پریم چند کے افسانوں میں نسائی مسائل
بی سکینہ رسملائی
ریسرچ اسکالر
مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ، موریشش
This essay entitled ” the plight of women ” in the stories of Prem Chand explores the issues of the author’s female characters.Prem Chand generally known as the social writer wrote courageously and excessively on the oppression of women plagued in the Indian society. This research paper focuses on Prem Chand ‘s short stories mainly “kusum ” , ” Sati ‘ and ” Mis s Padma”.The issues faced by the so called weak gender have been taken into account and analysed .I am a research scholar currently working on my PhD.The title of my research for PhD is ” patriarchy in Urdu literature”.This paper forms part of my research programme. I work as lecturer in the department of Urdu Studies at Mahatma Gandhi Institute(Mauritius).
Mrs Sakinah Rasmally Bahadoor
Research Scholar
Name : B.Sakinah Rasmally
Research Scholar
Mahatma Gandhi Institute(Mauritius)
پریم چند مختصر اردو افسانہ نگاری کے موجد ہیں۔ انہوں نے عورت کے حوالے سے بہت افسانے لکھے جو ان کے گراں قدر سرمائے ہیں ۔ اس پیپر کے لئے میں نے تین افسانوں کا انتخاب کیا ہے جو پریم چند کی افسانہ نگاری کے تیسرے دور سے متعلق ہیں اور اس دور میں پریم چند فنی پختگی کے مراحل طے کر چکے تھے ۔ انہوں نے مرفع الحال ‘ متوسط اور ادنیٰ طبقے کی عورتوں کو اپنے فن میں مرجعیت دی ہے ۔ عورت کی مناسبت سے پریم چند نے بہت سے نسائی مسائل کی نشاندہی کی ہے جیسے بیوہ کی مضرتیں ‘ ازدواجی زندگی کی تلخیاں ‘ رسوم پرستی ‘ چوائف کی خوں چکاں داستانیں ‘ بچپن کی شادیاں ‘ ساس اور نند کے مظالم وغیرہ۔ بدیں نظر ناچیز نے اس پیپر کے لئے جن نسائل مسائل کو دائرہ تحقیق میں لیا ہے وہ جہیز ‘ ستی کا نظام یا عورت کی حق تلفی اور غیر صحتمندانہ تعلقات ہیں ۔ ظاہر ہے ان تین افسانوں سے پریم چند کے فن سے انساف نہیں کیا جا سکتا تاہم ان افسانوں کے تناظر میں چند بنیادی امور کی طرف آپ کی توجہ منعطف کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کروں گی۔
پہلے افسانے کا عنوان کسم ہے۔ یہ افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ کسم کی شادی ہوتی ہے لیکن وہ اپنے شوہر کی بے اعتنائی کا شکار ہے۔ کسم کی رخصتی کے بعد اسے اپنے سسرال میں رہنا چاہئے تھا لیکن صورت حال ایسی نہیں ہے ۔ کسم کے دادا شاطر صاحب نے اسے دو تین مرتبہ سسرال بھیجا لیکن اس کا شوہر اس سے مخاطب نہیں ہوتا۔ جب شاطر صاحب کو پتہ چلتا ہے کہ کسم کے شوہر کی دوسری شادی طے ہونے والی ہے تو وہ یہ دریافت کرتے ہیں کہ آخر معاملہ کیا ہے ؟ کسم کو بھی اپنے شوہر کی ستم ظریفی کا علم نہ تھا۔ اس غریب کو یوں محسوس ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کی نظر میں دنیا کی سب سے بدترین عورت ہے کیونکہ اس نے متعدد بار اپنے شوہر کو خط لکھا تاکہ وہ اس ظلم و ستم کا راز معلوم کر سکے ۔ اس بیچاری کو معلوم بھی نہ تھا کہ اسے کس بات کی سزا دی جا رہی تھی۔ پھر بھی وہ معصوم اپنے گھر کو آباد کرنے کی کوشش میں اپنے شوہر سے یوں گویا ہوتی ہے :
’’ میرے آقا! مجھے یہاں آ ئے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا لیکن آنکھیں نہیں جھپکیں ۔ ساری رات کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہے ۔ بار بار سوچتی ہوں مجھ سے ایسی کیا خطا ہوئی آپ مجھے یہ سزا دے رہے ہیں ۔ آپ مجھے جھڑکیں کوسیں مزاج چاہے تو میری گوشمالی کریں ۔ میں ہر ایک سزا برداشت کر لوں گی لیکن بے اعتنائی مارے ڈالتی ہے ۔ میں آپ کے یہاں ایک ہفتہ رہی۔ میرا پرماتما جانتا ہے کہ میرے دل میں کیا کیا ارمان تھے۔ مین کیسے عذاب سے ماہی بے آب کی طرح تڑپتی تھی۔ کتنی کوشش کی کہ آپ سے کچھ پوچھوں ‘ آپ سے اپنی خطاؤں کی معافی کی التجا کروں لیکن آپ میرے سائے سے بھی دور ہو گئے ـ‘‘۔ ( پریم چند in متّل ۲۰۰۸۔ ص ۶۸۳)
عورت سب کچھ سہہ سکتی ہے لیکن اپنے شوہر کی بے توجہی نہیں ۔ یہ بات عیان ہے کہ اس کا شوہر اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ عورت مالدار ہو سکتی ہے ‘ خوبصورت ہو سکتی ہے ‘ حروف شناس ہوسکتی ہے لیکن شوہر کی بے توجہی عورت کو با نصیب سے بے نصیب بنا دیتی ہے۔ عورت کی خوشی کا مدار اس کے حسن پر نہیں ‘ اس کی دولت پر نہیں بلکہ اس کے شوہر پر ہے ۔ اصل میں مرد ہی عورت کو عورت ہونے کا احساس دلاتا ہے اس لحاظ سے بیوی کی خوشی اس کے شوہر پر منحصر ہے ۔ لیکن کسم کے شوہر کی بے اعتنائی اس کے خواب ِ عروسی کو منہدم کر دیتی ہے ۔ وہ اپنے شوہر کی محبت ‘ اس کی نظر ِ التفات کے لئے تڑپتی ہے ۔ اسے کیا چاہیے تھا ؟ کچھ نہیں بس اس کے شوہر کی نگاہ ِ محبت ہی اس کو چمکانے کے لئے کافی تھی۔ اگرچہ اسے اپنے جرم کا احساس نہ تھا پھر بھی وہ ایک روایتی اور وفا شعار بیوی کی طرح جھکتی جاتی ہے ۔ شوہر سے منت سماجت کرنے میں وہ خود کو ایسے فنا کرتی ہے جیسے اس میں خوداری ہی نہیں ‘ اعتماد نہیں جیسے اس کا کوئی وجود نہیں ۔ کسم کے پہلے دو خطوط پڑھ کر اس سے ہمدردی ہوتی ہے لیکن بعد میں کسم کی بیوقوفی پر غصہ آ تا ہے ۔ عورت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی کوئی شخصیت نہیں اس کی کوئی شناخت نہیں ۔ جتنا اختیار شوہر کو اپنی بیوی پر ہے اتنا اختیار بیوی کو بھی اپنے شوہر پر ہے ۔ کسم اپنی خوداری اپنی عزت نفس کی پامالی کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے جب وہ کہتی ہے :
’’ اچھا ایک سوال پوچھ سکتی ہوں ‘ ناراض نہ ہونا ‘ کیا میری جگہ کسی اور نے لے لی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو مبارک! ذرا اس کی تصویر میرے پاس بھیج دینا۔ میں اس کی پوجا کروں گی۔ اس کے قدموں کو بوسہ دوں گی۔ میں جس پتھر کے دیوتا کو نہ پگھلا سکی اس سے اس نے بردان پایا۔ ایسی خوش نصیب عورت کے قدم دھو دھو کر پیوں گی ‘‘۔ ( پریم چند متّل ۲۰۰۸۔ ص ۶۸۱)
اس منزل تک پہنچ کر وہ اپنی خودی یہاں تک کہ بیوی کی حیثیت سے وہ اپنے حقوق بھی بھول چکی تھی۔ اس افسانے میں یہ امر واشگاف ہوتا ہے کہ کسم کے شوہر کی بے اعتنائی کی وجہ داد و دہش ہے یعنی کہ جہیز۔ کسم کے رشتہ داروں نے داد و دہش میں بخیلی نہیں کی لیکن نوجوان کی یہ خواہش تھی کہ اس کے سسرال والے انگلینڈ میں اس کی تحصیل علم کے اخراجات بھی برداشت کریں اور آخر میں جب کسم اپنے شوہر کی بے رحمی اور عتابانہ رویے سے دو چار ہوتی ہے تو اچانک اس غریب ‘ نادا ر ‘ کمزور کردار میں خود اعتمادی اور خوداری عود کر آتی ہے اور وہ ایسی مشروط اور خودغرضانہ محبت کے عوض تنہا رہنے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ کسم آخر میں اپنے وجود نسوانی کو ثابت کر دیتی ہے ۔ وہ پراجتہ سے اپراجتہ بن جاتی ہے۔
اس افسانے کے بین السطور پریم چند نے ہندوستانی معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو نشان زد کیا ہے جو نہ صرف سماج بلکہ کتنے افراد کو دمق کی طرح صرف کر رہا ہے ۔ اس کی وجہ سے کتنے لوگوں کا استحصال ہوتا ہے ۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک قسم کا کورپشن ہے اور کسم کا شوہر ایک صارف ذہن رکھتا ہے جو اسی سماج کا پروردہ ہے ورنہ کسم کے ہر خط میں اتنی حلاوت تھی کہ تقریباً ہر انسانی جذبہ کو اس نے ٹٹولنے کی کوشش کی۔ دراصل پریم چند ایک ایسے صحتمند معاشرے کے خواہاں تھے جس میں نوجوان اپنے اسلاف یا سسرال کے سرمایہ کی بجائے اپنی قوت ِ بازو اور اپنی محنت پر اعتماد کرے اور وہ صحیح معنوں میں ہندوستانی معاشرے میں جہیز کی پسپائی چاہتے تھے۔ کسم کے ذریعے پریم چند نے عورت کی خوداری ثابت کرنے کی مساعی کی۔ وہ اس بات کی طرف ہمارا ذہن راجع کرتے ہیں کہ عورت اپنے شوہر کی محبت میں اپنی انانیت کو کچل سکتی ہے لیکن وقت آنے پر وہ صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔ جب کسم اپنی زندگی تنہا جینے کا فیصلہ لیتی ہے کیونکہ اس کا شوہر دقیانوسی سماجی اصول و ضوابط کا مریضانہ ذہن رکھتا تھا تو صحیح معنوں میں پریم چند نے اس کردار کے ذریعے نسائی تشخص کی مثال قائم کی۔
دوسرے افسانے کا عنوان ستی ہے۔ اس افسانے میں تین کردار ہیں لیکن کلیدی کردار ملیا ہے جس کی شادی کلو سے ہوتی ہے ۔ راجہ کلو کا چچازاد بھائی ہے اور یہ تمام کردار ایک ہی مکان میں اقامت گزیں تھے۔ راجہ شکل و صورت میں کلو سے بہتر تھا اور اسے عورتوں کو رجھانے کا فن آتا تھا۔ اس کی نظر ہمیشہ کلو کی بیوی ملیا پر رہتی تھی یہاں تک کہ موقع سے فائدہ اٹھا کر ملیا سے اس کی خریدی ہوئی ساڑھی پہننے کی گزارش کرتا ہے اور جب ملیا اس کی یہ خواہش پورا کرتی ہے تو وہ اپنی بھابی سے یوں گویا ہوتا ہے ’’ ایسا جی چاہتا ہے کہ تمہیں لے کر کہیں بھاگ جاؤں ‘‘ (پریم چند in متّل ۲۰۰۸۔ ص ۶۴۷)۔ ملیا سے یہ خطا ہوتی ہے کہ چند لمحوں کے لئے بہک کر سرور انگیز انداز سے جواب دیتی ہے ’’ جانتے ہو ‘ تمہارے بھیا کا کیا حال ہوگا ؟ ‘‘ ( ص ۶۴۷)
کلو یہ قطعی برداشت نہیں کرتا تھا کہ راجہ اس کے یہاں آئے اور اس کی بیوی سے بات کرے ۔ ملیا نے چاہا کہ ساڑھی والی بات وہ اپنے شوہر کو بتائے کیونکہ اسے احساس ِ ندامت تھا۔ وہ پل میں سوچتی کہ اس نے اپنے شوہر سے دغا کی لیکن دوسرے پل میں وہ پھر سوچتی اور خود کو بہلاتی ’’ ذرا سا ہنس دینے سے اگر کسی کا دل خوش ہو جاتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ؟ تاہم ملیا یہ بھول جاتی ہے کہ شوہر کے لئے اس کی بیوی انمول ہوتی ہے۔ لیکن صرف یہ احساس کہ اس نے ساڑھی پہن کر اپنے شوہر سے بیوفائی کی ہے اسے رنجیدہ خاطر کر رہی تھی۔ یہ خیال جو اس کے
تحت الشعور میں تھا وہ خواب کی شکل میں جلوہ نما ہوتا ہے ۔ کوئی عورت خواب میں اس سے کہتی ہے ’’ ہان تو نے اسے چھری کٹار سے نہیں مارا لیکن تیری دغا کٹار سے زیادہ قاتل تھی ‘‘۔ آنکھیں کھلتے ہی وہ اپنے شوہر سے ساری حقیقت بیان کر لیتی ہے اور یہیں سے مسئلہ شروع ہوتا ہے ۔ کلو سے اتنا بھی برداشت نہیں ہوا کہ وہ ساری بات سنتا اور اس کی دنیا ہی اجڑ جاتی ہے ۔ وہ ملیا سے بے تحاشہ محبت کرتا تھا اور اسے اس بات کا خدشہ ہوا کہ ممکن ہے ملیا بہت خوبصورت ہے اور وہ بدصورت جس کی وجہ سے وہ اس بندھن سے نا خوش تھی۔ کلو شک میں مبتلا ہو گیا اور یہ شبہ سرطان کی طرح اسے ہضم کر رہا تھا طرہ یہ کہ وہ احساس ِ کمتری کا شکار بھی تھا۔ ملیا اس شبہ کو مٹانے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ ناکام رہتی ہے ۔ اب ملیا کلو کے لئے صرف کھانا پکانے کی مشین رہ گئی تھی۔ حظ ِ نفس کے لئے وہ ملیا کے پاس نہیں آتا تھا اور اپنا وقت تاڑی خانے میں یا چرس کے دم لگانے میں گزر جاتا۔ غنیمت ہے کہ راجہ جس
انگریز کا ملازم تھا اس کا تبادلہ ہو گیا اور راجہ اس کے ساتھ چلا گیا ورنہ دو بھائیوں میں کسی کا خون ہو جاتا۔ شک کی وجہ سے کلو اور ملیا کی خوشحال زندگی تباہ ہو جاتی ہے اور کلو اپنی خرمستی کی وجہ سے گرمی کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ بیماری تیز رفتاری سے بڑھتی جاتی۔
اس دوران ملیا اپنے شوہر کی خدمت گزاریاں کرتی۔ ہر وقت وہ یہی سوچتی کہ اپنے شوہر کی خدمت کرنے سے ممکن ہے اس کا پاپ دھل جائے ۔ مرنے سے پہلے کلو ملیا سے پوچھتا ہے کہ راجہ اور اس کے درمیان کیا معاملہ تھا تو وہ جواب دیتی ہے کہ اس نے صرف راجہ کی دی ہوئی ساڑھی پہنی لیکن اس کے بعد اس ساڑھی کو جلا دیا۔ کلو اپنے کئے پر شرمندہ ہوا۔ وہ بستر ِ مرگ پر تھا۔ وہ اس جہاں میں صرف پل کا مہمان تھا لیکن کلو اور ملیا محبت کے ایک نئے احساس سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔ یہ واقعی طلوع ِ محبت تھی۔ کلو ملیا سے کہتا ہے ’’ مولا میں نے پچھلے جنم میں کوئی بھاری تپ کیا تھا کہ تم مجھے مل گئیں ۔ اگر تمہاری جگہ مجھے دنیا کا راج بھی ملے تو نہ لوں ‘‘۔
کتنی صداقت ‘ کتنی سچائی اور پاکیزگی کلو کے ان الفاظ میں تھے ۔ پاک اور حسین جذبات کے طلاطم کلو کے دل میں موجزن ہو جاتے ہیں ۔ ملیا اگر چاہتی تو اپنے شوہر کو مصیبت کے ایام میں تنہا چھوڑ سکتی تھی۔ اپنی زندگی نئے سر ے سے بنا سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بر عکس اپنے شوہر کی خدمت کرنے میں اسے سکون و سرور ملتا تھا۔ دراصل پریم چند عورت میں پتی ورتا ‘ بے لوث محبت اور ایثار جیسے اوصاف سے آراستہ دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔ وہ ان صفات کو عورت کا گہنا تصور کرتے ہیں ۔ ملیا کو ا پنے شوہر کی مدد اور اس کی عیادت میں جو آسودگی نصیب ہوتی وہ دنیا کی ہر آسائشوں ‘ نعمتوں اور لذتوں سے کہیں زیادہ باردار تھی۔ اپنے شوہر کی عیادت میں اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ دنیا کی سب سے با نصیب اور قسمت ور عورت ہے۔ اس دوران راجہ گھر واپس آتا ہے اور اپنے بھائی کی مہلک بیماری کی خبر سن کر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اسے اب بھی موقع کی تلاش تھی۔ اس کی کمینگی اور خباثت کا یہ عالم تھا کہ اپنی بھابی سے یوں مخاطب ہوتا ہے ’’ بھابی ‘ کیا اب بھی مجھ پر مہربانی نہ ہوگی ؟ کتنی بے رحم ہو تم ؟ کئی دن سے میں تمہیں تلاش کر رہا ہوں مگر تم مجھ سے بھاگتی پھرتی ہو۔ بھیا اب اچھے نہ ہوں گے ‘‘۔ ( ص ۶۵۰)
لیکن اس افسانے کے بین السطور اگر غور سے دیکھا جائے تو کلو اور ملیا کی محبت میں چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ طنز تو یہ ہے کہ جب کلو صحتیاب تھا تو ملیا کو اپنی محبت کا احساس نہ تھا۔ کلو کی موت ہو جاتی ہے اور ملیا دن بھر کام کر کے اپنا پیٹ پالتی ہے اور اپنے سر تاج کی یادوں میں ڈوب کر کبھی آنسو بہا دیتی ہے دوسرے چرف راجہ کی بیوی بھی فوت ہو جاتی ہے تو اس کو نہ ہی اس کا ملال ہوتا ہے نہ ہی صدمہ بلکہ کام ختم کر کے وہ ملیا کے پاس پہنچتا۔ ا یک دن وہ کہتا ہے
’’ بھابی اب تو میری امید پوری کرو گی یا ابھی کچھ اور باقی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ کب تک بھیا کے نام کو روتی رہو گی ‘‘۔ ( پریم چند in متّل ۲۰۰۸۔ ص ۶۵۱)
اب ملیا کا پیمانہ ٔ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ اور وہ راجہ کو منہ توڑ جواب دیتی ہے۔ اس کے الفاظ اتنے قاتلانہ تھے جس سے ملیا کے من میں اس کے شوہر کی محبت عیاں ہو جاتی ہے ۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بھی اس کی محبت کم نہیں ہوئی۔ ملیا نے اس جذبہ ٔ انسیت میں کمی آ نے نہیں دی بلکہ اس کو زندہ رکھا۔ سوال یہ ہے کہ افسانے کا عنوان ستی کیوں رکھا گیا۔ اصل میں پریم چند نے ستی کے نظام کو دائرہ ٔ احاطہ میں لیا ہے ۔ وہ ملیا اور کلو کی اس وابستگی گو ستی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس ستی کا تصور اس رسمی ستی سے بہتر ہے۔ لمحہ لمحہ ملیا اپنے شوہر کو اپنی یادوں کے دریچے میں زندہ رکھتی ہے ‘ اس کی پرستش کرتی ہے ۔ اب اس کو صحیح معنوں میں محبت کا احساس ہوا تھا اور محبوبیت اور مجذوبیت کی انتہا یہی ہے ۔ فرزانہ نسیم پریم چند کی تعریف کرتے ہوئے رقم کرتی ہیں :
’’ پریم چند کی خوبی اس بات میں ہے کہ وہ زندگی کے ہر مسئلے کو محدود دائرے سے نکال کر اسے سماج کی وسیع سطح پر لے جاتے ہیں ‘‘۔ ( فرزانہ نسیم ۲۰۰۶۔ ص ۷۲ )
ہندوستانی معاشرے میں ستی کا نظام سترویں اور اٹھارھویں صدی میں پورے زور و شور سے حاوی رہا۔ یہاں تک کہ ستی کی ترغیب دینے کے لئے سنکھا اور انگی راسا کا کہنا تھا کہ ’’ وہ جو موت میں اپنے شوہر کا ساتھ دیتی ہے ۳ کروڑ ۵۰ لاکھ برس جنت میں رہتی ہے ‘‘۔ ( تحسین ۲۰۰۸۔ ص ۵۳ )
اس سے ہندوستانی سماج میں عورتوں کی جسمانی ‘ ذہنی اور سماجی انحطاط کی وضاحت ہوتی ہے ۔ راجہ رام موہن رائے نے ستی کی رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ’’ کسی خاص وجہ سے جو عورت ستی نہ ہو سکتی تو اس کا سر منڈا کر اس کی ظاہری ہیئت محض اس لئے بگاڑ دی جاتی تاکہ کوئی بھی مرد اس کی طرف نظر التفات سے نہ دیکھے ایسی عورت نہ تو کسی تقریب میں جا سکتی تھی اور نہ سماج میں اس کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ‘‘۔ اسی لئے پریم چند اپنے فن پاروں میں عورتوں کے اس مسئلے پر اپنے نظریات پیش کرتے ہیں اور افسانے ستی کے ذریعے ستی کا جو اصل تصور ان کے ذہن میں نقش تھا وہ اسے جلوہ گر کرتے ہیں ۔
لیکن ناچیز اس افسانے کو ایک دوسرے زاویے سے پیش کرنا چاہے گی۔
عورت کو اولاد عصیاں کہا جاتا ہے۔ ملیا سے خطا ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ میزان ِ اعمال میں اس کی خطا کتنی وزنی تھی۔ اس نے صرف چوری چھپے راجہ کی دی ہوئی ساڑھی پہنی تھی جس کے لئے اسے ایک بڑی قیمت چکانی پڑی۔ ملیا کی شکل میں پریم چند نے ایک مخصوص ہندوستانی ناری کی عکاسی کی ہے۔ نفس ِ عمارہ ہر جنس مرد و زن دونوں کی روغ کا جزو ہے ۔ ہاں ملیا سے غلطی ہوئی لیکن جو سزا پریم چند اس کے لئے تجویز کرتا ہے وہ قید و بند ہے۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بھی وہ شوہر پرستی میں گرفتار رہی۔ کیوں ؟ کیونکہ سماجی اصول کے مطابق عورت کو سماج کا پابند ہونا چاہیے ۔ اگر ملیا مرد ہوتی تو چتا کی آگ ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی ہوتی کہ مرد کی دوسری شادی کا ذکر شروع ہو جاتا۔ ناچیز بہ بانگ دہل عرض کرنا چاہے گی کہ پریم چند نے بھی عورت کو عورت کی طرح ہی پیش کیا ‘ انسان کی طرح نہیں ۔ کیونکہ ان کے فن میں تصور پرستی پائی جاتی ہے ۔ پریم چند ملیا کی سرشت میں وہ خوف ہمیشہ کے لئے قائم کر دیتا ہے کہ اس کی خطا تلوار سے زیادہ قاتلانہ تھی۔ اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے اور اپنے پاپ دھونے کے لئے ساری زندگی اپنی وفاؤں کے دئے جلاتی رہی۔ پریم چند جس کو وفا شعاری سے تعبیر کر رہے ہیں وہ ملیا کی حق تلفی تھی اور کسی بھی معاشرے میں انسانی حقوق کرنا جائز نہیں ۔ اس سطح پر پریم چند کو سمجھنا دشوار ہو جاتا ہے ۔ ایک طرف وہ پریم چند بیواؤں کی عقد ِ ثانی کے لئے جد و جہد کرتے ہیں اور دوسری طرف ستی کا دوسرا پہلو ہویدا کرتے ہیں ۔ اس لیول پہ یہ امور متنازع فیہ معلوم ہوتے ہیں جن سے پدرانہ تسلط کی بو آتی ہے۔
تیسرے افسانے کا جو انتخاب میں نے کیا ہے وہ مس پدما ہے ۔ یہ پلاٹ مس پدما کے ارد گرد گھومتا ہے ۔ یہ افسانہ کچھ الگ نوعیت کا ہے ۔ یہ کہنا بجا ہے کہ پریم چند نے عورت پر لکھا اور عورت کو ہر زاویے سے دیکھا پرکھا۔ اس لحاظ سے عورت کے کئی مسائل اور ان کے معاملات پر رد و کد کی اور عورت کی مناسبت سے معاشرے کی زبوں حالی پر طنز کیا۔ اس افسانہ کا نقطہ ٔ ماسکہ غیر صحتمندانہ تعلقات ہیں ۔ یہ دو بہنوں کی داستان ہے ۔ رتنا شادی سے پہلے اپنے شوہر سے واقف تھی۔ شادی سے پہلے دونوں کی عشقیہ زندگی سیراب تھی لیکن شادی کے بعد یہی زندگی اجیرن ہو گئی۔ دونوں کی طبیعتیں سیر ہو گئیں ۔ اپنے شوہر کی جن اداؤں پر شادی سے پہلے وہ مرتی تھی اب ان ہی سے نفرت کی بو آتی ہے یہاں تک کہ ان کے تعلقات اتنا کشیدہ ہو گئے کہ ایک دوسرے سے الگ ہونا پڑا۔ ان کے طلاق کا مقدمہ بھی مس پدما ہی لڑتی ہے ۔ وکالت پدما کا پیشہ تھا اور اس پیشے کو گلے لگانے کے لئے رتنا نے ہی اس کی ہمت افزائی کی تھی۔ پدما رتنا کے مقابلے میں زود فہم تھی‘ خود کفیل تھی اور پوری آزادی سے اپنی زندگی جیتی تھی۔ طلاق کے بعد پدما اور رتنا دونون ساتھ رہتے تھے لیکن وکالت شروع ہونے کے بعد اس نے علیحدہ مقام لے لیا۔ عورت کتنی ہی آزاد کیوں نہ ہو ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ سوچتی ہے کہ کسی ایسے شریک ِ حیات کا ساتھ ہو جس پہ وہ اپنی زندگی قربان کر دے ‘ ایسی محبت جس میں گہرائی ہو ‘ وفا ہو ‘ مر مٹنے کی آرزو ہو۔ اتفاقاً پدما کی ملاقات جھلا سے ہوتی ہے ۔ رفتہ رفتہ گفتگو ہوئی۔۔پھر ملاقاتیں ہوئیں ‘ پدما جھلا کی طرف ملتفت ہوئی اور جب ایک دوسرے کے بغیر رہا نہیں گیا تو بغیر کسی رسم اور قانونی معاہدہ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے لگے ۔ یہ دلی معاہدہ تھا۔ پریم چند کے افسانے نسائی حسیت سے بھرپور ہیں ۔ وہ عورت کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ پریم چند کو معلوم ہے کہ عورت مرد سے زیادہ جذباتی ہوتی ہے اور اس کی عکاسی بھی وہ بخوبی کرتے ہیں ۔ پدما جھلا پر فریفتہ تھی۔ جھلا اس کو ڈانٹتا تو بھی وہ شکایت نہیں کرتی۔
جھلا طبیعت میں بھی جھلا تھا اس لئے اس کو محبت میں جبر کرنے کی بڑی طاقت تھی اور پدما کو محبت میں صبر کرنے کی۔ ابتدائے آفرینش سے ہر میدان میں ‘ ہر شعبہ ٔ حیات میں اور محبت میں بھی مرد کو جبر کرنے کی پوری آزادی ہے۔۔ اسی طرح محبت میں بھی ایک حاکم ہے اور دوسرا محکوم۔ جھلا رعب جماتا ہے ‘ رلاتا ہے ‘ سزا دیتا ہے کیونکہ وہ مرد ہے ۔ پدما سہتی ہے ‘ روتی ہے ‘ سزا برداشت کرتی ہے کیونکہ وہ عورت ہے ۔ جھلا پدما کا رس چوس کر اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اب پدما حاملہ تھی۔ درد زہ کے عالم میں پدما جھلا کا انتظار کرتی رہی کہ اب جھلا اس کے پاس آئے گا لیکن وہ غائب تھا۔ درد زہ میں بھی اتنی تڑپ نہ ہوئی ہو گی جتنی جھلا کے انتظار میں تھی ۔ ہر عورت کی طرح اس نے یہ خواب دیکھا کہ جب وہ نوزایئدہ پیدا ہوگا تو سب سے پہلے وہ اسے جھلا کی آ غوش میں دیکھنا چاہے گی لیکن جھلا ایک ہفتے سے غائب تھا۔ پدما کو اس بات کا اتنا صدمہ ہوتا ہے کہ وہ جھلا کے سامان کو جلا دیتی ہے اور اسی وقت جھلا نمودار ہوتا ہے اور یہ منظر دیکھ کر پدما سے مخاطب ہوتا ہے ’’ تمہاری محبت دیکھ لی۔ رتنا مجھ سے علیحدہ ہے مگر محض قانوناً۔ اس کا مجھ سے روحانی رشتہ ہے اور وہ ٹوٹ نہیں سکتاکیونکہ وہ آج بھی مسز جھلا ہے اور میں جانتا ہوں جس وقت میں نادم ہو کر اس کے سامنے جاؤں گا وہ پھر میری بیوی ہوگی اور میں اس کا غلام شوہر۔ تمہاری آزادی تمہیں مبارک ‘‘۔ ( پریم چند in متّل ۲۰۰۸۔ ص ۸۵۷)
یہ افسانہ کافی Controversial ہے کیونکہ ایک طرف پریم چند نسائی آ زادی کے قائل نظر آتے ہیں ۔ یہ افسانہ پریم چند کے خیالات کا آئینہ دار ہے ۔ رتنا اپنے شوہر سے علیحدہ ہو کر بھی اس کی پوجا کرتی ہے ۔ چونکہ وہ رسمی طور پر جھلا کی بیوی ہے پریم چند اسے مثالی بنا کر پیش کرتے ہیں اور پدما صرف اس کی داشتہ تھی تو وہ پریم چند کے مطابق قابل ِ مذمت ہے ۔ لیکن اس بات سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ پدما کے ساتھ نا انصافی ہوئی کیونکہ عورت اگرچہ طوائف ہی کیوں نہ ہو وہ اپنے جائز حقوق رکھتی ہے پھر پدما تو جھلا کے بچے کی ماں تھی۔ جس طرح سے افسانہ نگار نے اس افسانے کا خاتمہ کیا ہے اس سے یہ امر متشرح ہوتا ہے کہ جھلا چونکہ مرد تھا اپنی تمام عیاشیوں اور کمزوریوں کے باوجود آخر میں فرشتہ ثابت ہوتا ہے ‘ مرد کی بالا دست حیثیت غالب ہو جاتی ہے اور پدما عورت ہے تو اس کا انجام بھی عورت جیسا پیش کیا جاتا ہے ۔ مرد کبھی قصور وار نہیں ہوتا اور عورت سیاہ کار ہے اور معاشرے کا عضو معطل۔
جھلا اور پدما کے رشتہ کو چاہے زناکاری کا نام دیا جائے لیکن اس فعل میں دونوں ہی شریک تھے۔ پدما اس کی بیوی نہ صحیح لیکن اس نے ٹوٹ کر اس سے محبت کی تھی اور اس کا انجام ایک ناجائز اولاد تھا جسے معاشرہ حرامی نام دیتا ہے۔ جھلا اس بچے کی شکل بھی نہیں دیکھتا کیونکہ وہ مرد ہے practical ہے پدما عورت ہے جذباتی ہے لیکن اس کے مادرانی جذبات میں اتنا دم ہے کہ وہ اپنے بچے کی پرورش کرے۔ پریم چند بحیثیت فنکار پدما کے ساتھ اس معاندانہ
سلوک سے باخبر ہے لیکن وہ اس سے ہمدردی نہیں جتاتے۔ پرانے زمانے میں مرد عورتوں کی تحقیر کے لئے اکثر اسے طعنی دیا کرتے کہ کیا وہ عقل رکھتی ہیاس افسانے کی رو سے اس بات کی تصدیق رتنا کرتی ہے کہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود اس کا پتی پرمیشور ہے اور عین ہندوستانی سماج کی عورت کا پرتو ہے۔
عورت پریم چند کے افسانوں کا خاصہ ہے ۔ وہ مختصر اردو افسانے کے بانی ہیں ۔ انہوں نے عورت کی طوفان خیز زندگی کو اپنے فن میں اہمیت دی۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے دل میں عورتوں کے لئے ایک نرم گوشہ ہے اور وہ تعلیم کو ان کے درد و غم کا مداوا خیال کرتے ہیں ۔ پریم چند عورت کی فلاح و بہبود کے خواہشمند ضرور ہیں لیکن ان کی نظر میں ’’ عورت کی بنیادی خصوصیت شوہر پرستی ہے ‘‘ اور اس کی وضاحت ان تینوں افسانوں میں ہوتی ہے ۔ پریم چند کے نسائی کردار اگرچہ عاصی یا پاپی ہوتے ہیں لیکن وہ بہت جلد ان میں سدھار لاتے ہیں ۔ اپنے فن کے ذریعے وہ انہیں بہت جلد اپنی غلطی کا احساس دلاتے ہیں ۔ عورت پچھتاتی ہے اور پریم چند اسے reform ہونے کا موقع دیتے ہیں ۔ پریم چند اصل میں عورت کو سیتا یا دیوی ہی تصور کرتے ہیں ۔ پدما کے کردار کا انجام اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پریم چند عورتوں کی آزادی کے قائل تو ہے لیکن وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ حد سے زیادہ آزادی عورت کو برباد کر دیتی ہے۔ پریم چند نسائی مسائل کو ظاہر کرتے ہیں لیکن ان کے نسائی کرداروں میں احتجاج ناپید ہے ۔
References
۱۔ فرزانہ نسیم ( ۲۰۰۶) ۔ اردو ناول میں متوسط طبقہ کے مسائل۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی
۲۔ ڈاکٹر آمنہ تحسین ( ۲۰۰۸)۔ مطالعات ِ نسواں ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ دہلی
۳۔ پریم گوپال متّل ( ۲۰۰۸ ) پریم چند کے سو افسانے ۔ ایچ ایس آفسیٹ پریس۔ دہلی
………………..
Bibi Sakinah Rasmally Bahadoor
Research Scholar ( Mauritius)
٭٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "پریم چند کے افسانوں میں نسائی مسائل"
[…] 125. پریم چند کے افسانوں میں نسائی مسائل […]