کارپوریٹ گورننس کی عمل آوری اور تجربات
ڈاکٹر سید خواجہ صفی الدین،
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ انتظامی مطالعات مولانا آزاد نیشنل اُردو یونی ورسٹی۔
تلخیص Abstract :
کارپوریٹ گورننس ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعہ کمپنیاں چلائی جاتی ہیں اور انہیں کنٹرول کیا جاتا ہے۔ بورڈ آف ڈائرکٹرز اپنی کمپنیوں کے انتظامیہ (Governance ) کے ذمہ دار ہوا کرتے ہیں۔ شراکت داروں کا کردار ڈائرکٹروں اور آڈیٹروں کے کمپنیوں کے انتظامیہ میں تقرر کی حدتک ہوتا ہے اور ان کا اپنے طورپر اس بات سے مطمئن ہونا بھی ضروری ہوتا ہے کہ کمپنی میں انتظامیہ یا حکمرانی کا ایک مناسب ڈھانچہ موجود رہے۔ ہمارے ملک میں کارپوریٹ گورننس Corporate Governance کی اصلاحات کے پیچھے کارفرما دو اہم طاقتیں ہیں۔ ایک خانگیانہ (Privatization)اور دوسری آفاقیت (Globalization ) تجارتی تنظیمیں اب محسوس کرنے لگی ہیں کہ کسی بھی تجارتی تنظیم یا ادارے کی بقا کے لے کارپوریٹ گورننس کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔ داخلی کنٹرول کا طریقہ کار یا نظام ایک ایسا سسٹم ہے جس کے ذریعہ مالیہ کا انتظام عمل میں لایا جاتا ہے اور یہ سارا نظام مینجمنٹ کے تحت چلتا ہے تاکہ کمپنی کے کاروبار کو نظم وضبط اور اہلیت کے ساتھ چلایا جاسکے۔ اس لئے کسی بھی تنظیم میں ایک پوری طرح مستحکم داخلی کنٹرول سسٹم کی سخت ضرورت رہتی ہے۔ ڈائرکٹروں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ایک موثر داخلی نظام کمپنی میں موجود ہے اگرچہ کہ تفصیلی ڈیزائن اس کا نفاذ اور اس پر عمل آوری عموماً انتظامیہ Management کو سونپی جاتی ہے۔ موجودہ جائزہ اس لئے ایک ایسی کوشش ہے جو ہندوستان کے موجودہ تناظر میں کاکارپوریٹ گورننس یا طرز انتظامیہ کو درپیش چیالنجوں کو یہ سفارش کرسکے کہ وہ کس طرح اپنی سطح پرکارپوریٹ گورننس کی سرگریوں کی حوصلہ افزائی میں قائدانہ رول ادا کرسکے اور اس کے لئے وہ اعلیٰ سطحیی انتظامیہ کے ذریعہ داخلی میکانزم پر کنٹرول حاصل کرلے۔
تعارف (Introduction):
کارپوریٹ گورننس دراصل دیگر اصلاحات کے مقابلے میں ایک نئی اصطلاح ہے جو ایک ایسے طریقہ کار کی وضاحت کرتی ہے جو اس وقت سے زیر استعمال ہے جب سے کہ کارپوریٹ اداروں کا وجود قائم رہا ہے یہ طریقہ کار اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں رہتا ہے کہ کارپوریٹ اداروں کی تجارت‘ کاروبار اور انتظامیہ کو رائج اخلاقی معیارات اور اس کے موثر ہونے کے لحاظ سے چلایا جاتا ہے اس تصور کے تحت کہ کارپوریٹ شراکت داروں Stake holders کے مفادات کو فروغ دینے اور ان کی حفاظت کا یہی ایک بہتر طریقہ ہے ‘ کارپوریٹ گورننس کا طریقہ مجرد انداز میں برقرار نہیں رہتا بلکہ اس کے بنیادی اصول اور اقدار ہوتے ہیں جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تمام انسانی معاملات جن میں تجارتی سودوں سے متعلق قواعد جیسے اچھی نیت‘ اعتماد ‘ اہلیت ‘ پیشہ واریت ‘ شفافیت ‘ احتسابیت وغیرہ شامل ہیں۔ سب میں یہ سرایت کرجاتا ہے۔
۔ Organisation for Economic Cooperation and Development OECD) (نے کارپوریٹ گورننس کے قواعد واقدار میں ایک نئے پہلو کو متعارف کروایا ہے اس کے لئے اس کے 5 نکات پر بحث کی ہے۔
(I) شراکت داروں کے حقوق اور ذمہ داریاں Rights and Responsibilities of Shareholders
(II) شراکت داروں کا کردار Role of Stakeholders
(III) شراکت داروں کا مساوی سلوک Equitable treatment of Shareholders
(IV) افشاء اور شفافیت Disclosure and Transperancy
(V) بورڈ کی ذمہ داریاں اور فرائض Duties and Responsibilities of the Board
۔اس میں کارپوریٹ گورننس کی اس طرح تعریف کی گئی ہے۔ کارپوریٹ گورننس ایک ایسا سسٹم ہے جس کے ذریعہ تجارتی کارپوریشنس کو چلایا جاتا ہے اور ان پر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ کارپوریٹ گورننس کا ڈھانچہ کسی بھی کارپوریشن میں مختلف فرائض انجام دینے والوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کی تصریح کرتا ہے۔ مثلاً بورڈ ‘ منیجر‘ شراکت دار ‘ کارپوریشن سے متعلق دیگر افراد اور کارپوریٹ امور سے متعلق فیصلوں کے قواعد وضبوابط کی تدوین کرتا ہے۔ یہ خدمت انجام دیتے ہوئے ایک ایسا ڈھانچہ بھی فراہم کرتا ہے جس کے واسطے سے کمپنی کے مقاصد وضع کئے جاتے ہیں اور مذکورہ مقاصد کی تکمیل کے ذریعہ وسائل اور کارکردگی کی نگرانی اور دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
مجموعی طورپر کارپوریٹ گورننس کی تمام تعریفیں ایک بنیادی خیال کی طرح رہنمائی کرتی ہیں جو ایک ایسے نظام کی جانب اشارہ کرتی ہے جس کے ذریعہ کسیبھی کمپنی کو چلایا جاسکتا ہے اور اس پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے . اس کے لئے ڈائرکٹروں اور منیجروں کی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ کمپنی کے مفادات یا مقاصد کا تعین ہو۔ مالیاتی اور دیگر چیزوں کے لئے پالیسی سازی کی جاسکے اور ان کے نفاذ پر نظر رکھی جاسکے اور کمپنی کے شراکت داروں کے روبرو کمپنی کی سرگرمیوں اور اس کی کارکردگی سے متعلق جوابدہی کی جاسے اس مقصد کے تحت کہ کمپنی کی کاروباری اہلیت بڑھے اور قوانین وضوابط کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ گورننس کی مطابقت میں ہو۔
کارپوریٹ گورننس ایک ایسا طریقہ کار Mechanism بھی ہے جس کے ذریعہ کارپوریٹ سے متعلق افراد Stake holders جن میں شیرہولڈرس ‘ قرض دینے والے ‘ انتظامیہ ‘ ملازمین ‘ صارفین اور عوام بھی شریک ہیں اور ان کے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔
کارپوریٹ گورننس کے تین لازم وملزوم مقاصد ہوا کرتے ہیں ‘(Three compulsory purposes of Corporate governance) :
(1) پہلا یہ کہ اس بات کو یقینی بنایا جانے کے بورڈ ‘ مذکورہ تنظیم کے مالکین کے نمائندے کی حیثیت سے کمپنی کے وسائل کی حفاظت کرے اور کمپنی کی منصوبہ بند ترقی کے لئے ان
وسائل کو اس کے (کمپنی کے ) مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کے لئے مختص کردے۔
(2) کارپوریٹ گورننس کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ جو کمپنی کا انتظام چلارہے ہیں اور اس کے نظم ونسق کے ذمہ دار ہیں وہ مناسب ومعقول انداز میں کمپنی کے
ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔
(3) تیسرا اور آخری مقصد یہ ہے کہ یہ شراکت داروں اور دیگر متعلقہ افراد کو اس قابل بنائے کہ وہ کمپنی کے بورڈوں سے بازپرس کرسکیں۔
کارپوریٹ گورننس کے اصول ( Principles of Corporate Governance):
اسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاونٹس (ACCAــ) کی مالیہ رپورٹ میں کارپوریٹ گورننس اور جوکھم سے نمٹنے کے 10 بنیادی اصول بنائے گئے ہیں۔
1) پہلا اصول : اس بات پر زور دیتا ہے کہ بورڈ ‘ شراکت دار ‘ حصص دار ‘ کارپوریٹ گورننس کے مقاصد اور اس کے دائرہ کار سے متعلق عام سمجھ بوجھ کے حامل ہوں اور تمام
تنظیموں کے لئے اس میں معیار بنانا چاہئے۔
2) بورڈ مثالی قیادت اختیار کرے : بورڈ اپنا صحیح طرز عمل اختیار کریں اور اس کے مطابق عمل کرتے رہیں اپنی کمپنی / فرم کی اخلاقی صحت کی برقراری پر توجہ دیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈائرکٹرز کارپوریٹ ضمیر کے محافظین کا کردار ادا کریں۔
3) بورڈوں کے اپنے مناسب حال اختیارات ہوں : عاملانہ اختیارات کا حامی انتظامیہ Execuvtive Management اور کمٹیاں : اس سے مراد کمپنی کے واضح اہداف Goals ‘ جوابدہی‘ ڈھانچے اور کمیٹیوں ‘ ارباب مجاز اور پالیسیوں کا قیام ‘ بورڈوں کی جانب سے اس کی طاقت اور ان کی کمزوریوں سے واقفیت کی ضرورت اور ان سے معلومات کا حصول کے وہ صحیح کام کررہے ہیں یا نہیں ‘ اس کے علاوہ انہیں مقررہ اہداف کے حاصل کرنے میں انتظامیہ کی پیش رفت پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
4) بورڈوں کو ان کی حکمت عملی کو یقینی بنانے کی ضرورت : جوکھم اور زائد Over time کے لئے انعام پر فوری غور کرنے کی ضرورت : ہر تجارتی ادارے یا کمپنی کو خطرے کا سامنا رہتا ہے لیکن کامیابی مفاد پر مبنی مقاصد کے حصول میں پنہیاں ہوتی ہے اس کے لئے فہم کو قبول کرنے اور اس سے نمٹنے میں ہے۔ یہ بات قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ خطرے کو خطرے سے نمٹنے والے انتظامیہ کی صواب دید پر چھوڑدیا جائے۔ بورڈوں کو کمپنی یا تنظیم کو درپیش خطرات کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس بات کا بھی اطمینان کرلینا چاہئے کہ خطرے کی سطح قابل قبول ہے۔ مناسب سمجھیں تو حاملانہ اختیارات کے حامل انتظامیہ Execuvtive Management کو چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔
5) بورڈوں کے متوازن ہونے کی ضرورت : غیرحاملانہ اختیارات کے حامل ڈائرکٹروں اور عاملین Executive کو بھی مصروف رہنا چاہئے تاکہ بورڈ بھی ایک ٹیم کی طرح اپنی خدمات انجام دے سکیں۔ مالیاتی خواندگی Financial Literacy بھی بہت اہم ہوا کرتی ہے تاکہ فرم / تنظیم کی گنجلک سرگرمیوں اور ان سے متعلق خطرات کو برابر سمجھا جاسکے۔
6) عاملانہ معاوضے Executive Remuneration تنظیمی صلاحیت ‘ کارکردگی کے فروغ اور شفافیت کا باعث ہونا چاہئے۔ یہ ایک بنیادی چیلنج ہے۔ معاوضہ یا تنخواہ کا انتظام غلط ترغیبات کو فروغ دے سکتے ہیں اور اس طرح یہ فرم / تنظیم کے شراکت داروں ‘ حصص داروں اور مالکین کی مناسب خدمت شمار نہیں ہوں گے۔ تنخواہ / مشاہرہ اور مستقل بہترکارکردگی اور جوابدہی کے عمل کے درمیان تعلق ہونا چاہئے۔
7) تنظیم کے جوکھم انتظامیہ اور کنٹرول کو معروض انداز میں چیلنج کرنا چاہئے اور انہیں لائیں مینجمنٹ سے آزاد ہونا چاہئے
داخلی اور خارجی Audit معروض تخمینہ اور یقین دہانی کے لئے اہم امکانی سرچشمہ ہوا کرتے ہیں۔ انہیں مینجمنٹ کے اثر سے آزاد کام کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔
8 ) بورڈوں کو شیرہولڈروں اور مناسب ہواتو مالکین وغیرہ کو اپنی قیادت کے سلسلے میں جوابدہ ہونا چاہئے۔ بورڈوں کو تنظیم / فرم کی کامیابی کے لئے کام کرنا چاہئے اور انہیں مناسب انداز میں ترجیح بھی حاصل ہونی چاہئے اور تنظیم / فرم کے متعلقین Stake holders کے مفادات میں توازن برقرار رکھنا چاہئے۔ شراکت داروں کی ملک کمپنیوں میں حصص داروں کے مفادات کو سب پر فوقیت حاصل وتی ہے مگر ان کے طوئل معیادی مفادات بہتر انداز میں اس وقت محفوظ رہتے ہیں جب سماج اور ماحولیات ‘ ملازمین اور دیگر متعلقہ افراد کے مفادات کو بھی اس کے ساتھ ملحوظ رکھا جائے۔
9) حصص دار اور دوسرے اہم شراکت دار بورڈوں ہی کو ذمہ دار قراردیتے ہیں :
کمپنی کے مالکین اور دیگر اہم متعلقہ لوگوں کو کمپنی کے امور میں دلچسپی لینی پڑتی ہے اور وہ کمپنی کی کارکردگی ‘ اس کے رویہ اور اس کے مالیاتی نتائج کے لئے بورڈوں ہی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
10) کارپوریٹ گورننس مدت مدید کے بعد نمایاں اور بہتر ہوتا ہے : Corporate Governance evolves and imporves over time : مختلف شعبہ جات کی کمپنیاں مختلف ماحول ‘ رواج ‘ قواعد ‘ قوانین میں کام کرتی ہیں ‘ گورننس کے اعتبار سے جو طریقہ ‘ چیز ایک فرم یا تنظیم کے لئے بہتر ہوتی ہے وہ دوسری کے لئے نہیں ہوسکتی۔ کارپوریٹ گورننس اور جوکھم سے متعلق نظام کسی بھی وقت مکمل طورپر پورا نہیں ہوسکتا۔ اس میں بہتری کی ہمیشہ گنجائش موجود رہتی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ احتیاجات ایسا ماحول تخلیق نہ کریں جو مدت طرازی اور کمپنیکی بہتری کے راستے کی مستقبل میں رکاوٹ بن جائے۔
ہندوستان میں کارپوریٹ گورننس کے رجحانات Corporate Governance Trends in India
(Source:KPMG Report on Corporate Governance)
ہندوستانی کمپنیوں کی اطلاعات کے معیاد ‘ خطرے پر نظر رکھنے ‘ بورڈ کی کارکردگی کا تعین کرنے کے طریقہ کار پر توجہ مرکوز کرنے کے رحجان میں اضافہ ہورہا ہے تاکہ ان کی نگرانی زیادہ موثر ثابت ہو۔
گورننس کے قواعد:
l سختی سے قواعد پر عمل آوری کا جائزہ اور قابل تقلید نفاذ
l اصول پر مبنی ڈھانچہ قواعد کی تعمیل وتکمیل اور ان کی وضاحت سے زیادہ موثر
lشراکت داروں کی تشویش
l کمزور دیکھ بھال اور نگرانی
l آزاد وخودمختار ڈائرکٹروں کے اختیارات
l مقررہ حدسے کم حصص رکھنے والوں کے مفادات کا تحفظ
اعلیٰ مقام کے حامل کارپوریٹ دھوکادہی سے سیکھے گئے اسباق‘Lessons from High Profile Corporate Frauds
(Source:KPMG Report on Corporate Governance)
اخلاقی قواعد کی خلاف ورزی اِنرون(Enron) معاملہ کی اہم وجوہات میں سے ہے۔
وہ کیا عوامل تھے جو دھوکہ دہی کا سبب بنے گئے ؟
l بورڈ کے ارکان کو حقیقت میں اختیارات حاصل نہیں تھے۔ وہ آزاد نہیں تھے۔ اسٹاک کے انتخاب کا مفادات کا ٹکراؤ بھی تھا۔
l اخلاقی طریقہ کاروضوابط کی شکست۔
l آڈیٹر کے لئے آزادی سے خدمات دینے کے موقعوں کا فقدان۔ اکاونٹ کمیٹی کے آگے عدم جوابدہی۔
پرمالٹ(Parmalat) اور ستیم کمپنی (Satyam)کے Promoters خود دھوکہ دہی کے معاملات میں ملوث پائے گئے۔
وہ کیا عوامل تھے جودھوکہ دہی پر مائل ہو گئے ؟
ستیم کمپنی(Satyam) کے معاملے میں یہ نکات پائے گئے۔
l اعلیٰ شخصیات پر مبنی بورڈ کی مالکین کے شکوک معاملات کو چیلنج کرنے میں نااہل۔
l آزادی کا فقدان اور معروضی تیقنات کے غیرموجودگی۔
l انسداد دھوکہ ہی کے طریقہ اور اس پر کنٹرول کی عدم موجودگی۔
پرمالاٹ Parmalat کے معاملے میں یہ نکات پائے گئے۔
وہ کیا عوامل تھے جو دھوکہ دہی میں مائل ہوگئے ؟
l بورڈ اور بورڈ کمیٹی اختیارات سے محروم۔
l عاجلانہ اختیارات کے حامل ڈائرکٹروں سے عدم جوابدہی۔
l بانی سی ای او(Promoter CEO) کا قطعی کنٹرول۔
اختتامیہConclusions :
تجارتی تنظیمیں اپنے ادارہ جات میں موثر کارپوریٹ گورننس کی شدید ضرورت محسوس کریں اور موثر انداز میں اپنی تنظیم کو چلائیں ‘ اس کا انتظام سنبھالیں تاکہ شراکت دار اور اس سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد تنظیم کے بورڈ سے بازپرس کے موقف میں رہ سکیں ‘ کمپنیوں کو مجموعی طورپر کارپوریٹ حکمت عملی اختیار کرنی چاہے جس میں l جوکھم سے نمٹنے کا انتظامl انسانی وسائل انصرام اور جانشینی کے منصوبہ کی تیاری l اشیاء اور خدمات کا حصول l سرمایہ کاری ‘ حصولیات/ مستقل اثاثہ جات کی حوالگی l رقومات کا قرض اور مقررہ رقم سے زیادہ رقم کے قرضے کی منظوری / توثیق حصص داروں کے عام اجلاس میں داخلی کنٹرول کے تین اہم امور کا کمپنیوں کو جائزہ لینا چاہئے۔ جن کی وسیع درجہ بندی اس طرح کی گئی ہے۔ آزادناظمین (Independent Directors) کے فعال کردار کو یقینی بنایا جائے۔
l آپریشنل کنٹرول اور اس میں کمپنی کی مجموعی کارکردگی اور منافع شامل ہیں۔
l مالیاتی کنٹرول (اس میں غیرمجاز فروختگی / حوالگی کے خلاف حفاظتی انتظام شامل ہے )
l عمل آوری پر کنٹرول Comliance Controls خاص طورپر کمپنی کی جانب سے مقررہ قوانین وقواعد کی تکمیل کے حوالے سے۔
حوالے جات‘ References:
lBertrand, M., P. Mehta, and S. Mullainathan. (2002), “Ferreting out Tunneling: An Application to
Indian Business Groups.” Quarterly Journal of Economics 117(1): 121–4
lDas, A. and S. Ghosh, (2004), Corporate Governance in Banking System: An Empirical Investigation, Economic and Political Weekly, March 20, 2004, pp. 1263-1266.
lGregory, Holly J., (2000), International Comparison of Corporate Governance: Guidelines and Codes of Best Practice in Developing and Emerging Markets, Weil, Gotshal & Manges LLP.
lGregory, Holly J., (2001), International Comparison of Corporate Governance: Guidelines and Code of Best Practice in Developed Markets, Weil, Gotshal & Manges LLP.
lJohnson, S., P. Boone, A. Breach, and E. Friedman (2000). Corporate Governance in the Asian Financial Crisis, Journal of Financial Economics, 141-186.
lLa Porta, R., F. Lopez-de-Silanes, A. Shleifer, R. Vishny (2002), Investor Protection and Corporate Valuation, Journal of Finance, 57, 1147-1170.
lReddy, Y.V., (2002), Public Sector Banks and the Governance Challenge – the Indian experience, BIS Review 25/2002, Bank for International Settlements, Basle.
lSarkar, J. and S. Sarkar (2000), Large Shareholder Activism in Corporate Governance in Developing Countries: Evidence from India, International Review of Finance, 1, 161-194.
lTopalova, Petia, (2004), “Overview of the Indian Corporate Sector: 1989-2002.” IMF Working Paper No. 04/64.
lWorld Bank, (2004), Report on the Observance of Standards and Codes (ROSC), Corporate Governance Country Assessment: India, ROSC, World Bank-IMF, Washington DC.
٭٭٭
ڈاکٹر سید خواجہ صفی الدین
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ انتظامی مطالعات
مولانا آزاد نیشنل اُردو یونی ورسٹی۔
ای میل: sksafiuddin@gmail.com
Leave a Reply
2 Comments on "کارپوریٹ گورننس کی عمل آوری اور تجربات"
[…] 95. کارپوریٹ گورننس کی عمل آوری اور تجربات […]
[…] کارپوریٹ گورننس کی عمل آوری اور تجربات […]