ٹیگور کی افسانہ نگاری
رابندر ناتھ ٹیگور (1861 تا 1941)ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ایک طرف جہاں وہ ایک ماہر تعلیمات تھے وہیں دوسری طرف انہوں نے مختلف نثری وشعری اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ ڈراما، ناول، مصوری، افسانہ اورشاعری میں وہ ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کوسب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت ان کی شاعری گیتانجلی کی بدولت حاصل ہوئی۔ ٹیگور نے اپنی شاعری میں مختلف موضوعات کو پیش کیااور رومانی شاعری میں تو وہ اپنی مثال آپ رہے۔ لیکن بحیثیت افسانہ نگار بھی ٹیگور کانام نمایاں نظر آتا ہے۔ ٹیگور کے افسانوی سفر کی ابتدازمانۂ طالب علمی سے ہوئی ۔ انہوں نے تقریباً سو افسانے تخلیق کیے۔ جو مختلف مجموعوں کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کی افسانوی خدمات کا اعتراف شانتی رنجن بھٹا چاریہ، سومناتھ متر، بِسوا جیون مجمدار، گوتم چٹرجی، طاہر علی ، قمر رئیس، پروفیسر صغیر افراہیم، پروفیسر علی احمد فاطمی وغیرہ نے کیابھی ہے مگر ان کے افسانوی ادب پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے۔ ٹیگور کے افسانوں کا تعلق جن موضوعات سے ہے وہ معاشرے میں بکھرے ہوئے وہ سنگین مسائل ہیں جو زندگی کے حقائق کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے افسانے امیروں کی ٹھاٹ باٹ سے لے کر غریب اور مسکین طبقے کی غربت اور معاشرتی و سماجی بدحالی کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کی کہانیوں کو پڑھ کر قاری کا ذہن ان سنگین مسائل سے بغاوت کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ سماج میں پھیلے جادو ٹونے کے ذریعہ سادہ لوح انسانوں کو کس طرح توہم پرست بنایا گیا ہے،لوگ اندھ وشواس میں کس حد تک ڈوبے ہوئے ہیں، ان مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کی نفسیات پر بھی کئی کہانیاں تحریر کی ۔ اپنی کہانیوں میں عورتوں کے سماجی و معاشی اور گھریلومسائل کو بھی بخوبی پیش کیا ہے۔ ٹیگور کی افسانہ نگاری کی خصوصیات پر تبصرہ کرتے ہوئے سومناتھ متر لکھتے ہیں: ’’گہری حقیقت پسندی، دلکش قومی تخیل، اصلی اور ضروری باتوں پر نظر، اور ان کو اپنے کام میں لگانے کی قابلیت ، جذبات اور مبالغہ سے نفرت، انسانیت کا وسیع تصور، ناانصافی اور ظلم سے بیزاری اور پھر بے مثل تعمیری صلاحیت۔ یہ باتیں ان کی کہانیوں کا تار و پود ہیں۔ لیکن ان کے اشعار کی آب داری تمام تر ان ہی خصوصیات پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کہانیوں میں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ان میں ٹیگور کے گرد و پیش کے حالات اور ماحول کا عکس پایا جاتا ہے۔ ان پر جو تصورات اور احساسات غالب تھے ان کا پتہ چلتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سے مسائل تھے جو زندگی میں ان کو اکثر پریشان کیا کرتے تھے۔‘‘ (اکیس کہانیاں (رابندر ناتھ ٹیگور) مترجم ابو الحیات بردوانی،تمہید ص 11ساہتیہ اکادمی، دہلی1981) بیسویں صدی کے آغاز کو اردو افسانے کی ابتدابھی قرار دیا جاتا ہے۔جبکہ بنگلہ میں انیسویں صدی کے اختتام تک ٹیگور کے پچاس افسانے منظر عام پر آچکے تھے۔ٹیگور نے اپنی افسانہ نگاری کا آغاز اس وقت کیا جب وہ اپنی زمینداری کی دیکھ بھال کے لیے پدماندی کے کنارے بسے گاؤں کا دورہ کرنے گئے ۔ وہاں کی آب و ہوا کے ساتھ ساتھ لوگوں کی رہن سہن اور رسم و رواج نے ان کے ذہن کو کافی متاثر کیا۔ اس کا عکس ا ن کے افسانوں میں صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے خواہ وہ قدرتی مناظر کی بات ہوں یا سماجی و معاشرتی مسائل ۔ تین جلدوں پر مشتمل کلیات ’گلپ گچھ‘ میں ان کے 84افسانے ہیں بعد میں چوتھی جلد میں بھی ان کی کئی کہانیاں شامل ہوئیں۔ نوکا ڈوبی، سنگ تراش، شعلۂ آب، آزادی کا دیوتا، خونی سماج، وطن پرست اور کابلی والا ان کے اہم افسانوی مجموعے ہیں۔کہانیوں کا ایک مجموعہ دہلی یونی ورسٹی کے سینٹرل لائبریری میں ’خاموش حسن اور دیگر افسانے‘ کے نام سے موجود ہے جسے نرائن دت سہگل اینڈ سنز، لاہور نے شائع کیا ہے اور منشی تیرتھ رام فیروزپوری نے اصلاح و نظر ثانی کی ہے۔ٹیگور کے مشہور افسانوں میں کابلی والا، پوسٹ ماسٹر، ایک رات ، اتیتھی، دولہا دلہن، زندہ و مردہ، مظلوم ، دولت کا نشہ، لین دین، پڑوسن، ناآشنا، وصیت نامہ، خانہ بدوش، آزمائش کی رات، بیوی کا خط ،پوشدہ دولت،ناکام محبت اورخاموش حسن کا نام لیا جاسکتا ہے۔ ٹیگور نے اپنے افسانوں میں زندگی کے حقائق کو پیش کیا ۔ گاؤں کے ماحول ، اس کے سماجی، سیاسی اورمعاشی حالات کے علاوہ سماج میں رائج غلط رسم و رواج کو افسانوں کا موضوع بنایا۔ اپنے افسانوں میں قدرتی ماحول کی بھرپور عکاسی کی ۔ ویسے تو ٹیگور نے افسانوں کے علاوہ کئی ناول بھی تحریر کیے جن میں کرونا، ٹھاکرانی کی ہاٹ، راج رشی، چوکھیر بالی، گورا، چتورنگا، گھرے بائرے، جوگا جوگ، دوئی بون، مالنچہ، چاراُدھیہ وغیرہ اہم ہیں مگر ان میں ان کا ناول ’گوراـ ـ‘ فکری اور فنی اعتبار سے نہایت چست و درست ہے۔ٹیگور ایک حقیقت نگار، ماہر نفسیات اور غیر معمولی واقعات کو تاریخ بنانے کے فن سے واقف تھے۔ ان کی کہانیاں سیدھے دل میں اترتی ہیں۔ان کے کردار انسانیت اور انسانی نفسیات کے آئینہ دار ہیں۔ جن میں مرد ، عورت، بچے، بوڑھے ، غریب و امیر اپنے مخصوص نفسیات کے ساتھ ہمارے سامنے جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔ جو مبالغہ اور تصنع سے دور حقیقت کے عکاس ہیں۔ ٹیگور کے ناولوں اور افسانوں میں کردار نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر صغیر افراہیم لکھتے ہیں: ’’ٹیگور کے ناولوں اور افسانوں کے نمائندہ کرداروں میں سوبھاشنی، منی، مہندر، آشا، لکشمی، سری بلاس، آنند پرشاد، شیوتوش، لیلا نند سوامی، رتن ، تاراپد، مرنمئی ، بنودنی، دامنی، رحمت، سندیپ، بملا، آیلا وغیرہ ہیں جنھیں قاری ان کی عادات و اطوار، حرکات و سکنات کی وجہ سے فوری پہچان لیتا ہے کہ یہ ’پوسٹ ماسٹر‘ کی نوخیز رتن، کابلی والا کی ننھی منی، اتیتھی کا مسکین تاراپد ،سماپتی کی شوخ اور چنچل مرنمئی، چوکھیر بالی کی کمسن بیوہ بنودِنی اور چتورنگا کی باغی بیوہ دامنی ہے۔ سوبھاشنی قناعت پسند ، صابر و شاکر ہے۔ مہندر پیدائشی کمزور اور کند ذہن ہے جو اپنی ذمے داریوں سے بھاگتا ہے۔ آشاؔ غیر مہذب اور پھکڑ ہے تو لکشمی ہوشیار، معاملہ فہم اور رحم دل ہے۔ رتنؔ سلیقہ شعار ہی نہیں بلکہ اپنے حق کی لڑائی لڑنے کو تیار رہتی ہے۔ لیلا نند سوامی کی شخصیت میں ذہانت اور وقار ہے۔ تاراپد میں دبی اور سہمی ہوئی خواہش سر ابھارتی رہتی ہے۔ بملا بے باک، خودد ار اور حسّاس ہے۔ آیلاؔ کا رویہ در گزر اور مثبت سوچ کا ہے۔‘‘ (ٹیگور کا افسانوی ادب- ایک مطالعہ، از پروفیسر صغیر افراہیم، مشمولہ رابندر ناتھ ٹیگور: فکر و فن۔مرتبہ خالد محمود، شہزاد انجم،ص 450 مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی2012 ) ’کابلی والا‘ ٹیگور کا سب سے زیادہ مقبول افسانہ ہے۔ جس پر فلم بھی بن چکی ہے۔ اس افسانے میں ٹیگور نے انسانی نفسیات کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار رحمت ڈرائی فروٹ بیچنے والا ہے۔جسے ایک پانچ برس کی بچی مینی اپنی بھولی بھالی باتوں سے اپنا دوست بنا لیتی ہے۔ وہ اس قدر متاثر کرتی ہے کہ اس میں اسے اپنی بیٹی کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔مینی کے کردار میں ٹیگور نے بچے کی معصوم نفسیات کو بڑی خوبی کے ساتھ ابھارا ہے۔ جس میں امیر غریب کی تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی۔کہانی میں اس وقت موڑ آتا ہے جب لمبے عرصے کے بعد کابلی والا مینی سے ملنے آتا ہے اور اس کا والد ملنے کو منع کردیتا ہے۔ مگر جب اسے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ مینی میں کابلی والے کو اپنی بیٹی نظر آتی ہے اسی لیے ملنے آتا ہے تو اسے ملنے سے نہیں روک پاتا۔ اس پوری کہانی میں نفسیات کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ سرحدوں سے دور، الگ ملک، الگ سماج اورالگ رسم و رواج ہونے کے باوجود دونوں کہیں نا کہیں ایک ہیں وہ ہے باپ ہونے کی حیثیت۔ ٹیگور نے اس میں دکھایا ہے کہ خواہ کوئی کہیں کا بھی باشندہ ہو مگر وہ کہیں نا کہیں ایک ضرور ہے ۔ ان کی نفسیات اور سوچ ایک ہی طرح ہیں۔ٹیگور نے اس کہانی کے کردار کو اپنی تخیل کے مطابق گڑھا ہے اور ان سے ایسی ہمدردی جتائی ہے گویا یہ حقیقی واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کہانی کے پڑھنے کے بعد قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ’ناآشنا‘ بھی بہت دلچسپ کہانی ہے جس میں ٹیگور نے سماج میں پھیلے غلط رسم و رواج کوابھارا ہے۔ خاص کر جہیز کو سماج کے لیے ناسور بناکر پیش کیا ہے۔ٹیگور نے اس کہانی میں معاشرے میں پل رہے جہیز جیسے ناسور پر ایک ماہر جراح کا کام کیا ہے۔ لڑکے والوں کی بے جا مانگ کے پیش نظر بارات کو لوٹانا لالچی معاشرے کے منہ پر ایک ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ ایک ترقی پسند نظریے کو پیش کرتا ہے۔اس افسانے کا اہم کردار لڑکے کا مامو ں ہے جس کے اشاروں پر لڑکا کٹھ پتلی کی طرح ناچتا ہے۔ اس کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے۔ اس کے برعکس لڑکی کے باپ کا کردار متحرک او رجیتا جاگتا ہے جو سماج کے جھوٹے رسم و رواج سے بے خوف جہیز کے لالچی بارات کو لوٹاکر معاشرے کو ایک نئی راہ دکھاتا ہے۔ ٹیگور نے اس وقت اس موضوع کو ابھارا جس وقت کسی میں اس طرح کافیصلہ لینے کی ہمت نہیں تھی۔جہیز اور لڑکی کے مسائل پر تنقید کرتے ہوئے قاری کو اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ بھی ان برائیوں کے خلاف آواز اٹھائے اور اس برائی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے ۔ ’پوسٹ ماسٹر‘ بھی ایک مقبول کہانی ہے جس میں قدرتی مناظر کی خوب عکاسی کی گئی ہے۔ کہانی کوئی اہم نہیں ہے۔ڈاک بابو کو شہر سے دور ایک چھوٹے سے دیہات میں نوکری ملتی ہے۔ وہیں پر رتن نامی ایک چھوٹی اور مسکین لڑکی رہتی ہے جو ڈاک بابو کے کام کاج میں ہاتھ بٹا دیتی ہے جس کے بدلے اسے کھانا مل جاتا ہے۔ ڈاک بابو جب بیمار ہوتا ہے تو وہی لڑکی اس کی تیمارداری کرتی ہے۔ مگر ڈاک بابو کا دل اس بستی میں نہیں لگتا اور وہ بستی چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ ٹیگور نے اس میں بتایا ہے کہ ساتھ رہتے رہتے ڈاک بابو سے لڑکی کی انسیت کیسے بڑھ جاتی ہے۔ پوسٹ ماسٹر کے بیمار ہونے پرایک چھوٹی سی لڑکی اس کی کیسی تیمار داری کرتی ہے، وہ راتوں رات کس طرح ایک عورت کی طرح خیال رکھنے لگتی ہے جسے ٹھیک طرح اپنا شعور بھی نہیں تھا۔ کہانی کے اخیر میں جب ڈاکیہ اپنی جگہ چھوڑ کر جانے لگتا ہے اور وہ لڑکی اس کے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے تو اس کے جذبات کا خیال کیے بغیر فوراً انکار کردیتا ہے ۔اس سے کہانی میں اچانک موڑ آجاتا ہے۔ آخرکار ڈاک ماسٹر گاؤں چھوڑ کر کہیں دور چلا جاتا ہے اور واپس کبھی نہیں آتا۔ مگر لڑکی اس کے آنے کا انتظار کرتی رہتی ہے۔ یہ پوری کہانی کئی جگہ نئے موڑلیتی نظر آتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ لڑکی کو اپنے ساتھ لے جائے یا اپنے راستے سے واپس آجائے ۔ مگر ٹیگور نے اپنی کہانی میں یہ پیش نہیں کیا۔ لڑکی کو ڈاک ماسٹر کے ساتھ رہتے رہتے اتنی انسیت ہوجاتی ہے کہ جب وہ چلا جاتا ہے او رکبھی واپس نہیں آتا، تب بھی وہ اس کا انتظار کر تی ہے۔ ٹیگور نے جہاں یہ دکھایا ہے کہ مرد ذات جذبات سے عاری ہوتا ہے وہیں اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو انتظار میں اپنی زندگی گزارسکتے ہیں۔ ٹیگور نے اپنی کہانیوں کا موضوع سماج میں پھیلے غلط عقائد کو بھی بنایا ہے۔ کہانی ’زندہ و مردہ‘ میں جب کادمبنی نامی بیوہ کی حرکت قلب بند ہوجاتی ہے اور اسے مردہ سمجھ کر جلانے لے جاتے ہیں کہ شمشان گھاٹ پر اس کو ہوش آجاتا ہے اور وہ وہاں سے فرار ہوجاتی ہے۔ کچھ دنوں بعد جب وہ سماج میں آتی ہے تو سماج اسے قبول نہیں کرتا ۔ اس کو انسانی سایہ کہہ کر اس سے بھاگتا ہے۔ وہ لاکھ کہتی ہے کہ میں زندہ ہوں ، میں زندہ ہوں مگر سماج نہیں مانتا۔ آخر کار وہ اپنی جان دے کرثابت کرتی ہے کہ وہ مری نہ تھی زندہ تھی۔ ٹیگور نے اس کہانی میں بتایا ہے کہ سماج میں کیسے کیسے غلط خیالات پنپ رہے ہیں۔ غلط عقائد کی وجہ سے ماں اپنے بیٹے کو بلی چڑھا دیتی ہے۔ بیوہ سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں اور اس کے سائے سے بھاگتے ہیں۔ سماج میں پھیلے اس غلط توہم پرستی اور رسم ورواج کے سبب عورتوں کوکن کن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے یہاں تک کہ کبھی کبھی انہیں اپنی جان بھی گنوانی پڑجاتی ہے۔ اتیتھی (مہمان) ٹیگور کا ایک مختلف انداز کا افسانہ میں جس میں تاراپدو نامی بچے کو تمام صلاحیتوں کا مالک بناکر پیش کیا گیا ہے۔ اسے تقریباً ہر چیز کے بارے میں علم ہے اور اگر کسی بات کو نہیں جانتا تو اسے سیکھنے میں دیر نہیں لگتی۔ وہ جس شخص سے ملتا اسے اپنا بنالیتا۔ مگر وہ کہیں بھی مستقل نہیں ٹھہرتا۔ گھر چھوڑنے کے بعد مختلف اوقات میں مختلف قافلہ کے ساتھ رہتا ہے۔ کہانی کا انجام بڑا ڈرامائی ہے۔ چاروششی کا باپ اپنی بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کرنے کے لیے مکمل انتظامات کرنے کے علاوہ اس کے والدین کو بھی بلالیتا ہے ۔اگلے دن اس کی شادی ہونی ہے کہ اسی دن تاراپدو کہیں نکل جاتا ہے۔ گویا اسے بندھن برداشت نہیں۔منظر کشی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس افسانے میں قدرتی ماحول کی حسین عکاسی کی گئی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’تارا پدو ناؤ کی چھت پر بادبان کے نیچے جاکر بیٹھ گیا۔ ہریالی سے ڈھکے ہوئے ڈھلواں کنارے ، پانی سے بھرے ہوئے پٹسن کے کھیت، دھان کی مٹیالی بالیوں کا ہوا میں جھومنا، ندی کے گھاٹ سے دیہات تک جاتی ہوئے پگڈنڈی، گھنے جنگل سے گھرے اور سایہ سے ڈھکے ہوئے گاؤں، یہ سب باری باری اس کی آنکھوں کے سامنے گذرتے جارہے تھے۔ یہ پانی ، یہ زمین اور یہ آسمان ، ہر طرف کی چہل پہل، یہ زندگی کے آثار اور یہ ہلچل، یہ عالم ارضی کا پھیلاؤ، یہ گوناگونی اور پھر ان کا بے لاگ لگاؤ۔ یہ بے اور چھور آسمان کا خاموشی کے ساتھ ٹکٹکی لگائے رہنا۔یہ ساری چیزیں اس نوجوان کو بڑی پیاری لگ رہی تھیں۔ لیکن ان میں کوئی چیز دم بھر کے لیے بھی اس کے چنچل دل کو اپنی محبت کی جال میں پھنسا رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔‘‘ (اکیس کہانیاں(رابندر ناتھ ٹیگور) مترجم ابو الحیات بردوانی،ص 160,ساہتیہ اکادمی، دہلی1981) ٹیگور کی کہانیوں میں اکثر کردار نچلے طبقے کے لوگ نظر آتے ہیں جن سے ٹیگور کو گاؤں میں رہنے کے دوران ملنے کا موقع ملا تھا۔ اور انہوں نے اپنی کہانیوں میں انہیں واقعات کو جگہ دی جو انہیں اس دیہات میں محسوس ہوئے یا ایسے واقعات جو غریب گھرانوں میں ہوتے رہتے ہیں جیسے پوسٹ ماسٹر، کابلی والا، نا آشنا اور زندہ مردہ وغیرہ۔ ٹیگور کی کہانیوں میں پہلی دفعہ غریب اور نچلے طبقے کے لوگوں کے مسائل کو اٹھایا گیا ۔ وہ بھی پوری ہمدردی اور واقفیت حاصل کرنے کے بعد کہانی میں جگہ دی گئی۔ دوسرے افسانہ نگاروں اورٹیگور میں فرق یہ ہے کہ انہوں نے خود دیہاتی زندگی دیکھی ، ان کے ساتھ رہ کر ان کے دکھ درد کو قریب سے دیکھا پھر انہیں واقعات کو کہانی کی شکل دے دی۔ لہٰذا ٹیگور کی کہانیاں حقیقی زندگی پر مبنی ہیں۔ ٹیگور نے اپنی تخلیقات بنگلہ زبان میں پیش کیں۔ مگر ان کی تخلیقات کے تراجم بڑے پیمانے پر دیگر زبانوں میں بھی ہوئے۔نرائن دت سہگل اینڈ سنز ، لاہور اور مکتبہ شاہر اہ، دہلی نے ان کی کئی کہانیوں کے اردو تراجم شائع کیے۔ ساہتیہ اکادمی نے ٹیگور کی تصانیف کا اردو میں ترجمہ کرایا۔ ان کی تصانیف کے ترجمے پروفیسر مجیب، فراق گورکھپوری، سجاد ظہیر ، پریم چند، ابو الحیات بردوانی اور دوسرے ادیبوں نے کیے۔ ٹیگور کی تخلیقات جب دوسری زبانوں میں پہنچیں تو دوسری زبانوں کی طرح اردو بھی ان کی تخلیقات سے متاثر ہوئی۔ اور ان کی کہانیوں کا اردو زبان و ادب پر کئی اعتبار سے اثر پڑا۔ پریم چند، مجنوں گورکھپوری، سجاد ظہیر وغیرہ ٹیگور کے افسانوں کے پلاٹ ،موضوعات اورکرداروں سے متاثر نظر آتے ہیں۔اردو میں سب سے پہلے پریم چند ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے دیہاتی زندگی کو اپنے افسانوں میں جگہ دی اور کفن جیسا شاہکار افسانہ اردو ادب کو دیا۔ مگر پریم چند سے بہت پہلے رابندر ناتھ ٹیگور اپنے افسانوں میں دیہاتی زندگی اور عورتوں کے مسائل کو پیش کرچکے تھے۔سید احتشام حسین ٹیگور سے متاثر افسانہ نگاروں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون ’ٹیگور کا اثر اردو ادب پر‘ میں لکھتے ہیں: ’’ان میں منشی پریم چند بھی تھے ۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ شروع میں ٹیگور کی کہانیوں سے متاثر ہوئے، بعد میں پریم چند کی افسانہ نگاری ایک خاص اسلوب کے سانچے میں ڈھل گئی، اس لیے یہ بتانا مشکل ہے کہ یہ اثر پذیری کس نوعیت کی تھی۔ تاہم پریم چند کے دیہات، ان دیہاتوں کے سیدھے سادھے باسی، ان کے مزاجوں کی انوکھی خصوصیات اور افسانے کے مخفی ڈھانچے میں وحدتِ تاثیر پیدا کرنے کا فن ٹیگور سے مماثلت رکھتے ہیں۔ پریم چند سے پہلے اردو میں افسانہ نگاری کی کوئی قابل ذکر روایت نہیں تھی اور بہت ممکن تھا کہ اگر ان کے سامنے ٹیگور کی کہانیوں کے زندہ انسان نہ ہوتے تو وہ بے مقصد رومانی قصہ گوئی کی طرف بہک جاتے۔‘‘ (ٹیگور کی کہانیاں، رابندر ناتھ ٹیگور، ص 11 مکتبہ شاہراہ ، جنوری 1964) ٹیگور نے اپنی تخلیقات میں مغرب کی تقلیدنہیں کی اور نہ ہی اسے پسندکیا۔ اس کا انہوں نے خود اعتراف کیا ہے۔ گیتانجلی کا انگریزی ترجمہ خود کرکے یورپ میں پیش کیا۔ ان کی اسی تخلیق پر انہیں نوبل انعام برائے ادب بھی ملا۔ اس وقت ان کی تعریف و توصیف وہ لوگ بھی کرنے لگے جو ٹیگور پر تنقید کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے احسان اپنی کتاب ’شری رابندر ناتھ ٹیگور‘ میں لکھتے ہیں: ’’ان کی عظمت کا اعتراف کرنے کے لیے ایک اسپیشل وفد لیکر کلکتہ سے شانتی نکیتن تک آئے۔ اسی زمانے میں مہاکوی کے منہ سے وہ فقرہ نکلا تھا جو بعد میں ایک گھریلو فقرہ ہوکر رہ گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا:‘ ’’اس وفد میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو محض غیر ملکی اقوام کی تصدیق اور تعریف کی رو میں چلے آئے ہیں۔‘‘ ( شری رابندر ناتھ ٹیگور، احسان ،ص 30 ، نرائن دت سہگل اینڈ سنز تاجران کتب، لاہور) افسوس کی بات ہے کہ ٹیگور کی تخلیقات پر اس وقت توجہ دی گئی جب اسے یورپ نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ورنہ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ بنگالی زبان میں ایسی نادر تخلیقات موجود ہیں۔ آج بھی ہندوستان کے مختلف زبانوں میں کئی اہم تخلیقات موجود ہیں مگر ان پر کم توجہ دی جارہی ہے۔ کیونکہ ہمیں مغرب کی تقلید کرنے کی ایک عادت سی ہوگئی ہے۔ٹیگور نے ہمارے اسی نظریے پر تنقید کی ہے کیونکہ انہیں ایسا کبھی پسند نہیں تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ٹیگور کی افسانہ نگاری میں وہ عظمت نہیں پائی جاتی جو ان کی شاعری میں ملتی ہے۔پھر بھی ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ٹیگور کی شخصیت کو صرف ان کی تحریروں سے نہیں پرکھا جاسکتا بلکہ ان کی ذات کو پہچاننا بھی ضروری ہے۔ بقول سومناتھ متر: ’’رابندر ناتھ ٹیگور کے تصانیف کی رنگا رنگی اور گہرائی سے ان کی اعلیٰ اور رفیع الشان شخصیت کا انکشاف ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ شہنشاہ شاہ جہاں اپنی تخلیق سے ارفع و اعلیٰ تھا۔ وہی بات خود رابندر ناتھ پر بدرجہ اتم صادق آتی ہے۔ ان کی عظمت اور رفعت کا پورا اندازہ لگانا اور موجودہ اور آئندہ زمانے کے لیے ان کی اہمیت کا معیار قائم کرنا ممکن نہیں جب تک کہ ہم ان کی گوناگوں سرگرمیوں کا ایک دوسرے سے رابطہ قائم نہ کریں اور ان کی پوری زندگی کو ایک مکمل اور درخشاں مجموعہ تصور نہ کریں۔‘‘ (اکیس کہانیاں (رابندر ناتھ ٹیگور) مترجم ابو الحیات بردوانی، ص 8ساہتیہ اکادمی، دہلی1981) حوالہ جات اکیس کہانیاں (رابندر ناتھ ٹیگور) مترجم ابو الحیات بردوانی، ساہتیہ اکادمی، دہلی1981 ٹیگور شناسی، شمیم طارق، ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم، شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی ۔ جون 2013 رابندر ناتھ ٹیگور : فکن و فن کے ہزار رنگ، مرتبین: وہاج الدین علوی، شہزاد انجم، ایضاً ستمبر 2013 رابندر ناتھ ٹیگور: شاعر اور دانشور، ایضاً ایضاً نومبر 2013 رابندر ناتھ ٹیگور: فکر و فن۔مرتبہ خالد محمود، شہزاد انجم، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی2012 ……………………………………………….. Mohd. Shamsuddin Research Scholar, Deptt. of Urdu, University of Delhi, Delhi
Leave a Reply
1 Comment on "ٹیگور کی افسانہ نگاری"
[…] 34. ٹیگور کی افسانہ نگاری […]