کلام میر میں’سکندر‘جاہ وحشمت کا ایک استعارہ

عبد الرحمن جمال الدین

ریسرچ اسکالر ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی

سکندر یونان کا باشندہ تھا، باپ کی جانب سے ’کرنس‘ اور ماں کی طرف سے’ نوبطلیموس‘ کے توسط سے اس کا نسب ’ایقوس‘ تک پہنچتا ہے، اس کے باپ ’فلپس‘ کا زمانہ شباب ’ ساموتھریس‘ میں گذرا ، جہاں وہ ’اولمپیاس ‘ پر عاشق ہوگیااور اپنے بڑے بھائی ’ اریمبس‘ کی اجازت سے اس سے شادی کرلی۔

ایک دن ’فلپس‘ نے ’اولمپیاس‘ کے ساتھ ایک سانپ لیٹا ہوا دیکھا جس کی وجہ سے وہ اس سے متنفر ہوگیا اور دور دور رہنے لگا، ’پوری ڈیہ ‘ کی تسخیر سے فارغ ہوا ہی تھا کہ یکا یک اس کے پاس تین ہرکارے پہنچے اور تینوں نے حسب ذیل الگ الگ خوشخبری سنائی:

۱)             پارمینو (اس کے فوجی جرنیل) نے ’اہل ایریہ‘ کو لڑائی میں زبر دست شکست دیدی ہے۔

۲)            اولمپی(فلپس کا مشہورگھوڑا) گھوڑ دوڑمیں سب سے اول نکلاہے۔

۳)            اس کے یہاں بیٹے ( سکندر )کی ولادت ہوئی ہے۔

خوشخبریوں کو سن کر ’فلپس‘ بہت خوش ہوا ،نجومیوں نے بڑے وثوق سے کہا کہ ایسا بیٹا جس کی ولادت تین تین کامیابیاں ساتھ لائی ہے ، بلا شبہ وہ بلند اقبال ہوگا۔محمود نیازی سکندر کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’ یہ(سکندر) یونان کے بادشاہ فیلپس (فلپس)کا بیٹا تھا اور حضر عیسیٰ سے تین سو سال قبل پیدا ہوا تھا۔ سکندر یونانی روم اور سکندریہ کا بانی تھا۔ اس کے مشیر ، وزیر اور استاد کا نام ارسطو تھا۔ اس سکندر نے دارا بن دارا کو قتل کرکے فارس کے ممالک پر قبضہ کیا تھا اس نے ہندوستان اور چین پر بھی حملے کیے تھے اور متعدد شہر بسائے تھے۔ ۳۳۳ق م میں عراق میں آکر فوت ہوا۔۱؎

مورخین لکھتے ہیں کہ بچپن سے ہی سکندر جسمانی خوشیوں کا طبعاً شائق نہ تھا،اسے دولت وسامان سے نفرت تھی اوربہ مشکل ہی ان کی طرف مائل ہوتا تھا۔ ہاں شہرت و ناموری کے حصول میں وہ اپنی بساط سے زیادہ سرگرم رہا کرتا تھا۔ ایک بارکسی نے سوال کیا کہ کیا اولمپی میں دوڑو گے؟ تم تو بہت تیزدوڑتے ہو ! سکندر نے جواب دیا کہ بخوشی دوڑوں گا ، بشرطیکہ دوڑنے والوں میں اوربھی بادشاہ ہوں۔سید ہاشمی اس کی شجاعت کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سختیاں جھیلنے کا یا خطرے میں پڑنے کا وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا یہاں تک کہ اسپارٹہ کا ایک سفیر جو اس کے دربار میں آیا ہوا تھا اس کے سپاہیانہ کام دیکھ کر دنگ رہ گیا اور جب ایک دن شکار میں سکندر نے ایک زبر دست قوی الجثہ شیر سے مقابلہ کرکے اسے زیر کردیا تو سفیر مذکور نے کہا واقعی تم شیر سے خوب لڑے اور تم دونوں میں بادشاہی تمہارا حق ہے۔‘‘ ۲؎

مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہے کہ سکندر کو مقابلہ کرنے کا بڑا شوق تھا ، وہ کبھی الٹے پاؤں واپس نہیں ہوا، تاریخ شاہد ہے کہ سکندر نے جس بھی ملک کی طرف رخ کیا اسے فتح کرنے کے بعد ہی واپس لوٹا۔ اس کاماننا تھا کہ جتنازیادہ ترکہ بطورمیراث ملے گا؛ کسی چیز کوخود سے حاصل کرنے کا اتنا ہی کم موقع ملے گا۔اس لئے اپنے باپ کی فتوحات پراپنے ہمجولیوں سے کہتا کہ میرا باپ سارے بڑے کام خود ہی کرڈالے گا اورہم لوگوں کی ناموری کے لئے کوئی موقع نہ چھوڑے گا ۔

 ’بوسفالس‘گھوڑا (بعض لوگوں نے اس کا نام بوسی فلس بتایا ہے) جسے ’فلپس ‘ کے اچھے اچھے شہسوار قابو نہ کرسکے ،سکندرابھی کم سن ہی تھا لیکن اس کی خداداد صلاحیت نے گھوڑے کے بدکنے کی وجہ بھانپ لی اور باپ کی اجازت ملتے ہی گھوڑے کو قبضہ میں کرکر اس قدر سرپٹ دوڑایا کہ گھوڑے کے پسینے چھوٹ گئے۔     ’فلپس‘ (سکندر کا باپ ) اس کی قابلیت و ہنرمندی سے بڑا متاثر ہوا اور اس کی مناسب تعلیم وتربیت کے لئے ’ارسطو‘ کو اتالیق مقرر کیا۔جس سے اس نے علم طب وکیمیا اور دیگر علوم میں مہارت حاصل کی۔

’فلپس‘ کے قتل کے وقت سکندر صرف بیس برس کا تھا اورسلطنت مقدونیہ مختلف خطرات سے دوچارتھی، مقدونیہ کی ہمسایہ دیگر قومیں آزادی کی جد جہد کررہی تھیں اورسرکشی پر تلی ہوئی تھیں، تخت نشینی کے فورا بعد سکندر نے ان کی سرکوبی کا منصوبہ بنایااور مشیروں سے اس کی بابت رائے چاہی، ان لوگوں نے مصلحتاً اس سے باز رہنے اور سیاسی تدبیر سے تسخیر کرنے کا مشورہ دیا، جسے سکندر نے بزدلی اور کمزوری کی علامت قرار دیتے ہوئے نا منظور کردیا اورباغیوں پر اس قدر حملہ آور ہواکہ سرے سے رووندتا ہوا دریائے دینیوب تک جاپہنچا اور ’تربالیہ‘ فتح کرنے کے بعد اندورن یونان مائل ہواورپہلے’اہل ایتھنز‘ کو اس شرط پر معاف کرنے کا اعلان کیا کہ وہ ’فینکس‘ اور ’پروتھی ٹس‘ کو اس(سکندر)کے حوالے کردیں۔ لیکن جب اہل ایتھنز نے اس کی شرط نہیں مانی اور ’فینکس‘ اور ’پروتھی ٹس‘ کو سکندرکے حوالے کرنے سے انکار کردیا تووہ ان پربھی حملہ آورہوا اورانہیں شکست دی جس کے بعد مقدونیہ کے قرب وجوار کی ساری سلطنتیں اس کے ماتحت ہوگئیں۔

 شاہ فارس’ دارا اول‘ نے سکندر کے باپ’ فلپس‘ کو کسی جنگ میںشکست دی تھی اس لئے اس (فلپس) نے ایک ہزار سونے کے انڈے کی سالانہ خراج پر’دارا اول‘ سے صلح کی تھی اور تا حیات وہ رقم ادا کرتا رہا۔ سلطنت یونان میں’ فلپس‘ اور فارس میں دارا اول کے انتقال کے بعد یونان میں سکندر اور فارس میں’ دارا دوم‘ تخت نشین ہوئے اور حسب معمول ’کسریٰ‘ (شاہ فارس) نے قیصر (شاہ یونان) سے خراج طلب کیا تو سکندر (اس وقت کے قیصر)نے اپنے استاد اور مشیر ارسطو کے مشورے سے خراج دینے سے انکار کردیا،تیجتا دونوںمیںایک خونچکاںجنگ ہوئی جس میں دارادوم مارا گیا اور سلطنت فارس سکندر کی مرہون ہوگئی۔ ڈاکٹرشریف احمد قریشی لکھتے ہیں:

’’دارا اول نے سکندر کے باپ ’فلپس‘ کو شکست دی تھی اور ایک ہزار سونے کے انڈے سالانہ خراج پر صلح کرلی تھی۔ ’فلپس‘ کی ایک لڑکی کچھ دن تک دارا اول کے یہاں رہی تھی، لیکن دارا نے اس الزام کے ساتھ اس لڑکی کو واپس کردیا کہ وہ حاملہ ہے یا اس کے منہ سے بو آتی ہے۔ اسی لڑکی کے بطن سے سکندر مقدونی پیدا ہواتھا جو در حقیقت دارا اول کا بیٹا اور فلپس کا نواسا تھا۔’ فلپس‘ نے اپنی بدنامی کے ڈر سے سکندر کو اپنا بیٹا ظاہر کیا تھاجو دنیا میں اسی ولدیت سے مشہور بھی ہوا، ’فلپس‘ اور دارااول دونوں کے مرنے کے بعدجب دارا دوم نے مقررہ خراج ایک ہزار سونے کے انڈے طلب کئے تو سکندر نے اپنے وزیر ارسطو کے مشورہ پر مقررہ خراج دینے کے بجائے اعلان جنگ کردیا۔ سکندر نے پہلے ہی حملے میں دارا دوم کو قتل کرکے اپنی ماں اور نانا کی بے عزتی کا بدلہ لے لیا، اس کے بعد سکندر نے دارا دوم کی لڑکی ’روشنک‘ یا ’ناہید‘ سے شادی بھی کرلی تھی، یہ لڑکی اس کی بھتیجی تھی۔۳؎

 فتح فارس کے بعد سکندرہندوستان کی طرف متوجہ ہوا ’راجا پورس‘ سے مقابلہ ہوااور ایک جانکاہ مزاحمت کے بعدیونانی سپاہی زخمی حالت میں’راجاپورس‘ کو گرفتارکرنے میں کامیاب ہوگئے اور جب اسے سکندر کے سامنے پیش کیا گیا تو سکندر نے ’راجا پورس‘ سے پوچھا کہ تم کس طرح کے سلوک کی توقع رکھتے ہو ؟ ’پورس‘ نے کہا ’شاہانہ سلوک‘! جس کے بعدسکندر نے اس کی ملکیت کے علاوہ کئی اور آزادقوموں کے علاقے جنہیں یونانیوں نے اپنے زوربازو سے فتح کیاتھاراجا پورس کو بخش دیا ’سید ہاشمی فریدآبادی، اپنی مترجمہ کتاب مشاہیر یونان وروما میں لکھتے ہیں۔

’’پورس جب گرفتار ہوکر آیا تو سکندر نے پوچھا کہ کس سلوک کی توقع ہے؟ اس نے جواب دیا ۔ ’’شاہانہ سلوک‘‘ اور جب مکرر یہی سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ سب کچھ اسی مختصر جملے میں آگیا اور سکندر نے بھی اس کو مایوس نہ کیا بلکہ خود’ سا کی‘ ملکیت کے علاوہ اور کئی آزاد اقوام کا علاقہ جنھیں یونانیوں نے بزور مطیع کیا تھا اسے والی بنا کر بخش دیا، کہتے ہیں اس صوبے داری میں پندرہ قومیں اور بے شمار دیہات کے علاوہ پانچ ہزار بڑی بستیاں شامل تھیں۔ مگر یہاں کا ایک اور صوبہ جس پر فیلقوس نامی اپنے ایک دوست کو سکندر نے متعین کیا تھا پورس کی ولایت سے بھی تنگ نہ تھا۔‘‘۴؎

مذکورہ بالا اقتباس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سکندر نے میدان کارزار میں جواں مردی ، جرات وبہادری کے ذریعہ وہ کارہائے نمایاں انجام دئے کہ جن کی بدولت اس کے صرف ایک جملے سے بڑی سے بڑی سلطنتیں تاراج اور بڑے سے بڑے نامور شہنشاہ ہلاک وبرباد ہوگئے ۔ ذیل کے اشعار میں میر نے ’سکندر‘کی انہیں صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے جاہ و حشمت کا استعارہ قرار دیاہے۔            ؎

صاحب جاہ وشوکت و اقبال

اک ازاں جملہ اب سکندر تھا

سلیماں سکندر کہ شاہان دیگر

نہ رونق گئی کس کی دولت سے اب تک

مورخین لکھتے ہیں کہ جب سکندر کو اپنی موت کا احساس ہوا تو اس نے حکم دیا کہ جب اس کا جنازہ نکالاجائے تو اس کے دونوںہاتھ کفن سے باہر رکھے جائیں تاکہ دنیا دیکھ لے کہ سکندر جس نے دنیا کی عظیم سے عظیم سلطنت اور بڑے سے بڑے علاقہ کو فتح اور زیر نگیں کیا وہ بھی یہاںسے خالی ہاتھ جارہا ہے۔سردار پرتاپ سنگھ لکھتے ہیں:

’’(سکندر نے) وصیت کی کہ قبرستان کو پہونچاتے ہوئے ہاتھوں کو کفن سے باہر رکھنا تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ اتنی بڑی بادشاہی پھر بھی خالی ہاتھ جاتاہے۔‘‘۵؎

ذیل میں میر کا ایک شعر دیکھیںجس میںسکندر کی مذکورہ بالا وصیت کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔

سکندر ہوکے مالک سات اقلیموں کا آخر کو

گیا دست تہی لے یاں سے یہ کچھ کر گیا حاصل

سکندرنے ایران فتح کرنے کے بعد ۱۳ سال تک حکومت کی اور جب وہاں سے جانے لگاتو ایران کے امیروں کو ایک ایک ولایت سونپ دی تاکہ دارا کی وصیت بھی پوری ہوجائے اور ارسطو کا مشورہ بھی۔نامہ خسروان کے مترجم لکھتے ہیں:

’’۱۳؍ سال بادشاہ رہا (سکندر) اور ایران کے ہی امیروں کو ایک ایک ولایت دیدی تاکہ دارا کی وصیت پوری ہوجائے اور بیگانہ ایرانیوں پر حکومت نہ کرے۔۔۔ ارسطو نے لکھ بھیجا کہ ایرانی افسروں کو حکومت دیدے اور ان پر بے جا سختی نہ کر تاکہ خدا تیرے اوپر سختی نہ کرے اور ملک کا ایک ایک حصہ ایک ایک سردار کو دے تاکہ تیرے مقابلہ کا ان کو خیال بھی نہ آئے اور ہمیشہ آپس میں لڑتے مرتے رہیں اور سکندر نے ایساہی کیا۔

 اور پھر یونان وروم پر فتح پاتا ہوا ہندوستان پر پر چڑھ آیا، ان دونوں ملکوں کو فتح کرکے (وطن) کو لوٹتے ہوئے شہر بابل جو بغدادکے پاس ہے مرگیا۔۶؎

ذیل کے اشعار پرغور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ میرنے سکندرکی اسی جواں مردی، بہادری اورعظمت وحشمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی اورموت کی حقیقت کا ایک ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ ذہن خود بخود قران کریم کی آیت’کل شئی ھالک الا وجہہ‘(اللہ کی ذات کے سوا تمام چیزیں فنا ہونے والی ہیں)کی طرف مائل ہوجاتاہے۔شعر ملاحظہ ہو ؎

ہے زباں زد جو سکندر ہو چکا لشکر سمیت

سر بھی اس کا کھپ گیا آخر کو یاں افسر سمیت

اس شعر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سکندر پوری زندگی دنیا کو اپنے زیر نگیںکرتا رہا اور جس ملک وبادشاہت کی طرف رخ کرتا، یاتو وہ ملک اس کی ہیبت سے خود مطیع ہوجاتا تھا یا سکندر اسے اپنی لشکر اور زور بازو سے فتح کرلیتاتھا۔ پوری زندگی کبھی اس نے شکست نہیں کھائی ،وہ ہمیشہ غالب رہا کبھی مغلوب نہ ہوا، حاکم رہا محکوم نہ ہوا، لیکن موت سے کس کو رست گاری ہے۔سکندر کی بھی باری آئی اور موت نے وقت مقررہ سے نہ ایک لمحہ سبقت کی اورنہ ہی تاخیربالآخروہ بھی فنا کے گھاٹ اترگیا۔ شعر ملاحظہ ہو

نہ اسکندر نہ دارا ہے نہ قیصر ہے نہ کسریٰ ہے

یہ بیت المال ملک بے وفا بے وارثا گھر ہے

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ مذہب اسلام کے عروج سے پہلے دنیا میں’یونان وفارس‘ دو سب سے بڑی سلطنتیں تھیں، یونان کے بادشاہ کو ’قیصر‘ اور فارس کے بادشاہ کو ’کسری‘ کے لقب سے ملقب کیا جاتاتھا۔سکندر اعظم کی تخت نشینی تک ’کسریٰ‘ کی حیثیت سوپر پاور( سب سے بڑی طاقت) کی تھی جس کے کے سپہ سالاروں میں سام بن نریماں، زال اوررستم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔سکندر کی تخت نشینی کے بعد شاہ یونان   ’قیصر‘(سکندر)کا بول بالا ہوا اوردنیا کے زیادہ تر حصوں پر یونانی حکومت قائم ہوگئی۔مذکورہ بالا شعر میں میر نے ’سکندر ‘و ’دارا‘ جیسے عظیم بادشاہوں کے اس دارفانی سے کوچ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میر نے دنیا کی بے ثباتی کوایک ایسے حسین قالب میںپرودیاہے کہ اس سے سکندر ودارا کی عظمت وحشمت، قوت وسطوت کے تناظر میں دنیا کی بے ثباتی مسلم ہوجاتی ہے۔

حواشی:

۱۔             تلمیحات غالب، محمود نیازی، صفحہ ۷۰، مطبوعہ غالب اکیڈمی، ۲۰۰۲۔

۲۔            مشاہیر یونان وروما،پلوٹارک، حصہ پنجم، مترجم مولوی سید ہاشمی فریدآبادی، صفحہ۵۳، مطبوعہ انجمن ترقی اردو(شعبہ تحقیق) پاکستان

۳۔            تلمیحات ، نظیر اکبر آبادی مع شخصیات،صفحہ ۵۴۔۵۵، ڈاکٹر شریف احمد قریشی، مطبوعہ شوبی آفسیٹ، پریس نئی دہلی۔۲

۴۔            مشاہیر یونان وروما،پلوٹارک، حصہ پنجم، مترجم مولوی سید ہاشمی فریدآبادی، صفحہ ۷۹۔۸۰، مطبوعہ انجمن ترقی اردو(شعبہ تحقیق) پاکستان

۵۔            عمل شاہان ترجمہ نامۂ خسروان، سردار پرتاپ سنگھ، صفحہ ۸۷، مطبع منشی نول کشور، لکھنؤ۔ ۱۸۸۹ء

۶۔            ایضا۔ صفحہ ۸۵۔۸۶

۷۔            مشاہیر یونان وروما،پلوٹارک، حصہ پنجم، مترجم مولوی سید ہاشمی فریدآبادی، صفحہ۸۱۔۸۲، مطبوعہ انجمن ترقی اردو(شعبہ تحقیق) پاکستان

۔۔۔۔۔

Leave a Reply

1 Comment on "کلام میر میں’سکندر‘جاہ وحشمت کا ایک استعارہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] کلام میر میں’سکندر‘جاہ وحشمت کا ایک استعارہ← […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.