کفن” کی بازگشت:آخری کوشش”

عشرت رسول

ریسرچ اسکالر، سینٹرل یونی ورسٹی آف حیدر آباد

 ای میل  ishurdu5u@gmail.com

  فون نمبر  7006929771

حیات اللہ انصاری کو ترقی پسند ی کا نہ صرف معمار نقوش تصور کیا جاتا ہے  بلکہ بعض دفعہ انہیں پریم چند کی بازگشت بھی مانا جاتاہے  جس نے  پریم چند کے  فکری نہج کو تابندگی بخشی۔حیات اللہ انصاری نے  حقیقت نگاری کا علم اٹھا کے  اپنی پوری زندگی اسی کے  سائے  تلے  صرف کی اور سماج کے  ناسوروں کی نشاندہی کرکے  انہیں دنیائے  علم و ادب کے  سامنے  پیش کیاجیسے  بھوک، افلاس، استحصال، ذات پات، سماجی بیر اورسرمایہ دارانہ استحصال وغیرہ۔

حیات اللہ انصاری نے  اپنے  ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۱۹۲۹ء میں کیا ’جب انہوں نے ’’ بڈھا سودخوار‘ ‘ لکھ کر ترقی پسندی کا مظاہرہ کیاجو جامعہ دہلی کے  جون ۱۹۳۰ء کے  شمارے  میں شائع ہوا۔زیادہ تر اچھے  اور خوب صورت افسانے  آزادی سے  قبل تحریر کئے۔آزادی کے  بعد بھی کافی لکھا اوراپنے  ہم عصروں میں کافی طویل عمر پائی۔  حیات اللہ انصاری نے  ادبی زندگی کے  ساتھ ساتھ سیاسی زندگی بھی بھر پور گزاری ہے۔پریم چند اور انگارے  کے  مصنفین سے  ترغیب پاکر ترقی پسند تحریک میں شریک ہوئے۔ حیات اللہ انصاری نے  کئی شاہکار افسانے  لکھے  جیسے  بھرے  بازار میں  ، انوکھی مصیبت، پرواز، ڈھائی سیر آٹا، کمزور پودا، شکستہ گنگورے  اور خلوص شامل ہیں۔ ان کے  علاوہ موضوع کے  تنوع کے  اعتبار سے  ’’موزوں کا کارخانہ ‘‘اور ’’بہت ہی باعزت ‘‘کو بھی ان کے  افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔حیات اللہ انصاری کی افسانہ نگاری کی خوبی ان کی حقیقت نگاری ہے  اور وہ اس اسکول میں  پریم چند کے  بعد ایک اہم مقام رکھتے  ہیں۔ پریم چند کی بازگشت اورپریم چند کی روایت کی توسیع حیات اللہ انصاری کے  افسانوں میں بھرپورملتی ہے۔ان کے  یہاں فکر کی آنچ، تخیل کی اڑان، مشاہدے  کا حاصل اور فن پر دسترس ہے  جس سے  معمولی سا واقعہ بھی افسانہ کی شکل اختیار کرتا ہے۔

’’ان کے  افسانوں میں مشاہدہ، تخیل اور فکر تینوں کی برابر جگہ ہے۔ان میں سے  صرف ایک چیز کے  سہارے  پر چلنا انہوں نے  نہیں سیکھا، کہاں مشاہدہ ہے ، وہاں تخیل بھی ہے  اور فکر بھی، ان کا کوئی افسانہ ان تینوں چیزوں کی مدد کے  بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا، اپنے  فن کے  ساتھ اس درجہ انہماک اور خلوص کی مثال ہمیں اردو کے  افسانہ نگاروں میں حیات اللہ انصاری سے  زیادہ کہیں اور نہیں ملتی‘‘۔

  (نیا افسانہ، وقار عظیم۔ص۔۱۵۶ مطبوعہ ۱۹۹۶ئ)

مشاہدہ کسی بھی فنِ لطیف کے  لئے  بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔اسی سے  کسی واقعے  کو شاہکار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔حیات اللہ انصاری نے  ہر اچھے  افسانہ نگار کی طرح مشاہدے  پر کافی زور دیا اور ان کے  افسانے  مشاہدے  کے  ساتھ ساتھ جب فکر اور تخیّل کی اڑان کے  ساتھ کہانی کا قالب اپناتے  ہیں تووہ افسانے  ہی نہیں  ، شاہکار تخلیق ہوتے  ہیں ۔ ان کی انہیں خوبیوں سے  مرصّع ان کا مشہور ناول ’’لہو کے  پھول‘‘بھی ہے۔

بات پریم چند کے  کفن کی بازگشت کی ہو رہی تھی، پریم چند نے  جس روایت کی داغ بیل ڈالی اور جسے  سدرشن، اعظم کیروی اور علی عبّاس حسینی نے  پروان چڑھایا اسے  حیات اللہ انصاری نے  فن اور مشاہدے  کی آنچ سے  مضبوط  و مستحکم کیا اور پریم چند کی حقیقت نگاری کو آگے  بڑھایا۔حیات اللہ انصاری کا مشاہدہ بہت گہرا  ہے  اور وہ معمولی سی معمولی اور چھوٹی سی چھوٹی بات کو چیر کر اس کے  باطن تک رسائی حاصل کر لیتے  ہیں اور اس کے  اندر پوشیدہ ذرّے  ذرّے  کی خبر لاتا ہے۔ پھر اس مشاہدے  کے  نچوڑ کو خیال و فکر کے  حوالے  کر دیتے  ہیں۔ تخیل اور فکر جب کسی خام مواد میں  ضم ہوجاتاہے  تو اسے  لطافت، رنگینی، گہرائی اور معنویت عطا کرتا ہے۔اس لحاظ سے  حیات اللہ انصاری کا مواد فکر اور تخیل سے  لبریز ہے۔حیات اللہ انصاری کے  جس افسانے  میں سب سے  زیادہ پریم چند کی بازگشت ملتی ہے  وہ ہے  ’’آخری کوشش‘‘۔حیات اللہ انصاری نے  بے  شمار اچھے  اور لازوال افسانے  لکھے  مگر ان میں ’آخری کوشش ‘ نے  اپنا ایک الگ مقام اور انفراد قائم کی۔ ’آخری کوشش‘نے  کافی شہرت پائی اور بہت سے  ناقدین آج بھی انہیں اسی افسانے  سے  یاد کرتے  ہیں۔

’’کفن‘‘کی بازگشت کے  طور پر اگر ہم  ’’آخری کوشش ‘‘کا مختصر جائزہ لیں تو ایک کامیاب اور شاہکار ہی  نہیں بلکہ پریم چند کے  فن اور روایت کی بھرپور جھلک ملتی ہے۔پریم چند کا ’کفن‘ جسے  ترقی پسند افسانے  کا آغاز تصور کیا جاتا ہے  ’’آخری کوشش‘‘ اس کے  زیر اثر لکھا گیا ایک کامیاب افسانہ ہے۔۔اس افسانے  میں ترقی  پسندی اور حقیقت نگاری کلائمیکس پر دکھائی دیتی ہے۔ پریم چند کا عکس اور رویہ دونوں بھر پور موجود ہیں ۔ بلکہ اگر یہ کہیں کہ ’’آخری کوشش ‘‘کئی پہلوؤں سے  کفن سے  زیادہ کامیاب ہے  تو بیجا نہ ہوگا۔گھسیٹے  کہانی کا مرکزی کردار ہے  جو کلکتے  میں پچیس سال گزارنے  کے  بعد اپنے  گاؤں واپس آیا ہے۔وہاں کلکتہ میں محنت مزدوری کے  باوجود اسے  ڈھنگ سے  پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا تھا۔وہاں کی ستم ظریفیوں سے  گھبرا کر گھسیٹے  اپنے  گاؤں واپس آتا ہے۔ پچیس برس پہلے  کی تمام یادیں راستے  بھر اس کے  ساتھ ہیں ۔ گاؤں آکر پتا چلتا ہے  کہ اس کے  بابا اب نہیں رہے۔ایک بھائی فقیرا ہے  اور ماں ایک بہن کسی کے  ساتھ بھاگ گئی دوسری کی شادی کردی گئی، ایک بھائی جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔فقیرا اور ماں بس یہ دونوں اور گھسیٹے  یہی لوگ تھے۔ ماں تو بس زندگی کے  نام پر زندہ تھی۔ حیات اللہ انصاری نے  بڑی خوبصورتی سے  بیان کیا ہے  :

’’چیتھڑوں کے  انبار میں دفن ایک انسانی پنجر پڑا تھا، جس پر مرجھائی ہوئی بد رنگ کھال ڈھیلے  کپڑوں کی طرح جھول رہی تھی۔ سر کے  بال بیمار بکری کی دم کے  نیچے  کے  بالوں کی میل کچل میں لتھڑکر نمدے  کی طرح جم گئے  تھے۔ آنکھیں دھول میں سوندی کوڑیوں کی طرح بے  رنگ، اپنے  ویران حلقوں میں ڈگر ڈگر کر رہی تھیں۔ ان کے  کوئے  کیچڑ اور آنسؤوں میں لت پت تھے۔ گال کی جگہ ایک پتلی سی کھال رہ گئی تھی، جو دانتوں کے  غائب ہونے  سے  کئی تہوں میں ہو کر جبڑوں کے  نیچے  آگئی تھی۔‘‘

ماں نہ سنتی تھی نہ بولتی تھی۔ وہ صرف کھانے  بکے  لئے  منہ سے  باب ….باب….باب کی آوازیں نکالتی تھی اور اپنا ہاتھ بار بار نوالے  کی طرح منہ تک لے  جاتی تھی۔کچھ دن تو گھسیٹے  وہاں یونہی گزارتا رہا۔ وہاں کی تنگ دستی اسے  کلکتہ کے  دن یاد دلانے  لگی۔ جہاں کم ازکم کچھ تو مل جاتا تھا۔پھرفقیر ا اور گھسیٹے  میں تو تو میں میں بھی ہونے  لگتی ہے۔ بات بٹوارے  تک پہنچ گئی۔ معاملہ پھر چلتا رہا۔۔گھسیٹے  کے  بیکار ذہن نے  گھر کی مالی حالت سدھارنے  کے  لئے  آخری کوشش کے  طور پر جو ترکیب سوچی اور اپنائی وہ اردو افسانے  میں حقیقت کی ایک تلخ مثال ہے۔ ترکیب کے  مطابق دونوں بھائی ماں کو ٹوکرے  میں لے  کر شہر لے  آئے۔ جامع مسجد کے  باہر جہاں فقیروں کا پہلے  ہی قبضہ تھا، کچھ حالات اور کچھ دماغ کا استعمال کر کے  جگہ بنائی اور پھر وہ منظر بنایا کہ نماز کے  بعد جب بڑھیا نے  منہ تک اپنا ہاتھ، مخصوص انداز سے  ….باب…..کی آواز کے  ساتھ لے  جانا شروع کیا تو نمازیوں کے  دل پسیج گئے اور روپیوں  ، پیسوں کی بارش شروع ہو گئی۔ حیات اللہ انصاری نے  اس میں  منظرکشی کو انتہا تک لے  لیا ہے۔ جہاں پریم چند نے  مادھو، گیسو اور بدھیا کے  ذریعے  سماج کی بدحالی اور لاچارگی پیش کیا وہیں گھسیٹے ، فقیرا اور انکی ماں کے  ذریعے  حیات اللہ انصاری نے  سماج کے  ناسوروں اور بیماریوں کو ایک تلخ حقیقت کے  ذریعے  بیان کیا۔

الغرض حیات اللہ انصاری نے  اپنے  فن کے  ذریعہ ہمیشہ حقیقت نگاری کو فروغ دیا اور شروع سے  ترقی پسندی کا لبادہ اوڑھے  رکھا اور اسی سے  تا دم زیست وابستہ رہے۔ اگرچہ بعض ترقی پسند ادیبوں کے  رویے  سے  وہ خوش نہیں تھے  تاہم ترقی پسند ادیبوں کے  متحدہ محاذ میں وہ ایک ارفع اور منفرد مقام رکھتے  ہیں۔

٭٭٭٭

عشرت رسول

ریسرچ اسکالر، سینٹرل یونی ورسٹی آف حیدر آباد

 ای میل  ishurdu5u@gmail.com

  فون نمبر  7006929771

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.