ادب اطفال،  روایت اور مسائل

ادب اطفال سے  مراد ایک ایسا ادب ہے  جو بچوں کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھ کر تحریر کیا جائے۔ یعنی وہ ادب جو بچوں کی ذہنی و جسمانی تعلیم و تربیت اور صلاحیتوں کو جلا بخشنے  کے  لئے  صاف، سادہ  اور عام فہم زبان میں قلمبند کیا جائے۔ دنیاے  ادب میں ادب اطفال کا آغاز اٹھارھویں صدی اواخر میں مغرب میں ہوا اس  کے  بعد ادب اطفال کی یہ روایت مضبوط و مستحکم ہوتی چلی آئی۔مغربی ادب اطفال کی دلچسپ بات یہ ہے  کہ وہاں کے  ادیبوں نے  وقت بدلنے  کے  ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی قوت اور نفسیات کے  عین مطابق ادب تخلیق کیا مثلاً وہاں جب ادب اطفال کا آغاز ہوا تو اس کا مقصد محض بچوں کو تفریح و تفنن فراہم کرنے  تک ہی محدود تھا۔لیکن انیسویں اور بیسویں صدی میں جب ذہنی عمرسے  مطابقت و مشابہت رکھنے  والے  ادب اطفال کی کمی کا احساس ہوا تو ان ادیبوں  نے  تفریح کے  ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون  اور معلوماتی موضوعات کو بھی بچوں کے  ادب کا حصہ بنایاجس کی وضاحت تھامس بور مین کی کتاب سے  ہوتی ہے  جس میں علم سیکھنے  کا ایک فطری عمل کار فرما ہے۔’’description of three hundred animals‘‘کے  عنوان سے  لکھی گئی اس کتاب میں  مختلف جانوروں  سے  متعلق معلومات کو اس طرح پیش کیا گیا ہے  کہ اس میں بچوں کی دلچسپی بھی قائم رہتی ہے  اور وہ معلومات بھی حاصل کر لیتے  ہیں ۔ مغربی ادب اطفال کی اہم خصوصیت یہ ہے  کہ اس میں بچوں کی ذہنی عمر یعنی(chronological age )کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔

 اردو فقط زبان نہیں بلکہ ایک گنگا جمنی تہذیب کا نام ہے۔  اس نے  ہمیشہ سیاسی و سماجی،  معاشی و اقتصادی،  مذہبی، تہذیبی اور اخلاقی مسائل کی نمائندگی کی ہے۔ اردو شعر وادب میں یوں تو ابتدائی ایام سے  ہی ادب اطفال کی جھلکیاں دیکھنے  کو ملتی ہیں لیکن آزادی کے  بعد اردو کے  ادبا و شعرا نے  بچوں کی پرورش و پرداخت اور ان کی عملی و علمی صلاحیتوں کو بڑھانے  پر توجہ مرکوز کی۔ اردو کے  جن شاعروں اور ادیبوں نے  وقتاً فوقتاً ادب اطفال کو فروغ بخشا ان میں اکبر الہ آبادی،  محمد حسین آزاد،  خواجہ الطاف حسین حالی، علا مہ قبال،  تلوک چند محروم ؔ، اسماعیل میرٹھی، پریم چند،  کرشن چندر،  عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر،  مصداق فاطمہ،  شو کت پردیسی،  ڈاکٹر سیفی پریمی،  پروفیسر جگن ناتھ آزاد،  محمد اسحاق،  پرو فیسر ذاکروغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

محمد حسین آزاد اور اسماعیل میرٹھی  نے  تدریسی اور نصابی کتابوں کے  ذریعے  ادب اطفال کی آبیاری کی،  مولانا الطاف حسین حالی نے  اصلاحی اور مقصدی تحریروں کے  ذریعے  بچوں کی ذہنی،  جسمانی اور اخلاقی تربیت پر زور دیا۔ ان کی ایک مشہور نظم ’’کہنا  بڑوں کا مانو ‘‘کے  چند اشعار ملاحظہ کیجیے  ؎

      دنیا میں کی جنھوں نے  ماں باپ کی عطاعت

      دنیا  میں  پائی  عزت عقبی ٰ میں پائی راحت

      ماں باپ کی عطاعت دونوں جہاں کی دولت

      چاہو  اگر  بڑھائی  کہنا بڑوں  کا  ما نو

علامہ اقبال کی ابتدائی شاعری بھی (child oriented poetry) طفل مرکوز شاعری ہے۔ادب اطفال کے  سلسلے  میں وہ مغربی شاعروں  سے  متاثر نظر آتے  ہیں۔  یہی وجہ ہے  کہ وہ آر ایل ایمرسن، ولیم کوپراور جین ٹیلر وغیرہ کے  ادب اطفال پر نگاہ رکھتے  ہیں ۔ ان کی جو نظمیں ادب اطفال کی نمائندگی کرتی ہیں ان میں بچے  کی دعا، ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گاے  اور بکری، عہد طفلی، ہمدردی اور شیر خوار قابل ذکر ہیں ۔ تلوک چند محروم بھی ادب اطفال کے  سلسلے  میں اہمیت کے  حامل ہیں۔  انھوں نے  اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے  ذریعے  بچوں کے  لئے  ایک خوشگوار ادب تخلیق کرنے  کی کوشش کی۔ محروم کا اہم کارنامہ یہ ہے  کہ انھوں نے  بچوں سے  متعلق انگریزی کی مشہو ر نظموں کو اردو میں منتقل کیا۔ جھوٹ،  وقت کی پابندی،  سچائی  وغیرہ  ان کی اہم نظمیں ہیں ۔ ان کی ایک نظم ’’بولنا عیب ہے  ‘‘ کے  چند اشعار ملاحظہ فرمائیں   ؎

         عزیزو بہت بولنا  عیب ہے

         زباں  بے محل  کھو لنا  عیب  ہے

         زباں اپنی حد میں ہے  بے  شک زباں

          بڑھے ایک  نقطہ  تو پھر ہے  زیاں

اردو میں شوکت پردیسی ادب اطفال کے  نمائندہ شعراکی صف اول میں کھڑے  ہیں ۔ انھوں  نے  بچوں سے  متعلق کئی اہم مو ضو عات کو شاعری میں شامل کیا انھیں بچوں کی نفسیات کا گہرا علم ہے  جس کی وضاحت ان اشعار سے  ہوتی ہے  ؎

       کھانے  پینے  کے  جب آثار نظر آتے  ہیں

        کتنے اچھے در و  دیوار  نظر آتے  ہیں

        امتحاں  سر پہ  جو آیا تو ہے  اب یہ عالم

       ہم  کئی روز سے بیمار  نظر آتے  ہیں

انھوں نے  غالب کی ایک مشہور غزل کی پیروڈی کر کے  ایک دلچسپ اور مزاحیہ انداز  میں بچوں کی نفسیات کی ترجمانی کی ہے۔ مثلاًاس غزل کے  چند اشعار کچھ اس طرح سے  ہیں  ؎

     کوئی  امید  بھر  نہیں  آتی   کوئی  چھٹی  نظر  نہیں  آتی

      حلوہ  ملنا  ہے پر  نہیں ملتا    چائے آنی ہے پر نہیں  آتی

      امتحاں  کیا  قریب ہے  یارو    نیند  کیوں  رات بھر نہیں آتی

      بس ریاضی کو دیکھ کر چپ ہوں    ورنہ  کیا  بات کر نہیں آتی

 اسی طرح نثر میں بھی پریم چند، کرشن چندر،  عصمت چغتائی،  قر ۃ العین حیدر،  اور صالحہ عابد حسین نے  اخلاقی اور اصلاحی کہانیاں لکھ کر بچوں کے  ادب میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ پریم چند کی کہانیوں میں عبرت،  عید گاہ،  معصوم بچہ، گلی ڈنڈا، طلوع محبت، کشمیری سیب اور سچائی کا انعام وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ قرۃ العین حیدر نے  بھی ادب اطفال کو فروغ دینے  میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  اس حوالے  سے  ان کا ناول ’’ جن حسن عبدالرحمٰن‘‘ قابل ذکر ہے۔ یہ ناول ایل لاگن کے  ایک انگریزی ناول کا ترجمہ ہے۔ اس ناول میں بچوں کو جدید سائنسی معلومات اور تعلیم و تربیت پر غور کرنے  اور توہم پرستی و مافوق الفطری عناصر سے  دور رکھنے  کی تلقین کی ہے۔

 عصر حاضر میں جب ہم ادب اطفال پر غائر نظر ڈالتے  ہیں  تو چند سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور رسائل جرائد سے  قطع نظر اردو زبان میں ادب اطفال کی جو مثالیں ملتی ہیں ان میں فقط تفریح و تفنن اور اعلیٰ اخلاق پر توجہ دی گئی ہے۔ ان میں دیو،  جن، بھوت اور پری وغیرہ جیسے  مافوق الفطری کرداروں کو موضوع بنا کر کوئی اخلاقی درس دیا جاتا ہے۔اعلیٰ اخلاق ایک صحت مند اور خوش آئند معاشرے  کے  لئے  بے  حد ضروری ہیں  لیکن موجودہ دورسائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے۔ سائنس مہدسے  لحد تک ہماری زندگی کے  ہر شعبے  میں  سرایت کر چکی ہے ،  الیکٹرانک میڈیا  زندگی کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ اس لئے  اعلیٰ اخلاق کے  ساتھ ساتھ سائنس اور ٹکنالو جی کی بنیادی معلو مات بچوں کی مکمل تعلیم اور روشن مستقبل کے  لئے  نا گزیر ہے۔جن، بھوت، دیو،  پری،  بچوں کے  محبوب ترین مو ضو عات ہیں۔ لیکن ان موضوعات کو صرف بچوں کی ابتدائی عمر میں  چیزوں پر غور کرنے  کی صلاحیتوں کو بڑھانے  کے  لئے  استعمال کرناچاہیے۔  ہمارے  ادب کا سب سے  بڑا مسلہ یہ ہے  کہ یہاں ہر ذہنی عمر کے  بچوں کے  لئے  ایک جیسا ادب تخلیق کیا گیا ہے۔ادب اطفال میں مافوق الفطری مو ضوعات سے  زیادہ جہاز،  گاڑی،  مو بائل،  کمپیوٹر، اسکول،  کلاس کاپی،  قلم وغیرہ  پر کہانیاں تحریر ہوں  تو بچوں کو جدید علوم و فنون سے  ہم آہنگ کرنے  میں آسانی ہو گی۔

اردو کے  ادیبوں نے  ادب اطفال کو مو ضوع بنا کربے  شمار تحریریں قلمبند کی ہیں لیکن یہاں ایسے  ادب کا فقدان ہے  جو بچوں کی ذہنی عمر کے  مطابق ایک تدریجی ارتقا ئی سفرکرتا ہو۔اردو کے  جن شاعروں اور ادیبوں نے  ادب اطفال کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا وہ شہرت و مقبو لیت اور مبارک باد کے  مستحق ہیں لیکن اس بات پر غور کرنے  کی ضرورت ہے  کہ ا نھوں نے  جو ادب تخلیق کیا ہے  وہ بچوں کے  ذہنی ارتقا میں کس حد تک مفید ثابت ہو رہا ہے۔

  بقول ڈاکٹر بانو سرتاج:

 قلم کاروں کی جانب سے  پذیرائی ہوئی، اکادمی، انجمنوں ، اداروں کی  جانب سے عزت افزائی ہوئی لیکن وہ جن کے  لئے  یہ ادب تخلیق کیا گیا تھا،  جن کے  ذوق و شوق  جن کی عمر کی ضرورت اور نفسیات کو پیش نظر رکھ کریہ ادب تخلیق کیا گیا ان کی جانب  سے  کوئی داد و تحسین، قبولیت و پذیرائی تو کجا کوئی ہلچل نہیں  ، یہ خاموشی کیسی ہے اس خاموشی کا جواز کیا ہے

 بچے  ہی کسی ملک یا قوم کا مستقبل ہوتے  ہیں اور بچوں  کے  لئے  جو ادب تخلیق کیا جاتا  ہے  وہ ان کے  مستفبل کی تعمیر و تشکیل میں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔  ادب اطفال کا بنیادی مقصد بچوں کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرناہوتا ہے  اس مقصد کی حصول یابی کے  لئے والدین اہم اور مرکزی کردار ادا کرتے  ہیں ۔  یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے  کہ بچے  ابتدائی عمر  کے  تین چار برسوں  تک خود پڑھ نہیں سکتے  لیکن انھیں جو دکھائی یا سنائی  دیتا ہے  اس کا ان کی ذہنی نشو و نما میں خاصا عمل دخل رہتا ہے۔ عام طور  پریہ دیکھا گیا ہے  کہ والدین اس عمر میں بچوں کو بہلانے  کے  لئے  کھلونوں کاسہارا لیتے  ہیں لیکن اس بات کا انحصار والدین پر ہے  کہ اپنے  بچوں کو کس نو عیت کے  کھلونے  فراہم کرتے  ہیں۔  کیونکہ بچہ جب ہوش سنبھالنے  لگتا ہے  تو اس کی دلچسپیاں اسی تعلیم و تربیت کے  مطابق پروان چڑھتی ہیں جو اس نے  اپنے  گرد و نواح کے  ماحول  اور کھلو نوں کی پر لطیف فضا کے  رد عمل میں سیکھی ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں بچوں کے  ذہنی ارتقا کو پیش نظر رکھتے  ہوے  ایسے  کھلونے  بھی تیار کئے  گئے  ہیں جو بچوں میں علمی و عملی فضا قائم کرنے  میں معاون و مدد گارثابت ہو سکتے  ہیں ۔ اس لئے  ادیبوں سے  قبل یہ ذمہ داری والدین کی ہے  کہ وہ اولاد کی تعلیم، غذا، رہن سہن، صاف صفائی پر دھیان  دیں  تاکہ وہ ایک نفیس ماحول میں پرورش پا کراس قابل ہو جائیں کے  ادب اطفال سے  بھی مستفید ہو سکیں۔

 درسی اور نصابی کتابوں  کو اگر چہ ادب اطفال کے  زمرے  میں نہیں رکھا جا سکتا لیکن یہ کتابیں اسی مقصد کے  تحت بچوں کی پرورش کرتی ہیں جس کے  پیش نظر ادب اطفال تخلیق ہوتا ہے۔ اس لئے  بچوں کی درسی کتابوں میں ادیبوں کی ان کہانیوں کو شامل نصاب کرنا ضروری ہے  جو بچوں کے  ذہن میں وسعت پیدا کر سکیں۔ درسی کتابوں سے  متعلق ایک یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے  کہ ان کتابوں کے  نصاب کو تشکیل دینے  میں  ماہرین تعلیم اور نفسیات کا خاصہ عمل دخل ہوتا ہے  وہ ان کتابوں میں بچوں کی ذہنی عمر کے  عین مطابق صاف،  سادہ اور آسان طریقے  سے  معلو ماتی مواد یکجا کرنے  کی کوشش کرتے  ہیں لیکن اس مواد کو ایک لطیف اور دلچسپ پیرائے  میں صرف ایک  ادیب ہی پیش کر سکتا ہے۔اس لئے  یہ ضروری ہے  کہ اردو میں ادب اطفال کے  ادیبوں اور شاعروں کے  سامنے  ایک مفروضہ قائم کیا جائے  اور پھر اس کے  مطابق ہی نصاب میں شامل کرنے  کے  لئے  ادب تخلیق کیا جائے۔اس طرح ماہرین تعلیم اور نفسیات اور ادبا و شعرا ادب اطفال کے  باہمی اشتراک سے  بچوں کے  لئے  تخلیق کیا جانے  والا ادب ان کی ذہنی پرورش اور مخفی صلاحیتوں کو بروئے  کار لانے  میں سود مند ثابت ہو گا۔اس اشتراک عمل سے  نہ صرف بچوں کے  لئے  ایک معیاری ادب تخلیق ہو سکتا ہے  بلکہ بچوں کے  ادیبوں  کی اہمیت بھی بڑھ جاے  گی۔

ادیبوں کی حوصلہ افزائی ہی ایک بہترین ادب تخلیق کرنے  کے  لئے  راستہ ہموار کر سکتی ہے۔یہاں اس بات کا احاطہ کرنا بھی لازمی ہے  کہ بچوں کے  ادبیوں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی دیگر شعرا اور ادبا کے  مقابلے میں کم ہوئی ہے  اس لئے  وہ ادب اطفال کو باقاعدہ فن کی حیثیت سے  اختیار کرنے  میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے  ہیں اور شاذ و نادربچوں کے  لئے  کچھ لکھ دیتے  ہیں ۔

   اردو دنیا میں  قومی کونسل براے  فروغ اردو زبان، نئی دہلی اور اکادمی ادبیات اطفال پاکستان دو ایسے  فعال اور متحرک ادارے  ہیں  جوعصری تقاضوں اور بچوں کی نفسیات اور دلچسپی کو پیش نظر رکھتے  ہوئے  ادب اطفال کو فروغ دینے  میں سر گرم عمل ہیں ۔ قومی کونسل برائے  فروغ اردو زبان نے  بچوں کی نفسیات اور ذہنی عمر کے  مطابق ادب اطفال کا بہترین انتخاب کر کے  اسے  یکجا کرنے  کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس ادارے  کی یہ غیرمعمولی کوشش اردو میں ادب اطفال کے  نقطہ عروج کی حیثیت رکھتی ہے۔رسائل و جرائد کے  حوالے  سے  اگر دیکھا جائے  تو’’ بچوں کی دنیا ‘‘ اور ’’ پھول‘‘ ایسے  عالمی شہرت یافتہ رسالے  ہیں جو ادب اطفال کے  عصری تقاضوں پر کھرے  اترتے  ہیں۔ اول الذکر ایک ماہنامہ رسا لہ ہے  جو قومی کونسل براے  فروغ اردو زبان کی سر پرستی میں نئی دہلی سے  اشاعت پذیر ہوتا ہے  اور موخر الذکر یعنی رسا لہ ماہنامہ  ’’ پھول‘‘  حمید نظامی کی ادارت میں لاہور سے  شائع ہوتا ہے۔ ادب اطفال کے  سلسلے  میں ا س رسالے  کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس رسالے  نے  گذشتہ کئی برسوں سے  بچوں کے  حقوق اور ان کے  تخفظ کے  لئے  غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں ۔  مذکورہ بالا رسائل کے  علاوہ لاہور سے  بھی ’’ بچوں کی دنیا ‘‘ کے  عنوان سے  ایک اہم رسالہ شائع ہوتا ہے۔ اس رسالے  کی اہم بات یہ ہے  اس میں بچوں کے  ادبیوں کے  ساتھ ساتھ بچوں کو بھی لکھنے  کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس لئے  یہ رسالہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے  میں اہم کردار ادا کر رہا ہے  خاص بات یہ ہے  کہ اس میں سائنسی اور تکنیکی ایجادات کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً اس رسالے کے  ایک شمارے  میں ظفر محمود انجمؔ کی شائع شدہ ایک نظم  ’’ ویل ‘‘کے  چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؎

    دیکھو  چلتا  جائے ویل    خو د کو  خوب گھماے ویل

     سب  لمبے سفر ختم ہوے    اب  لمبے سفر مٹاے  ویل

    واہ  اللہ  تیر ی  قدرت     جہازوں کو بھی اڑاے  ویل

    ویل کے  بن دنیا  بے  کار   ہر شعبے میں  کام آے  ویل

بچوں کے  لئے ادب تخلیق کرنا ایک مشکل ترین مشغلہ ہے۔اس میں چند قوائد و ضوابط کا خیال رکھنا بے  حد ضروری ہے۔ ادب اطفال تخلیق کرنے  کے  سلسلے  میں مندرجہ ذیل  چند اہم نکات کو ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے۔

  ۱۔بچوں کے  ادب کی ذہنی عمر کی مناسبت سے  شیرازہ بندی کی جائے۔

 ۲۔بچوں کی نفسیات اور دلچسپیوں کو بنیاد بنا کر لکھا  جائے۔

 ۳۔موضوعات کو رنگین اور دلکش تصاویر کے  ساتھ واضح کرنے  کی کو شش کی جائے۔

 ۴۔ بچوں کے  لئے  کہانیاں زیادہ طویل نہ ہوں۔

 ۴۔  جدید  سائنسی علوم و فنون کو موضوع بنا کر ادب تخلیق کیا جائے۔

 ۵۔ ادب اطفال کو فلمائی اور ڈرامائی انداز میں ریڈیو اور ٹیلی وژن کے  سہارے  بچوں کے  سامنے  پیش کیا جائے۔

 ۶۔ ضیافت طبع کے  ساتھ ساتھ  قو می یکجہتی،  حب الوطنی،  انسان دوستی جیسے  مضامین کو موضوع بنایا

   جائے۔

  دور حاضر میں ایسے  ادب کی شدید ضرورت ہے  جس میں پڑھائی کی اہمیت، جدید علوم وفنون، سائنس اور ٹکنالوجی،  الیکٹرانک میڈیا کا حسب ضرورت استعمال وغیرہ جیسے  مو ضوعات ہوں کیونکہ بچپن ایک ایسی عمر ہے  جس میں ایک بچہ جو کچھ سیکھتا ہے  وہ اس کی زندگی میں ہمیشہ دخل انداز رہتا ہے۔ماحصل یہ کہ عصر حاضر میں کئی ادبی تنظیمیں بچوں کی ذہانت و ذکاوت کے  مطابق ادب تخلیق کرنے  میں سر گرم عمل ہیں ۔ ہم یہ بات پورے  وثوق کے  ساتھ کہہ سکتے  ہیں کہ اردو زبان ادب اطفال کے  سلسلے  میں آئندہ چند برسوں میں دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل ہو جائے  گی۔

شاہد اقبال

ریسرچ اسکالر  شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،  نئی دہلی

 فون نمبر۔ ,9910223019 7827941003

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.