نالۂ مہجوراور حریم محبت”کا شاعر شاہ مقبول احمد”

شاداب عالم

ریسرچ اسکالر، ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، دہلی

زندگی کا ساز بھی کیا عجب ساز ہے  جب تک یہ بجتا ہے  اپنی دلکشی سے  ایک عالم کو مسحور کردیتا ہے۔ لیکن یہ ساز ہمیشہ تو نہیں بج سکتا، زندگی کے  رباب کا تار کبھی نہ کبھی تو ٹوٹناہے  اور جب یہ ٹوٹتا ہے  تو اپنے  ارد گرد کے  کئی لوگوں کو مغموم کر دیتا ہے۔ موت کے  یہ جانکاہ صدمے  ازل سے  انسان کے  مقدر میں لکھ دیے  گیے  ہیں ۔ موت سے  بھلا کس کو رستگاری ہے ، یہاں تو کمر باندھے  ہوئے  سب چلنے  کو تیار بیٹھے  ہیں لیکن کسی کو کیا پتہ کہ یہ رخش عمر،  جو مسلسل رو میں ہے،  کب تھم جائے۔ یہیں پہنچ کر انسان کی بے  بسی کا اندازہ ہوتا ہے  اور اس پر دنیا کی ہر چیز کو ترس آنے  لگتا ہے۔ لیکن انسان موت کے  اس اٹل اور ناقابل تبدیل حادثے  سے  یکایک سکتے  میں آجا تا ہے  اور موت کے  سامنے  اپنی بے  بسی کا اظہار اس طرح کرنے  لگتا ہے  جیسے  وہ پتھر کی کوئی مورت ہو یا بلک بلک کر اس طرح رونے  لگتا ہے  جیسے  آنسووں کا سیلاب آگیا ہو،  جو اپنے  دام میں ہر خش و خاشاک کو لپیٹ لے  گا۔ لیکن جب آنسووں کا یہ سیلاب رکتا ہے  تو جذبات لفظوں کا روپ دھار لیتے  ہیں لفظوں کا یہ روپ مرثیہ کہلاتا ہے۔

کہا جاتا ہے  کہ عرب میں خنسا نامی ایک عورت کے  بھائی کا انتقال ہوگیا وہ اپنے  بھائی کی موت کے  غم میں بلک بلک کر اس قدر روئی کہ آسمان سر پر اٹھا لیا۔ حضرت عمر نے  اس کو اس کی اس حرکت سے  منع کیا تو وہ مان گئی اور رونا پیٹنا بند کردیا، لیکن جب اس کے  آنسو خشک ہوئے  تو،  یہ آنسو الفاظ کا جامہ پہن کر اس طرح نمودار ہوئے  کہ اس کے  یہ آتشیں احساسات، حزن و غم کی معجز نمائی بن گیے۔ اردو میں بھی اس طرح کے  بہتیرے  نمونے  ملتے  ہیں مثلا غالب کا مرثیہ’’ عارف‘‘، اقبال کا مرثیہ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں  ‘‘، چکبست کا مرثیہ’’ گوکھلے ‘‘، حالی کا مرثیہ’’ غالب‘‘ او ر جان نثار اختر کا مرثیہ’’ صفیہ کی یادمیں  ‘‘ وغیرہ لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے  کہ اردو میں اس طرح کی جو نظمیں ملتی ہیں ان میں سے  بیشتر ایسی ہیں جو کسی اہم یا عہد ساز شخصیت سے  متعلق ہیں تو کچھ ایسی بھی ہیں جو رفیقۂ حیات سے  متعلق ہیں۔

یوں تو نذرانۂ محبت اور یاد گار کے  طور پر دینے  والوں نے  تو تاج محل اور نہ جانے  کیا کیا کچھ دیاہے۔ لیکن شاعروں اور ادیبوں  نے  لفظوں کے  ذریعے  یادگار کے  ایسے  پیکر تراشے  ہیں اورایسے  ایسے  گلہائے  عقیدت پیش کیے  ہیں کہ الفاظ نوحہ بن کر آہ بے  کراں میں تبدیل ہوگیے  ہیں  اور لفظوں سے  بنائی گئی یہ تصویریں دلوں کو مہر و وفا اور حریم محبت سے  آشنا کرنے  کا وسیلہ بن گیے  ہیں ۔ ایسے  ہی ادیبوں میں ایک نام شاہ مقبول احمد کا بھی ہے۔

شاہ مقبول احمد ایک ذی علم اورکثیر المطالعہ معلم، ادیب، انشا پرداز، افسانہ نگار محقق اور ناقد کی حیثیت سے  جانے  جاتے  ہیں۔ ان کی شخصیت کا خمیر روایت اور جدت کے  آمیزے  سے  تیار ہوا تھا۔ انھوں نے  ابتدا شاعری بھی کی، بلکہ یوں  کہنا چاہیے  کہ انھوں نے  جب اپنی ادبی زندگی شروع کی تو وہ نثر نگاری کے  ساتھ شعر گوئی کی طرف بھی مائل ہوئے۔ پھر شعر گوئی ترک کرکے  افسانہ اور انشائیہ لکھنے  لگے۔ پھر دھیرے  دھیرے  تحقیق اور تنقید کی طرف آئے  اور اس میں اپنے  آپ کو اس قدر غرق کر دیا کہ شاعری کی طرف دھیان دینے  کا ان کو موقع ہی نہ ملا۔ لیکن جب ان کی رفیقۂ حیات نے  اس دارفانی سے  دارالبقا کی طرف کوچ کیا تو ان کو ضبط کا یارا نہ رہا اور ان کی روح چیخنے  پر مجبور ہوگئی۔

ہر انسان کی زندگی میں ایسا لمحہ آتا ہے  جب اس کی روح چیخنے  پر مجبور ہوجائے۔  شاہ مقبول احمدکی بھی زندگی میں یہ لمحہ آیا جب ہجوم یاس سے  دل گھبرانے  لگتا ہے۔ یہ غم اور بھی شدید ہوتا ہے  جب عائلی زندگی کا ایک ستون ہی مسمار ہوجائے  کیوں کہ زندگی میں حسن، نکھار اور بانکپن اسی رشتے  سے  پیدا ہوتی ہے  اور ارتقائے  حیات اسی سے  قائم ہوتی ہے۔ یہ ایسا رشتہ ہوتا ہے  جس کو استوار کرنے  میں آدمی اپنی زندگی کی ساری تگ ودو صرف کردیتا ہے۔ یہ نازک لمحہ ان کی زندگی میں 1976 میں وقوع پذیر ہوا جب ان کی عزیز از جان رفیقۂ حیات طیبہ خاتوں اس دار فانی سے  دارالبقا کی جانب کوچ کر گئیں ۔ اس جانکاہ صدمے  کا اثر یہ ہوا کہ مقبول صاحب کے  نالہ و شیون نے  شعری روپ دھارن کرلیا۔ جس کا اظہاراس طرح ہوا۔

اب کہاں جائے  ترا آبلہ پا وااسفا

در بدر مارا پھرا پر کوئی کوچہ نہ ملا

خود کو مہمان کیا اپنے  ہی گھر میں تو نے

تیرے  دیدار کا پھر موقع دوبارا نہ ملا

اپنے  بچوں کا تماشا بھی نہ دیکھا تو نے

حیف، کس وقت تجھے  موت کا پروانہ ملا

تیرے  جاتے  ہی عجب ہوگیا اپنا نقشہ

آشنا بھی لگا جیسے  کوئی بے  گانہ ملا

شدت قرب کو افشا کیا دوری نے  تیری

ذکر تیرا نہ ہو ایسا کوئی لمحہ نہ ملا

یاد میں تیری شب و روز بسر کرتا ہوں

اس سے  بہتر کوئی جینے  کا سہارا نہ ملا

کوئی دن ہوتا وہ گو روز قیامت ہی سہی

چلتے  چلتے  بھی ہمیں وعدہ فردا نہ ملا

صحن گلشن میں ابھی پھولوں سے  دامن تھا بھرا

یا خدا !راہ میں اب کیسا یہ ویرانہ ملا

معتبر نام کی کیا شئے  ہے  فریب ہستی !

ہر حقیقت میں تری مجھ کو تو افسانہ ملا

کیسے  کیسے  ہیں ستم دیدہ مگر بام فلک !

مجھ سے  بڑھ کر کوئی تقدیر کا مرا نہ ملا

 یہ اشعار یادوں اور جذبات کا خوب صورت مرقع ہیں ۔ یادوں کی کوکھ سے  نکلے  جذبات نے  ان اشعار میں بے  پناہ تاثیر پیدا کردی ہے  اور نالہ و شیون نے  فریاد کی لے  اختیار کرلی ہے۔ ان اشعار میں رنج و غم کی زیریں لہریں جذبات میں خاموش ارتعاش کی لہریں پیدا کردیتی ہیں اور جذبات کے  انگنت دھارے  قاری کو اپنی آغوش میں اس طرح جکڑ لیتے  ہیں کہ وہ جانے  انجانے  شاعر کے  دکھ میں برابر کا شریک ہوجاتا ہے۔

انسان کی زندگی بھی کیا عجب ڈھب کی ہے۔ دو ساتھی، جو ایک ساتھ جینے  مرنے  کی قسمیں کھاتے  ہیں ۔ طرح طرح کی آرزوئیں اور امنگیں پالتے  ہیں۔  جب یہ ساتھی آپس میں ملتے  ہیں تو ان کو اپنی آرزوئیں  اور امنگیں پوری ہوتی محسوس ہوتی ہیں لیکن موت اس کی مہلت ہی کب دیتی ہے ،  اس کا کوئی ٹھکانہ یا وقت معینہ تو ہے  نہیں کہ اس کے  آنے  سے  پہلے  انسان اپنے  آپ کو اس سے  مانوس کر لے  اور اپنے  ساتھی کے  ساتھ اس طرح جی لے  کہ اس کی موت کے  بعد اس کو وہ خلش نہ رہے۔ لیکن یہ رشتہ بھی تو ایسا ہوتا ہے  کہ آدمی جتنا اس کی گہرائی میں اترتا جاتا ہے ،  اتنا ہی تشنہ ہوتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ وہ اپنے  ساتھی کی جدائی برداشت نہیں کرپاتا۔ مگر موت کہاں یہ سب سوچتی ہے۔ اس کو تو آنا ہے  سو آتی ہے  یہی شاہ مقبول کے  ساتھ بھی ہوا موت نے  ان سے  ان کی زندگی کی سب سے  قیمتی متاع ہی چھین لی۔ جس نے  ان کے  دل کو اداس اور غم زدہ کردیا۔ جس کا اظہار وہ اس طرح کرتے  ہیں۔

کس کے  غم میں ہے  سیہ خانہ مرا نوحہ کناں

ڈھونڈتے  ہیں مرے  گھر کے  در و دیوار کسے

بخت ِبرگستہ کہے  دیدۂ گریاں سے  کیا

اب میسر ہے  نہ جانے  تیرا دیدار کسے

اتنی مہلت بھی نہ دی دستِ اجل نے  صد حیف

کہتا آزار میں کیا کہتا میں بیمار کسے

میرا مقسوم ہے  نظارۂ کشت ویراں

گلشن دہر !دکھاتا ہے  تو گلزار کسے

میری تنہائی کا دے  ساتھ شب تیرہ و تار

جز ترے  اب میں کہوں مونس و غمخوار کسے

کوں خاموش چلا اے  دل صد چاک بتا

دوش پے  لے  کے  پھرے  سب سر بازار کسے

ضبط ِگریہ نے  غضب یہ کیا رونے  نہ دیا

اب کہے  بھی تو کہے  دیدۂ خونبار کسے

جیتے  جی تک ہیں یہ اندوہ و الم شام فراق !

ہم نہ ہوں گے  تو ستائے  گا غم یار کسے

مقبول احمد شاہ اور طیبہ خاتون کا رشتہ صرف شوہر اور بیوی کا ہی رشتہ نہیں تھا بلکہ یہ رشتہ ان لوگوں کے  درمیان اس طرح کا تھا جس میں تمام رشتوں کی نزاکتیں سمٹ آئی تھیں ۔  یہ جدائی ان کے  لیے  غیر متوقع تھی اور دل خراش بھی۔ یہی وجہ ہے  کہ وہ طرح سے  اپنی بیوی کو یاد کرتے  ہیں۔  بیتے  لمحوں کی تمام یادیں ایک ایک کرکے  ان کے  دل کے  دروازے  پر دستک دیتے  ہیں اور پھر اس طرح کے  اشعار وارد ہوتے  ہیں۔

آرہاہوں میں کہاں سے  جارہا ہوں میں کہاں

آتے  جاتے  دیکھ کر اب پوچھنے  آئے  گا کون؟

آؤں  گا جب میں کہیں سے  مضمحل افسردہ دل

اب سرہانے  بیٹھ کر سر میرا سہلائے  گا کون ؟

نا امیدی کی فضا و تیرہ و تاریک میں

مجھ کو خوش آیند باتیں کہہ کے  بہلائے  گا کون؟

خاموشی سے  اب کھلے  گا کس پہ میرے  دل کا حال

میرے  اندیشوں کو بیجا کہہ کے  بہلائے  گا کون

چارہ سازی، غم گساری، دل دہی مرہم نہی

شومئی قسمت سے  اب یہ نعمتیں پائے  گا کون

اشک ہوتے  تھے  رواں کہتے  تھے  باہم جب کبھی

ہم میں پہلے  اس جہاں سے  دیکھیے  جاتا ہے  کون

اک رفاقت سے  ملی تھی دولتِ تاب و تواں

سختی ایام تیری تاب اب لائے  گا کون

بزم ہستی میں ہوں اب میں ایک مجبور ِحیات

مایۂ جاں کھو کے  یارا زیست کا پائے  گا کون

طیبہ خاتون شاہ مقبول کی زندگی میں اس طرح اور اتنی دخیل تھیں کہ شاعر ان کی موت کے  بعد بھی ان کو اپنی زندگی سے  بے  دخل نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے  کہ وہ ان کی یادوں کا بچھونا اپنے  کاندھے  پہ لیے  گھوم رہا ہے۔ وہ اس بھری دنیا میں بھی اپنی حریم محبت کے  بغیر اپنے  آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے  اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کرے  کہاں جائے ؟ کیوں کہ اس کے  بغیر زندگی گزارنا اس کے  لیے  بہت مشکل ہے۔  یہی وجہ ہے  کہ بیتے  لمحات کی خوش گوار یادیں جہاں اس کے  دل کو سکوں پہنچاتی ہیں وہیں اپنی حالیہ زندگی کا گوشوارہ تیار کرتا ہے  تو اس کو ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ تنہائی اس کو کاٹے  کھاتی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کرے  کہاں جائے  اسی حال میں وہ سوچتا ہے۔

کہاں وہ سہانے  دن تھے  کہ ملے  تھے  پہلے  پہلے

کہاں اب ترا جنازہ لیے  ہم گزر رہے  ہیں

تجھے  خواب میں جو دیکھا ملی مجھ کو گویا جنت

کھلی کیوں یہ چشم حسرت فریاد کر رہے  ہیں

تو دکھادے  اے  تصور آنکھوں کو وہ مناظر

پیش نظر جو میرے  شام و سحر رہے  ہیں

ہے  شورحشر ہر سو لگتا ہے  پھر بھی ایسا

ہنگامہ ٔ جہاں سے  تنہا گزر رہے  ہیں

نہیں اپنا کوئی پھر بھی اے  اضطراب پیہم !

روداد غم بیاں ہم اک اک سے  کر رہے  ہیں

کیا پوچھتے  ہو کیوں ہیں زاروزبون و خستہ

تنہا و پا شکستہ گرم سفر رہے  ہیں

آیات غم کہوں یافیضان غم کہوں میں

لمحے  عجب عجب سے  مجھ پر گزر رہے  ہیں

      کسی کی بھی زندگی میں سب سے  زیادہ تکلیف دہ لمحہ وہ ہوتا ہے  جب وہ کسی محبوب شخصیت کا جنازہ اپنے  کاندھوں پر اٹھائے  پھر رہا ہو۔ یہ ایسا لمحہ ہوتا ہے  جو انسان کبھی نہیں بھول سکتا۔ مقبول صاحب نے  بھی اپنی رفیقۂ حیات کے  اس آخری سفر کا بیان نہایت ہی رقت آمیز لہجے  میں اس طرح کیا ہے  کہ وہ جس نے  اس کی زندگی کو شعور عطا کیا تھا، اس کے  گیسوئے  حیات کو سنوارا اور نکھارا تھا، جو اس کی شاموں کی ملاحت اور صبحوں کا جمال تھی، اس کا ناموس وفا اور محبت کا غرور تھی، اس کے  نبضوں کا ترنم اور دل کی ڈھکن تھی آج میری دنیا درہم برہم کرکے  ہمیشہ ہمیشہ کے  لیے  رخصت ہو رہی ہے۔ اس کا اس انداز سے  رخصت ہونا مجھ سے  دیکھا نہیں  جارہا ہے۔ میری آنکھیں اس منظر کو دیکھ کے  پتھرا گئیں ہیں اور میں تقدیر کا مارا غم کے  سبب نہ آہ و زاری کرسکتا اور نہ نالہ و شیون۔ایک بار امانت ملا تھا اس کو بھی نہ سنبھال سکا اب میں اس کو رخصت کرکے  کون سا منھ لے  کر گھر جاؤں گا اور اس سے  وابستہ چیزوں کو کیسے  منھ دکھاؤں گا۔ اب میرے  دل کی ڈھڑکنوں کو کون سنے  گا گھر پر میرا انتظار کوں کرے  گا اور نا امیدی کی تیرہ وتار یک فضا میں خوش آئند باتیں  کہہ کے  مجھے  کوں بہلائے  گا،  تنہائی کے  دبیز حالے  کو پیکرو تسکیں کے  راحت بخش رفاقت سے  محفل کا فسانہ کوں بنائے  گا۔ وہ اس دن کو یاد کرتا ہے  جب وہ پہلے  پہل ملے  تھے  اورجس ملن نے  اس کی زندگی کو گلزار بنادیا تھا وہ آج کے  دن کو یاد کرتے  ہوئے  کہتا ہے۔

مایۂ راحت و سکوں تھے  جو

ہوئے  باعث وہی رلانے  کے

دیکھے  آنکھوں نے  جو دم رخصت

وہ مناظر نہیں بھلانے  کے

کیسا کہرام تھا بپاگھر میں

کیسے  تھے  اہتمام جانے  کے

ہر طرف سے  پکار تھی میری

سب تھے  کوشاں مجھے  بلانے  کے

درد ہجراں سے  رعشہ بر اندام

پاس جا پہنچا میں سرہانے  کے

تشنۂ دید اور کرتا کیا

جز تڑپنے  کے  تلملانے  کے

فرط غم سے  تھے  خشک آنسو تک

تھے  نہ لائق ہی لب ہلانے  کے

میری دنیا تھی درہم و برہم

پرزے  پرزے  تھے  کارخانے  کے

پارہ پارہ تھی کائنات مری

تنکے  تنکے  تھے  آشیانے  کے

یاد رہ رہ کے  آئے  بیتے  دن

ساتھ شام و سحر بتانے  کے

اب ہمہ وقت ساتھ دے  گا کون

ایک ہم اور دکھ زمانے  کے

کرچکی تھی مشیت اپنا کام

کرتے  کیا جز جبیں جھکانے  کے

کرکے  آئے  سپرد خاک اس کو

جس کے  دن تھے  ابھی نہ جانے  کے

کھو کے  گھر آئے  مایۂ جاں  کو

ہم تھے  لائق نہ منھ دکھانے  کے

      شاہ مقبول شاہ نے  ان اشعار میں جذبے  کی شدت اور تنہائی کا پورا کرب سمیت دیا ہے۔ درد کی ایک موج تہ نشیں ہے جو اپنے  قاری کو بھی ہمرکاب کرلیتی ہے۔ وہ لفظوں کے  ذریعے  دلی کیفیتوں کا ایسا کولاژ تیار کرتے  ہیں کہ ہر ایک کو یہ غم اپنا غم محسوس ہونے  لگتا ہے۔ مقبول صاحب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے  کہ وہ صرف روتے  پیٹتے  نہیں ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی سے  بے  زار ہوتے  ہیں ۔ وہ جانتے  ہیں  کہ غم کا اندھرا نہایت ہی ہیبت ناک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ وہ اپنے  غم کو اپنی رفیقۂ حیات کی یادوں  سے  وابستہ کرکے  اور اپنے  اس غم کو نوشتۂ تقدیر سمجھ کر باقی ماندہ زندگی کو اس کی یادوں کے  سہارے  اس امید میں بتانا چاہتے  ہیں کہ ہر بیتا ہوا لمحہ،  نئی زندگی کی طرف رواں  دواں ہے،  جہاں بالآخر دونوں ایک ہوجائیں گے۔ اسی امید میں وہ اپنے  آپ کو بیتے  ہوئے  لمحات کی خوش گوار یادوں کی طرف لے  جاتے  ہیں جہاں ان کو اپنی کھوئی ہوئی زندگی دوبارہ ملتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

یہ تمنا کیوں غلط ہو کہ ملیں گے  پھر کہیں ہم

اسی جادۂ عدم سے  ہم بھی گذر رہے  ہیں

ہے  ہر ایک صبح گویا اک مژدۂ تقرب

بخدا اسی خوشی میں ہر آن جی رہے  ہیں

 مقبول صاحب نے  ’نالۂ مہجور‘ کے  تحت جو نظمیں کہی ہیں وہ ایک ہی تسلسل کی مختلف کڑیاں ہیں اور چونکہ ان نظموں کا تعلق دلی جذبات و احساسات سے  ہے  اس لیے  اس میں آمد خلوص اور داخلیت بھی ہے۔ ان نظموں میں بیان کی شد ت نے  ایک اجتماعی احساس پیدا کردی ہے  جو پڑھنے  والے  کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہے  اور شاعر کو شعرا کی اس صف میں بٹھاتی ہے  جو جذبات و احساسات کو فنی حسن کے  ساتھ پیش کرنے  کا سلیقہ جانتے  ہیں ۔

Shadab Alam

Room No. 243, Jhelum Hostel, JNU

New delhi-110067

mob.9999136397

mob.8851391436

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.