نئی غزل اورعصری مسائل

سلیم انور

  ریسرچ اسکالر

شعبۂ اردو،  الہ آباد یونی ورسٹی،

الہ آباد۔211002

موبائل: 9889533245

نئی غزل کیا ہے  اس کی ابتدا کب ہوئی؟ اس سلسلے  میں معروضی انداز میں یہ کہنا ذرا دشوار ہوجاتا ہے  کہ نئی غزل کی ابتدا فلاں برس میں ہوئی۔ کیوں  کہ زمانہ سلسلۂ رو ز وشب کانام ہے  اور اس میں ہرآنے  والا لمحہ گزشتہ لمحے  سے  مربوط ہوتا ہے  یعنی اس کی جڑیں اپنے  ماضی میں بھی پیوست ہوتی ہیں جس کی بنا پر اگلے  دور میں اس کی کونپلیں نکلتی ہیں اور وہ ایک تناور درخت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ نئی غزل یا جدید تر غزل کے  زمانی تعین کامعاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔اس کی ابتدایوں تو تقسیم ہندہی کے  ساتھ ہوجاتی ہے  لیکن اس کے  خدو خال ۱۹۵۰ء کے  بعد ابھرنے  شروع ہوتے  ہیں۔  اس تعلق سے  خلیل الرحمن اعظمی لکھتے  ہیں  :

’’جدید تر غزل ہمارے  نزدیک غزل کی وہ صورت ہے  جو یگانہؔ،  فراقؔ اور شاد عارفیؔ کی غزل کے  بعدایک نئی فضا اور نیا لہجہ لے  کر ابھری ہے۔ اس غزل کے  خدو خال ۱۹۵۰ء کے  بعد سامنے  آنے  والی نسل کے  یہاں پہلے  پہل ابھرنے  شروع ہوئے  جس میں ناصر کاظمی،  باقی صدیقی،  جمیل الدین عالی،  احمد مشاق،  سلیم احمد ظفراقبال،  شہزاد احمد،  احمد فراز ا ور فرید جاوید کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ۶۰ئ؁ کے  لگ بھگ ایک اور نئی نسل اس قافلے  میں شامل ہوئی ہے  جس میں شکیب جلالی،  بمل کرشن اشک،  بشیر بدر،  مظفر حنفی،  خلیل رامپوری،  محمد علوی،  شہر یار،  عاد ل منصوری،  ساقی فاروقی،  شمیم حنفی،  پرکاش فکری اور دوسرے  نئے  شعرا شامل ہیں جو ان شعرا کے  دوش بدوش اپنی غزل کے  ذریعہ ہماری شاعری کو ایک نئے  ذائقے  سے  روشناس کرارہے  ہیں۔ ‘‘ ۱؎

اس ضمن میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے  ہیں  :

’’ زمانی نقطۂ نظر سے  ’’نئی شاعری‘‘ سے  میں وہ شاعری مراد لیتا ہوں جو ۱۹۵۵ء کے  بعد تخلیق ہوئی ہو۔ ۱۹۵۵ء کے  پہلے  کے  ادب کو میں نیا ادب نہیں سمجھتا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۱۹۵۵ء کے  بعد جو کچھ بھی لکھا گیا وہ سب نئی شاعری کے  زمرے  میں آتا ہے،  اور یہ بھی نہیں کہ ۱۹۵۵ء کے  پہلے  کے  ادب میں ’’جدیدیت ‘‘ کے  عناصر نہیں ملتے۔  میری اس تعین زمانی کی حیثیت صرف ایک حوالے  کی ہے۔‘‘ ۲؎

محولہ اقتباسات سے  یہ امر واضح ہوجاتا ہے  کہ نئی غزل کی داغ بیل ۱۹۵۰ سے  قبل پڑنی شروع ہوگئی تھی۔  لیکن ۱۹۵۰ء کے  بعد کے  شعری منظر نامے  پر اس کی واضح شکل نمودار ہونے  لگتی ہے  اور ۱۹۵۵ کا زمانہ آتے  آتے  نئی غزل اپنے  مخصوص طرز اورلب و لہجے  کے  ساتھ جلوہ گر ہوجاتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتاہے  کہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی نئی غزل کی ابتدا کا زمانہ ہے۔ چھٹی دہائی سے  لے  کر عہد حاضر تک نئے  غزل گویوں کی ایک بڑی تعداد ہے  جس میں اہم اور نمائندہ شعرا میں ناصر کاظمیؔ،  خلیل الرحمن اعظمی،  شکیب جلالی،  منچندہ بانی،  ساقی فاروقی،  احمد فراز، احمد مشتاق،  ساقی فاروقی، ظفراقبال،  محمد علوی،  وزیر آغا،  سلیم احمد،  عادل منصوری،  عمیق حنفی، باقر مہدی،  شہریار،  نشتر خانقاہی،  مخمور سعیدی، وحید اختر،  مظہر امام،  کمار پاشی،  نریش کمار شاد، زیب غوری،  بمل کرشن اشک، بشیر بدر،  فضا ابن فیضی،  عرفان صدیقی،  اسعدبدایوانی،  پرکاش فکری،  ندا فاضلی،  پروین شاکر،  ظہیر صدیقی،  حسن نعیم،  مصور سبزواری،  لطف الرحمن، افتخار امام صدیقی،  ضمیر کاظمی،  شمس الرحمن فاروقی، مظفرحنفی،  سلطان اختر،  مہدی پرتاپ گڑھی،  شہپر رسول، خورشید اکبر، تابش مہدی،  حنیف ترین،  راشد الہ آبادی،  قیصر صدیقی،  شفاآئمی، شہنازنبی، فرحت احساس، احمد محفوظ،  عاصم شہنواز شبلی، ظہیر رحمتی، نعیم انیس،  مینو بخشی،  کشور ناہید،  عذرا پروین،  فہمیدہ ریاض، عزیز نبیل،  ظفرانصاری ظفر،  راشد انور راشد،  نوشاد مومن،  سالم سلیم،  شمشیر عالم،  محمدسالم اورنوشادکامران وغیرہ کے  نام خصوصیت کے  ساتھ قابل ذکر ہیں۔  ان شعرا نے  اپنے  دورکی مختلف شعبہ ہائے  زندگی کو جس طرح دیکھا اور محسوس کیا،  ان کو انھیں احساسات اور کیفیات کے  ساتھ اپنی غزلوں میں پیش کرنے  کی سعی کی۔

کسی دور کی نمائندگی کے  لیے  یہ ضروری ہے  کہ وہ ادب اپنے  عہد سے  ہم آہنگ ہو۔اُس ادب کے  ذریعہ اس عہد کی سیاسی،  سماجی،  معاشرتی،  اقتصادی اور تہذیبی زندگی کی صورت حال کا انداز ہ لگایا جاسکے۔ تب صحیح معنوں میں وہ ادب اپنے  زمانے  کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ موجودہ عہد کوسائنسی اور مشینی دور سے  تعبیر کیا جاتاہے۔  اس دور میں صنعتی اور مشینی تہذیب کی بالا دستی ہے  جس کا غلبہ پورے  سماج پر ہوچکا ہے۔ جو چیزیں سماج یا انسانی زندگی پر حاوی ہوجاتی ہیں  ،  وہ ذکر کا موضوع اور فکر کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس لیے  نئی غزل میں  صنعتی اور مشینی تہذیب کے  منفی اور مثبت پہلوئوں کا بھی اظہار ضروری ہوجاتا ہے۔  اس سلسلے  میں شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں  :

’’میں اس شاعری کو ’’جدید ‘‘ سمجھتا ہوں جو ہمارے  دور کے  احساس جرم،  خوف،  تنہائی،  کیفیت انتشار اور اس ذہنی بے  چینی کا کسی نہ کسی نہج سے  اظہار کرتی ہو جو جدید صنعتی اور مشینی میکانکی تہذیب کی لائی ہوئی مادی خوش حالی،  ذہنی کھوکھلے  پن،  روحانی دیوالیہ پن اور احساس بے  چارگی کا عطیہ ہے۔‘‘۳؎

ہر دور معاملات و مسائل سے  دوچار رہا ہے  لیکن ان کی نوعیت مختلف ادوار میں الگ الگ رہی ہے۔ جس قدر زمانہ آگے  بڑھ رہا ہے  اسی قدر نئے  نئے  مسائل بھی پیدا ہورہے  ہیں۔ عہد حاضر میں مسائل کاسیلاب امنڈ آیا ہے  جو انسانوں پر بھوتوں اور چڑیلوں کی طرح حاوی ہوگئے  ہیں۔  اس سلسلے  میں رشید امجد لکھتے  ہیں  :

’’آج کے  مسائل ہر گھر،  ہر صحن،  ہر محبوبہ،  اور ہر محبوب کے  گرد بھوتوں اور چڑیلوں کی طرح ناچ رہے  ہیں۔  محبوب کی مجلس ہو یا عاشق کا گھر ہر جگہ زمانے  کی ضرورتیں انسان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔  چمنیوں کا کثیف دھواں شفق کی سرخی کو نگل گیا ہے۔ مل کا ہوٹر محبوب کی مترنم آواز اور گنگناہٹیں کھا گیا ہے  اور جذبے  موٹی موٹی چاردیواریوں کے  نیچے  دبے  ہوئے  سسک رہے  ہیں۔  انسانی ضرورتوں کی دلدلوں میں گردن گردن ڈوب چکے  ہیں۔ ‘‘۴؎

عصری مسائل ایک بڑا موضوع ہے  جس کا احاطہ اس چھوٹے  سے  مقالے  میں  ممکن نہیں۔  البتہ اہم مسائل کی طرف اشارے  ضرور کیے  جاسکتے  ہیں جن سے  دورِ حاضر کا انسان جوجھ رہا ہے۔انسان کو زندہ رہنے  کے  لیے  کھانا،  پانی اور ہواکی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے  کسی ایک کے  بغیر اس کی زندگی کا سفر ممکن نہیں۔  عہد حاضر میں بڑھتی ہوئی بے  روزگاری نے  لوگوں کا جینا دوبھر کردیاہے۔ خصوصاً ادنیٰ اور متوسط طبقے  کی زندگی اس سے  بہت متاثر ہوئی ہے۔ عسرت و تنگی ان طبقوں کے  افراد کا مقدر بن گئی ہے۔ وہ اس تنگی کو دور کرنے  کے  لیے  روزی روٹی کی تلاش میں شہر بہ شہر مارے  مارے  پھر رہے  ہیں ۔ مگر پھر بھی بہت سے  ایسے  لوگ ہیں جنھیں اتنی تگ ودو کے  بعد بھی بھر پیٹ کھانا نصیب نہیں ہوپارہا ہے۔ ایسے  میں وہ اپنے  پیٹ کی آگ بجھانے  کے  لیے  اپنے  ضمیر تک کا سودا کرنے  کو تیار ہیں۔  اس تعلق سے  چند اشعار قابل توجہ ہیں  :

شکم کی آگ سے  بڑھ کر کوئی وبال ہے  کیا

ہمیں خبر ہی نہیں ہجر کیا،  وصال کیا

 عالم خورشید

شکم کی آگے  لیے  پھر رہی ہے  شہر بہ شہر

سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا

 افتخار عارف

یہ زندگی کا تقاضا ہے  کچھ نہ اب سوچوں

ضمیر بیچ کے  روٹی خریدنے  نکلوں

 ظفرانصاری ظفر

سائنسی ریسرچ اورایجادات سے  بہت سی نئی نئی چیزیں وجود میں آئی ہیں ۔ جس سے  انسانی زندگی کی سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے۔لیکن اس کی وجہ سے  لوگوں میں سہل پسندی کی وبا بھی پھیلی ہے  جس کے  نتیجے  میں مختلف طرح کے  ذہنی اور جسمانی امراض وجود میں آگئے  ہیں ۔ اس سے  انسان کا سکون و قرار بھی چھنتا جارہا ہے،  ذہنی انتشار،  بے  چینی،  گھبراہٹ میں مبتلا ہونے  کے  باعث اس پر دہشت اور خوف کا عالم طاری ہوگیا ہے۔ یہ دہشت اس قدر شدید  ہے  کہ انسان پرچھائیوں سے  بھی ڈر محسوس کررہا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں  :

سبھی پرچھائیاں ہیں درپیٔ جاں

میں نکلوں کس طرح اپنے  مکاں سے

 محمد سالم

ڈرتا ہوں مرے  سر پہ ستارے  نہ آ پڑیں

چلتا ہوں آسماں کی طرف دیکھتا ہوا

 شہزاد احمد

دم بخود تھے  لوگ اپنے  آپ سے  سہمے  ہوئے

گھر کے  اندر عافیت کا ایک بھی گوشہ نہ تھا

 نشتر خانقاہی

حسن و عشق اردو غزل کا خاص موضوع رہا ہے  جو مختلف شکل میں ہردور کی غزلیہ شاعری کا جزو لاینفک بنا رہا ہے۔ لیکن موجودہ عہد میں اس کی نوعیت بدلتی جارہی ہے۔ عہد حاضرکی برق رفتار زندگی نے  انسان کو ایک مشین بنا کر رکھ دیاہے۔ جس طرح ایک مشین جذبہ واحساس سے  عاری ہوتی ہے،  اسی طرح عہد حاضر کے  انسان کے  اندر سے  احساسات و جذبات گویا کہ ختم ہوتے  جارہے  ہیں۔ وقت اور حالات نے  اسے  کاروبار جہان میں  اتنا مصروف کردیا ہے  کہ اس کی زندگی میں اس کا محبوب بھی ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔اشعارملاحظہ ہوں :

عشق نے  سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اب

وہ مجھے  یاد تو آتا ہے  مگر کام کے  بعد

 پروین شاکر

پڑی ہے  وقت کی زنجیر میرے  پائوں میں

محال ہے  مرے  وعدے  کا اب وفا ہونا

 ظفرانصاری ظفر

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے

وقت نے  کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

 پروین شاکر

عہدحاضر کی برق رفتار ی نے  انسان کو اس قدرمصروف کردیا ہے  کہ اس کا رشتہ فرد اور سماج سے  کٹتا جارہا ہے  جس کے  سبب رفتہ رفتہ وہ تنہاہوتا جا رہا ہے۔سائنسی آلات و ذرائع مثلاً موبائل اور انٹرنیٹ کے  استعمال نے  بھی اسے  غیر محسوس طریقے  سے  سماج سے  دور کردیا  ہے۔ اس دوری کے  نتیجے  میں  بھی اسے  تنہائی نصیب ہورہی ہے  اور انسانی رشتوں میں  دن بہ دن کشیدگی اور بکھرائو پیدا ہورہا ہے۔خلوص ومحبت، اخوت و ہمدردی،  باہمی میل جول، غمخواری و غم گساری اور جذبہ انسانیت کا فقدان ہورہا ہے۔مشترکہ خاندان ٹوٹ رہے  ہیں ، انسان اجتماعی زندگی کے  بجائے  انفرادی زندگی کو ترجیح دے  رہا ہے۔ چونکہ یہ کیفیت سماج میں ہر سو پیدا ہوگئی ہے،  اس لئے  نئی غزل میں  اس کی بازگشت اکثر شعرا کے  یہاں سنائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر لطف الرحمن لکھتے  ہیں  :

’’جدید حسّیت میں تنہائی (Loneliness) ایک غالب اور کلیدی احساس ہے۔ یہ فردکے  تقریباً تمام مثبت و منفی احساسات کا سرچشمہ ہے۔  جدید حسّیت کے  تمام رجحانات کم و بیش اس کی ارتقائی صورتیں ہیں۔  وجود کی سطح پر فرد کا پہلا احساس تنہائی (Loneliness) کا ہوتا ہے۔فرد کے  داخلی رویوں ردعمل اور ارتقا کے  اعتبار سے  تنہائی کی مختلف جہتیں سامنے  آتی ہیں  …

۱۔تنہائی       (Lonliness)

۲۔علاحدگی   (Isolation)

۳۔بیگانگی     (Alienation)

۴۔اکیلا پن   (Aloneness)

۵۔ خلوت    (Solitude)

…داخلی ارتقا کے  اولین مرحلوں میں تنہائی کااحساس دردو غم،  خو ف و دہشت،  اضطراب و انتشار،  عارضیت و بے  ثباتیت اور محرومی و ناامیدی وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔ یہ تنہائی ہے  بنیادی تنہائی (Loneliness) نئی غزل میں ایسے  احساسات وسیع پیمانے  پر شعری تجربے  کا حصہ بنے  ہیں۔ ‘‘۵؎

اس ضمن میں  چند اشعارلائق توجہ ہیں  :

تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے  رفیقو!

تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

 شہر یار

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے  اکیلا دکھائی دیتا ہے

 شکیب جلالی

پھیلا ہوا تھا شہر میں تنہائیوں کا جال

ہر شخص اپنے  اپنے  تعاقب میں غرق تھا

 سلطان اختر

اتنا مانوس ہوں سنّاٹے  سے

کوئی بولے  تو برا لگتا ہے

 احمد ندیم قاسمی

اس عہدکا انسان اخلاقی ذمہ داریوں کو تو درکنار اپنے  پیشے  اور فرائض کے  ساتھ بھی انصاف نہیں کررہا ہے۔  بڑے  عہدیداران سے  لے  کر چھوٹے  عہدیداران تک(چند کو چھوڑ کر) بیشتر مادہ پرستی اور مفاد پرستی کی جانب شدت سے  مائل ہیں ،  یہاں تک کہ عدالتوں  میں بیٹھنے  والے  جج جنھیں منصف کا اعلی رتبہ اور عظیم مقام حاصل ہے ، وہ بھی اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں جس کے  باعث انصاف کا معیار گرتا چلا جارہا ہے۔ آج عدالتوں میں منصف اسی شخص کے  موافق اپنا فیصلہ سنارہا ہے  جس سے  اس کے  ذاتی مفادوابستہ ہیں۔ انصاف کے  گرتے  ہوئے  معیار کو نئی غزل کے  شعرا شدت کے  ساتھ محسو س کررہے  ہیں۔  شعر ملاحظہ ہوں  :

عدل ہوگیا غائب اب تو ہر عدالت سے

پھر کوئی طلب کرنے  منصفی کہاں جائے

 مینو بخشی

یہاں تو عدل ہے  زردار کی تجوری میں

کچھ اور جج کی ترازو بھی تولتی ہوگی

 شفا آئمی

مفاد پرستی نے  انسان کے  اندر منافقت کارجحان پیدا کردیا ہے۔ وہ اپنے  ذاتی مقاصد کے  حصول کے  لیے  دوچہرگی کا سہارالے  رہا ہے۔  دو چہرگی رفتہ رفتہ کثرت چہرگی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ موجودہ عہد میں لوگ اسے  ایک فیشن کی شکل اختیارکر ر ہے  ہیں۔  ایسے  میں نیک اور معتبر انسان کی شناخت کر پانا دشوار ہوجاتا ہے۔ اس لیے  یہ ضروری ہے  کہ کسی پر اعتبار کرنے  سے  قبل اسے  ہر طرح سے  جانچا اور پرکھا جائے۔  کیوں کہ:

ہر آدمی میں ہوتے  ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

 ندا فاضلی

آدمی کو مثل سکہ دیکھئے  پہچانئے

ایک چہرہ پشت پر ہے  ایک چہرہ سامنے

 متین عمادی

ہر سماج کے  اپنے  اصول و ضوابط اوراس کی اپنی قدریں ہوتی ہیں جن سے  اس سماج کا تشخص قائم ہوتا ہے۔ ہر عہد میں شعرا اپنے  دور کے  سیاسی و سماجی نظام اور اسی کی تہذیبی قدروں کو اپنی شاعری میں جگہ دیتے  ر ہے  ہیں۔ موجودہ دور کی دیہی اور شہر ی زندگی کی قدریں بھی نئی غزل میں دیکھنے  کو ملتی ہیں ۔  دیہی سماج اور شہری سماج کی زندگیوں  میں بڑا فرق ہے۔جن میں چند بنیادی باتیں یہ ہیں کہ دیہات میں  انسان ایک دوسرے  کا غمخوار،  مددگار اور خوشی ورنج میں شریک ہوتا ہے  جبکہ شہری زندگی میں کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ دوسروں کی خبر گیری کرے  اور کسی کی غمخواری اور مددکے  لیے  خود کو آمادہ کرسکے۔دیہات کے  باشندوں میں خلوص،  ایمانداری،  خودداری،  ایثار،  محبت اور انسانیت کا جذبہ ہوتا ہے  جبکہ شہر ی زندگی گزارنے  والے  افراد کے  دل مذکورہ جذبات سے  کافی حدتک عاری ہوتے  ہیں۔  عہد حاضر میں شہری کرن بہت تیزی سے  بڑھ رہا ہے  جس سے  شہر کی تہذیب دیہات اور گائوں تک پہنچتی جارہی ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار سے  گائوں اور شہر کی کشمکش کا اندازہ ہوتاہے :

بہت ہی سادہ ہے  تو اور زمانہ ہے  عیار

خدا کرے  کہ تجھے  شہر کی ہوا نہ لگے

 ناصر کاظمی

تم ابھی شہر میں کیا نئے  آئے  ہو

رک گئے  راہ میں حادثہ دیکھ کر

 بشیر بدر

یہ کیسے  جانتا گر شہر میں آیا نہیں ہوتا

یہاں دیوار تو ہوتی ہے  مگر سایہ نہیں ہوتا

قیصر صدیقی

تمھارے  شہر میں مردے  کو سب کاندھا نہیں دیتے

ہمارے  گائوں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے  ہیں

 منور رانا

سراسر قہر ہوتی جا رہی ہے

یہ بستی شہر ہوتی جا رہی ہے

ظفر صدیقی

 نظام فطرت کی تبدیلی نے  بھی انسانی زندگی کے  لیے  کئی طرح کے  مسائل پیدا کردئے  ہیں۔  موسم کانظام دن بہ دن خراب ہوتا جا رہا ہے۔ بارش بے  وقت ہورہی ہے  یا بہت کم ہورہی ہے، دھوپ کی تمازت میں روز بہ روزاضافہ ہورہا ہے  جس سے  اکثر تالاب و ندیاں سوکھتی جارہی ہیں ،  قحط جیسے  حالات پیدا ہورہے  ہیں ،  فصلوں کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔دوسری طرف درختوں کی بے  پناہ کٹائی سے  سیلاب آرہے  ہیں ،  اس سے  بھی فصلیں برباد ہورہی ہیں۔  جو نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند کی زندگی کو بھی متاثر کررہے  ہیں۔  شعر ملاحظہ ہوں  :

اول تو دھوپ نے  کیا برباد یہ چمن

جو دھوپ سے  بچا اسے  سیلاب لے  گیا

 ظفرانصاری ظفر

ہرا شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے  دے

زمیں کے  جسم پہ کوئی لباس رہنے  دے

 سلطان اختر

المختصر یہ کہ اس مقالے  میں عصر حاضر کے  چند مسائل کی طرف اشارے  کردئے  گئے  ہیں جو اس بات پر شاہد ہیں کہ نئی غزل نے  جہاں افراد کے  داخلی مسائل کی ترجمانی کی ہے  وہیں اس کے  خارجی مسائل کو بھی پیش کرنے  کے  لیے  شجر ممنوعہ نہیں سمجھا جن سے  اس دور کا انسان ہر صبح وشام نبرآزما ہے  جو داخلی کرب کا بھی ذریعہ ہیں۔  اس طرح نئی غزل اپنے  دور کے  معاملات و مسائل کی تصویر کشی میں کامیاب نظرآتی ہے۔ لہٰذا غزل کے  اس نئے  رنگ و آہنگ کو بھی درخوراعتنا متصورکیا جانا چاہیے۔

٭٭٭

۱؎’’مضامین نو‘‘ خلیل الرحمن اعظمی،  قومی کونسل برائے  فروغ اردو زبان،  نئی دہلی،  ۲۰۰۸۔ ص:۷۸

۲؎’’لفظ و معنی‘‘ شمس الرحمن فاروقی،  ۲۰۰۹۔ ص:۱۲۱

۳؎’’لفظ و معنی‘‘ شمس الرحمن فاروقی،  ۲۰۰۹،  ص:۱۲۲

۴؎’’غزل کے  نئے  افق‘‘ رشید امجد، مشمولہ:’جدیدیت تجزیہ و تفہیم‘ مرتبہ: ڈاکٹر مظفر حنفی،  نسیم بک ڈپو،  لکھنؤ،  ۱۹۸۵ئ۔صـــ:۴۱۹

۵؎’’معاصر اردو غزل مسائل و میلانات‘‘ مرتبہ: پرفیسر قمر رئیس،  اردو اکادمی دہلی،  ۲۰۰۶۔ص:۸۷۔۸۶

٭٭٭

سلیم انور

  ریسرچ اسکالر

شعبۂ اردو،  الہ آباد یونی ورسٹی،

الہ آباد۔211002

موبائل: 9889533245

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.