شائستہ یوسف کے شعری جہات
بیسویں صدی کا نصف آخرکئی سطحوں پر ادب و سماج میں تبدیلی کا ضامن رہا ہے۔ یہی وہ دور ہے جب ایک جانب ترقی پسند ادب دم توڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور یہاں تک اعلان کیا جاتا ہے کہ ترقی پسندی نے اپنا مقصد پورا کرلیا ہے اس لیے اب مزید اس کی ضرورت نہیں جب کہ زیادہ تر ترقی پسند ادیب و شاعر نے اسی زمانے میں اپنی شاہکارتخلیق سے ادب کو مالامال کیا۔ اسی زمانے میں جدید ادب کا رجحان سامنے آیا اور ترقی پسند ادیب و شاعر کے ساتھ ساتھ جدیدیت کو اپنانے والوں نے بھی اپنی پہچان بنائی اور نیا ادب تخلیق کیا۔ آخری زمانے میں جدیدیت کے بھی سانس پھولنے لگی اور پھر کہیں سے نئی حقیقت نگاری کی آواز آئی لیکن اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلانے سے پہلے ہی اپنی گمشدگی کا اعلان کردیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں ان تمام تحریک و رجحانات کی پرواہ کیے بغیر حقیقی فنکار اپنے فن سے عوام کے حس کو بیدار اور ادب و سماج کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں ۔
اس دور کی خواتین شاعر پر نظر ڈالتے ہیں تو ان میں ادا جعفری، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، کشور ناہید، سارہ شگفتہ، فاطمہ حسن، شفیق فاطمہ شعریٰ ، زاہدہ حنا، عذرا پروین، جمیلہ نشاط، نفیس بانو شمع، شہناز نبی اور ترنم ریاض وغیرہ نمایاں طور پر نظر آتی ہیں ۔ ان شاعرات کی شاعری میں جو درد و کرب اور سماج کا رویہ نظر آتا ہے ان تمام کے اثاثے کو اپنی شاعری کے ذریعے محفوظ کرتی ہوئی ایک اہم شاعرہ نظر آتی ہیں جنھیں ہم شائستہ یوسف کے نام سے جانتے ہیں ۔شائستہ یوسف کے یہاں ایک جانب ترقی پسند رویہ نظر آتا ہے تو دوسری جانب جدید لب و لہجہ دکھائی دیتا ہے۔سماج میں ہورہی تبدیلی اور اس تبدیلی کی وجہ سے انسان اور خصوصاً ہندوستانی شہری کے بدلتے مزاج کو محسوس کرکے اسے آزادی کے ساتھ شعری پیرایے میں ڈھال کر عوام کو خبردار اور غور و فکر کرنے پر مجبور کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔اپنی شاعری کے ذریعے موجودہ دور میں بتائے جانے والی فرسثدہ اور اصل حقیقت کی پہچان کرانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اور ضروری نہیں کہ تخلیق کار کو ان تمام چیزوں کا براہ راست تجربہ ہو۔ تخلیق کار اپنے حس بلکہ چٹھی حس کی مدد سے زمانے کی نبض پر انگلیاں رکھ کر اس کی بیماری کا اندازہ لگا لیتا ہے ۔ وہ خود کہتی ہیں :
’’عام طور پر جن مسائل ، مصائب، اور پریشانیوں کا زیادہ تر لوگ شکار رہتے ہیں ، خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میرا ان سے واسطہ نہیں رہا۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ میرا المیہ تو سراسر یہ ہے کہ میری ں ساری نا آسودگیوں نے آسودگیوں سے جنم لیا ہے۔‘‘
شائستہ یوسف، شعروحکمت، کتاب : ۱۱، دور سوم، صفحہ ۳۳۳
شائستہ یوسف کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھیں قدرتی مناظر سے خاص شغف ہے ۔ا نھیں زندگی کے ہونے اور اس کے فنا ہونے کے معنی و مفہوم اور خوابوں کے سحر کی تلاش و جستجو کے دوران پیش آنے والے حادثات و تجربات اور ان کی مدد سے جیتنے اور ہارنے میں جو لطف آتا ہے، اس لطف یا آشنائی کو وہ نہایت فنکاری سے اپنی شاعری کے ذریعے بیان کردیتی ہیں ۔مثال کے طور پر ان کی نظم’لاعلم ‘ دیکھیں :
میری خانقاہ میں
لوگوں کا ہجوم
میری مسافت سے
لوٹنے کا منتظر تھا ملکیت کا نشہ
سرور کی موسیقی بکھیر رہا تھا
میں نے آنکھیں بند کرکے
ہر طالب کو خوابوں کے تحفے عطا کئے
اور خود آرام کی نیند سو کر
خواب دیکھنے لگی
پھر ایک صدا آئی
’لاعلم‘ تم نے
لوگوں کو خوابوں کے تحفے تو عطا کردئے
کیا یہ تمھیں معلوم نہیں
کہ ان کے پاس
آنکھیں تو ہیں ، نیند نہیں ۔
(نظم لاعلم)
شائستہ یوسف کی شاعری کے مطالعے سے یہ علم ہوتا ہے کہ وہ قدرت کے نظارے اور ہماری تاریخی وراثت پر فخر کرتی ہیں اور اپنی نظموں میں انھیں نہایت سلیقے اور فنکاری سے پیش کرتی ہیں ۔ مثلاً سنگسار، گولکنڈہ کے کھنڈر میں تنہائی، حجاب، نظم، شجر ممنوعہ وغیرہ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ وہ حال میں رہ کر اپنے ماضی کو فراموش نہیں کرتیں ۔ انھیں تاریخ اور تاریخ میں ہو چکے واقعات و حادثات سے بہت لگا ؤ ہے۔ وہ ان واقعات اور ان سے وابستہ شخصیات کو اس فنکاری سے پیش کرتی ہیں کہ ان میں موجودہ دور اور اس میں رو نما ہونے والے واقعات و حادثات اپنی مختلف جہات کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔اس حوالے سے ان کی ایک نظم ’دوسری موت ‘ کا ایک حصہ دیکھیں :
ایک بچہ پانی میں دور تک چلا گیا
اور ایک بڑا ساشنکھ اٹھا لایا
’’اسرافیل‘‘ سے بے خبر بچے نے
شنکھ پھونکا
’’اسرافیل ‘‘ بے نقاب ہوا
زمین لرز گئی
ہوائیں بے قرار ہوئیں
پانی کی تہہ میں پہاڑ ریزہ ریزہ ہوئے
اور سمندر کی سطح پر
روئی کے گالوں کی طرح اڑے
پانی کی لہر ہزاروں فیٹ اوپر بلند ہوئی
اس کی رفتار، روشنی کی رفتار کو چھونے لگی
حسین لہراتی موج
دہشت ناک اژدہے میں تبدیل ہو گئی
اور
ہر چیز کو کھاتی گئی
بھاگتے غل مچاتے لوگ
توبہ اور معافی سے بھی محروم رہے
حاملا ؤں کے حمل گر گئے
ہاتھ میں رکھے نوالے حلق تک نہ پہنچ پائے
اٹھایا ہوا قدم زمین نہ چھو سکا
بڑی بڑی عمارتیں زمیں بوس ہو گئیں
محفل نشاط، غم کے لبادے میں ڈوب گئی
آسمان نے اپنے ہونے کا اعلان کیا
پھر بھی کوئی سر سجدہ میں نہ جھک سکا
(نظم دوسری موت)
آپ لوگوں کی نظروں کے سامنے 2004 میں آئے سونامی کا منظر ضرور پھر گیا ہوگا۔ جی ہاں یہ منظر تو وہی ہے لیکن اس کی تاویل مختلف ہے ۔ تبھی تو شائستہ کہتی ہیں :
’’سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں سوچتی رہ گئیں ،
اچھا ہوا کہ،
قدرت نے دوسرے جنم کی طرح،
دوسری موت نہیں رکھی‘‘۔
اور یہی نہیں بلکہ اس طرح کی تباہی و بربادی دنیا کے مختلف حصوں میں ان گنت بار ہوئی ہے۔ کبھی سمندر اور ندیوں نے تباہی محائی ہے تو کبھی انسانوں نے سمندر اور ندیوں کو تباہی مچانے پر مجبور کیا ہے۔کبھی قدرت تباہی کے نام پر تو کبھی ایٹمی تجربے کے نام پر۔ لیکن تباہ تو ہر دو صورت میں انسان اور انسانیت ہوئی ہے۔اور شائستہ یوسف اس تباہی کو محسوس کرکے اپنی نظموں اور غملوں میں فنکاری سے بیا ن کرتی ہیں ۔
آزادی کے بعد کی جن شاعرات کا ذکر کیا گیا ہے ان کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں نسائی مزاج کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہیں ۔ ان میں شائستہ یوسف کی آواز بھی ایک اہم آواز ہے۔خواتین فنکاروں میں ایسی آواز کم کم ہی سنائی دیتی ہے جن کے یہاں عورت کے وجودی کرب کا اظہار ہو۔ عورت کی حالت بالکل زمین کی مانند ہے جو زندگی کی کھیتی کو ہمیشہ ہرا بھرا رکھتی ہے لیکن فصل کٹ جانے کے بعداس وقت تک اس جانب کم کم ہی لوگ دیکھتے ہیں جب تک کہ اگلی فصل کی بوائی کا موسم نہ آجائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک جانب یہ زمین فصل سے لہلہاتی ہے تو دوسری جانب آتش فشاں بھی اسی زمین سے پھوٹتے ہیں ۔یہی آتش فشاں جب شاعری کا پیرایہ اختیار کرتا ہے تو کبھی سماج کے تشکیل کردہ نظام کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور کبھی دھیمے لہجے میں اپنا احتجاج درج کراتا ہے۔ایسے موقعے پر اکثر لہجہ اور آواز دونوں بلند ہو جاتا ہے۔لیکن شائستہ یوسف کی شاعری میں یہ احتجاج اور شکایت دونوں کا لہجہ نرم ہے۔ وہ نرم لہجے میں سخت بات کہنے کے ہنرسے بخوبی واقف ہیں ۔ان کی نظم ’نجات‘ کا یہ حصہ دیکھیں :
ذہن اک آتش فشاں ہے
جس میں منظر اور نغمے کا
باتوں کا، یادوں کا
ایسا لاوا ہے
جس کی کوئی شکل نہیں
لیکن
جس دن
اس میں ہلچل ہوگی
باتیں منظر کھا جائیں گی
یادیں
آگ کی کشتی ہوگی
شعلے نقش مٹاتے جائیں گے
پھر آواز میں جادو ہوگا
اور لاوے میں
بہتے بہتے
سب دیواریں گر جائیں گی
تنہائی تنہا نہ رہے گی۔
(نظم نجات)
شائستہ یوسف کا کہنا ہے کہ ’’کبھی پینٹنگ کرتے ہوئے اور کبھی اسٹیج پر کام کرتے ہوئے مختلف کرداروں میں ڈھل کربے شک مجھے ایک طرح کی تسکین ملتی تھی لیکن لفظوں کے جادو اور مصرعوں کے آہنگ نے مجھے پہلی بار ایک نئی دنیا کی سیر کرائی اور نادیدہ زمانوں کے منظر دکھائے۔‘‘ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک زمانے میں پینٹنگ کی اور اسٹیج سے بھی ان کی وابستگی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں جو مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اس کے ہر منظر میں ایک تصویر مضمر ہے اوراس تصویر میں مختلف قاری کو مختلف معنی پوشیدہ محسوس ہو سکتے ہیں بلکہ مختلف زمانے میں ان کی معنویت بدل سکتی ہے۔ ان تصاویر یامناظر کو پیش کرنے کے لیے شائستہ یوسف کبھی کہانی بیان کرنے کا انداز اختیار کرتی ہیں تو کبھی مکالمے کی صورت میں پیش کرتی ہیں ۔ ان مکالمے اور مناظر میں زمانے کے نشیب و فراز کے ساتھ اپنے وجود کو ملحوظ رکھتے ہوئے جمالیاتی انداز میں اپنے خیال کو پیش کرتی ہیں ۔اس لیے ان کی شاعری نہ صرف ان کی اپنی آواز معلوم ہوتی ہے بلکہ اس میں ماضی اور حال دونوں اپنے جمال کے ساتھ صاف نظر آتا ہے جس سے مستقبل کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔اس انداز کی ایک نظم کا حصہ دیکھیں :
میرے سرہانے جو کتبہ ہے
اس پر تم نے اتنا پیارا شعر لکھوایا ہے
جو بھی پڑھے اس قبر میں سونا چاہے
جب تم آکر پھول چڑھاتے ہو
(خود کی پوجا کرواتے ہو)
میں چاہتی ہوں دو اک پل کا جینا
تم سے مانگوں
پتھرائی آنکھوں کا ٹھہرا ساگر
اک پل کو زندہ ہو جائے
اک پل کے سویں حصے میں
میں تم سے صدیوں جتنا پیار کروں
(نظم تم سے صدیوں کا پیار کروں )
شائستہ یوسف کے دور کی نسائی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں احتجاج اور بغاوت کی آواز میں شدت اور بلند آہنگی کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے جبکہ ان کی شاعری میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کا مطلب ہرگزیہ نہیں ہے کہ وہ احتجاج نہیں کرتیں یا ان کی شاعری میں بغاوت کا عنصر شامل نہیں ہے، اپنے وجود اور اہمیت کا احساس نہیں کراتی بلکہ ان کی شاعری میں وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو کسی بھی اہم نسائی آواز کا جز ہے۔ ہاں شائستہ اپنے احساس و آواز کو تماشا نہیں بناتیں ،نہ ہی اپنی دانشوری کو منواتی ہیں ، بلکہ اپنی بات سادگی اور کھرے پن کے ساتھ، اس شائستگی سے کہتی ہیں کہ قاری کے دل و دماغ میں دیر تک محفوظ رہے اور اس کا اثر بھی دیرپا ہو۔ نظم واپسی کا یہ حصہ دیکھیں :
سپیرا روزانہ
مجھے سانپ سے ڈسواتا ہے
اور تماشائی
دل چسپی سے کھیل کے
دوسرے حصے کا
انتظار کرتے ہیں
مردہ بدن میں
دوبارہ زندگی کے آثار،
دیکھنے کے اشتیاق میں
بے قرار ہوتے ہیں
اور میں
سپیرے کے ایک اشارے پر
دھیرے دھیرے
سانس روکنے کے عمل کو
لوگوں کی تالیوں کی نظر کرکے
پیسے بٹورنے لگتی ہوں
روزانہ جی چاہتا ہے
یہ لمحاتی موت
لافانی بن جائے۔
(نظم واپسی)
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ انسان کی عام زندگی میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کو کس طرح موضوع بناکر اپنے مخصوص انداز میں اس فنکاری سے پیش کرتی ہیں کہ ہر شخص کو اپنا تجربہ لگتا ہے اور نہ صرف قاری بلکہ فنکار بھی ان کا مطالعہ کرتے وقت رشک کرتا ہے۔ ان کی بیشتر نظموں کو اس زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ شائستہ کی فنکاری مزید اہمیت اختیار کرلیتی ہے جب وہ اسلامی واقعات کو موضوع بناتی ہیں ۔ اسلامی تاریخ میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کی مدد سے شائستہ یوسف نے نسائی آواز میں نیا رنگ بھرا ہے۔ ان کی آواز بلند نہ ہونے کے باوجود دور تک اور دیر تک سنائی دیتی ہے۔اس انداز کی نظموں میں لایکلف اللہ نفسہ الاوسعہا (خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا)، ایلی ایلی لما شفقتنی (اے خدا، اے خدا، تونے مجھ پر شفقت کیوں نہیں کیا)، ہفت افلاک،حاضری، خدا، میدان کربلا، تو حاصل نہ کردی بہ کوشش بہشت، صدائے زلیخا وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں ۔ نظم ایلی ایلی لما شفقتنی (اے خدا، اے خدا، تونے مجھ پر شفقت کیوں نہیں کیا) دیکھیں :
موت کے بعد
گزرنے والے
تجربے کیا سکھاتے ہیں
اس کا علم نہیں
جن کیفیتوں سے گزری ہوں
ان میں کتنے جنم ، کتنے یگ
دائرہ دار
آگ کو گلزار
گلزار کو آگ
بناتے گزر گئے
لیکن، اب میری آزمائش
اور میری بے بسی کی انتہا
تجھے پکارتے ہیں
تونے ’وفیہا نعید کم‘ کہا (تجھے اسی مٹی میں لوٹا رہے ہیں )
میں نے قبول کیا
اور صدیاں گزرگئیں
مجھے بتا
میں کب تک
اس اندھیرے میں
’(ومنہا) نخرجکم تارۃً اخریٰ‘ (اور پھر اسی مٹی سے دوبارہ زندہ کریں گے)
کی منتظر رہوں
(ایلی ایلی لما شفقتنی )
اس طرح بہت سی نظموں میں شائستہ مکالماتی انداز اختیار کرکے خدا اور اس کے بندے سے کلام کرتی ہیں ۔ اس کلام کے پہلے اور دوران کلام فنکار کے اندر کی بے چینی کا احساس بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ان کی شاعری کو رمز و صراحت کے درمیان کی کشمکش سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔بعض نظموں کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شائستہ یوسف اپنی داخلی اور خارجی کشمکش سے نبرد آزما ہورہی ہیں ۔ یہ تذبذب اور کش مکش اپنے وجود اور اجتمائی جبر کی بھی ہو سکتی ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ وہ خود سے ہی الجھ رہی ہیں ۔لیکن اس الجھن کو بھی اپنی نظموں میں جس فنکاری سے بیان کیا ہے وہ ان کا ہی حصہ ہے۔ ان کی فکر اور شعری جہت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہی لفظ یا اس کی صفت کو اس انداز سے بیان کرتی ہیں کہ قاری کے ذہن کے دریچے کھلنے کے ساتھ ساتھ شاعر کی فکر دوبالا ہوجاتی ہے۔جس زمانے میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ مکمل صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ نظم ’ ہفت افلاک‘ میں انھوں نے آنکھ اور ہاتھ کی جو صفات بیان کیے ہیں ، آپ بھی دیکھیں :
ساتواں آسمان
آنکھوں سے ڈھک گیا
کئی طرح کی آنکھیں
لال پیلی، نیلی
سفید، غم زدہ، الم ناک
محروم، آسودہ، کھلی ہوئی، نیم باز، خوابیدہ آنکھیں
چھوٹی ، بڑی ، خوفناک ، معصوم آنکھیں
غضبناک آنکھیں
رحیم آنکھیں
حسین آنکھیں
بدصورت ، سسکتی پریشان آنکھیں
پرسکون آنکھیں
ناچتی آنکھیں
نشیلی آنکھیں
سب کی سب ، بادلوں کے دریچے سے، جھانکتی رہیں
ساری آنکھیں منتظر تھیں
کس کا انتظار تھا ، اس بات سے بے خبر تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس بات سے ہر آنکھ واقف تھی
کہ لا متناہی دھویں کے سمندر میں
اس کا وجود پیوست ہے
زمین کے وجود پر
کئی ہاتھ لگاتار کسی نہ کسی فعل میں مصروف تھے
پینٹنگ بناتے ہاتھ، لوہا پیٹتے ہاتھ، کمپیوٹر چلاتے ہاتھ
کرتب دکھاتے ، رقص کرتے، پھول سجاتے ہاتھ
دیے جلاتے ہاتھ
رخساروں پر توبہ کرتے ہاتھ
سینے پر ماتم کرتے ہاتھ
بچاتے ہاتھ، گلا گھونٹتے ہاتھ
اگر بتیاں جلاتے، خیرات کرتے ہاتھ
محبت کرتے ہاتھ
پیانو بجاتے، ستار چھیڑتے، پوجا کرتے ہاتھ
مردے ڈھوتے ہاتھ
دولت لٹاتے ہاتھ، دولت سمیٹتے ہاتھ
ہاتھوں کی ان زنجیروں میں
تمام افعال پناہ گزیں تھے۔
(نظم ہفت افلاک)
شائستہ یوسف نے ہندوستانی زبانوں کے ادب کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی ادب کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ ان کے یہاں نہ صرف ہندوستانی اورعالمی تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات اور شخصیات کا حوالہ کثرت سے ملتاہے بلکہ اسلام کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے اصول وضوابط اور ان کے حوالے ان کی شاعری میں جابجا موجود ہیں ۔ کئی نظموں کے عنوانات عربی میں قائم کیے ہیں تو کچھ فارسی اور انگریزی میں بھی موجود ہیں ۔جیسے ’’واٹر لینڈ( Water Land )، فریب حقیقی (Virtual Reality) ،رانگ زون (Wrong Zone) ، روبوٹ‘‘ وغیرہ انگریزی میں ہیں تو ’’ کشف الحجاب، لایکلف اللہ نفسہ الاوسعہا (خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا)، ایلی ایلی لما شفقتنی (اے خدا، اے خدا، تونے مجھ پر شفقت کیوں نہیں کیا)، ہفت افلاک،احیائ، ربی ارنی انظر، عالم الغیب‘‘ وغیرہ عربی اور ’’ تو حاصل نہ کردی بہ کوشش بہشت، ہستم اگرچہ من روم گر نہ روم نیستم‘‘ وغیرہ فارسی میں قائم کیے گئے ہیں ۔
شائستہ یوسف کی نظمو ں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو اپنی تیسری آنکھ سے دیکھنا چاہتی ہیں ۔ اس دنیا کو جس میں انسانیت کا بول بالا ہو، تفریق و منافرت کی کوئی جگہ نہ ہو، جنسی مساوات اور ان کا اپنا وجود ہو، تاریخ کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے، ایک ایسا سماج ہو جہاں کھلے ذہن سے رد و قبول کی گنجائش ہو، ایک ایسا ملک ہو جہاں خدا اور ان کے مخلوق کی بنائی ہوئی ہر چیز کی قدر و قیمت ہو اور اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے۔ ہاں ان کی شاعری کے مطالعے سے ان کی فکر کی مانند ان کی زبان کی پختگی کا علم نہیں ہوتا ۔ لیکن ان کی فکر کی پختگی اور زبان کا کچا پن ہی ان کو اپنے دور کی شاعرات سے الگ کرتا ہے۔ کبھی وہ سرگوشی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں تو کبھی شائستگی سے اپنی بات کو رکھتی ہیں ۔ اور یہی سادگی، برجستگی اور بے باکی ان کی انفرادیت اور شعری خصوصیات کی ضامن ہے۔
شائستہ یوسف نے اپنی نظموں میں اپنے تجربات اور دنیا کی بے ثباتی کو پیش کیا ہے تو انھوں نے غزلوں میں روایت کی پاسداری کے بجائے اپنی باتیں نئے انداز اور شائستگی سے بیان کیے ہیں ۔ ان کی غزلوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی غزلیں روایت سے انحراف کرتی دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے غزل میں کلاسیکی روایت اور لفظیاف کے بجائے جدید رجحان اور گھریلو پیکروں کا فنکارانہ استعمال کیا ہے۔ نسائی آواز میں ان کی آواز دوسری شاعرات سے اس لیے بھی الگ اور منفرد ہے کہ ان کے یہاں اپنے تجربے اور مشاہدے ہی نہیں بلکہ روز مرہ کی زندگی موجود ہے۔ خواہ وہ محبوب کی یاد میں کھوجانے کی وجہ سے دودھ کا ابلنا ہو یا برتن کا ٹوٹنا، بچپن میں کھیلنے والے آنگن میں دیوار کا کھڑا ہونا ہو یارستہ اور گھر کا کھو جانا، چولھے میں دھواں کا اٹھنا ہو یا خوابوں میں خواب دیکھنا، انھوں نے اپنی غزل میں انھیں نہایت فنکاری سے پیش کیا ہے۔چند اشعار دیکھیں :
اب کھڑی ہیں وہاں پہ دیواریں
جس کے آنگن میں جھولتے تھے ہم
کیوں مرے درد کو یقیں ہے بہت
تیری آنکھوں میں بھی نمی ہوگی
ساری باتیں ہیں یہ مقدر کی
مجھ کو تجھ سے کوئی گلہ ہی نہیں
کیا خبر تھی کہ چھوڑ کر جنت
زندگی کا عذاب دیکھیں گے
مختلف راستوں سے گذری ہوں
کسی رستے میں گھر نہیں آتا
آگ جلتی رہی یہاں لیکن
کوئی موسیٰ ادھر نہیں آتا
دودھ بہہ جائے ابل کر کبھی برتن ٹوٹیں
اور کب تک ترے بارے میں مسلسل سوچیں
شائستہ یوسف کی شاعری نہ صرف اپنے دور کی آئینہ دار ہے بلکہ ان کے شعری مجموعہ ’’سونی پرچھائیاں ‘‘ اور ’’گل خودرو‘‘ کے مطالعے کے بعد ان کی شعری جہات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ وہ ایک جانب زمانے کی نبض پر اپنی انگلیاں رکھتی ہیں تو دوسری جانب اپنی روایت کو کریدنے کے ساتھ ساتھ اس پر سوال بھی اٹھاتی ہیں ۔ ایک جانب نئی دنیا کو سلام کرتی ہیں تو دوسری جانب اس دنیا کی بے بضاعتی کی نشاندہی بھی کرتی ہیں ۔ ایک جانب مذہبی عقائد و جذبات کا خیال رکھتی ہیں تو دوسری جانب بے جا روش کو تنقید کا نشانہ بھی بناتی ہیں ۔اپنی شاعری میں دیومالائی عناصر کو فنکاری سے پیش کیا توان میں موجود فرسودہ روایات کو طشت از بام بھی کیا ہے۔ گویا شائستہ یوسف اپنے دور ہی نہیں بلکہ اپنی تہذیب و روایت کی روشنی میں اپنی شاعری کا تانا بانا بنتی دکھائی دیتی ہیں ۔اپنی گفتگو کومزید طول نہ دیتے ہوئے خلیل مامون کے الفاظ میں اسے ختم کرتا ہوں ۔ شائستہ یوسف کی شاعری کے بارے میں ان کے خیالات آپ بھی دیکھیں :
“شائستہ یوسف کی شاعری ایک ایسی مضطرب روح کی پکار ہے جو ازلی رشتوں کی تلاش میں خلا ؤں ، آسمانوں اور زمینوں میں گونج رہی ہے۔ اس گونج میں دیو مالائی پیکروں کا لمس بھی ہے اور جدید حقائق کا مدقوق سایہ بھی ہے۔ یہ ملا جلا تاثر شائستہ یوسف کی شاعری کو ایک ایسی انوکھی ندرت سے نوازتا ہے جو اس کی نظموں اور غزلوں میں الگ الگ طرح سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ تذبذب ، محرومی اور تلاش اس ندرت کا اٹوٹ حصہ ہیں ۔”
(خلیل مامون، پیش لفظ، سونی پرچھائیاں ، صفحہ ۱۵)
٭٭٭
ڈاکٹر محمد کاظم
ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی۔ دہلی، انڈیا
Leave a Reply
Be the First to Comment!