ؔ لکھتے ہیں :
’’ کشمیر میں بض معمّر حضرات کہتے ہیں کہ اقبالؔ اس کے بعد بھی دو
تین بار کشمیر آئے۔ میرے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ مذکورہ سفر
اقبالؔ کا پہلا اور آخری سفر کشمیر تھا۔‘‘ ۳۱
اقبالؔ تحریک آزادی کشمیر کے زبردست حامی تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ کشمیر آزادی حاصل کر کے کھویا ہوا مقام پائے۔ ’’ نیٹشے سے غنی کشمیری‘‘ تک کے باب میں آزادؔ نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کے باب میں ’’ آنسوئے افلاک‘‘ کے بارے میں لکھا ہے:
’’یہی وہ باب ہے جس میں کشمیر کے حال زار پر اقبالؔ کا دل تڑپ اُٹھا ۔‘‘ ۳۲
کشمیریوں کی مظلومیت ہمیشہ اقبال ؔ کو بے چین رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے کلام سے مسئلے کے بہترین اور پائیدار حل پر زور دیا تھا۔ جگن ناتھ آزادؔ رقمطراز ہیں :
’’ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے اُسے محض ایک سیاسی کشمکش کا رنگ دے
کر منزل آزادی کے رہروئوں کے لیے فقط دنیاوی رستہ پیش نہیں کیا بلکہ
اسے دین کے ساتھ وابستہ کرکے اسے ایک رفعت اورعظمت عطا کی۔ ‘‘ ۳۳
اس قسم کی سیاست کو آزاد ؔ حُبّ ِ آدم کی سیاست کہہ کر گاندھی ، ابوالکلام آزادؔ، جواہر لال نہرو اور شیخ محمد عبداللہ کی سیاست کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں۔
اس کتاب پر اقبالؔ کو جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز سری نگر نے ایوارڈ سے نوازا۔ ۱۹۸۱ ء میں آل انڈیا میر ؔاکیڈمی لکھنو نے بھی اس کتاب پر ’’ میرؔایوارڈ‘‘ دیا۔ ۳۴
مجموعی طور پر یہ کتاب اقبال ؔ شناسی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب اقبالؔ شناسی کی نئی منزلوں کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔
اقبال ؔ نمائش
اندر کمار گجرال سابق مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات نے ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۳ ء کو سری نگر میں اقبال نمایش کا افتتاح کیا۔ اس نمائش کی تمام تر ذمّہ داری جگن ناتھ آزادؔ نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دی۔ آزادؔ نے اس نمائش کی تصاویر میں سے انتخاب کرکے ایک البم بنایا اور اس کو پبلی کیشنز ڈویژن حکومت ہند نے ’’ مرقّع اقبالؔ‘‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ آزادؔ نے اقبالؔ کا شجرئہ نسب ، توقیتِ اقبال، ان کی اسناد اور بعض خطوط کے عکس اور تصاویر سے جاندار مرقع اقبال تیار کیا۔ ڈاکٹر منظر اعظمی لکھتے ہیں:
’’مرقع اقبالؔ میں نہایت ہی نفاست کے ساتھ اقبالؔ کی مستند کہانی تصویروں
کی زبانی بیان ہوئی ہے۔‘‘ ۳۵
۱۹۷۷ء میں جگن ناتھ آزادؔ مرکزی سرکار کی ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد جموں یونیورسٹی کے شعبئہ اردو کے سربراہ بنائے گئے۔ یونیورسٹی کے علمی وادبی ماحول میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے آپ نے اقبال ؔ کے شاہکار کلام ’’جاوید نامہ‘‘ کا ترجمہ کیا۔
’’نشانِ منزل‘‘ آزادؔ کے تنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔ اس پورے مجموعے میں دو مقالے (۱) حسرت ؔموہانی اور اقبالؔ (۲)اقبال صرف مسلمانوںکے شاعر؟ اقبالیات سے متعلق ہیں۔ پہلے مقالے میں آزادؔ نے دو ہم عصر شعراء حسرتؔ اور اقبالؔ کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے دونوں کا سیاسی مسلک ، تصوف اور اشتراکیت پر علمی بحث کی ہے۔ حسرتؔ کے یہاں روایتی طرح کا تصوف پایا جاتا ہے ۔ اقبالؔ کے یہاں تصوف خالص اسلامی صفات کا حامل ہے۔ آپ ایسے تصوف کو رد کرتے ہیں جس میں ترکِ دنیا کی تعلیم ملتی ہے۔ اس مجموعے کے دوسرے مقالے ’’ اقبالؔ صرف مسلمانوں کے شاعر؟‘‘ میں ناقدانہ انداز میں اس بڑے مغالطے کو رد کر دیا گیا۔ اس مقالے میں کہا گیا ہے کہ افکار اقبالؔ کا بنیادی سر چشمہ ’’قران اور حدیث ‘‘ ہے۔ آپ لکھتے ہیں :
’’اس حقیقت کو کہ اقبال ؔ کا سرچشمئہ افکار بنیادی طور پر قرآن
اور حدیث ہیں ۔ اس طرح پیش کرنا کہ اقبال ؔ ہندو اور مسلمان
کے تنگ دائروں سے باہر نہ نکل سکیں ، کلام اقبال اور فکرِ اقبال
ؔؔ کے انتہائی بے احتیاط اور غیر ذمّہ دار انہ مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ اقبال
کو اس طرح محدود کر دینے سے اقبال ؔ اور اسلام دونوں کے ساتھ
انصاف نہیں ہو سکے گا۔‘‘ ۳۶
اس مقالے میں آزادؔ نے بتایا ہے کہ اقبالؔ کے پہلے مخاطب مسلمان ہیں لیکن اکثر آپ نے انسانیت کی بات کہی ہے۔ آپ نے کلامِ اقبالؔ کے امثال سے واضح کیا ہے کہ اقبالؔ کے کلام میں آفاقیت پائی جاتی ہے۔ ’’ نشانِ منزل‘‘ میں دو ریڈیائی نشریات بھی ہیں جن میں اقبالؔ کا تقابلی مطالعہ غالبؔ سے کیا گیا ہے اور ایک مضمون میں اقبال ؔ عالمی کانگریس کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
۱۹۸۲ء میں جگن ناتھ آزادؔ نے ’’ فکر ِ اقبالؔ کے بعض اہم پہلو‘‘ کے نام سے ایک معرکتہ لآراکتاب مرتّب کی۔ اس کتاب میں ۲۴ مقالے شامل ہیں جن میں تین فلسفئہ خودی پر ہیںاور دو مسجد قرطبہ پر ،بقیہ دیگر مقالے افکارِ اقبالؔ پر مبنی ہیں۔ اس کے علاوہ اقبالؔ عالمی کانگریس کی روداد بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ اس اقبالؔ عالمی کانگریس میں جگن ناتھ آزادؔ نے سیالکوٹ میں قلعے سے علامہ اقبالؔ کے مکان تک ایسے جلوس کی راہنمائی کی جس میں ایک سو اسّی مندوبین دنیا کے مختلف حصوں سے تشریف لائے تھے۔
جگن ناتھ آزادؔ نے تضمین اقبالؔ کے تعلق سے ایک مجموعۂ کلام ’’نذرِ اقبالؔ‘‘ بھی مرتّب کیا تھا۔ یہ مجموعہ کلام ۱۹۴۷ء کے ہنگاموں کے باعث شائع نہ ہو سکا تھا۔ لیکن اس کی بعض نظمیں جگن ناتھ آزادؔ کے مجمو عہ کلام ’’ بیکراں‘‘ میں شامل ہیں۔
’’نذرِ اقبال ‘‘کا دیباچہ سر عبدالقادر نے لکھا تھا جو بعد میں حمیدہ سلطان احمد کی کتاب’’ جگن ناتھ اور اس کی شاعری‘‘ میں’’ نذراقبالؔ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ سر عبدالقادر اس مجموعے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ اب جناب آزادؔ چند نظمیں لکھ کر شائع کر رہے ہیں،جن کا موضوع خود اقبالؔ اور کلام ِ اقبال ہے۔ یہ گویا عقیدت کے پھول ہیںجونچھاور کئے ہیں۔‘‘ ۳۷
جگن ناتھ آزاد کو جموں یونیورسٹی سے ڈی۔لٹ اور پروفیسر ایمرٹس جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ آپ اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی یونیور سٹی آف کشمیر میں ’’ ہندوستان میں اقبالیات اور دوسرے توسیعی لیکچر‘‘ کے عنوان سے لیکچر دے چکے ہیں۔ اس ادارے نے اسی عنوان سے ان لیکچروں کو کتابی صورت میں بھی شائع کیا ہے۔
آزادؔ نے اقبالؔ کو ’’جلوئہ ہزار رنگ کا مرقّع‘‘ کہا ہے۔ انہوں نے اقبال شناسی سے ہر سطح پر اقبال کی عصری معنویت اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ عالمی سطح پر انگریزی دان طبقے کے لیے انہوں نے کئی مقالات کے علاوہ دو منفرد اسلوب کی کتابیں لکھیں۔’’Iqbal – Mind and Art‘‘ میں اقبالؔ کے فکروفن کا اعتراف آزادؔ نے اس کتاب میں یوں کیا ہے۔
” Iqbal’s greatness does not lie in his political views but in his creative art, which derives inspiration from four sources Islam, Western thought, Hindu philosophy and last but not least his ownself or ego.” 38
آزاد ؔ نے اپنی دوسری انگریزی کتاب Iqbal- His poetry and Philosophy
میں اقبالؔ کی شاعری اور فلسفے کی عالمگیر اپیل امثال ِ کلامِ اقبالؔ سے واضح کی ہے۔
جگن ناتھ آزادؔ نے ’’رودادِ اقبال‘‘ؔ کے نام سے ایک جامع منصوبہ پر بھی کام کیا ہے۔ جب آزادؔ اس جامع منصوبے کو شائع کرنے کے مراحل میں تھے تو دریائے توی کے ۱۹۸۸ء کے سیلاب نے سارا کام بگاڑ دیا۔
اس سانحہ سے جگن ناتھ آزادؔ دل برداشتہ ہو گئے۔ اب وہ ان سیلاب زدہ مسوّدات کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے۔ ا س د وران اُن کے ایک مخلص ساتھی’ امین بنجارا‘ نے اس سیلاب برد موا دکو مرتب کرکے پہلی جلد کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اس دوران ۲۰۰۴ء میں آزادؔ کا انتقال ہوا۔ اُن کے انتقال کے ایک سال بعد ۲۰۰۵ء میں امین بنجارا نے ’’رودادِ اقبالؔ ‘‘مرتب کرکے شائع کی۔ آزاد کی اہلیہ وملا دیوی سے اس جلد کی رسم رونمائی انجا م دلوائی گئی۔امین بنجارا لکھتے ہیں :
’’روداد اقبال پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے لئے محض ایک پروجیکٹ ہی نہیں بلکہ
یہ موضوع علامہ اقبال کے تئیں ان کا وہ ازلی اور ابدی عشق تھا۔جس کی ابتدا
اُن کے لڑکپن ہی میںہوئی اور اپنی حیات کے آخری لمحے تک وہ اس عشق کو
نبھاتے رہے۔‘‘ ۳۹
اس عظیم الشان پروجیکٹ کا جتنا حصّہ اب تک مرتب ہوا ہے وہ زبانِ حال سے اپنی جامعیت اور ہمہ گیری کا عکاس ہے:
’’کھنڈر بتارہے ہیں عمارت عظیم تھی ‘‘
اس مختصرسے مقالے میں جگن ناتھ آزاد ؔ کی اقبالؔ شناسی کا اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ در اصل آزادؔ نے اقبال کی کثیر الابعاد شاعری پر جو وسیع اور وقیع سرمایہ چھوڑا ہے وہ اقبالیات پر ایک قاموس کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا اقبال شناسی کے حوالے سے جگن ناتھ آزادؔ کا سرمایہ جامع تحقیق کا متقاضی ہے۔
حواشی و حوالہ جات
۱ محمد اقبال ارمغان ِ حجاز فارسی
۲ محمد اقبال پس چہ باید کرد اے اقوام شرق مشمولہ کلیات ِ اقبال فارسی ص۹۱۲ ترجمہ پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی
۳ مالک رام تعارف مشمولہ ’’ افکار ِ رومی‘‘ مصنّف مولانا عبدالسلام خان ص۸
۴ محمد اقبال جاوید نامہ مشمولہ کلیات ِ اقبال فارسی ترجمہ و فرہنگ از پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی
۵ جگن ناتھ آزادؔ بیکراں ص ۱۳۳
۶ جگن ناتھ آزادؔ اقبال ؔ اور اس کا عہد
۷ جگن ناتھ آزاد ؔ اقبال ؔاور اس کا عہد ص۱۵
۸ جگن ناتھ آزادؔ اقبالؔ اور اس کا عہد ص ۱۶
۹ ایضاً ایضاً ص ۱۶
۱۰ ایضاً ایضاً ص ۲۸
۱۱ ایضاً ایضاً ص ۳۰
۱۲ ایضاً ایضاً ص۳۲
۱۳ ایضاً ایضاً ص ۳۲
۱۴ محمد اقبال جاوید نامہ مشمولہ کلیاتِ اقبالؔ ترجمہ پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی ص ۱
۱۵ جگن ناتھ آزادؔ اقبال ؔ اور اس کا عہد ص ۴۵
۱۶ جگن ناتھ آزاد ؔ اقبال اوراس کا عہد ص ۴۷
۱۷ محمد اقبال جاوید نامہ مشمولہ کلیات ِ اقبال فارسی ص ۸۷۹
۱۸ جگن ناتھ آزادؔ اقبال ؔاور اس کا عہد ص ۷۲
۱۹ ایضاً ایضاًص ۸۷
۲۰ ایضاً ایضاً ص ۹۹
۲۱ جگن ناتھ آزادؔ اقبال اور اس کا عہد ص ۱۲۷
۲۲ العطش جگن ناتھ آزاد ؔ نمبر ص ۱۷
۲۳ محمد منظور عالم جگن ناتھ آزادؔ ، فکروفن ص ۱۷۲
۲۴ جگن ناتھ آزاد ؔ اقبال۔ ؔایک ادبی سوانح حیات ص ۱۶
۲۵ جگن ناتھ آزادؔ محمد اقبال۔ ایک ادبی سوانح حیات ص ۵۷
۲۶ جگن ناتھ آزادؔ ایضاً ص ۵۷
۲۷ ایضاً ایضاً ص ۱۰۸
۲۸ یاسمین کوثر جگن ناتھ آزاد بطور اقبال شناس ص ۲۱۹
۲۹ جگن ناتھ آزادؔ محمد اقبال ۔ایک ادبی سوانح حیات ص ۱۱۰
۳۰ ایضاً ایضاً ص ۱۱۶
۳۱ ایضاً ایضاً ص ۱۱۶
۳۲ ایضاً اقبال اور کشمیر ص ۱۶۳
۳۳ ایضاً اقبال ؔ اور کشمیر ص ۱۷۱
۳۴ لمحے لمحے جگن ناتھ آزادؔ نمبر ص ۶۰
۳۵ ڈاکٹر منظر اعظمی لمحے لمحے آزادؔنمبر ص۹۱ تا ۹۲
۳۶ جگن ناتھ آزادؔ نشانِ منزل ص ۱۸۱
۳۷ شیخ سر عبدالقادر نذرِ اقبالؔمشمولہ جگن ناتھ آزاد اور اس کی شاعری مرتبہ حمیدہ سلطان احمد ص ۱۹۳ تا ۱۹۴
۳۸ جگن ناتھ آزاد ؔ Iqbal – Mind and Art Page 106
۳۹ امین بنجارا رُودادِ اقبالؔ ص ۸
۔۔۔۔۔
سید مصطفیٰ شاہ
ریسرچ اسکالر
اقبالؔ انسٹیچوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی ، یونیورسٹی آف کشمیر
Leave a Reply
1 Comment on "پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ بحیثیت اقبالؔ شناس "
[…] 115. پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ بحیثیت اقبالؔ شناس […]